قبلہ شاکرالقادری صاحب نے حال ہی میں نعتیہ دوہے لکھوانے کے لیے ایک لڑی کھولی ہے۔ اس میں کچھ عروضی معاملات زیرِ بحث آئے اور یوں آئے کہ نعتیہ دوہے لکھنے کی بات کہیں دور رہ گئی۔ میں ان گفتگوؤں کو بلا اجازت یہاں نقل کر رہا ہوں۔ امید ہے اچھی نیت پر محمول کر کے برا نہیں مانا جائے گا۔ مزید اچھی بات ہو گی کہ آئندہ بھی اس نوعیت کی بحثوں کے لیے فی الفور الگ دھاگے بنا لیے جائیں۔
در در بھیک وہ مانگے کیوں ، جو تیرا ہے سوالی
بعد از مالک ِ دو جہاں ، تو دو جگ میں ہے عالی​
سلمان بحر درست نہیں پکڑ پائے۔
فعلن فعلن فاعلن، فعلن فعلن فع (یا فاع یا فعل)
محض اتنا ہی اس بحر میں آتا ہے

تیرے در پہ سر رکھا (ہے)، جاں (بھی) تجھ پہ قربان
نگری تیری دی (ہے) صدا ، رکھ فقیر کا مان

در در والا دوہا تو بحر میں آ ہی نہیں سکتا کہ اس بحر کا اختتام ساکن حرف پر ہوتا ہے۔ ‘لی‘ متحرک ہے۔ سبب یا وتد کی تکنیکی اصطلاح کا نام نہیں لے رہا۔ (خود مجھے عروض نہیں آتا!!)
قبلہ عبید صاحب! میں ابھی اس ادبی دنیا میں بچونگڑا ہوں اور سید شاکر القادری صاحب کی طرف سے دی گئی یہ بحور اور دوہا نگاری کا میدان بھی نیا ہے، لہذا خطا کار انسان ہوں غلطی کر سکتا ہوں ۔ آپ یا شاکرالقادری صاحب جیسے اساتذہ سے بہت کچھ سیکھنا ہے ۔ لیکن صاحب میری یہ لائنز آپکی فرمائی گئی بحر فعلن فعلن فاعلن ۔۔۔۔ فعلن فعلن فاع میں نہیں ۔ بلکہ یہ شاکر صاحب کی طرف سے دی گئی بحور کی لسٹ کی آخری بحر ، فعل فاعلن فاعلن ۔۔۔۔ فعل فاعلن فاع میں ہے​

فعل فاعلن فاعلن ۔۔۔۔فعل فاعلن فاع
12،،212،،212۔۔12،،212،،12
تیرے -در -پہ- سر -رکھا- ہے، جاں -بھی- تجھ -پہ -قر-بان
نگری تیری دی ہے صدا ، رکھ فقیر کا مان
( اگر میری لائنز اس بحر کے مطابق درست نہیں تو میں آپ کی مستند رائے کا منتظر ہوں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قبلہ عبید صاحب میرا دوسرا دوہا ۔ فعلن فاعلن فاعلن۔۔ فعلن فعل فعول کی بحر میں پورا ہے۔
در در بھیک وہ مانگے کیوں ، جو تیرا ہے سوالی
بعد از مالک ِ دو جہاں ، تو دو جگ میں ہے عالی

آپ نے فرمایا کہ
" در در والا دوہا تو بحر میں آ ہی نہیں سکتا کہ اس بحر کا اختتام ساکن حرف پر ہوتا ہے۔ ‘لی‘ متحرک ہے"

جبکہ میرے استاد گرامی کہتے ہیں کہ دوہے میں بھی دوسر اصناف سخن کی طرح آخری رکن میں "ی" یا "ئیں" جیسے الفاظ کو گرانے کی منانعت نہیں ہے۔ میں جمیل عالی جیسے ممتاز دوہا نگار کے دوہوں سے حوالہ جات پیش کر رہا ہوں۔

@ جمیل الدین عالی مرحوم
ایک بدیسی نار کی موہنی صورت ہم کو بھائی
اور وہ پہلی نار تھی بھیا نکلی جو ہرجائی

ٹھنڈے پون جھکورے آئیں، تیری یاد دلائیں
ہم کچھ بھی کہیں من تجھے مانگے، من کو کیا سمجھائیں


کس کو خبر یہ ہنس مکھ عالی کیا کیا چھپ کر روئے
جیسا ساتھی من ڈھونڈے تھا ویسا ملے نہ کوئے


بگھت کبیر کے ہاں بھی آخری حرف کے ساقط ہونے کی پابندی نہیں ملتی، وہ لکھتے ہیں
جو تجھ کو پہچان لیں، نین کہاں سے لائیں
میرے مالک ہم تھے کہاں ڈھونڈنے جائیں

بھارت کے معروف دوہا نگار اوم پرکاش لاغر صاحب کے دوہوں بھی آخری حرف کے " صرف ساقط" ہونے کی قید نہیں ہے
رام بھروسے جو جیے، گیت خوشی کے گائے
پل پل بدھی کا آشرت، پل پل ٹھوکر کھائے
۔۔

اگر مجھ سے بحور اٹھانے یا انہیں درست میں باندھنے میں کوئی غلطی ہے تو میں آپ اور دیگر اساتذہ اکرام کی رائے کا منتظر رہوں گا۔ شکریہ
الف عین محمد وارث شاکرالقادری سعیدالرحمن سعید اوشو محمد یعقوب آسی الف نظامی یوسف سلطان راحیل فاروق مزمل شیخ بسمل سید عاطف علی ادب دوست ابن رضا
دوہے کے اوزان پر میرا کوئی مطالعہ ہے ہی نہیں، کیا عرض کروں۔
یہ ضرور ہے کہ پنجاب سے ماہیا اور بولی، پورب سے دوہا اردو میں مقبول ہونے والی اصناف میں سرِفہرست ہیں۔ ان اصناف کو چھند اور پنگل پر پرکھیں تو عروض کی نسبت آسان ہو گا۔ ایک ایک یا جتنی بھی چالیں حاصل ہوتی ہیں یا مقبول یا مانوس قرار پاتی ہیں، ان کے نزدیک ترین عروضی اوزان اپنا لئے جائیں۔ مطلب یہ ہے کہ لوک اصناف میں علاقائی لب و لہجہ کے زیرِ اثر ایک سے زائد چالیں رواج پا چکی ہوتی ہیں۔ اور ہم کسی کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے۔
ایسی اصناف میں براہِ راست عروضی مباحث کسی قدر مشکل ہو سکتے ہیں، جیسے المعروف "میر کی بحر" کا معاملہ ہے۔
قبلہ آسی صاحب! جناب عبید صاحب کے اعتراض کے مطابق دوہے کے اختتامی حرف کا ساکن ہونا شرط ہے۔ جبکہ میں نے اس حوالے سے جمیل الدین عالی، بھگت کبیر اور دوسرے شعرا کے دوہوں کی مثالیں پیش کی ہیں کہ آخری حرف ساکن ہونا ضروری نہیں ان کو اختتامی "ی" ، "یے" اور "ئیں" گرا کر جلائیں، کہلائے، دکھائیں، آئی، دکھائی ، کھلائے، آئے جیسے الفاظ پر بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔ ریفرنس کیلئے اس لنک پر جمیل الدین عالی مرحوم کے دوہے موجود ہیں۔ اس "آخری حرف" کے بارے آپ کی رائے درکار ہے
https://rekhta.org/ebooks/dohe-jameeluddin-aali-ebooks?lang=Ur
"آخری حرف ساکن" سے کیا مراد ہے؟ آپ شاید "آخری حرف ہجائے کوتاہ" کہنا چاہ رہے ہیں؟
"متفق" کی ریٹنگ کے لئے بہت شکریہ جناب سلمان دانش جی

مشتاق عاجز کی کتاب "سمپورن" میرے نزدیک دوہے کا ایک مؤقر مجموعہ ہے۔ اس کا اسلوب پوربی اور اردو کا امتزاج ہے؛ ہماری متداول اردو کہیں غالب نہیں ہے االبتہ پوربی کا اثر نمایاں ہے؛ اور غالباً یہی اس کے حسنِ بیان کا بنیادی عنصر بھی ہے (دوہا اصلاً پورب سے پھوٹا ہے)؛ اپنی روایت کے ساتھ جڑی ہوئی شاعری کی اپنی ایک چاشنی ہوتی ہے۔ کتاب میں شامل دوہوں کی چال (اوزان) کا مطالعہ بھی کئے لیتے ہیں۔
سَکھیاں پوچھیں روگ جیا کا، اکھیاں کھولیں بھید
چپ سادھوں تو آہیں نکلیں سینے میں سو چھید
نیر بہاؤں پیاس بجھاؤں دیکھوں پی کی باٹ
چولھا چوکا چھوڑ کے بیٹھی دوار بچھائی کھاٹ
ماتھے بندیا آن سجاؤ، مانگ بھرو سیندور
جھولا آن جلاؤ متوا، امبوا لاگا بور
کتاب میں شامل سارے عروض کے قریب ترین وزن "فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن مفعولات" پر ہیں، جن کے آخر میں ہجائے کوتاہ کا اہتمام دکھائی دے رہا ہے۔ اس وقت کتاب میرے سامنے نہیں (ایک دوست مانگ کر لے گئے ہیں، دعا کیجئے کہ واپس بھی کر دیں)۔ میرے مضمون "امبوا لاگا بور" میں کچھ دوہے ایسے بھی شامل ہیں جن کے آخر میں ہجائے بلند (سببِ خفیف) واقع ہوا ہے "فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن مفعولن"۔
ماٹی کو گلزار بنا لے، بیج لگن کا بو
آنکھوں سے برسا وہ برکھا ماٹی جل تھل ہو
بھور بھئے گھر آنگن چھوڑا جا نکلا کت جا
سونا آنگن باٹ نہارے سانجھ بھئی گھر آ
منوا چاہے یوں ہو جائے پی چاہے یوں ہو
جو پی چاہے سو ہو جائے من چاہا کیوں ہو
بابل کا گھر چھوڑ کے گوری سنگ پیا کے جا
پریتم توہے لینے آئے پریت کی ریت نبھا
۔۔۔۔ جاری ہے
ہندوستانی لہجہ کہہ لیجئے یا مقامی لہجہ کہہ لیجئے؛ یا سیدھا سیدھا پنجابی اور پوربی کہہ لیجئے۔ اس میں وہ لچک بھی ہوتی ہے جسے اردو کا رسمی عروض قبول نہیں کرتا یا اگر کرتا ہے تو مستثنیات اور زحافات کے حساب میں لے کر قبول کرتا ہے۔ یہ جو آخری ایک آزاد ہجا (ہجائے کوتاہ) کا فرق میں نے اوپر بیان کیا ہے، اس کے پیچھے وہی لچک کا عنصر بھی کار فرما ہے۔ صرف مصرعے کے آخر میں نہیں، مصرعے کے اندر بھی اس کی بہت مثالیں میسر ہیں۔ ہیر وارث شاہ اور سیف الملوک کا مطالعہ کیجئے، پنجابی کے ماہئے اور بولی کا مطالعہ کیجئے تو بہت کچھ کھلتا ہے۔ چھند اور پنگل میں اس لچک کی جگہ عنصری طور پر موجود ہے۔ عروض میں بھی ہے مگر شاذ ہے۔ بحرِ مزدوج (پروفیسر غضنفر) اس کی بہت عمدہ مثال ہے۔ مگر اس کا کیا علاج کہ پروفیسر غضنفر کو تو یار لوگوں نے "باغی" قرار دے دیا!

