تعارف جی میں اپنے آپ کو سمجھتا ہوں ۔۔۔۔ محب اردو

سید عاطف علی

لائبریرین
آداب جناب !
’’بھلی کری آیا ‘‘ یہ کون سی زبان ہے اور مراد کیا ہے آپ کی ؟
’’ جی آیا نوں ‘‘ بھی تھوڑا بدلا بدلا لگ رہا ہے ؟
شفقت فرمائیں -
بھلی کری آیا ۔سندھی زبان میں خوش آمدید کا مترادف ہے۔۔۔۔لیکن اردو فونٹ کے محدود ہونے کی وجہ سے ایسا لکھا گیا ہے۔۔۔سندھی کے باون حروف ہوتے ہیں اور ہ نہیں ہوتا صر ف ھ ۔چھوٹی ی کے نیچے عربی کی طرح دو نقطے ہوتے ہیں۔دو چشمی ھ ملانے سے اردو میں جتنے "حروف" بلکہ اصوات بنتی ہیں وہ سب سندھی میں اکثر آزاد حروف کی شکل میں موجود ہوتے ہیں ۔ مثلا" بھ ایسی ب کی طرح جس کے نیچ ےکل چار نقطے ہوں۔سندی میں ک دراصل کھ ہوتا ہے اور کاف عربی والے کاف کی شکل کا لکھا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔یہاں اکثر لوگ پنجابی سے واقف بلکہ ماہر لگتے ہیں سندھی جاننے والے شاید بہت کم ہوں اس لئے لکھ دیا :)
sindhi_alph.gif
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ماشاء اللہ ۔ سید عاطف صاحب آداب قبول فرمائیے ۔
متشکر ہوں برادرِعزیز ۔۔۔ محب اردو ۔۔۔ بچپن سندھ میں گزرا اور کچھ طالب علمی کے زمانے کے سندھی دوستوں اور کچھ نصابی سندھی کتب کی مہربانی سے اس زبان سے سطحی نوعیت کی واقفیت ہے۔برسبیل تذکرہ یہ کلمات دیکھ کرمتعلقہ معلومات شیئر کردیں۔کہ تعلیم و تعلّم ۔کا سلسلہ نمو پائے۔
گر قبول افتد زہے عز و شرف ۔۔۔آداب اور نیک خواہشات:)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
معذرت، کہ یہاں ایک غلطی ہو گئی۔ لفظ حال کی جگہ مستقبل پڑھئے گا۔
بہت آداب۔
-----
’’قبولنا‘‘ سے ہٹ کر ہمارے پاس پہلے بھی ایسے مصادر موجود ہیں جن کا جوہر کوئی اسم (اسمِ نکرہ، اسمِ صوت وغیرہ) ہے، وقت کے ساتھ ساتھ ان کے معانی میں وسعت اور تنوع آتا گیا: مثلاً پتھر سے پتھرانا، پھول سے پھولنا یا پھولنا سے پھول، بڑبڑ سے بڑبڑانا، قوم سے قومیانا، وغیرہ۔
ایسا عربی میں بھی ہے۔ وہ عراقی ہو گیا ( محمد خلیل الرحمٰن صاحب: براہِ کرم اس کا عربی ترجمہ کر دیجئے گا )۔
-----

’’قبولنا‘‘ سے ہٹ کر ہمارے پاس پہلے بھی ایسے مصادر موجود ہیں جن کا جوہر کوئی اسم (اسمِ نکرہ، اسمِ صوت وغیرہ) ہے، وقت کے ساتھ ساتھ ان کے معانی میں وسعت اور تنوع آتا گیا: مثلاً پتھر سے پتھرانا، پھول سے پھولنا یا پھولنا سے پھول، بڑبڑ سے بڑبڑانا، قوم سے قومیانا، وغیرہ۔
ایسا عربی میں بھی ہے۔ وہ عراقی ہو گیا ( محمد خلیل الرحمٰن صاحب: براہِ کرم اس کا عربی ترجمہ کر دیجئے گا )۔
اور انگریزی میں تو بہت ہیں: nationalize, materialize, empower وغیرہ

