تعارف جی میں اپنے آپ کو سمجھتا ہوں ۔۔۔۔ محب اردو

میرے اپنے مشاہدے کی بات ہے کہ انگریزی کی متعدد ڈکشنریوں میں آخری کچھ اوراق نئے الفاظ کے ہوا کرتے تھے، ہو سکتا ہے آج کل بھی ہوں۔ اس حصے کو addenda (مجموعات) کہا جاتا تھا۔ کسی بعد والے ایڈیشن میں یہ مجموعات ڈکشنری کا حصہ بن جاتے اور addenda میں کچھ اور الفاظ آ جاتے۔ عربی کے ایک دو لغاتوں میں بھی ایسا دیکھا ہے۔
زندہ زبانوں میں نئے الفاظ کا داخلہ ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا۔ روایت کی اہمیت اپنی جگہ بدستور ہے اس سے انکار ممکن نہیں، تاہم روایت کو جمود نہیں بننا چاہئے۔ جو الفاظ، محاورے اپنی پوری توانائی اور رچاؤ کے ساتھ زبان میں شامل ہوتے ہیں اُن کو ہونے دیجئے۔ زبردستی کا پیوند البتہ ٹھیک نہیں، کہ وہ رچاؤ سے محروم ہوا کرتا ہے۔

برائے توجہ: جناب فاتح صاحب، محب علوی صاحب، محب اردو صاحب، الف عین صاحب، مزمل شیخ بسمل صاحب، قیصرانی صاحب، محمد خلیل الرحمٰنصاحب، محمد وارث صاحب، @التباس صاحب، محمد بلال اعظم صاحب؛ اور دیگر احبابِ گرامی۔
 
جناب محمدعلم اللہ اصلاحی اور جناب الف عین سے مختلف معاملات پر ہونے والی بات چیت میں مَیں نے محسوس کیا کہ بھارت اور پاکستان کی اردو میں لفظیات کا تھوڑا تھوڑا فرق بھی ہے اور محاوروں کی صورتیں بھی کسی قدر متنوع ہیں۔ یہ کچھ ویسی ہی صورت بن رہی ہے جیسی کبھی دلی اور لکھنؤ کی اردو میں تھی، اور جو امریکن اور برٹش انگلش میں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب

برائے توجہ: جناب فاتح صاحب، محب علوی صاحب، محب اردو صاحب، الف عین صاحب، مزمل شیخ بسمل صاحب، قیصرانی صاحب، محمد خلیل الرحمٰنصاحب، محمد وارث صاحب، @التباس صاحب، محمد بلال اعظم صاحب؛ اور دیگر احبابِ گرامی۔
 
’’قبولنا‘‘ سے ہٹ کر ہمارے پاس پہلے بھی ایسے مصادر موجود ہیں جن کا جوہر کوئی اسم (اسمِ نکرہ، اسمِ صوت وغیرہ) ہے، وقت کے ساتھ ساتھ ان کے معانی میں وسعت اور تنوع آتا گیا: مثلاً پتھر سے پتھرانا، پھول سے پھولنا یا پھولنا سے پھول، بڑبڑ سے بڑبڑانا، قوم سے قومیانا، وغیرہ۔
ایسا عربی میں بھی ہے۔ وہ عراقی ہو گیا ( محمد خلیل الرحمٰن صاحب: براہِ کرم اس کا عربی ترجمہ کر دیجئے گا )۔
اور انگریزی میں تو بہت ہیں: nationalize, materialize, empower وغیرہ

برائے توجہ: جناب فاتح صاحب، محب علوی صاحب، محب اردو صاحب، الف عین صاحب، مزمل شیخ بسمل صاحب، قیصرانی صاحب، محمد خلیل الرحمٰنصاحب، محمد وارث صاحب، @التباس صاحب، محمد بلال اعظم صاحب؛ اور دیگر احبابِ گرامی۔
 
