جناح پور

جناح پور وقت کی ضرورت ہے؟


  • Total voters
    29
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمد امین

لائبریرین
بھائی کوٹہ سسٹم کیوں ہے،کبھی ان عوامل پر بھی غور کریں،اگرچہ میں خود کوٹہ سسٹم کے حق میں نہیں ہوں۔
میرے پاس کام کے سلسلے میں کچھ لوگ کراچی سے بھی آتے ہیں،ان میں اردو اسپیکنگ زیادہ ہیں،ان کے مطابق کراچی کی سیاست نے اردو اسپیکنگ نوجوانوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے،امتحانوں میں نقل اور بوٹی کے زریعے پاس تو ہو جاتے ہیں لیکن کسی بھی جگہ اپلائی کرتے ہیں تو پہلے ٹیسٹ میں ہی ناکام ہو جاتے ہیں،اس کا زمہ دار دیہی سندھ والے تو ہرگز نہیں ہو سکتے،فوج میں آج بھی آفیسرز کا تعلق زیادہ تر اردو اسپیکنگ لوگوں سے ہے،ایک بات کی وضاحت کر دوں اردو اسپیکنگ کی میں بھی ریسپکٹ کرتا ہوں،بہت مہذب اور سلجھے ہوئے لوگ ہیں،مجھ ایم کیو ایم سے اصولی اختلاف ہے ورنہ پنجاب میں بھی بڑی تعداد اردو اسپیکنگ کی ہے،سب اچھے دوست ہیں۔
ایک اور بات میں نے ایسا سنا ہے کہ جو سہولیات اربن سندھ کے لوگوں کو ملتی ہیں دیہی سندھ والے ان سے بہت دور ہیں،اربن سندھ میں تعلیم،صحت اور دوسری تمام سہولیات موجود ہیں،کیا کوٹہ سسٹم کی یہ وجہ تو نہیں ہے،اگر یہ وجہ بھی ہے تو مناسب نہیں کہا جا سکتا۔

بالکل آپ کی بات سے سو فیصد اتفاق۔ ظاہر ہے میری بات کے تناظر میں جز کوکُل پر منطبق نہیں کیا جاسکتا، نہ ہی میرا مقصد تھا۔ اور میں اس لفظ اردو اسپیکنگ سے بھی اختلاف رکھتا ہوں۔ مسئلہ اردو اسپیکنگ کا نہیں ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا، میرے ناناجان کا تعلق پنجاب سے ہے اور ایک ادبی و علمی گھرانے سے متعلق ہیں۔ خاندان بھر میں اردو بولی جاتی ہے، رشتہ دار کراچی سے لے کر ملتان، لاہور اور پنڈی تک موجود ہیں۔ تو نہ مہاجرہی کہہ کر مخصوص کیا جائے نہ اردو اسپیکنگ کہہ کر لسانی طور پر فرق کیا جائے۔ بات صرف شہر کی ہے گو کہ لسان اور ہجرت کا فیکٹر بھی اہم ہے۔ رہی بات اردو اسپیکنگ کی تو اردو کی جتنی خدمت و پرداخت پاکستانی پنجاب میں ہوئی شاید ہی کسی اور خطے میں ہوئی ہو۔

میں اس بات کا ہمیشہ پرچار کرتا ہوں کہ اندرونِ سندھ اور دوسرے چھوٹے شہروں میں ترقیاتی کام کیے جائیں، صنعتیں لگائی جائیں، اعلیٰ معیار کے تعلیمی ادارے ہوں تاکہ ان بیچاروں کو لاہور، کراچی جیسے بے رحم شہروں میں دھکے نہ کھانے پڑیں۔ مگر بات کچھ اور ہے۔ مخصوص طبقات سے میری مراد پنجابی یا سندھی بھائی نہیں بلکہ سیاسی طور پر مفاد پرست عناصر جو کہ لامحالہ تعلق انہی علاقوں سے رکھتے ہیں۔کراچی میں تو بڑے پیمانے پر دوسرے علاقے کے لوگوں کو روزگار ملتا ہے کوٹے پر سرکاری اداروں میں مگر کراچی والوں کو پنجاب اور سندھ کی ملازمتوں میں کوٹا ایک فیصد بھی نہیں ملتا۔بالکل صفر۔

