جانا ہے ایک روز حقیقت یہی تو ہے

جاسمن

لائبریرین
بہت ہی خوبصورت غزل۔
شاندار اشعار۔
زبردست پہ ڈھیروں زبریں۔
خزانہ ہے آپ کے پاس ماشاءاللہ ۔
:):):)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
حسب سابق نفیس خیالات اور عمدہ اندازِ بیان ۔ ۔ ماشا اللہ۔

سادہ رکھی ہے کاتبِ تقدیر نے کتاب
لکھیں گے اپنے ہاتھ سے قسمت یہی تو ہے


آنے نہ دیجے شیشۂ دل پر کوئی غبار
کاشانۂ حیات کی زینت یہی تو ہے

وہ ذاتِ لاشریک ہے پروردگارِ کُل
ہر چیز پر لکھی ہے جو آیت یہی تو ہے

واہ واہ ۔ ۔!
بہت نوازش ، بہت آداب، صابرہ ! توجہ اور پذیرائی کے لیے ممنون ہوں ، خواہرم۔ اللّٰہ ذوق سلامت رکھے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ماشاءاللہ ماشاءاللہ ، بہت اچھے اشعار ہیں ظہیر سر ایک شعر کے متعلق کچھ تشریح چاہوں گا۔
سادہ رکھی ہے کاتبِ تقدیر نے کتاب
لکھیں گے اپنے ہاتھ سے قسمت یہی تو ہے

سر تقدیر میں تو پہلے ہی وہ سب کچھ لکھا ہے جو ہماری قسمت میں ہونے والا ہے پھر وہ کتاب سادہ کیسے ہوسکتی ہے؟؟؟
حرفِ تحسین کے لیے بہت شکریہ، شارق! شکرگزار ہوں ۔
سوال آپ نے بہت اچھا پوچھا ہے۔ مختصر جواب تو یہ ہواکہ یہ شاعرانہ اندازِ بیان ہے ۔ دنیا میں جو بوئیں گے وہی آخرت میں کاٹیں گے۔ ہمارا ہر عمل ایک کتاب میں لکھا جارہا ہے اور آخرت میں اسی کتاب کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا یعنی یہی اعمال ہماری قسمت کا فیصلہ کریں گے ۔
فردِ عمل پہ کرکے رقم اپنے فیصلے
اپنے لکھے کو بخت کا لکھا کہیں گے لوگ
یہ بات تو درست ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنے سے ہزاروں سال پہلے ہی ہر ایک کی تقدیر کو لوحِ محفوظ پر لکھ دیا۔ لیكن اس كے ساتھ ساتھ ہر آدمی كو یه اختیار بھی دیا كه وه خیر اور شر میں سے جو چاہے چن لے ۔ اچھے اور برے عمل کا فیصلہ آدمی پر چھوڑدیا۔ اس موضوع پر گہرائی میں جائیں تو بات ذرا نازک ہوجاتی ہے ۔ گہرائی میں جانے اور مین میخ نکالنے سے ذہن الجھنے اور بھٹکنے کا اندیشہ ہے ۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے صحابہ کوتقدیر كے موضوع پر بحث کرتے دیکھا تو منع کیا ۔ علما اس بات کو ایک مثال کے ذریعے یوں واضح کرتے ہیں کہ جیسے ایک جماعت میں کچھ طلبا زیرِ تعلیم ہیں ۔ ایک استاد انہیں پانچ سال تک پڑھاتا ہے اور پھر آخر میں ان کا امتحان ہوتاہے ۔ استاد چونکہ ہر طالب علم سے بہت ہی اچھی طرح واقف ہے ، ان کی استعداد اور رجحان کو بخوبی جانتا ہے اس لیے وہ امتحان ہونے سے پہلے ہی ہر طالب علم کا نتیجہ (بطور پیشین گوئی) ایک کاغذ پر لکھ کر علیحدہ رکھ دیتا ہے ۔ تمام طالب علم اپنی اپنی تیاری کرنے کے بعد امتحان دیتے ہیں اور سب کا رزلٹ بالکل ویسا ہی آتا ہے جیسا کہ استاد صاحب نے پہلے ہی لکھ کر رکھ دیا تھا ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کیا ہی خوبصورت غزل پڑھنے کو ملی ہے۔۔۔ محبت ظہیر بھائی۔۔۔ بہت نوازش۔۔۔
بہت شکریہ ، نوازش ، نین بھائی ۔ بہت مشکور ہوں ۔