آپ کے سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ دو اوزان جو میں نے اوپر نقل کئے ہیں، یہ تو دوہے میں مروج ہیں۔ سو، دونوں کو اعتبار دیجئے۔

۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے
دوہے کا ایک اور وزن میرے علم میں ہے۔ کسی نے کہا یہ امیر خسرو کا ہے، کسی نے کہا یہ میراں بائی کا ہے۔ جس کا بھی ہے نقل کئے دیتا ہوں:
کاگا سب تن کھائیو چن چن کھائیو ماس
دو نیناں مت کھائیو انہیں پیا ملن کی آس​
"وسرام" کی گنجائش سے قطع نظر اس کا قریب ترین عروضی وزن ہے: "فعلن فعلن فاعلن فعلن مفعولات" جو مشتاق عاجز کے دوہوں سے خاصا مختلف ہے۔ شروع میں ایک دوست نے دوہے کے کچھ "عروضی" اوزان لکھے ہیں۔ امید کرنی چاہئے کہ وہ سارے درست ہیں اور کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی وزن مستعمل ہے یا رہا ہے۔
قاعدہ: ایک بات اگر میرے علم میں نہیں تو اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ "وہ بات ہے ہی نہیں"!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعاؤں کا طالب رہا کرتا ہوں۔
بنگلہ نار
جمیل الدین عالی - ( ۱۹۵۹ )

باتیں بہت سنیں عالیؔ کی، اب سُن لو یہ بانی
جس نے بنگلہ نار نہ دیکھی، وہ نہیں پاکستانی

ہولے ہولے نوکا ڈولے، گائے ندی بھٹیالی
گیت کِنارے، دوہے لہریں، اب کیا کہوے عالیؔ

پیچھے ناچیں ڈاب کے پیڑ، اور آگے پان سُپاری
اِنھی ناچوں کی تھاپ سے اُبھرے سانوری بنگلہ ناری

سانوری بنگلہ ناری جس کی آنکھیں پریم کٹورے
پریم کٹورے جن کے اندر کِن کِن دُکھوں کے ڈورے

دُکھوں کے ڈورے مِٹ جائیں گے جب کوئی پیار سے چومے
لیکن پیار سے چُومنے والا دریا دریا گھُومے

دریا دریا گھُومے مانجھی، پیٹ کی آگ بجھا نے
پیٹ کی آگ میں جلنے والا کِس کِس کو پہچانے ؟

کِس کِس کو پہچانے مانجھی، نینوں کا رَس سُوکھا
نینوں کا رس سوکھتا جائے، مانجھی سوئے بھوکا !

بھوکی نیندوں والے مانجھی، ہم پچھّم سیلانی
ہم پچھّم سیلانی مانگیں سبزہ رُوپ جوانی

سبزہ رُوپ جوانی ہو، اور سُندر بن کی چھایا
سُندر بن کی چھایا میں چھپ جائے جیون مایا

ہم پچھّم سیلانی، مانجھی، آنے جانے والے
کب ہُوئے آنے جانے والے روگ مٹانے والے؟

یہ تری لوہا لاٹ سی بانہیں، جن سے ڈریں منجدھاریں
اِن باہوں کو چار طرف سے کتنے دھیان پکاریں

او مانجھی سُن دھیان پکاریں، آ پہنچے وہ کنارے
اِک ترے من میں جوت جگے تو چھَٹ جائیں اندھیارے!

او مانجھی تو اپنے ہی من میں دھیان کی جوت جگَا لے
کب ہوئے آنے جانے والے روگ مٹانے والے؟
جناب آسی صاحب مجھے قبلہ شاکر صاحب کی طرف سے دئے گئے اوزان پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ جناب عبید صاحب نے میرے الفاظ " سوالی اور عالی" پر اعتراض کیا تھا۔ جس کے جواب میں میں نے تمام معتبر دوہا نگاروں کے حوالہ جات پیش کیے ہیں۔ اسی حوالے سے جناب سے میرا بھی سوال صرف یہ کہ دوہا میں آخری فاع اور فعول کی "ی" "یے" گرانا کیسے غلط ہو سکتا ہے جبکہ تمام بڑے دوہا نگاروں نے ایسا ہی کیا ہے۔ آپ نے جو دوہے پیش کئے ہیں یہ کیسز تمام اختتامی حرف والے ہیں۔ میں پچاس ہزار ایسی مثالیں پیش کر سکتا ہوں جن میں آخری لفظ کی ی ، یے، ئ گرائی گئی ہیں۔میرا سوال اور موقف دونوں بڑے سیدھے سے ہیں۔ کہ جب تمام بڑے دوہا نگاروں نے آخری حرف کے حوالے سے وہی عمومی اصول اپنائے جو غزل اور نظم کیلیے ہیں تو پھر یہ کہاں سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ دوہا کے ہر آخری حرف کا ساکت ہونا شرط ہے۔ آسی صاحب اگر میں غزل میں نظم میں یا نعت میں سوالی کو فعول میں باندھ سکتا ہوں تو میرے صاحب ! دوہے میں کیوں نہیں ؟۔ اور صاحب یہ میری ذاتی زبردستی نہیں یہ تو سب بڑے بڑے دوہا نگاروں نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ کیا بیسیوں نامور شعرا کی کتابوں سے ان تمام دوہوں کو دوہوں کی کیٹیگری سے نکال کر باہر پھینک دیں گے جن کے اختتام میں آئے ، جائے، کیاری، گالی، گائیں ، وغیرہ وغیرہ جیسے ایست جفت ہیں جن میں ی، ے گرا کر فاع یا فعول میں باندھا گیا۔
یہ بھی جمیل الدین عالی صاحب کے دوہے ہیں ، محمد وارث صاحب کے بلاگ پر شائع ہیں ۔ کیا کہیں گے ان میں شامل ٹھکرائے، جلائے، سکھلائیں جیسے الفاظ کے بارے،
میں جمیل الدین عالی مرحوم ہی نہیں ایسے بیسیوں دوہا نگاروں کے حوالہ جات پیش کر سکتا ہوں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دوہا میں بھی غزل اور نظم کی طرح آخری " ی، ے، ئ " گرانے کی اجازت ہے۔ گو رباعی اور دوہا کی اپنی مخصوص بحریں ہیں ۔ لیکن عروض کے بنیادی تمام اصنافِ سخن کیلیے ایک جیسے ہیں۔ بس اس کے ساتھ ہی اپنا مقدمہ ختم۔ اللہ حافظ
دوہے کبت کہہ کہہ کر عالی من کی آگ بجھائے
من کی آگ بجھی نہ کسی سے، اسے یہ کون بتائے
--------
لئے پھریں دُکھ اپنے اپنے، راجہ میر فقیر
کڑیاں لاکھ ہیں رنگ برنگی، ایک مگر زنجیر
--------
عمر گنوا کر پیت میں ہم کو اتنی ہوئی پہچان
چڑھی ندی اور اُتر گئی، پر گھر ہو گئے ویران
--------
نا مرے سر کوئی طُرہ کلغی، نا کیسے میں چھدام
ساتھ میں ہے اک ناری سانوری اور اللہ کا نام
--------
بیتے دنوں کی یاد ہے کیسی ناگن کی پھنکار
پہلا وار ہے زہر بھرا اور دُوجا امرت دھار
--------
تہ میں بھی ہے حال وہی جو تہ کے اوپر حال
مچھلی بچ کر جائے کہاں جب جَل ہی سارا جال
--------
عالی اب کے کٹھن پڑا دیوالی کا تیوہار
ہم تو گئے تھے چھیلا بن کر، بھیّا کہہ گئی نار
--------
حیدر آباد کا شہر تھا بھیّا، اِندَر کا دربار
ایک ایک گھر میں سو سو کمرے، ہر کمرے میں نار
--------
اُودا اُودا بادل، گہری کالی گھٹا بن جائے
اس کے دھرم میں فرق ہے، جو اس موسم کو ٹھکرائے
--------
کوئی کہے مجھے نانک پنتھی کوئی کبیر کا داس
یہ بھی ہے میرا مان بڑھانا، ہے کیا میرے پاس
--------
اردو والے، ہندی والے، دونوں ہنسی اڑائیں
ہم دل والے اپنی بھاشا کس کس کو سکھلائیں
--------
دھیرے دھیرے کمر کی سختی، کُرسی نے لی چاٹ
چپکے چپکے من کی شکتی، افسر نے دی کاٹ
--------
کیا جانے یہ پیٹ کی آگ بھی کیا کیا اور جلائے
عالی جیسے مہا کَوی بھی “بابو جی” کہلائے
برادران مکرم یہاں بار بار جمیل الدین عالی کو کوٹ کیا جا رہا ہے میں پہلے ہی یہ کہہ جکا ہوں کہ جمیل الدین عالی نے دوہے کی اوزان میں موجود بسرام کو ختم کر کے رواں بہر میں دوہے لکھے تو پورے ہندوستان میں اور پاکستان میں بھی دوہے کی صنف پر نظر رکھنے والے ماہرین فن نے عالی کے دوہوں کو دوہا تسلیم کرنے سے انکار کیا کیونکہ وہ دوہا کی روایئتی بحر کے مطابق نہ تھے یہ الگ بات کہ جمیل کے دوہے کی پیروی میں دوہا کہنا نسبتا آسان اور زیادہ رواں تھا پاکستان میں تو جمیل عالی کو کچھ ہم نوا ملے اور انہوں نے ان کی پیروی میں دوہے لکھے بالآخر پاکستان کی حد تک جمیل کے دوہوں کو دوہا مان لیا گیا ۔۔ لیکن ہندوستان میں دوہے کی معروف بحر وہی ہے جس کو یوں بیاں کیا گیا ہے
تیرہ گیارہ ماترا بیچ بیچ وشرام
دو مصرعوں کی شاعری دوہا جس کا نام
میں نے جو اوزان دیئے ہیں وہ ڈاکٹر گیان چند جین نے مرتب کیئے ہیں اور ڈاکٹر گیان چند جین کے مطابق اس کے آخر میں (فاع) کا آنا ضروری ہے
ہندوستان میں عمومی طور پر اس وزن کی پابندی کی جاتی ہے پاکستان میں بھی دوہے کےسینئر شعرا خواجہ دل محمد اور ڈاکٹرالیاس عشقی اور چند دیگر نے اس کی پابندی کی ہے اس کے علاوہ نئے لکھنے والوں میں ڈاکٹر طاہر سعید ہارون اور تاج قائم خانی نے بھی اسی وزن میں دوہے لکھے اور مجموعے شایع کرائے اٹک کے خاور چودھری نے بھی مکمل طور پر اسی وزن کو برتا ہے
مشتاق عاجز کے دوہے جمیل الدین عالی کے تتبع میں لکھے گئے ہیں
قبلہ شاکر القادری صاحب۔ میں آپ کی خدمت میں کئی پارٹیشن سے قبل کے کلاسیکل دور میں لکھنے والے ہندو اور مسلم شعرا کے بیسیوں ایسے حوالے پیش کر سکتا ہوں جس میں آپ کے ارشاد کے مطابق آخری رکن فاع اور فعول کی پابندی تو کی گئی ہے لیکن ان لوگوں نے دوہوں میں بھی فاع اور فعول کی آخری ی ، یے وغیرہ بالکل ایسے ہی گرائی جیسے عمومی طور پر غزل اور نظم کے سخن اصول عروض کے تحت کیا جاتا ہے۔ میرے استاد گرامی فرماتے ہیں کہ غزل، رباعی اور دوسری اصناف سخن کی نسبت دوہا نویسی میں لچک اور تنوع ہے لہذا کلاسیکل ینڈین شعرا کے ہاں عام دوہوں اور بھجنوں میں بھی بحور کی کافی ورائٹی اور لچک نظر آتی ہے۔ آپ میرے دادا استاد ہیں تو میرا آپ سے بھی یہی سوال ہے کہ دوہوں میں فاع اور فعول کے وزن کے تحت عالی۔ گالی، سالی اور سوالی، موالی، خیالی وغیرہ کیوں نہیں باندھا جا سکتا، جبکہ ایس کی مثالیں صرف جمیل الدین عالی مرحوم کے ہی نہیں کلاسیکل ہندوستانی شعرا میں بھی عام ملتی ہیں۔ میں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ رباعی کی طرح دوہے کی بھی مخصوص بحریں ہیں ( گو کہ مجھے کلاسیکل اور موجودہ شعرا میں فعلن کی سالم | بحر ہندی میں بھی ایسے دوہے ملے ہیں، جن میں آخری فعلن میں تسبیغ کر کے ساکت حرف پر اختتام ہے ) لیکن اردو سخن کا کوئی بھی قاری یا مجھ سا بچونگڑا مبتدی اس بات کو ماننے کیلیے تیار نہیں کہ دوہے میں عروض کے عمومی اصولوں کے مطابق اختتامی حروف کو گرانے کی اجازت نہیں ہے۔ میرے اس موقف کی بنیاد دوہوں کی کلاسیکل رینج سے لیکر موجودہ دور تک کے صرف پاکستانی ہی نہیں بھارتی شعرا کے حوالہ جات ہیں۔ اپنے دلائل میں یہ حوالہ جات میں اسی لڑی میں پیش کر چکا ہوں۔
قبلہ شاکر صاحب مجھے یا کسی کو اس بات سے انکار نہیں ہو سکتا کہ دوہاے کے آخیر میں فاع کا آنا ضروری ہے۔ لیکن جالی، کالی، سالی، حالی، آلے، جالے، سالے، آئے، آئی وغیرہ کو غزل ، رباعی میں تو نہیں لیکن دوہے میں فاع میں باندھنا کیونکر غلط ہے؟
ریختہ کی اس سائٹ پر کلاسیکل شعرا سے لیکر آج تک کئی شعرا کے ہزاروں دوہے موجود ہیں۔ جو میرے اس عروضی موقف کی تائید کرتے ہیں۔
شاکر بھائی نے بالکل درست بات کہی ہے۔ جمیل عالی مرحوم کی ہی یہ بدعت تھی جسے پاکستان میں دوہا مان لیا گیا، اور میں اسے اب بھی نہیں مانتا۔ شاکر صاحب کا مضمون میں نے مکمل نہیں پڑھا تھا، اس لئے یہ صرف نظر ہو گیا کہ انہوں نے اردو افاعیل کی بھی بات کی ہے۔
ہندی میں جو دوہے ہمیشہ سسے کہے گئے ہیں، اس کے وہی ارکان ہیں، جیسے
کبرا کھڑا بجار (بازار) میں، مانگے سب کی کھیر (خیر)
نا کاہو سے دوستی نا کاہو سے بیر
ہندی کی لگھو اور دیگھر ماترا کے حساب سے دوہے کی بحر ہوتی ہے
ऽऽऽऽऽऽ।
ऽऽऽऽ।
انگریزی ایس کی شکل کی علامت دیگھر ماترا کی ہے جسے اعشاری نظام میں 2 کہا جا سکتا ہے۔
الف کی شکل کی علامت لگھو ماترا کی ہے۔اس لحاظ سے اس کی درست بحر صرف اور صرف
2، 2، 2، 2، 2، 2، 1۔۔۔۔ تیرہ ماترا
2، 2، 2، 2، 1 گیارہ ماترا
لیکن کیونکہ عالی جی نے میر کی بحر میں دوہے کہنا شروع کئے اور وہ چل نکلے پاکستان میں، تو مجھے بھی سلمان دانش کے دوہے کے آخر میں سوالی‘ بر وزن فعولن سمجھا۔ ’ی‘ گرابا یقینإ جائز ہے، لیکن یہ مجھے کب معلوم تھا کہ اسے بطور ’سوال‘ باندھا گیا ہے!! سوالی لفظ کی تو ی کہیں بھی حذف کی جائے، مجھے تو کبھی پسند نہیں آئے گی، کہ روانی بے طرح متاتر ہوتی ہے۔
معذرت کہ میری ہی الگ قسم کی رائے کی وجہ سے اس لڑی میں کچھ تلخیاں در آئیں۔
سلمان دانش بھائی دوہے کے اوزان پر اس گفتگو میں آپ کے محولہ بالا جملوں نے مجھے یہ اس دخل درمعقولات پر مجبور کردیا ۔ :)
بھائی یہ بات تو درست ہے کہ جو مصرع ئے ، ئی یا ؤ پر ختم ہوتا ہے اس میں ہمزہ کی حرکت کو حسبِ ضرورت گرانا اساتذہ نے روا رکھا ہے لیکن یہ بات درست نہیں کہ مصرع کے آخر سےایسی ی یا ے بھی گرائی جاسکتی ہے جو کسی لفظ کا آخری حرف ہو ۔ توضیح اس کی یہ ہے کہ ہمزہ (ء) دراصل کوئی حرف نہیں ہے ۔ نہ تو یہ اردو حروفِ تہجی کا باقاعدہ حصہ ہے اور نہ ہی اس سے کوئی لفظ شروع ہوتا ہے ۔ یہ دراصل ایک علامت ہے جو واؤ ،ے اور ی سے قبل آکران حروف کی آواز کو لمبا کردیتی ہے ۔ مثلا آؤ ، لاؤ ، آئی ، لائی، آئے، لائے وغیرہ ۔ ( ان الفاظ کی مغنونہ صورتوں یعنی آؤں ، لاؤں ، آئیں ، لائیں وغیرہ کو بھی اسی پر قیاس کیا جاتا ہے۔)۔ یعنی ہمزہ ان حروف پر دراصل زیر زبر پیش کی حرکت کا قائمقام ہوتا ہے ۔ اس لئے آئے جائےکھائے (یا آئیں ، جائیں ، کھائیں ) وغیرہ کی تقطیع کرتے وقت ہمزہ کو گرا کر ی یا ے کو ساکن کے طور پر برقرار رکھا جاتا ہے ۔ چنانچہ "جائے" کی تقطیع جاے اور آئی کی تقطیع آی بروزن فاع حسبِ ضرورت جائز ہے ۔ (ایک حرفِ ساکن مصرع کے آخر میں زیادہ کرنا تقریبا ہر بحر میں جائز اور عام مستعمل ہے ۔) ہمزہ گرانے کی کچھ مثالیں یہ ہیں۔
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے ۔ مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے - کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے (غالب)
یاقوت کوئی اِن کو کہے ہے ، کوئی گلبرگ ۔ ٹک ہونٹ ہلا تو بھی کہ اک بات ٹھہر جائے
مت بیٹھ بہت عشق کے آزردہ دلوں میں ۔ نالہ کسو مظلوم کا تاثیر نہ کرجائے (میر)
لذتِ عشق الٰہی مٹ جائے - درد ارمان ہوا جاتا ہے (داغ)
دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائےئے ۔ ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائےئے (اقبال)

