جنسیات، شاملِ نصاب!

جن اشرف المخلوقات، بالخصوص پيروانِ اسلام کا يہ ماننا ہے کہ، جنس کی تعليم نصاب ميں شامل نہيں ہونی چاہيے، وہ شايد کمسن بچوں کی فطری جبلت اور جنسی کنجکاوی کا پيٹ، ادعيہ، اذکاراور نماز يا قرآن سے بھرنا چاہتے ہيں۔ آغاز ميں ايک نکتے کی جانب اشارہ ضروری سمجھتا ہوں کہ کچھ حضرات سمجھتے ہيں کہ يہ تعليم دی جانی چاہيے ليکن اس وقت جب بچہ بچہ نہ رہے اور خود سب جان چکا ہو۔ انکا خيال ہے کہ اس تعليم کے ليے کوئی خاص سن يعنی ايک طرح سے بلوغت درکار ہے تاکہ يہ بہ آسانی ہضم ہو سکے۔ وہ جنسی مسائل پر ہر قسم کی بحث کو فحاشی پر مامور کرتے ہيں، حتیٰ کہ مثنوی معنوی ميں بھی فحش پہلو نکال ليتے ہيں۔ ايسے لوگ آنے والے کل قرآن کے بارے ميں بھی اسی قسم کی رائے قائم کر ليں تو اچھنبے کی بات نہيں۔ وہ قرآن کے کچھ حصوں کو محصور کريں گے اور اس کے بارے ميں حکم صادر کر ديں گے کہ ان اوراق کی تلاوت اس عمر سے کم کے افراد کے ليے ممنوع، اور بدآموزی کا سبب، ہے۔ نعوذباللہ قرآن کيا کسی خاص عمر يا عصر کے افراد کے ليے نازل ہوا ہے، يا اب اشرف ہی سہی پر مخلوقات کی عقل خالق سے کامل تر ہو گئی ہے؟
موضوع در اصل يہ ہے کہ ہمارے معاشرے ميں جنسی جبلت کو دوسری فطری خواہشات سے مختلف قرار ديا جاتا ہے۔ اگر بچہ غذا کے بارے ميں نا فہمی يا کم فہمی کہہ ليں، کے دور ميں سوالات کرتا ہے تو اسے انتہائی تسلی بخش جواب ديے جاتے ہيں۔ جبکہ اگر وہ جنسيات يا اپنی اس دنيا ميں تشريف آوری ہی کے بارے ميں بھی سائل ہوتا ہے تو خرافات سے بچپن ميں ہی غير طبيعی جوابات سےاس کے خيالات کا ڈھانچہ خراب کيا جاتا ہے جو بچے کو بھی غیر طبیعی ہی معلوم ہوتے ہیں! اور صاحبو! کنجکاوی بہت بری بلا ہے۔ جب يہ غير فطری و طبيعی جوابات سن کر بچے کے ذہن ميں خلش پيدا ہوتی ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اپنی عمر کے تناسب سے، جب تک اسے تسلی بخش جواب نہيں ملتا، مختلف ذرائع کا استعمال کرتا ہے اور اپنی کنجکاوی کو سيراب کرتا ہے۔
پھر ايک پہلو يہ بھی ہے کہ انسان اس منزل کی جانب ضرور بڑھتا ہے جسے اس سے دور رکھا جائے اور يہ بڑھنا طبيعی نہيں ہوتا۔ فطری اور طبيعی رفتار وہ ہوتی ہے جو پہلی بار ميں انسان اختيار کرے جو کہ مفيد بھی ہوا کرتی ہے۔ بطور مثال، کوئی فرد کسی نقطے تک پہنچنے کا اردہ کرتا ہے اور سيدھے اور ستھرے راستے سے اس کی جانب بڑھتا ہے۔ پھر راہ کے آغاز ميں ہی کوئی رکاوٹ آتی ہے جو اسے اس صرات مستقيم سے وہاں تک نہيں پہنچنے ديتی ظاہر ہے وہ وہاں پہنچنے کی ٹھان تو چکا ہے، اب وہ ايسے راستے سے وارد ہوگا جو ظاہر ہے کہ سيدھا راستہ نہيں ہے اور گمراہی کی طرف بھی لے جا سکتا ہے۔ اسی طرح اگر بچے کو معلومات درست، اور درست منبع سے نہيں مليں گی تو وہ کسی غير مستقيم اور غير طبيعی راستے سے اس کو حاصل کرنے کی تگ و دو کرے گا۔
لہٰذا ميرا يہ خيال ہے کہ جنسيات کی تعليم نصاب اور بالائے نصاب يعنی ايکسٹرا کريکيولر دونوں ميں شامل ہوني چاہيے۔
مہدی نقوی حجازؔ
(یہ تحریر مشہور کالم نگار کے کالم جن کا نام لینا مناسب نہیں، کے پاسخ میں لکھی گئی تھی، مگر حیف کہ شائع نہ ہونے دیا گیا۔)
 

