تسنن، تقدس اور تصنع

تسنن کے لغوی معانی کسی راہ پر باقاعدہ چلنے کے ہیں اور اصطلاحی میں سنتِ نبویﷺ کی پیروی کرنے کے۔ دورانِ فلک کے طفیل یہ لفظ تشیع کے مقابل آ گیا ہے اور ہمارے سنی بھائی اس پر اپنا حقِ ملکیت خیال کرنے لگے ہیں۔ بہرحال، ہم اس لفظ کو اس مضمون میں ہر قسم کے فرقہ وارانہ مضمرات سے ہٹ کر محض اتباعِ سنتِ رسولﷺ کے مفہوم میں استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ قوموں کے زوال کا دور تقدس سے عبارت ہوتا ہے اور عروج کا بےباکی سے۔ممکن ہے عامۃ المسلمین کو یہ بات نہایت تعجب خیز لگے مگر ہمارے خیال میں حدیثِ قرطاس ان کی اس خوش گمانی کا کافی حد تک ازالہ کر سکتی ہے۔ اس مشہور روایت کے مطابق نبیِ اکرمﷺ کے وصال کے وقت صحابہ میں اس امر میں اختلاف پیدا ہو گیا تھا کہ رسالت مآب کا حکم مانا جائے یا نہیں۔ بعض کا خیال تھا کہ کہ امتثالِ امر ضروری ہے جبکہ بعض، جن میں حضرت عمرؓ فاروق سرِ فہرست تھے، سمجھتے تھے کہ شدتِ مرض کے سبب حضورﷺ کا حکم لائقِِ اعتنا نہیں۔
بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہی عمرؓ فاروق اپنی خلافت کے دور میں منبر پر کھڑے ہوئے تو ایک شخص نے ان کے کپڑوں پر سوال کیا اور ایسی جرات سے کیا کہ جب تک جواب نہ ملتا اگلی بات سننے پر راضی نہ ہوتا تھا۔ پیر کے قدموں میں سر ٹیک دینے والی اور حکمران کے سامنے گنگ ہو جانے والی قوم کے لیے عملی طور پر اس جرات سے زیادہ ناقابلِ تصور شے کوئی اور نہیں۔
خواتین کے حقوق کے حوالے سے تو جو اقدامات اسلام نے کیے تھے ان کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ باقی حوالے تو شاید بہت ہی زیادہ گراں گزریں مگر ثابت بن قیسؓ کی بیگم کی طلاق آنکھیں کھول دینے کو کافی ہو سکتی ہے۔ موصوفہ نے آں حضرتﷺ کے حضور صاف کہہ دیا تھا کہ ان کے شوہر میں کوئی عیب نہیں مگر وہ انھیں پسند نہیں کرتیں اور آپﷺ نے طلاق کا حکم دے دیا تھا۔ یہ معاشرہ تھا عرب کا جس میں بیٹیاں پیدا ہوتے ہی مار ڈالی جاتی تھیں۔ یہ اعتراض کرنے والی ایک عورت تھی جسے بھیڑ بکری سے زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہوا کرتی تھی۔ اور یہ جرات دکھائی گئی تھی اس شخص کے سامنے جس سے زیادہ واجب الاحترام نہ کوئی ہوا ہے اور نہ ہو گا۔
صحت مند تمدن کا ایک لازمہ زبان و بیان کو غیرضروری تقدیس سے پاک کرنا بھی ہے۔ اسلام نے اس سلسلے میں جو اعتدال روا رکھا تھا اور کلام میں جس بےساختگی، جرات اور سادگی کو رواج دیا تھا وہ مترجمین اور مفسرین کی عنایت سے اب چشمِ تصور سے بھی اوجھل ہو گیا ہے۔ ہمارے وہ فضلا جو اردو کے محاوروں کو اسلامیانے پر تلے ہوئے ہیں شاید اس بےلاگ طرزِ گفتگو سے واقف ہی نہیں رہے جو قرآن اور اہلِ قرآن نے اپنا رکھا تھا۔ ملاحظہ ہو سورۂِ آلِ عمران کی ۵۴ ویں آیت:
وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ
اور اس کے بعد "مکر" کے معانی کسی بھی مستند عربی لغت میں دیکھ لیجیے۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ہمارا آج کا "مودب" اسلام اپنی اصل سے کس قدر دور جا پڑا ہے۔ مثالیں تو بےشمار ہیں مگر اور دوں گا تو شاید مجھے بھائیوں کی فاتحہ بھی نصیب نہ ہو!
میں سمجھتا ہوں کہ گو میں نے خوفِ فسادِ خلق سے حوالے دینے میں انتہائی احتیاط سے کام لیا ہے مگر پھر بھی انصاف کی نظر رکھنے والے احباب کے لیے آزادی اور بےباکی کی اس روح تک پہنچنا دشوار نہیں ہو گا جو اسلام نے مصنوعی آداب معاشرت کے گلتے ہوئے بدن میں پھونک دی تھی۔ اسلام کا دینِ فطرت ہونا دراصل اسی نکتے میں پوشیدہ ہے کہ اس نے انسان کو انسان ہونے کی ترغیب دی، فرشتہ ہونے کی نہیں۔
میرا خیال ہے کہ یہ فرشتگی اور انسانیت کے درمیان فرق بھی ایک موٹی سی مثال سے واضح کر ہی دوں۔ اپنی فلسفہ زدگی کے دور میں بڑے تدبر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ فطرت انسان کا محاکمہ اس کی خامیوں نہیں بلکہ خوبیوں کی بنا پر کرتی ہے۔ روایاتِ اسلام سے بعد میں میرے اس خیال کی تائید بھی ہو گئی۔ ابو محجنؓ ثقفی ایک مشہور شاعر اور بہادر تھے۔ موصوف امتناعِ شراب کے حکم کے بعد بھی شراب نوشی سے مجتنب نہ ہوئے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرتِ عمرؓ نے ان پر سات یا آٹھ مرتبہ حد جاری کی مگر سزا بھگت لیتے تھے، باز نہ آتے تھے۔ ان کے اشعار مشہور ہیں جن میں انھوں نے اپنے بیٹے کو اپنی لاش انگور کی بیلوں کے پاس دفنانے کی وصیت کی ہے۔
