جواب آئے نہ آئے سوال اٹھا تو سہی

الف نظامی

لائبریرین
یہ عطا کا دعوی مذہبی لوگوں کا ہے سو اس کا بارِ ثبوت بھی مذہبی لوگوں پر ہے کہ وہ اسے تحقیق سے ثابت کریں کہ خیال عطا ہےوگرنہ کہنے سے کوئی چیز ہو نہیں جاتی۔
چلیے اس دعوی کا برعکس ثابت کر دیجیے۔
 
ابتدا میں کوئی نہ کوئی محرک تو درکار ہوتا ہے جو مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے ذہن کو تحریک دے۔ پھر لرننگز اور سکلز کی بنیاد پر ربط تلاش کرنا ہوتا ہے۔ ایک پریپیرڈ مائنڈ کا خاصہ مقداری اور معیاری ریزننگ (Reasoning) ہے۔ اسکے بغیر عدم اور وجود ، ہونی اور انہونی کے بیچ کوئی تعلق استوار نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک مائنڈ، ویل انفارمڈ نہیں ہو گا، کائناتی نظام میں چھپے مخفی سگنلز کو رسیو کرنے کا اہل نہیں ہو سکتا۔ پھر دھیان ، وجدان، ارتکاز، مستقل مزاجی کا بہت اہم کردار ہے۔ امکانات اور کوشش میں چونکہ راست تناسب ہے۔ لہذا ایک تیار ذہن متعلقہ فیلڈ میں مرتکز ہو کر جتنی جدوجہد کرے گا، ممکنات کا گراف اتنا ہی بلند ہوگا۔
کچھ شخصیات کا کسی خاص ہائیر فریکوئنسی پر ہونا یا کائنات میں کچھ خاص فریکوئنسیز کو رسیو کر پانا اکثر سننے میں آتا ہے۔ مزید برآں کسی دوسرے انسان سے ہم آہنگی کو بھی بعض اوقات فریکوئنسی میچ ہونے سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ کیا یہ محض ایک تشبیہہ ہی ہے یا ہم سب ایک طرح کے ٹیوننگ فورک ہیں؟ اور یہ پراسیس کس طرح کام کرتا ہے؟
 
یہ ہی اتنا زیادہ سلیبس ہے کہ اس کو سیکھنے اور پھر سیکھ کر عمل کرتے کرتے زندگی مکمل ہو جاتی ہے۔

مجھے چاہیے کہ خلق خدا کے حق میں پہلے بے ضرر بنوں اور پھر مفید ہونے کی کوشش کرتا رہوں۔

طریقت بجز خدمت خلق نیست
اگر یہ سلیبس کافی ہے توکیا وجہ ہے کہ عمومی طور پر مسلمان اس کے اندر بعد میں آنے والے سلیبس اور شخصیات کے وضع کیے گئے اصول و ضوابط کو جمع کرنا اور" اسلام کے نام" پر اس کا پرچار کرنا شروع کر دیتے ہیں؟
 
تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ فلسفہ خود بھی self-correcting رہا ہے
آپ کے دیے گئے جواب میں متعدد پہلو فکر انگیز تھے تاہم اسے پڑھتے ہوئے ایک اور نکتہ جس پر سوال اٹھایا جا سکے وہ یہ تھا کہ ایک جگہ پڑھا تھا کہ جس طرح جسم میں uncontrolled growth سرطان بن جاتی ہے ایسے ہی ہمارے اندر ایک خاص معقول نکتے پر پہنچ کر بھی اس سے آگے بڑھتے رہنے کی خواہش (خاص طور پر سیلف گروتھ کے بیک گراونڈ میں یہ بات تھی) سرطان ہی ہے۔ مجھے ان سے زیادہ اتفاق تو نہیں تھا لیکن جب فلسفے کو یا کئی اور فیلڈز کو دیکھتی ہوں تو مجھے ذاتی طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں pioneers سے زیادہ relate کر پاتی ہوں اور اس کے بعد بس اسے بڑھاتے رہنے میں لوگ کسی حد تک back and forth جاتے رہتے ہیں لیکن بہت کم وہ لیول اچیو ہو پاتا ہے جو جد امجد کے قبیل کا ہوا کرتا تھا۔ اگرچہ self-correcting ہونا بھی ضروری ہے مگر ہمیشہ کوریکشن یونیورسل کب ہوا کرتی ہے؟ بہت دفعہ یہ اس انسان کا سیلف ایکسپریشن ہی ہوتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ کسی نے ایک عظیم کانسیپٹ دے دیا، بعد میں کئی نقاد آئے جو خود کو اس سے کہیں آگے سمجھتے تھے مگر دنیا کو اور اس کانسیپٹ کو ان نقادوں کی خود کے لیے سوچی گئی عظمت یا بڑی تعداد سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔آپ کی اس موضوع پر کیا رائے ہے؟ کیا کسی فیلڈ کے لوگ ہمیشہ اسے بڑھاتے رہنے میں بعض اوقات پہلے سے بھی زیادہ خرابی پیدا کرنا نہیں شروع کر دیتے بالکل سرطان کی طرح؟ یا یہ بھی پراسیس کا حصہ ہے اور دنیا میں ایسا ہوتا رہنا ضروری ہے؟
 
آخری تدوین:
کیا کوئی ایسا لٹریچر موجود ہے جہاں لکھی ہوئی شکل میں کچھ ایسی ویلیوز کا احاطہ ہو جو یونیورسل ہیں؟ یا ویلیو سسٹم پہ ہمیشہ کلچر اور دیگر dividing factors کی چھاپ رہی ہے؟

