کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

آبی ٹوکول

محفلین
شریعت اسلام اور تصور حلال و حرام
اسلام کےدامن میں کوئی تنگی یا محدودیت نہیں ہےبلکہ یہ ایک آسان واضح اور قابل عمل دین شریعت مطہرہ میں کوئی شئےاس وقت ناجائز قرار پاتی ہےجب اس کو قرآن و سنت یا اجماع ازروئےشرع ناجائز قرار دیں ۔ جس کو قرآن و سنت نےصراحت کےساتھ جائز نہیں کہا اسےاز روئےشرع ناجائز بھی نہیں کہا جاسکتا وہ اس لیےکہ شریعت کا اصول حلال چیزوں کو گنوانےاور انکی گنتی پر نہیں بلکہ قرآن پاک کا یہ اصول ہےکہ اس نےجہاں بھی حلال و حرام کی تقریر بیان کی ہےتو حرام اشیاءکی فہرست گنوا دی ہے اور اس کےعلاوہ ہر شئےکو اصلا مباح قرار دیا ہے اسی اصول پر شریعت کا مشہور قاعدہ ہےکہ الاشیا فی الا صل اباحہ اور ہماری اس بات کی تائید متعدد قرآنی آیات سےہوتی ہے اب آپ سورہ مائدہ کی ان ابتدائی آیات پر ہی غور کرلیں کہ جن میں بڑےواضح الفاظ سےہماری بات کی تائید ہورہی ہے ۔۔۔
یاایھالذین امنو اوفوا بالعقود احلت لکم بھیمۃ الانعام الا ما یتلی علیکم ۔۔۔۔
اے ایمان والو پورےکرو اپنےعہدوں کو حلال کیےگئےتمہارےلیےچوپائےسوائ ےانکےکہ جن کا حکم پڑھ کرسنایا جائےگا ۔۔۔الانعام١
اب اس آیت پر غور کریں کہ مطلق سب جوپایوں کو حلا ل قرار دیا گیا یعنی یہ نہیں کہا گیا کہ فلاں بھی حلال ہے فلاں بھی حلال اور فلاں بھی حلال ہے اور جب باری آئی حرام جانوروں کی تو الا جو کہ حرف
استثناء ہے۔ اسے ادا فرما کر یہ یہ کہا گیا کہ حرام وہ ہیں جوکہ
ما یتلٰی علیکم کےتحت آئیں گےیعنی جن کا حکم آگے پڑھ کر سنایا جائے گا یعنی جو آگےجاکر تلاوت کیے جائیں گےاور پھر آپ ان سےاگلی آیات دیکھیں تو ان میں حرام جانوروں کی فہرست ہے۔۔۔ میں آپ کو شریعت مطہرہ کہ اس اصول کی ایک آسان مثال اس طرح دوں گاکہ جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ حلال اشیا ءبے شمار ہیں اس لیےدین انکی فہرست نہیں گنواتا جب کہ حرام اشیا چونکہ حلال کےمقابلےمیں کم ہیں
اس لیےدین انکے نام لے لیکر گنواتا ہےجیسےکہ ایک کلاس میں پچاس بچے ہوں اور ان میں سےتین بچے فیل ہوجائیں تو استاد اُن فیل ہونے والےتینوں بچوں کےنام لیکر بتا دےگا کہ باقی سب بچے پاس ہیں اب اگر وہ ایسا نہ کرےبلکہ ایک ایک پاس ہونے والےبچےکا الگ الگ نام لیکر ذکر کرے تو اس کا ایسا کرنا آداب حکمت کے بھی خلاف ہوگا اور فصاحت و بلاغت کےبھی منافی ہوگا۔۔۔
اسی لیےہم عرض کررہےتھےکہ کسی عمل کو محض بدعت کہہ دینےسے وہ حرام نہیں ہوجاتا کیونکہ لغوی اعتبار سے کسی عمل کا بدعت ہونا فقط اتنا ثابت کرئے گا کہ اس پر قرآن و حدیث اور عمل صحابہ سےکوئی سند نہیں ہے لہذا ایسا ہر عمل اباحت کے دائرےمیں آجائےگا پس ثابت ہوا کہ کسی عمل کا محض نیا ہونا حرمت کی دلیل نہیں بن سکتا بلکہ کسی بھی نئےعمل کی حلت و حرمت کو جاننے کےلیےاسے دلیل شرعی کی طرف لوٹایا جائےگا
اگر وہ عمل موافق شرع ہو تو بدعت حسنہ اور اگر خلاف شرع ہوتو بدعت سئیہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا کسی کام کو محض نہ کرنا اس کی حرمت کی دلیل نہیں ہوتا۔
اور اگر اسی کو قاعدہ مان لیا جائے تو پھر ہر وہ عمل کہ جس کا قرآن میں ذکر نہیں اسے بدرجہ اولیٰ بدعت کہا جانا چاہیےکیونکہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کےترک سے کوئی فعل بدعت قرار پا سکتا ہے تو پھر قرآن پاک جو کہ کلام الٰہی ہےاس کے ترک سے تو اس فعل کو بطریق اولٰی بدعت قرار دیا جانا چاہیے۔
اسی لیے اصل ضابطہ یہ ہے کہ قرآن نےجو چیزیں حرام کی ہیں وہ بیان کردیں ہیں اور جن کے بارے میں خاموشی اختیا ر کی ہے وہ جائز ہیں قرآن اپنا یہ قاعدہ یوں بیان کرتا ہےکہ۔۔
قد فصل لکم ما حرم علیکم الانعام 119
یعنی :اس نےتم پر جو چیزیں حرام قرار دیں ان سب کو تفصیلا بیان کردیا ۔
اور اسی طرح ایک اور مقام پر یوں فرمایا کہ۔۔
واحلال لکم ما ورا ذالکم النساء 24۔
یعنی اور اسکےسوا تمہارے لیے سب حلال ہے ۔ یہاں ذالکم میں کم کی ضمیر کا مرجع وہ اشیاء ہیں کہ جنکا بیان اس کی آیت کے ماقبل میں ہے یعنی یہاں کم کی ضمیر بیان شدہ چیزوں کی طرف لوٹ رہی ہے۔۔
ان دونوں آیات سےہمارے بیان کردہ قرآنی اصول کی بڑی وضاحت کےساتھ تصریح ہوتی ہےکہ جس چیز کو قرآن نےحرام کیا اس کی فہرست یعنی تفصیل کردی اور اس کےسوا چونکہ باقی چیزوں کی فہرست نہیں اس لیے وہ سب مباح یعنی جائز قرار پائیں گی، پس ثابت ہوا کہ ترک ذکر حرمت کی نہیں بلکہ اباحت کی دلیل ہے۔ اور اسی اصول کی وجہ سےکسی بھی چیز کو حرام ٹھرانے والے کے لیے ضروری ہےکہ وہ اسکی دلیل لائے اور اسی لیے فقہا نےلکھا کہ دلیل ہمیشہ حرمت کی طلب کی جائےگی کیونکہ اصل تمام اشیاءمیں اباحت ہے ۔
 