قیصرانی

لائبریرین
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بچے تھیوری سے پریکٹیکل تک نہ پہنچ جائیں۔ جبکہ اگر ایک انسان ہتھیار چلانا سیکھتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس نے کسی انسان کو قتل لازمی کرنا ہے۔ دوسرا جب آپ تعلیم دیتے ہیں تو میرا انتہائی ذاتی خیال ہے کہ ہمارے نصاب میں جو چیز شامل ہو جائے، وہ بچوں میں دلچسپی کی بجائے الٹا بیزاری ہی پیدا کرتی ہے۔ اس لئے اس تعلیم کا ہونا از حد ضروری ہے :)
 
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بچے تھیوری سے پریکٹیکل تک نہ پہنچ جائیں۔ جبکہ اگر ایک انسان ہتھیار چلانا سیکھتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس نے کسی انسان کو قتل لازمی کرنا ہے۔ دوسرا جب آپ تعلیم دیتے ہیں تو میرا انتہائی ذاتی خیال ہے کہ ہمارے نصاب میں جو چیز شامل ہو جائے، وہ بچوں میں دلچسپی کی بجائے الٹا بیزاری ہی پیدا کرتی ہے۔ اس لئے اس تعلیم کا ہونا از حد ضروری ہے :)
:) یہ انتہائی اہم پہلو ہے۔ :) متفق
 

حسینی

محفلین
یقینا بعض اصول وضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے اس قسم کی تعلیم ہر عمر کے بچے کی ذہنیت کے مطابق دینا انتہائی اہم اور ضروری ہے۔۔۔۔ ہمارے ہاں تو بالغوں اور بڑوں کو بھی اس حوالے سے عام طور پر واقفیت نہیں ہوتی۔۔۔ جو کہ بعض دفعہ گھریلو ناچاقیوں اور جھگڑوں کا بھی سبب بنتے ہیں۔۔۔
یقینا اس حوالے سے اسلام نے ہماری بہترین رہنمائی کی ہوئی ہے۔۔۔۔ بس صرف تحقیق اور جستجو کی ضرورت ہے۔۔
 