جنگِ قادسیہ کے موقع پر سعد بن ابی وقاصؓ کی کمان میں جو لشکر نکلا تھا اس میں شامل تھے۔ وہاں بھی پیا کیے اور ماخوذ ہو گئے۔ سپہ سالار نے زنجیروں میں جکڑوا دیا۔ اب زندان خانے سے بیٹھے لڑائی دیکھ رہے تھے کہ جوش آیا۔ سپہ سالار کی بیگم سے التجا کی کہ مجھے چپکے سے آزاد کر دو۔ اگر شہید نہ ہوا تو واپس آ کر خود بیڑیاں پہن لوں گا۔ انھیں ان کی بےقراری دیکھ کر رحم آ گیا۔ انھوں نے زنجیریں توڑ ڈالیں اور ابو محجنؓ نے میدان میں پہنچ کر وہ جوہر دکھائے کہ سعد بن ابی وقاصؓ ششدر رہ گئے۔ انھیں شبہ پڑتا تھا کہ یہ ابو محجنؓ ہی کے رنگ ڈھنگ ہیں پر یہ سوچ کر رہ جاتے تھے کہ وہ تو قید ہیں۔ بعد کو معاملے کی خبر ہوئی تو فوراً یہ کہتے ہوئے آزاد کر دیا کہ مسلمانوں کے ایسے جاں نثار پر میں حد جاری نہیں کروں گا۔ ابومحجنؓ بھی غیرت مند تھے۔ انھوں نے بھی تب قسم کھائی کہ آج کے بعد شراب نہ پیوں گا۔
دو باتیں اس قصے میں ایسی ہیں جو غور کیا جائے تو انتہائی چونکا دینے والی ہیں۔ ایک تو یہ کہ جناب ابو محجنؓ جیسے لوگ قرونِ اولیٰ کے اسلامی معاشرے کا نمایاں حصہ تھے۔ اور دوسری یہ کہ حضرت سعدؓ جیسے جلیل القدر صحابی نے انھیں ایک ایسی رعایت دے دی تھی جو شریعت کے خلاف تھی۔ امید ہے میں یہ واضح کر سکا ہوں گا کہ ٹھیٹھ اسلام انسان سے فرشتہ ہو جانے کا تقاضا نہیں کرتا۔
فی زمانہ معاملہ یہ ہے کہ اہلِ اسلام اور بالخصوص مسلمانانِ پاک و ہند تمدنی تصنع کی کم و بیش اسی منزل پر پہنچ گئے ہیں جس پر ظہورِ اسلام سے قبل عرب کا معاشرہ موجود تھا۔ تمدنی تصنع سے میری مراد وہ تمام تر غیرفطری سماجی رویے اور معمولات ہیں جن کا شریعت یا فطرتِ انسانی سے دور دور کا بھی تعلق نہیں۔ اس میں تقدس اس سطح تک پہنچ جاتا ہے کہ شریعت پوجا پاٹھ اور حقیقت دیومالا معلوم ہونے لگتی ہے۔
میرا خیال ہے کہ اسلام میں اس تصنع کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب یہ جزیرۃ العرب سے نکل کر عجم پر غالب آیا تھا۔ مفتوحین پر اسلام کی ایسی دھاک بیٹھ گئی تھی کہ وہ ریاستی سے زیادہ نفسیاتی غلامی کا شکار ہو گئے تھے۔ بالکل اسی طرح جیسے آج ہم ذہنی طور پر مغرب کے سحر میں جکڑے جا چکے ہیں۔ ایسی صورت میں مفتوح خود کو فاتح سے بھی زیادہ فاتح کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرنے لگتا ہے جس سے تصنع کی بنا پڑتی ہے۔ آپ کو اپنے اردگرد بہت سے ایسے نوجوان مل جائیں گے جن کی مثلاً مغربی موسیقی پر نظر ایک عام مغربی شخص سے کہیں زیادہ گہری ہو گی۔ خود مجھے یاد ہے کہ بیس اکیس برس کی عمر میں میری ملاقات ایک جرمن شخص سے ہوئی تو میں نے اس سے پوچھا تھا، "تو تم نطشے کے ملک سے ہو؟" اور پھر نطشے کی وہ مدح سرائیاں شروع کی تھیں کہ وہ شخص حیران رہ گیا۔ بالآخر اس نے کہا، "میں نطشے کو زیادہ نہیں جانتا۔" اور مجھے یقین نہیں آیا۔ آتا بھی کیسے؟ میں تو اپنے اس علم کے زور پر بات کر رہا تھا جس کے مطابق ہٹلر کی قوم پرستی کے پیچھے نطشے کی انانیت کا ہاتھ تھا اور جو بتاتا تھا کہ جرمن ہٹلر کے فسوں سے ابھی تک نہیں نکلے۔
اسلام بھی جب اپنے مرکز سے نکل کر ادھر ادھر پھیلنا شروع ہوا تو مغلوب اقوام اسی مرعوبیت کا شکار ہو گئیں۔ اس کا نتیجہ ایک ایسی انتہا پسندی اور ظاہر پرستی کی صورت میں نکلا جس کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا۔ مثلاً زہد و ورع کو اس کمال پر پہنچا دیا گیا کہ شہر میں بکری چوری ہو جائے تو حرام کے خدشے سے بکری کا گوشت کھانا ہی ترک کر دیا جائے۔ ان بزرگوں کے خلوص میں کلام نہیں مگر سوال یہ ہے کہ آں حضرتﷺ کے دور میں تو اردگرد سودخوار یہودی بھی بستے تھے اور چیرہ دست کفار بھی۔ آپ نے تو کبھی ایسے کسی گمان پر کوئی شے کھانی ترک نہ فرمائی تھی۔ میں نے خود اپنے والد کو دیکھا کہ وضو کے بعد پانی کے چھینٹوں کے بارے میں بھی غیرمعمولی احتیاط سے کام لیتے تھے۔ اور میں حیران ہو کر سوچتا تھا کہ کیا حضرت محمدﷺ بھی نماز کو جاتے ہوئے یونہی قدم پھونک پھونک کر رکھتے ہوں گے۔ میرے والد کے ہاں تو خیر اس قسم کے سوالات کی اجازت تھی مگر اس تقدس کا کیا کیجیے جو اب تصنع کا نگران بن کر بیٹھ گیا ہے اور کسی بےجا روایت پر انگلی اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا۔
