جواب آئے نہ آئے سوال اٹھا تو سہی

یاز

محفلین
ایک کتاب (مالا) میں پڑھا تھا کہ انسان خواب میں صرف وہی چہرے دیکھ سکتا ہے جو حقیقت میں دیکھ رکھے ہوں۔ یہ اس کا کاونٹر آرگومنٹ ہے۔ کیا ہمارے قارئین میں سے کوئی ہیں جنہوں نے خواب میں بالکل نئے چہرے دیکھے ہوں؟
ویسے میں بھی جملہ نمبر ایک سے متفق ہوں۔
تاہم دماغ کی AI نئے چہرے تخلیق کر کے خواب میں دکھا سکتی ہے، لیکن اس کا prompt بھی پہلے سے کہیں سنا، پڑھا یا سوچا ہوا ہوتا ہے، چاہے ہمیں خود کو اس کا ادراک ہو یا نہ ہو۔
تاہم یہ صرف ہمارا موقف ہے، جس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔🫤
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
کیا خیال بھی رزق کی طرح عطا کیا جاتا ہے؟
ایک دن امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام مسجد کے دروازے پر اپنے خچر سے اترے۔ آپ نے اپنا خچر حفاظت کے خیال سے ایک شخص کے حوالے کیا اور مسجد میں تشریف لے گئے۔ آپ کے جانے کے بعد اس شخص کے دل میں خیانت آگئی اور آپ کے خچر کی لگام اتار کر فرار ہو گیا۔ حضرت علی علیہ السلام نماز سے فارغ ہو کر جب مسجد سے باہر تشریف لائے تو آپ کے ہاتھ میں دو درہم تھے۔ یہ دو درہم آپ خچر کی نگہبانی کرنے والے شخص کو بطور انعام دینا چاہتے تھے،لیکن آپ نے دیکھا کہ خچر بغیر لگام کے خالی کھڑا ہے۔ بہرحال آپ بغیر لگام کے خچر پر سوار ہو کر گھر پہنچے اور غلام کو دو درہم دیے کہ بازار سے دوسری لگام خرید لائے۔ غلام بازار گیا، اس نے وہی لگام ایک شخص کے ہاتھ میں دیکھی جو حضرت علی علیہ السلام کی چوری ہوئی تھی، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک شخص یہ لگام دو درہم میں بیچ گیا ہے۔ واپس آ کر غلام نے یہ بات حضرت علی علیہ السلام کو بتائی تو آپ نے فرمایا: "بندہ بعض اوقات خود صبر نہ کرنے اور عجلت سے کام لینے کی وجہ سے رزقِ حلال کو حرام کر دیتا ہے۔ حلانکہ جو کچھ رب العزت نے اس کی قسمت میں لکھا ہوتا ہے اس سے زیادہ اسے نہیں ملتا"۔
اللہ پاک نے بڑے واضح الفاظ میں بیان کیا ہے کہ:
"اور حکم کر اپنے گھر والوں کو نماز کا اور ہم تجھ سے رزق کے طلبگار نہیں ہیں بلکہ ہم تجھ کو رزق عطا کرتے ہیں اور انجام اہل تقوی کا ہے"-(سورہ طہ: 132)
پھر قرآن پاک میں ایک اور جگہ آتا ہے
"پھر جب نماز پوری کر لی جائے تو زمین میں پھیل جاو¿ اور اللہ کے فضل سے حصہ تلاش کرو اور اللہ کو بہت یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاو¿"- (سورہ جمعہ: آیت نمبر 10)
حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا: "حلال کھا اور ۔۔۔سچ بول پھر خدا نہ ملے تو مجھ سے پوچھ"-
 