حال ہی میں کے ای ایس سی کے ملازمین کو نکالا گیا تھا۔ یہ وہ ملازمین تھے جو نجکاری سے پہلے "اے این پی" کے دباؤ پر بھرتی کروائے گئے تھے۔ کچھ اور جماعتوں کے بھی تھے مگر اکثریت اسی جماعت کے لوگوں کی تھی۔ تو جناب آپ نے دیکھا کس طرح پورے کراچی کی بجلی کو یرغمال بنایا تھا اب مفاد پرستوں نے قومیت کے نام پر؟ احتجاج ہوئے، گرڈ اسٹیشنز کو آگ لگائی گئی۔ گرڈ اسٹیشنز اسلحے کے زور پر شٹ ڈاؤن کروائے گئے۔ اور نام کس پر آئے گا؟؟ ہمارے معصوم اور پرخلوص پٹھان بھائیوں پر، صرف معدودے چند بدمعاش اے این پی والوں کی حرکتوں سے۔

رہی بات کوٹے کی تو اس میں غریب دیہاتی قصوروار نہیں، وہ وڈیرا شاہی، جاگیردار برادری اور اور دیہی سیاست دان ملوث ہیں جو دیہات تو دیہات، شہروں میں بھی اپنی چودھراہٹ قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ آپ دیکھیے، یہی قرآن سر پر رکھ کرالزامات لگانے والے مرزا صاحب، ایک وقت تھا کہ صرف ایک جاگیردار تھے بدین کے اور نقل پاس ڈوکٹر (اس کا اعتراف خود انہوں نے کیا)۔ زرداری صاحب کی مہربانی سے شوگر مل کے مالک اور کراچی کے امیر ترین علاقے میں کوٹھی کے مالک ہیں اور اپنے گھر کے سامنے کی پوری سڑک حفاظت کے واسطے بند کروادی۔میں ایسے وڈیروں کو قصوروار ٹھہراتا ہوں، دیہاتیوں اور شہریوں دونوں کے حقوق کے غصب کا۔

اور افواج۔تو جناب میں نے پاک فضائیہ کے زیرِ نگرانی ایک جامعہ سے انجینئرنگ کی ہے۔ آرمی اور فضائیہ میں میرے بہت قریبی دوست موجود ہیں جن کی تفصیلات یہاں دینا مناسب نہیں اور کچھ کے والد حضرات تو اعلیٰ ترین رینکس پر۔ عرض یہ کرنا ہے کہ ان سب کے بقول کراچی والوں کو "پریفر" نہیں کیا جاتا۔ اور ان سب میں سے ۹۰ فیصد لوگ پنجابی ہیں یا سندھی۔۔۔اور میرے بہت ہی عزیز دوست ہیں۔ ایک دوست سے فوج کے انٹرویو میں حقارت کے ساتھ یہ پوچھا گیا تھا: "تم لوگ پاکستان کب آئے؟" کیا ایک پاکستانی سے یہ سوال زیب دیتا ہے کہ اس نے پاکستان بنانے کے لیے ہجرت کب کی؟ آپ کسی بھی مستند ذریعے سے تصدیق کرلیں، افواج میں پنجاب کے بھائیوں کا تناسب کتنا ہے۔ اور یہ انگریز کی ضرورت تھی جسے اس نے ایکسپلوئٹ کیا۔

امید ہے میں اپنا ما فی الضمیر عرض کرنے میں کامیاب ہوں۔ اور آپ مجھے تنگ نظر اور متعصب کے خطابات سے نہیں نواز رہے ہونگے۔ بات ہے فقط محسوس کرنے کی۔ Walking in someone's shoes والی ہی بات ہے۔

تمام علاقوں کے لوگوں کو مساوی تعلیم، صحت، روزگار کے مواقع حاصل ہوں اور ترقی کا تناسب یکساں ہو۔ اور پھر کوٹے کے بجائے میرٹ نافذ ہو۔ جو کہ ہمیشہ سے ضروری رہا ہے کیوں کہ کھچڑی پکنے میں اس چیز کا بڑا ہاتھ ہے۔

میری کسی بات سے کسی بھائی یا بہن کا دل دکھتا ہو تو دست بستہ معذرت خواہ ہوں کیوں کہ تعصب میرا مقصد نہیں اور نفرت میرا شیوہ نہیں۔