اب تو غزل پر آپ کی داد یوں محسوس ہوتی ہے جیسے قصاب حضرات قربانی سے پہلے بکری کو پانی پلاتے ہیں ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
غلط لوگوں سے مشورہ مانگ رہے ہیں۔۔۔ کچھ نہیں ملنے والا۔۔۔ ادھر آئیے۔۔۔ تاخیر و تقدیم کے لیے تمام مشورے ہمارے ہاں دستیاب ہیں۔۔۔ نمونہ از مشت خروارے ملاحظہ کیجیے۔

غزل لکھی برس بیتے۔۔۔ طبیعت شراکت پر تو مائل تھی۔۔۔ لیکن وہ داد جو آپ لوگوں سے ملنی تھی۔۔ ان سب کے جوابات لکھنے کا سوچ سوچ کر دل ہلکان ہوا جاتا تھا۔۔۔ سستی مزاج پر نہین لہو میں دوڑ رہی تھی۔۔۔ اب کہیں جا کر انگلیاں ہلانے کی تاب پاتا ہوں۔۔۔ سو یہ ایک غزل حاضر ہے۔۔۔

ایک اور

غزل لکھی تو سوچا کہ سناتے بھی ہیں۔۔۔۔ آج سنائیں۔۔ یا کل۔۔۔ منگل یا بدھ۔۔۔ بس وہ استاد پطرس مرحوم کے کردار کی طرح۔۔۔ ولیم ورڈز ورتھ پڑھیں کہ شیکپئر۔۔۔۔ تو دوستو۔۔۔ جب تک سنانے کا فیصلہ کیا۔۔۔ آج کا دن پہنچا۔۔۔۔

غزل کو نیا کہنے کا ایک انداز ۔۔۔

طبع پر ایسی اوازاری ہے۔۔۔ سستی ہے۔۔۔ کہ عشرہ دو عشرہ پرانی غزلیں رکھی ہیں۔۔۔ لیکن پرانے صفحے پلٹنے کی ہمت نہیں۔۔۔ دو چار صٍفحے ہی پلٹ پایا تھا کہ تھک گیا۔۔۔ وائے نصیب کہ اس صفحے پر یہی غزل لکھی تھی۔۔۔۔ بہت سی پرانی غزلوں میں سے ایک نئی غزل۔۔۔ آپ کی نذر۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔


اس کے علاوہ اور بھی گراں قدر مشوروں سے نوازا جا سکتا ہے۔۔۔ جہاں آپ دوسروں کو احساس دلا سکتے ہیں کہ وہ آپ سے تاخیر کے بارے میں گوشمالی نہیں کر سکتے۔۔۔

ایک نمونہ اس کا بھی

تاخیر برصغیر کی قدیم روایات میں سے ایک ہے اور میں ایک روایت پسند آدمی۔۔۔ مدت العمر سے روایت شکنی نہ کرسکا۔۔۔۔ نہ اسلاف کے خلاف جانے کی کبھی جرات ہوئی۔۔۔۔ اسی روایت کی پاسداری میں یہ ایک برسہا برس پرانی غزل پیش خدمت ہے۔۔۔ آپ تمام کو ہرگز کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ایک پرانی روایت کی پاسداری پر ہماری گوشمالی کریں۔۔۔۔۔

مزید اس قسم کے اعلانیے یا تمہیدی بیانات لکھوانے کے لیے رابطہ کیجیے۔۔۔
کیا بات ہے ! کیا ذہنِ رسا پایا ہے ، نین بھائی !
حق ہے، کوچہ کی سروری آپ ہی کو زیبا ہے! :)
عنوان اس تحریر کا میں دے دیتا ہوں : : تمہیدِ سست اطوار از سرکارِ کہولت آثار در تقریبِ کہنہ اشعار
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت ہی خوبصورت غزل۔
شاندار اشعار۔
زبردست پہ ڈھیروں زبریں۔
خزانہ ہے آپ کے پاس ماشاءاللہ ۔
:):):)
بہت شکریہ ، نوازش ، ذرہ نوازی ہے ! بہت ممنون ہوں۔
اللّٰہ کریم آپ کو خوش رکھے ، شاد آباد رہیں ، خواہرم دیہاتن! :)
 
