کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمد امین

لائبریرین
سویدا صاحب یہی تو وجہ نزاع ہے ۔۔۔ ۔!
کہ اگر اسے ثقافت کا نام ہی دیا جاتا تو پھر تو ٹھیک تھا۔۔۔ ۔!
مگر یہاں تو ہمارے دین کا معیار عید میلاد النبی منانے یا نہ منانے پر بن گیا ہے ۔۔۔ ۔۔!
مگر اس دن کے نہ منانے والوں کو دین سے خارج ، شیطان اور ابلیس کہنے والوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ۔۔۔ ۔؟

نہ منانے والوں کو نہیں۔۔اسے بدعت ضلالت اور نجانے کیا کیا قرار دینے والوں کو ایسا کہا جاتا ہے۔۔۔
 

محمد امین

لائبریرین
چلیے اختلاف صرف اس بات پر ہے کہ جلسے جلوس نہ نکالے جائیں، نئے کپڑے نہ پہنے جائیں، جھنڈے نہ لگائے جائیں، لوگوں کی اچھے کھانوں سے تواضع نہ کی جائے۔۔۔ تو ٹھیک ہے، اگر نئے کپڑے پہننے، جھنڈے لگانے اور دنیا والوں کی تواضع کرنے میں کوئی بات خلافِ سنت ہے تو اسے سال بھر ہی نہ کیا جائے۔ یعنی سال بھر کسی کو اچھے کھانے پکا کر نہ کھلائے جائیں، نہ نئے کپڑے پہنے جائیں، "بریلویوں" کو کوئی اعتراض نہیں۔ ذکرِ میلاد پر اگر اعتراض ہے تو ہم اس اعتراض کو لغو قرار دیتے ہیں۔ ذکرِ میلاد النبی تو سنت ہے اور حدیث سے ثابت ہے۔ اب رہا سوال کہ وہ ذکرِ میلاد 12 ربیع الاول کو کرنا بدعت ہے تو اس فیصلے کو درست یوں نہیں مانا جا سکتا کہ دن مختص کرنا فی نفسہ بدعت نہیں۔ اور بدعتِ حسنہ اور سیئہ کی تفریق کو غلط قرار دینا عجیب بددیانتی ہے۔

تبلیغی جماعت جو کہ دیوبندی مسلک کی علمبردار اور بدعات کی مخالف ہے، اس کے ارکان بھی آجکل 12 ربیع الاول کو ٹی وی پائے جاتے ہیں اور جنید جمشید صاحب تو نعتیں بھی پڑھتے ہیں۔ یعنی وہ بھی غیر محسوس طریقے سے ذکرِ میلاد کی طرف آرہے ہیں، گو "بدعت و شناعت" سے ہٹ کر ہی سہی۔ یعنی کچھ تو ہے۔۔۔کچھ تو بات ہے اس بدعت میں۔۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
ہر مسلمان نبی پاک حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت رکھتا ہے، یہ تو ایمان کا لازمی جزو ہے۔ 12 ربیع الاول کو خوشی منا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن جو لوگ میلاد کے اجتماعات میں شریک نہیں ہوتے، ان کے پاس بھی اپنے عمل کے جوازات موجود ہیں ۔۔۔ اس لیے ان کی نبی پاک حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت پر شبہ نہ کیا جائے ۔۔۔
 
صحابہ نے عید میلاد النبی نہیں منایا تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے
صحابہ نے جشن آزادی بھی تو نہیں منایا
صحابہ نے یوم دفاع بھی تو نہیں منایا
عید میلاد النبی ہمارے ملک کی ایک ثقافت اور کلچر ہے جس طرح دیگر ثقافت اور کلچر کی چیزیں ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے

بہت خوب۔ مجھے پورے دھاگے میں صرف یہ ایک بات بہت پیاری لگی۔ عید میلاد النبی کا ذکر کسی دینی کتاب میں تو ملے نہ ملے۔ مگر نوی کلاس کی مطالعہ پاکستان کی کتاب میں ضرور ہے۔ :)
اس سے کسی مکتبۂ فکر کے لوگوں کو اختلاف نہیں ہونا چاہئے کہ یہ ثقافت اور کلچر ہی ہے۔ اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ :)

متلاشی
ام نور العين
یوسف-2
شمشاد
فرخ منظور
:)
:)
 

شمشاد

لائبریرین
ٹھیک ہے شمشاد بھائی مگر آپ نے " صرف مجھے نہ کہہ کربھی " بحرحال مجھے شامل تو رکھا ہی ہے سو نشاندہی فرما دیجیئے میں تاکہ میں آئندہ اس قسم کا لائٹر موڈ بھی اختیار نہ ہی کروں تو بہتررہے گا

میرے لائٹر بھائی یہ اتفاق ہی تھا کہ میرا مراسلہ آپ کے مراسلے کے بعد آ گیا اور آپ سمجھے کہ آپ کو کہا گیا ہے۔

اب تو کسی ناظم نے وہ مراسلے ہی حذف کر دیے ہیں جن میں تُو تکار سے بات کی گئی تھی۔ لہذا "مٹی پاؤ"
 

آبی ٹوکول

محفلین
میرے لائٹر بھائی یہ اتفاق ہی تھا کہ میرا مراسلہ آپ کے مراسلے کے بعد آ گیا اور آپ سمجھے کہ آپ کو کہا گیا ہے۔

اب تو کسی ناظم نے وہ مراسلے ہی حذف کر دیے ہیں جن میں تُو تکار سے بات کی گئی تھی۔ لہذا "مٹی پاؤ"
ہاہاہاہ یہ خوب کہا میرے لائتر بھائی چلیے خوش رہیے اپنے خرچہ پر والسلام
 