جبکہ بار بار آگاہ کیا جاتا ہے کہ اردو محفل کوئی تبلیغی فورم نہیں یہاں اپنے مذہب اور عقیدے کے بیان کا تو سب کو حق ہے لیکن دوسروں کے مذاہب و عقائد پر تنقیص کی اجازت نہیں۔ ہاں اختلاف رائے کے اظہار کے لئے نرم اور ملائم الفاظ میں وہاں تک گفتگو جاری رکھی جا سکتی ہے جہاں تک فریق ثانی کے عقائد پر زد نہ پڑے لیکن جو کچھ اس دھاگے میں اب تک ہو چکا ہے وہ کسی طور بھی مہذب لوگوں کی گفتگو نہیں کہلا سکتا ۔ ہر کسی دھاگے پر ہنگامہ برپا کرنے کا مطلب؟ ۔
اس کام کے لئے نیٹ پر بہت سے دیگر فورم موجود ہیں۔

جناب یہ بات تو دھاگے کے پہلے مراسلے جس سے دھاگہ شروع ہوا اسی پر کہہ دینی چاہئے تھی۔ کیونکہ یہ دھاگہ شروع ہی "زد" کے لئے ہوا تھا تو زد کا جواب بھی دینا تھا، جو اب تک چل ہی رہا ہے۔ :)
 

شمشاد

لائبریرین

ساجد

محفلین
جناب یہ بات تو دھاگے کے پہلے مراسلے جس سے دھاگہ شروع ہوا اسی پر کہہ دینی چاہئے تھی۔ کیونکہ یہ دھاگہ شروع ہی "زد" کے لئے ہوا تھا تو زد کا جواب بھی دینا تھا، جو اب تک چل ہی رہا ہے۔ :)
میرا نہیں خیال کہ دھاگے کا آغاز کسی کے عقائد پر حملے سے ہوا بلکہ عبدالرزاق قادری صاحب نے اپنا مؤقف بیان کیا لیکن اس کے بعد کے مراسلوں میں وہی دھینگا مشتی نظر آئی جس سے بار بار منع کیا جاتا ہے۔
 
جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ جی 12 ربیع الاول تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ وفات بھی ہے، چنانچہ بجائے انکی ولادت کی خوشی کے، وفات کا سوگ منانا چاہئیے تھا۔۔۔۔تو بصد احترام عرض ہے کہ:
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی صبحِ دوامِ زندگی۔۔
(اقبال علیہ الرحمۃ)
عقلمند کو اشارہ کافی ہوتا ہے۔ :)
 

محمد امین

لائبریرین
امین بھیا میں نہ تو سالگرہ مناتی ہوں نہ برسی ۔ آپ ایک بات بتائیے : اپنے پیاروں کی وفات پر لوگ برسی مناتے ہیں تو آقا و مولا ﷺ کی وفات ۱۲ ربیع الاول پر جشن کیوں مناتے ہیں ؟ آپ اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ میلاد کی تاریخ پر اختلاف ہے لیکن وفات کی تاریخ پر کوئی اختلاف نہیں ۔ سب مورخین نے ۱۲۲ ربیع الاول ہی کہا ہے ۔ سوچیے گا ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بارے میں کیا کہوں۔ عالمِ اسلام میں شاید ہی کوئی حضورِ پاک کو متوفی مانتا ہو۔۔ موت ان پر ہر نفس کی طرح آئی ضرور مگر اجماع اسی پر ہے کہ وہ اپنی قبرِ اطہر میں زندہ ہیں اور قیامت تک ساری کائنات کے لیے نبی اور رسول ہیں۔ خیر۔۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
734492_487119364679404_1029717527_n_zps8f69fb3f.jpg
 

یوسف-2

محفلین
اس طرح کی بحثوں میں مجھ جیسے تو بہت کنفیوژ ہو جاتے ہیں لہٰذا بہتر حل یہ ہے کہ آپ سب آخر میں نتیجہ کے نام سے آخری پوسٹ ضرور کر دیا ہے تاکہ پتہ لگ جائے کہ کیا صحیح ہے۔
اگر ہم سب نے اپنا اپنا نتیجہ لکھ کر پوسٹ کیا تو اتنے سارے متضاد نتائج دیکھ کر تو آپ جیسے کنفیوژن سے آگے بڑھ کر مخمصہ کا شکار ہوجائیں گے :p
 

حماد

محفلین
مزے کی بات یہ ہے کہ جو اصحاب یہاں جشن عید میلادالنبی ‍ﷺ کی مخالفت میں پیش پیش ہیں وہی ایک اور دھاگے میں گستاخ رسول مواد ہٹائے نہ جانے کی بنا پر بین یو ٹیوب استعمال کرنے کے طریقوں پر مفصل روشنی ڈال رہے ہیں۔ :thinking2:
 

حسان خان

لائبریرین
یہ سب کا کلچر بھی نہیں ہے ۔ ایک مخصوص فرقے کا کلچر ہو گا ۔

ہمارے برادر سنی حنفی اکثریتی ملک ترکی میں مولودِ نبی سلجوقی عہد سے بڑی آب و تاب کے ساتھ منایا جاتا رہا ہے، نیز جدید ترکی میں تو یہ دن باقاعدہ سرکاری طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اب کیا ہم یہ کہنے پر حق بجانب نہیں کہ صرف ایک 'مخصوص فرقے' کو چھوڑ کر مسلمانوں کی غالب اکثریت اس دن کو مناتی ہے؟
http://www.worldbulletin.net/?aType=haber&ArticleID=102260
 
اس دفعہ پچھلے سال سے بھی زیادہ شرک و بدعت کے فتوے لگے لیکن میں حیران ہوں کہ اس دفعہ سجاوٹ اور چراغاں پچھلے سال سے کہیں زیادہ تھا۔
گل مکدی مکاؤ
جتنا مرضی زور لگائیں یہ چراغاں پہلے سے بھی بڑھے گا یہ سجاوٹ بھی بڑھے گی
میں نے آج تک اپنے گھر کی سجاوٹ نہیں کی لیکن سوچ رہا ہوں کہ اگلی دفعہ ربیع الاول کا مہینہ آتے ہی اپنا گھر خوب سجاؤں گا اور چراغاں بھی کروں
 