The- Gendered -Brain -by -Gina -Rippon
"Delusions -of -Gender- by -Cordelia -Fine
Gender -Trouble- by- Judith- Butler
Woman- Culture & Society- Edited -by -Michelle- Zimbalist -Rosaldo & Louise- Lamphere
Brainstorm: The -Power- and- Purpose -of- the -Teenage -Brain-by -Daniel J. Siegel
The -Blank -Slate- by -Steven- Pinker
اگر اردو میں پڑھنی ہے تو ایک دو کتابیں پڑھیں ہوئی ہیں ۔ اگر آپ دونوں چاہیں تو اس کا بھی نام دے سکتا ہوں ۔ نیز اگر ان کتابوں موضوعات کے بارے میں جانکاری چایئے تو مختصر لکھ سکتا ہوں ۔
کیا ان کتابوں کا سبجیکٹ مندرجہ بالا سوال سے ملتا جلتا ہے؟ زبان کی قید نہیں، انگریزی، اردو ، عربی سب چلیں گے اگر موضوعات اس حوالے سے دلچسپ ہوں۔
 
سائیکالوجی اور نیوروسائنس کی تحقیق کے مطابق انسان خواب میں جو چہرے دیکھتا ہے، وہ زیادہ تر وہی ہوتے ہیں جنہیں وہ شعوری یا لاشعوری طور پر جاگتے ہوئے دیکھ چکا ہوتا ہے ۔ خواہ وہ چہرہ کسی قریبی فرد کا ہو یا کسی اجنبی کا جسے صرف ایک لمحے کے لیے حتٰی کہ کسی بھیڑ میں بھی دیکھا ہو۔ہمارے دماغ میں ایک مخصوص حصہ Fusiform -Area -(FFA) چہروں کی شناخت اور یادداشت سے متعلق ہوتا ہے، اور وہ بڑی تعداد میں نقوش محفوظ رکھ سکتا ہے۔البتہ، یہ بھی حقیقت ہے کہ خوابوں میں ہمارا دماغ بعض اوقات مختلف چہروں کے اجزاء یا ساخت کو ملا کر ایک نیا، اجنبی سا چہرہ تخلیق کر سکتا ہے۔یوں لگتا ہے جیسے وہ چہرہ بالکل نیا ہے، مگر دراصل وہ ہماری بصری یادداشت (visual memory) کے مختلف عناصر کا مجموعہ ہوتا ہے۔
اگر کوئی یہ محسوس کرے کہ اس نے خواب میں "بالکل نیا" چہرہ دیکھا، تو غالب امکان یہ ہے کہ وہ چہرہ دماغ کی تخلیقی عمل (creative synthesis) کا نتیجہ ہو ۔ نہ کہ مکمل طور پر نا شناسا۔یہ انسانی ذہن کی تخلیقی طاقت ہے کہ وہ جانے پہچانے اجزاء کو بھی کچھ اس طور جوڑ سکتا ہے کہ وہ بالکل نیا محسوس ہو۔اگر مذید تحقیق کرنی ہے تو میں دو تین کتابوں کے نام دے سکتا ہوں ۔ جو اس سوال سے منسلک ہیں ۔
سکول کے زمانے میں مجھے ایک بار شدت سے لگا کہ میں نے ایک نبی کو خواب میں دیکھا ہے۔ جن کے والد ان کی جدائی میں نابینا ہوگئے تھے۔ کسی حد تک وہ چہرہ ابھی ذہن میں ہے مگر اب سوچتی ہوں کہ شاید وہ بھی دماغ کی تخلیق ہوگی کیونکہ میں ان کے قصے کے متعلق بہت زیادہ سوچتی ہوں گی؟ اب مفکرین و محققین یہی کہتے ہیں کہ خواب میں مکمل طور پر نئے چہرے آشکار نہیں ہوتے!
 
اگرچہ سائیکالوجسٹ کی یہ بات بالکل درست ہے، لیکن یہ بنیاد مذہب سے زیادہ حقیقت پہ مبنی ہونی چاہئے۔ دوم یہ کہ اگزسٹینشل کرائسز کوئی بری چیز نہیں ہے، یہ انسان کو اس کی حقیقت سے آگاہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔یہ الوژنز کی اس دیوار کو توڑتا ہے جو انسان نے اپنے گرد خود سے تخلیق کی ہوتی ہے، جیسے ہی یہ دیوار ٹوٹتی ہے تو انسان خود کو گھپ اندھیرے میں کھڑا پاتا ہے جیسے روشنی کی ساری کرنیں ایک دم سے ختم ہو گئی ہوں لیکن یہںیں سے اس کی حقیقت کا سفر شروع ہوتا ہے کہ وہ کیا ہے، اس کی جسمانی، شعوری حقیقت کیا ہےاور پھر یہیں سے اسے اپنے ذات کا چھوٹا پن اور اس کے مقابل کائنات کی بے حسی کا علم ہوتا ہے۔ ایک لمبے عرصے پہ محیط خیالات کا سحر ٹوٹنے کے صدمے کو بھرنے میں ایک عرصہ تو درکار ہے لیکن یہ عرصہ رائیگاں نہیں جاتا
اس کرائسز کا ڈائریکٹ ربط بقا سے ہے، شعوری بقا کی بنیاد احساسِ کاملیت پر ہے، جس میں اہم کردار تیقن کا ہے جو انسان کی بقائی انسیکیورٹی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر ایک شخص کو ایک لمبے عرصے بعد پتا چلے کہ اسے جو کچھ بتایا جاتا رہا ہے یا جن پہ وہ صدق دل سے یقین رکھتا رہا ہے، وہ حقیقت نہیں ہے یا وہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوا جس کا وہ خواہاں تھا تو اس کے کرائسز میں جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کیونکہ اس شخص کے پھر اپنے ہر خیال، ہر کام پہ سوال اٹھانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور یہ عین فطری ہے۔اس لیے دھوکہ ہر شخص کے نزدیک ایک برا عمل ہے اگر وہ اس کا وکٹم ہے کیونکہ یہ انسانی تیقن کے کھوکھلے پن کا مظہر ہے جو احساسِ کاملیت کے بیرئر میں پن ہول کر دیتا ہے۔
سب سے پہلے مجھے تقریبا ہمیشہ سے ہی علم ، حقیقت، انسانوں اور ایسی بہت سی چیزوں کی کیٹگرائزیشن سے ہی کافی اختلاف رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ کیٹگرائزیشن نہیں ہونی چاہئیے یا نہیں ہو سکتی۔ یہ اپنی آسانی کے لیے انسانوں نے شروع کی تھی اور ہمیشہ بارڈر لائن کیسز بھی موجود رہے تھے جو مختلف کیٹگریز میں ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے زیادہ ملتے جلتے تھے اور پھر ان کیٹگریز میں بھی بہت کچھ تھا جو آپس میں کامن تھا فقط چند چیزوں کی بنیاد پر انہیں الگ الگ رکھا گیا تھا تاکہ ڈفرینشئیٹنگ خصوصیات یاد رہیں۔ لیکن آج کا انسان جب کسی ایک کیٹگری کی بات کرتا ہے تو اکثر اس بات کا لہجہ ایسے ہوتا ہے جیسے وہ کوئی اور ہی شے ہے اور دوسری شے سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں۔ اب شروع کے جملے میں مذہب اور حقیقت کا انٹرسیکشن گویا ممکن ہو ہی نہیں سکتا؟