فقط
محبتوں کا امین۔
 

عثمان

محفلین
بلاشبہ فوج میں اکثریت پنجابیوں اور پٹھانوں کی ہے۔ آپ نے اگرچہ پٹھانوں کی بجائے سندھی لکھا ہے۔ لیکن بہرحال تسلیم ہے کہ فوج کی نوے فیصد اکثریت پنجابیوں ، پٹھانوں اور سندھیوں ہی کی ہے۔ لیکن یہ تناسب محض فوج ہی کا نہیں ، پاکستان کی کل آبادی میں بھی ان تین اقوام کا تناسب قریب قریب نوے فیصد ہی ہے ! اگر مسئلے کا حل عددی کوٹہ سے نکالنے کی کوشش کی جائے تو مذکورہ بالا فگر "جائز" ہی ٹھہرے گا۔
لیکن آپ کے اکثر و بیشتر نقاط سے اتفاق ہے۔ یہ بھی درست کہ پاکستان کا ایک بہت بڑا مسئلہ وسائل کی غیر مساوی اور غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ اور حل اس کا کسی قسم کے کوٹے کی بجائے خالص میرٹ ہونا چاہیے۔ :)
 

محمد امین

لائبریرین
بلاشبہ فوج میں اکثریت پنجابیوں اور پٹھانوں کی ہے۔ آپ نے اگرچہ پٹھانوں کی بجائے سندھی لکھا ہے۔ لیکن بہرحال تسلیم ہے کہ فوج کی نوے فیصد اکثریت پنجابیوں ، پٹھانوں اور سندھیوں ہی کی ہے۔ لیکن یہ تناسب محض فوج ہی کا نہیں ، پاکستان کی کل آبادی میں بھی ان تین اقوام کا تناسب قریب قریب نوے فیصد ہی ہے ! اگر مسئلے کا حل عددی کوٹہ سے نکالنے کی کوشش کی جائے تو مذکورہ بالا فگر "جائز" ہی ٹھہرے گا۔
لیکن آپ کے اکثر و بیشتر نقاط سے اتفاق ہے۔ یہ بھی درست کہ پاکستان کا ایک بہت بڑا مسئلہ وسائل کی غیر مساوی اور غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ اور حل اس کا کسی قسم کے کوٹے کی بجائے خالص میرٹ ہونا چاہیے۔ :)

میں نے یہ لکھنا چاہا تھا کہ میرے افواج سے متعلق دوست پنجابی اور سندھی ہیں۔۔۔ :happy:
 

محمد امین

لائبریرین
بلاشبہ فوج میں اکثریت پنجابیوں اور پٹھانوں کی ہے۔ آپ نے اگرچہ پٹھانوں کی بجائے سندھی لکھا ہے۔ لیکن بہرحال تسلیم ہے کہ فوج کی نوے فیصد اکثریت پنجابیوں ، پٹھانوں اور سندھیوں ہی کی ہے۔ لیکن یہ تناسب محض فوج ہی کا نہیں ، پاکستان کی کل آبادی میں بھی ان تین اقوام کا تناسب قریب قریب نوے فیصد ہی ہے ! اگر مسئلے کا حل عددی کوٹہ سے نکالنے کی کوشش کی جائے تو مذکورہ بالا فگر "جائز" ہی ٹھہرے گا۔
لیکن آپ کے اکثر و بیشتر نقاط سے اتفاق ہے۔ یہ بھی درست کہ پاکستان کا ایک بہت بڑا مسئلہ وسائل کی غیر مساوی اور غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ اور حل اس کا کسی قسم کے کوٹے کی بجائے خالص میرٹ ہونا چاہیے۔ :)

عثمان بھائی کیا اس فگر کو آپ کراچی میں تعینات پولیس کے لیے جائز قرار دیں گے؟ کراچی پولیس میں مقامی اور غیر مقامی اہلکاروں کے تناسب میں غیر مقامی بھائی بھاری مارجن سے جیت جاتے ہیں۔۔ اور جب کراچی کے تھانوں میں ناکردہ گناہوں پر ان غیر مقامی اہلکاروں کی ننگی ننگی گالیاں اور چھتر پڑتے ہیں تو مقامی افراد میں بغاوت اور نفرت نہ پیدا ہو تو کیا ہو؟؟
 

