جواب آئے نہ آئے سوال اٹھا تو سہی

الف نظامی

لائبریرین
جیسے میں اگر nanotechnology پر کام کر رہی ہوں تو میں خود کبھی نینو سکیل پر نہیں گئی چیزوں کا مشاہدہ کرنے بلکہ جو tools اب دستیاب ہیں ان سے جو رزلٹ نکلتا ہے اس کو interpret کرتی ہوں. یعنی کلچرل رویہ جو بھی ہو، یہ ان کے biases ہو سکتے ہیں مگر ہر فلسفی نے کسی نہ کسی طرح جو سوال وہ test کر رہا تھا اس کے لیے اس زمانے میں موجود tools یا observations ضرور استعمال کیں۔
یہی میرا مدعا تھا کہ فرض کیجیے آپ نینو ٹیکنالوجی کے میدان میں عقلی کاوشوں ، طبیعاتی و کیمیائی و ریاضیاتی علم کی بنیاد پر کوئی نئی تھیوری وضع کرتی ہیں ، اب اس کے بعد empirical evidence کی ضرورت پڑتی ہے یعنی تجربہ کی کسوٹی پر پرکھنا۔ اگر آپ محض فلسفہ کی سطح پر ہی رہیں اور امپیریکل ایویڈینس معلوم نہ کریں تو بات ادھوری رہ جاتی ہے۔ یہ تو ہوا کائنات کے ایک شعبے کی حقیقت معلوم کرنے کا عمل۔

اب آ جائیں خالق کائنات کی معرفت کے بارے میں:
یہاں بھی محض عقلی کاوشیں کافی نہیں ، تجربہ کرنا ضروری ہے۔

یعنی سچ ایک فعل ہے اور اسم نہیں؟
فعل فاعل سے منسلک ہے۔ معرفتِ خالقِ کائنات کے لیے انسانِ کامل تک پہنچنا ضروری ہے۔

واصف علی واصف فرماتے ہیں:
جو لوگ اللہ کی تلاش میں نکلتے ہیں وہ انسان تک ہی پہنچتے ہیں۔ اللہ والے لوگ انسان ہی تو ہوتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
پی ایچ ڈی کرنے والے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو انتہائی سپیشلائزڈ یہ اپنے نیرو فیلڈ کے متعلق سب کچھ جانتے ہیں اور اس کے ایکسپرٹ سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن یہ اپنے ریسرچ سکلز اور سمجھ فیلڈ سے باہر استعمال نہیں کرتے یا نہیں کر سکتے۔ زیادہ تر اسی قبیل سے ہوتے ہیں۔

ایک کم تعداد ان پی ایچ ڈیز کی ہے جو اپنی پڑھائی اور ریسرچ سے سمجھ بوجھ کا جنرل میتھڈ سیکھتے ہیں۔ یہ اپنے ریسرچ سکلز کو ہر جگہ اپلائی کرتے ہیں اور بڑے کینوس پر سوچتے ہیں۔ اس کے لئے کامن سینس لازم ہے۔ ان میں یہ قابلیت ہوتی ہے کہ گیہوں اور گھن کو علیحدہ کر سکیں۔ یہ مس انفارمیشن کی وجہ سے کم ہی بھٹکتے ہیں۔

پہلے قبیل کے لوگ بھی عام طور پر یہی سمجھتے ہیں کہ وہ سب کچھ کر سکتے ہیں لیکن اکثر جب وہ اپنی فیلڈ سے باہر کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو غلط راہ پر نکل پڑتے ہیں اور گم ہو جاتے ہیں۔