اس کے بعد بات کرتے ہیں ایگزسٹینشئیل کرائسز کی۔ یہ برا بالکل نہیں ہے،میں اس میں اتنا عرصہ رہی ہوں کہ اس کے درودیوار کے پیٹرنز اور مہک تک یاد ہیں اور اس دوران یقینا کسی بھی چیز کی سینس نہیں بن رہی ہوتی چاہے وہ حقیقی ہو یا غیر حقیقی۔ دنیا میں سبھی لوگ نہیں ہوتے کہ جن کو جو بتایا جا رہا ہے وہ اسی کو سچ سمجھ کر کسی جگہ پہنچے ہوتے ہیں، کچھ بظاہر بڑی سے بڑی نظر آنے والی شخصیات اور آسمان کو چھو لینے والی باتوں کو بھی ہر لمحہ کوئسچن کرتے رہتے ہیں۔ سو کوئی انسان جہاں ہے وہ کسی اور راستے سے بھی اس حقیقت تک پہنچ سکتا ہے اور اگر فلسفے کی زبان میں بات کروں تو غالبا Plotinus وہ فلسفی تھا جس نے کہا تھا کہ انسان اپنی اندرونی دنیا پہ غور و فکر کر کے بیرونی دنیا کو سمجھ پاتا ہے۔ گوتم بدھ بھی ایسا ہی کچھ کہتا تھا اور اقبال کا وہ مصرع بھی اس حوالے سے قابل تحسین ہے " اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی" ۔
کرائسز کو ہم شاعری،نثر، پینٹنگز یا اور ان جیسے آرٹ ورکس میں جیسا بھی خوب صورت بنا کر پیش کریں مگر کرائسز رہتا کرائسز ہی ہے۔ جیسے جنگ کے بارے میں سب فلسفے اپنی جگہ مگر یہ چار روزوشب کیسے تھے بارڈر کے قریب رہنے والے سب سے اچھی طرح جانتے ہیں اور جیسے کہ جب صحت خراب ہوتی ہے تو یوں لگتا ہے کہ صحت ہی سب کچھ ہے اور یہ مسئلہ حل ہو جائے تو اور کوئی مسئلہ جیسے ہے ہی نہیں۔ مینٹل ہیلتھ بھی ایسے ہی ہے اور میں نے جتنا وقت اس گڑھے میں گزارا ہے میں اس پر ہمیشہ اوپنلی بات کرتی ہوں تاکہ اس کو taboo بنانا بند کر دیا جائے یا کم از کم میں ہمیشہ دوسرے انسانوں کے لیے مینٹل النیس میں کمی کی وجہ بن پاوں زیادتی کی نہیں۔

لاسٹ بٹ نوٹ دا لیسٹ، آپ جانتے ہیں کہ سائنس میں بھی ایسا ہوا کرتا ہے کہ ہم ایک ٹیسٹ فیکٹر کو ایک وقت میں بدلتے ہیں اور باقی سب کچھ کانسٹنٹ رکھتے ہیں۔ اگر سب کچھ ایک وقت میں بدل رہا ہو تو ہم بہتر طور پر سٹڈی نہیں کر پاتے۔ فلسفے میں بھی اساتذہ کا ایک خاص ٹیسٹ فیکٹر ہوا کرتا تھا جس پر کسی استاد کی زندگی کا کام ہوتا تھا اور وہ باقی ہر چیز کو کوئسچن نہیں کر رہا ہوتا تھا، تبھی وہ اس فیکٹر سے متعلق کسی نتیجے پر پہنچ پاتا تھا۔ ایسے زندگی میں کسی مقام پر ایک بار سب کچھ کوئسچن کرنے کے بعد،کوئی قدم جمانے کی جگہ اور اپنی مینٹل ہیلتھ کو ترجیح دینی چاہئیے میرے نزدیک۔ ہم سب چیزوں کو مختلف جگہوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور بعض اوقات ہم سب کے ٹیسٹ فیکٹرز بھی اور اور ہوتے ہیں اور یہ اس کی افادیت اور اس کا حسن اس لیول کا ہے جس پر برنارڈ شا نے کہا تھا کہ:
Both optimists and pessimists contribute to society. The optimist invents the aeroplane, the pessimist the parachute.
 