لیکن انہی اساتذہ نے مصرع کے آخر میں حسبِ مرضی ہمزہ کو برقرار بھی رکھا ہے ۔ مثالیں دیکھئے۔

لطفِ نظّارہء قاتل دمِ بسمل آئے - جان جائے تو بلاسے، پہ کہیں دل آئے (غالب)
زخموں پہ زخم جھیلے ، داغوں پہ داغ کھائے ۔ یک قطرہ خونِ دل نے کیا کیا ستم اٹھائے (میر تقی میر)
داغ سے کہہ دو اب نہ گھبرائے - کام اپنا بنا ہوا جانے
بہا اے چشمِ تر ایسا بھی اک آنسو ندامت کا - جسے دامن میں لینے رحمتِ پروردگار آئے (داغ)

چنانچہ ہمزہ کو حسبِ مرضِی رکھا یا گرایا جاسکتا ہے ۔ لیکن ایسا ممکن نہیں کہ مصرع کے آخر میں بغیر ہمزہ کے آنے والی ی یا ے کو حسبِ ضرورت گرادیا جائے ۔ مثلا سوالی، عالی، سواری ، یاری ، ہمارے ، کنارے ، حوالے کے الفاظ اگر مصرع کے آخر میں آئیں تو ان کی یائے معروف یا یائے مجہول ہمیشہ تقطیع میں آئے گی ۔ گرائی نہیں جاسکتی ۔ مجھے دوہے کے اوزان کا کچھ زیادہ علم نہیں لیکن آپ کا یہ سوال کہ " ی اور ے کو دیگر اصنافِ سخن میں گرایا جاسکتا ہے تو دوہے میں کیوں نہیں " غلط فہمی پر مبنی معلوم ہوتا ہے ۔ میرے ناقص علم کے مطابق دیگر اصنافِ سخن میں ایسا نہیں ہوتا ۔ آپ کا دعوی ہے کہ ایسی ہزاروں مثالیں آپ کی نظر سے گزری ہیں ۔ لیکن اتفاق سے میرا مطالعہ اس کے بالکل برعکس ہے ۔ آج تک ایسی کوئی نظیر میری نظر سے نہیں گزری ۔ سلمان بھائی ، براہِ کرم اس سلسلے میں چند معتبر مثالیں اگر دکھا سکیں تو میں اپنی کم علمی دور کرنے پر آپ کا ممنون رہوں گا ۔ :):):)
قبلہ ظہیر صاحب ۔ آپ نے مجھ کم علم کی مشکل آسان کر دی ہے آپ نے ہمزہ والی ی اور ے گرانے کی جو مثالیں دی ہیں یہی بات میں بار بار عرض کر رہا ہوں کہ "ئے" ، ئی ، "ئیں" کو بحر میں لفظ کے مقامی دستیاب وزن کے مطابق ایسے ہی گرایا بھی جا سکتا ہے۔ ( یعنی آئے، جائے، جائیں، جالی، تالے کو اگر 2۔2 دستیاب ہو تو اس میں اور اگر 2۔1 دستیاب ہو تو اس میں باندھا جا سکتا ہے۔
میرے موقف کی بہترین مثال آپ کے مراسلے میں دیا گیا غالب کا یہ شعر ہے جس میں ایک ہائے ۔2۔1 اور دوسرا 2۔2 میں باندھا گیا ہے۔
درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے (2۔1) ہائے (1۔2)
جو میرا موقف ہے اس کی بہترین دلیل آپ کی ہی دی ہوئی خدائے سخن میر تقی کا مصرع ہے

نالہ کسو مظلوم کا تاثیر نہ کرجائے ( یہاں ئے کی ے گرائی گئی ہے۔ یعنی آخری دو حرفی ئے کو ے گرا کر یک حرفی باندھا گیا ہے) ۔ میرا موقف ہے کہ غزل میں برتا گیا بعین یہی اصول دوہا میں بھی درست ہو گا
دوسری علامہ صاحب کی مثال میں آخری لفظ جائے کی حتی کہ تسبیغ سے حاصل کردہ ئے کا "ے" بھی گرایا گیا ہے۔
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے ( یہی اور ایسے ہی آخری حرف گرایا جانا ہی میرا موقف ہے جسے آپ علمی سکالرز حضرات نہیں سمجھ پا رہے)
میں نہیں جانتا کہ اس اسے گرانا کہتے ہیں یا ساقط کرنا کہتے ہیں کیونکہ میں عروض دان نہیں لہذا آپ جیسے سخنی سکالرز حضرات جن اصلاحات کی زبان میں بات کرتے ہیں وہ نہیں جانتا۔
میں سمجھ نہیں پایا۔پھر بھی آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ
"لیکن یہ بات درست نہیں کہ مصرع کے آخر سےایسی ی یا ے بھی گرائی جاسکتی ہے جو کسی لفظ کا آخری حرف ہو"