اچھی تجویز ہے۔ لیکن جنسیات کی تعلیم شامل نصاب سے مراد کو میری ناقص عقل نہیں پا سکی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اگر طبابت کے حوالے سے جنسیات پڑھانا ٹھہرا تو وہ کام تو ابھی تک ہوتا ہی آیا ہے، اور ہوتا رہے گا۔ اس سے آگے بڑھ کر نرسری، مونٹیسری اور پرائمری کے بچوں میں جنسیات کے موضوع کو اگر رکھا جائے تو اس میں ذیلی مضمون کون کون سے ہونگے؟ اس کے علاوہ یہ بھی اہم ہے کہ بچہ آٹھ دس سال ریاضی، انگریزی، اردو، معاشرتی علوم اور دوسری سائنسی اور غیر سائنسی علوم کو آہستہ آہستہ اسکول جا کر حاصل کرتا ہے جو کہ شاید اسے گھر پر حاصل نہیں ہو سکتے، اس کے علاوہ اور بہت کچھ سیکھتا ہے، مثلاً کسی سے ملنے کے، بات کرنے کے، گروپ میں رہنے اور ان کے ساتھ باہمی تعامل کے آداب اور اخلاقیات وغیرہ۔ جب کہ دوسری طرف دیکھا جائے تو اس دوران وہ جو چیزیں نہیں سیکھتا اس میں پانی پینا، کھانا کھانا، بیت الخلاء جانا، نہانا، کپڑے بدلنا، پھر اسی طرح بلوغت پر جو جو عوامل اور جو جو چیزیں سامنے آتی ہیں ان سے نپٹنا نہ تو اسکول میں سکھایا جاتا ہے نہ کسی دوسرے انسٹیٹیوٹ میں۔ کیونکہ یہ ساری چیزیں فطری طور پر انسان میں اللہ نے رکھی ہیں۔ اور حقیقت حال یہ ہے اس وقت شعوری اور لا شعوری اطوار پر جس قدر جنسی تعلیمات ہمیں میڈیا اور دوسرے ذرائع سے مل جاتی ہیں آج سے صدی بھر پہلے تو ان کا ہمیں تصور بھی نہ تھا، لیکن یہ سب ایسی چیزیں ہیں جو فطری طور پر انسان کے وجود کے ساتھ ہی جنم لیتی ہیں، جس طرح کھانا پینا وغیرہ۔ یہ محض میرا موقف یا سوال ہے کہ اس دور میں جنسیات کا کون سا حصہ بچے کو پڑھایا جائے گا؟
واضح رہے کہ میں جنسیات کی تعلیم کا مخالف کوئی مولوی نہیں ہوں لیکن اس کا شاملِ نصاب ہونا میری سمجھ میں نہ آسکا جس کی وضاحت درکار ہے۔ :)
البتہ اس سے اتفاق کرتا ہوں کہ جنسیات کے موضوع کو اس قدر مبہم بنانا درست نہیں کہ بچے کے ذہن میں خلش پیدا ہو جائے اور وہ اس حوالے سے کسی غلط راہ پر نکل جائے۔ لیکن یہ سلسلہ کم از کم اس وقت شروع ہو سکتا ہے جب بچہ باہمی گفتگو کے آداب، اور معاشرتی اچھائی اور برائی کو جانتا اور پہچانتا ہو۔ اسے ہر ایک کے رتبے کا احساس ہو۔ بلوغت کوئی شرط نہیں۔
 

x boy

محفلین
بہت شکریہ
ویسٹرن سلیبس یعنی کیمبرج میں پانچویں گریڈ سے ایسے موضوع ہلکے پھلکے مضمون میں شامل ہے
اور یہاں عرب ملکوں میں ایسے چیپٹر کو ختم نہیں کیا گیا۔
خطرہ بھی ہے اور نہیں بھی، یہ گھر کے ماحول سے وابستہ ہے
کراچی کے مختلف غریب آبادیوں میں زنا کا ریشو متواسط طبقے کی آبادیوں زیادہ ہے
وجہ امپورٹڈ فخاشی دن رات کیبل میں چلاتے ہیں اور والدین کو اپنے کام دھندوں سے فرصت نہیں
مثال کے طور پر موسی کالونی، غریب آباد، اورنگی ٹاؤن،بنگالی کیمپ،برماکالونی،قصبہ کالونی
اللہ والی بستی، اور دیگر اسطرح کے علاقوں میں فخاشی زیادہ پھیل رہی ہے
مطلب کہنے کا یہ ہے کہ فخاشی سکھائے بغیر معلومات کتاب مین درج کریں تو غیر مناسب نہیں ہوگا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عورتیں اسطرح سوال کرتی تھیں مثلا،، اللہ سچی بات کہنے پر شرماتا نہیں ہے۔
جب بھی کبھی پاکی ناپاکی اور اسی طرح کے دیگر امور پر بات سوال کرنا پڑتا تو۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
شامل ہونی چاہیے، پانچویں کلاس سے یہ نصاب میں بطور مضمون شامل کر دینا چاہیے خاص کر بچیوں کے لیے کہ انھیں اپنے برے بھلے کا پتہ ہو۔
یہ تعلیمات کلاس آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ زیادہ جامع ہونی چاہیں، شروع کی کلاسوں میں بنیادی باتیں اور گریجویشن کی کلاس میں ایچی بیچی تک;)
یہ تعلیمات اسلام کے آفاقی اصولوں کو مدنظر رکھ کر وضع کرنی چاہیں، ہر طبقے کے علما پہ مشتمل ایک بورڈ، ٹیکسٹ بک بورڈ والوں کی راہنمائی کرے۔
فحاشی اور قبل از وقت علم کے خدشے کو اٹھا کر پرے پھینک دینا چاہے کیوں کہ آجکل کا ماحول اور میڈیا آخری درجے کی تعلیم بلکہ عملی تعلیم بلا تعطل فراہم کر رہا ہے اور چھوٹی چھوٹی کلاسوں کے بچے بھی اسے اپنا رہے ہیں، بالواسطہ یا بلاواسطہ۔۔۔۔!
درست اور مانیٹرڈ معلومات اور تعلیم دے کر ہی موجودہ فحاشی کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
 