یاز

محفلین
سب سے پہلے مجھے تقریبا ہمیشہ سے ہی علم ، حقیقت، انسانوں اور ایسی بہت سی چیزوں کی کیٹگرائزیشن سے ہی کافی اختلاف رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ کیٹگرائزیشن نہیں ہونی چاہئیے یا نہیں ہو سکتی۔ یہ اپنی آسانی کے لیے انسانوں نے شروع کی تھی اور ہمیشہ بارڈر لائن کیسز بھی موجود رہے تھے جو مختلف کیٹگریز میں ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے زیادہ ملتے جلتے تھے اور پھر ان کیٹگریز میں بھی بہت کچھ تھا جو آپس میں کامن تھا فقط چند چیزوں کی بنیاد پر انہیں الگ الگ رکھا گیا تھا تاکہ ڈفرینشئیٹنگ خصوصیات یاد رہیں۔ لیکن آج کا انسان جب کسی ایک کیٹگری کی بات کرتا ہے تو اکثر اس بات کا لہجہ ایسے ہوتا ہے جیسے وہ کوئی اور ہی شے ہے اور دوسری شے سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں۔ اب شروع کے جملے میں مذہب اور حقیقت کا انٹرسیکشن گویا ممکن ہو ہی نہیں سکتا؟

اس کے بعد بات کرتے ہیں ایگزسٹینشئیل کرائسز کی۔ یہ برا بالکل نہیں ہے،میں اس میں اتنا عرصہ رہی ہوں کہ اس کے درودیوار کے پیٹرنز اور مہک تک یاد ہیں اور اس دوران یقینا کسی بھی چیز کی سینس نہیں بن رہی ہوتی چاہے وہ حقیقی ہو یا غیر حقیقی۔ دنیا میں سبھی لوگ نہیں ہوتے کہ جن کو جو بتایا جا رہا ہے وہ اسی کو سچ سمجھ کر کسی جگہ پہنچے ہوتے ہیں، کچھ بظاہر بڑی سے بڑی نظر آنے والی شخصیات اور آسمان کو چھو لینے والی باتوں کو بھی ہر لمحہ کوئسچن کرتے رہتے ہیں۔ سو کوئی انسان جہاں ہے وہ کسی اور راستے سے بھی اس حقیقت تک پہنچ سکتا ہے اور اگر فلسفے کی زبان میں بات کروں تو غالبا Plotinus وہ فلسفی تھا جس نے کہا تھا کہ انسان اپنی اندرونی دنیا پہ غور و فکر کر کے بیرونی دنیا کو سمجھ پاتا ہے۔ گوتم بدھ بھی ایسا ہی کچھ کہتا تھا اور اقبال کا وہ مصرع بھی اس حوالے سے قابل تحسین ہے " اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی" ۔
کرائسز کو ہم شاعری،نثر، پینٹنگز یا اور ان جیسے آرٹ ورکس میں جیسا بھی خوب صورت بنا کر پیش کریں مگر کرائسز رہتا کرائسز ہی ہے۔ جیسے جنگ کے بارے میں سب فلسفے اپنی جگہ مگر یہ چار روزوشب کیسے تھے بارڈر کے قریب رہنے والے سب سے اچھی طرح جانتے ہیں اور جیسے کہ جب صحت خراب ہوتی ہے تو یوں لگتا ہے کہ صحت ہی سب کچھ ہے اور یہ مسئلہ حل ہو جائے تو اور کوئی مسئلہ جیسے ہے ہی نہیں۔ مینٹل ہیلتھ بھی ایسے ہی ہے اور میں نے جتنا وقت اس گڑھے میں گزارا ہے میں اس پر ہمیشہ اوپنلی بات کرتی ہوں تاکہ اس کو taboo بنانا بند کر دیا جائے یا کم از کم میں ہمیشہ دوسرے انسانوں کے لیے مینٹل النیس میں کمی کی وجہ بن پاوں زیادتی کی نہیں۔

لاسٹ بٹ نوٹ دا لیسٹ، آپ جانتے ہیں کہ سائنس میں بھی ایسا ہوا کرتا ہے کہ ہم ایک ٹیسٹ فیکٹر کو ایک وقت میں بدلتے ہیں اور باقی سب کچھ کانسٹنٹ رکھتے ہیں۔ اگر سب کچھ ایک وقت میں بدل رہا ہو تو ہم بہتر طور پر سٹڈی نہیں کر پاتے۔ فلسفے میں بھی اساتذہ کا ایک خاص ٹیسٹ فیکٹر ہوا کرتا تھا جس پر کسی استاد کی زندگی کا کام ہوتا تھا اور وہ باقی ہر چیز کو کوئسچن نہیں کر رہا ہوتا تھا، تبھی وہ اس فیکٹر سے متعلق کسی نتیجے پر پہنچ پاتا تھا۔ ایسے زندگی میں کسی مقام پر ایک بار سب کچھ کوئسچن کرنے کے بعد،کوئی قدم جمانے کی جگہ اور اپنی مینٹل ہیلتھ کو ترجیح دینی چاہئیے میرے نزدیک۔ ہم سب چیزوں کو مختلف جگہوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور بعض اوقات ہم سب کے ٹیسٹ فیکٹرز بھی اور اور ہوتے ہیں اور یہ اس کی افادیت اور اس کا حسن اس لیول کا ہے جس پر برنارڈ شا نے کہا تھا کہ:
ایک تو فلسفہ اپنی فیلڈ نہیں ہے، اوپر سے اتنی فہم و دانش بھی نہیں ہے کہ اتنی طویل اور پرمغز پوسٹ پہ تبصرہ ہی کر سکوں۔
تاہم ابتدائی سطور میں اٹھائے گئے نکتے کی بابت ہمارا بھی ایک عدد خیال ہے (جو کہ غلط بھی ہو سکتا ہے) کہ چاہے بارڈر لائن یا گرے ایریاز کے ہی کیسز ہوں، لیکن قاطیغوریاس یا کیٹیگرائزیشن کے بغیر چارہ ہی نہیں۔ اس کے بغیر دنیا کا کوئی علم یا فن ارتقاء کے مراحل سے گزر کر ویسی شکل اختیار نہ کر سکتا جیسا کہ آج ہمارے سامنے ہے۔
 