اب اسلام کا یہ مصنوعی تاثر اس حد تک جم گیا ہے کہ ارضی حقائق تو ایک طرف رہے، خود اصل اسلام بھی سامنے لایا جائے تو یار لوگوں کو غیرت آ جائے گی۔ مجھے پچھلے کچھ عرصے میں کچھ ایسے تجربات ہوئے ہیں جن سے مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ اہلِ اسلام کے سوادِ اعظم کی حیا اور تہذیب اس درجے پر پہنچ چکی ہے کہ اب شاید ان کے لیے گھروں میں قرآن پڑھنا بھی شاید ممکن نہ رہا ہو۔ احادیث کے مجموعے تو خیر ایسے لاتعداد حقائق کے بیان پر مبنی ہیں جن سے ایک سلیم الفطرت شخص کو تو باک نہیں مگر ہمارے تہذیب یافتہ احباب کو اس سے دل کا دورہ پڑنا عین قرینِ قیاس ہے۔
جوشؔ ملیح آبادی نے یادوں کی برات میں بہت سے ایسے معاملات کے بارے میں یہ کہنے پر اکتفا کیا ہے کہ میری شرمیلی قوم اس کی تاب نہیں لا سکتی۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ جوشؔ کے وقت تک حالات پھر بھی بہت سازگار تھے۔ یہ شرمیلی قوم اب چھوئی موئی بن چکی ہے جس سے آگے صرف "موئی" ہی کا مقامِ محمود رہ گیا ہے۔ جوش نے تو بڑی سہولت سے بہت سے ایسے معاملات نقل کیے ہیں جو اس وقت تک قابلِ مواخذہ نہ سمجھے جاتے تھے۔ شراب نوشی اس کی بین مثال ہے۔
پرانا عہد اور بھی زیادہ آزاد معلوم ہوتا ہے۔ اساتذہ کے دواوین میں ایسے اشعار عموماً مل جاتے ہیں جو آج پڑھنے بھی یقیناً معیوب خیال کیے جائیں گے۔ نثر کا معاملہ تو پھر الگ ہی ہے۔ محمد علی صاحب رودولوی کا ہما خانم کے نام وہ خط اٹھا کر دیکھ لیجیے جس میں انھوں نے خدا سے اپنے تعلق کا ذکر کیا ہے۔ اگر کوئی آج ایسی جرات کرے تو علما کے فتویٰ سے پہلے ہی، جو بہرحال اپنی جگہ یقینی ہے، عوام کا انگوٹھا اس کے نرخرے پر ہو گا۔ حد یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے اقبال کا مصرع "مشکلیں امتِ مرحوم کی آساں کر دے" نقل کرنے پر ایک صاحب میری جان کے لاگو ہو گئے تھے کہ امت کو مرحوم کہنا توہین کے زمرے میں آتا ہے۔
مجھے کہنے دیجیے کہ اسلام کے اصل اخلاق اپنے جوہر میں کم و بیش وہی تھے جو آج مغرب کے ہیں۔ اپنی فطرتیت، سادگی اور برجستگی کے لحاظ سے ہمارے اسلاف کی معاشرت اور آداب ہرگز ہرگز وہ نہ تھے جیسے فی زمانہ ہم نے گھڑ رکھے ہیں۔ مغرب میں عریانیت اور فحاشی کا ڈھنڈورا ہمارے ہاں بہت پیٹا جاتا ہے مگر یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ مغرب کے اخلاقی نظام کا اساسی حصہ نہیں ہے بلکہ اس کے خلاف اچھا خاصا ردِ عمل خود وہیں سے اٹھا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آزادئِ فکر و عمل کو غیرضروری طور پر یقینی بنانے کے خبط نے اس ردِ عمل کو بارآور نہیں ہونے دیا۔ لیکن اس معاملے سے قطعِ نظر کر کے دیکھا جائے تو اپنی طرزِ معاشرت میں جو اصلیت اور جرات اہلِ مغرب نے اپنائی ہے وہ درحقیقت عیناً وہی ہے جس کی اسلام نے نہ صرف حمایت کی تھی بلکہ اسے لازم قرار دیا تھا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تسنن فی الحقیقت اس تقدس اور تصنع سے کوئی علاقہ نہیں رکھتا جسے ہم نے بحیثیت مسلمانوں کے خود پر لازم کر رکھا ہے۔ ہمارے اس بناوٹی اور غیرفطرتی سماج میں بول چال سے لے کر مرد و زن کے تعلقات تک اکثر معاملات ایسے ہیں جن میں عجمی اور بالخصوص ہندی روایات کا دخل ہے۔ جس قسم کی رسوم کا قلع قمع رسول اللہ ﷺ نے عرب میں فرمانا چاہا تھا، ویسی ہی ہم نے ان کے نام پر جاری کر دی ہیں اور لطیفہ یہ ہے کہ اسے عین سعادت مندی خیال کرتے ہیں۔ ایک شعر یاد آ رہا ہے۔ معلوم نہیں کس کا ہے مگر اس گفتگو کے اختتام پر شاید مناسب رہے گا۔
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغِ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بو لہبی​
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
دو یا دو سے زیادہ تہذیبوں کے "فیوژن" سے ایسا تو ہونا ہی تھا۔ گوروں کو بھی تو یہی اعتراض ہے کہ سکندرِ یونانی نے عجم فتح کر کے عجمی تہذیب کے جو راستے کھولے تھے وہ یونانی فکر کو لے ڈوبے۔ عرب اپنی ہیت میں، بُود و باش میں تہذیب و تمدن میں عجمیوں سے بالکل ہی الگ تھے۔ ریگستانوں کے باشندوں نے موسمِ بہار میں بھی اصل گُل بُوٹے شاید ہی دیکھے ہوں اور ایرانی خزاں اور جاڑوں میں بھی اپنے قالینوں پر سونے چاندی کے گُل بوٹے بنا کر اپنے در و بام سجا لیتے تھے۔ اس سے عجمی یا ایرانی و ملحقہ علاقوں کی تہذیب کی قوت بھی واضح ہوتی ہے۔ نہ صرف یونانیوں کی فکر کو اپنے رنگ میں رنگا جس سے بعد میں عیسائی بھی متاثر ہوئے بلکہ مسلمان بھی پکار اُٹھے کہ ع - بُتانِ عجم کے پجاری تمام۔
 

