تلاشِ ذات
یونہی بیٹھی سوچ رہی تھی
ذات سمندر کھوج رہی تھی
سوچ کی ندیا بہتے بہتے
ان کہے دُکھ کہتے کہتے
فطرت درپن کھول رہی تھی
کانوں میں رس گھول رہی تھی
اور میں بیٹھی سوچ رہی تھی
خاکی رنگ میں، میں پوشیدہ
فطرت سبز لُبادے میں ہے
لیکن یہ سر سبز دوشیزہ
میرے رنگ کی کیوں خوگر ہے؟
کیوں کر خاک ہی اس کا گھر ہے؟
آخر کیا اسرار ہے اس میں
کہ مٹی سے جُڑتے ہی فطرت
رنگوں کی بارش کرتی ہے
دِل کو کیسا خوش کرتی ہے
ایسا کیا اِسرار ہے اِس میں؟

دریافت
بادل چپ تھے، جھرنے چپ تھے
شجر و حجر خاموش کھڑے تھے
پتوں کی آغوش میں بیٹھی
ننھی سی اِ ک کونپل بولی
فطرت کی آواز ہو تُم بھی
کھیل کا آغاز ہو تم ہی
عہدِ ازل کے وارث تم ہو
مالکِ کل کے نائب تم ہو
خاک سے تم نے خمیر اُٹھایا
روح کا عرفاں تم نے پایا
فطرت کا مرکز ہے اِ نساں
فطرت ہے خدمت پہ نازاں
لیکن تم نے عہد بھُلایا
دُنیا رکھی، دین گنوایا
خاک کے پُتلے، خاک کے خوگر
بننے چلے ہیں مردِ سکندر
پہننے کو ہے ریشم و مخمل
بچھونا فرش کا، سنگِ مرمر
سب کچھ اعلیٰ، سب کچھ کامِل
لیکن پھر بھی چین ندارد
خاک کے پُتلے، خاک کے خوگر
کھوجو اِس کو، سوچو اِس کو
خاک سے کیوں تم دور ہوئے ہو؟
کیوں اِتنے مغرور ہوئے ہو؟
تیری دُنیا کا یہی حاصِل
خاک کے اندر، خاک سے باہر

تعمیرِ ذات
میں نے سوچا ٹھیک ہی بولی
فطرت کی ہمدم، ہم جولی
قُدرت کے مُہرے ہیں سارے
شجر و حجر ، یہ چاند سِتارے
میرے دِن ہیں تاباں اِن سے
میری راتیں روشن اِن سے
میرے منہ کا ہر نِوالہ

فطرت نے آغوش میں پالا
خالِق کا ہر وعدہ پورا
لیکن میراعہد ادھورا
میں دُنیا کی دوڑ میں گُم ہوں
لیکن پھر بھی سب سے پیچھے
دُنیا آدھی، دین بھی آدھا
خود پہ میرا یقین بھی آدھا
تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بِنتِ آدم خود سے عہد کر
سب کچھ پانا ہے خود سے لڑ کر
اپنے نفس کی جنگ ہے بھاری
اِس میں پیچھے خاکی و ناری
لیکن یہ ہے آخری چارہ
اِس کے دم سے کام ہے سارا
اپنی ذات کو کھوج کے دیکھو
سب کے لیے کچھ سوچ کے دیکھو

سوچ کو حُکم کے تابع کر لو
رحمت سے پھر دامن بھر لو
پھِر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دُنیا ہوگی تیرے پیچھے
موت بھی تیری پہرے دار
تیرا دِیا بھی سورج ہو گا
تیری باتیں بھی شاہکار
(میں کیونکہ محفل میں نئی مہمان ہوں سو محترم شعراء کرام اور شاعری کی متعلقہ فیلڈ کے محترمین کو نہیں جانتی، آپ لوگ ٹیگ کر سکتے ہیں تو مہربانی ہو گی)
تنزیلہ افضل
 
