جس شخص کے ہاتھوں میں ہنر کچھ بھی نہیں ہے

فرحت کیانی

لائبریرین
اس بات میں سب کچھ ہے مگر کچھ بھی نہیں ہے
اس سمت کو جاتا ہوں جدھر کچھ بھی نہیں ہے۔
درپیش ہے صحرا کا سفر سوئے چمن زار
اور اس پہ ستم زادِ سفر کچھ بھی نہیں ہے۔
کس شے کے تجسس میں ہو تم محوِ نظارہ
افلاک کے اس پار اگر کچھ بھی نہیں ہے۔
اک عمر محبت کی ریاضت میں گزاری
اب چاکِ گریباں کے دگر کچھ بھی نہیں ہے۔
آ جائے میسر جو کبھی علم کا ساغر
پیاسے کے لئے عمرِ خضر کچھ بھی نہیں ہے۔
دشنام طرازی ہے مغل، اس کا وطیرہ
جس شخص کے ہاتھوں میں ہنر کچھ بھی نہیں ہے۔
۔۔۔م-م-مغل
 

فاتح

لائبریرین
اس بات میں سب کچھ ہے مگر کچھ بھی نہیں ہے
اس سمت کو جاتا ہوں جدھر کچھ بھی نہیں ہے۔
درپیش ہے صحرا کا سفر سوئے چمن زار
اور اس پہ ستم زادِ سفر کچھ بھی نہیں ہے۔
کس شے کے تجسس میں ہو تم محوِ نظارہ
افلاک کے اس پار اگر کچھ بھی نہیں ہے۔
اک عمر محبت کی ریاضت میں گزاری
اب چاکِ گریباں کے دگر کچھ بھی نہیں ہے۔
آ جائے میسر جو کبھی علم کا ساغر
پیاسے کے لئے عمرِ خضر کچھ بھی نہیں ہے۔
دشمن طرازی ہے مغل، اس کا وطیرہ
جس شخص کے ہاتھوں میں ہنر کچھ بھی نہیں ہے۔
۔۔۔م-م-مغل

بہت خوب فرحت۔ تمام غزل ہی خوبصورت ہے۔
ویسے مقطع میں آپ سے ایک ٹائپو ہو گئی ہے۔ "دشنام طرازی" کی بجائے دشمن طرازی لکھ دیا۔
صاحبان ادب کے درمیان مجھ سا بے ادب ایک گستاخانہ سوال پوچھنا چاہتا ہے اور وہ یہ کہ م۔ م۔ مغل کس نام کے مخففات ہیں؟ اپنی لاعلمی پر شرمندہ ہوں۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بہت خوب فرحت۔ تمام غزل ہی خوبصورت ہے۔
ویسے مقطع میں آپ سے ایک ٹائپو ہو گئی ہے۔ "دشنام طرازی" کی بجائے دشمن طرازی لکھ دیا۔
صاحبان ادب کے درمیان مجھ سا بے ادب ایک گستاخانہ سوال پوچھنا چاہتا ہے اور وہ یہ کہ م۔ م۔ مغل کس نام کے مخففات ہیں؟ اپنی لاعلمی پر شرمندہ ہوں۔
تصحیح کا شکریہ فاتح۔۔میں نے ایڈٹ کر دیا ہے۔۔
اس بارے میں آُ پ کو ٹھیک طور پر تو کوئی صاحبِ ادب ہی بتا سکیں گے۔۔ویسے میں نے م ۔ م۔ مغل ہی پڑھا تھا۔۔ :)
 

عمر سیف

محفلین
کس شے کے تجسس میں ہو تم محوِ نظارہ
افلاک کے اس پار اگر کچھ بھی نہیں ہے۔
اک عمر محبت کی ریاضت میں گزاری
اب چاکِ گریباں کے دگر کچھ بھی نہیں ہے۔


بہت خوب۔
 

مغزل

محفلین
ارے ارے۔۔۔
فرحت کیانی صاحبہ۔
بہت شکریہ۔۔ بلکہ بہت شکریہ ۔۔
یہ لڑی آج میری نظروں میں آئی ۔۔
اس قدر تاخیر پر معذرت بھی شرمندہ ہوگی۔
دیگر احباب کا بھی شکریہ
ممنون و متشکر
 

محمداحمد

لائبریرین

غزل

اس بات میں سب کچھ ہے مگر کچھ بھی نہیں ہے
اس سمت کو جاتا ہوں جدھر کچھ بھی نہیں ہے۔

درپیش ہے صحرا کا سفر سوئے چمن زار
اور اس پہ ستم زادِ سفر کچھ بھی نہیں ہے۔

کس شے کے تجسس میں ہو تم محوِ نظارہ
افلاک کے اس پار اگر کچھ بھی نہیں ہے۔

اک عمر محبت کی ریاضت میں گزاری
اب چاکِ گریباں کے دگر کچھ بھی نہیں ہے۔

آ جائے میسر جو کبھی علم کا ساغر
پیاسے کے لئے عمرِ خضر کچھ بھی نہیں ہے۔

دشنام طرازی ہے مغل، اس کا وطیرہ
جس شخص کے ہاتھوں میں ہنر کچھ بھی نہیں ہے۔

۔۔۔م-م-مغل​

بہت اچھا انتخاب ہے فرحت صاحبہ

خوش رہیے!
 
Top