اکمل زیدی

محفلین
راحیل صاحب ...صرف زبردست کی ریٹنگ سے کچھ تشفی نہیں ہوی اس لئے محترمہ جاسمین کے سٹائل کو کاپی کرتے ہوئے یہاں کہونگا کے بہت سارے زبر کے ساتھ زبردست . .. .
 
قبلہ باعتبار لفاظی و دلائل دیکھا جائے تو خوبصورت تحریر مگر کچھ زمرہ جات ایسے ہیں کہ مکمل اتفاق ممکن نہیں۔ بے جا ادب و احترام کے حوالے سے ممتاز مفتی صاحب کی تلاش کے پہلے باب کا حوالہ تو خود فقیر اکثر مواقع پر دیتا رہتا ہے۔ لیکن کچھ جگہیں ایسی ہیں جہاں حکمتا ایسا کرنا ناگزیر ٹھہرتا ہے۔ ایک عالم دین کا ایک جملہ تھا "پہلے لوگوں میں ایمان تھا"۔ آپ نے ارد گرد غور فرمائیں تو ایک چیز نظر آئے گی جسے میں نے اپنی زندگی میں شدت سے محسوس کیا ہے، اسے اعتبار کہتے ہیں۔ ہماری قوم میں سے اعتبار ختم ہو گیا ہے سوال کیوں اور کیسے؟ جی "اب ہم میں ایمان نہیں رہا" جن صحابی کے شراب پینے کی مثال آپ نے ارشاد فرمائي اسی یہ نکتہ قابل غور ہے۔ اجازت دینے والے کو بھی دوسرے پہ اعتبار تھا۔ کیوں کہ ایمان تھا۔ ایک اور مثال ملاحظہ ہو۔ پہلے اولیاء اللہ کثرت سے پائے جاتے اور مل بھی جاتے تھے۔ اب کیوں نہیں ملتے؟ کوئي کامل شخص ڈھونڈے سے ہی ملے؟ کیا ختم ہوگئے ہیں؟ نہیں ختم نہیں ہوئے۔ ہمارا اب وہ ایمان ہی نہیں رہا۔ ہاں بات اگر میں سمجھا نہیں پایا تو ایک مثال جو بڑے بھائي نے پچھلے دنوں ارشاد فرمائي، گاؤں میں ہمارے محلے میں لڑکیوں کا واحد ہائي سکول تھا۔ ہمارا گاؤں کم قصبہ کی لڑکیوں کی کثیر تعداد جس کا میں خود بھی گواہ ہوں کہ پیدل بغیر کسی سیکیورٹی آفیسر کے آتی تھیں۔ گرمیوں کی دوپہر کے چھوٹے شہروں، دیہاتوں اور قصبوں میں احوال سے آپ بخوبی واقف ہوں گے کہ ہو کا عالم ہوتا ہے۔ تب بھی موصوفات علاقہ بے خطر اس آتش کدے میں چلتی پھرتی رہیں۔ اب عالم یہ ہے کہ گاڑیاں لگوا دی گئی ہیں جو گھر کے دروازے سے اٹھا، سکول کے دروازے پر اتار آتی ہیں یا گھر کا کوئي سیکیورٹی افسر چھوڑ کے آتا ہے، تو بھی بےحیائي کے بادل منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ وجہ آپ کا لوگوں پہ اعتبار نہیں۔ لوگوں پہ اعتبار کیوں نہیں؟ ایمان نہیں۔ ایمان صرف اللہ رسول کا نام لینا نہیں ہے۔ یہ یقین کی ایسی کیفیت ہے جو طرز حیات میں نظر آتی ہے۔ مزید اپنی ذہنی معذوری کے سبب خیالات اور الفاظ نے ساتھ دینا چھوڑ دیا ہے ورنہ لکھ پاتا۔۔۔۔۔
 