ہم سب جب سے پیدا ہوئے ہیں، ستاروں کی مجلس کو دیکھتے رہتے ہیں، شاید ہی کوئی رات ایسی ہو کہ ہماری نگاہیں آسمان کی طرف نہ اٹھتی ہوں۔بڑے مزے کی بات ہے، کہنے میں یہی آتا ہے کہ ستارے ہمارے سامنے ہیں،ستاروں کو ہم دیکھ رہے ہیں،ہم آسمانی دنیا سے روشناس ہیں۔ لیکن ہم کیا دیکھ رہے ہیں اور ماہ وانجم کی کون سی دنیا سے روشناس ہیں۔ اس کی تشریح ہمارے بس کی بات نہیں۔ جو کچھ کہتے ہیں قیاس آرائی سے زیادہ نہیں ہوتا۔ پھر بھی سمجھتے یہی ہیں کہ ہم جانتے ہیں۔ زیادہ حیرتناک امر یہ ہے کہ جب ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ انسان کچھ نہ کچھ جانتا ہے تو یہ قطعاً نہیں سوچتے کہ اس دعوےٰ کے اندر حقیقت ہے یا نہیں۔
بابا تاج الدین
میں اور میرا چھوٹا بھائی ایک دن ستاروں کے متعلق گفتگو کے بعد اس نتیجے پہ پہنچے کہ ہمارے اوپر ماضی ہے اور نیچے مستقبل۔ کیو نکہ یہ سارے ستارے اس وقت یہاں موجود نہیں ہیں جہاں سے ان کی روشنی آ رہی ہے بلکہ یہ ماضی میں موجود تھے اور نیچے مستقبل اس لیے کیونکہ موت کے بعد اسی مٹی میں ڈی کمپوز ہو کر دوبارہ سے سائیکلز وغیرہ میں شامل ہو کر نئے آرگنزمز کاحصہ بن جانا ہے؟
کیا خیال بھی رزق کی طرح عطا کیا جاتا ہے؟
عام طور پر رزق کو مثبت انداز میں لیا جاتا ہے مگر خیال سارے مثبت نہیں ہوتے۔ بلکہ جن دنوں ذرا سا دماغ ہلا ہوتا ہے تو منفی خیالات کی شرح بہت بڑھ چکی ہوتی ہے؟
 

سیما علی

لائبریرین
عام طور پر رزق کو مثبت انداز میں لیا جاتا ہے مگر خیال سارے مثبت نہیں ہوتے۔ بلکہ جن دنوں ذرا سا دماغ ہلا ہوتا ہے تو منفی خیالات کی شرح بہت بڑھ چکی ہوتی ہے
رزق کی بہترین شکل مال ودولت ہی نہیں بلکہ سکون قلب و روح بھی رزق ہی ہے،
صحت مند جسم، صاف دِل اور بہترین خیالات بھی رزق میں شامل ہیں۔ماں کی دعا، باپ کی شفقت، بھائی کا قرب، دوست کی توجہ اور رب کریم کی خوشنودی کی خاطر دی گئی کسی کی دعا بھی رزق ہی ہے
خیال کو پاکیزہ رکھنے کی دعائیں بھی عطا ہیں
اے اللہ پاک ! اپنے لطف سے میری نیت کو خالص و بے ریا، اور اپنی رحمت سے میرے یقین کو استوار، اور اپنی قدرت سے میری خرابیوں کی اصلاح کر دے۔
اے اللہ! رحمت نازل فرما محمدؐ صل اللہ علیہ والہ وسلم اور ان کی آلؑ پر اور میری نسبت کینہ پرست دشمنوں کی دشمنی کو الفت سے، سرکشوں کے حسد کو محبت سے، نیکوں سے
بے اعتمادی کو اعتماد سے
بدل دے ۔
 

یاز

محفلین
رزق کی بہترین شکل مال ودولت ہی نہیں بلکہ سکون قلب و روح بھی رزق ہی ہے،
صحت مند جسم، صاف دِل اور بہترین خیالات بھی رزق میں شامل ہیں۔ماں کی دعا، باپ کی شفقت، بھائی کا قرب، دوست کی توجہ اور رب کریم کی خوشنودی کی خاطر دی گئی کسی کی دعا بھی رزق ہی ہے
خیال کو پاکیزہ رکھنے کی دعائیں بھی عطا ہیں
اے اللہ پاک ! اپنے لطف سے میری نیت کو خالص و بے ریا، اور اپنی رحمت سے میرے یقین کو استوار، اور اپنی قدرت سے میری خرابیوں کی اصلاح کر دے۔
اے اللہ! رحمت نازل فرما محمدؐ صل اللہ علیہ والہ وسلم اور ان کی آلؑ پر اور میری نسبت کینہ پرست دشمنوں کی دشمنی کو الفت سے، سرکشوں کے حسد کو محبت سے، نیکوں سے
بے اعتمادی کو اعتماد سے
بدل دے ۔
بہت عمدہ بات
 
چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر ادارے کو ایم فل ترک کرنا پڑا یوں پی ایچ ڈی والا خواب خواب ہی رہا۔ پھر کچھ عرصہ پہلے دوبارہ ہمیں یولرز ایکوئشن سے شناسائی ہوئی تو پھر سے مردہ خیالات نے انگڑائی لی جٹا جہیڑا کلہ تیرے حصے آندا ویچ کے کر لے ایندے اچ ماسٹرز تے فئیر پی ایچ ڈی لیکن یہ خواب بھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچا۔

اے کہانی تہانوں ایس لئی سنائی اے کہ تہاڈا حال ویکھ کہ لگدا چنگا ای ہویا میں ایس یب توں بچ گیا سی۔
 
آخری تدوین:
کسی بھی سوال کا عقلی جواب چاہے وہ کتنا ہی ناقص ہو مذہبی جواب سے ہزاروں گنا بہتر ہے چاہے وہ حقیقت کے کتنا ہی قریب تر کیوں نہ محسوس ہو۔ عقلی جواب اس بات کی عکاسی ہے کہ انسان اپنی کم علمی کی انسیکیورٹی کو کسی تخیلاتی و مادی بت پہ تکیہ کر کے کور کرنے کی بجائے محدود شعوری و جسمانی وسائل بروئے کار لاتے ہوئے کم سے کم کرنے کی سعی میں مصروفِ عمل ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
آپ کا پورا مراسلہ ہی بہت خوبصورت لکھا ہوا ہے تاہم مجھے اس گفتگو کو آگے بڑھانے کے لیے اگلا سوال بھی نکالنا تھا اور فلسفے کے اساتذہ میں ایک اور اہم موضوع جو زیر مطالعہ ہوا کرتا تھا اور جس پر ابھی اس لڑی میں بات نہیں ہوئی وہ تھا عورت اور مرد کا انٹلیکچوئل فرق۔ کہتے ہیں کہ سقراط کی استاد ایک خاتون تھی جس کا نام تاریخ نے بوجوہ آگے نہیں بڑھایا جب کہ اس کے شاگرد افلاطون نے اپنے استاد کے مرنے کے بعد اس کے بارے میں تفصیل سے لکھا۔ سقراط کا فلسفہ بھی بہت حد تک عورت کی انٹیلیکٹ کے حق میں تھا لیکن بعد میں ارسطو نے آ کر اس حوالے سے کاؤنٹر فلاسفی پیش کی اور یہ موضوع بعد میں آنے والے کئی استاد فلسفیوں کے لیے بھی زیر غور اور بیک اینڈ فورتھ رہا۔(بحیثیت عورت میں خود کبھی نہیں چاہوں گی کہ ہماری انٹیلیکٹ کے فیصلے اور لیولز بھی مرد طے کریں جیسا کہ ان کے ہم نے نہیں کیے۔ ہاں کوئی ایسا ہی معقول اور ان بائیسڈ مرد ہو تو اور بات ہے)۔ لیکن یہاں اس سارے بیک گراؤنڈ کا مقصد اقتباس میں موجود فقرے پر سوال اٹھانا ااور اسے معاشرتی چال چلن سے جوڑ کر ایک سوچنے کا نکتہ مہیا کرنا ہے۔ یہ سب شخصیات جو معاشرے کے نظام فکر اور طاقت کے مراکز کو مختلف ادوار میں چیلنج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور کچھ کامیاب بھی ہوتے ہیں اور نہ جانے کتنے ناکام ناموں کو زمین کھا گئی ہوگی آسمان نگل گیا ہوگا۔ مگر یہ سب (جہاں تک مجھے علم ہے) کسی حد تک اپنے نیچرل habitatمیں تھے۔ لیکن عورتوں کی ایک قابل ذکر تعداد ہمیشہ مہاجر ہوتی ہے اور مہاجر کے اپنے habitat سے باہر جو چیلنجز ہیں وہ بہت حد تک ساتھ ساتھ چلتے ہیں (اور زمانہ جسے مہاجر کہتا ہے وہ تو اکثر گھر کی چار دیواری سے باہر یہ چیلنجز دیکھتے ہیں جبکہ زیادہ تر عورتوں کے لیے کوئی ایسی چاردیواری نہیں ہوتی کہ ہجرت کے چیلنجز جس سے کچھ دیر کے لیے ہی باہر رہ جائیں)۔ جتنی قدغن عورت پر ہے اور جتنی ججمنٹس کا شکار وہ ہر وقت رہتی ہےاس کے باوجود ایک آزاد ذہن رکھنا تو ایک معرکہ ہے ہی مگر نظام فکر اور طاقت کے مراکز کو چیلنج کرنے کی کیا صورتیں ہو سکتی ہیں؟ مزید برآں میں یہ بتاتی چلوں کہ میں یہاں صرف ایک پاکستانی عورت کی بات نہیں کر رہی، میں نے کچھ عرصہ ملٹی کلچرل عورتوں میں گزارا بھی ہے اور ابھی بھی دنیا کے مختلف ممالک میں میری سہیلیاں ہیں۔ ہر کلچر کی عورت میں ہجرت تو تقریبا مشترک ہے اور جو اس کے ساتھ مسائل آتے ہیں اس کا اردگرد والوں کو ادراک بھی نہیں ہوتا کیونکہ ان کو نہیں آ رہے ہوتے!
آپ کا سوال اہم فکری سطحوں پر دعوتِ غور دیتا ہے۔ خاص طور پر سقراط، افلاطون، اور ارسطو کے تناظر میں عورت کے انٹلیکچوئل مقام پر جو نکتہ اٹھایا گیا ہے، وہ فلسفے کی تاریخ کے ان پہلوؤں کو سامنے لاتا ہے جنہیں اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔یہ تاریخی حقیقت ہے کہ سقراط کی ایک استاد خاتون تھیں ۔Diotima of Mantinea ، جن کا ذکر افلاطون کے مکالمے Symposium میں ملتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سقراط کا تصورِ علم (maieutic- midwifery - of- the -soul) بھی عورت سے مربوط ایک تمثیل پر قائم ہے، جو سیکھنے کے عمل کو زچگی سے تشبیہ دیتا ہے۔
ارسطو کی آرا، اس کے برعکس، عورت کے فکری مقام کے بارے میں محدود اور پدرسرانہ رجحان رکھتی ہیں، جس نے بعد کے کئی صدیوں تک مغربی فکر میں جمود کو فروغ دیا۔ تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ فلسفہ خود بھی self-correcting رہا ہے، اور جدید فلسفیانہ رجحانات ، خاص طور پر feminist- epistemology اور standpoint- theory نے عورت کے فکری تجربے کو نہ صرف جگہ دی ہے بلکہ اسے مرکزی حیثیت دی ہے۔
جہاں تک 'ہجرت' کے تصور کی بات ہے، تو آپ نے اس کو ایک محض جغرافیائی تبدیلی کے بجائے ایک وجودی حالت (existential -condition) کے طور پر جس طرح بیان کیا، وہ قابلِ مطالعہ و تحسین ہے۔
یہ تصور Simone de -Beauvoir کے اس مؤقف سے قریب تر ہے کہ عورت کو "Other" کے طور پر define کیا گیا ہے، اور اس کی تمام فکری جدوجہد ایک ایسی دنیا میں جگہ بنانے کی ہے جو اس کی شناخت کو پہلے سے طے شدہ سانچوں میں ڈھالنا چاہتی ہے۔
آپ کا سوال کہ 'نظامِ فکر اور طاقت کے مراکز کو عورت کیسے چیلنج کرے؟' ، یہ بذاتِ خود ایک epistemological سوال ہے۔
جواب شاید اس میں ہے کہ عورتیں پہلے سے موجود علمی ڈھانچوں (epistemic- structures) میں صرف داخل نہ ہوں بلکہ اپنی lived- experiences کی بنیاد پر نئے فکری سانچے اور اصطلاحات تشکیل دیں ۔ جیسا کہ bell hooks، Audre Lorde، یا پاکستانی تناظر میں Kishwar - Naheed اور Nighat- Said- Khan جیسے دانشوروں نے کیا۔
چونکہ آپ کا سوال زیادہ تر آپ کے اپنے تبصرے پر بھی مبنی تھا ۔ اس لیئے میں نے اس کو سوال سے زیادہ آپ کے تبصرے کے طور پر لیا ہے ۔ مختصراً آپکا تبصرہ یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ فکری مساوات کا مطالبہ صرف ایک اخلاقی یا سماجی مطالبہ نہیں، بلکہ یہ ایک علمی ضرورت ہے ۔ تاکہ علم، طاقت کے تنگ مراکز سے نکل کر انسانی تجربے کی وسعت کا احاطہ کر سکے۔میرا خیال ہے کہ آپ یہی کہنا چاہ رہی تھیں۔
 