مغزل

محفلین
وہ محفلین جو میلاد النبی ﷺ (یعنی ولادتِ سعد کا ذکر کرنے )کو مستحسن سمجھتے ہیں انہیں مجھ حقیر کی جانب سے ’’عیدِ میلادالنبی ﷺ مبارک ہو ‘‘ جو میرے محترم دوست اس عمل کو بدعت سے تعبیر کرتے ہیں ان سے معذرت خوا ہ اورشرمسار ہوں کہ ان کے جذبات مجھ ایسے جہل مرتب کی وجہ سے مجروح ہوئے ۔۔ اصل مسئلہ اس موضوع کو سمجھنے کا ہے وگرنہ اختلافات صدیوں سے چلتے آرہے ہیں اور اس مبینہ عملِ نیک و بد کی وجہ سے ہزاروں انسان نہ صرف قتل ہوئے بلکہ اجماعِ امّت کو ناتلافی نقصان پہنچا ہے اور تاحال ایسا ہی ہورہا ہے ۔ میں پہلے ہی واضح کردوں کہ میں میلادالنبی ﷺ کا جشن منانے کا عقیدہ رکھتا ہوں ۔ سو میرے ہم مکتبہ فکراحباب کی بھی خاطر شکنی ہوتی ہے تو کوشش کیجے گا مجھ فاترالعقل کی نیت محض خالص ’’علمی‘‘ ہے ۔ نہ مجھے کسی ایسے دوست کی دل شکنی منظور ہے جو میلادِ مصطفیٰﷺ مناتے ہیں اور نہ ان احباب کے دلوں میں رنجش پیدا کرنا مقصود ہے جو اس عمل کو بدعت یا گمراہی سمجھتے ہیں ۔ مجھے افسوس ہے جو کام علمائے امت کا ہے وہ بہ احسن خوبی ادا نہیں کرتے: (نشان کردہ سطر پر رائے محفوظ رکھتا ہوں) تاریخی اور مذہبی علم کے مطابق انسانی زندگی کی ابتدا ’’عقیدے ‘‘ ( یعنی ذاتی رائے ۔۔عقیدتِ ذاتی ، پھر رفتہ رفتہ اجتماعی ) سے ہی شروع ہوتی ہے جو انسان نے اپنے ارد گرد کے ماحول سے یا مختلف النوع حادثات واقعات سے اخذ کی اور عقائدکا اجتماع ’’رسم‘‘ کہلاتا ہے ۔ (ایک سائنسی ریسرچ جس میں بندروں میں ’’رسومات ‘‘ کا عمل تحقیق سےثابت کیا گیا ہےمیری مقدور بھر بات کے اثبات میں ہے)۔۔ انسان کی ایسی رائے یا ’’عقیدے ‘‘ کو مثبت دھارے میں لانے کے لیے انبیائے کرام اور رسول مبعوث کیے گئے (جو احباب اس تصور سے بیر رکھتے ہیں وہ اپنے اپنے تئیں ہر عہد کے موجود زیادہ قابل افراد ہی سمجھ لیں)۔ جن کی تعلیمات نےعمل پیرا ہونے کے بعد امتوں میں ’’ کثیر الجہتی اور نوعِ انسان کے لیے مفید‘‘ اور اجتماعی عقائد کو رائج کیا ۔۔ تمام مذاہب جن کے نشان موجود ہیں ان کی تواریخ اس بات پر متفق ہے کہ ایک طاقت ایسی موجود ہے جو اس کائنات کا نظام چلا رہی ہے (سائنس بھی کسی حد تک اس تصور کے نذدیک آتی جارہی ہے)۔ قصہ کوتاہ کسی مذہب نے (اپنے موجود عہد کی زبانوں کے مطابق) کچھ نام دیا کسی نے کچھ ۔ مسلمان اس طاقت کو ’’ اللہ‘‘ (واحد و یکتا ) مانتے ہیں ۔
اب عقیدے کی کچھ مثالیں جو ابتدائے انسانی زندگی سے جمع ہوتے گئے وہ پیش ہیں :
  1. راسخ اور اجتماعی عقیدہ
  2. بالغ عقیدہ
  3. خام عقیدہ
  4. متروک (ترک کردہ عقیدہ)
  5. منافی عقیدہ
  6. موافق عقیدہ
راسخ عقیدہ سے مراد وہ عقیدے ہیں جنہیں مذہب کہا جاتا ہے جن کی تعلیمات انبیاء نے دی واضح رہے ’’عبادات ‘‘ بھی اسی ذیل میں آتی ہیں۔
بالغ عقیدہ سے مراد وہ عقیدے ہیں جنہوں نے راسخ عقائد کو قبول نہیں کیا اور اختلاف بھی نہ کیا۔
خام عقیدہ سے مراد وہ عقیدے ہیں جن کے پیروکاروں نے راسخ اور بالغ عقیدہ سے انحراف بھی کیا اور انہیں غلط جانا اور خودبہتر رائے نہ رکھی۔
متروک عقیدہ سے مراد وہ عقیدے ہیں جنہیں صریحاً غلط قرار دیتے ہوئے تعلیمات کی روشنی میں ترک کردیا گیاہو ۔
منافی عقید ہ سے مراد وہ عقیدے جو راسخ اور بالغ عقدے کے متصادم ہوئے اور ترویج بھی پاتے رہے ۔۔ مثال ’’شر‘‘
موافق عقیدہ در اصل ذیلی عقیدہ ہے جوطرزِ معاشرت کی حد تک محدود ہےاور راسخ اور بالغ عقیدے کے حق میں بہتر ثابت ہوتے ہیں۔

میلاد النبی ﷺ کے عقیدے کا معاملہ بھی موافق عقیدے کی ذیل میں آتا ہے۔ کہ اس عمل سے راسخ عقیدے یعنی ’’مذہب ‘‘ (اسلام) کی اصل روح متاثر نہیں ہوتی (یہاں وضاحت کرتا چلوں کہ ہمارے نام نہاد) علمائے کرام اور شارحین نے ’’مذہب ‘‘ ۔۔ ’’رسومات ‘‘ یعنی راسخ عقیدہ اور موافق عقیدہ یعنی معاشرت میں تفریق کو بالائے طاق رکھ کر اپنی اپنی مسندیں جمانے کو ہی ’’مذہب ‘‘ کے طور پر پیش کیا اور عام پیروکاروں کے لیے یہ سارے تصورات اتنے گڈ مڈ کردیے کہ عام پیروکار ۔ مذہب اور معاشرت دونوں کو ایک ہی سمجھنے پر بضد ہے۔محترم احباب میلاد کا لفظ مولود سے مشتق ہے اور معنی ولادت کے ذکر کو کہتے ہیں ، لیکن ہمارے ایسے دوست یا بزرگ جو میلاد النبی ﷺ کا جشن منانے کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ میری بات پر یقینا برا منائیں کہ ہم لوگ عقیدت میں ایسی حرکتیں کر جاتے ہیں جس سے دیگر عقیدہ جات کے افراد کا اختلاف کرنے کا حق انہیں ضرور ملتا ہے ۔مثال کے طور پر ہم میں ہی اکثریت بجلی چوری کر کے چراغاں کرتی ہے اور اختلاف کرنے والوں کو بات کرنے کا حق دیتی ہے ۔
وگرنہ یہ سیدھا سیدھا فروعی اور ذاتی عقید ہ ہے جسے ہم اور ہم سے اختلاف کرنے والے افراد دوطرفہ ’’شدت‘‘ سے رائج کرنے کی کوشش میں صدیاں گزار دی ہیں ۔ صدیوں سے ثابت ہے کہ میلاد النبی ﷺ منانے والوں کو جواز مل جاتا ہے اور نہ منانے والوں کہ نہ منانے کا جواز بھی مل جاتا ہے ۔ میلاد النبی ﷺ نہ منانے والے منانے والوں پر اپنے عقیدہ جات نہ مسلط کریں اور میلاد النبی ﷺ منانے والے اپنے عقائد سے اختلاف کرنے والے افراد پر شدت میں تابڑ توڑ حملے نہ کریں آخر کو ہر دو مکتبہ فکر کے افراد کلمہ گو ہیں کوئی زرخرید غلام نہیں کہ ہم ایک دوسرے پر حکومت کرتے پھریں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے اپنے عقیدے ایک دوسرے پر تھوپنے کی کوشش نہ کریں اور اس طرح کے نہ حل ہونے والے مسائل کو ’’ روزِ جزا ‘‘ پر چھوڑ کر محض ’’راسخ عقیدے ‘‘ یعنی مذہب کی تعلیمات حسنِ اخلاق و عبادات اور طرزِ زندگی پر توجہ دیں ۔۔

