آپ کا پورا مراسلہ ہی بہت خوبصورت لکھا ہوا ہے تاہم مجھے اس گفتگو کو آگے بڑھانے کے لیے اگلا سوال بھی نکالنا تھا اور فلسفے کے اساتذہ میں ایک اور اہم موضوع جو زیر مطالعہ ہوا کرتا تھا اور جس پر ابھی اس لڑی میں بات نہیں ہوئی وہ تھا عورت اور مرد کا انٹلیکچوئل فرق۔ کہتے ہیں کہ سقراط کی استاد ایک خاتون تھی جس کا نام تاریخ نے بوجوہ آگے نہیں بڑھایا جب کہ اس کے شاگرد افلاطون نے اپنے استاد کے مرنے کے بعد اس کے بارے میں تفصیل سے لکھا۔ سقراط کا فلسفہ بھی بہت حد تک عورت کی انٹیلیکٹ کے حق میں تھا لیکن بعد میں ارسطو نے آ کر اس حوالے سے کاؤنٹر فلاسفی پیش کی اور یہ موضوع بعد میں آنے والے کئی استاد فلسفیوں کے لیے بھی زیر غور اور بیک اینڈ فورتھ رہا۔(بحیثیت عورت میں خود کبھی نہیں چاہوں گی کہ ہماری انٹیلیکٹ کے فیصلے اور لیولز بھی مرد طے کریں جیسا کہ ان کے ہم نے نہیں کیے۔ ہاں کوئی ایسا ہی معقول اور ان بائیسڈ مرد ہو تو اور بات ہے)۔ لیکن یہاں اس سارے بیک گراؤنڈ کا مقصد اقتباس میں موجود فقرے پر سوال اٹھانا ااور اسے معاشرتی چال چلن سے جوڑ کر ایک سوچنے کا نکتہ مہیا کرنا ہے۔ یہ سب شخصیات جو معاشرے کے نظام فکر اور طاقت کے مراکز کو مختلف ادوار میں چیلنج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور کچھ کامیاب بھی ہوتے ہیں اور نہ جانے کتنے ناکام ناموں کو زمین کھا گئی ہوگی آسمان نگل گیا ہوگا۔ مگر یہ سب (جہاں تک مجھے علم ہے) کسی حد تک اپنے نیچرل habitatمیں تھے۔ لیکن عورتوں کی ایک قابل ذکر تعداد ہمیشہ مہاجر ہوتی ہے اور مہاجر کے اپنے habitat سے باہر جو چیلنجز ہیں وہ بہت حد تک ساتھ ساتھ چلتے ہیں (اور زمانہ جسے مہاجر کہتا ہے وہ تو اکثر گھر کی چار دیواری سے باہر یہ چیلنجز دیکھتے ہیں جبکہ زیادہ تر عورتوں کے لیے کوئی ایسی چاردیواری نہیں ہوتی کہ ہجرت کے چیلنجز جس سے کچھ دیر کے لیے ہی باہر رہ جائیں)۔ جتنی قدغن عورت پر ہے اور جتنی ججمنٹس کا شکار وہ ہر وقت رہتی ہےاس کے باوجود ایک آزاد ذہن رکھنا تو ایک معرکہ ہے ہی مگر نظام فکر اور طاقت کے مراکز کو چیلنج کرنے کی کیا صورتیں ہو سکتی ہیں؟ مزید برآں میں یہ بتاتی چلوں کہ میں یہاں صرف ایک پاکستانی عورت کی بات نہیں کر رہی، میں نے کچھ عرصہ ملٹی کلچرل عورتوں میں گزارا بھی ہے اور ابھی بھی دنیا کے مختلف ممالک میں میری سہیلیاں ہیں۔ ہر کلچر کی عورت میں ہجرت تو تقریبا مشترک ہے اور جو اس کے ساتھ مسائل آتے ہیں اس کا اردگرد والوں کو ادراک بھی نہیں ہوتا کیونکہ ان کو نہیں آ رہے ہوتے!
آپ کا سوال اہم فکری سطحوں پر دعوتِ غور دیتا ہے۔ خاص طور پر سقراط، افلاطون، اور ارسطو کے تناظر میں عورت کے انٹلیکچوئل مقام پر جو نکتہ اٹھایا گیا ہے، وہ فلسفے کی تاریخ کے ان پہلوؤں کو سامنے لاتا ہے جنہیں اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔یہ تاریخی حقیقت ہے کہ سقراط کی ایک استاد خاتون تھیں ۔Diotima of Mantinea ، جن کا ذکر افلاطون کے مکالمے Symposium میں ملتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سقراط کا تصورِ علم (maieutic- midwifery - of- the -soul) بھی عورت سے مربوط ایک تمثیل پر قائم ہے، جو سیکھنے کے عمل کو زچگی سے تشبیہ دیتا ہے۔
ارسطو کی آرا، اس کے برعکس، عورت کے فکری مقام کے بارے میں محدود اور پدرسرانہ رجحان رکھتی ہیں، جس نے بعد کے کئی صدیوں تک مغربی فکر میں جمود کو فروغ دیا۔ تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ فلسفہ خود بھی self-correcting رہا ہے، اور جدید فلسفیانہ رجحانات ، خاص طور پر feminist- epistemology اور standpoint- theory نے عورت کے فکری تجربے کو نہ صرف جگہ دی ہے بلکہ اسے مرکزی حیثیت دی ہے۔
جہاں تک 'ہجرت' کے تصور کی بات ہے، تو آپ نے اس کو ایک محض جغرافیائی تبدیلی کے بجائے ایک
وجودی حالت (existential -condition) کے طور پر جس طرح بیان کیا، وہ قابلِ مطالعہ و تحسین ہے۔
یہ تصور Simone de -Beauvoir کے اس مؤقف سے قریب تر ہے کہ عورت کو "Other" کے طور پر define کیا گیا ہے، اور اس کی تمام فکری جدوجہد ایک ایسی دنیا میں جگہ بنانے کی ہے جو اس کی شناخت کو پہلے سے طے شدہ سانچوں میں ڈھالنا چاہتی ہے۔
آپ کا سوال کہ 'نظامِ فکر اور طاقت کے مراکز کو عورت کیسے چیلنج کرے؟' ، یہ بذاتِ خود ایک epistemological سوال ہے۔
جواب شاید اس میں ہے کہ عورتیں پہلے سے موجود علمی ڈھانچوں (epistemic- structures) میں صرف داخل نہ ہوں بلکہ اپنی lived- experiences کی بنیاد پر
نئے فکری سانچے اور اصطلاحات تشکیل دیں ۔ جیسا کہ bell hooks، Audre Lorde، یا پاکستانی تناظر میں Kishwar - Naheed اور Nighat- Said- Khan جیسے دانشوروں نے کیا۔
چونکہ آپ کا سوال زیادہ تر آپ کے اپنے تبصرے پر بھی مبنی تھا ۔ اس لیئے میں نے اس کو سوال سے زیادہ آپ کے تبصرے کے طور پر لیا ہے ۔ مختصراً آپکا تبصرہ یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ فکری مساوات کا مطالبہ صرف ایک اخلاقی یا سماجی مطالبہ نہیں، بلکہ یہ ایک علمی ضرورت ہے ۔ تاکہ علم، طاقت کے تنگ مراکز سے نکل کر انسانی تجربے کی وسعت کا احاطہ کر سکے۔میرا خیال ہے کہ آپ یہی کہنا چاہ رہی تھیں۔