آخری تدوین:

ظفری

لائبریرین
کیا ان کتابوں کا سبجیکٹ مندرجہ بالا سوال سے ملتا جلتا ہے؟ زبان کی قید نہیں، انگریزی، اردو ، عربی سب چلیں گے اگر موضوعات اس حوالے سے دلچسپ ہوں۔
صرف ایک کتاب یعنی The Blank Slate by Steven Pinker میں کچھ یونیورسل ویلیوز کی موجودگی کا سائنسی اور ارتقائی بنیاد پر دفاع کیا گیا ہے۔باقی کتابیں زیادہ تر یہ کہتی ہیں کہ ویلیوز سوشیولوجیکل یا کلچرل کنسٹرکٹس ہیں ۔ اور ان پر ہمیشہ dividing factors کی چھاپ رہی ہے۔
باقی کتابیں ویلیوز اور ویلیو سسٹمز پر مواد فراہم کرتی ہیں۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر یونیورسل ویلیوز کا تصور مسترد بھی کرتی ہیں ۔ مگر ان کتابوں میں ویلیوز (values) کا براہِ راست یا بالواسطہ تجزیہ موجود ہے۔اکثر جگہ ویلیوز کو کلچر، سماجی ساخت، یا تاریخی تناظر میں دیکھا گیا ہے۔Dividing factors (جیسے: جنس، طبقہ، کلچر، پاور، روایات) کی ان کتابوں میں مرکزی حیثیت ہے۔اسی پر زیادہ تر بحث کا زور ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
سکول کے زمانے میں مجھے ایک بار شدت سے لگا کہ میں نے ایک نبی کو خواب میں دیکھا ہے۔ جن کے والد ان کی جدائی میں نابینا ہوگئے تھے۔ کسی حد تک وہ چہرہ ابھی ذہن میں ہے مگر اب سوچتی ہوں کہ شاید وہ بھی دماغ کی تخلیق ہوگی کیونکہ میں ان کے قصے کے متعلق بہت زیادہ سوچتی ہوں گی؟ اب مفکرین و محققین یہی کہتے ہیں کہ خواب میں مکمل طور پر نئے چہرے آشکار نہیں ہوتے!
یقینا یہ دماغ کی ہی تخلیق ہے ۔ یہ عمل کس طرح ہوتا ہے ۔ وہ میں بیان کرچکا ہوں ۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ جن چہروں کو پہلے کبھی نہیں دیکھا ۔ وہ خواب میں مکمل طور پر آشکار نہیں ہوتے ۔
 