حاشیہ : تمام تر مندرجات نیک نیتی کے تحت تحریر کیے گئے ہیں اختلاف اور انحراف کرنے کا حق آپ سب کو ہے۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں آپس میں نفاق سے محفوظ رکھے آمین ۔
 
نہ منانے والوں کو نہیں۔۔اسے بدعت ضلالت اور نجانے کیا کیا قرار دینے والوں کو ایسا کہا جاتا ہے۔۔۔
عید خالصتا دینی چیز ہے ۔ دین میں نئی چیز شامل کرنا بدعت ہی ہے ۔ اور بدعت کو ضلالت یعنی گمراہی اللہ کے نبی ﷺ نے کہا ہے ۔ جب ہمارے آقا ﷺ ہجرت کر کے مدینہ گئے تو اہل مدینہ کے ہاں دو دن تھے جنہیں وہ بطور عید مناتے تھے ۔ ہمارے حبیب ﷺنے فرمایا : اللہ نے تمہیں ان دنوں سے بہتر دودن عطا کیے عید اضحی اور عیدفطر۔ اب بتائیے جو بات اللہ کے رسول ﷺ کے نزدیک درست نہیں اس کو ہم کیسے درست کہیں ؟
 
حاشیہ : تمام تر مندرجات نیک نیتی کے تحت تحریر کیے گئے ہیں اختلاف اور انحراف کرنے کا حق آپ سب کو ہے۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں آپس میں نفاق سے محفوظ رکھے آمین ۔
بصد احترام غیر متفق ہوں بھائی ۔
مجھے افسوس ہے جو کام علمائے امت کا ہے وہ بہ احسن خوبی ادا نہیں کرتے: (نشان کردہ سطر پر رائے محفوظ رکھتا ہوں) تاریخی اور مذہبی علم کے مطابق انسانی زندگی کی ابتدا ’’عقیدے ‘‘ ( یعنی ذاتی رائے ۔۔عقیدتِ ذاتی ، پھر رفتہ رفتہ اجتماعی ) سے ہی شروع ہوتی ہے جو انسان نے اپنے ارد گرد کے ماحول سے یا مختلف النوع حادثات واقعات سے اخذ کی اور عقائدکا اجتماع ’’رسم‘‘ کہلاتا ہے ۔ (ایک سائنسی ریسرچ جس میں بندروں میں ’’رسومات ‘‘ کا عمل تحقیق سےثابت کیا گیا ہےمیری مقدور بھر بات کے اثبات میں ہے)۔۔ انسان کی ایسی رائے یا ’’عقیدے ‘‘ کو مثبت دھارے میں لانے کے لیے انبیائے کرام اور رسول مبعوث کیے گئے (جو احباب اس تصور سے بیر رکھتے ہیں وہ اپنے اپنے تئیں ہر عہد کے موجود زیادہ قابل افراد ہی سمجھ لیں)۔ جن کی تعلیمات نےعمل پیرا ہونے کے بعد امتوں میں ’’ کثیر الجہتی اور نوعِ انسان کے لیے مفید‘‘ اور اجتماعی عقائد کو رائج کیا ۔۔
برادر محترم
پہلی بات : میری رائے میں علمائے کرام کم از کم عام مسلمانوں سے اچھا کام کر رہے ہیں ۔ وہ جس بات پر ایمان رکھتے ہیں عمل بھی کرتے ہیں عوام الناس کی طرح صرف اوروں کو کوس کر کام نہیں چلاتے ۔ میں نے دین پر عمل کرتے انہی کو دیکھا ہے ۔ اللہ ان کی حفاظت کرے ۔
دوسری بات : مذہب کی ابتدا آدم علیہ السلام کے ساتھ ہی ہو گئی تھی وہ پہلے بشر تھے اور پہلے نبی علیہ السلام ۔ گویا آپ کی ذاتی رائے والی بات قرآن کی رو سے درست نہیں ۔ لوگ پہلے ایک امت تھے ، سب دین حق پر تھے ۔ اس بارے میں یہاں لکھ چکی ہوں میرے پسندیدہ اقتباسات
تیسری بات : آپ کی ذکر کردہ عقائد کی تقسیم سے بھی متفق نہیں ۔
چوتھی بات : میلادالنبی ﷺ کے دن پر ، اس کی تاریخ پر ، اس کو عید کہہ کر منانے پر ہمیشہ بحث ہوتی رہے گی یہ تحقیق کا ایک حصہ ہے کہ ولادت نبی ﷺ ۹ کو ہوئی یا ۱۲ کو ، ۱۲ ہی کو وفات بھی ہوئی تھی ۔ اب ۱۲ کو ولادت کی خوشی یا عید منائی جائے یا وفات کا سوگ یا برسی ۔ اس بحث کو بند کرنا ممکن ہی نہیں ہے ۔ نہ ہی یہ رواداری کے منافی ہے ۔ مجھے بحث سے کوئی مسئلہ نہیں ۔ نہ ہی بحث کا یہ مطلب ہے کہ کوئی کسی پر اپنا عقیدہ تھوپ رہا ہے ۔ بات ہو رہی ہے ۔ ہونی چاہیے ۔
 
چلیے اختلاف صرف اس بات پر ہے کہ جلسے جلوس نہ نکالے جائیں، نئے کپڑے نہ پہنے جائیں، جھنڈے نہ لگائے جائیں، لوگوں کی اچھے کھانوں سے تواضع نہ کی جائے۔۔۔ تو ٹھیک ہے، اگر نئے کپڑے پہننے، جھنڈے لگانے اور دنیا والوں کی تواضع کرنے میں کوئی بات خلافِ سنت ہے تو اسے سال بھر ہی نہ کیا جائے۔ یعنی سال بھر کسی کو اچھے کھانے پکا کر نہ کھلائے جائیں، نہ نئے کپڑے پہنے جائیں، "بریلویوں" کو کوئی اعتراض نہیں۔ ذکرِ میلاد پر اگر اعتراض ہے تو ہم اس اعتراض کو لغو قرار دیتے ہیں۔ ذکرِ میلاد النبی تو سنت ہے اور حدیث سے ثابت ہے۔ اب رہا سوال کہ وہ ذکرِ میلاد 12 ربیع الاول کو کرنا بدعت ہے تو اس فیصلے کو درست یوں نہیں مانا جا سکتا کہ دن مختص کرنا فی نفسہ بدعت نہیں۔ اور بدعتِ حسنہ اور سیئہ کی تفریق کو غلط قرار دینا عجیب بددیانتی ہے۔
امین بھیا میں نہ تو سالگرہ مناتی ہوں نہ برسی ۔ آپ ایک بات بتائیے : اپنے پیاروں کی وفات پر لوگ برسی مناتے ہیں تو آقا و مولا ﷺ کی وفات ۱۲ ربیع الاول پر جشن کیوں مناتے ہیں ؟ آپ اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ میلاد کی تاریخ پر اختلاف ہے لیکن وفات کی تاریخ پر کوئی اختلاف نہیں ۔ سب مورخین نے ۱۲۲ ربیع الاول ہی کہا ہے ۔ سوچیے گا ۔
 