برائے توجہ: جناب فاتح صاحب، محب علوی صاحب، محب اردو صاحب، الف عین صاحب، مزمل شیخ بسمل صاحب، قیصرانی صاحب، محمد خلیل الرحمٰنصاحب، محمد وارث صاحب، @التباس صاحب، محمد بلال اعظم صاحب؛ اور دیگر احبابِ گرامی۔
محترم رائے کی روشنی میں ایک مختصر گزارش۔
قبولنا کے لفظ کی بحث دلچسپ ہے۔۔کچھ دلچسپ مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں ۔پتھرانا ٹکرانا وغیرہ ۔۔۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہو سکتی ہے کہ مصادر میں جو لاحقہ "نا" لگا کر افعال اخذ کیے گیے ہیں وہ اکثر عربی اور فارسی الفاظ کے علاوہ دیگر زبانوں کے کلمات (مثلا" شاید ہندی وغیرہ) جیسے پتھر ٹکّر وغیرہ کی حد تک مستعمل ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
چنانچہ اردو زبان نے ایسے کلمات کو اسی صورت میں فطری طور پہ قبول کیا ہے اور اس کا ادبی و محا وراتی اسلوب بھی اسی طرح بالغ ہو چکا ہے۔۔۔۔ اس میں قبولنا کا استعمال غیر مناسب ہو گا---

لفظ قبولنا وغیرہ اگرچہ مستعمل ہے لیکن محض عامی زبان ("colloquial" یا "slang") میں مستعمل ہے اورصرف ان لوگوں سے سنا جاسکتا ہے جو یا تو اہل زبان نہیں یا ادو زبان کے محا ورے کا صحیح ادراک نہیں رکھتے یا اگر اہل زبان ہیں ایسے اشخاص سے مخاطب ہیں جو اسے رائج سمجھتے ہوں ۔۔۔(مثلا" کچھ لوگ کہتے ہیں " مجھے غلطی لگ گئی تھی " ۔جبکہ غلطی لگنا میرے خیال میں اردو کا معیاری محاورہ نہیں ہے ۔ صحیح جملہ اس طرح ہوگا " مجھے غلط فہمی ہو گئی تھی" یا مجھ سے غلطی ہو گئی تھی۔)

اور اردو کی موجودہ ارتقائی حا لت کے منافی ہوگا جو فطری طور پر عربی و فارسی کی پذیرائی اور گہری رشتے داری کے باّعث اسلوب کی پختگی کی صورت میں پہلے سے مل چکی ہے۔اور عامی ادبی اور رسمی زبان کا فرق (اختلافات کے باوجود) کافی واضح ہو گیا ہے ۔۔۔ ایسی صورت میں قبول کے ساتھ پورا مصدر " کر نا " بطور لاحقہ لگا کر ہی اردو کے فطری مزاج سے مطابق کہا جاسکے گا ۔۔۔ اور عربی وفارسی کے ایسے اکثر کلمات پر پورے لاحقی مصادر ہی لگائے جا سکتے ہیں۔۔۔۔ مثلا" ضرب کے ساتھ لگانا اور کھانا (ضربنا نہیں ہو سکتا ) حیران کرنا (حیراننا نہیں ہو سکتا) ۔پریشان ہونا ( پریشاننا نہیں ہو گا)۔نقصان اٹھا نا (نقصاننا ٹھیک نھیں ہو گا ) وغیرہ ۔۔۔۔( یہاں بھی غالبا " کچھ استثناء ہو ں گے لیکن وہ جو معیاری طور پہ رائج ہیں) ۔۔۔
قومیانا کی جہاں تک بات ہے تو اس میں یہ توجیہہ پیش کی جاسکتی ہے کہ یہ کوئی عوامی محاوراتی استعمال کا ٰ لفظ نہیں ہے بلکہ انگریزی اصطلاح نیشنلائزیشن کے رسمی ترجمے کی شکل میں وجود میں آئی ہے جو وضع اصطلاحات کے تحت مستعمل ہے۔
یہ احباب کے سامنے ایک ذاتی رائے ہے۔۔۔
 
کچھ شعراء کے ہاں ’’نئے مصادر‘‘ سننے میں آئے ضرور ہیں: لکیرنا (لکیر مارنا، خط کھینچنا، لکھنا)، قبولنا (قبول کرنا)، تقصیرنا (غلطی کرنا، غلطی پر ٹھہرانا)، تدبیرنا (تدبیر کرنا)، تنویرنا (چمکانا)؛ وغیرہ۔ یہ معاملہ کم و بیش وہی ہے کہ ’’فلاں آزاد نظم کی بحر کون سی ہے‘‘۔​

لکیرنا (لکیر مارنا، خط کھینچنا، لکھنا)، تقصیرنا (غلطی کرنا، غلطی پر ٹھہرانا)، تدبیرنا (تدبیر کرنا)، تنویرنا (چمکانا)؛ وغیرہ۔​
ایسے نوساختہ مصادر کے مشتقات میں نے دورِ حاضر کے ایک دو معروف شاعروں کے ہاں قوافی کے طور پر دیکھے ہیں۔​
اس پر اہل الرائے اور اہلِ زبان کیا فرماتے ہیں؟​
 