اوشو

لائبریرین
جنس فطرت کے ارتقاء کا اہم ترین مرحلہ ہے ۔ ہمارے معاشرے میں جنسی بے راہ روی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جنس پر بات کرنے کو یہاں شجرِ ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن فطرت سے مفر نہیں۔
مناسب اور اچھے انداز میں درجہ بدرجہ یہ تعلیم ہونی چاہیے۔
 
ہزاروں سال سے دنیا میں انسان بس رہے ہین، کبھی کسی ملک میں کسی کلچر میں سکول کی سطح پر لازمی یا اختیاری مضمون کے طور پر جنسیات کی تعلیم نہیں دی گئی۔۔۔تو اب ایسی کونسی افتاد نازل ہوگئی ہے کہ اسے اسکولوں میں ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جائے؟۔۔۔۔میں تو اس تجویز سے اتفاق نہیں کرتا ۔
سیدھی سی بات ہے کہ آپ اپنے بچوں کے ساتھ مناسب رابطے میں رہیں کوئی comunication gapنہ ہو، تو پچوں کے ذہن میں عمر کے ساتھ ساتھ اٹھنے والے سوالات کا جواب خود ماں باپ کے ذریعے ہی مل جاتا ہے۔۔۔
 
ہزاروں سال سے دنیا میں انسان بس رہے ہین، کبھی کسی ملک میں کسی کلچر میں سکول کی سطح پر لازمی یا اختیاری مضمون کے طور پر جنسیات کی تعلیم نہیں دی گئی۔۔۔ تو اب ایسی کونسی افتاد نازل ہوگئی ہے کہ اسے اسکولوں میں ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جائے؟۔۔۔ ۔میں تو اس تجویز سے اتفاق نہیں کرتا ۔
سیدھی سی بات ہے کہ آپ اپنے بچوں کے ساتھ مناسب رابطے میں رہیں کوئی comunication gapنہ ہو، تو پچوں کے ذہن میں عمر کے ساتھ ساتھ اٹھنے والے سوالات کا جواب خود ماں باپ کے ذریعے ہی مل جاتا ہے۔۔۔
حضور میری معلومات کے مطابق جنسیات مغرب میں، اور مشاہدات کے مطابق کم از کم ایران میں تو شامل نصاب ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ماں باپ سے بھی رابطہ ہوگا لیکن کوئی اس ڈھنگ کا موضوع نکلے تو ناں؟!
 

