جب تک اُمیدِ وصل کے صحراؤں میں رہا - مقسط ندیم

فرخ منظور

لائبریرین
جب تک اُمیدِ وصل کے صحراؤں میں رہا
اِک آبلہ جنوں کا مرے پاؤں میں رہا

یہ ہونٹ پھر بھی خشک رہے ریت کی طرح
گو میرا جِسم وصل کے دریاؤں میں رہا

کیسے پسند آئے اسے سایہء شجر
جو شخص گیسوؤں کی گھنی چھاؤں میں رہا

اس حوصلے کی داد تو دو دوستو مجھے
میں قتل کرنے والے مسیحاؤں میں رہا

دیکھیں نہ اس نے شہر کی ویرانیاں ندیم
تھا خوش نصیب قیس کہ صحراؤں میں رہا
 

فرحت کیانی

لائبریرین
تھا خوش نصیب قیس کہ صحراؤں میں رہا

بہت خوب۔۔۔ مقسط ندیم صاحب کا تو سارا کلام ہی بہت عمدہ ہے۔۔۔ ۔ بہت شکریہ سخنور۔۔۔ :)
 

جیا راؤ

محفلین
دیکھیں نہ اس نے شہر کی ویرانیاں ندیم
تھا خوش نصیب قیس کہ صحراؤں میں رہا

ساری غزل ہی خوبصورت ہے مگر یہ آخری شعر تو لاجواب ہے !
 

محمداحمد

لائبریرین
دیکھیں نہ اس نے شہر کی ویرانیاں ندیم
تھا خوش نصیب قیس کہ صحراؤں میں رہا

واہ بہت عمدہ غزل ہے۔۔ پڑھ کر لطف آگیا!
 
Top