سید عاطف علی

لائبریرین
لکیرنا (لکیر مارنا، خط کھینچنا، لکھنا)، تقصیرنا (غلطی کرنا، غلطی پر ٹھہرانا)، تدبیرنا (تدبیر کرنا)، تنویرنا (چمکانا)؛ وغیرہ۔​
ایسے نوساختہ مصادر کے مشتقات میں نے دورِ حاضر کے ایک دو معروف شاعروں کے ہاں قوافی کے طور پر دیکھے ہیں۔​
اس پر اہل الرائے اور اہلِ زبان کیا فرماتے ہیں؟​
باوجودیکہ ایسے الفاظ معروف شعرائے کرام نے استعمال کئے ہوں ۔ایسے الفاظ و تجربات کو نو ساختہ کی بجائے بجا ہو گا کہ خود ساختہ کہا جا ئے۔:) اس سے اردو زبان کے پختہ اسلوب کو ترقی کا تاثّر ملے گا۔ اور اس قسم کا برتاؤ کو عامی لہجات کی حد سے آگے نہ بڑھ سکے گا ۔۔۔جیسا کہ انگریزی میں رسمی و ادبی سے ادنی لہجات کے مدارج بالترتیب "informal" > "colloquial" > "slang" > "vulgar" کہلاتے ہیں ، مذکورہ الفاظ قبولنا تقصیرنا وغیرہ بھی انہی درجات میں ہماری زبان میں کسی متبادل درجے سے مطابقت رکھ پائیں گے ( مثلا"ادبی ۔۔۔ رسمی ۔غیر رسمی۔۔ پارلیمانی۔۔ ۔ غیر پارلیمانی۔۔۔عامیانہ۔۔۔ وغیرہ ) ۔۔۔۔۔اور اردو کا ادبی و رسمی اسلوب اتنا پختہ ہو چکا ہے کہ میری ذاتی رائے میں انہیں ہر گز نہ " قبولے" گا ;) ۔ خواہ ان کا برتاؤ کسی بھی طرح روا رکھا جائے۔کیونکہ یہ اس باوقاراور رواں اسلوب میں ہائی وے کے سپیڈ بریکر کی نا ہمواری کی طرح چبھن کا سبب بنتا ہے۔میرے خیال اہل زبان اسے واضح طور پر محسوس کر تے ہوں گے۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
محترم فاتح بھائی !میں تو کسی بھی لفظ کی صحت و عدم صحت پر کسی کتاب کا حوالہ نہیں دے سکتا۔ اسی لیےتو آپ سے التماس کی تھی کیا تھاکہ کسی کتاب کی طرف رہنمائی کردیں جس میں اس طرح کی مباحث موجود ہوں ۔ مثلا فعل ماضی ، مضارع ، امر وغیرہ کی صیاغت کے قواعد ۔ تاکہ ہم بھی کوئی کوٹے کھرے کھرے کھوٹے میں پہنچان کی تمیز کرنے کے قابل ہو جائیں ۔
ہر جگہ آپ جیسے علماء وفضلاء کا میسر ہونا کوئی ضروری بات تو نہیں ۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
میرے اپنے مشاہدے کی بات ہے کہ انگریزی کی متعدد ڈکشنریوں میں آخری کچھ اوراق نئے الفاظ کے ہوا کرتے تھے، ہو سکتا ہے آج کل بھی ہوں۔ اس حصے کو addenda (مجموعات ضمیمہ) کہا جاتا تھا۔ کسی بعد والے ایڈیشن میں یہ مجموعات ضمیمے ڈکشنری کا حصہ بن جاتے اور addenda میں کچھ اور الفاظ آ جاتے۔ عربی کے ایک دو لغاتوں لغات میں بھی ایسا دیکھا ہے۔
زندہ زبانوں میں نئے الفاظ کا داخلہ ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا۔ روایت کی اہمیت اپنی جگہ بدستور ہے اس سے اِنکار ممکن نہیں، تاہم روایت کو جمود نہیں بننا چاہئے۔ پر جمود طاری نہیں ہونا چاہیے۔جو الفاظ، محاورے اپنی پوری توانائی اور رچاؤ کے ساتھ زبان میں شامل ہوتے ہیں اُن کو ہونے دیجئے۔ زبردستی کا پیوند البتہ ٹھیک نہیں، کہ وہ رچاؤ سے محروم ہوا کرتا ہے۔