زیک

مسافر
میرا تو خیال ہے کہ نصاب سے حیاتیات کو بھی نکال باہر کیا جائے کہ اس میں بھی جنسیات ہوتی ہے۔
 
ذہن میں سوال پیدا ہونے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔۔۔۔اب اگر تین سال کا بچہ اپنے ماں باپ سے پوچھے کہ "ہمارا نیا بھائی کہاں سے آیا؟" تو ماں باپ کو اسکی عمر کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جواب دینا بہتر ہوگا؟ ایسا جواب جس سے وہ مطمئن ہوجائے۔۔۔؟
ایک بار پھر کوشش کرتا ہوں پوچھنے کی۔

اس تعلیم کے لئے کون سی عمر مناسب سمجھی جائے؟

اس سوال کا جواب ملے تو کچھ لکھوں۔
 
آخری تدوین:
ہمارے دور میں تو ایسے سوال کا بڑا خوبصورت ، شاعرانہ اور تخیل کو مہمیز دینے والا جواب دیا جاتا تھا۔۔۔جس سے بچے کا معصوم ذہن مطمئن بھی ہوجاتا تھا اور کسی قسم کا منفی ردعمل بھی جنم نہیں لیتا تھا۔۔۔۔لیکن اب کیا فرماتے ہیں دانشمندانِ جہاں بیچ اس مسئلے کے۔۔۔۔:D
 
میں امید کررہا تھا کہ اس سوال کا جواب وہ افراد دیں گے جو اس خیال کی مخالفت کرتے ہیں۔ جس کے جواب میں ، میں ان سے پوچھتا کہ بھائی پھر قرآن حکیم پڑھانے کے لئے بھی اسی عمر کا تقاضا کیوں نہیں کیا جاتا۔ لیکن اب یہ بات رہی ہی نہیں۔ جواب زیک کی طرف سے آیا جو کہ اس تعلیم کے فروغ کے خیال سے متفق ہیں۔

چونکہ جنسی تعلیم کو عام طور پر مذہبی نکتہ نظر سے دیکھا جاتا ہے اور کسی طور یہ تصور کرلیا جاتا ہے کہ مذہب جنسی تعلیم کا مخالف ہے۔ جبکہ مسلمان کے لئے اللہ تعالی کا کلام قرآن حکیم ، مناسب وضاحت سے جنسی تعلیم فراہم کرتا ہے۔ کچھ لوگوں کے لئے قرآن حکیم قابل قبول نہیں۔ لیکن وہ لوگ جو ایمان رکھتے ہیں، ان کے لئے اولین ذریعہ ہدایت قرآن حکیم ہی ہے۔ یہ نکات ان ہی لوگوں کے لئے ہیں جو اللہ تعالی کے کلام پر ایمان رکھتے ہیں۔ چونکہ بچوں کو ایک خاص عمر کے دوران قرآن حکیم عام طور پر پڑھایا جاتا ہے ، لہذا جنسی تعلیم حاصل کرنے کی عمر بھی وہی قرار پائی جو قرآن حکیم پڑھنے کی عمر عام طور پر سمجھی جاتی ہے۔

آئیے دیکھتے ہیں ہم کو قرآن حکیم سے کیا معلومات ملتی ہیںِ؟ کیا اس تعلیم کے لئے کوئی خاص عمر مقرر ہے؟

1۔ قران سمجھنے کے لئے آسان ہے اور اللہ تعالی حق کی ہدیات کرتا ہے۔
54:17 اور البتہ ہم نے تو سمجھنے کے لیے قرآن کو آسان کر دیا پھر کوئی ہے کہ سمجھے
10:35 تم فرماؤ تمہارے شریکوں میں کوئی ایسا ہے کہ حق کی راہ دکھائے تم فرماؤ کہ اللہ حق کی راہ دکھاتا ہے، تو کیا جو حق کی راہ دکھائے اس کے حکم پر چلنا چاہیے یا اس کے جو خود ہی راہ نہ پائے جب تک راہ نہ دکھایا جائے تو تمہیں کیا ہوا کیسا حکم لگاتے ہو

7:189 -اور وہی (اللہ) ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا فرمایا اور اسی میں سے اس کا جوڑ بنایا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے، پھر جب مرد نے اس (عورت) کو ڈھانپ لیا تو وہ خفیف بوجھ کے ساتھ حاملہ ہوگئی، پھر وہ اس کے ساتھ چلتی پھرتی رہی، پھر جب وہ گراں بار ہوئی تو دونوں نے اپنے رب اللہ سے دعا کی کہ اگر تو ہمیں اچھا تندرست بچہ عطا فرما دے تو ہم ضرور شکر گزاروں میں سے ہوں گے