اکمل زیدی

محفلین
اسلام دین فطرت اس لیے نہیں کہ جس کا جب جی چاہے جیسے چاہے اسے موڑ لے۔ یہ اس لیے دین فطرت کے اس کے اصول و قوانین اور ایسے آفاقی ہیں جو مختلف العلاقہ و حالات و واقعات کو اپنے اندر سمو لیتے ہیں۔ قوانین وہی رہتے ہیں لیکن وہ قوانین آپ کو آپ کے مسئلہ کے مطابق گنجائش دیتے ہیں۔ عربی مقولہ ہے
عوام کالانعام۔ اس دور میں حالت یہ ہو چکی ہے کہ ہم کسی سے کسی بات کا حوالہ تک نہیں مانگتے۔ کسی بات کی کوئي تحقیق ہی نہیں ہے۔ ہمارے مفتی اعظم گوگل علیہ السلام حوالہ اور عزت مآب ویکیپیڈیا رحمۃ اللہ علیہ سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تحقیق اس قوم سے نکل چکی ہے۔ ٹی وی کی خبر معتبر ہے۔ جبکہ اسلام میں تحقیق، حوالہ اور سند کے بغیر سنی سنائی بات مبنی بر جھوٹ ہے۔ بخاری شریف کے مقدمہ میں امام بخاری نے یہ حدیث پاک نقل فرمائی جس کا مفہوم ہے "کسی شخص کے جھوٹا ہونے کےلیے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات کو آگے نقل کر دے"۔ جب چوپائے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے رہیں گے۔ اور اپنے معیار بدل لیں گے تو پھر وہی حال ہونا ہے۔ وگرنہ پہلے تو کبھی کسی کو ایسا مسئلہ نہ رہا ہے۔۔۔۔۔۔ ترجیحات اور اطوار بدلے جائیں۔۔۔۔۔۔
 

ربیع م

محفلین
اسلام دین فطرت اس لیے نہیں کہ جس کا جب جی چاہے جیسے چاہے اسے موڑ لے۔ یہ اس لیے دین فطرت کے اس کے اصول و قوانین اور ایسے آفاقی ہیں جو مختلف العلاقہ و حالات و واقعات کو اپنے اندر سمو لیتے ہیں۔ قوانین وہی رہتے ہیں لیکن وہ قوانین آپ کو آپ کے مسئلہ کے مطابق گنجائش دیتے ہیں۔ عربی مقولہ ہے
عوام کالانعام۔ اس دور میں حالت یہ ہو چکی ہے کہ ہم کسی سے کسی بات کا حوالہ تک نہیں مانگتے۔ کسی بات کی کوئي تحقیق ہی نہیں ہے۔ ہمارے مفتی اعظم گوگل علیہ السلام حوالہ اور عزت مآب ویکیپیڈیا رحمۃ اللہ علیہ سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تحقیق اس قوم سے نکل چکی ہے۔ ٹی وی کی خبر معتبر ہے۔ جبکہ اسلام میں تحقیق، حوالہ اور سند کے بغیر سنی سنائی بات مبنی بر جھوٹ ہے۔ بخاری شریف کے مقدمہ میں امام بخاری نے یہ حدیث پاک نقل فرمائی جس کا مفہوم ہے "کسی شخص کے جھوٹا ہونے کےلیے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات کو آگے نقل کر دے"۔ جب چوپائے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے رہیں گے۔ اور اپنے معیار بدل لیں گے تو پھر وہی حال ہونا ہے۔ وگرنہ پہلے تو کبھی کسی کو ایسا مسئلہ نہ رہا ہے۔۔۔۔۔۔ ترجیحات اور اطوار بدلے جائیں۔۔۔۔۔۔
زبردست۔پسند، متفق،۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔
 