بہت خوب۔ مجھے پورے دھاگے میں صرف یہ ایک بات بہت پیاری لگی۔ عید میلاد النبی کا ذکر کسی دینی کتاب میں تو ملے نہ ملے۔ مگر نوی کلاس کی مطالعہ پاکستان کی کتاب میں ضرور ہے۔ :)
اس سے کسی مکتبۂ فکر کے لوگوں کو اختلاف نہیں ہونا چاہئے کہ یہ ثقافت اور کلچر ہی ہے۔ اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ :)
یہ سب کا کلچر بھی نہیں ہے ۔ ایک مخصوص فرقے کا کلچر ہو گا ۔
 

ابوعثمان

محفلین
عید خالصتا دینی چیز ہے ۔ دین میں نئی چیز شامل کرنا بدعت ہی ہے ۔ اور بدعت کو ضلالت یعنی گمراہی اللہ کے نبی ﷺ نے کہا ہے ۔ جب ہمارے آقا ﷺ ہجرت کر کے مدینہ گئے تو اہل مدینہ کے ہاں دو دن تھے جنہیں وہ بطور عید مناتے تھے ۔ ہمارے حبیب ﷺنے فرمایا : اللہ نے تمہیں ان دنوں سے بہتر دودن عطا کیے عید اضحی اور عیدفطر۔ اب بتائیے جو بات اللہ کے رسول ﷺ کے نزدیک درست نہیں اس کو ہم کیسے درست کہیں ؟

عیدمیلادالنبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مطلب ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت کے وقت یا زمانے کی خوشی۔
اسلام میں شرعا دو عیدیں ہی ہیں جنہیں عیدالفطر اور عیدالاضحی کہتے ہیں۔
کسی اور دن کے ساتھ لفظ عید لگانے میں شرعا کوئی ممانعت نہیں۔ اگر ممانعت ہے تو آپ وہ ممانعت قرآن و حدیث سے ثابت کردیں۔
اب رہا یہ سوال کہ کیا صحابہ کرام کسی اور دن کو عید کا دن کہتے تھے ؟؟
تو اس کا جواب۔غیرمقلدین کے وحیدالزماں بخاری کی شرح بنام تیسیرالبخاری کی جلد6ص 104پر ایک حدیث لکھی ہےجو اصل کتاب بخاری شریف کی جلد2ص662پر موجود ہے۔حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں یہودی لوگ(مثلا کعب احبار)حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے۔تم(انپے قرآن مجیدمیں)ایک ایسی آیت پڑھتے ہواگر وہ آیت ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید"(خوشی کا دن )مقرر کرلیتے ۔حضرت عمر نے پوچھا وہ کون سے آیت ہے ،انہوں نے کہا ۔ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیۡنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیۡکُمْ نِعْمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسْلٰمَ دِیۡنًاحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں خوب جانتا ہو ں یہ آیت مبارکہ کب اتری اور کہاں اتری؟اور جس وقت یہ آیت مبارکہ نازل ہوئي تو اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کہاں تھے؟ یہ آیت مبارکہ عرفہ کے دن نازل ہوئي اس وقت اللہ تبارک و تعالی کی قسم ۔ہم میدان عرفات میں تھے۔حضرت سفیان ثوری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں مجھ کو شک ہوا اس دن جمعہ تھا یا کوئی اور دن۔
اس حدیث کو لکھنے کے بعد وحید الزماں نے لکھا ہے قیس بن سلمہ کی روایت میں بالیقین مذکور ہےکہ وہ جمعہ کا دن تھا تو اس دن دوہری عید ہوئی۔(تیسیرالبخاری ج6ص104 من و عن) دوہری سے مراد "یوم عرفہ" اور" یوم جمعہ" ہے یعنی جمعۃ المبارک بھی "عید" کا دن ہے۔
مشکوۃ ص 121،رواہ الترمذی۔میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت موجود ہے۔جس میں آپ نے یہودی کو جوابا ارشاد فرمایا کہ اس دن ہماری دو عیدیں تھیں۔ مراد "یوم عرفہ" اور" یوم جمعہ"
حضرت عبداللہ کے جواب کا مقصد یہودی کو یہ بات سمجھانا اور باور کروانا تھا کہ تم ایک"عید" کی بات کرتے ہو جب یہ آیت نازل ہوئی ان دن ہماری دو عیدیں تھیں۔یعنی یوم عرفہ اور جمعہ۔
حضرت عبید بن سباق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،فرماتے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جمعوں میں ایک جمعہ میں فرمایا :"اے مسلمانوں کے گروہ یہ وہ دن ہے جسے اللہ تعالی نے "عید" بنایا ہے ۔تو غسل کرو اور جس کے پاس خوشبو ہو تو اسے لگانے میں کوئی نقصان نہیں ۔مسواک لازم پکڑو۔(مشکوۃ ص123،ابن ماجہ ص7
ہمارے نزدیک تو تمام "عیدیں " عیدمیلاد النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا صدقہ ہیں۔اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پیدا نہ ہوتے تو نہ عیدالفطر ہوتی اور نہ عیدالاضحی ہوتی ۔یہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت با سعادت کی "عید"کے صدقہ میں ہمیں عطا ہوئيں۔
خالصتا دینی چیز ہے۔۔۔۔ یہ کیا ڈھکوسلا ہے ؟؟ دینی اور غیر دینی؟؟ جب قربانی کی کھالیں اکٹھی کرنی ہوتی ہیں تو پمفلٹ پر لکھتے ہو۔۔
میرا سب کچھ اللہ کیلئے ہے۔میرا جینا ،میرامرنا،سونا جاگنا سب کچھ اللہ کیلئے ہے۔اور جب مسلمانوں کو دھوکہ دینا ہوتا ہے تو دینی اور غیر دینی الگ الگ کردیتے ہو۔
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَنُسُکِیۡ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۙ
تم فرماؤ بے شک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللّٰہ کے لئے ہے جو رب سارے جہان کا
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوۡا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً۪ وَّ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِؕ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ﴿۲۰۸
اے ایمان والو اسلام میں پورے داخل ہو (ف۳۹۵) اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو ۳۹۶) بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے
مسلمان کا ہر عمل دین میں داخل ہے۔
غالبا حضرت علی سے منسوب ہے کہ آپ نے کسی کافر کو فرمایا کہ مسلمان کو اس کے ہر عمل پر ثواب ملتا ہے۔چاہے استنجاء کرے،چاہے بیوی سے صحبت کرے۔
اچھی نیت کے ساتھ اور سنّت پر عمل کرنے کیلئے کرے گا تو اس پر ثواب دیا جائے گا۔اور بروز قیامت مسلمان اپنے ہر عمل کا جواب دہ ہے۔
پاکستان کاجشن آزادی منانا کیا کوئي عمل نہيں؟اگرکوئی عمل نہیں تو لھوولعب میں شمار ہوگا۔اگر عمل ہے پھر یا اچھا ہوگا یا برا۔اگر برا ہے تو سزا دیا جائے گا اور اگر اچھا ہے تو جزا دیا جائے گا۔یہ اچھا عمل دین میں داخل نہیں؟؟ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے کا عمل دین میں داخل نہیں؟؟؟ تو اگر کوئی فوجی ملک پاکستان کیلئے سرحد پراپنی جان قربان کرتا ہے تو اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا؟؟ تمہارے نزدیک ثواب اسی خودکش بمبار کو ملے گا جو جشن میلاد کے جلوس میں بمب باندھ کر خود کو اڑا لے؟؟؟اور پچاس ساٹھ مسلمانوں کو شہید کردے۔ اور اسے ملے گا جو محرم کے جلوس میں بمب باندھ کر اپنے آپ کو اڑا لیتا ہے؟؟اور وہ تمہارے عقیدے کا ہے اس لئے اس کیلئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔حوریں خدمت کیلئے آجاتی ہیں۔
لَایُسْ۔َٔلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَہُمْ یُسْ۔َٔلُوۡنَ ﴿۲۳
اس سے نہیں پوچھا جاتا جو وہ کرے۴۳)اور ان سب سے سوال ہوگا۴۴)
(ف43)
کیونکہ وہ مالکِ حقیقی ہے جو چاہے کرے ، جسے چاہے عزّت دے جسے چاہے ذلّت دے ، جسے چاہے سعادت دے جسے چاہے شقی کرے ، وہ سب کا حاکم ہے کوئی اس کا حاکم نہیں جو اس سے پوچھ سکے ۔
(ف44)
کیونکہ سب اس کے بندے ہیں مملوک ہیں ، سب پر اس کی فرمانبرداری اور اطاعت لازم ہے ۔ اس سے توحید کی ایک اور دلیل مستفاد ہوتی ہے جب سب مملوک ہیں تو ان میں سے کوئی خدا کیسے ہو سکتا ہے اس کے بعد بطریقِ استفہام تو بیخاً فرمایا ۔
اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَالْفُؤَادَکُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْؤُلًا ﴿۳۶
بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے ۸۴)(ف84)
کہ تم نے ان سے کیا کام لیا ۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے ایک کتاب لکھی ۔جس کا نام ہے ۔درالثمین فی مبشرات النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم۔اس میں نقل فرماتے ہیں۔
میرے والد نے مجھے خبر دی فرمایا کہ میں میلاد پاک کی خوشی میں میلادالنبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے روز کھانا پکوایا کرتا تھا، ایک تھا میں اتنا تنگ دست تھا کہ میرے پاس کچھ نہ تھا مگر بھنے ہوئے چنے ،وہی میں نے لوگوں میں تقسیم کئے تو کیا دیکھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے روبرو وہ بھنے ہوئے چنے رکھے ہوئے ہیں۔اور آپ ہشاش بشاش ہیں۔
ایہہ دھرتی نہ ہوندی نہ اسمان ہوندا
جے پیدا نہ عرشاں دا مہمان ہوندا
جب تم قرآن کی نہ سنو اللہ کا کذب تم ممکن گنو مگر جان کی آفت گلے کی غل تویہ ہے کہ جناب حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی صاحب علیہ الرحمہ نے نقل فرمائیں ، یہ امام الطائفہ مولوی اسماعیل کے نسب کے، شریعت کے باپ، طریق کے دادا ۔ اب انہیں نہ مشرک کہے بنتی ہے نہ کلام الہٰی پر ایمان لانے کو روٹھی وہابیت ملتی ہے ، نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن (نہ رہنے کا یارا ، نہ چلنے کی تاب۔ ت)
؎دوگونہ رنج وعذاب است جان لیلی را
بلائے صحبت مجنوں وفرقت مجنوں (۱)
(لیلی کی جان کو دوقسم کا دکھ اورعذاب ہے ،مجنوں کی صحبت اوراس کی جدائی کی مصیبت ۔ت)
ہاں اب ذراگھبرا ئے دلوں ، شرمائی چتونوں سے لجائی انکھڑیاں اوپر اٹھائیے اوربحمد اللہ وہ سنئے کہ ایمان نصیب ہوتوسنی ہوجائیے ، جناب شاہ عبدالعزیزصاحب تحفہ اثنا عشریہ میں لکھتے یں
حدیث آخر ابو نعیم حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی ، حضور مالک غیور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی تھیں :لما خرج من بطنی فنظرت الیہ فاذا انابہ ساجد ثم رایت سحابۃ بیضاء قد اقبلت من السماء حتی غشیتہ فغیب عن وجھی ، ثم تجلت فاذا انابہ مدرج فی ثوب صوف ابیض وتحتہ حریرۃ خضراء وقد قبض علی ثلٰثۃ مفاتیح من اللؤلوء الرطب واذا قائل یقول قبض محمد علی مفاتیح النصرۃ ومفاتیح الربح ومفاتیح النبوۃ ثم اقبلت سحابۃ اخرٰی حتی غشیتہ فغیب عن عینی ثم تجلت فاذا انابہ قد قبض علی حریرۃ خضراء مطویۃ واذقائل یقول بخٍ بخٍ قبض محمد علی الدنیا کلھا لم یبق خلق من اھلھا الادخل فی قبضتہ۱؂ ۔ھذا مختصر۔والحمدللہ رب العالمینجب حضور میرے شکم سے پیداہوئے میں نے دیکھا سجدے میں پڑے ہیں ،پھر ایک سفید ابر نے آسمان سے آکر حضور کو ڈھانپ لیا کہ میرے سامنے سے غائب ہوگئے ، پھر وہ پردہ ہٹا تو میں کیا دیکھتی ہوں کہ حضورایک اونی سفید کپڑے میں لپٹے ہیں اورسبز ریشمیں بچھونا بچھا ہے اورگوہر شاداب کی تین کنجیاں حضور کی مٹھی میں ہیں اورایک کہنے والا کہہ رہا ہے کہ نصرت کی کنجیاں ، نفع کی کنجیاں، نبوت کی کنجیاں، سب پر محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے قبضہ فرمایا ۔ پھر اور ابر نے آکر حضور کو ڈھانپا کہ میری نظر سے چھپ گئے ۔ پھر روشن ہوا تو کیا دیکھتی ہوں کہ ایک سبز ریشم کا لپٹا ہوا کپڑا حضور کی مٹھی میں ہے اورکوئی منادی پکار رہا ہے واہ واہ ساری دنیا محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مٹھی میں آئی زمین وآسمان میں کوئی مخلوق ایسی نہ رہی جو ان کے قبضہ میں نہ آئی ۔ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔
(۱؂الخصائص الکبرٰی بحوالہ ابو نعیم عن ابن عباس باب ماظہر فی لیلۃ مولدہ مرکز اہلسنت گجرات الہند ۱ /۴۸)
آج کل نبی پاک کی ولادت کی خوشی میں محافل منعقد ہوتی ہیں۔جلسے جلوس ہوتے ہیں ،یہ کیا اجتماع ہے ؟؟ جو اجتماع قیامت کو قائم ہونے والا ہے ۔اور اس میں جب سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان بیان کی جائے گی۔
فقط اتنا سبب ہے انعقاد بزم محشر کا
کہ ان کی شان محبوبی دکھائی جانے والی ہے
حدیث ۶۹:حافظ ابو سعید عبدالملک بن عثمان کتاب شرف النبوۃ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی ، حضور پرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
اذا کان یوم القیٰمۃ وجمع اللہ الاولین والاٰخرین یؤتی بمنبرین من نور فینصب احدھما عن یمین العرش والاٰخر عن یسارہٖ ویعلوھما شخصان فینادی الذی عن یمین العرش معاشر الخلائق من عرفنی فقد عرفنی ومن لم یعرفنی فانا رضوان خازن الجنۃ ان اللہ امرنی ان اسلم مفاتیح الجنۃ الی محمد وان محمدا امرنی ان اسلّمھا الی ابی بکر وعمر لیدخلا محبیھما الجنۃ الا فاشھدوا ثم ینادی الذی عن یسار العرش معشر الخلائق من عرفنی فقد عرفنی ومن لم یعرفنی فانا مالک خازن النار ان اللہ امرنی ان اسلم مفاتیح النار الی محمد ومحمد امرنی ان اسلمھا الی ابی بکر وعمرلیدخلا مبغضیھما النار الا فاشھدوا۱؂۔او ردہ ایضاً فی الباب السابع من کتاب الاحادیث الغررفی فضل الشیخین ابی بکرٍوعمر من کتاب الاکتفاء ۔روز قیامت اللہ تعالٰی سب اگلوں پچھلوں کو جمع فرمائے گا دو منبر نور کے لاکر عرش کے داہنے بائیں بچھائے جائیں گے ان پر دو شخص چڑھیں گے ، داہنے والا پکارے گا : اے جماعات مخلوق! جس نے مجھے پہچانا اس نے پہچانا اورجس نے نہ پہچانا تو میں رضوان داروغہ بہشت ہوں مجھے اللہ عزوجل نے حکم دیا کہ جنت کی کنجیاں محمدصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سپردکروں اورمحمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ابوبکر وعمر (رضی اللہ تعالٰی عنہما)کو دوں کہ وہ اپنے دوستوں کو جنت میں داخل کریں۔ سنتے ہوگواہ ہوجاؤ۔ پھر بائیں والا پکارے گا : اے جماعات مخلوق! جس نے مجھے پہچانااس نے پہچانا اورجس نے نہ پہچانا تو میں مالک داروغہ دوزخ ہوں مجھے اللہ عزوجل نے حکم دیا کہ دوزخ کی کنجیاں محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سپرد کروں اور محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ابوبکر وعمر (رضی اللہ تعالٰی عنہما)کو دوں کہ وہ اپنے دشمنوں کو جہنم میں داخل کریں ، سنتے ہو گواہ ہوجاؤ ۔ (اس کو بھی کتاب الاکتفاء میں کتاب الاحادیث الغررفی فضل الشیخین ابی بکر وعمر میں باب ہفتم میں بیان کیا۔ ت)
(۱؂مناحل الشفاء ومناھل الصفاء بتحقیق شرف المصطفی حدیث ۲۳۸۸دارالبشائر الاسلامیہ بیروت ۵ /۴۱۹و۴۲۰)
 