ظفری

لائبریرین
گڈریڈز پر میری بک شیلف پر سرسری نظر دوڑانے سے کوئی نظر نہیں آئی۔ اگر کوئی ذہن میں آئی تو بتاؤں گا
The- Gendered -Brain -by -Gina -Rippon
"Delusions -of -Gender- by -Cordelia -Fine
Gender -Trouble- by- Judith- Butler
Woman- Culture & Society- Edited -by -Michelle- Zimbalist -Rosaldo & Louise- Lamphere
Brainstorm: The -Power- and- Purpose -of- the -Teenage -Brain-by -Daniel J. Siegel
The -Blank -Slate- by -Steven- Pinker
اگر اردو میں پڑھنی ہے تو ایک دو کتابیں پڑھیں ہوئی ہیں ۔ اگر آپ دونوں چاہیں تو اس کا بھی نام دے سکتا ہوں ۔ نیز اگر ان کتابوں موضوعات کے بارے میں جانکاری چایئے تو مختصر لکھ سکتا ہوں ۔
 
چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر ادارے کو ایم فل ترک کرنا پڑا یوں پی ایچ ڈی والا خواب خواب ہی رہا۔ پھر کچھ عرصہ پہلے دوبارہ ہمیں یولرز ایکوئشن سے شناسائی ہوئی تو پھر سے مردہ خیالات نے انگڑائی لی جٹا جہیڑا کلہ تیرے حصے آندا ویچ کے کر لے ایندے اچ ماسٹرز تے فئیر پی ایچ ڈی لیکن یہ خواب بھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچا۔

اے کہانی تہانوں ایس لئی سنائی اے کہ تہاڈا حال ویکھ کہ لگدا چنگا ای ہویا میں ایس یب توں بچ گیا سی۔
عبداللہ محمد پائین! تسی ہر جگہ تے پراواں آلے آڈے لانے تے پسوڑیاں پانیاں ذرا pause کرو تے ایس لڑی دی فکری نوعیت دے حساب نال اپنی زنبیل وچوں کوش کڈ کے لیاوو ،جے ہے تے؟
 

ظفری

لائبریرین
ایک کتاب (مالا) میں پڑھا تھا کہ انسان خواب میں صرف وہی چہرے دیکھ سکتا ہے جو حقیقت میں دیکھ رکھے ہوں۔ یہ اس کا کاونٹر آرگومنٹ ہے۔ کیا ہمارے قارئین میں سے کوئی ہیں جنہوں نے خواب میں بالکل نئے چہرے دیکھے ہوں؟
سائیکالوجی اور نیوروسائنس کی تحقیق کے مطابق انسان خواب میں جو چہرے دیکھتا ہے، وہ زیادہ تر وہی ہوتے ہیں جنہیں وہ شعوری یا لاشعوری طور پر جاگتے ہوئے دیکھ چکا ہوتا ہے ۔ خواہ وہ چہرہ کسی قریبی فرد کا ہو یا کسی اجنبی کا جسے صرف ایک لمحے کے لیے حتٰی کہ کسی بھیڑ میں بھی دیکھا ہو۔ہمارے دماغ میں ایک مخصوص حصہ Fusiform -Area -(FFA) چہروں کی شناخت اور یادداشت سے متعلق ہوتا ہے، اور وہ بڑی تعداد میں نقوش محفوظ رکھ سکتا ہے۔البتہ، یہ بھی حقیقت ہے کہ خوابوں میں ہمارا دماغ بعض اوقات مختلف چہروں کے اجزاء یا ساخت کو ملا کر ایک نیا، اجنبی سا چہرہ تخلیق کر سکتا ہے۔یوں لگتا ہے جیسے وہ چہرہ بالکل نیا ہے، مگر دراصل وہ ہماری بصری یادداشت (visual memory) کے مختلف عناصر کا مجموعہ ہوتا ہے۔
اگر کوئی یہ محسوس کرے کہ اس نے خواب میں "بالکل نیا" چہرہ دیکھا، تو غالب امکان یہ ہے کہ وہ چہرہ دماغ کی تخلیقی عمل (creative synthesis) کا نتیجہ ہو ۔ نہ کہ مکمل طور پر نا شناسا۔یہ انسانی ذہن کی تخلیقی طاقت ہے کہ وہ جانے پہچانے اجزاء کو بھی کچھ اس طور جوڑ سکتا ہے کہ وہ بالکل نیا محسوس ہو۔اگر مذید تحقیق کرنی ہے تو میں دو تین کتابوں کے نام دے سکتا ہوں ۔ جو اس سوال سے منسلک ہیں ۔
 
