سیر و سیاحت کے حوالے سے میرا تجربہ یہی رہا ہے کہ جتنے منصوبے پہلے سے تیار کرنے کی کوشش کی، کبھی نہ بن پائے۔ جب بھی ہوا، یہی ہوا کہ اچانک کوئی تحریک ملی، اور نکل پڑے۔

یہی ہوا کہ شفٹنگ کی مصروفیات کے دوران اتوار 7 اگست کی رات بڑے بھائی کا فون آیا کہ کل صبح فجر کے بعد تولی پیر (انگریزی کے ذریعہ مشہور نام ٹولی پیر) آزاد کشمیر جانے کا پروگرام بن رہا ہے، چلو گے۔ اپنی گاڑیوں پر ہی جانا ہے۔ چونکہ برائے سیاحت کشمیر کا سفر اب تک نہیں کیا تھا، اور ایک خواہش ہمیشہ سے موجود تھی، لہٰذا مسز کو بتایا سے پوچھا، اور فوراً ہامی بھر لی۔ چھوٹے بھائی کو بھی تیار کیا۔ سب سے بڑے بھائی اپنی فیملی اور سسرال والوں کے ساتھ اتوار کو ہی ایوبیہ، نتھیا گلی گئے ہوئے تھے، اس لیے اس تھکاوٹ کے ساتھ اگلے ہی دن کشمیر جانا مشکل تھا۔ یوں تین گاڑیوں کے مسافر ہم تین بھائیوں اور ایک بہن کی فیملی اگلے دن صبح جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ ڈرائیونگ کا تجربہ کچھ اتنا ہی تھا کہ اب تک سب سے لمبا سفر اٹک تک کیا تھا، اور پہاڑی علاقہ کا سفر نہ ہونے کے برابر ہی کیا تھا۔ لہٰذا بہنوئی کو بھی اپنے ساتھ ہی بٹھا لیا، کہ اگر میری بس ہو گئی، تو ڈرائیونگ سیٹ آپ کے حوالے۔

صبح فجر کے بعد تیار ہوتے ہوتے، اور ناشتہ کرتے کرتے نکلتے ہوئے 7 بج گئے۔ یوں 7 بجے ہمارا کشمیر کا سفر شروع ہوا۔ صبح جلدی نکلنا اس لیے ضروری تھا کہ ہم نے اسی دن واپس بھی آنا تھا۔ اسلام آباد سے بذریعہ کہوٹہ روڈ روانہ ہوئے۔ صبح کا وقت اور چھٹی کا دن ہونے کی وجہ سے ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ کہوٹہ سے ہوتے ہوئے جیسے ہی کشمیر میں داخل ہوئے، روڈ پر گائے، بکریوں کی اجارہ داری نظر آئی۔ بیٹے نے کہا کہ گائے سڑک پر کیوں آ گئی ہے۔ میں نے اسے سمجھایا کہ بیٹا گائے سڑک پر نہیں آ گئی ہے، یہ سڑک گائے بکریوں کے راستے پر بن گئی ہے۔ ڈرائیونگ کر رہا تھا،اس لیے یہ منظر محفوظ نہ کر سکا۔ راستہ زیادہ تر صاف ہی تھا، البتہ کچھ جگہ لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے پتھر روڈ پر موجود تھے، اور صفائی جاری تھی۔ ایک جگہ محسوس ہوا کہ چھوٹے بھائی کی گاڑی پیچھے رہ گئی ہے۔ لہٰذا رک کر اس کا انتظار کرنے لگے۔ وہ جگہ سگنلز سے محروم تھی، اس لیے رابطہ بھی ممکن نہ تھا۔ بہرحال کافی دیر بعد ایک گاڑی آتی دکھائی دی۔ اس سے پوچھا تو پتا چلا کہ ایک جگہ روڈ سے پتھر ہٹانے کی وجہ سے گاڑیوں کو پیچھے روک لیا گیا تھا، اب وہاں سے گاڑیاں نکلی ہیں۔ خیر کچھ ہی دیر میں بھائی بھی پہنچ گیا تو سب کو اطمینان ہوا۔ اس جگہ سے ایک منظر

 
وہاں سے روانہ ہوئے تو کچھ دیر بعد دریائے جہلم بھی ہمارے ساتھ شریکِ سفر ہو گیا۔ ایک مناسب جگہ رک کر دریائے جہلم سے کچھ دیر گپ شپ کی۔ اس جگہ ایک طرف سے بارش کا مٹیالہ پانی دریا میں شامل ہو رہا تھا، اور منظر کو مزید خوشنما بنا رہا تھا۔
سب اسی نظارے میں کھوئے تھے کہ انہماک کو بھائی نے یہ کہہ کر توڑا کہ اگر یہی دیکھتے رہے، تو آگے اس سے کہیں زیادہ حسین مناظر دیکھنے کا موقع نکل جائے گا۔ لہٰذا گاڑیوں میں بیٹھے اور روانہ ہوئے۔ آگے چل کر ایک جگہ چائے کی طلب ہوئی تو ایک مسکن پر پڑاؤ ڈالا۔ اور لکڑیوں پر بنی چائے کا لطف لیا۔ وہاں سڑک پر پلی کے نیچے ان سیڑھیوں نے توجہ اپنی جانب کھینچی۔
مجھے ڈرائیونگ میں تو کوئی پریشانی نہ تھی، البتہ جس بات نے تنگ کیا وہ یہ کہ ڈرائیونگ کرنے کی وجہ سے پیچھے بہت سے مناظر محفوظ نہ کر سکا تھا، لہٰذا بہنوئی کو ڈرائیونگ سیٹ سنبھالنے کا کہا، تاکہ آگے سفر کی کچھ منظر کشی کی جا سکے۔
 