الحمدللّٰہ ! بہت شکریہ ، معان بھائی ۔
آپ کی طبیعت آجکل کیسی ہے؟ اللّٰہ کریم خوش رکھے ۔ آسانیاں پیدا فرمائے ۔
آمین،
بھیا موسم سرما کے اثرات کی وجہ سے نزلہ کھانسی ہے۔
دعائے خیر سے نواز پر ہم آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آمین،
بھیا موسم سرما کے اثرات کی وجہ سے نزلہ کھانسی ہے۔
دعائے خیر سے نواز پر ہم آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
اللّٰہ کریم آپ کوصحتیاب فرمائے اور اچھا رکھے۔ ہر مشکل اور پریشانی سے دور رکھے۔ آمین
معان بھائی ، اپنا خیال رکھیے۔گھر سے باہر جائیں تو مناسب گرم کپڑے ، ٹوپ وغیرہ پہن کر نکلیں ۔ سرد موسم سے لاپروائی بالکل نہ کریں ۔ سردی سے آج تک کوئی نہیں جیتا۔
معان بھائی ، روزانہ پچیس تیس دانے کلونجی کھانے کو پختہ عادت بنالیں ۔ ایک چمچہ شہد بھی چائے وغیرہ میں ڈال کر پیئیں ۔ اللّٰہ ان چیزوں میں صحت اور شفا رکھی ہے۔
 
احبابِ اردو محفل کی خدمت میں ایک نئی غزل پیش کرتا ہوں ۔ امید ہے کچھ اشعار قبولیت پائیں گے ۔ آپ تمام دوستوں کا پیشگی شکریہ!

٭٭٭

جانا ہے ایک روز حقیقت یہی تو ہے
ماتھے پر آدمی کے عبارت یہی تو ہے

سادہ رکھی ہے کاتبِ تقدیر نے کتاب
لکھیں گے اپنے ہاتھ سے قسمت یہی تو ہے

نکلے ہیں رنگ خاک سے جتنے بہار میں
ملنے ہیں پھر سے خاک میں فطرت یہی تو ہے

وہ ذاتِ لاشریک ہے پروردگارِ کُل
ہر چیز پر لکھی ہے جو آیت یہی تو ہے

ہاتھوں میں رکھیے ساعتِ موجود کی زمام
کرنا ہے جو بھی کیجیے فرصت یہی تو ہے

آنے نہ دیجے شیشۂ دل پر کوئی غبار
کاشانۂ حیات کی زینت یہی تو ہے

جن میں لہو پرائے ، اجالے بھی غیر کے
روشن وہی چراغ ہیں ظلمت یہی تو ہے

دنیا ہے اپنا آج بنانے کی فکر میں
میں کل کا سوچتا ہوں مصیبت یہی تو ہے

کیجے کرم کریم کی مخلوق پر ظہیؔر
دیجے نہ دکھ کسی کو سخاوت یہی تو ہے

٭٭٭

ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۲۰​
واہ ، واہ ، ظہیر صاحب ! ہمیشہ کی طرح بہترین غزل ہے . داد قبول فرمائیے . اِجازَت ہو تو دو سوال ہیں . ساتویں شعر میں ’پرائے‘ ( یعنی غیر كے ) جائز ہے یا ’پرایا‘ ہونا چاہیے ؟ میں نے ’ لہو‘ كے ساتھ صیغہ جمع کی صفت پہلے نہیں دیکھی . اور آٹھویں شعر میں ’کل کا‘ ہونا چاہیے یا ’کل کی ؟‘ میں نے ’ کل کی سوچنا‘ تو سنا ہے ، لیکن ’ کل کا سوچنا‘ میرے لیے نیا ہے .
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت شکریہ ، نوازش ، نین بھائی ۔ بہت مشکور ہوں ۔

اب تو غزل پر آپ کی داد یوں محسوس ہوتی ہے جیسے قصاب حضرات قربانی سے پہلے بکری کو پانی پلاتے ہیں ۔
حالانکہ یہ ڈر آپ کو جاسمن صاحبہ سے محسوس ہونا چاہیے۔۔۔۔ وہ آجکل فارم میں ہیں۔۔۔ میں تو ریٹائرمنٹ کا سوچ رہا ہوں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ ، واہ ، ظہیر صاحب ! ہمیشہ کی طرح بہترین غزل ہے . داد قبول فرمائیے .
بہت شکریہ ، ذرہ نوازی ہے ، عرفان بھائی! داد و تحسین کے لیے ممنون ہوں ۔