عثمان

محفلین
عثمان بھائی کیا اس فگر کو آپ کراچی میں تعینات پولیس کے لیے جائز قرار دیں گے؟ کراچی پولیس میں مقامی اور غیر مقامی اہلکاروں کے تناسب میں غیر مقامی بھائی بھاری مارجن سے جیت جاتے ہیں۔۔ اور جب کراچی کے تھانوں میں ناکردہ گناہوں پر ان غیر مقامی اہلکاروں کی ننگی ننگی گالیاں اور چھتر پڑتے ہیں تو مقامی افراد میں بغاوت اور نفرت نہ پیدا ہو تو کیا ہو؟؟
میرے بھائی میں فگر کو جائز قرار نہیں دے رہا۔ بلکہ میں نے اپنے مراسلے میں جائز کو واوین میں لکھ کر اپنی لاتعلقی کا اظہار واضح کیا ہے۔ :) آپ کے نقاط درست ہیں، کراچی کی انتظامیہ میں کراچی کے ہی شہری ہونے چاہیں۔ نیز کسی قسم کے کوٹہ کی بجائے خالص میرٹ چلنا چاہیے۔:)
 

عثمان

محفلین
ایک دو باتیں واضح کردوں :
میں صوبہ پنجاب کی تقسیم کے حق میں ہوں۔ پنجاب کے کم از کم دو یا تین حصے ہونے چاہیں۔ ہر لحاظ سے یہ اب ناگزیر ہوچکا ہے۔ تقسیم کا سب سے پہلا فائدہ بھی اسی صوبے کے پسے ہوئے عوام ہی کو ہوگا۔
جن صاحب نے یہ دھاگہ شروع کیا ہے ان کے نزدیک "جناح پور" کا نقشہ ایک ایسی آزاد ریاست کا ہے جو کافی حد تک ریاست پاکستان کے اثر سے باہر ہو۔ وہ غالبا متحدہ عرب امارت کی طرز پر کراچی یعنی "جناح پور" کا پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں۔ صوبے کی انتظامی بنیادوں پر تقسیم اور ایک نیم آزاد ریاست کا شوشہ چھوڑنا دو مختلف باتیں ہیں۔:)
 

محمد امین

لائبریرین
اسی لیے میں نے رائے شماری میں "نہیں" پر کلک کرنے کو بھی مناسب نہیں سمجھا۔۔۔

اور ایک بات مجھے سمجھ نہیں آتی۔۔۔ لوگ مزید صوبے بنانے تو پاکستان توڑنا اور "صوبہ توڑنا" کیوں کہتے ہیں۔۔۔پاکستان اور سندھ یا پنجاب کو توڑنا ایک الگ بات ہے اور بہتر انتظام کے لیے مزید صوبے بنانا ایک الگ بات۔

لسانیت کی بات کر کے خود ہی تعصب کو فروغ دیتے ہیں لوگ۔ حالانکہ اگرسرائیکی بیلٹ اور اندرونِ سندھ کو بھی الگ الگ صوبہ بنا دیا جائے تو وہاں بے مثال ترقی دیکھنے میں آسکتی ہے۔ کیوں کہ ابھی تو دارالخلافے بالترتیب لاہور اور کراچی ہیں۔ یعنی تمام ادارے بشمول حکومت اور عدلیہ انہی دو شہروں میں ہیں۔ پھر اگر اندرونِ سندھ کا دارلخلافہ نوابشاہ یا کوئی دوسرا شہر ہوا تو Circle of Influence زیادہ اثر رکھے گا وہاں کے ارد گرد پر۔۔۔
 

عثمان

محفلین
یقیناً نئے صوبے بنانا ، ریاست کے اندر صوبوں کی زیادہ سے زیادہ خود مختاری ، انتظامی اعتبار سے علاقوں کی ترتیب نو عوام کے حق میں ہوگی۔ لیکن پھر خواص کو کیا ملے گا؟ :) لہذا خواص چکر دیتے رہیں گے۔ سادہ بلکہ بیوقوف عوام خواص سے چکر کھاتے رہیں گے۔ :)
 