آخری تدوین:
آپ کا شکریہ بہن,
اصلاح اور تبصرہ تو اساتذہ اکرام ہی کریں گے,
میں تو ابھی خود طالب علم ہوں,
دُنیا ہوگی تیرے پیچھے
موت بھی تیری پہرے دار
تیرا دِیا بھی سورج ہو گا
تیری باتیں بھی شاہکار
مجھے یہ اشعار پسند آئے۔
اللہ کریم زور قلم اور زیادہ کرے۔آمین
 
لڑی بناتے ہوئے جو ٹیگز ڈالے جاتے ہیں، وہ لڑی سے متعلقہ ٹیگز ہوتے ہیں، اور تلاش کے لیے کام آتے ہیں۔
وہاں افراد کو ٹیگ کرنے سے متعلقہ افراد کو اطلاع نہیں جاتی۔
کسی بھی فرد کو ٹیگ کرنا ہو تو پوسٹ کے درمیان ہی @ کے بعد بغیر سپیس جس ک ٹیگ کرنا ہو، اس کا مکمل نام لکھیں۔ مثلاً تنزیلہ افضل
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ اچھی نظم ہے۔ بس کچھ مصرعوں میں بحر کا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔
آسانی کے لیے کہہ دوں کہ اس نظم کی بحر ہو گی فعلن چار بار، یا فعل فعولن دو بار۔ یعنی ایک ’فعلن فعلن‘ کی جگہ ’فعل فعولن‘ بھی آ سکتا ہے۔اس لئے مصرع کے اختتام پر
موت بھی تیری پہرے دار
اور
تیری باتیں بھی شاہکار
دونوں میں آخر میں محض ’فعل‘ آ رہا ہے۔ یہ دونوں غلط ہیں۔
ان محض غلط مصرعوں کی نشان دہی
یونہی بیٹھی سوچ رہی تھی
ذات سمندر کھوج رہی تھی
۔۔سوچ اور کھوج قوافی غلط ہیں۔
ان کہے دُکھ کہتے کہتے
÷÷مصرع بحر سے خارج

لیکن یہ سر سبز دوشیزہ
÷÷دُشیزہ بحر میں آتا ہے۔ ’دو‘ پورا آنا فصیح ہے

کہ مٹی سے جُڑتے ہی فطرت
÷÷’کہ‘ ایک حرفی یعنی محض ’ک‘ تقطیع کیا جانا ہے۔ یہاں ’کے‘ آ رہا ہے۔

رنگوں کی بارش کرتی ہے
دِل کو کیسا خوش کرتی ہے
÷÷اگر قوافی مانا جائے تو غلط ہیں۔ ’ش‘ سے ما قبل اعراب ÷ حرکتیں مختلف ہیں۔