ظفری

لائبریرین
اس کتاب کا ریویو اور اپنے تاثرات علیحدہ لڑی میں لکھ دیں تو کیا ہی بات ہے
اس کتاب کا ریویو اور اپنے تاثرات ایک علیحدہ لڑی میں تفصیلی انداز میں تو میں لکھ نہیں سکتا ۔ کیونکہ میں کئی ماہ سے پاکستان میں ہوں ۔ یہ کتاب بھی میرے پاس نہیں ہے ۔ مگراس کتاب کی چیدہ چیدہ نکات اپنے تاثرات کے طور پر اپنی یاداشت کے تحت یہاں تحریر کر دیتا ہوں ۔ میرے تاثرات کے نتیجے میں اگر کوئی سوال پیدا ہوتا ہے ۔ تو میں اس کاجواب اپنے تئیں دے سکتا ہوں ۔ باقی اگر کتاب سے متعلق ہو تو اس کے لیئے آپ کو مصنف سے رابطہ کرنا پڑے گا ۔ میرا خیال ہے وہ آپ کو صحیح طور پر جواب دے پائیں گی ۔ :)
"Gender- Trouble" ایک پُراثر تحریر ہے جس نے فیمینزم، جنس اور صنف جیسے موضوعات کی نظریاتی بنیادوں کو ا سکی گہرائی میں جا کر نہ صرف جانچا بلکہ اس کو جھنجھورا بھی ۔
یہ کتاب 1990 میں شائع ہوئی اورفوراً ہی فیمینزم، کوئیر تھیوری اور (gender- studies) میں ایک بنیادی حوالہ بن گئی۔ بٹلر نہ صرف موجودہ فیمینزم پر تنقید کرتی ہیں بلکہ اس کے بنیادی مفروضوں کو پرفارمیٹو تھیوری آف جینڈر کے ذریعے ازسرِنو دیکھنے پر بھی زور دیتی ہیں ۔
بٹلر کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ؛
"Gender- is -not- something- one -is, it -is -something- one -does
یعنی Gender کوئی "اصل میں"، پیدائشی حقیقت نہیں بلکہ ایک "عمل" ہے۔ ایک performance ہے، جو معاشرتی توقعات کے مطابق مسلسل دہراتے ہوئے حقیقت کا روپ دھار لیتی ہے۔ مرد اور عورت ہونا صرف جسمانی حقیقت نہیں، بلکہ معاشرتی ڈرامہ ہے جو مخصوص رولز کے تحت ادا کیا جاتا ہے۔اور یہ رولز کسی حقیقت سے نہیں، بلکہ ثقافت، زبان، طاقت اور ادارہ جاتی معیارات سے بنے ہوتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ بٹلر نے تین بڑی بغاوتی کاوشیں کیں ہیں ۔ اُسے آپ انقلابی کاوش بھی کہہ سکتے ہیں کہ انہوں ایک روایتی سماجی ڈھانچے کوچیلنج کیا ہے ۔
انہوں نے Sex اور Gender کی تفریق کوچیلنج کیا اور کہا کہ biological -sex بھی "discursively -constructed" ہے۔ یعنی ہم الفاظ اور علم کے سسٹم میں جیسے جسم کو سمجھتے ہیں، وہ بھی neutral یا خالص نہیں ہوتا۔ کیونکہ فیمینزم میں عمومی طور پر "sex- is- biological, gender- is -social" کا مفروضہ رائج تھا۔
دوسرا یہ کہ بٹلر کے نزدیک "identity- is- always- in- trouble"۔ وہ کسی بھی مستقل، ساکت شناخت کو ماننے سے انکار کرتی ہیں، کیونکہ ہر شناخت طاقت کےکسی سسٹم سے منسلک ہوتی ہے۔یعنی وہ
Identities کی instability پر زور دیتی ہیں ۔
تیسری یہ کہ پرانی فیمینسٹ اصطلاحات پر سوال اٹھاتی ہیں ۔
جیسے "woman" یا "patriarchy" ،بٹلر کہتی ہیں کہ ان الفاظ میں بھی وہی طاقت کا توازن چھپا ہوتا ہے جسے فیمینزم ختم کرنا چاہتا ہے ۔
کتاب کی زبان بہت ہی پیچیدہ ہے اگر اس کو انگلش میں dense, poststructuralist کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا ۔KristevaاورDerrida جیسے مفکرین سے متاثر ہیں ۔ زیادہ تر انہی کے نظریات واصطلاحات سے کتاب بھری پڑی ہے ۔ سب اہم بات یہ ہے کہ بٹلر کاونٹر آرگومنٹ کرتی ہیں ۔ قاری کو سوال کرنے کا موقع فراہم نہیں کرتیں ۔ کونکہ ان کی نظر میں ان کا آرگومنٹ ہی مکمل جواب ہے ۔
میری نظر میں "Gender Trouble" بلاشبہ ایک فکری انقلاب ہے۔ یہ کتاب سوچنے کے انداز کو بدل دیتی ہے، خاص طور پر اُن کے لیے جو صنف، شناخت اور آزادی جیسے موضوعات پر کلاسیکی یا لبرل فریم ورک میں سوچتے آئے ہیں۔ایک طرح تنبیہ کہہ لیں کہ ہم جنس و صنف جیسے الفاظ کو بغیر سمجھے اور سوچے استعمال کرتے ہیں۔ سوچ کے انداز کو بدلنے کی بھی دعوت ہے کہ ہر شناخت ،حتیٰ کہ "عورت" یا "مرد" ہونا بھی سوالات کے دائرے میں لایا جا سکتا ہے۔ ان پر بھی سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں ۔
مگر ایک پیچیدگی یہ ہے کہ اگر ہر شناخت عارضی، پرفارمیٹو، اور غیر مستحکم ہے تو ہم سچائی، انصاف، یا مزاحمت جیسے عمل کے لیے مستقل بنیادیں کہاں سے لائیں گے؟
بٹلر کی فکر، فلسفیانہ آزادی ،سو چ و بچار ضرور دیتی ہے، مگر معاشرتی سیاست کے لیے الجھن بھی پیدا کرتی ہے ۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں بٹلر چاہتی بھی یہی ہیں کہ ہم انہیں پڑھیں ، سمجھیں ، اور خود نئے معنی تلاش کریں بجائے اس کے کہ پہلے سے تیار شدہ شناختوں کےسسٹم کی پیروی کریں ۔
 