مستند حدیث شریف ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا، "سب سے پہلی بدعت جو اس امت میں ظاہر ہوئی ، وہ شبع (یعنی پیٹ بھر کر کھانا کھانا) تھی"۔۔۔اب سوال یہ ہے کہ جو لوگ ہر نئی بات کو بدعتِ سئییہ ہی قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں آخر وہ اس پیٹ بھر کر کھانا کھانے والی بدعت کے خلاف تو کبھی کچھ نہیں لکھتے، جس میں انکے مسلک کے مولوی بھی سر تا پا غرق ہیں (الّا ما شاء اللہ)۔۔یہ شرک و بدعت کا ماتھا میلاد النبی پر ہی کیوں ٹھنکتا ہے۔۔۔ایک مولوی صاحب بیحد ہٹے کٹے اور موٹے تازے تھے۔ بقول چراغ حسن حسرت، قبہِ شکم گنبدِ فلک سے ہمسری کرتا تھا۔۔۔کسی نے اس موٹاپے پر اعتراض کیا تو کہنے لگے:
نفس ایک کتا ہے۔۔۔ہم اس کتے کو مار چکے ہیں۔۔۔اور کتا مرنے کے بعد پھول جاتا ہے۔:D
اعتراض کرنے والا بول اٹھا : تو اس مردہ کتے کو کہیں دفن کرو، ساتھ ساتھ کیوں لئے پھرتے ہو:p
 

ساجد

محفلین
جبکہ بار بار آگاہ کیا جاتا ہے کہ اردو محفل کوئی تبلیغی فورم نہیں یہاں اپنے مذہب اور عقیدے کے بیان کا تو سب کو حق ہے لیکن دوسروں کے مذاہب و عقائد پر تنقیص کی اجازت نہیں۔ ہاں اختلاف رائے کے اظہار کے لئے نرم اور ملائم الفاظ میں وہاں تک گفتگو جاری رکھی جا سکتی ہے جہاں تک فریق ثانی کے عقائد پر زد نہ پڑے لیکن جو کچھ اس دھاگے میں اب تک ہو چکا ہے وہ کسی طور بھی مہذب لوگوں کی گفتگو نہیں کہلا سکتا ۔ ہر کسی دھاگے پر ہنگامہ برپا کرنے کا مطلب؟ ۔
اس کام کے لئے نیٹ پر بہت سے دیگر فورم موجود ہیں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اس طرح کی بحثوں میں مجھ جیسے تو بہت کنفیوژ ہو جاتے ہیں لہٰذا بہتر حل یہ ہے کہ آپ سب آخر میں نتیجہ کے نام سے آخری پوسٹ ضرور کر دیا ہے تاکہ پتہ لگ جائے کہ کیا صحیح ہے۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
تصور بدعت از روئے قرآن و سنت
اسلام ایک آسان، واضح اور قابل عمل نظام حیات ہے۔ یہ چونکہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے لہذا اسکے دامن میں کسی قسم کی کوئی تنگی ، جبر یا محدودیت نہیں ہے۔ یہ قیامت تک پیش آنے والے علمی و عملی،مذہبی و روحانی اور معاشی و معاشرتی تمام مسائل کا حل پیش کرتا ہےاگر کسی مسئلے کا حل براہ راست قرآن و سنت میں نا ہو تو اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ وہ بدعت گمراہی اور حرام و ناجائز ہے کیونکہ کہ کسی مسئلہ کا ترک زکر اسکی حرمت کی دلیل نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ حلت و اباحت کی دلیل ہے۔
کسی بھی نئے کام کی حلت و حرمت جاننے کا صائب طریقہ یہ ہے کہ اسے قرآن و سنت پر پیش کیا جائے اگر اس کا شریعت کے ساتھ تعارض یعنی ٹکراؤ ہوجائے تو بلا شبہ بدعت سئیہ اور حرام و ناجائز کہلائے گا لیکن اگر اسکا قرآن و سنت کے کسی بھی حکم سے کسی قسم کا کوئی تعارض یا تصادم لازم نہ آئے تو محض عدم زکر یا ترک زکر کی وجہ سے اسے بدعت سئیہ اور ناجائز اور حرام قرار دینا قرار دینا ہرگز مناسب نہیں بلکہ یہ بذات خود دین میں ایک احداث اور بدعت سئیہ کی ایک شکل ہے اور یہ گمراہی ہے جو کہ تصور اسلام اور حکمت دین کے عین منافی اور اسلام کے اصول حلال و حرام سے انحراف برتنے اور حد سے تجاوز کرنے کے مترادف ہےایک بار جب اسی قسم کا سوال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔
حلال وہ ہے جسے اللہ نے قرآن میں حلال ٹھرایا اور حرام وہ ہے جسے اللہ نے قرآن میں حرام ٹھرایا رہیں وہ اشیا ء کہ جن کے بارے میں کوئی حکم نہیں ملتا تو وہ تمہارے لیے معاف ہیں۔
جامع ترمزی جلد 1 ص 206
مذکورہ بالا حدیث میں وما سکت عنہ فھو مما عفا عنہ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ شارع نے جن کا زکر نہیں کیا وہ مباح اور جائز ہیں لہذا محض ترک زکر سے کسی چیز پر حرمت کا فتوٰی نہیں لگایا جاسکتا ۔ اللہ پاک نے قرآن مجید میں ایسے لوگوں کی مذمت بیان کی ہے جو اپنی طرف سے چیزوں پر حلت و حرمت کے فتوےصادر کرتے رہتے ہیں لہذا ارشاد باری تعالی ہے۔۔
اور وہ جھوٹ مت کہا جو تمہاری زبانیں بیان کرتیں ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام اس طرح کے تم اللہ پر بہتان باندھو بے شک وہ لوگ جو اللہ پر بہتان باندھتے ہیں کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔ النحل 116۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ دین دینے والا لااکراہ فی الدین اور یریداللہ بکم الیسر فرما کر دین میں آسانی اور وسعت فرمائے اور دین لینے والا نبی صلی اللہ علیہ وسلم وما سکت عنہ فھو مما عنہ فرما کر ہمارے دائرہ عمل کو کشادگی دے مگر دین پر عمل کرنے والے اپنی کوتاہ فہمی اور کج فہمی کے باعث چھوٹے چھوٹے نزاعی معاملات پر بدعت و شرک کے فتوے صادر کرتے رہیں۔ ہماری آج کی اس گفتگو میں ہم اسلام کے تصور بدعت اور اسکی شرعی حیثیت کا خود قرآن و سنت سے جائز پیش کریں گے ۔۔۔۔۔
تو آئیے سب سے پہلے دیکھتے ہیں کے لفظ بدعت عربی لغت میں کن معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔


بدعت کا لغوی مفہوم
بدعت عربی زبان کا لفظ ہے جو بدع سے مشتق ہے اس کا معنی ہے .اختر عہ وصنعہ لا علی مثال ۔ المنجد
یعنی نئی چیز ایجاد کرنا ، نیا بنانا ، یا جس چیز کا پہلے وجود نہ ہو اسے معرض وجود میں لانا۔
جس طرح یہ کائنات نیست اور عدم تھی اور اس کو اللہ پاک نے غیر مثال سابق عدم سے وجود بخشا تو لغوی اعتبار سے یہ کائنات بھی بدعت کہلائی اور اللہ پاک بدیع جو کہ اللہ پاک کا صفاتی نام بھی ہے ۔اللہ پاک خود اپنی شان بدیع کی وضاحت یوں بیان کرتا ہے کہ۔
بدیع السموات والارض۔ الانعام 101 یعنی وہ اللہ ہی زمین و آسمان کا موجد ہے ۔
اس آیت سے واضح ہو ا کہ وہ ہستی جو کسی ایسی چیز کو وجود عطا کرے جو کہ پہلے سے موجود نہ ہو بدیع کہلاتی ہے بدعت کے اس لغوی مفہوم کی وضاحت قرآن پاک کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ۔۔
قل ماکنت بدعا من الرسل۔ الاحقاف 46 یعنی آپ فرمادیجیے کہ میں کوئی نیا یا انوکھا رسول تو نہیں ۔
مندرجہ بالا قرآنی شہادتوں کی بنا پر یہ بات عیاں ہوگئی کہ کائنات کی تخلیق کا ہر نیا مرحلہ اللہ پاک کے ارشاد کے مطابق بدعت کہلاتا ہے جیسا کہ فتح المبین شرح اربعین نووی میں علامہ ابن حجر مکی بدعت کے لغوی مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بدعت لغت میں اس نئے کام کو کہتے ہیں جس کی مثال پہلے موجود نا ہو جس طرح قرآن میں شان خداوندی کے بارے میں کہا گیا کہ آسمان اور زمین کا بغیر کسی مثال کے پہلی بار پید اکرنے والا اللہ ہے۔
بیان المولود والقیام 20۔


بدعت کا اصطلاحی مفہوم
اصطلاح شرع میں بدعت کا مفہوم واضح کرنے کے لیے ائمہ فقہ و حدیث نے اس کی تعریف یوں کی ہے کہ۔
ہر وہ نیا کام جس کی کوئی اصل بالواسطہ یا بلاواسطہ نہ قرآن میں ہو نہ حدیث میں ہو اور اسے ضروریات دین سمجھ کر شامل دین کرلیا جائے یاد رہے کہ ضروریات دین سے مراد وہ امور ہیں کہ جس میں سے کسی ایک چیز کا بھی انکار کرنے سے بندہ کافر ہوجاتا ہے۔
ایسی بدعت کو بدعت سئیہ کہتے ہیں اور بدعت ضلالہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پاک کل بدعة ضلالة سے بھی یہی مراد ہے ۔
کیا ہر نیا کام ناجائز ہے ؟
ایسے نئے کام کہ جن کی اصل قرآن و سنت میں نہ ہو وہ اپنی اصل کے اعتبار سے تو بدعت ہی کہلائیں گےمگر یہاں سوال یہ پیداہوتا کہ آیا از روئے شریعت ہر نئے کام کو محض اس لیے ناجائز و حرام قرار دیا جائے کہ وہ نیا ہے ؟
اگر شرعی اصولوں کا معیار یہی قرار دیا جائے تو پھر دین اسلام کی تعلیمات اور ہدایات میں سے کم و بیش ستر فیصد حصہ ناجائز و حرام ٹھرتا ہےکیونکہ اجتہاد کی ساری صورتیں اور قیاس ، استحسان،استنباط اور استدلال وغیرہ کی جملہ شکلیں سب ناجائز و حرام کہلائیں گی کیونکہ بعینہ ان سب کا وجود زمانہ نبوت تو درکنار زمانہ صحابہ میں بھی نہیں تھا اسی طرح دینی علوم و فنون مثلا اصول، تفسیر ، حدیث ،فقہ و اصول فقہ اور انکی تدوین و تدریس اور پھر ان سب کوسمجھنے کے لیے صرف و نحو ، معانی ، منطق وفلسفہ اور دیگر معاشرتی و معاشی علوم جو تفہیم دین کے لیے ضروری اور عصر ی تقاضوں کے عین مطابق ابدی حیثیت رکھتے ہیں ان کا سیکھنا حرام قرار پائے گا کیونکہ اپنی ہیت کے اعتبار سے ان سب علوم و فنون کی اصل نہ تو زمانہ نبوی میں ملتی ہے اور نہ ہی زمانہ صحابہ میں انھیں تو بعد میں ضروریات کے پیش نظر علماء مجتہدین اسلام نے وضع کرلیا تھا ۔اور اگر آپ کو اسی ضابطے پر اصرار ہوتو پھر درس نظامی کی موجودہ شکل بھی حرام ٹھرتی ہے جو کہ بحرحال دین کو سمجھنے کی ایک اہم شکل ہے اوراسے اختیار بھی دین ہی سمجھ کر کیا جاتا ہے کیونکہ موجودہ شکل میں درس نظامی کی تدریس ، تدوین اور تفہیم نہ تو زمانہ نبوی میں ہوئی اور نہ ہی صحابہ نے اپنے زمانے میں کبھی اس طرح سے دین کو سیکھا اور سکھایا لہذا جب ہر نیا کام بدعت ٹھرا اور ہر بدعت ہی گمراہی ٹھری تو پھر لازما درس نظامی اور دیگر تمام امور جو ہم نے اوپربیان کیئے وہ سب ضلالت و گمراہی کہلائیں گے اسی طرح قرآن پاک کا موجودہ شکل میں جمع کیا جانا اس پر اعراب اور نقاط پھر پاروں میں اس کی تقسیم اور منازل میں تقسیم اور رکوعات اور آیات کی نمبرنگ اسی طرح مساجد مین لاوڈ اسپیکر کا استعمال مساجد کو پختہ کرنا اور انکی تزیئن و آرائش مختلف زبانوں میں خطبات اور اسی قسم کے جملہ انتظامات سب اسی زمرے میں آئیں گے۔