اگر مکمل طور پر ہر چیز پر سوال کرو تو existential crisis میں چلے جاتے ہو اس لیے کوئی بنیاد رکھنی چاہئیے جس پر مضبوطی سے پیر جما کر کھڑے ہو سکو اور باقی سب چیزوں کو کوئسچن کرو، تو میں نے جواب دیا کہ میری وہ بنیاد کلام اللہ ہے لا ریب فیہ۔ اس سے باہر ہر شے میرے لیے بدلتی رہتی ہے اور کچھ حرف آخر نہیں۔
اگرچہ سائیکالوجسٹ کی یہ بات بالکل درست ہے، لیکن یہ بنیاد مذہب سے زیادہ حقیقت پہ مبنی ہونی چاہئے۔ دوم یہ کہ اگزسٹینشل کرائسز کوئی بری چیز نہیں ہے، یہ انسان کو اس کی حقیقت سے آگاہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔یہ الوژنز کی اس دیوار کو توڑتا ہے جو انسان نے اپنے گرد خود سے تخلیق کی ہوتی ہے، جیسے ہی یہ دیوار ٹوٹتی ہے تو انسان خود کو گھپ اندھیرے میں کھڑا پاتا ہے جیسے روشنی کی ساری کرنیں ایک دم سے ختم ہو گئی ہوں لیکن یہںیں سے اس کی حقیقت کا سفر شروع ہوتا ہے کہ وہ کیا ہے، اس کی جسمانی، شعوری حقیقت کیا ہےاور پھر یہیں سے اسے اپنے ذات کا چھوٹا پن اور اس کے مقابل کائنات کی بے حسی کا علم ہوتا ہے۔ ایک لمبے عرصے پہ محیط خیالات کا سحر ٹوٹنے کے صدمے کو بھرنے میں ایک عرصہ تو درکار ہے لیکن یہ عرصہ رائیگاں نہیں جاتا
اس کرائسز کا ڈائریکٹ ربط بقا سے ہے، شعوری بقا کی بنیاد احساسِ کاملیت پر ہے، جس میں اہم کردار تیقن کا ہے جو انسان کی بقائی انسیکیورٹی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر ایک شخص کو ایک لمبے عرصے بعد پتا چلے کہ اسے جو کچھ بتایا جاتا رہا ہے یا جن پہ وہ صدق دل سے یقین رکھتا رہا ہے، وہ حقیقت نہیں ہے یا وہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوا جس کا وہ خواہاں تھا تو اس کے کرائسز میں جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کیونکہ اس شخص کے پھر اپنے ہر خیال، ہر کام پہ سوال اٹھانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور یہ عین فطری ہے۔اس لیے دھوکہ ہر شخص کے نزدیک ایک برا عمل ہے اگر وہ اس کا وکٹم ہے کیونکہ یہ انسانی تیقن کے کھوکھلے پن کا مظہر ہے جو احساسِ کاملیت کے بیرئر میں پن ہول کر دیتا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
کسی بھی سوال کا عقلی جواب چاہے وہ کتنا ہی ناقص ہو مذہبی جواب سے ہزاروں گنا بہتر ہے چاہے وہ حقیقت کے کتنا ہی قریب تر کیوں نہ محسوس ہو۔ عقلی جواب اس بات کی عکاسی ہے کہ انسان اپنی کم علمی کی انسیکیورٹی کو کسی تخیلاتی و مادی بت پہ تکیہ کر کے کور کرنے کی بجائے محدود شعوری و جسمانی وسائل بروئے کار لاتے ہوئے کم سے کم کرنے کی سعی میں مصروفِ عمل ہے۔
اگر آپ یہ ثابت کر سکیں کہ انسان کی عقلی صلاحیتیں کسی کی عطا کردہ نہیں اور انسانی ذہن میں جو خیال آتا ہے وہ کسی خارجی ذریعے سے نہیں آتا۔