ظفری

لائبریرین
آپ کے دیے گئے جواب میں متعدد پہلو فکر انگیز تھے تاہم اسے پڑھتے ہوئے ایک اور نکتہ جس پر سوال اٹھایا جا سکے وہ یہ تھا کہ ایک جگہ پڑھا تھا کہ جس طرح جسم میں uncontrolled growth سرطان بن جاتی ہے ایسے ہی ہمارے اندر ایک خاص معقول نکتے پر پہنچ کر بھی اس سے آگے بڑھتے رہنے کی خواہش (خاص طور پر سیلف گروتھ کے بیک گراونڈ میں یہ بات تھی) سرطان ہی ہے۔ مجھے ان سے زیادہ اتفاق تو نہیں تھا لیکن جب فلسفے کو یا کئی اور فیلڈز کو دیکھتی ہوں تو مجھے ذاتی طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں pioneers سے زیادہ relate کر پاتی ہوں اور اس کے بعد بس اسے بڑھاتے رہنے میں لوگ کسی حد تک back and forth جاتے رہتے ہیں لیکن بہت کم وہ لیول اچیو ہو پاتا ہے جو جد امجد کے قبیل کا ہوا کرتا تھا۔ اگرچہ self-correcting ہونا بھی ضروری ہے مگر ہمیشہ کوریکشن یونیورسل کب ہوا کرتی ہے؟ بہت دفعہ یہ اس انسان کا سیلف ایکسپریشن ہی ہوتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ کسی نے ایک عظیم کانسیپٹ دے دیا، بعد میں کئی نقاد آئے جو خود کو اس سے کہیں آگے سمجھتے تھے مگر دنیا کو اور اس کانسیپٹ کو ان نقادوں کی خود کے لیے سوچی گئی عظمت یا بڑی تعداد سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔آپ کی اس موضوع پر کیا رائے ہے؟ کیا کسی فیلڈ کے لوگ ہمیشہ اسے بڑھاتے رہنے میں بعض اوقات پہلے سے بھی زیادہ خرابی پیدا کرنا نہیں شروع کر دیتے بالکل سرطان کی طرح؟ یا یہ بھی پراسیس کا حصہ ہے اور دنیا میں ایسا ہوتا رہنا ضروری ہے؟
بظاہر آپ کا خیال بہت منفرد لگتا ہے ،"کسی فکر کو بڑھاتے بڑھاتے وہ کینسر بن جانا"۔ایک زبردست استعارہ ہے۔ یہ تب ہوتا ہے جب علم کا تعلق معنی، خدمت، انسانیت سے ٹوٹ کر صرف "جدت" یا "خود نمائی" سے جڑ جائے۔جب ناقد، مفکر بننے کی "اکڑ" میں اپنی جگہ کھو دے ۔جب نکتہ اہم نہ رہے، بلکہ اپنی آواز کا شور اہم ہو جائے یا اولین ترحیح بن جائے ۔
لیکن ہم اگر علم کی تاریخ پر نظرڈالیں تو یہ سوال یا خیال سادہ نہیں رہتا۔انسانی شعور، خواہ وہ فلسفہ ہو، سائنس، یا روحانیات، ہمیشہ اپنی حدود کو چیلنج کرتا رہا ہے۔ ہر پائینئر کسی لازمی ضرورت یا تجربے کی کوکھ سے نکل کر ایک نیا نکتہ سامنےلے آتا ہے ۔ جیسے سقراط، ابن رشد، اشفاق احمد، وٹگن سٹائن، یا بوہر۔ ان کے ہاں ایک درد، ایک خالص دریافت کی کیفیت ہوتی ہے۔ ایک طلب ہوتی ہے ۔ ایک جستجو ہوتی ہے ۔ مگر اس کے بعد شروع ہونے والا عمل ، تشریحات، تنقیدات، ازسرِنو تعبیرات اور کبھی کبھی اس قدر پیچیدہ، انا پر مبنی یا "بس کچھ نیا کہنے" کی خواہش پر مبنی ہو جاتا ہے کہ وہ اصل نکتے کی روح کو دُھندلا کر دیتا ہے ۔ کیا یہ کوئی نقص ہے یا خود ارتقائے فکر کا حصہ؟بظاہر یہ تضاد لگتا ہے، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ علم ہمیشہ سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھتا۔ وہ دائرے میں بھی گھومتا ہے، اور بعض اوقات اپنی ہی بنیادوں کو کاٹنے لگتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ بعض اوقات "نئی بات کہنے کی جستجو"، یا "سیلف گروتھ" کی غیر روکی جا سکنے والی خواہش، وہ شعوری بیماری بن جاتی ہے جو انسان کو "معنی" سے کاٹ کر صرف "اظہار" تک ہی محدود کر دیتی ہے۔ یعنی ہمیں سوچنا پڑے گا کہ جب نکتہ "ضرورت" سے نہیں بلکہ "خودنمائی" سے نکلےجب علم خدمت کے بجائے صرف argument کا ایندھن بن جائےاور جب فکری بےچینی، دریافت کے بجائے ذاتی positioningکا ذریعہ بن جائے۔تو وہاں ہمیں رک کر سوچنا چاہیے کہ کیا ہم کسی پائینئر کے سفر کو آگے بڑھا رہے ہیں یا اپنے ہی وجود کے کینوس پر بے معنی لکیریں کھینچ رہے ہیں۔
مگر پھر ذہن میں یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ کیا ہر correction واقعی correction ہوتا ہے؟یا محض ایک subjective -selfexpression؟اور کیا دنیا واقعی ان self-expressions سے کچھ سیکھتی ہے ۔ یا بس سن کر آگے بڑھ جاتی ہے؟پائینئرز کی آواز اگر گہری ہوتی ہے تو شاید اس لیے کہ وہ اپنے اندر خاموشی کا وزن رکھتے تھے۔ اور پھر بعد میں آنے والے اکثر آواز کے وزن سے خود کو تولتے ہیں۔
اگر ایسا ہے تو پھر سب سے پہلا سوال یہی ذہن میں اٹھتا کہ کیا میں سوال کے قریب جا رہا ہوں ۔ یا صرف اپنی بات کے قریب ۔ اس فرق کے بارے میں اگر ہر طالب علم، مفکر، سوچے تو شاید علم کبھی سرطان نہ بنے، صرف دریا بنے،اور دریا بگاڑتے نہیں،سنوارتے ہیں ۔
 

زیک

مسافر
اس کتاب کا ریویو اور اپنے تاثرات ایک علیحدہ لڑی میں تفصیلی انداز میں تو میں لکھ نہیں سکتا ۔
خیال نہ تھا کہ محفل کی وفات سے پہلے یہاں queer theory پر گفتگو ہو گی اس لئے آپ کے تاثرات کا پوچھا ورنہ بٹلر اور اس کی کتاب کو کون نہیں جانتا۔