امین بھیا میں نہ تو سالگرہ مناتی ہوں نہ برسی ۔ آپ ایک بات بتائیے : اپنے پیاروں کی وفات پر لوگ برسی مناتے ہیں تو آقا و مولا ﷺ کی وفات ۱۲ ربیع الاول پر جشن کیوں مناتے ہیں ؟ آپ اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ میلاد کی تاریخ پر اختلاف ہے لیکن وفات کی تاریخ پر کوئی اختلاف نہیں ۔ سب مورخین نے ۱۲۲ ربیع الاول ہی کہا ہے ۔ سوچیے گا ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بارے میں کیا کہوں۔ عالمِ اسلام میں شاید ہی کوئی حضورِ پاک کو متوفی مانتا ہو۔۔ موت ان پر ہر نفس کی طرح آئی ضرور مگر اجماع اسی پر ہے کہ وہ اپنی قبرِ اطہر میں زندہ ہیں اور قیامت تک ساری کائنات کے لیے نبی اور رسول ہیں۔ خیر۔۔
انڈرلائن سطر پر حیرت کو ایک طرف رکھ کر ۔۔۔ میں اسی موت کی بات کر رہی ہوں جو بقول آپ کے آئی ضرور ، اسی موت کا تذکرہ قرآن میں ہے ۔ اور یوں آپ اسی عالم اسلام میں شامل ہوئے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر یقین رکھتا ہے ۔
تو وہ موت جو آئی ضرور وہ 12 ربیع الاول ہی کو آئی تھی ، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ وفات کا دن 12 ہے ۔ میرا بنیادی سوال یہی تھا کہ جو لوگ برسی اور سالگرہ مناتے ہیں ، ان کو دیکھا ہے کہ کسی برسی پر کسی کی سالگرہ آتی ہو تو وہ اس سالگرہ کو چند دن پہلے یا بعد منا لیتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے روز ان کی سالگرہ کیوں منائی جاتی ہے ؟
 
ہمارے برادر سنی حنفی اکثریتی ملک ترکی میں مولودِ نبی سلجوقی عہد سے بڑی آب و تاب کے ساتھ منایا جاتا رہا ہے، نیز جدید ترکی میں تو یہ دن باقاعدہ سرکاری طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اب کیا ہم یہ کہنے پر حق بجانب نہیں کہ صرف ایک 'مخصوص فرقے' کو چھوڑ کر مسلمانوں کی غالب اکثریت اس دن کو مناتی ہے؟
http://www.worldbulletin.net/?aType=haber&ArticleID=102260
جناب میں نے اکثریت یا تعداد کی بات نہیں کی ۔ مکتب فکر کی، فرقے کی بات کی ہے ۔ اکثریت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی کن کی تھی ، سب کو پتہ ہے ۔
 

حسان خان

لائبریرین
جناب میں نے اکثریت یا تعداد کی بات نہیں کی ۔ مکتب فکر کی، فرقے کی بات کی ہے ۔ اکثریت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی کن کی تھی ، سب کو پتہ ہے ۔

آپ کے پچھلے مراسلے سے کچھ ایسا تاثر مل رہا تھا کہ جیسے صرف پاکستان کا ایک طبقہ ہی یہ دن مناتا ہے، یا یہ دن اسی قلیل طبقے کی ثقافت کا حصہ ہے۔ جب کہ درحقیقت ایک قلیل تعداد کو چھوڑ کر عالمِ اسلام کی غالب اکثریت صدیوں سے مولودِ نبی مناتی آئی ہے۔
 

متلاشی

محفلین
آپ کے پچھلے مراسلے سے کچھ ایسا تاثر مل رہا تھا کہ جیسے صرف پاکستان کا ایک طبقہ ہی یہ دن مناتا ہے، یا یہ دن اسی قلیل طبقے کی ثقافت کا حصہ ہے۔ جب کہ درحقیقت ایک قلیل تعداد کو چھوڑ کر عالمِ اسلام کی غالب اکثریت صدیوں سے مولودِ نبی مناتی آئی ہے۔
جناب کسی بات کے حق یا نا حق کو پرکھنے کے لئے اس کے کرنے والوں کی تعداد نہیں دیکھی جاتی ۔۔۔!
اگر یہی اصول لاگو کریں تو پھر تو مسلمانوں کی اکثریت نماز نہیں پڑھتی ۔۔۔ تو کیا ہم نماز پڑھنا بھی چھوڑ دیں ۔۔۔۔۔؟
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top