دنیا کو دونوں قسم کے لوگوں کی ضرورت ہے۔ وہ بھی جو محض اپنے فیلڈ میں گہرائی میں جائیں اور وہ بھی جو زوم آؤٹ کر کے براڈ پکچر دیکھ اور سمجھ سکیں۔
ایک بار نذر صابری صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ایک جملہ کہا:
you should know everything about something and something about everything
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
کیا انسان خواب میں کوئی ایسا چہرہ دیکھ سکتا ہے جو اس نے جاگتی آنکھوں سے کبھی نہ دیکھا ہو؟ کیا انسان ایسا نظام ، قوانین اور صفات محسوس کر سکتا ہے جو کہ اس کی دنیا اور تمام تر مخلوقات سے بالاتر ہوں؟
جی بالکل ایسا ہے ۔انسان بارہا ایسے چہرے خواب میں دیکھتا ہے جن سے زندگی میں کبھی آپکی ملاقات نہ ہوئی ہو۔اور خواب میں اردگرد کا نظام اور صفات جو دنیا میں نہیں ہیں انکو محسوس کرتا ہے ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ہم سب جب سے پیدا ہوئے ہیں، ستاروں کی مجلس کو دیکھتے رہتے ہیں، شاید ہی کوئی رات ایسی ہو کہ ہماری نگاہیں آسمان کی طرف نہ اٹھتی ہوں۔بڑے مزے کی بات ہے، کہنے میں یہی آتا ہے کہ ستارے ہمارے سامنے ہیں،ستاروں کو ہم دیکھ رہے ہیں،ہم آسمانی دنیا سے روشناس ہیں۔ لیکن ہم کیا دیکھ رہے ہیں اور ماہ وانجم کی کون سی دنیا سے روشناس ہیں۔ اس کی تشریح ہمارے بس کی بات نہیں۔ جو کچھ کہتے ہیں قیاس آرائی سے زیادہ نہیں ہوتا۔ پھر بھی سمجھتے یہی ہیں کہ ہم جانتے ہیں۔ زیادہ حیرتناک امر یہ ہے کہ جب ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ انسان کچھ نہ کچھ جانتا ہے تو یہ قطعاً نہیں سوچتے کہ اس دعوےٰ کے اندر حقیقت ہے یا نہیں۔
بابا تاج الدین
 

الف نظامی

لائبریرین
اللہ کو ماننا چاہیے ، اللہ کو جاننا مشکل ہے۔ ہمارے ذمے تسلیم ہے تحقیق نہیں۔ تحقیق دنیا کی کرو اور تسلیم اللہ کی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم دنیا کو تسلیم کرلیں اور اللہ کی تحقیق کرنا شروع کردیں۔
(واصف علی واصف)
 
ان کے معیارات ، ان کے سیاسی و مذہبی اور اجتماعی انا ،مفادات اور تعصب کے نتیجے میں پروان چڑھے ہوتے ہیں ۔ گیلیلیو گلیلی، جیورڈانو برونو، نکولا ٹیسلا ، باروخ اسپینوزا، سقراط، ابن رشد۔ ان تمام افراد نے نظامِ فکراور طاقت کے مراکز کو چیلنج کیا۔
آپ کا پورا مراسلہ ہی بہت خوبصورت لکھا ہوا ہے تاہم مجھے اس گفتگو کو آگے بڑھانے کے لیے اگلا سوال بھی نکالنا تھا اور فلسفے کے اساتذہ میں ایک اور اہم موضوع جو زیر مطالعہ ہوا کرتا تھا اور جس پر ابھی اس لڑی میں بات نہیں ہوئی وہ تھا عورت اور مرد کا انٹلیکچوئل فرق۔ کہتے ہیں کہ سقراط کی استاد ایک خاتون تھی جس کا نام تاریخ نے بوجوہ آگے نہیں بڑھایا جب کہ اس کے شاگرد افلاطون نے اپنے استاد کے مرنے کے بعد اس کے بارے میں تفصیل سے لکھا۔ سقراط کا فلسفہ بھی بہت حد تک عورت کی انٹیلیکٹ کے حق میں تھا لیکن بعد میں ارسطو نے آ کر اس حوالے سے کاؤنٹر فلاسفی پیش کی اور یہ موضوع بعد میں آنے والے کئی استاد فلسفیوں کے لیے بھی زیر غور اور بیک اینڈ فورتھ رہا۔(بحیثیت عورت میں خود کبھی نہیں چاہوں گی کہ ہماری انٹیلیکٹ کے فیصلے اور لیولز بھی مرد طے کریں جیسا کہ ان کے ہم نے نہیں کیے۔ ہاں کوئی ایسا ہی معقول اور ان بائیسڈ مرد ہو تو اور بات ہے)۔ لیکن یہاں اس سارے بیک گراؤنڈ کا مقصد اقتباس میں موجود فقرے پر سوال اٹھانا ااور اسے معاشرتی چال چلن سے جوڑ کر ایک سوچنے کا نکتہ مہیا کرنا ہے۔ یہ سب شخصیات جو معاشرے کے نظام فکر اور طاقت کے مراکز کو مختلف ادوار میں چیلنج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور کچھ کامیاب بھی ہوتے ہیں اور نہ جانے کتنے ناکام ناموں کو زمین کھا گئی ہوگی آسمان نگل گیا ہوگا۔ مگر یہ سب (جہاں تک مجھے علم ہے) کسی حد تک اپنے نیچرل habitatمیں تھے۔ لیکن عورتوں کی ایک قابل ذکر تعداد ہمیشہ مہاجر ہوتی ہے اور مہاجر کے اپنے habitat سے باہر جو چیلنجز ہیں وہ بہت حد تک ساتھ ساتھ چلتے ہیں (اور زمانہ جسے مہاجر کہتا ہے وہ تو اکثر گھر کی چار دیواری سے باہر یہ چیلنجز دیکھتے ہیں جبکہ زیادہ تر عورتوں کے لیے کوئی ایسی چاردیواری نہیں ہوتی کہ ہجرت کے چیلنجز جس سے کچھ دیر کے لیے ہی باہر رہ جائیں)۔ جتنی قدغن عورت پر ہے اور جتنی ججمنٹس کا شکار وہ ہر وقت رہتی ہےاس کے باوجود ایک آزاد ذہن رکھنا تو ایک معرکہ ہے ہی مگر نظام فکر اور طاقت کے مراکز کو چیلنج کرنے کی کیا صورتیں ہو سکتی ہیں؟ مزید برآں میں یہ بتاتی چلوں کہ میں یہاں صرف ایک پاکستانی عورت کی بات نہیں کر رہی، میں نے کچھ عرصہ ملٹی کلچرل عورتوں میں گزارا بھی ہے اور ابھی بھی دنیا کے مختلف ممالک میں میری سہیلیاں ہیں۔ ہر کلچر کی عورت میں ہجرت تو تقریبا مشترک ہے اور جو اس کے ساتھ مسائل آتے ہیں اس کا اردگرد والوں کو ادراک بھی نہیں ہوتا کیونکہ ان کو نہیں آ رہے ہوتے!
 