سید عمران

محفلین
ہمارے نفس کی نظر تساہل پسندی اور آزادی کی طرف فورا جاتی ہے۔ جس طرح زیادہ پابندیاں گھٹن کا باعث بنتی ہیں اور زیادہ گھٹن بغاوت کا۔ اسی طرح حد سے زیادہ آزادی بھی بغاوت کی طرف لے جاتی ہے۔ لہٰذا بہترین راستہ ان دونوں کے درمیان اعتدال پسندی کا ہے۔ اسلام کے بے تحاشہ محاسن میں سے ایک حسن اعتدال پسندی بھی ہے:
و کذلک جعلناکم امۃ وسطا ۔ وسطا کی ایک تفسیر اعتدال بھی ہے۔ یعنی تم کو معتدل امت بنایا گیا ہے ۔
اسلام نے جو اصول پیش کیے وہ عرب کے آزاد و وحشیانہ معاشرے اور عجم کے غلامانہ اور چاپلوس معاشرے سے یکسر مختلف ہیں۔
راحیل فاروق صاحب کی یہ تحریر چند تنگ نظروں کے لیے تو شاید سود مند ثابت ہو لیکن ان کروڑوں آزاد پسند مسلمانوں کے لیے اس میں ایسا کیا ہے جو ایمان کے علاوہ اسلام کے چار بنیادی ارکان سے بھی آزاد ہیں، واجبات کی مثلا خواتین کے پردے اور مردوں کے ٹخنے کھولنے اور ڈاڑھی رکھنے کی تاویل کرتے ہیں، سنن مثلا ٹوپی پہننے، مسواک کرنے کا مذاق اڑاتے ہیں ، رہے مستحبات تو ان کو کسی گنتی میں نہیں لاتے۔اور اخلاقیات کا باب تو بالکل بند کردیا ہے۔

@ محمود حسن جماعتی صاحب کی اس بات کا جواب کہ اب اولیاء نظر نہیں آتے یہ ہے کہ کچھ مسلمان تو مارے باندھے نماز روزہ جیسے فرائض اور واجبات ادا کرلیتے ہیں لیکن سنن اور مستحبات کو تنگی کا باعث سمجھتے ہیں حالاں کہ اولیاء بننے کی راہ، اللہ کا پیارا بننے کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں فرمادیا ہے :
قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ
اے نبی کہہ دیجیے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ خود تم سے محبت کرنے لگے گا یعنی تم اللہ کے پیارے بن جاؤ گے۔
آج کل کے دور میں گو کم ہی سہی مگر ایسے پاک باز لوگ موجود ہیں جو اتباع سنت، اخلاق کی بلندی، مخلوق پر شفقت کی ایسی مثال ہیں جو قابل اتباع ہیں۔ اسلام ایسی ہستیوں سے کبھی خالی نہیں ہوسکتا کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایسے مقدس وجود تاقیامت رہیں گے:
اتقوا اللہ و کونوا مع الصادقین
اللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ رہو۔
چوں کہ اللہ نے صادقین کے ساتھ رہنے کا حکم دیا ہے اس کا مطلب ہے کہ ہر دور میں اللہ کے ایسے برگزیدہ بندے موجود رہیں گے جن کی معیت و اتباع کا حکم دیا جارہاہے۔
لہٰذا اعتدال کا راستہ ، امت کے ساتھ اخلاص کا راستہ وہی ہے جس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چل کردکھلایا اور نزع کے عالم میں بھی آخری سانس تک اس کی تعلیم دی الصلوٰۃ و ما ملکت ایمانکم کے الفاظ کا استعارہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں پر محیط ہے۔
 
@ محمود حسن جماعتی صاحب کی اس بات کا جواب کہ اب اولیاء نظر نہیں آتے یہ ہے کہ کچھ مسلمان تو مارے باندھے نماز روزہ جیسے فرائض اور واجبات ادا کرلیتے ہیں لیکن سنن اور مستحبات کو تنگی کا باعث سمجھتے ہیں حالاں کہ اولیاء بننے کی راہ، اللہ کا پیارا بننے کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں فرمادیا ہے :
قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ
آج کل کے دور میں گو کم ہی سہی مگر ایسے پاک باز لوگ موجود ہیں جو اتباع سنت، اخلاق کی بلندی، مخلوق پر شفقت کی ایسی مثال ہیں جو قابل اتباع ہیں۔ اسلام ایسی ہستیوں سے کبھی خالی نہیں ہوسکتا کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایسے مقدس وجود تاقیامت رہیں گے:
اتقوا اللہ و کونوا مع الصادقین
اللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ رہو۔
بین السطور چھوڑا تھا کہ موضوع میں رہوں۔۔۔ خیر تشکر کہ آپ نے روایت بیان کرکے جان ڈال دی۔
 

اکمل زیدی

محفلین
تحقیق، حوالہ اور سند کے بغیر
اور اس میں بھی اپنی اپنی پسند ... معتبر و غیر معتبر . . . جو اچھی لگی اسے پسندیدگی کی سند دے دو اور جو fit نہ لگے اس میں رجال اور ضعیفی اور راویوں کی بحث چھیڑ دو اکثر سوچتا ہوں اور یقینن آپ بھی سوچتے ہونگے جو نہیں سوچتے انھے ایک دعوت فکر کے صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں لفظ "صحیح" لفظ لگانے کی ضرورت کیوں پیش آئی جس سے زہن فورن اسطرف جاتا ہے کے اس سے پہلے کافی کچھ غلط مشہور ہوچکا تھا ...
 

