میر تھا شوق مجھے طالبِ دیدار ہوا میں • میر تقی میرؔ

میم الف

محفلین
آج میں آپ کو میرؔ صاحب کی ایک غزل سنانا چاہتا ہوں۔
سیدھی سادی سی ہے۔
لیکن میرؔ صاحب کی سیدھی سادی باتیں بھی دل میں پیوست ہو جاتی ہیں۔
یہ غزل تو مجھے اپنی ہی آپ بیتی معلوم ہوتی ہے۔
امید ہے آپ کو بھی پسند آئے گی:



تھا شوق مجھے طالبِ دیدار ہوا میں
سو آئنہ سا صورتِ دیوار ہوا میں

جب دور گیا قافلہ تب چشم ہوئی باز
کیا پوچھتے ہو دیر خبردار ہوا میں

اب پست و بلند ایک ہے جوں نقشِ قدم یاں
پامال ہوا خوب تو ہموار ہوا میں

کب ناز سے شمشیرِ ستم اُن نے نہ کھینچی
کب ذوق سے مرنے کو نہ تیار ہوا میں

بازارِ وفا میں سرِ سودا تھا سبھوں کو
پر بیچ کے جی ایک خریدار ہوا میں

ہشیار تھے سب دام میں آئے نہ ہم آواز
تھی رفتگی سی مجھ کو گرفتار ہوا میں

کیا چیتنے کا فائدہ جو شیب میں چیتا
سونے کا سماں آیا تو بیدار ہوا میں

تم اپنی کہو عشق میں کیا پوچھو ہو میری
عزت گئی رسوائی ہوئی خوار ہوا میں

اُس نرگسِ مستانہ کو دیکھے ہوئے برسوں
اِفراط سے اندوہ کی بیمار ہوا میں

رہتا ہوں سدا مرنے کے نزدیک ہی اب میرؔ
اُس جان کے دشمن سے بھلا یار ہوا میں
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
واہ واہ منیب بھائی!
میر کی تو کیا بات ہے۔ آپ کا پڑھنے کا انداز بھی خوب ہے۔
آپ کے انتخاب اور انداز دونوں پر داد و تحسین
 

میم الف

محفلین
واہ واہ منیب بھائی!
میر کی تو کیا بات ہے۔ آپ کا پڑھنے کا انداز بھی خوب ہے۔
آپ کے انتخاب اور انداز دونوں پر داد و تحسین
بے حد شکریہ عبدالرؤوف بھائی
ایک اجازت چاہتے ہیں۔
ہم نے دیکھا کہ علی وقار صاحب آپ کو روفی بھائی کہہ رہے تھے
کیا ہم بھی آپ کو روفی بھائی کہہ سکتے ہیں؟
 

فہد اشرف

محفلین
فہد بھائی کیسی پردے داری ہے یہ۔ بتا دیں
Screenshot-20220828-142601-Drive.jpg

کچھ دنوں تک محفل پہ میرا یوزرنیم بھی روفی رہا ہے 😁۔
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
Top