ظہیر صاحب آپ گوگل پر دوہا سرچ کریں کلاسیکل انڈین سے لیکر جدید دور تک ہزاروں دوہے سامنے آئیں گے جن میں سینکڑوں ایسے نظر آئیں گے جن میں اقبال کی اس مثال کی طرح ئے ، ئی یک حرفی بندھا ملے گا یعنی اس کی ی یا ے گرائی گئی ہو گی۔
اس سے جڑا میرا موقف یہ بھی ہے کہ ضروری نہیں دوہا کا آخری لفظ بشکل مال، سال، آپ، دھوپ جیسا آخری ساکت حرف سے ہو، بلکہ وہ آخری لفظ آئی، جائے، مالی، سوالی، جالی کی شکل میں ایسے ئی ، ئے، ئیں اور لی یا سی پر بھی ختم ہو سکتا ہے جس کے آخری لی، ئے، ئی کو 1 کے وزن پر باندھا گیا ہو۔
( بالکل ایسے ہی جیسے میر اور اقبال کے مصرعوں میں)
قبلہ ظہیر صاحب میرا خیال ہے کہ جو بات میں کہہ رہا ہوں وہی آپ کا بھی موقف ہے، شاید میرا طریقہء استفسار آپ اساتذہ کی عروضی ٹرمینالوجی سے نابلد ہے۔ اور دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ میں ایک چوبیس سالہ بچونگڑا مگر بہر حال میں با ادب اور با تمیز ہوں، سینیئر اساتذہ کا باپ کی طرح احترام کرنا ہی میری تربیت اور لہو میں ہے، علم کا پیاسا اور جستجوئے سخن رکھتا ہوں، لہذا میرے کسی علمی استفسار اور حجت کو بے ادبی نہ سمجھا جائے۔ مجھے بیحد دکھ ہوا کہ کچھ بیحد معزز سینئر حضرات کے الفاظ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ میری علمی استفساروں سے کوئی بدمزگی یا تلخی پیدا ہو رہی ہے۔ میرے بارے ایسا سوچنا بڑی تکلیف دہ بدگمانی ہے۔
ہسدے وسدے روو۔ شکریہ
سلمان دانش بھائی ، یا تو آپ نے میرا مراسلہ پورا نہیں پڑھا یا پھر آپ اسے سمجھ نہیں سکے ، یا پھر میرے سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے ۔ بھائی میں آپ کے موقف کی تائید کہاں کر رہا ہوں ۔ میں تو آپ کے موقف کی تردید کررہا ہوں۔ میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ عالی اور سوالی کے آخر سے ی گرانا قطعی طور پر غلط ہے ۔ ایسا آج تک کسی نے نہیں کیا ۔

آئے ، جائے ، لائے وغیرہ کو مصرع کے آخر میں فاع کے وزن پر باندھنا تو عروضی طور پر مسلم ہے اور اسی کی وضاحت اور مثالیں میں نے اپنے مراسلے میں پیش کی تھیں ۔ اس بات پر تو ہم سب متفق ہیں ۔ لیکن میرا سوال تو یہ ہے کہ عالی اور سوالی کی ی کس اصول کے تحت گرارہے ہیں آپ؟؟؟؟؟؟ آپ جائے ، لائے ، کھائی وغیرہ کو عالی ، سوالی، ہمارے، کنارے وغیرہ سے خلط ملط نہ کریں ۔ جیسا کہ میں نے وضاحت سے عرض کیا یہ دو بالکل مختلف باتین ہیں ۔ مصرع کے آخر میں جائے ، لائے کو تو آپ فاع تقطیع کرسکتے ہیں لیکن عالی اور مالی کو فاع تقطیع ہرگز نہیں کرسکتے ۔

میں نے اپنے مراسلے میں آپ کے تین اقتباسات شامل کئے تھے ۔ میرا تمام مراسلہ آپ کے انہی دعاوی کے رد میں ہے ۔ آپ کہتے ہیں کہ تمام اصنافِ سخن میں ی اور ے کو گرایا جاتا ہے اور ایسا ہوتا آیا ہے ۔ چنانچہ اسی اصول کے تحت آپ اپنے دوہے میں سوالی اور عالی کی ی گرارہے ہیں ۔ جبکہ میں کہہ رہا ہوں کہ ایسا ممکن ہی نہیں ۔ ایسا کوئی عروضی اصول سرے سے موجود ہی نہیں ۔ دانش بھائی ، میرے پچھلے مراسلے کا آخری پیراگراف پھر پڑھ لیجیئے۔
میرے بھائی ، میری گزارش آپ سے صرف اتنی ہے کہ ی اور ے گرانے کی چند مثالیں عطا فرمائیں ۔ مجھے یقین ہے کہ ایسی کوئی مثال آپ کو کہیں نہیں ملے گی۔
قبلہ ظہیر صاحب۔
آپ بزرگ ہیں اور میں باادب برخودار ہوں لیکن میں ان ایسے کلمات کو ایک غیر ادبی طنز سمجھتا ہوں جو کم از کم اہلِ علم کا وطیرہ نہیں ہونی چاہئے۔
یا پھر میرے سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے ۔×××× نا صاحب نا یہ غلط بات ہے ، ایسا رویہ کم علم لوگوں کا ہوا کرتا صاحب!!!!
چلیں علم الریاضی کی زبان میں بات کر لیتے ہیں۔
ئے = ء + ے ۔۔۔۔ یہاں ے گرائی جا سکتی ہے
ئی = ء + ی ۔۔۔۔ یہاں ی گرائی جا سکتی ہے
لی= ل+ی ۔۔۔ لیکن یہاں اصول کیونکر مختلف ہو گیا؟ یہاں کیوں ی نہیں گرائی جا سکتی ہے۔ ء کے ساتھ ی گرانے کا اصول جائز ہے مگر دوسرے ل ، م اور ج ہو تو یہاں ی سے سوتیلی ماں جیسا سلوک ہو رہا ہے جبکہ ء بھی ایک مکمل حرف تہجی ہے اور ل میم ج بھی حروف تہجی ہیں۔ ء کی موجودگی میں 2+2-1=3 ہو سکتے ہیں مگر ل یا کسی اور حرف تہجی کی صورت میں 2+2-1= 4 ؟
صاحب آپ شاعری کی 4 کتابیں لکھ چکے ہیں علمی بات کریں ۔ علم اور کسی بھی منطق سے دلائل لائیں۔ میں علم کے حصول کیلیے تشنہ لب ہوں اور سخن کی دس کتابیں شائع کرنے کا ارادہ لیکر شاعری کے اس میدان میں اترا ہوں۔مجھے استادوں کی طرح سکھائیں
صرف میں نہیں پوری ادبی دنیا قبلہ عبید صاحب جیسے بزرگ ادبی سکالر کو ایک اتھارٹی مانتی ہے ۔اور انہوں نے بھی اسے غلط قرار نہیں دیا ، ہاں ان کے مطابق ایسا کرنے سے روانی ضرور متاثر ہوتی ہے یا ناگوار گزرتا ہے۔عبید صاحب کی رائے کے بعد صرف استاد آسی صاحب اور وارث صاحب ہی وہ ادبی عالم ہیں جن کی علمی رائے کو مقدم اور قابل قبول سمجھوں گا۔ کیوں کہ یہی وہ علم بانٹنے والے وہ سکالر لوگ ہیں جنہوں نے اردو ادب اور سخن کے علوم میں وہ بے لوث اور انتھک کام کیا ہے جس سے آنے والی کئی نسلیں فیض یاب ہوتی رہیں گی۔ اور علم کی دولت سے صدقہ جاریہ کا سلسلہ شروع کئے ان جیسے لوگوں ہی کے علم سے فیض یاب ہو کر میں بھی کرنل محمد خان، کیپٹن فیض احمد فیض، کرنل ضمیر جعفری اور بریگیڈئر صدیق سالک جیسے ہم ادارہ سخنوروں کو اپنا آئیڈیل بنا کر اس سلمان اکبر دانش تک پہنچنا چاہتا ہوں، جسے دنیا انہیں عظیم سخنوروں کی طرح یاد رکھے۔ مگر آج کے سخن وروں کا احوال دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے۔ حقیقی علم کی تو شدید قلت ہے مگر، علمی تکبر، پسند نا پسند کی گروپنگ، ایک دوجے کی ٹانگیں کھینچا اور انجمن ستائش باہمی کے تحت واہ واہ کے علاوہ اور ککھ نہیں اس سخنور برادری میں۔ میں ان سوال و جواب کی علمی بحثوں کو والسلام کہہ کر صرف لکھنے پر توجہ دوں تو بہتر ہے، ممکن ہے یہ میرا آخری علمی تکراری استفساری نوٹ ہو۔ لہذا یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ اب ادبی اور قلمی دنیا میں سید شاکر القادری جیسے لوگ بھی کم ہی رہ گئے ہیں، جو بھی کر رہے ہیں، نمبر ٹانکنے کیلیے نہیں بلکہ نیک اور اعلی مقاصد کے تحت کر رہے ہیں۔ اللہ انہیں لمبی عمر اور صحت عطا فرماویں
کچھ برا لگا تو معافی صاحب۔
رب راکھا
@ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺩﺍﻧﺶ ﺟﯽ بھائی آپ عجیب بندے ہیں آپ سے چند مثالیں مانگیں ہیں کہ جس میں مصرعے کے آخر سوالی،جالی، پیالی وغیرہ کی ی گرائی ہو ئے، ئی کے سوا. آپ بجائے دو مثالیں دینے کے.سوال چنا جواب گندم.

آپ شارٹ کٹ دو اشعار لکھیں جس کے آخر میں سوالی کی ی گرائی ہو.
عزت مآب فرحان عباس صاحب !!!!!!!!!!! حضور عالیٰ پہلے خود سے چھوٹوں سے گفتگو کے آداب سیکھ کر آئیں۔ یہ عجیب بندے کیا طرزِ کلام ہے؟ کیا میں کبھی کسی بڑے چھوٹے سے ایسے مخاطب ہوا ہوں؟ صاحب یہ دنیائے ادب ہے گندم اور چنے کی غلہ منڈی نہیں ۔ یہ ادب کی دنیا ، بے ادب لوگوں کیلئے نہیں ہے۔
اگر آپ کو میرے دلائل سمجھ میں نہیں آئے تو بتائیں کہ کیا ء کے ساتھ ی کھوئے والی ملائی والی ہے جو گرائی جا سکتی ہے جو لام کے ساتھ سوکھی روکھی ہے جو نہیں گرائی جا سکتی ہے ؟ جس اصول کے تحت ء کے ساتھ بندھی ی گرائی جا سکتی ہے اسی اصول کے تحت لام قاف میم کے ساتھ جڑی ی بھی گرائی جا سکتی ہے۔ کہاں لکھا ہے کس کتاب میں لکھا ہے کہ ہر حرف کیلئے الگ اصولِ عروض ہیں؟ ی جیسے مصرع کے درمیاں میں گرائی جا سکتی ہے ویسے ہی آخیر میں بھی گرائی جا سکتی ہے۔، سوالی موالی خیالی وغیرہ کو کسی مصرع کے درمیان میں فعولن کی بجائے فعول کے وزن پر باندھا جا سکتا ہے تو مصرع کے آخیر میں اسی فعول میں کیوں نہیں باندھا جا سکتا؟ الفاظ کا وزن تو ہر مقام پر ایک جیسا ہی ہے۔ اس علمی اسفسار کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے؟
سلمان بھائی ۔ میری گزارش ہے کہ نظر انداز کریں۔ بھائی لوگ آپ کی طرف سے علمی تکرار کو تلخی کا باعث سمجھتے ہیں۔ بحث و مباحثہ سے کنارہ کش لکھنے پر توجہ دیں۔
@ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺩﺍﻧﺶ ﺟﯽ آپ کتنے باادب ہو وہ پتا چل ہی رہا ہے. اور آپ مجھ سے چھوٹے کیسے ہوگئے؟

آپ جہاں لاکھوں مثالیں دینے کی بات کررہے تھے.
اب تک آپ ایک صرف ایک مثال بھی نہ دے سکے.