آخری تدوین:
یہ تبصرہ ایک "stereotype" پیدا کرتا ہے کہ پی ایچ ڈی والے لوگ نیرو فیلڈ ہوتے ہیں اور عملی زندگی میں ناکام۔یہ نہ صرف سائنسدانوں اور مفکرین کی توہین ہے بلکہ علمی ذہنیت کے خلاف ایک روایتی بیزاری کا اظہار بھی
صاحب مراسلہ تو خود پی ایچ ڈی ہیں اس لیے میرا نہیں خیال کہ ان کا اپنی ہی برادری کے لیے کوئی منفی مطلب ہوگا لیکن کم پڑھے لکھے لوگوں میں اس طرح کی باتیں طنز کی کاٹ کے ساتھ بہت عام ہیں اور مجھے اکثر ہنسی آتی ہے کہ کسی علم والے نے کبھی جاہل سے ایسی بیزاری نہیں دکھائی جیسی جاہل علم والوں سے سرعام دکھاتے ہیں۔ میں یہ بھی مانتی ہوں کہ علم فقظ ڈگریوں کا محتاج کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا۔ مگر جو لوگ ایسی بات کرتے ہیں وہ خود بھی علم دوست نہیں ہوتے۔ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ عملی میدان میں علمی لوگ ان سے بہت پیچھے ہیں، سوشلی بھی وہ اچھے ہیں، ہارڈ سکلز بھی ان کی اچھی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن میں ایک بات سوچتی ہوں کہ بھائی آپ لوگ جتنے بھی اچھے ہو ہمارا مقصد آپ والی اچھائی اپنانا نہیں ہے، آپ سمجھتے کیوں نہیں! اگر ہمارا گول وہ ہوتا جو آپ کا ہے تو ہم ضرور آپ کا راستہ چن لیتے اور پا لیتے وہ جنت جو آپ نے ایسے پا لی ہے۔ لیکن نہیں چاہئیے یار! :battingeyelashes:
 