برائے توجہ: جناب فاتح صاحب، محب علوی صاحب، محب اردو صاحب، الف عین صاحب، مزمل شیخ بسمل صاحب، قیصرانی صاحب، محمد خلیل الرحمٰنصاحب، محمد وارث صاحب، @التباس صاحب، محمد بلال اعظم صاحب؛ اور دیگر احبابِ گرامی۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
لکیرنا (لکیر مارنا، خط کھینچنا، لکھنا)، تقصیرنا (غلطی کرنا، غلطی پر ٹھہرانا)، تدبیرنا (تدبیر کرنا)، تنویرنا (چمکانا)؛ وغیرہ۔
ایسے نوساختہ مصادر کے مشتقات میں نے دورِ حاضر کے ایک دو معروف شاعروں کے ہاں قوافی کے طور پر دیکھے ہیں۔
اس پر اہل الرائے اور اہلِ زبان کیا فرماتے ہیں؟
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ اس قسم کے مصادر مزاحیہ ادب میں عام طور پر مستعمل ہیں۔
:AOA:!کیا خوب ادا ہے آپ کی!
آپ ہی سوال کرتے ہیں۔
آپ ہی جواب دیتے ہیں۔
مزاحیہ ادب میں مزاح نگار خواہ شاعر ہو یا نثر نگار، وہ تو اپنی تحریر میں مزاح کا عنصر پیدا کرنے کے لیے ہی بسا اوقات لفظوں کی وضع قطع بدل دیتے ہیں۔
لہذا ان کے یہاں کسی ترکیب نو کا استعمال معیار کیسے قرار پا سکتا ہے؟دوسرے یہ کہ زبان کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے۔ جن لفظی تراکیب کا صوتی تموج اہل زبان
کی سماعت پر گراں بار ہو وہ زبان کا حصہ نہیں بن سکتے۔ البتہ جو الفاظ کثرتِ استعمال سے یا عوام کی خراد پر چڑھ کر اپنی شکل و صورت، اپنی وضع قطع کچھ اَیسی بنا لیں کہ اہل زبان کی سماعت پر گراں بار نہ ہوں یا اہل زبان کے کان ان کے عادی بن جائیں اور اُنہیں غیر زبان کا لفظ جاننے کے بجائے اپنی زبان کا لفظ سمجھنے لگیں ایسے الفاظ یقیناً زبان میں شیرو شکر ہوتے رہے ہیں۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
جہاں تک بات ہے ’’قبولنا‘‘ کی۔ یہ پنجابی لفظیات میں معروف ہے:
’’اوہدے قبولن، نہ قبولن دی کیہڑی گل اے یار، اُس نے پرھیا وچ ایہ قبولیا سی، (یا ایہ گل قبولی سی)، پھر مکر گیا‘‘
ترجمہ: اس کے قبول کرنے یا نہ کرنے کی کیا بات (کرتے ہو) یار، اس نے پنجائت میں یہ قبول کیا تھا (یا یہ بات قبول کی تھی) پھر مکر گیا۔
ہماری مقامی اور علاقائی زبانوں کے اسماء و افعال اور مصادر اگر اردو کے مزاج کے قریب ہیں اور اس میں نفوذ کر جاتے ہیں تو میں اس میں کوئی ہرج نہیں سمجھتا۔
اگر ’’قبولنا‘‘ کو اردو مصادر میں قبول کر لیا جائے تو اس سے اردو طریقے کے مطابق یہ صیغے نکلتے ہیں:
مصدر (لازم و متعدی): قبولنا ۔۔۔ ماضی: قبولا، قبولی، قبولے، قبولِیں۔ حال: قبولے گا، قبولیں گے، قبولوں گا۔ امر: قبول، قبولو، قبولیے۔
مصدر (متعدی المتعدی): قبولوانا۔
برائے توجہ: جناب فاتح صاحب، محب علوی صاحب، محب اردو صاحب، الف عین صاحب، مزمل شیخ بسمل صاحب، قیصرانی صاحب، محمد خلیل الرحمٰنصاحب، محمد وارث صاحب، @التباس صاحب، محمد بلال اعظم صاحب؛ اور دیگر احبابِ گرامی۔
"قبول" سے ہمارے یہاں اردو میں پہلے ہی افعال مرکبہ ترکیب پا چکے ہیں۔ جیسے: قبول ہونا، قبول کرنا
اس لیے اب "قبول" سے قبولنا بنانے کی یا اسے قبول کرنے کی قطعی ضرورت نہیں، دیگر اہل زبان نے قبولنا کو نہ کبھی استعمال کیا نہ قبول کیا۔
 
Top