اپ لوگوں نے ایک بات ضرور نوٹ کی ہوگی کہ ایم کیو ایم ائین میں 20 ترمیم پیش کررہی ہے تاکہ صوبوں کی تقسیم کا مسئلہ حل ہو مگر ہڑتال جسقم کررہی ہے۔ حیرت انگیز طور پر سندھی قوم پرست پہلی مرتبہ گریٹر پنجاب کی رکھوالی کررہے ہیں۔
یہیں وہ یہ بھی ثابت کررہے ہیں کہ سندھ ی تقسیم کسی صورت برداشت نہیں۔ ایم کیوایم بھی یہی کہتی ہے مگر کب تلک؟ جلد ہے جناح پور کو دیو بوتل سے باہر ہوگا۔
 

محمد امین

لائبریرین
سندھی قوم پرست اس لیے شور مچا رہے ہیں کہ کل کو سندھ کی باری نہ آجائے۔۔۔ اور ایم کیو ایم در اصل پنجاب اور ہزارہ کی بات پہلے اسی لیے کر رہی ہے کہ بعد میں کراچی کی باری آسکے۔۔

لیکن اگر انصاف پسند نظر سے دیکھا جائے تو کراچی کو الگ صوبے کے بجائے ایک الگ انتظامی علاقہ بننا چاہیے جو کہ وفاق کے زیرِ انتظام ہو، تجارتی دارالخلافہ کے طور پر۔۔۔
 
کراچی کو وفاق کے زیر انتظام ایک نیم خودمختار تجارتی دارالخلافہ کی تجویز بہت اچھی ہے۔ مگر اسپر سندھ کے لوگ خون کی ندیاں بہانےکے بات کرتے ہیں۔ درحقیقت اندرون سندھ کراچی کو چھوڑ نہیں سکتے۔ مگر قبول بھی نہیں کرتے۔
اس صورت میں انتہائی حل جناح پور ہی ہے۔ یہی اس مسئلے کا منطقی حل ہے۔ اج نہیں تو کل۔
 

محمد امین

لائبریرین
جناح پور کیوں؟ کراچی ہی کیوں نہیں؟؟ اصل میں کراچی اب اکثریتی مہاجرین کا علاقہ نہیں رہا۔۔ نسل در نسل، اور ملکی ہجرت نے اس شہر کو ایک خوبصورت گلدستے کی طرح عالمی افق پر پیش کیا ہے۔ یہ شہر کسی بھی قومیت کی ملکیت نہیں۔۔ جغرافیائی طور پر تو یہ سندھ کا بھی حصہ نہیں بلکہ بڑا حصہ تو بلوچستان کے ساتھ ہے۔ اسے ایک الگ وفاقی علاقے کی حیثیت دینی چاہیے اور آئین میں اس کا ذکر بھی ہونا چاہیے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
میری دانست میں ہر وہ کام کیا جانا چاہیے جو قوم پرستی اور فرقہ واریت کو دبا دے اور ہر اس کام سے بچنا چاہیے جو قوم پرستی اور فرقہ واریت کو ہوا دے۔اگر صوبے بنانے ہیں تو وہ بھی انتظامی بنیاد پر بنائیں جائیں نہ کہ لسانی اور نسلی بنیادوں پر۔

اگر واقعی کسی کو قوم پرستی کا شوق ہے تو پھر وہ پاکستانی قومیت کا دم بھرے۔یہ رنگ برنگے پرچموں کے پیچھے چھپ کر ملک دشمنی سے گریز ہی کیا جائے تو بہتر ہے اور اس میں ہم سب کی بہتری ہے۔
 
میں بھی متفق ہوں
جناح پور ایک نام ہے یہ کچھ اور بھی ہوسکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان کراچی اور ملحقہ علاقوں کا ایک مرکز بننے سے صرف مضبوط ہوگا
 

مہوش علی

لائبریرین
مسائل اور حالات تقاضا کرتے ہیں کہ نئے صوبے قیام میں لائے جائیں۔
مگر پاکستان میں یہ ایک سیاسی مسئلہ بنا دیا گیا ہے اور یہ مفادات کی جنگ بن چکی ہے۔

بہرحال، میں سمجھتی ہوں کہ پہلے مرحلے میں ہمیں نئے صوبوں کی بجائے توانائی "ضلعی حکومت" کے قیام پر لگانی چاہیے۔ انتظامی اختیارات اگر ضلعی سطح پر تقسیم ہو جائیں تو نئے صوبوں کے آدھے سے زیادہ مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔

میری رائے میں ضلعی نظام حکومت بنیادی طور پر "صوبائی حکومت" کو بے اثر کر دے گا۔ اور صوبائی حکومت فقط اور فقط "قانون سازی" تک محدود ہو جائے گی۔ وڈیرے اور جاگیردار فی الحال صوبائی اسمبلی میں اس لیے آتے ہیں کیونکہ وہ "قانون سازی" سے زیادہ "حکومت سازی" اور ترقیاتی فنڈز میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ مگر ہم دیکھ چکے ہیں کہ مشرف صاحب کے دور مین ترقیاتی فنڈز ضلعی حکومت کو منتقل ہوئے تو بہت سے جاگیرداروں نے صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہو کر ضلعی حکومتی انتخابات میں حصہ لیا ۔ ۔۔۔۔۔ ہمیں زمینداروں کی اس ذہنیت سے اور اس تجربے سے بہت اہم سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔

نئے صوبوں کی بات اس لیے کی جا رہی ہے کیونکہ ان علاقوں کی عوام کو شکایت ہے کہ انکی قسمت خود انکے ہاتھ میں نہیں ہے۔ لیکن ضلعی نظام کے بعد یہ شکایت خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔

تمام چیزوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، مجھے لگتا ہے کہ ضلعی نظام وہ چیز ہے کہ جس سے سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ اس لیے میری خواہش ہے کہ متحدہ قیادت نئے صوبوں کی بجائے ضلعی حکومتوں کے قیام پر زیادہ زور دے۔
 
بنیادی طور پر میں اپکی بات سے متفق ہوں۔
مگر ضلعی حکومت جو مشرف نے قائم کی تھیں پیپلز پارٹی نے ان پر پانی پھیر دیا ہے۔ اور اب الیکشن بھی نہیں ہونے دیتی۔ ضلعی حکومتوں کو پیپلز پارٹی نے اور ن لیگ نے عملا ناکارہ کردیا ہے۔

پھر ضلعی حکومتوں کے اختیارات محدود ہیں۔ وہ ایسے پروجیکٹز نہیں شروع کرسکتیں جن سے قوم کھڑی ہوسکے۔ یہ بات واضح ہے کہ پاکستان میں کوئی پاکستان کو بنانے کا کام کرسکتا ہے تو وہ کراچی کے عوام ہیں۔ اگر انھیں کچھ اختیارات دے دیجیے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ سنگاپور اور ہانگ کانگ کو پیچھے نہ چھوڑ دیں۔ اسکا براہ راست فائدہ پاکستان کو پہنچے گا۔
باقی پاکستان یا تو برادری ، جاگیر داری میں جکڑا ہوا ہے یا تعصبات میں یا غیر تعلیم یافتہ ہے۔ صرف پنجاب سے کچھ امید ہے مگر وہاں بھی بہت تعصب ہے۔ بلکہ برائی کی اصل جڑ پنجاب ہی ہے۔ وہاں اچھائی جب پنپ سکتی ہے جب پنجاب کی تقسیم ہو اور کئی صوبے وجود میں اجاویں
 

محمداحمد

لائبریرین
یہ بات واقعی ٹھیک ہے کہ ضلعی حکومتوں کا نظام بہت بہتر تھا اور اس کی کارکردگی بھی حوصلہ افزا رہی۔

رونا یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر بات پر سیاست ہوتی ہے سو اس پر بھی ہوئی۔ مسلم لیگ ن نے ضلعی حکومتوں کی مخالفت محض اس لئے کی کہ اس میں ق لیگ کی اکثریت تھی اور یہ بات اُنہیں گوارا نہیں تھی سو انہوں نے اس نظام کو ہی مسترد کردیا۔سندھ میں موجود وڈیرہ شاہی نے بھی ضلعی حکومتوں کے باعث کھل کھیلنے میں دشواری محسوس کی تو سندھی قوم پرستی کو ہوا دے کر اس نظام کے مخالف ہوگئے۔

صرف اس وجہ سے کہ مقامی حکومتوں کا نظام مشرف صاحب لے کر آئے، اس نظام کی مخالفت کرنا ملک دشمنی ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ملک و ملت کے خیرخواہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں سو تمام تر سیاست ذاتی مفادات کے گرد ہی گھومتی نظر آتی ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top