ظفری

لائبریرین
صاحب مراسلہ تو خود پی ایچ ڈی ہیں اس لیے میرا نہیں خیال کہ ان کا اپنی ہی برادری کے لیے کوئی منفی مطلب ہوگا لیکن کم پڑھے لکھے لوگوں میں اس طرح کی باتیں طنز کی کاٹ کے ساتھ بہت عام ہیں اور مجھے اکثر ہنسی آتی ہے کہ کسی علم والے نے کبھی جاہل سے ایسی بیزاری نہیں دکھائی جیسی جاہل علم والوں سے سرعام دکھاتے ہیں۔ میں یہ بھی مانتی ہوں کہ علم فقظ ڈگریوں کا محتاج کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا۔ مگر جو لوگ ایسی بات کرتے ہیں وہ خود بھی علم دوست نہیں ہوتے۔ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ عملی میدان میں علمی لوگ ان سے بہت پیچھے ہیں، سوشلی بھی وہ اچھے ہیں، ہارڈ سکلز بھی ان کی اچھی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن میں ایک بات سوچتی ہوں کہ بھائی آپ لوگ جتنے بھی اچھے ہو ہمارا مقصد آپ والی اچھائی اپنانا نہیں ہے، آپ سمجھتے کیوں نہیں! اگر ہمارا گول وہ ہوتا جو آپ کا ہے تو ہم ضرور آپ کا راستہ چن لیتے اور پا لیتے وہ جنت جو آپ نے ایسے پا لی ہے۔ لیکن نہیں چاہئیے یار! :battingeyelashes:
مجھے معلوم ہے ۔ تاہم، میرا تبصرہ ا ن کی ذات پر نہیں بلکہ ان کی بات کے عمومی انداز پر تھا۔ جب کسی شعبے یا طبقے کو عمومی خانوں میں تقسیم کیا جائے ۔چاہے وہ تعریف کے انداز میں ہو یا تنقید کے ، تو وہ تجزیاتی طور پر سوال اٹھانے کے قابل بن جاتا ہے۔ میرا سوال بھی اسی تجزیاتی زاویے سے تھا، نہ کہ کسی ذاتی تنقید یا نیت پر شک کی بنیاد پر۔اگر وہ پی ایچ ڈی ہونے کے باوجود ایک عمومی (اور کچھ حد تک تنقیدی) تقسیم پیش کر رہے تھے، تو میرا بجا طور پر اس پر سوال اٹھانا صحیح بنتا تھا۔
مگر پھر بھی میری نیت صرف گفتگو کو وسیع تر سوچ کی طرف لے جانا مقصودتھی، کیونکہ علم، خواہ کتنا بھی ہو، سوال سے ہی آگے بڑھتا ہے۔۔ اگر میری کسی بات سے کسی کو ذاتی طور پر ناگوار گزرا ہو تو میں اس پر معافی کا خواستگوار ہوں ۔
 
مجھے معلوم ہے ۔ تاہم، میرا تبصرہ ا ن کی ذات پر نہیں بلکہ ان کی بات کے عمومی انداز پر تھا۔ جب کسی شعبے یا طبقے کو عمومی خانوں میں تقسیم کیا جائے ۔چاہے وہ تعریف کے انداز میں ہو یا تنقید کے ، تو وہ تجزیاتی طور پر سوال اٹھانے کے قابل بن جاتا ہے۔ میرا سوال بھی اسی تجزیاتی زاویے سے تھا، نہ کہ کسی ذاتی تنقید یا نیت پر شک کی بنیاد پر۔اگر وہ پی ایچ ڈی ہونے کے باوجود ایک عمومی (اور کچھ حد تک تنقیدی) تقسیم پیش کر رہے تھے، تو میرا بجا طور پر اس پر سوال اٹھانا صحیح بنتا تھا۔
مگر پھر بھی میری نیت صرف گفتگو کو وسیع تر سوچ کی طرف لے جانا مقصودتھی، کیونکہ علم، خواہ کتنا بھی ہو، سوال سے ہی آگے بڑھتا ہے۔۔ اگر میری کسی بات سے کسی کو ذاتی طور پر ناگوار گزرا ہو تو میں اس پر معافی کا خواستگوار ہوں ۔
اتنی زیادہ فکر کیوں کر رہے ہیں۔ اس لڑی کے پہلے مراسلے میں بھی میں نے کہا تھا کہ یہاں سبھی بیک گراونڈز اور نظریات کے لوگوں کا آنا سود مند ہے اور میرا نہیں خیال کہ کچھ منفی ہے۔ آپ کا اقتباس لے کر آپ کی بات کو کچھ کہنا مقصود نہیں تھا بلکہ باقی کا پیراگراف تو پڑھیں کہ پتہ نہیں کتنی پرانی بھڑاس نکالی ہے میں نے! 😂 (لیکن افسوس وہ لوگ نہ یہ پڑھیں گے نہ اپنی خو بدلیں گے!)
 
فعل فاعل سے منسلک ہے۔ معرفتِ خالقِ کائنات کے لیے انسانِ کامل تک پہنچنا ضروری ہے۔

واصف علی واصف فرماتے ہیں:
جو لوگ اللہ کی تلاش میں نکلتے ہیں وہ انسان تک ہی پہنچتے ہیں۔ اللہ والے لوگ انسان ہی تو ہوتے ہیں۔
نیکسٹ کوئسچن سر!
انسان کو اللہ تعالی کی قربت اور مسلمان کے طور پر بلند مرتبہ ہونے کے لیے غیب پر ایمان، قرآن پاک کی سمجھ اور اس پر عمل کی کوشش، محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت اور ان کی زندگی سے رہنمائی، حقوق اللہ اور حقوق العباد پورے کرنے کی کوشش اور جہاں کوتاہی ہو وہاں اس کو جسٹیفائے کرنے کی بجائے ندامت اور دوبارہ پاک ہونے کی کوشش ۔اس کے علاوہ اور کیا کیا چاہئیے؟
 