شجر و حجر خاموش کھڑے تھے
۔۔۔’و‘ زائد ہے، محض کاما استعمال کریں۔

کھیل کا آغاز ہو تم ہی
÷÷خارج از بحر

بچھونا فرش کا، سنگِ مرمر
÷÷خارج از بحر، بستر فرش کا‘ کرنے سے درست ہو جاتا ہے۔

تیری دُنیا کا یہی حاصِل
÷÷باقی مصرعوں میں ’تم‘ سے خطاب ہے، یہاں ’تو‘ کیوں؟

شجر و حجر ، یہ چاند سِتارے
÷÷وہی ’و‘ زائد ہے۔

میرے منہ کا ہر نِوالہ
۔۔۔خارج، ’ہر اک نوالہ‘ کر دو۔

لیکن میرا عہد پورا
۔۔۔خارج، مطلب؟

بِنتِ آدم خود سے عہد کر
÷÷بحر سے خارج
سب کچھ پانا ہے خود سے لڑ کر
÷÷ایضاً

اپنی ذات کو کھوج کے دیکھو
سب کے لیے کچھ سوچ کے دیکھ
÷÷وہی قوافی
 
ماشاء اللہ اچھی نظم ہے۔ بس کچھ مصرعوں میں بحر کا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔
آسانی کے لیے کہہ دوں کہ اس نظم کی بحر ہو گی فعلن چار بار، یا فعل فعولن دو بار۔ یعنی ایک ’فعلن فعلن‘ کی جگہ ’فعل فعولن‘ بھی آ سکتا ہے۔اس لئے مصرع کے اختتام پر
موت بھی تیری پہرے دار
اور
تیری باتیں بھی شاہکار
دونوں میں آخر میں محض ’فعل‘ آ رہا ہے۔ یہ دونوں غلط ہیں۔
ان محض غلط مصرعوں کی نشان دہی
یونہی بیٹھی سوچ رہی تھی
ذات سمندر کھوج رہی تھی
۔۔سوچ اور کھوج قوافی غلط ہیں۔
ان کہے دُکھ کہتے کہتے
÷÷مصرع بحر سے خارج

لیکن یہ سر سبز دوشیزہ
÷÷دُشیزہ بحر میں آتا ہے۔ ’دو‘ پورا آنا فصیح ہے

کہ مٹی سے جُڑتے ہی فطرت
÷÷’کہ‘ ایک حرفی یعنی محض ’ک‘ تقطیع کیا جانا ہے۔ یہاں ’کے‘ آ رہا ہے۔

رنگوں کی بارش کرتی ہے
دِل کو کیسا خوش کرتی ہے
÷÷اگر قوافی مانا جائے تو غلط ہیں۔ ’ش‘ سے ما قبل اعراب ÷ حرکتیں مختلف ہیں۔

شجر و حجر خاموش کھڑے تھے
۔۔۔’و‘ زائد ہے، محض کاما استعمال کریں۔

کھیل کا آغاز ہو تم ہی
÷÷خارج از بحر

بچھونا فرش کا، سنگِ مرمر
÷÷خارج از بحر، بستر فرش کا‘ کرنے سے درست ہو جاتا ہے۔

تیری دُنیا کا یہی حاصِل
÷÷باقی مصرعوں میں ’تم‘ سے خطاب ہے، یہاں ’تو‘ کیوں؟

شجر و حجر ، یہ چاند سِتارے
÷÷وہی ’و‘ زائد ہے۔

میرے منہ کا ہر نِوالہ
۔۔۔خارج، ’ہر اک نوالہ‘ کر دو۔

لیکن میرا عہد پورا
۔۔۔خارج، مطلب؟

بِنتِ آدم خود سے عہد کر
÷÷بحر سے خارج
سب کچھ پانا ہے خود سے لڑ کر
÷÷ایضاً

اپنی ذات کو کھوج کے دیکھو
سب کے لیے کچھ سوچ کے دیکھ
÷÷وہی قوافی
بہت شُکریہ جناب الف عین صاحب،
لیکن میرا عہد ادھورا۔۔۔۔ پورا کی جگہ پہ ادھورا لکھنا تھا۔
آپ نے بہت تفصیلی تبصرہ فرمایا ہے ۔ بہت مشکور ہوں، طفلِ مکتب ہوں آپ لوگوں سے ہی سب کچھ سیکھنا ہے ان شاءاللہ۔
 
لڑی بناتے ہوئے جو ٹیگز ڈالے جاتے ہیں، وہ لڑی سے متعلقہ ٹیگز ہوتے ہیں، اور تلاش کے لیے کام آتے ہیں۔
وہاں افراد کو ٹیگ کرنے سے متعلقہ افراد کو اطلاع نہیں جاتی۔
کسی بھی فرد کو ٹیگ کرنا ہو تو پوسٹ کے درمیان ہی @ کے بعد بغیر سپیس جس ک ٹیگ کرنا ہو، اس کا مکمل نام لکھیں۔ مثلاً تنزیلہ افضل
نوازِش تابِش بھیا، مجھے اِس کی بالکل سمجھ نہیں آ رہی تھی، آپ واقعی تابِش ہیں :)
 

فاخر رضا

محفلین
بہت اچھا لکھا ہے
استاد محترم نے اصلاح بہت اچھی کی ہے اگر ہوسکے تو دوبارہ لکھ کر شیئر کیجیے اس طرح سب کو سیکھنے کا موقع ملے گا
 
Top