سید عمران

محفلین
اور اس میں بھی اپنی اپنی پسند ... معتبر و غیر معتبر . . . جو اچھی لگی اسے پسندیدگی کی سند دے دو اور جو fit نہ لگے اس میں رجال اور ضعیفی اور راویوں کی بحث چھیڑ دو اکثر سوچتا ہوں اور یقینن آپ بھی سوچتے ہونگے جو نہیں سوچتے انھے ایک دعوت فکر کے صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں لفظ "صحیح" لفظ لگانے کی ضرورت کیوں پیش آئی جس سے زہن فورن اسطرف جاتا ہے کے اس سے پہلے کافی کچھ غلط مشہور ہوچکا تھا ...
صحیح کا مطلب اس کا عکس یعنی غلط نہیں ہے۔۔۔ بلکہ اس سے مراد محدثین کی اصطلاح ہے۔۔۔
بہرحال تمام مباحث کے باوجود محدثین کرام نے ذخیرہ احادیث کو جس محنت، احتیاط اور دیانت دارانہ انداز میں مرتب کیا ہے اس نے عالم میں ایک نئے اسلوب کو جنم دیا۔
محدثین کا کام صرف احادیث جمع کرنا تھا۔ اس کے ذیل میں اسماء الرجال کا شعبہ وجود میں آیا۔ تہذیب التہذیب، میزان الاعتدال، سیر اعلام النبلاء وغیرہ کتابیں اسی موضوع پر ہیں۔ ان لوگوں کاکام احادیث اور جنہوں نے احادیث روایت کی ہیں ان کے حالات جمع کرنا تھا۔ اور یقینا وہ اپنا کام محیر العقول کارناموں کے ساتھ کرگئے۔ اب ہمارا کام ہے کہ اس سے کس طرح فائدہ اٹھایا جائے، صحیح یا غلط!!!
 

اکمل زیدی

محفلین
راحیل فاروق صاحب کی یہ تحریر چند تنگ نظروں کے لیے تو شاید سود مند ثابت ہو لیکن ان کروڑوں آزاد پسند مسلمانوں کے لیے اس میں ایسا کیا ہے
عمران صاحب یہاں سود و زیاں کی بات نہیں کچھ "صحیح" ریفرنسز دے کر ایک اجمالی خاکہ پیش کیا گیا ہے ..اور بات ہے بھی صحیح کے جو بھی احسن طریقے کہیں رائج ہیں وہ اسلام کے ہی بتائے ہوئے اصول ہیں اب اس پر کاربند کون ہے یہ الگ بات ہے مگر ہے تو مستحسن عمل تو اس پر کاربند معاشرے کا نام بھی آئے گا ... دوسرے ایک بات واضح کردوں مسلمان کبھی بھی آزاد پسند نہیں ہوتا وہ پابند ہوتا ہے اسلام کے اصولوں کا تو آپ نے کیسے کہ دیا کروڑوں آزاد پسند مسلمان ....؟
 
اور اس میں بھی اپنی اپنی پسند ... معتبر و غیر معتبر . . . جو اچھی لگی اسے پسندیدگی کی سند دے دو اور جو fit نہ لگے اس میں رجال اور ضعیفی اور راویوں کی بحث چھیڑ دو اکثر سوچتا ہوں اور یقینن آپ بھی سوچتے ہونگے جو نہیں سوچتے انھے ایک دعوت فکر کے صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں لفظ "صحیح" لفظ لگانے کی ضرورت کیوں پیش آئی جس سے زہن فورن اسطرف جاتا ہے کے اس سے پہلے کافی کچھ غلط مشہور ہوچکا تھا ...
اکمل بھائي دو چیزیں ہیں۔۔۔۔ ایک اسماء و رجال کے علم ہے، اہل سنت کے اپنے پیمانے ہیں اور اہل تشیع کے اپنے۔ ان کے اعتبار سے ان کے سند صحیح اترتی ہوگی اور ان کے اعتبار سے ان کی۔۔۔۔ بہر حال میری معلومات میں یہ علم ہے دونوں طرف۔
بخاری و مسلم محدثین کے نام ہیں۔ بخاری شریف کا اصل نام کوئی ڈیڑھ لائن کا ہے بلکہ امام بخاری کا اصل نام بخاری نہیں یہ تو ایک نسبت ہے۔۔۔۔ یہی کلیہ امام مسلم کے لیے۔۔۔ لفظ صحیح کا استعمال شاید عجم یا برصغیر کا ہے۔ علماء اختصار کے لیے بخاری و مسلم ہی کہتے ہیں۔ صحیح والی بات ایک اور لمبی بحث جس میں اسماء ورجال کے کچھ قوانین کا ذکر کرنا پڑے گا۔۔۔۔ لیکن بہر حال پیمانے موجود ہیں ان سے پہلے والوں پر بھی علماء جرح کرتے ہیں اور خود ان پر آج بھی ہو رہی ہے۔کرنے والے کررہے ہیں۔۔۔۔ بات پھر وہی تحقیق کی ہمارا مطالعہ کس قدر ہے۔۔۔۔ برصغیر میں عمومی خطبا کو بھی مولوی اور عالم کا درجہ دیا جاتا ہے۔ صف علماء میں بہر حال اس کا فرق بھی اور واقف تحقیق بھی ہیں۔
 