La Alma

لائبریرین
آپ کیا سمجھتی ہیں کیا nothingness کی uncoding میں نیچر ایک prepared mind کو favour کرتی ہے؟
ابتدا میں کوئی نہ کوئی محرک تو درکار ہوتا ہے جو مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے ذہن کو تحریک دے۔ پھر لرننگز اور سکلز کی بنیاد پر ربط تلاش کرنا ہوتا ہے۔ ایک پریپیرڈ مائنڈ کا خاصہ مقداری اور معیاری ریزننگ (Reasoning) ہے۔ اسکے بغیر عدم اور وجود ، ہونی اور انہونی کے بیچ کوئی تعلق استوار نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک مائنڈ، ویل انفارمڈ نہیں ہو گا، کائناتی نظام میں چھپے مخفی سگنلز کو رسیو کرنے کا اہل نہیں ہو سکتا۔ پھر دھیان ، وجدان، ارتکاز، مستقل مزاجی کا بہت اہم کردار ہے۔ امکانات اور کوشش میں چونکہ راست تناسب ہے۔ لہذا ایک تیار ذہن متعلقہ فیلڈ میں مرتکز ہو کر جتنی جدوجہد کرے گا، ممکنات کا گراف اتنا ہی بلند ہوگا۔
 
جی بالکل ایسا ہے ۔انسان بارہا ایسے چہرے خواب میں دیکھتا ہے جن سے زندگی میں کبھی آپکی ملاقات نہ ہوئی ہو۔اور خواب میں اردگرد کا نظام اور صفات جو دنیا میں نہیں ہیں انکو محسوس کرتا ہے ۔
ایک کتاب (مالا) میں پڑھا تھا کہ انسان خواب میں صرف وہی چہرے دیکھ سکتا ہے جو حقیقت میں دیکھ رکھے ہوں۔ یہ اس کا کاونٹر آرگومنٹ ہے۔ کیا ہمارے قارئین میں سے کوئی ہیں جنہوں نے خواب میں بالکل نئے چہرے دیکھے ہوں؟
 

الف نظامی

لائبریرین
نیکسٹ کوئسچن سر!
انسان کو اللہ تعالی کی قربت اور مسلمان کے طور پر بلند مرتبہ ہونے کے لیے غیب پر ایمان، قرآن پاک کی سمجھ اور اس پر عمل کی کوشش، محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت اور ان کی زندگی سے رہنمائی، حقوق اللہ اور حقوق العباد پورے کرنے کی کوشش اور جہاں کوتاہی ہو وہاں اس کو جسٹیفائے کرنے کی بجائے ندامت اور دوبارہ پاک ہونے کی کوشش ۔اس کے علاوہ اور کیا کیا چاہئیے؟
یہ ہی اتنا زیادہ سلیبس ہے کہ اس کو سیکھنے اور پھر سیکھ کر عمل کرتے کرتے زندگی مکمل ہو جاتی ہے۔

مجھے چاہیے کہ خلق خدا کے حق میں پہلے بے ضرر بنوں اور پھر مفید ہونے کی کوشش کرتا رہوں۔

طریقت بجز خدمت خلق نیست
 

زیک

مسافر
مجھے کیسے پتہ لگے گا کہ میں کس قبیل سے ہوں؟ اگرچہ میں narrow نہیں ہوں بلکہ جتنی openness ممکن ہو اتنی ہے، تاکہ اوورآل اپنی زندگی پر بھی اس سیکھ کی چھاپ ہو اور اردگرد کے تمام انسانوں پر projection بھی irrespective of field.
وقت کے ساتھ پتا چل جائے گا۔ جس راہ میں آپ بہتر کام کر سکیں وہی آپ کی راہ ہے۔ یاد رہے کہ وسیع کینوس پر کام کرنے والے اکثر اتنی گہرائی میں کام نہیں کرتے جتنے ایک موضوع کی گہرائی میں جانے والے کرتے ہیں۔ پی ایچ ڈی کےدوران ریسرچ تو آپ کو گہرائی ہی کی دعوت دیتی ہے اور آپ کا سارا وقت اسی پر صرف ہوتا ہے۔ ایسے میں فلسفہ، سوشل سائنس، آرٹ، تاریخ وغیرہ کو اچھی طرح سمجھنے کا وقت مشکل ہی ملتا ہے۔
 
Top