اس سے آپ کے قول فعل کا بخوبی اندازہ ہوگیا.
فرحان بھائی علمی انداز سے بات کیجے۔ کوئی بڑا ہو یا چھوٹا ، کسی بھی شخص پر پرسنل کوئی اٹیک اچھی بات نہیں ہوتی۔
بھائی سلمان دانش ۔ میں تو حیران ہوا جارہا ہوں آپ کے مراسلات پڑھ کر۔ بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی ۔ بھائی پہلی بات تو یہ کہ میں نے آپ پر کوئی طنز کیا ہی نہیں ۔ میں نے تو آپ کی طرف سے اپنے سیدھے سادے سوال کا جواب نہ ملنے پر یہی کہا تھا کہ ’’ یا تو آپ نے میرا مراسلہ پورا نہیں پڑھا یا پھر آپ اسے سمجھ نہیں سکے ، یا پھر میرے سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے ‘‘۔ میں حیران ہوں کہ اس بات میں کوئی طنز کہاں سے آگیا ؟! یہ تو ایک عام سی بات ہے جو ایسے موقع پر سبھی کہتے ہیں ۔ میں حیران پریشان ہوں کہ آپ نے جوابًا لکھا :

’’آپ بزرگ ہیں اور میں باادب برخودار ہوں لیکن میں ان ایسے کلمات کو ایک غیر ادبی طنز سمجھتا ہوں جو کم از کم اہلِ علم کا وطیرہ نہیں ہونی چاہئے۔یا پھر میرے سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے ۔×××× نا صاحب نا یہ غلط بات ہے ، ایسا رویہ کم علم لوگوں کا ہوا کرتا صاحب!!!! ‘‘

بھائی میں نے ایسی کیا گستاخی اور بے ادبی کی ہے جس پر میں ان کلمات کا سزاوار ٹھہرا ؟ میں یہ بات اب تک نہیں سمجھ پایا ۔
جہاں تک موضوعِ زیرِ بحث کا تعلق ہے اس پر میں پھر عرض کروں گا کہ یہ ایک بالکل سیدھا سادہ سا معاملہ ہے جس میں کسی الٹ پھیر کی کوئی گنجائش ہی نہیں ۔ مصرع کے آخر سے ی اور ے گرائے جانے کا جو دعویٰ آپ نے کیا تھا اور جس کے متعلق لکھا تھا کہ آپ پچاس ہزار ایسی مثالیں پیش کرسکتے ہیں میں ان میں سے صرف چند مثالیں ہی دیکھنے کا خواہش مند ہوں اور یہی تقاضا میں نے آپ سے کیا تھا ۔ اور مین ابھی تک منتظر ہوں ان مثالوں کا ۔

لیکن اب صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ بجائے اپنے دعویٰ کا ثبوت پیش کرنے کے آپ اُلٹا مجھی سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ جب مصرع کے درمیان سے ی گرائی جاسکتے ہے تو مصرع کے آخر سے کیوں نہیں ؟ اور جب ئے کی ے گرائی جاسکتی ہے تو عالی کی ی کیوں نہیں؟ بھائی ، سوالات تو ہزاروں اٹھائے جاسکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے اور ایسا کیوں نہیں ہے ۔ عروض کے اصول میں نے یا کسی اور نے گھر بیٹھ کر تو نہیں گھڑے۔ یہ اصول تو صدیوں سے شاعری میں موجود رہے ہیں۔ ماہرینِ فن نے تو ان اصولوں کو دریافت کرکے اور ان کا تجزیہ کرکے انہیں ایک مربوط نظام کی صورت میں لکھ دیا ہے ۔ اگر آپ یا میں ان اصولوں کو توڑنا چاہتے ہیں تو ہمیں کوئی نہیں روک سکتا ۔ ہم بصد شوق ایسا کرسکتے ہیں ۔ لیکن جب میں کسی عروضی اجازت کے بارے میں دعویٰ کروں کہ ایسا تو ہوتا آیا ہے اور اس کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں تو پھر اس دعویٰ کا ثبوت فراہم کرنا مجھ پر واجب ہوجاتا ہے ۔ یہ ایک معقول اور سادہ سی بات ہے۔

دیکھئے بھائی ، فنی اور تکنیکی گفتگو کو جتنا سادہ اور براہِ راست رکھا جائے اتنا بہتر ہوتا ہے ۔ کئی مباحث پر ایک ساتھ گفتگو کرنے سے معاملہ ہمیشہ الجھ جاتا ہے ۔ پہلے آپ یہ طے کرلیجئے کہ اساتذہ نے عالی اور سوالی قبیل کے الفاظ کی ی گرائی ہے یا نہیں ۔ کیوں گرائی یا کیوں نہیں گرائی کا سوال بعد میں اٹھے گا ۔ ویسے تو میں اس کیوں کا مفصل جواب اپنے پہلے مراسلے میں دے چکا ہوں ۔ لیکن اگر آپ دوبارہ پوچھیں گے تو میں پھر اور وضاحت سے عرض کردوں گا۔ لیکن بھائی پہلے اپنے دعویٰ کا ثبوت تو پیش کیجئے ۔ تبھی تو بات آگے بڑھے گی ۔

میں بلاوجہ کسی گفتگو کو آگے بڑھانے کا قائل نہیں ہوں ۔ اگر آپ اپنے دعویٰ کے ثبوت میں کوئی دلیل پیش کرسکتے ہیں تو آمنا وصدقنا ۔ ورنہ دانش بھائی میری طرف سے اب اس معاملے میں کہنے کو کچھ نہیں رہ گیا۔ خدا آپ کو سلامتی میں رکھے او رآپ شاد آباد رہیں ۔

پس نوشت : دانش بھائی! آپ کی طرف سے یہ خبر سن کر بہت خوشی ہوئی کہ میری چار کتب شائع ہوچکی ہیں ۔ اگر ان کتابوں کا کچھ نام پتہ عنایت کردیں تو میں بھی انہیں پڑھ لوں اور معلوم کرسکوں کہ یہ کون بھلا مانس میری اجازت کے بغیر میری طرف سے کتابیں شائع کرتا پھر رہا ہے ۔ :):):)
بھائی ، ہماری تو یہ ایک ای بک تمام ہوکر نہیں دے رہی ہے اور آپ نمعلوم کہاں سے چار کتابیں میرے ذمہ لگارہے ہیں ۔ بھائی اس کی کچھ وضاحت فرمائیے۔ منتظر رہوں گا ۔

سلمان دانش جی,

---

اگر آپ کو میرے دلائل سمجھ میں نہیں آئے تو بتائیں کہ کیا ء کے ساتھ ی کھوئے والی ملائی والی ہے جو گرائی جا سکتی ہے جو لام کے ساتھ سوکھی روکھی ہے جو نہیں گرائی جا سکتی ہے ؟ جس اصول کے تحت ء کے ساتھ بندھی ی گرائی جا سکتی ہے اسی اصول کے تحت لام قاف میم کے ساتھ جڑی ی بھی گرائی جا سکتی ہے۔ کہاں لکھا ہے کس کتاب میں لکھا ہے کہ ہر حرف کیلئے الگ اصولِ عروض ہیں؟ ی جیسے مصرع کے درمیاں میں گرائی جا سکتی ہے ویسے ہی آخیر میں بھی گرائی جا سکتی ہے۔، سوالی موالی خیالی وغیرہ کو کسی مصرع کے درمیان میں فعولن کی بجائے فعول کے وزن پر باندھا جا سکتا ہے تو مصرع کے آخیر میں اسی فعول میں کیوں نہیں باندھا جا سکتا؟ الفاظ کا وزن تو ہر مقام پر ایک جیسا ہی ہے۔ اس علمی اسفسار کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے؟
بھائی، اس علمی استفسار کا جواب سیدھا سا ہے۔
عروض کی بابت یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس کی بنیاد الفاظ کے تلفظ پر ہے، ہجا پر نہیں۔ لفظ جس طرح بولے جاتے ہیں اس سے طے ہوتا ہے کہ کس لفظ کی بابت کیا رویہ اختیار کیا جائے گا۔ جس طرح لکھے جاتے ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دو قسم کی مثالیں آپ لوگوں کے ہاں زیرِ بحث ہیں:
اول:
کھائے، آئے، پائے۔۔۔
غور فرمائیے کہ (جیسا کہ ظہیراحمدظہیر بھائی نے بھی اشارہ فرمایا ہے) ان میں دراصل ے نہیں گرائی جا سکتی۔ ہمزہ البتہ ساقط ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں انھیں یوں لکھنا چاہیے (اور خوش سواد کاتبین انھیں ایسے موقعوں پر یونہی لکھتے آئے ہیں)۔
کھاے، آے، پاے۔۔۔
نکتہ یہ ہے کہ یہ تلفظ اہلِ زبان کے ہاں ممکن ہے۔ اور اسی تلفظ کو فاع پر قیاس کیا جاتا ہے۔
یائے تحتانی یا چھوٹی 'ی' کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔
کھائی، آئی، پائی۔۔۔
ان میں بھی دراصل 'ی' کبھی ساقط نہیں ہوتی۔ ہمزہ بوقتِ ضرورت اوپر والی مثال کی طرح گرا دیا جاتا ہے۔ لیکن اس صورت میں روایت یوں مختلف رہی ہے کہ انھیں کھای، آی، پای وغیرہ کی بجائے کھائی، آئی، پائی ہی لکھا جاتا ہے۔ تلفظ ان کا بھی اسی طرح ہوتا ہے کہ کھا، آ، پا وغیرہ پورے بولے جاتے ہیں اور ئی کو یائے ساکن قیاس کر کے بولا جاتا ہے۔
تکرار کی معذرت، مگر اہم ترین نکتہ یہی ہے کہ یہ تلفظ اہلِ زبان کے ہاں ممکن ہے۔ اس طرح بولا جا سکتا ہے۔ تکنیکی زبان میں ہم کہیں گے کہ کھائے، آئے، پائے وغیرہ میں 'ے' کا اشباع یعنی کھینچ کر ادا کرنا بھی ممکن ہے اور اس کے برعکس بھی۔ اسی لیے ہردو تلفظ کے ساتھ شعر بھی موزوں کیے جا سکتے ہیں۔
چائے، ہائے، وائے جیسے بعض الفاظ کی بابت تو ٹھیٹھ عروضی اصرار کرتے ہیں کہ ان کی 'ئے' کا اشباع نہ کیا جائے اور انھیں فعلن کی بجائے ہمیشہ فاع کے وزن پر باندھا جائے۔
کچھ اسی قسم کے معاملات بھاؤ، تاؤ، گاؤں، پاؤں اور آؤ، جاؤ، پاؤ جیسے الفاظ کے ساتھ بھی ہیں۔
عالی، جالی، تالی وغیرہ جیسے الفاظ کا المیہ کچھ اور ہے۔ مصرع کے درمیان میں ان کی 'ی' گرائی جا سکتی ہے اور اردو کا تلفظ اس کی اجازت دیتا ہے۔
مثلاً
روضے کی جالی تھام کے روتے رہیں گے ہم (مؤلف)
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
اس میں جالی کو جالِ (لام کی زیر کے ساتھ) قیاس کر لیا گیا ہے۔ اس طرح بولا جا سکتا ہے اور بولا جاتا ہے۔ ہم عام بول چال میں بھی جالی کی 'ی' کا اشباع بعض دفعہ نہیں کرتے بلکہ اس کو نہایت مختصر بولتے ہیں۔ لیکن یہ تبھی ہوتا ہے جب جالی کا لفظ ہمارے جملے کے درمیان آئے۔ اسی تلفظ کا فائدہ ہم نے یہاں اٹھایا ہے اور 'ی' گرا کر لام کو زیر کے ساتھ بولتے ہوئے اگلے لفظ سے ملا دیا ہے۔
اب بات یہ ہے کہ ایسا صرف جملے یا مصرعے کے درمیان میں ہو سکتا ہے۔ مصرعے کے آخر میں ممکن نہیں کہ آپ جالی کا لفظ لائیں اور لام کو ساکن باندھ سکیں۔ یعنی جالی کو جال کے وزن پر قیاس کر لیں۔ مثلاً
روئیں گے ہم تھام کر روضے کی جالی (مؤلف)
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن
کیا اس مصرعے کو بولتے ہوئے آپ جالی کو 'جال' ادا کر سکتے ہیں؟ کوشش کر کے دیکھیے۔
اگر ہاں تو یہ مصرع 'فاعلاتن فاعلاتن فاعلان' کے وزن پر آ جائے گا۔ اگر نہیں، اور یقیناً اردو کا فصیح تلفظ اس کی اجازت نہیں دیتا، تو آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ جالی، عالی، تالی وغیرہ الفاظ مصرعے کے آخر میں آ جائیں تو ہم ان سے 'امتیازی سلوک' کرنے پر مجبور ہیں۔
یہی معاملے بڑی 'ے' والے الفاظ مثلاً جالے، تالے، نالے وغیرہم کے ساتھ ہے۔
 

ابن رضا

لائبریرین
ہاں جی دانش بھائی کام چلے گا یا کسی وڈے ڈاکٹر کو بلایا جائے.:ROFLMAO:

تفنن برطرف.

