شفیق خلش ::::::جی کو کُچھ شہر میں بَھلا نہ لگا :::::Shafiq -Khalish

طارق شاہ

محفلین


غزل
جی کو کُچھ شہر میں بَھلا نہ لگا
جا کے احباب میں ذرا نہ لگا

درگُزر اِس سے، دِل ذرا نہ لگا
کم نہیں، اب کی کُچھ ڈرانہ لگا

کچھ اُمیدیں تھیں جس سے وابستہ !
قد سے وہ بھی ذرا بڑا نہ لگا

تھے ہم مجبوریوں سے پا بستہ
بولیے دِل کی کیا لگا نہ لگا

دِل کے رِشتوں سے جورَہا منسُوب!
میرا ہوکر وہ بارہا نہ لگا

کیا کروں ایسی دُور نظری کا
بندہ جِس سے کوئی کھرا نہ لگا

خوف لاحق تھا جاں سے جانے کا
جانے جانے میں اِک زمانہ لگا

تب خلشؔ دِل میں اِک خَلِش نہ رہی
جب وہ سینے سے والہانہ لگا

کیا مَزِید اُن سے گُفتگُو ہو خلشؔ
جب حقیقت ہی اِک فسانہ لگا

شفیق خلشؔ

 
Top