’’قبولنا‘‘ سے ہٹ کر ہمارے پاس پہلے بھی ایسے مصادر موجود ہیں جن کا جوہر کوئی اسم (اسمِ نکرہ، اسمِ صوت وغیرہ) ہے، وقت کے ساتھ ساتھ ان کے معانی میں وسعت اور تنوع آتا گیا: مثلاً پتھر سے پتھرانا، پھول سے پھولنا یا پھولنا سے پھول، بڑبڑ سے بڑبڑانا، قوم سے قومیانا، وغیرہ۔
ایسا عربی میں بھی ہے۔ وہ عراقی ہو گیا ( محمد خلیل الرحمٰن صاحب: براہِ کرم اس کا عربی ترجمہ کر دیجئے گا )۔
اِعتَرَقَ وہ عراق میں گیا۔ (مصباح اللغات)
غالبا مورّد اور مفرّس وغیرہ بھی اسی قبیل سے ہیں۔
 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ !
اردو سے محبت میرا دعوی بھی ہے ۔ حسرت بھی ہے اور خواہش بھی ہے ۔
شروع سے ہی زیادہ تعلق علوم دینیہ سے رہا ہے اور تاحال دیار حبیب صلی اللہ علیہ وسلم میں طالب علم کی حیثیت سے ایام زندگی گزر رہے ہیں ۔ الحمد للہ
اردو زبان سیکھنے کی غرض سے تقریبا ایک ڈیڑھ سال سے اردو محفل میں خاموش قاری کی حیثیت سے حاضری ہوتی رہی ہے لیکن باقاعدہ داخلہ لینے کی سعادت آج حاصل کر رہا ہوں ۔
نامور شعراء ، ادباء کی حالات زندگی پڑھنا اور اردو قواعد و ضوابط کا کھوج لگانا میرا پسندیدہ مشغلہ ہے البتہ یاد کچھ بھی نہیں رہتا بس کبھی حافظہ ترو تازہ ہو تو حضرت داغ کی نصیحت دوہرانے لگتا ہوں :
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زبان آتے آتے
ارادہ تو یہی ہے کہ اکثر اوقات اپنی اوقات میں ہی رہوں گا لیکن اگر کبھی جسارت ہوگئی تو احباب درگزر فرمائیں گے ۔
گزارش : فورم کی دنیا سے بالعموم اور اردو محفل فورم سے بالخصوص زیادہ واقفیت نہیں ہے امید ہے اگر کہیں بے قاعدگی ہوئی تو ناصحین اچھا تعامل فرمائیں گے ۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
خوش آمدید اے اردو سے محبت کے مدعی ، حاسر اور خواہاں!
واقعی ایک محب اردو کا تعارفی دھاگا ایسا ہی ہونا چاہیے جیسا اسے پایا ہے۔:)
 

الف عین

لائبریرین
قبولنا‘ یہاں کے اردو دانوں سے تو نہیں سنا، البتہ ہندی والوں سے سنا ہے، اور اس قسم کے ’الفاظوں‘ سے ہم سمجھ جاتے ہیں کہ یہ ہندی بولنے والا ہے۔ الفاظوں اور جذباتوں قسم کے الفاظ بھی اسی قبیل کے ہیں۔اور ہم سمجھ جاتے ہیں کہ یہ اب آپ کا ’مجاز‘ پوچھے گا یا پھر آپ سے ’ازازت‘، ‘اجاجت‘ یا ’ازاجت‘ طلب کرے گا!!
محب اردو کی ان باتوں سے یہی ثبوت ملتا ہے کہ اردو سے محبت ان کا زبانی دعویٰ ہی نہیں ہے۔
 

محب اردو

محفلین
استاد محترم الف عین اور @محمد اسامہ سرسری صاحب کی محبت و شفقت کے لیے شکر گزار ہیں ۔
لگتا ہے اب سیکھنے کے مواقع آہستہ آہستہ میسر ہونے لگے ہیں ۔ الحمد للہ ۔
 
معذرت، کہ یہاں ایک غلطی ہو گئی۔ لفظ حال کی جگہ مستقبل پڑھئے گا۔
اگر ’’قبولنا‘‘ کو اردو مصادر میں قبول کر لیا جائے تو اس سے اردو طریقے کے مطابق یہ صیغے نکلتے ہیں:​
مصدر (لازم و متعدی): قبولنا ۔۔۔ ماضی: قبولا، قبولی، قبولے، قبولِیں۔ حال: قبولے گا، قبولیں گے، قبولوں گا۔ امر: قبول، قبولو، قبولیے۔​
مصدر (متعدی المتعدی): قبولوانا۔​


بہت آداب۔
 
Top