عمدہ وضاحت پیش کرنے کا شکریہ راحیل صاحب
 

ابن رضا

لائبریرین
ویسے بھی فاع تسبیغ کا نتیجہ ہے جس کے لیے وتد موقوف شرط ہے یعنی آخری ہجہ کوتاہ ہو سبب خفیف کا آخری ہجہ گرا کر نہ کوتاہ بنایا جائے
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
میں ایک چھوٹی سی گزارش کر دوں کہ عربی عروض کو جب فارسی اور پھر اردو میں لیا گیا اور جو متحرک اور ساکن پر مبنی ہے تو اس سے اردو میں "گھمبیر" مسائل پیدا ہو گئے اور متحرک ساکن کا نظام اردو عروض میں ایک گورکھ دھندہ ہے جس کو ترک کیا جانا چاہیے۔ ایک مثال دیکھیے، بحر ہے

فاعلاتن مفاعلن فعلن

اس میں فاعلاتن کی عین متحرک ہے، اس وزن پر غالب کا ایک موزوں مصرع دیکھیے (چونکہ مجھے یہ بہت پسند ہے تو لکھ رہا ہوں ورنہ لاکھوں مل جائیں گے اس طرح کے)

ع - درد ہو دل میں تو دوا کیجے

کیا کوئی دوست بتا سکتا ہے کہ فاعلاتن کی متحرک عین کے مقابل درد کی ساکن دال کیسے آ گئی اور درست قرار پائی؟
 
ع - درد ہو دل میں تو دوا کیجے

کیا کوئی دوست بتا سکتا ہے کہ فاعلاتن کی متحرک عین کے مقابل درد کی ساکن دال کیسے آ گئی اور درست قرار پائی؟
وارث بھائی، میں تو فقط یہی عرض کر سکتا ہوں کہ اعتبار تلفظ اور لہجے کا ہے۔ باقی تمام معاملات ثانوی ہیں۔ زبان کی اصل گفتگو ہے۔ تحریر اور مطالعہ بعد کی چیزیں ہیں۔
اس اصول کا انطباق آپ کے دیے گئے مصرعے پر بھی کیا جا سکتا ہے۔ جب ہم یہ مصرع زبان سے ادا کرتے ہیں تو 'درد' کی دالِ ساکن اگلے لفظ سے مل کر کچھ اس طرح ادا ہوتی ہے کہ مصرع کا اتار چڑھاؤ من حیث المجموع بحر کے مطابق ہو جاتا ہے۔
عربی عروض کو جب فارسی اور پھر اردو میں لیا گیا اور جو متحرک اور ساکن پر مبنی ہے تو اس سے اردو میں "گھمبیر" مسائل پیدا ہو گئے اور متحرک ساکن کا نظام اردو عروض میں ایک گورکھ دھندہ ہے
بہرحال، آپ نے درست طرف توجہ دلائی ہے اور اس معاملے میں میں آپ کا ہمنوا ہوں۔ ہماری اب تک کی باتیں زیادہ تر قیاسی اور خود تردیدی ہیں جن پر جی چاہے تو اعتبار کیا جا سکتا ہے اور نہ چاہے تو مکرا جا سکتا ہے۔ عروض اور پنگل وغیرہ کو ٹھوس اور منطقی بنیادوں پر اردوانے کی شدید ضرورت موجود ہے۔ اور یہ کام حسبِ سابق و حسبِ دستور انفرادی طور پر نہ ہو تو بہتر ہے۔ بلکہ کچھ ماہرینِ لسانیات، ادبیات و شعریات مل بیٹھ کر اور تدبر و تفکر کے بعد ایک ضابطہ تشکیل فرمائیں جو ہماری زبان اور ہمارے اپنے مزاجوں سے لگا کھاتا ہو تو یہ تاریخ ساز کام ہو گا۔ یہ تصور کر کے ہی مجھے بہت لطف آتا ہے کہ اردو کا ایک اپنا، خالص عروض وجود میں آ جائے جو ہمیں شعر کہنے میں ان الجھنوں اور بدآہنگیوں سے بچا لے جو بدیسی نظاموں کی اتباع کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہیں۔
پنگل اور خلیل کا عروض تو اس سلسلے میں رہنما ثابت ہوں گے ہی۔ مگر انگریزی عروض کے زیر و بم سے بھی اگر ماہرین کو مناسب لگے تو استفادہ کیا جانا چاہیے۔ مجھے ان کے سلیبل سسٹم میں ہمیشہ متاثر کیا ہے۔ اور اردو الفاظ کے تلفظ میں زور دینے اور نہ دینے کا بعینہ وہی قاعدہ ملتا بھی ہے گو ہم نے اسے وزن کی بنیاد نہیں بنایا۔
اگر آپ 1،2 والے نظام کو اس کی جگہ دینا چاہتے ہیں تو البتہ میں آپ کے ساتھ نہیں ہوں! :)
ویسے یہ بات بھی بعید از قیاس نہیں ہے کہ میں نے اس مراسلے میں 'سوال گندم، جواب چنا' والی صورتِ حال پیدا کر دی ہو۔ اگر ایسا ہے تو اللہ کی مرضی!
 
میں ایک چھوٹی سی گزارش کر دوں کہ عربی عروض کو جب فارسی اور پھر اردو میں لیا گیا اور جو متحرک اور ساکن پر مبنی ہے تو اس سے اردو میں "گھمبیر" مسائل پیدا ہو گئے اور متحرک ساکن کا نظام اردو عروض میں ایک گورکھ دھندہ ہے جس کو ترک کیا جانا چاہیے۔ ایک مثال دیکھیے، بحر ہے

فاعلاتن مفاعلن فعلن

اس میں فاعلاتن کی عین متحرک ہے، اس وزن پر غالب کا ایک موزوں مصرع دیکھیے (چونکہ مجھے یہ بہت پسند ہے تو لکھ رہا ہوں ورنہ لاکھوں مل جائیں گے اس طرح کے)

ع - درد ہو دل میں تو دوا کیجے

کیا کوئی دوست بتا سکتا ہے کہ فاعلاتن کی متحرک عین کے مقابل درد کی ساکن دال کیسے آ گئی اور درست قرار پائی؟
قبلہ وارث صاحب!! میں نے اسی بحر کے بارے آپ ہی کا ایک مضمون ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف پڑھا ہے۔ قبلہ ہم متحرک اور ساکن کی ٹرمینالوجی میں نہیں پڑتے، یہ آپ جیسے عالم فاضل لوگوں کی سمجھ کی باتیں ہیں۔ ہم لوگ وہی جانتے ہیں جیسا آپ اور دیگر اساتذہ کے بلاگوں میں لکھا ہے ۔ یعنی فاعلاتن کا ہندسوں میں وزن 2۔1۔2۔2 ہے۔ اور ع کا وزن 1 یا سنگل حرفی ہے۔ اس کے مطابق درد کو در2 +د1 سمجھتے یا باندھتے ہیں۔ ہم نکمے لوگ تو اس ع کو ساکن اور یہاں فٹ ہونے والی دال کو یک حرفی یا ساکن سمجھ رہے تھے۔ لہذا اب آپ جو سوال پوچھ رہے ہیں وہ غالبا مجھ یا مجھ جیسے کئی دوسرے لوگوں کی فہم سے بالاتر ہے۔ میری گزارش ہے کہ ہمیں عروضی اصطلاحات سے فری سیدھے الفاظ میں بتا دیجئے۔ میرا خیال ہے کہ عروض کے علم کو مشکل اور مسلہء گھمبیر بنانے میں سب سے متنازعہ کردار ان عروضیوں کا ہے جنہوں نے بحور اور اوزان کے علم میں بیحد ثقیل ٹرمینالوجیاں شامل کر کے اس قدر مشکل بنا دیا ہے کہ نیا بندہ اس مکتبِ عروض میں داخل ہوتے ہی اسے بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ آپ کا سمجھانے کا طریق سمجھ عام بندے کی سمجھ سے باہر سقیلیات سے لیس عروضی سکالروں جیسا نہیں بلکہ آسان اور عام فہم ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ ایسی ادبی پوسٹوں پر روزانہ دس منٹ بھی دے دیا کریں تو علم کے تشنہ مجھ جیسے کئی لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔​
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی، میں تو فقط یہی عرض کر سکتا ہوں کہ اعتبار تلفظ اور لہجے کا ہے۔ باقی تمام معاملات ثانوی ہیں۔ زبان کی اصل گفتگو ہے۔ تحریر اور مطالعہ بعد کی چیزیں ہیں۔
اس اصول کا انطباق آپ کے دیے گئے مصرعے پر بھی کیا جا سکتا ہے۔ جب ہم یہ مصرع زبان سے ادا کرتے ہیں تو 'درد' کی دالِ ساکن اگلے لفظ سے مل کر کچھ اس طرح ادا ہوتی ہے کہ مصرع کا اتار چڑھاؤ من حیث المجموع بحر کے مطابق ہو جاتا ہے۔
جی درد کی دال ساکن اگلے لفظ سے مل کر کچھ بنتی ہو یا نہ بنتی ہو، عروضی اس کو اپنے مطلب کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔

یہ عروض کا مسئلہ ہے اور بڑا مسئلہ ہے، اس کو فقط اس طرح حل نہیں کیا جا سکتا تھا، سو اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ساکن اور متحرک کی تعریف ہی بدل دی۔ عروضیوں کے نزدیک (بحوالہ بحر الفصاحت) ساکن حرف وہ ہے جو متحرک سے متصل ہو اور متحرک وہ ہے جو ساکن سے متصل ہے۔ عجب گورکھ دھندہ ہے لیکن اس تعریف کی رُو سے

چونکہ درد کی دوسری دال رے ساکن سے متصل ہے سو عروضی تعریف کے مطابق دوسری دال ساکن نہیں ہے بلکہ متحرک قرار پائی اور اسی لیے فاعلاتن کی عین متحرک کے مقابل درست قرار پائی۔

مگر انگریزی عروض کے زیر و بم سے بھی اگر ماہرین کو مناسب لگے تو استفادہ کیا جانا چاہیے۔ مجھے ان کے سلیبل سسٹم میں ہمیشہ متاثر کیا ہے۔ اور اردو الفاظ کے تلفظ میں زور دینے اور نہ دینے کا بعینہ وہی قاعدہ ملتا بھی ہے گو ہم نے اسے وزن کی بنیاد نہیں بنایا۔
اگر آپ 1،2 والے نظام کو اس کی جگہ دینا چاہتے ہیں تو البتہ میں آپ کے ساتھ نہیں ہوں! :)
شکریہ مجھے بتانے کے لیے کہ آپ میرے ساتھ نہیں ہیں :) لیکن میرے سوال کی وجہ کچھ اور طرف تھی "غالب کی طرف داری نہیں" :)