راستہ زیادہ تر نیا بنا ہوا تھا، اور ابھی سڑک پر کام جاری ہے۔ جگہ جگہ کچھ راستہ پرانا بھی استعمال کرنا پڑا کہ نیا راستہ تیار ہو رہا تھا۔ لیکن زیادہ تر سفر آرام دہ رہا۔اور اس دوران کچھ تصاویر اور ویڈیوز بنانے کا موقع مل گیا۔

52273904323_40cf482cd0_c.jpg
ایک اور منظر
52274734032_7b3690aaeb_c.jpg
راستے کی ایک ویڈیو
 
راولاکوٹ میں جا کر آزاد جموں و کشمیر ٹورسٹ پولیس کی چیک پوسٹ آئی، جس نے گاڑیوں کی انٹری کی، اور آگے کے لیے کچھ ہدایات دیں۔
بالآخر وہ مناظر شروع ہوئے کہ جن کا انتظار تھا۔ جی ہاں، اب بادل ہمارے ہم سفر ہو چکے تھے۔
52273870056_c7cd9de766_c.jpg
 
بادلوں کا ساتھ ملتے ہی بچے بھی پرجوش ہو چکے تھے، اور ساتھ ہی ساتھ نئے سوالات بھی بچوں کے ذہنوں میں مچلنے لگے تھے، کہ ہم بادلوں میں سے گزر رہے ہیں، تو گیلے کیوں نہیں ہو رہے؟ اور یہ کہ جب ہم بادل میں جاتے ہیں تو پتا کیوں نہیں چلتا کہ ہم بادل میں ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔
جگہ جگہ چشموں کا پانی پہاڑوں میں رستہ بناتا ہوا چھوٹی چھوٹی آبشاروں کی صورت میں بہہ رہا تھا۔ ایک چشمہ پر گاڑی روک کر اصلی اور ٹھنڈا منرل واٹر پیا۔ اور منہ ہاتھ دھوئے۔
52275971019_cb0a668c54_c.jpg
 
آگے چلے تو یوں محسوس ہوا کہ ہم ذرا جلدی رک گئے، آگے زیادہ خوبصورت آبشاریں موجود تھیں۔ مگر منزل پر پہنچنے کی لگن نے مزید رکنے سے باز رکھا۔
طویل سفر طے کر کے بالآخر تولی پیر پہنچ گئے۔ اور یہاں گاڑیاں پارک کر کے ہائیکنگ شروع ہو گئی۔
ہائیکنگ کے آغاز کی ایک ویڈیو
کچھ آگے چل کر ایک پڑاؤ کا منظر
52272902987_67cd0911eb_c.jpg
 
کچھ آگے چل کر ایک جگہ عارضی طور پر رکے۔ کولڈ ڈرنکس اور چپس کھا کر ہلکی پھلکی پیٹ پوجا کی، اور ارد گرد کے مناظر کی منظر کشی کی۔
52274362620_6542e124e7_c.jpg
اسی پلین کا ایک منظر
52272914777_edd1b77a2f_c.jpg
ایک گھوڑا منظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے، جبکہ کسی نئے گاہک کو پکڑنے کے لیے اس کا مالک اسے نیچے کی جانب لے جانے کی کوشش میں
52273890853_8a1e99b5fb_c.jpg
 
باقی سب میری طرف سے پریشان تھے کہ آگے کی ہمت ہے یا نہیں؟ البتہ مجھے بھی الحمد للہ کوئی پریشانی نہیں ہو رہی تھی۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ چڑھائی مشکل ہرگز نہ تھی۔
اب یہاں سے اگلے پڑاؤ کا قصد کیا، اور روانہ ہوئے۔
52274360105_4821fe97d5_c.jpg
یہ ڈھلوان تھی، اور تہ دار پلین نیچے کی جانب جا رہے تھے۔
52273889158_7313d7c68b_c.jpg
یہ بھی ایک دم گہرائی تھی۔اور ہم اس کے ساتھ ساتھ اگلے مستقر کی جانب رواں دواں تھے۔
52273873651_a9c2949021_c.jpg
 