غلط فہمی کے نتائج
بدعت کا مندرجہ بالا تصور یعنی اس کے مفہوم سے ہر نئی چیز کو گمراہی پر محمول کرنا نہ صرف ایک شدید غلط فہمی بلکہ مغالطہ ہے اور علمی اور فکری اعتبار سے باعث ندامت ہے ا ور خود دین اسلام کی کشادہ راہوں کو مسدود کردینے کے مترادف ہے بلکہ اپنی اصل میں یہ نقطہ نظر قابل صد افسوس ہے کیونکہ اگر اسی تصور کو حق سمجھ لیا جائے تویہ عصر حاضر اور اسکے بعد ہونے والی تمام تر علمی سائنسی ترقی سے آنکھیں بند کر کے ملت اسلامیہ کو دوسری تمام اقوام کے مقابلے میں عاجز محض کردینے کی گھناونی سازش قرارپائے گی اور اس طریق پر عمل کرتے ہوئے بھلا ہم کیسے دین اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کرنے اور اسلامی تہذیب وثقافت اور تمدن اور مذہبی اقدار اور نظام حیات میں بالا تری کی تمام کوششوں کو بار آور کرسکیں گے اس لیے ضروری ہے کہ اس مغالطے کو زہنوں سے دور کیا جائے اور بدعت کا حقیقی اور صحیح اسلامی تصور امت مسلمہ کی نئی نسل پر واضح کیا جائے ۔


بدعت کا حقیقی تصوراحادیث کی روشنی میں

حضرت عائشہ فرماتیں ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد ۔ البخاری والمسلم
یعنی جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات پیدا کرے جو اس میں﴿یعنی دین میں سے ﴾ نہ ہو تو وہ رد ہے ۔
اس حدیث میں لفظ احدث اور ما لیس منہ قابل غور ہیں عرف عام میں احدث کا معنی دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کرنا ہے اور لفظ ما لیس منہ احدث کے مفہوم کی وضاحت کر رہا ہے کہ احدث سے مراد ایسی نئی چیز ہوگی جو اس دین میں سے نہ ہو حدیث کے اس مفہوم سے زہن میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ
اگر احدث سے مراد دین میں کوئی نئی چیز
پیدا کرنا ہے تو پھر جب ایک چیز نئی ہی پیدا ہورہی ہے تو پھر یہ کہنے کی ضرورت کیوں پہش آئی کہ ما لیس منہ کیونکہ اگر وہ اس میں سے ہی تھی﴿یعنی پہلے سے ہی دین میں شامل تھی یا دین کاحصہ تھی ﴾تو اسے نیا کہنے کی ضرورت ہی نہ تھی اور جس کو نئی چیز کہہ دیا تو لفظ احدث زکر کرنے کے بعد ما لیس منہ کے اضافے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بھی چیز ما لیس منہ میں﴿یعنی دین ہی میں سے ﴾ ہے تو وہ نئی یعنی محدثہ نہ رہی ۔ کیونکہ دین تو وہ ہے جو کمپلیٹ ہوچکا جیسا کے اکثر احباب اس موقع پر
الیوم اکملت لکم دینکم کی آیت کا حوالہ دیتے ہیں اور اگر کوئی چیز فی الحقیقت نئی ہے تو پھر ما لیس منہ کی قید لگانے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ نئی چیز تو کہتے ہی اسے ہیں کہ جس کا وجود پہلے سے نہ ہو اور جو پہلے سے دین میں ہو تو پھر لفظ احدث چہ معنی دارد؟


مغالطے کا ازالہ اور فھو رد کا صحیح مفھوم
صحیح مسلم کی روایت ہے من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد
مسلم شریف۔
یعنی جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا کوئی امر موجود نہیں تو وہ مردود ہے ۔
اس حدیث میں لیس علیہ امرنا سے عام طور پر یہ مراد لیا جاتا ہےکہ کو ئی بھی کام خواہ نیک یا احسن ہی کیوں نہ ہو مثلا میلاد النبی ،ایصال ثواب،وغیرہ اگر ان پر قرآن و حدیث سے کوئی نص موجود نہ و تو تو یہ بدعت او مردود ہیں ۔ یہ مفہوم سرا سر باطل ہے کیونکہ اگر یہ معنی لے لیا جائے کہ جس کام کہ کرنے کا حکم قرآن اور سنت میں نہ ہو وہ حرام ہے تو پھر مباحات کا کیا تصور اسلام میں باقی رہ گیا ؟ کیونکہ مباح تو کہتے ہی ا سے ہیں کہ جس کہ کرنے کا شریعت میں حکم نہ ہو ام المومنین کی پہلی روایت یعنی من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھو رد میں فھو رد کا اطلاق نہ صرف مالیس منہ پر ہوتا ہے اور نہ فقط احدث پر بلکہ اس کا صحیح اطلاق اس صورت میں ہوگا جب یہ دونوں چیزیں جمع ہوں گی یعنی احدث اور مالیس منہ یعنی مردود فقط وہی عمل ہوگا جو نیا بھی ہو اور اسکی کوئی سابق مثال بھی شریعت میں نہ ملتی ہو یا پھر اس کی دین میں کسی جہت سے بھی کوئی دلیل نہ بنتی ہو اور کسی جہت سے دین کا اس سے کوئی تعلق نظر نہ آتا ہو پس ثابت ہوا کہ کسی بھی محدثہ کے بدعت ضلالة ہونے کا ضابطہ دو شرائط کے ساتھ خاص ہے ایک یہ کہ دین میں اس کی کوئی اصل ، مثال یا دلیل موجود نہ ہو اور دوسرا یہ کہ وہ محدثہ نہ صرف دین کے مخالف ہو اور متضاد ہو بلکہ دین کی نفی کرنے والی ہو
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top