جناح (قائدِ اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ) اور تقسیمِ ہند - جسونت سنگھ

arifkarim

معطل
تقسیم ہند کا سب سے زیادہ نقصان یہاں بسنے والے مسلمانوں کا ہوا ہے. جو سیاسی، سماجی، اقتصادی قوت وہ ایک بھارتی جمہوری ملک میں رہتے ہوئے ادا کر سکتے تھے، وہ آج بنگلہ دیش، کشمیر اور پاکستان میں بٹ کر نہیں کر سکتے. آج بلوچی مسلمان آزادی آزادی کے نعرے لگا رہے ہیں. کراچی کے مسلمان اپنی الگ ریاست بنانے کے خواہاں ہیں اور ہم ابھی تک کشمیری کی رومانیوں میں کھوئے ہوئے ہیں. مسلمان حکومتوں کا خلافت راشدہ کے بعد یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی ہی ٹانگیں کھینچتی رہتی ہیں. بھارت میں آج بھی اسلام دوسرا بڑا مذہب ہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Islam_in_India
 

ظفری

لائبریرین
جب ہم پاکستان کے حوالے سے ہندوستان کی تقسیم کے مخصوص پس منظر میں بحث کرتے ہیں تو تحریک ِ پاکستان کی دو جہتیں نمایاں ہوجاتیں ہیں ۔ جو ایک حساب سے مختلف بھی تھیں ۔ ایک تو یہ کہ قائدِ اعظم کا نکتہ یہ تھا جو قراردادِ پاکستان کی صورت میں سامنے آیا کہ ہندو اور مسلمان دو کمیونیٹیز نہیں دو مختلف قومیں ہیں ۔ اور ان کی سیاسی ترجیحات اور مشکلات کو حل کرنا بین الاقوامی ایشو ہے ۔ دوسری جہت یہ تھی کہ جو مسلم اکثریت کے علاقے ہیں کم از کم وہاں بسنے والے مسلمانوں کی سماجی ، معاشی اور مذہبی زندگی میں ایک مثبت تبدیلیاں لانا اور ایک عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانا مقصود تھا ۔ ایسی کئی مثالیں قائدِ اعظم کے ارشادات میں مل جاتیں ہیں کہ مثال کے طور پر ایک دفعہ قائدِ اعظم نے چند کسانوں کو کھیتوں میں کام کرتے ہوئے دیکھا جو انتہائی کمسپری کی حالت میں تھے ۔ قائدِ اعظم نے ان کو دیکھ کر کہا کہ اگر پاکستان میں اسی طرح کی غربت ہوگی تو میں ایسے پاکستان کے حق میں نہیں ہوں ۔

ہندوستان کی تقسیم کے قطع ِ نظر ہماری سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر جو ایشو چل رہا تھا وہ 1947 میں حل ہوگیا کہ پاکستان بن گیا ۔ لیکن دوسری جو جہت تھی وہ میری نظر میں مکمل نہیں ہوئی ۔ اور اس کی وجہ سے خرابیاں در خرابیاں پیدا ہوتیں چلیں گئیں ۔ہمارا وہ اتحاد جو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہو اتھا وہ تو کام میں آگیا مگر وہ اتحاد اور وعدہ جس میں ہمیں ایک عام آدمی کو خوشحال زندگی گذارنے کے اسباب فراہم کرنے تھے اس پر ہمارا اتحاد قائم نہیں رہ سکا ، ہم اپنے وعدے کی پاسداری نہیں کرسکے ۔ نظریہ سازی کا عمل قوم کے سانس لینے کے عمل کے ساتھ چلتا ہے ۔ ہر عشرے میں قوم کو اپنی ترجیحات پر غور کرنا پڑتا ہے ۔ اور اس کے لیئے ایک لائحہِ عمل بھی ضروری ہوتا ہے جو کہ ہر قوم کے لیئے ضروری ہوتا ہے جیسا کہ اقبال نے کہا تھا کہ ”
جہانِ تازہ سے افکارِ تازہ کی نمود
پاکستان ہم کو مل گیا تھا اور ہم کو جو افکارِ تازہ چاہئیے تھے اور پھر ان افکار ِ تازہ کو حاصل کرنے جو آزادی چاہیئے تھی وہ غالباً راستے میں کہیں کھو گئی. بلکہ یرغمال بنا لی گئی .
 

کاشفی

محفلین
جب ہم پاکستان کے حوالے سے ہندوستان کی تقسیم کے مخصوص پس منظر میں بحث کرتے ہیں تو تحریک ِ پاکستان کی دو جہتیں نمایاں ہوجاتیں ہیں ۔ جو ایک حساب سے مختلف بھی تھیں ۔ ایک تو یہ کہ قائدِ اعظم کا نکتہ یہ تھا جو قراردادِ پاکستان کی صورت میں سامنے آیا کہ ہندو اور مسلمان دو کمیونیٹیز نہیں دو مختلف قومیں ہیں ۔ اور ان کی سیاسی ترجیحات اور مشکلات کو حل کرنا بین الاقوامی ایشو ہے ۔ دوسری جہت یہ تھی کہ جو مسلم اکثریت کے علاقے ہیں کم از کم وہاں بسنے والے مسلمانوں کی سماجی ، معاشی اور مذہبی زندگی میں ایک مثبت تبدیلیاں لانا اور ایک عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانا مقصود تھا ۔ ایسی کئی مثالیں قائدِ اعظم کے ارشادات میں مل جاتیں ہیں کہ مثال کے طور پر ایک دفعہ قائدِ اعظم نے چند کسانوں کو کھیتوں میں کام کرتے ہوئے دیکھا جو انتہائی کمسپری کی حالت میں تھے ۔ قائدِ اعظم نے ان کو دیکھ کر کہا کہ اگر پاکستان میں اسی طرح کی غربت ہوگی تو میں ایسے پاکستان کے حق میں نہیں ہوں ۔