عروض کے مسائل، متحرک ساکن والے، اور وہ مسئلہ جو آپ نے سرنامے میں لکھا ہے، ہمارا عروضی نظام، بغیر گھمائے پھرائے اور بغیر دُور کی کوڑیاں لائے، حل کرنے سے قاصر ہے۔ آپ کسی بچے کو کیسے سمجھا سکتے ہیں کہ جو لفظ بظاہر ساکن نظر آتا ہے وہ ساکن نہیں متحرک ہے، جو متحرک نظر آتا ہے وہ متحرک نہیں ہے ساکن ہے، یے کو ساقط نہیں کیا ہمزہ کو کیا ہے، ایک حرف نہیں بڑھایا بلکہ عمل تسبیغ کیا ہے۔ اس پیچیدہ طریقے سے ایک عام سا دو جمع دو چار ہونے والا نظام، چیستان بن جاتا ہے۔

ہمیں اس کو سادہ کرنے اور اس کے "ورکنگ نالج" کی طرف دھیان دینا چاہیے، 1، 2 کے نظام کو چھوڑ دیجیے، 0، 1 کا لے لیجیے، - = لے لیجیے، کچھ کر لیں، لیکن اس سے مسئلے حل ہوتے ہیں۔
فاعلاتن 2 1 2 2 ہے تو "درد ہو دل" بھی 2 1 2 2 ہے، فاعلاتن کی عین اگر 1 ہے تو درد کی دال بھی 1 ہے، مسئلہ ختم۔ ہر مصرعے کے آخر میں تسبیغ کی اجازت ہے تو اس کیوں نہ کہہ دیں کہ ہر مصرعے کے آخر میں ایک 1 بڑھانے کی اجازت ہے، تسبیغ کی تعریف اور اس کا پیچیدہ طریقہ سب خلاص۔ و علی ہذا القیاس۔
 

شکیب

محفلین
اب اچھا ہوگا کہ سارا نزلہ اسی لڑی پر گرایا جائے اور دوہے والی لڑی کو پاک صاف کر دیا جائے۔
 

شکیب

محفلین
تقریبا ہر وہ بات جو میں کہنا چاہتا تھا، ظہیراحمدظہیر بھائی نے کہہ دی ہے۔
اتنا ضرور کہوں گا کہ اگر سوالی کی ی گرانا صحیح بھی قرار پائے تو سوالِ (ل مکسر) کے ساتھ بے حد بھدا لگے گا۔ بھدا سے مراد یہ جمالیاتی لحاظ سے (کم از کم میرے نزدیک) ناقابل قبول ہوگا۔
اللہ ہم سب کو صحیح فہم عطا فرمائے۔
 
جی درد کی دال ساکن اگلے لفظ سے مل کر کچھ بنتی ہو یا نہ بنتی ہو، عروضی اس کو اپنے مطلب کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔

یہ عروض کا مسئلہ ہے اور بڑا مسئلہ ہے، اس کو فقط اس طرح حل نہیں کیا جا سکتا تھا، سو اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ساکن اور متحرک کی تعریف ہی بدل دی۔ عروضیوں کے نزدیک (بحوالہ بحر الفصاحت) ساکن حرف وہ ہے جو متحرک سے متصل ہو اور متحرک وہ ہے جو ساکن سے متصل ہے۔ عجب گورکھ دھندہ ہے لیکن اس تعریف کی رُو سے

چونکہ درد کی دوسری دال رے ساکن سے متصل ہے سو عروضی تعریف کے مطابق دوسری دال ساکن نہیں ہے بلکہ متحرک قرار پائی اور اسی لیے فاعلاتن کی عین متحرک کے مقابل درست قرار پائی۔


شکریہ مجھے بتانے کے لیے کہ آپ میرے ساتھ نہیں ہیں :) لیکن میرے سوال کی وجہ کچھ اور طرف تھی "غالب کی طرف داری نہیں" :)

عروض کے مسائل، متحرک ساکن والے، اور وہ مسئلہ جو آپ نے سرنامے میں لکھا ہے، ہمارا عروضی نظام، بغیر گھمائے پھرائے اور بغیر دُور کی کوڑیاں لائے، حل کرنے سے قاصر ہے۔ آپ کسی بچے کو کیسے سمجھا سکتے ہیں کہ جو لفظ بظاہر ساکن نظر آتا ہے وہ ساکن نہیں متحرک ہے، جو متحرک نظر آتا ہے وہ متحرک نہیں ہے ساکن ہے، یے کو ساقط نہیں کیا ہمزہ کو کیا ہے، ایک حرف نہیں بڑھایا بلکہ عمل تسبیغ کیا ہے۔ اس پیچیدہ طریقے سے ایک عام سا دو جمع دو چار ہونے والا نظام، چیستان بن جاتا ہے۔

ہمیں اس کو سادہ کرنے اور اس کے "ورکنگ نالج" کی طرف دھیان دینا چاہیے، 1، 2 کے نظام کو چھوڑ دیجیے، 0، 1 کا لے لیجیے، - = لے لیجیے، کچھ کر لیں، لیکن اس سے مسئلے حل ہوتے ہیں۔
فاعلاتن 2 1 2 2 ہے تو "درد ہو دل" بھی 2 1 2 2 ہے، فاعلاتن کی عین اگر 1 ہے تو درد کی دال بھی 1 ہے، مسئلہ ختم۔ ہر مصرعے کے آخر میں تسبیغ کی اجازت ہے تو اس کیوں نہ کہہ دیں کہ ہر مصرعے کے آخر میں ایک 1 بڑھانے کی اجازت ہے، تسبیغ کی تعریف اور اس کا پیچیدہ طریقہ سب خلاص۔ و علی ہذا القیاس۔
واہ قبلہ وارث صاحب۔میں آپ کے موقف کی مکمل تائید کرتا ہوں ۔یہی سیدھی بات میرے استادَ گرامی بھی کہتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کی یہ بات مان لی جائے تو پھر اکثریت کی سمجھ میں نہ آنے والی عربی فارسی اورسنسکرتی اصطلاحات سے لیس اُن اساتذہ ٗ عروض کا گورکھ دھندہٗ استادیت اور عالمانہ رعب کیسے چلے گا۔ جنہوں نے عروض کو عام بندے کیلیے پتھر کے زمانے میں بولی جانے والی ڈائنوسارسی زبان جیسا مشکل بنا دیا ہے۔ جس دن عروضی بزرگوں نے متحرک ساکن اور وتد شدد چھوڑ کر ایک اور دو کی آسان گنتی گننی شروع کر دی، مجھ جیسے اناڑیوں اور مبتدیوں کے کلیجے سوا لکھ واری ٹھنڈ پڑ جائے گی
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
راحیل فاروق بھائی ، اردو عروض کے کچھ پہلو لاکھ نزاعی صحیح لیکن قواعدِ تقطیع ان میں سے ایک نہیں ہے ۔ کل ملا کر تقطیع کے کوئی چالیس کے قریب اصول ہیں جن پر ہر خاص وعام کا اجماع رہا ہے ۔ میر سے لیکر آج تک کے تمام شعرا انہی اصولوں کو برتتے آئے ہیں ۔ موزونیت ِ شعر کا معیار یہی تقطیع کے اصول رہے ہیں ۔ کہیں ایک آدھ جگہ کسی استاد نے کسی اصول سے معمولی سا انحراف کیا بھی ہو تو وہ شاذ ہے اور وہ حجت نہیں ۔ تقطیع ملفوظی ہوتی ہے اور مکتوبی نہیں ، کچھ حرف کو گرایا جاسکتا ہے اور کچھ کو نہیں .کہاں گرایا جاسکتا ہے اور کہاں نہیں - یہ سب اصول طے شدہ اور مستند ہیں اور عروض کی چھوٹی بڑی ، قدیم و جدید تمام کتب میں واضح طور پر لکھے ہوئے ہیں ۔ ہم سب دن رات انہیں اپنی شاعری میں برت رہے ہیں ۔ شاعری سیکھنے والا سنجیدہ طالب ِ فن سب سے پہلے تقطیع کے انہی اصولوں کو سیکھتا ہے کیونکہ ان اصولوں کو اپنائے بغیر شعر کی صحیح قرات یا پڑھنت ہی ممکن نہیں ہوتی ۔ بحر کی نزاکتیں تو بہت بعد کی باتیں ہیں ۔

نوآموزوں سے تو کوئی شکوہ نہیں کہ سیکھنے کا یہ دور سبھی پر آتا ہے ۔ہاں ان کی طرف سے چیختا چلاتا ہوا یہ اعتراض کہ یہ اصول کس کتاب میں لکھے ہیں اورکس نے بنائے ہیں نسبتاً غیر سنجیدگی پر دلالت کرتا ہے ۔ لیکن میرا اصل شکوہ تو یہ ہے کہ سنجیدہ شعری حلقوں میں بھی جب اس بات پر طویل بحث ہونے لگے کہ آیا مصرع کے آخر سے ی گرائی جاسکتی ہے یا نہیں ۔ اور اگر درمیان سے گرائی جاسکتی ہے تو آخر سے کیوں نہیں ؟ کیا مصرع کو ایک متحرک حرف پر ختم کیا جا سکتا ہےیا نہیں ؟؟ تو پھر شاعری کے مستقبل پر نثری نظم میں فاتحہ پڑھ لینی چاہئے۔ بھائی تقطیع کی یہ بحث تو محض دو جملوں میں نبٹ جانی چاہیئے ۔ ان سوالات کے جواب کے لئے اصولِ تقطیع کا ایک حوالہ کافی ہونا چاہئے ۔ یعنی اگر کوئی شخص یہ پوچھے کہ الف کواگر درمیانِ مصرع سے گرایا جاسکتا ہے تو مصرع کے شروع سے کیوں نہیں اور اس کے جواب میں گول مول انداز اختیار کیا جائے تو اس سے مزید تشکیک اور ابہام ہی پیدا ہوگا ۔ آخر ایسے سوالوں کا جواب دیتے وقت اتنا دفاعی انداز اختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ایسے بنیادی سوالوں پر اپنی ذاتی رائے دینے کی ضرورت سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتی ۔ ایسےبنیادی سوالوں کا تو دو ٹوک اور صاف صاف معروضی جواب اصولِ تقطیع میں موجود ہے اور وہی جواب دینا بھی چاہیئے کہ بھئی ایسا کرنا جائز نہیں ۔ یہ اصول ہے اور سب کے لئے ہے ۔ میر و غالب بھی اس سے مستثنی نہیں ۔ بات ختم ۔ اب کوئی ان اصولوں کو مانے یا نہ مانے یہ جواب دینے والے کا مسئلہ نہیں ۔ اگر آپ گاڑی چلاتے ہیں تو ٹریفک کے قوانین کی پابندی آپ پر لازم ہوجاتی ہے خواہ آپ ان قوانین کو پسند کریں یا نہ کریں ۔ موزوں شعر کہنا ہے تو اصولِ تقطیع سے مفر ممکن نہیں خواہ آپ انہیں پسند کریں یا نہ کریں ۔ ورنہ نثری نظم کا راستہ کھلا ہے ۔ آخر اتنے سارے لوگ لکھ ہی رہے ہیں ۔

راحیل بھائی ، میری رائے میں عروض اتنی مشکل بالکل بھی نہیں ہے جتنی بنادی گئی ہے ۔ کچھ نزاعی مسائل کس علم میں نہیں ہوتے؟ عروض میں بھی ہیں ۔ لیکن ان تمام مسائل کے باوجود اردو شعری ادب کی تخلیق جاری و ساری ہے اور اردو شاعری کو دنیا کی کسی بھی شاعری کے مقابل فخر سے رکھا جاسکتا ہے ۔ ہم اپنی سہل پسندی کے سبب اگر ان اصولوں سے چھٹکارے کی بات کریں تو یہ ایک الگ مسئلہ ہے ۔
اس بات سے مین صدفیصد متفق ہوں کہ عروض کی تسہیل ضروری ہے ۔ دور ازکار اصطلاحات سے چھٹکارا بھی ضروری ہے ۔ لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے جو تفصیل طلب ہے ۔ بشرطِ فرصت اس پر عنقریب کچھ لکھنے کا ارادہ ہے ۔
راحیل بھائی ، اتنی عمدگی سے تقطیع کے اس اصول کو بیان کرنے کیلئے داد و تحسین آپ کا حق ہے ۔ آپ کا قلم بہت طاقتور ہے ۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ !!!

