طارق شاہ
محفلین

غزل
جان لینے کو یہ احساس کہِیں کُچھ کم ہے
پیار مجھ سے تمھیں پہلا سا نہیں، کُچھ کم ہے
زیست، کب اُس کے تخیّل سے حَسیں کُچھ کم ہے
اب بھی صُورت ہے وہی دِل کے قرِیں، کُچھ کم ہے
اُن پہ دعویٰ ،کہ ہیں پریوں سے حَسِیں، کُچھ کم ہے
کون کہہ سکتا ہے حُوروں سی نہیں، کُچھ کم ہے
رُخِ سیماب پہ آنکھیں ہیں غزالوں جیسی
رنگِ لب اُس پہ گلابوں سے حَسِیں کُچھ کم ہے
یہ الگ بات ہے آئیں گے نہیں ،کہہ کر بھی
پھروہی وعدۂ آمد ، کا یقیں کُچھ کم ہے
کیا زمانہ تھا، کہ ہر روز مِلا کرتے تھے !
دِل تعلّق نہ وہ ہونے پہ حَزِیں کُچھ کم ہے
کہہ اُٹھیں لوگ جسے دیکھ کے سبحان اللہ
دِل اُسی زہرہ جبیں کا ہے رَہِیں ، کُچھ کم ہے
ہمہ وقت اُس کی پرستش سے بھی دِل کو تیرے
جب مُکمّل نہ ہو راحت ، تو کہیں کُچھ کم ہے
وجہِ اِفراطِ محبّت، جو ہُوا جاناں کی!
مجھ پہ اُس رب کی عناعت بھی ، کہِیں کُچھ کم ہے
اِک تلاطُم کا جو باعث تھا جوانی میں، خلشؔ!
خُوب رُو ، اب بھی ہوں اُس دِل کے مکیں، کُچھ کم ہے
شفیق خلؔش