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی تھے، یعنی آگے بھی پلین موجود تھے۔ مگر اس جگہ ٹھہر کر کچھ لوگ میری طرح لیٹے ہوئے تھے۔ کچھ کرکٹ کھیلنے لگے، اور کچھ منظر کشی کرنے لگے۔ کہ یکا یک بادل آئے اور تیز بارش شروع ہو گئی۔
52274358165_d44efeb9ea_c.jpg
فوری طور پر سب بچوں کو اکٹھا کیا۔ 2،3 چھتریاں ساتھ تھیں، مگر ہوا بہت تیز تھی۔ ہم نے چٹائی اٹھا کر سروں پر تانی۔ بچوں کو درمیان میں کیا اور واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ گیلے ہونے کی وجہ سے بچوں کو سردی لگنا شروع ہو گئی، اور کچھ بچے کافی پریشان ہو کر رونے لگے۔ جیسے ہی ایک ہوٹل آیا، سب اس ہوٹل میں داخل ہو گئے۔ اس ہوٹل والے نے بہت مدد کی۔ ایک تو جگہ بھی دی۔ پھر بچوں کو لے کر کچن میں آنے کا کہا جہاں لکڑیاں جل رہی تھیں۔ ایک اور فیملی، جو کہ پہلے ہی موجود تھی، ہمارے کپڑے گیلے ہونے کی وجہ سے اپنی چادریں دیں کہ بچوں کے کپڑے اتار کر ان چادروں میں لپیٹ لیا جائے۔ بہرحال یہ کوئی پندرہ بیس منٹ کی بات تھی، پھر بارش رکی۔ الحمد للہ بچے بھی کافی سنبھل چکے تھے۔ لہٰذا واپسی شروع کی گئی۔
اور ہم نے اس صورتحال سے عافیت کے ساتھ نکالنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔
انسان بسا اوقات سمجھ لیتا ہے کہ سب کچھ میرے کنٹرول میں ہے، کچھ بھی تو مشکل نہیں ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنی جانب پلٹنے کا موقع دیتا ہے۔
 
اس پریشانی سے گزرنے کے بعد آہستہ آہستہ بھوک کا احساس زور پکڑنے لگا۔ تو ایک مستقر پر موجود ہوٹل سے ریٹ معلوم کیے۔ اس نے 4500 میں 3 مرغیاں 30 روٹیوں اور 2 کولڈ ڈرنکس کے ساتھ بتائیں، جو بہت مناسب معلوم ہوا اور ہم نے آرڈر کر دیا۔
وہاں تیز دھوپ نکل آئی تھی، لہٰذا بیٹھ کر کپڑے خشک کرنے کا موقع مل گیا۔ اس جگہ کے کچھ مناظر
سامنے ایک اجڑا چھپڑ
52274358755_7421e43327_c.jpg
ایک اور منظر
52275711871_b13e22fe39_c.jpg
اس جگہ کافی لیڈی برڈز موجود تھے، ایک میرے پاس بھی تصویر کھچوانے کے لیے حاضر ہوا۔
52275713556_78ac4bfb43_c.jpg
قریب ہی ایک گھوڑا چرتے ہوئے آیا تو حفصہ حذیفہ کو شوق ہوا کہ اسے ہاتھ لگایا جائے۔ اور بچے حیران بھی تھے کہ یہ گھوڑے رسیوں کے بغیر ہی پھر رہے ہیں۔
52273886528_c907691ec6_c.jpg
گھوڑے کی تصویر ذرا قریب سے
52275730658_49437138ec_c.jpg
 
لکڑیوں پر پکی چکن کڑاہی اور روٹیوں کا مزا ہی اور تھا۔ کھانا کھا کر واپسی کا سفر شروع کیا۔
ایک مرغی اپنے بچوں کے ساتھ ٹہل رہی تھی۔
52276196060_e1fba310fa_c.jpg
اوپر سورج اور بادلوں کی چھپن چھپائی جاری تھی، کہ آسمان پر ایک کتا بھونکتا نظر آیا۔ :)
52273903343_ec19c10877_c.jpg
پارکنگ میں پہنچ کر اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھے اور یوں پانچ، ساڑھے پانچ بجے وہاں سے واپسی ہوئی اور رات تقریباً دس بجے ہم الحمد للہ خیر و عافیت سے اپنے اپنے گھر پہنچ گئے۔
ایسے ایک یادگار سیاحتی و تفریحی سفر اپنے اختتام پر پہنچا۔
ختم شد​
 

یاسر شاہ

محفلین
تابش بھائی مختصر مگر دلکش سفرنامہ اور شاندار تصاویر۔

اجڑے چھپڑ کی تصویر حسین ترین تصویر ہے۔ماشاءاللہ
 
تابش بھائی مختصر مگر دلکش سفرنامہ اور شاندار تصاویر۔

اجڑے چھپڑ کی تصویر حسین ترین تصویر ہے۔ماشاءاللہ
جزاک اللہ خیر
بہت شکریہ
یہ تو یقینا نہیں برسا ہو گا! :)
برسنے والا پہلے گزر چکا تھا۔ :D
تشکر
 
Top