میں کئی ماہ سے پاکستان میں ہوں
خیریت ہے؟ کیا واپس چلے گئے؟
 

ظفری

لائبریرین
خیال نہ تھا کہ محفل کی وفات سے پہلے یہاں queer theory پر گفتگو ہو گی اس لئے آپ کے تاثرات کا پوچھا ورنہ بٹلر اور اس کی کتاب کو کون نہیں جانتا۔
دراصل میں خود Queer theory کی طرف نہیں آنا چاہتا تھا ۔ آپ نے کتاب کے بارے میں پوچھا تو میں نے اس کے بارے میں اپنے تاثرات اور کتاب کے بارے میں ایک مختصر سا تعارف دیدیا۔ میں نے محتاط انداز میں اپنے تاثرات اور کتاب کا تعارف کر وایا ہے ۔ یہ کتاب میں نے 2005 میں پڑھی تھی ۔ میرے بہت سے تحفظات تھے ۔ جو کہ اب بھی ہیں ۔ مگر میں کسی مقالے تک نہیں گیا ۔ میں نہیں سمجھتا کہ محفل کا مزاج ایسا نہیں کہ اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کی جاسکے۔
خیریت ہے؟ کیا واپس چلے گئے؟
کچھ معاملات تھے ۔ ا سکے لیئے پاکستان آنا پڑتا تھا ۔ میرا خیال ہے ۔ اگلی دفعہ پاکستان آنے میں ایک لمبہ وقفہ ہوسکتا ہے ۔
 
کیٹیگرائزیشن کے بغیر چارہ ہی نہیں۔ اس کے بغیر دنیا کا کوئی علم یا فن ارتقاء کے مراحل سے گزر کر ویسی شکل اختیار نہ کر سکتا جیسا کہ آج ہمارے سامنے ہے۔
مجھے کیٹگرائزیشن سے اختلاف نہیں، بلکہ پھر ان دیواروں کے باہر چیزوں کو کبھی نہ دیکھ پانے سے ہے۔ آپ کی بات بالکل درست ہے کہ اس کے بغیر علوم و فنون کی یہ ارتقاء ممکن نہ ہوتی تاہم ہر چیز کے کچھ ڈرا بیکس بھی اس کے ساتھ آتے ہیں۔ یہاں ایک مثال دوں گی۔ انسان کو آگے دو جینڈرز میں (عموما) تقسیم کیا جاتا ہے۔ لیکن اس تقسیم کی وجہ سے چند پراسیسز دونوں میں فرق ہیں اور چند معاشرتی و دینی احکامات دونوں کے لیے جدا جدا ہیں۔ اب آپ دیکھیں کہ کتنے لوگ ہیں جو ہر ہر جگہ عورت کو دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ چند چیزوں کے فرق کے سوا یہ انسان ہی ہے؟ چند حکم یا کام ہمارے لیے اور ہیں لیکن باقی بہت بڑی شرح ایک ہی ہے۔ایسا نہیں دیکھنے میں آتا حالانکہ ایسا ہے! :)
 
یکن ہم اگر علم کی تاریخ پر نظرڈالیں تو یہ سوال یا خیال سادہ نہیں رہتا۔انسانی شعور، خواہ وہ فلسفہ ہو، سائنس، یا روحانیات، ہمیشہ اپنی حدود کو چیلنج کرتا رہا ہے۔ ہر پائینئر کسی لازمی ضرورت یا تجربے کی کوکھ سے نکل کر ایک نیا نکتہ سامنےلے آتا ہے ۔ جیسے سقراط، ابن رشد، اشفاق احمد، وٹگن سٹائن، یا بوہر۔ ان کے ہاں ایک درد، ایک خالص دریافت کی کیفیت ہوتی ہے۔ ایک طلب ہوتی ہے ۔ ایک جستجو ہوتی ہے ۔ مگر اس کے بعد شروع ہونے والا عمل ، تشریحات، تنقیدات، ازسرِنو تعبیرات اور کبھی کبھی اس قدر پیچیدہ، انا پر مبنی یا "بس کچھ نیا کہنے" کی خواہش پر مبنی ہو جاتا ہے کہ وہ اصل نکتے کی روح کو دُھندلا کر دیتا ہے ۔ کیا یہ کوئی نقص ہے یا خود ارتقائے فکر کا حصہ؟بظاہر یہ تضاد لگتا ہے، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ علم ہمیشہ سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھتا۔ وہ دائرے میں بھی گھومتا ہے، اور بعض اوقات اپنی ہی بنیادوں کو کاٹنے لگتا ہے۔
اگر آپ نے ارنسٹ بیکر کی The Denial of Death پڑھ رکھی ہو تو کتاب کے آغاز میں بیکر اس موضوع پہ بے حد خوبصورت گفتگو کرتا ہے۔
 
میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ بعض اوقات "نئی بات کہنے کی جستجو"، یا "سیلف گروتھ" کی غیر روکی جا سکنے والی خواہش، وہ شعوری بیماری بن جاتی ہے جو انسان کو "معنی" سے کاٹ کر صرف "اظہار" تک ہی محدود کر دیتی ہے۔ یعنی ہمیں سوچنا پڑے گا کہ جب نکتہ "ضرورت" سے نہیں بلکہ "خودنمائی" سے نکلےجب علم خدمت کے بجائے صرف argument کا ایندھن بن جائےاور جب فکری بےچینی، دریافت کے بجائے ذاتی positioningکا ذریعہ بن جائے۔تو وہاں ہمیں رک کر سوچنا چاہیے کہ کیا ہم کسی پائینئر کے سفر کو آگے بڑھا رہے ہیں یا اپنے ہی وجود کے کینوس پر بے معنی لکیریں کھینچ رہے ہیں۔
بہت عمدہ!
 
Top