ساتویں شعر میں ’پرائے‘ ( یعنی غیر كے ) جائز ہے یا ’پرایا‘ ہونا چاہیے ؟ میں نے ’ لہو‘ كے ساتھ صیغہ جمع کی صفت پہلے نہیں دیکھی . اور آٹھویں شعر میں ’کل کا‘ ہونا چاہیے یا ’کل کی ؟‘ میں نے ’ کل کی سوچنا‘ تو سنا ہے ، لیکن ’ کل کا سوچنا‘ میرے لیے نیا ہے .
عرفان بھائی ، میں کل کا سوچتا ہوں اور میں کل کی سوچتا ہوں دونوں ہی تقریر و تحریر میں مستعمل ہیں۔ لفظ "کل" کی تجنیس مختلف فیہ رہی ہے۔ بعض لغات نے اسے مؤنث لکھا ہے اور بعض نے مذکر۔ معاصر اردو میں اسے بیشتر مذکر ہی بولا اور لکھا جاتا ہے۔ مثلاً آنے والا کل ، گزرا ہوا کل ، مومن کا کل اُس کے آج سے بہتر ہے۔ وغیرہ ۔ میں ہمیشہ ہی اسے مذکر استعمال کرتا آیا ہوں۔
جن میں لہو پرائے ، اجالے بھی غیر کے
روشن وہی چراغ ہیں ظلمت یہی تو ہے
عرفان بھائی ، اس شعر میں واحد کے بجائے جمع کا صیغہ شعری خیال کے بہتر ابلاغ کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ شعر وطنِ عزیز کی سیاسی اور سماجی صورتحال کے پس منظر میں کہا گیا ہے۔ لہو ، اجالے اور چراغوں کی علامات کا سہارا لے کر اُن متعدد بیرونی قوتوں اور ان کی کٹھ پتلیوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو ہمارے ہاں خوب پنپ رہی ہیں ، فروغ پارہی ہیں۔ چنانچہ اظہارِ مدعا کے لیے لہو ، اجالے اور چراغ جمع کے صیغے میں ستعمال کیے کہ ان ظلمت فروش چراغوں میں کسی ایک کا لہو نہیں بلکہ متعدد دشمنوں کے لہو یا توانائیاں استعمال ہورہی ہیں۔
اگر اس شعر کو واحد کے صیغے میں کہا جائے یعنی:
جس میں لہو پرایا ، اجالا بھی غیر کا
روشن وہی چراغ ہے ظلمت یہی تو ہے
تو بات نہیں بنتی۔ غیر ضروری ابہام پیدا ہوجاتا ہے کہ نجانے کس چراغ کی بات ہورہی ہے ، کس کی طرف اشارہ ہے۔ چنانچہ اظہارِ مدعا کے لیے یہاں جمع کا صیغہ استعمال کرنا شعری ضرورت تھا ۔میں سمجھتا ہوں کہ میرے شعری خیال کا ابلاغ بہتر طور پر اسی طرح ہوتا ہے۔ خاصے غور و خوض کے بعد میں نے یہاں بہتر ابلاغ کی خاطر روایت سے روگردانی کا معمولی نقص گوارا کرلیا۔
 