24:30 آپ مومن مَردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں، یہ ان کے لئے بڑی پاکیزہ بات ہے۔ بیشک اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو یہ انجام دے رہے ہیں

2:187 تمہارے لیے روزوں کی راتو ں میں اپنی عورتوں سے مباثرت کرنا حلال کیا گیا ہے وہ تمہارے لیے پردہ ہیں اورتم ان کے لیے پردہ ہو الله کو معلوم ہے تم اپنے نفسوں سے خیانت کرتے تھے پس تمہاری توبہ قبول کر لی اور تمہیں معاف کر دیا سو اب ان سے مباثرت کرو اور طلب کرو وہ چیز جو الله نے تمہارے لیے لکھدی ہے اور کھاؤ اور پیو جب تک کہ تمہارے لیے سفید دھاری سیادہ دھاری سے فجر کے وقت صاف ظاہر ہو جاوے پھر روزوں کو رات پورا کرو اور ان سے مباثرت نہ کرو جب کہ تم مسجدوں میں معتکف ہو یہ الله کی حدیں ہیں سو ان کے قریب نہ جاؤ اسی طرح الله اپنی آیتیں لوگوں کے لیے بیان کرتا ہے تاکہ وہ پرہیز گار ہو جائیں

49:13 ا ے لوگو ہم نے تمہیں ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے خاندان اور قومیں جو بنائی ہیں تاکہ تمہیں آپس میں پہچان ہو بے شک زیادہ عزت والا تم میں سے الله کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے بے شک الله سب کچھ جاننے والا خبردار ہے

36:77 کیا انسان نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے ایک تولیدی قطرہ سے پیدا کیا، پھر بھی وہ کھلے طور پر سخت جھگڑالو بن گیا

23:13 پھر اسے نطفہ (تولیدی قطرہ) بنا کر ایک مضبوط جگہ (رحمِ مادر) میں رکھا

75:37 کیا وہ (اپنی اِبتداء میں) منی کا ایک قطرہ نہ تھا جو (عورت کے رحم میں) ٹپکا دیا جاتا ہے

13:8 الله کو معلوم ہے کہ جو کچھ ہر مادہ اپنے پیٹ میں لیے ہوئے ہے اورجو کچھ پیٹ میں سکڑتا اور بڑھتا ہے اور اس کے ہاں ہر چیز کا اندازہ ہے

تولیدی تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن حکیم نکاح اور طلاق کے بارے میں معلومات اور ہدایت فراہم کرتا ہے ۔ یہ معلومات بہت عام ہیں بلکہ مسلمانوں کا مظبوط خاندانی نظام یا مسلم عائلی قوانین ان ہی اصولوں کی بنیاد پر قائم ہیں۔

اس تعلیم میں سے کون سی تعلیم ایسی ہے جو کہ بچوں کو ایک مناسب عمر میں فراہم نہیں کی جاسکتی؟
 
اس تعلیم میں سے کون سی تعلیم ایسی ہے جو کہ بچوں کو ایک مناسب عمر میں فراہم نہیں کی جاسکتی؟
ساس بات کو تجاہلِ عارفانہ ہی کہا جسکتا ہے۔۔۔۔آپ کو اچھی طرح علم ہے کہ عموماّ گیارہ سے بارہ سال کا بچہ قرآنِ پاک کے حوالے سے یا تو ناظرہ کا طالب علم ہوتا ہے یا حفظ کا۔ دونوں صورتوں میں اس عمر کے بچوں کو ترجمہ و تفسیر نہیں پڑھائی جاتی بلکہ صرف قرآن پڑھنا سکھلایا جاتا ہے۔۔۔چنانچہ اس بات کو بنیاد بنا کر سکولوں میں جنسیات کی لازمی تعلیم بچوں پر مسلط کرنا، بالکل غیر منطقی بات ہے۔۔۔کوئی اور دلیل تلاش کیجئے
 
Top