ہندوستان کی تقسیم کے قطع ِ نظر ہماری سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر جو ایشو چل رہا تھا وہ 1947 میں حل ہوگیا کہ پاکستان بن گیا ۔ لیکن دوسری جو جہت تھی وہ میری نظر میں مکمل نہیں ہوئی ۔ اور اس کی وجہ سے خرابیاں در خرابیاں پیدا ہوتیں چلیں گئیں ۔ہمارا وہ اتحاد جو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہو اتھا وہ تو کام میں آگیا مگر وہ اتحاد اور وعدہ جس میں ہمیں ایک عام آدمی کو خوشحال زندگی گذارنے کے اسباب فراہم کرنے تھے اس پر ہمارا اتحاد قائم نہیں رہ سکا ، ہم اپنے وعدے کی پاسداری نہیں کرسکے ۔ نظریہ سازی کا عمل قوم کے سانس لینے کے عمل کے ساتھ چلتا ہے ۔ ہر عشرے میں قوم کو اپنی ترجیحات پر غور کرنا پڑتا ہے ۔ اور اس کے لیئے ایک لائحہِ عمل بھی ضروری ہوتا ہے جو کہ ہر قوم کے لیئے ضروری ہوتا ہے جیسا کہ اقبال نے کہا تھا کہ ”
جہانِ تازہ سے افکارِ تازہ کی نمود
پاکستان ہم کو مل گیا تھا اور ہم کو جو افکارِ تازہ چاہئیے تھے اور پھر ان افکار ِ تازہ کو حاصل کرنے جو آزادی چاہیئے تھی وہ غالباً راستے میں کہیں کھو گئی. بلکہ یرغمال بنا لی گئی .
متفق!
 
جب ہم پاکستان کے حوالے سے ہندوستان کی تقسیم کے مخصوص پس منظر میں بحث کرتے ہیں تو تحریک ِ پاکستان کی دو جہتیں نمایاں ہوجاتیں ہیں ۔ جو ایک حساب سے مختلف بھی تھیں ۔ ایک تو یہ کہ قائدِ اعظم کا نکتہ یہ تھا جو قراردادِ پاکستان کی صورت میں سامنے آیا کہ ہندو اور مسلمان دو کمیونیٹیز نہیں دو مختلف قومیں ہیں ۔ اور ان کی سیاسی ترجیحات اور مشکلات کو حل کرنا بین الاقوامی ایشو ہے ۔ دوسری جہت یہ تھی کہ جو مسلم اکثریت کے علاقے ہیں کم از کم وہاں بسنے والے مسلمانوں کی سماجی ، معاشی اور مذہبی زندگی میں ایک مثبت تبدیلیاں لانا اور ایک عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانا مقصود تھا ۔ ایسی کئی مثالیں قائدِ اعظم کے ارشادات میں مل جاتیں ہیں کہ مثال کے طور پر ایک دفعہ قائدِ اعظم نے چند کسانوں کو کھیتوں میں کام کرتے ہوئے دیکھا جو انتہائی کمسپری کی حالت میں تھے ۔ قائدِ اعظم نے ان کو دیکھ کر کہا کہ اگر پاکستان میں اسی طرح کی غربت ہوگی تو میں ایسے پاکستان کے حق میں نہیں ہوں ۔

ہندوستان کی تقسیم کے قطع ِ نظر ہماری سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر جو ایشو چل رہا تھا وہ 1947 میں حل ہوگیا کہ پاکستان بن گیا ۔ لیکن دوسری جو جہت تھی وہ میری نظر میں مکمل نہیں ہوئی ۔ اور اس کی وجہ سے خرابیاں در خرابیاں پیدا ہوتیں چلیں گئیں ۔ہمارا وہ اتحاد جو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہو اتھا وہ تو کام میں آگیا مگر وہ اتحاد اور وعدہ جس میں ہمیں ایک عام آدمی کو خوشحال زندگی گذارنے کے اسباب فراہم کرنے تھے اس پر ہمارا اتحاد قائم نہیں رہ سکا ، ہم اپنے وعدے کی پاسداری نہیں کرسکے ۔ نظریہ سازی کا عمل قوم کے سانس لینے کے عمل کے ساتھ چلتا ہے ۔ ہر عشرے میں قوم کو اپنی ترجیحات پر غور کرنا پڑتا ہے ۔ اور اس کے لیئے ایک لائحہِ عمل بھی ضروری ہوتا ہے جو کہ ہر قوم کے لیئے ضروری ہوتا ہے جیسا کہ اقبال نے کہا تھا کہ ”
جہانِ تازہ سے افکارِ تازہ کی نمود
پاکستان ہم کو مل گیا تھا اور ہم کو جو افکارِ تازہ چاہئیے تھے اور پھر ان افکار ِ تازہ کو حاصل کرنے جو آزادی چاہیئے تھی وہ غالباً راستے میں کہیں کھو گئی. بلکہ یرغمال بنا لی گئی .
بہت عمدہ۔۔۔
 
Top