 
راحیل بھائی ، اتنی عمدگی سے تقطیع کے اس اصول کو بیان کرنے کیلئے داد و تحسین آپ کا حق ہے ۔ آپ کا قلم بہت طاقتور ہے ۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ !!!
بہت بہت شکریہ، بھائی۔
ظہیر بھائی کی وقیع آرا کے بعد دو باتیں کم از کم مجھ پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہیں۔
ایک تو یہ کہ مجھ جیسے لوگوں کے لیے ان کا وجود نعمتِ غیرمترقبہ سے کم نہیں۔ ہمیں ان سے تمتع کی ضرورت ہے، اس سے پہلے کہ مشرقی علوم کا یہ دریا جس کا رخ وقت نے مغرب کی طرف موڑ دیا ہے، امریکہ کے میدانوں میں بکھر کر پایاب ہو جائے۔
دوسری بات یہ کہ مجھ میں اور میرے شفیق برادرِ بزرگ میں مزاج کی ایک بڑی خلیج موجود ہے۔ بھائی غالباً روایت کو درایت پر ترجیح دیتے ہیں اور اکابرینِ سلف کی باتوں کو اس احترام اور عقیدت کا سزاوار گردانتے ہیں جس کا متحمل مجھ جیسا بدعتی اور متشکک نہیں ہو سکتا۔ میری طبیعت ہنوز تفہیم کو تسلیم پر فائق رکھتی ہے اور حکم ماننے سے تب تک گریز کرتی ہے جب تک اس کی مصلحت واضح نہ ہو جائے۔
آخر ایسے سوالوں کا جواب دیتے وقت اتنا دفاعی انداز اختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ایسے بنیادی سوالوں پر اپنی ذاتی رائے دینے کی ضرورت سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتی ۔ ایسےبنیادی سوالوں کا تو دو ٹوک اور صاف صاف معروضی جواب اصولِ تقطیع میں موجود ہے اور وہی جواب دینا بھی چاہیئے کہ بھئی ایسا کرنا جائز نہیں ۔ یہ اصول ہے اور سب کے لئے ہے ۔ میر و غالب بھی اس سے مستثنی نہیں ۔ بات ختم ۔ اب کوئی ان اصولوں کو مانے یا نہ مانے یہ جواب دینے والے کا مسئلہ نہیں ۔ اگر آپ گاڑی چلاتے ہیں تو ٹریفک کے قوانین کی پابندی آپ پر لازم ہوجاتی ہے خواہ آپ ان قوانین کو پسند کریں یا نہ کریں ۔
ٹریفک کے قوانین کی پابندی واقعی سڑک پر نکلتے ہی لازم ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر آپ ان قوانین کی مصلحت اور فوائد کو کسی حد تک سمجھ جائیں تو یہ پابندی سہل بھی ہو جاتی ہے۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ پابندی معلوم ہی نہیں ہوتی اور آپ کی اپنی بقا اور خیر اس سے مشروط ہونے کا علم آپ کو خود ابھارنے لگتا ہے کہ آپ بغیر سزا کے خوف کے اپنی منشا پر ایسا ہی کریں جیسا قانون کا تقاضا ہے۔ آخر اپنا فائدہ کون نہیں چاہتا؟
یہ تو عام باتیں ہیں۔ ہم جیسے خرد پرستوں نے تو مذہب کو بھی نہیں بخشا۔ لیکن یہ مذہبی احکامات پر ایسے تابڑ توڑ حملے ہی تھے جن کے باعث علمِ کلام وجود میں آیا۔ متکلمین نے دین کے اعتقادات اور شعائر میں چھپے ہوئے فائدے اور خوبیاں نکال نکال کر دکھانی شروع کیں۔ اس سے جہاں ہمارے سینوں کی آگ ٹھنڈی پڑ گئی وہاں اور بہت سوں کو بھی فائدہ پہنچا۔ جناب ابراہیمّ نے بھی تو اپنے رب سے یہ کہہ کر حجت طلب کی تھی کہ میں مانتا ضرور ہوں مگر اطمینانِ قلب کے لیے مجھے اس سے بڑھ کر چاہیے۔
ہر سچا علم ایک افادہ رکھتا ہے۔ اور عالم تب تک محض مبلغ ہوتا ہے جب تک وہ اس افادے سے آگاہ نہیں ہوتا۔ میں عروض کا مبلغ نہیں بننا چاہتا۔ بلکہ مجھے یقین ہے کہ اس کا ہر اصول کسی نہ کسی فائدے اور مصلحت کے تحت مرتب کیا گیا ہے۔ اس فائدے کو معلوم کرنا چاہیے تاکہ میرے دل کو اطمینان اور یقین کو استحکام حاصل ہو۔ ورنہ زبردستی کی حکم رانی جلد مجھے عروض سے متنفر کر دے گی۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ظہیر بھائی جو قدم علمائے عروض کی اتباع میں اٹھاتے ہیں، میں کوشش کرتا ہوں کہ وہی قدم اپنی عقل اور یقین کی روشنی میں اٹھاؤں۔ اصول ظہیر بھائی خوب جانتے ہیں:
تقطیع ملفوظی ہوتی ہے اور مکتوبی نہیں
اسی اصول کے تحت میں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ تقطیع کا زیرِ بحث رویہ اپنانے میں فائدے سے زیادہ نقصان ہے۔ کیونکہ جائز و ناجائز کا حکم لگانے سے نوجوانوں کی سرکش عقل قابو میں نہیں آتی۔
روضے کی جالی تھام کے روتے رہیں گے ہم (مؤلف)
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
اس میں جالی کو جالِ (لام کی زیر کے ساتھ) قیاس کر لیا گیا ہے۔ اس طرح بولا جا سکتا ہے اور بولا جاتا ہے۔ ہم عام بول چال میں بھی جالی کی 'ی' کا اشباع بعض دفعہ نہیں کرتے بلکہ اس کو نہایت مختصر بولتے ہیں۔ لیکن یہ تبھی ہوتا ہے جب جالی کا لفظ ہمارے جملے کے درمیان آئے۔ اسی تلفظ کا فائدہ ہم نے یہاں اٹھایا ہے اور 'ی' گرا کر لام کو زیر کے ساتھ بولتے ہوئے اگلے لفظ سے ملا دیا ہے۔
اب بات یہ ہے کہ ایسا صرف جملے یا مصرعے کے درمیان میں ہو سکتا ہے۔ مصرعے کے آخر میں ممکن نہیں کہ آپ جالی کا لفظ لائیں اور لام کو ساکن باندھ سکیں۔ یعنی جالی کو جال کے وزن پر قیاس کر لیں۔ مثلاً
روئیں گے ہم تھام کر روضے کی جالی (مؤلف)
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن
کیا اس مصرعے کو بولتے ہوئے آپ جالی کو 'جال' ادا کر سکتے ہیں؟ کوشش کر کے دیکھیے۔
ایک نئی بات بھی مجھے معلوم ہوئی ہے۔
کل ملا کر تقطیع کے کوئی چالیس کے قریب اصول ہیں جن پر ہر خاص وعام کا اجماع رہا ہے ۔
میری بدقسمتی کہ میں نے عروض پر بحر الفصاحت کے علاوہ کوئی اور مستند کتاب غور سے نہیں پڑھی۔ میں بیتاب ہوں کہ بھائی ان اصولوں کو مفصل طور پر بیان فرمائیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان اصولوں کی مصلحت اور مفاد بھی تدبر و تامل سے معلوم کیا جا سکے گا۔ پھر جب ان مصالح و مفادات کی روشنی میں اصولوں پر بات کی جائے گی تو ان کی پیروی پابندی نہین بلکہ عین اقتضائے فطرت معلوم ہو گی۔
اس بات سے مین صدفیصد متفق ہوں کہ عروض کی تسہیل ضروری ہے ۔ دور ازکار اصطلاحات سے چھٹکارا بھی ضروری ہے ۔ لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے جو تفصیل طلب ہے ۔ بشرطِ فرصت اس پر عنقریب کچھ لکھنے کا ارادہ ہے ۔
یہ بہت اچھی بات ہو گی۔ مجھے یقین ہے کہ آپ تسہیل میں وہ خطا نہیں کھائیں گے جو اکثر معاصر عروضیوں نے کھائی ہے۔
اگر آپ جائزہ لیں تو عروض پر آج کل چھپنے والی کتابوں میں آسانی کے نام پر بہت سی اصطلاحات سے پیچھا تو چھڑا لیا گیا ہے مگر ان اصطلاحات کے ترک سے مہارتِ تامہ کے خواہش مندوں کے لیے مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ علما نے عموماً جو اصطلاحات مقرر کی ہیں وہ بامقصد ہیں اور اس لیے رائج ہوئی ہیں کہ ان کے بغیر فنِ عروض کی نزاکتوں اور باریکیوں کا ابلاغ ممکن نہیں۔ مثال کے طور پر حروفِ قافیہ کی جو قسمیں مقرر کی گئی ہیں اور ان کے نام رکھے گئے ہیں، وہ مبتدی کے لیے تو یقیناً تکلیفِ مالایطاق ہیں لیکن جویندگانِ کمال کے لیے بڑی نعمت ہیں۔ اگر اصطلاحات محکم نہ ہوتیں تو سیکھنے کا عمل لازماً ابہام یا پھر طوالت کا شکار ہو جاتا اور نزاعات بھی اس سے کہیں زیادہ ہوتے جتنے کہ اب ہیں۔
میری خواہش پوچھیے تو وہ اصل میں صرف اس قدر ہے کہ اردو کا ایک اپنا نظامِ عروض ہونا چاہیے جو عربی، فارسی، ہندی اور انگریزی وغیرہ زبانوں سے مناسب طور پر استفادہ کرتے ہوئے تشکیل دیا جائے۔ یہ نظام ان مسائل سے صرفِ نظر کرے جن کا اردو سے تعلق نہیں اور ان مسائل کے بہتر حل پیش کرے جو اردو شعرا کو پیش آ سکتے ہیں۔ میں مکرر کہوں گا کہ یہ کوشش مشاورت کی فضا میں ہو تو بہتر ہے۔ مل کر کیے جانے والے کام میں زیادہ سے زیادہ مسائل، زیادہ سے زیادہ تفہیمات و تعبیرات، زیادہ سے زیادہ حل اور زیادہ سے زیادہ سہولتیں سامنے آئیں گی۔ اگر مشترکہ کوشش بوجوہ ناممکن بھی ہو تو اچھی بات یہ ہو گی کہ فردِ واحد کے کام کو محاکمے کے لیے دیانت دار اور مخلص علما کے سپرد ایک دفعہ ضرور کیا جائے۔ لیکن اردو اور اہلِ اردو کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے شاید میرے لیے اپنی اس خواہش کو خواب کہنا زیادہ مناسب ہو گا! :)
 
Top