اکمل زیدی

محفلین
اس میں خطیب بر وزن یزید لوگوں کا کافی دخل ہے علماء کے ہاں پیمانے جدا ہیں۔
بات وہیں جدا پیمانوں کی آجاتی ہے نا ... آپ ہر پوسٹ پر پسندیدگی کا ٹیگ کرتے ہیں یاد ہے بقول آپ کے سب کو خوش رکھو جس پر میں نے کہا تھا مشکل ہے بات اسی نہج پر اگائی ہے آپ کو میری بات سے خوشی نہیں ہوگی نہ آپ پسندیدگی کا اظہار کرینگے
 

سید عمران

محفلین
عمران صاحب یہاں سود و زیاں کی بات نہیں کچھ "صحیح" ریفرنسز دے کر ایک اجمالی خاکہ پیش کیا گیا ہے ..اور بات ہے بھی صحیح کے جو بھی احسن طریقے کہیں رائج ہیں وہ اسلام کے ہی بتائے ہوئے اصول ہیں اب اس پر کاربند کون ہے یہ الگ بات ہے مگر ہے تو مستحسن عمل تو اس پر کاربند معاشرے کا نام بھی آئے گا ... دوسرے ایک بات واضح کردوں مسلمان کبھی بھی آزاد پسند نہیں ہوتا وہ پابند ہوتا ہے اسلام کے اصولوں کا تو آپ نے کیسے کہ دیا کروڑوں آزاد پسند مسلمان ....؟
اسلام کو ماننا الگ ہے اور اسلام کے اصولوں پر عمل کرنا الگ۔۔۔
آپ خود بتائیے آج کتنے لوگ نماز پڑھتے ہیں؟؟؟
کتنی اولاد اللہ کے اس حکم پر عمل کرتی ہے کہ والدین کی ناگواری کے باوجود ان کے قدموں میں اپنے پروں کو بچھادو۔ کیا آج والدین کے ساتھ زبان درازی اور بدتمیزی گھر گھر کی کہانی نہیں ہے؟؟؟
کیا یہ دو مثالیں حقوق اللہ اور حقوق العباد پر عمل سے گریز کی نہیں ہیں؟؟؟
اسی پر قیاس کرلیں کہ کون کتنے اسلامی احکامات پر عمل کررہا ہے۔۔۔
 

اکمل زیدی

محفلین
اکمل بھائي دو چیزیں ہیں۔۔۔۔ ایک اسماء و رجال کے علم ہے، اہل سنت کے اپنے پیمانے ہیں اور اہل تشیع کے اپنے۔ ان کے اعتبار سے ان کے سند صحیح اترتی ہوگی اور ان کے اعتبار سے ان کی۔۔۔۔ بہر حال میری معلومات میں یہ علم ہے دونوں طرف۔
بخاری و مسلم محدثین کے نام ہیں۔ بخاری شریف کا اصل نام کوئی ڈیڑھ لائن کا ہے بلکہ امام بخاری کا اصل نام بخاری نہیں یہ تو ایک نسبت ہے۔۔۔۔ یہی کلیہ امام مسلم کے لیے۔۔۔ لفظ صحیح کا استعمال شاید عجم یا برصغیر کا ہے۔ علماء اختصار کے لیے بخاری و مسلم ہی کہتے ہیں۔ صحیح والی بات ایک اور لمبی بحث جس میں اسماء ورجال کے کچھ قوانین کا ذکر کرنا پڑے گا۔۔۔۔ لیکن بہر حال پیمانے موجود ہیں ان سے پہلے والوں پر بھی علماء جرح کرتے ہیں اور خود ان پر آج بھی ہو رہی ہے۔کرنے والے کررہے ہیں۔۔۔۔ بات پھر وہی تحقیق کی ہمارا مطالعہ کس قدر ہے۔۔۔۔ برصغیر میں عمومی خطبا کو بھی مولوی اور عالم کا درجہ دیا جاتا ہے۔ صف علماء میں بہر حال اس کا فرق بھی اور واقف تحقیق بھی ہیں۔
مختصر یہ کیوں نہیں کہتے کے بہت ساری غلط احادیث میں سے جو صحیح تھی یہ ان کا مجموعہ ہے .... مجبوراً
مفتی اعظم گوگل علیہ السلام
سے حوالہ دینا پڑ رہا ہے
"انہوں نے تقریباً 300,000 احادیث اکٹھی کیں لیکن ان میں سے صرف7275 احادیث صحیح مسلم میں شامل کیں"
 

سید عمران

محفلین
بات وہیں جدا پیمانوں کی آجاتی ہے نا ... آپ ہر پوسٹ پر پسندیدگی کا ٹیگ کرتے ہیں یاد ہے بقول آپ کے سب کو خوش رکھو جس پر میں نے کہا تھا مشکل ہے بات اسی نہج پر اگائی ہے آپ کو میری بات سے خوشی نہیں ہوگی نہ آپ پسندیدگی کا اظہار کرینگے
اختلاف کرنا الگ۔۔۔
لیکن مزہ اسی میں ہے کہ بدمزگی نہ ہو۔۔۔۔:)
 
Top