جب خیال بھی عطا کردہ ہے تو انسان کو چاہیے کہ خود ستائی سے پرہیز کرے۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
عام طور پر رزق کو مثبت انداز میں لیا جاتا ہے مگر خیال سارے مثبت نہیں ہوتے۔ بلکہ جن دنوں ذرا سا دماغ ہلا ہوتا ہے تو منفی خیالات کی شرح بہت بڑھ چکی ہوتی ہے؟
خیال کی دو اقسام ہیں:
اچھے خیال:
خاطر ملکی ، خاطر ربانی
برے خیال:
خاطر شیطانی ، خاطر نفسی

20:23
 

الف نظامی

لائبریرین
دن رات، فرشتے نہیں ہیں، جنات نہیں ہیں، پھر بھی وہ مظاہر ہیں جن سے ایک فردواحد بھی انکار نہیں کر سکتا۔ تم اتنا کہہ سکتے ہو کہ دن رات کو نگاہ دیکھتی ہے، اس لئے قابلِ یقین ہے۔ لیکن یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ نگاہ کے ساتھ فکر بھی کام کرتی ہے۔ اگر نگاہ کے ساتھ فکر کام نہ کرے تو زبان نگاہ کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکتی۔ نگاہ اور فکر کا عمل ظاہر ہے۔ دراصل سارے کا سارا عمل تفکر ہے۔ نگاہ محض ایک گونگا ہیولیٰ ہے۔ فکر ہی کے ذریعے تجربات عمل میں آتے ہیں۔ تم نگاہ کو تمام حواس پر قیاس کرلو۔ سب کے سب گونگے، بہرے اوراندھے ہیں۔ تفکر ہی حواس کو سماعت اوربصارت دیتاہے۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ حواس تفکر سے الگ کوئی چیز ہے حالانکہ تفکر سے الگ ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ انسان محض تفکر ہے۔ فرشتہ محض تفکر ہے۔ جن محض تفکر ہے۔ علیٰ ہذالقیاس ہرذی ہوش تفکرہے۔

ہمارے تفکر میں بہت سی چیزیں ابھرتی رہتی ہیں۔ دراصل وہ باہر سے آتی ہیں۔
۔۔۔
ان سے انسان کا تفکر اسی طرح متاثر ہوتارہتاہے جس طرح انسان خود اپنے تفکر سے متاثر ہوتاہے۔ قدرت کا چلن یہ ہے کہ وہ لامتناہی تفکر سے تناہی تفکر کو فیضان پہنچاتی رہتی ہے۔
بابا تاج الدین
 
اگر آپ یہ ثابت کر سکیں کہ انسان کی عقلی کاوشیں کسی کی عطا کردہ نہیں اور انسانی ذہن میں جو خیال آتا ہے وہ کسی خارجی ذریعے سے نہیں آتا۔

جب خیال بھی عطا کردہ ہے تو انسان کو چاہیے کہ خود ستائی سے پرہیز کرے۔
یہ عطا کا دعوی مذہبی لوگوں کا ہے سو اس کا بارِ ثبوت بھی مذہبی لوگوں پر ہے کہ وہ اسے تحقیق سے ثابت کریں کہ خیال عطا ہےوگرنہ کہنے سے کوئی چیز ہو نہیں جاتی۔
 
Top