امین شارق

محفلین
حرفِ تحسین کے لیے بہت شکریہ، شارق! شکرگزار ہوں ۔
سوال آپ نے بہت اچھا پوچھا ہے۔ مختصر جواب تو یہ ہواکہ یہ شاعرانہ اندازِ بیان ہے ۔ دنیا میں جو بوئیں گے وہی آخرت میں کاٹیں گے۔ ہمارا ہر عمل ایک کتاب میں لکھا جارہا ہے اور آخرت میں اسی کتاب کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا یعنی یہی اعمال ہماری قسمت کا فیصلہ کریں گے ۔
فردِ عمل پہ کرکے رقم اپنے فیصلے
اپنے لکھے کو بخت کا لکھا کہیں گے لوگ
یہ بات تو درست ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنے سے ہزاروں سال پہلے ہی ہر ایک کی تقدیر کو لوحِ محفوظ پر لکھ دیا۔ لیكن اس كے ساتھ ساتھ ہر آدمی كو یه اختیار بھی دیا كه وه خیر اور شر میں سے جو چاہے چن لے ۔ اچھے اور برے عمل کا فیصلہ آدمی پر چھوڑدیا۔ اس موضوع پر گہرائی میں جائیں تو بات ذرا نازک ہوجاتی ہے ۔ گہرائی میں جانے اور مین میخ نکالنے سے ذہن الجھنے اور بھٹکنے کا اندیشہ ہے ۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے صحابہ کوتقدیر كے موضوع پر بحث کرتے دیکھا تو منع کیا ۔ علما اس بات کو ایک مثال کے ذریعے یوں واضح کرتے ہیں کہ جیسے ایک جماعت میں کچھ طلبا زیرِ تعلیم ہیں ۔ ایک استاد انہیں پانچ سال تک پڑھاتا ہے اور پھر آخر میں ان کا امتحان ہوتاہے ۔ استاد چونکہ ہر طالب علم سے بہت ہی اچھی طرح واقف ہے ، ان کی استعداد اور رجحان کو بخوبی جانتا ہے اس لیے وہ امتحان ہونے سے پہلے ہی ہر طالب علم کا نتیجہ (بطور پیشین گوئی) ایک کاغذ پر لکھ کر علیحدہ رکھ دیتا ہے ۔ تمام طالب علم اپنی اپنی تیاری کرنے کے بعد امتحان دیتے ہیں اور سب کا رزلٹ بالکل ویسا ہی آتا ہے جیسا کہ استاد صاحب نے پہلے ہی لکھ کر رکھ دیا تھا ۔
بہت شکریہ ظہیر سر بہت اچھے انداز میں آپ نے سمجھایا۔ اسی بات (تقدیر) کو دیکھتے ہوئے ایک شعر یاد آرہا ہے۔
تقدیر میں لِکھا خُدا نے پہلے سے اچھا بُرا
اب اِس کا اِختیار ہے اِنسان جو چاہے کرے
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
تقدیر میں لِکھا خُدا نے پہلے سے اچھا بُرا
اب اِس کا اِختیار ہے اِنسان جو چاہے کرے
پہلے مصرعے کا مضمون کچھ بدلنا پڑے گا۔ کیونکہ سورت الشمس کی آیت نمبر 8 میں اللّٰہ تعالیٰ اس طرح فرماتے ہیں۔
فَاَلہمها فُجُوْرَهَا وَتَقْوَاهَا
یعنی کہ گناہ اور نیکی کا الہام انسان کے شعور میں ڈال کر اسے اختیار دے دیا گیا ہے اب جو چاہے کرتا پھرے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی، بہت اعلیٰ اور پر فکر کلام، ما شا اللہ،
باقی قضا و قدر کی بحث تو شائد ابد تک جاری رہے گی۔
بہت شکریہ ، نوازش، نوشے میاں! :)
اللّٰہ کریم آپ کو شاد رکھے، خانہ آباد رکھے ۔ حرفِ تحسین کے لیے بہت شکریہ۔
قضا و قدر کے مسئلے کے بارے میں آپ نے بالکل درست کہا ۔ یہ آسانی سے عقل میں آنے والی چیز نہیں ۔ اسے صرف ایمان کے سہارے ہی سمجھا اور مانا جاسکتا ہے ۔ اللّٰہ کریم ہمیں استقامت بخشے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
عمدہ غزل ہے ظہیر صاحب قبلہ، غزلِ مسلسل کا رنگ لیے ہوئے بہت اچھے اشعار ہیں۔ مقطلع بہت پسند آیا:
کیجے کرم کریم کی مخلوق پر ظہیؔر
دیجے نہ دکھ کسی کو سخاوت یہی تو ہے
واہ واہ، لاجواب!
 

محمد وارث

لائبریرین
اگرچہ یہاں شاید ٹائپنگ کی غلطی ہوئی ہو ۔۔۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک دلچسپ اصطلاح بن سکتی ہے :)
اب اس ٹائپو کی ایسے ہی رہنے دیتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب قبلہ سے فرمائش کرتے ہیں کہ اشہبِ قلم دوڑاتے ہوئے اس "مقطلع" پر مضمون صادر فرمائیں۔ :)
 
Top