تحریرِ آبِ زرر۔۔ اعجاز عبید

الف عین

لائبریرین
دوسروں کی آنکھ لے کر بھی پشیمانی ہوئی
اب بھی یہ دنیا ہمیں لگتی ہے پہچانی ہوئی
اشک کی بے رنگ کھیتی مدتوں میں لہلہائی
پہلے کتنا قحط تھا ، اب کچھ فراوانی ہوئی
خود کو ہم پہچان پائے یہ بہت اچھا ہوا
جسم کے ہیجان میں روحوں کی عریانی ہوئی
میں تو اک خوشبو کا جھونکا تیرے دامن کا ہی تھا
بوئے گل سے آ ملا، کیوں تجھ کو حیرانی ہوئی
اس کا بازار ہوس میں قدرداں ہی کون تھا
حنسِ دل کی پھر یہاں کیوں اتنی ارزانی ہوئی

1969ء
 

الف عین

لائبریرین
دکھاتا کیا ہے یہ ٹوٹی ہوئی کمان مجھے
ترا شکار ہوں اچھی طرح سے جان مجھے
ہوا نے ریت کی صورت زمیں پہ لکھ دی ہے
دکھائی دیتی ہے پتھر کی داستان مجھے
اک آسماں نے زمیں پر گرا دیا لیکن
زمیں نے پھر سے بنا ڈالا آسمان مجھے
میں اس ہوا کا نہیں پانیوں کا قیدی ہوں
نہ جانے کیوں لئے پھرتا ہے بادبان مجھے
زمیں سے صرف جزیرہ دکھائی دیتا ہے
کوئی نہ جان سکا آج تک چٹان مجھے
نہ جانے تیر کی مانند کیسے چبھنے لگا
وہ شخص لگتا تھا ٹوٹی ہوئی کمان مجھے

1970ء
 

الف عین

لائبریرین
دھوپ کا گہرا سمندر جب بھی مجھ کو اذنِ سفر دیتا ہے
بادل کا اک گیلا ٹکڑا مجھ پر سایہ کر دیتا ہے
مجھ میں سے آواز آتی ہے، آنکھیں موندے بیٹھے رہو تم
بھر کوئی سامنے رکھا پیالہ میرے لہو سے بھر دیتا ہے
جب یہ دھرتی اپنی زباں میں ساون کا نغمہ گاتی ہے
گیلی ہوا کا ٹھنڈا جھونکا مجھ کو اس کی خبر دیتا ہے
لمحے بھر میں بیج اُگ کر پودے اور پھر گل بن جاتے ہیں
وہ بھی عجب ہے! بے موسم صحرا پر بارش کردیتا ہے!!
ہم بے نور سلگتی شمعیں، ہم سے کچھ مت پوچھو یارو
رات مانگ میں، ماتھے تاج میں، کون ستارے بھردیتا ہے

1970ء
 

الف عین

لائبریرین
یہ کس نے کون رنگ میری آنکھ میں بسا دیا
گلی گلی بکھیرے گل، دیا دیا جلا دیا
ہمیں بھی یاد ہے کہ سرخ تتلیوں کے پر تھے ہم
سفید پیلی دھوپ نے یہ رنگ بھی اڑا دیا
اب آج ایک خون کی لکیر یاد آئی ہے
نہ جانے ہم نے ایسے منظروں کو کیوں بھُلا دیا
وہ شخص خوب تھا کہ بلب مختلف جلا دئے
ہمارے چہرے کو ہزاروں شکلوں میں دکھا دیا
میں جنگلوں کی آگ بن کے چار سمت پھیل جاؤں
چراغ نام دے کے اس نے یوں مجھے جلا دیا

1970ء
 

الف عین

لائبریرین
یہ چیخ جو کہ ابھی شہر کی صداؤں میں تھی
یہ پہلے گیت تھی جب دھوپ کھاتے گاؤں میں تھی
برستے پانی میں خوشبو سی میں نے کی محسوس
مجھے یقیں ہے کہ وہ بھی انہیں گھٹاؤں میں تھی
مرے بدن میں اتر آئی پیلی شام کے ساتھ
شفق کی لَو جو ابھی کانپتی ہواؤں میں تھی
ہمارے گرد تھی دیوارِ آہنی ورنہ
ہماری دھرتی کی خوشبو تو سب دِشاؤں میں تھی
جو خاکِ رہ ابھی چومی تو اک مہک آئی
وہ چیز کیا تھی؟ حنا تھی جو اس کے پاؤں میں تھی

1970ء
 

الف عین

لائبریرین
عجیب لمس کسی ہاتھ کی کمان میں تھا
میں تیر بن کے اسی لمحے آسمان میں تھا
میں آپ اپنا قصیدہ تھا ایک مدت سے
مگر وہ لفظ جو روشن ترے بیان میں تھا
جو جنگلوں میں لگی آگ سے جھلس بھی چکا
نہ جانے کون اس اُجڑے ہوئے مکان میں تھا
بکھر گیا تو پتہ یہ چلا کہ ریت تھا میں
کہ اتنے عرصے میں کیا جانے کس کمان میں تھا
کلاہ کج تھی اگرچہ میں ٹوٹا پھوٹا تھا
غرورِ عشق تھا، میں کیسی آن بان میں تھا


1970ء
 

الف عین

لائبریرین
جس شئے کو میں نے دیکھا، بس جیسے رنگ کا دھبّہ تھا
ان آنکھوں میں بسنے والا چہرہ جانے کیسا تھا
جانے کہاں سے آکر جم جاتی تھی ان ہونٹوں پر برف
کون آگے رکھّے پیالے میں میرا لہو بھر دیتا تھا
بوڑھی دھرتی چاند ستاروں سے یہ کہانی کہتی تھی
بچّو تب کی بات ہے یہ، جب میرا جسم سنہرا تھا
جس کے پردوں کی خوشبو سے نیند مجھے آ جاتی ہے
کہتے ہیں اس گھر میں پہلے ایک فرشتہ رہتا تھا
رات بھی اس کے ماتم میں سر کھولے رویا کرتی تھی
اور سورج بھیگے تکیے پر سر رکھ کر سو جاتا تھا
اک پیاری سی لڑکی بھری آنکھوں سے اس کو تکتی تھی
سر کو جھکائے اک لڑکا کیا کیا کچھ باتیں کرتا تھا

1970ء
 

الف عین

لائبریرین
سلگتی ریت کو پانی کا انتظار نہ تھا
سمندروں کو مگر ایک پل قرار نہ تھا
تمام عمر ہی سیاروں کی طرح گھومے
یہ اور بات کہ اپنا کوئی مدار نہ تھا
بہت ہی دیر سے بیٹھے تھے باتیں کرتے تھے
کوئی بھی جذبہ مگر اپنے آر پار نہ تھا
تو پھر یہ دھوپ بہت مہرباں ہوئی مجھ پر
تو پھر ہواؤں کے تیروں کا میں شکار نہ تھا
نکال تو لئے مٹّی تلے دبے خنجر
مگر کوئی بھی تو ان میں سے آب دار نہ تھا
ہم اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں یا قیدی
ہمارے گرد ابھی تک تو یہ حصار نہ تھا

1971ء
 

الف عین

لائبریرین
پیلے اُداس پھول درختوں کی چھاؤں میں
ماحول اسپتال کا ساری فضاؤں میں
ہاتھوں میں جس سفر کا تھا نقشہ بنا ہوا
پورا ہوا وہ گھوم کے چاروں دِشاؤں میں
بارش نہیں تھی قوس قزح کیسے بن گئی
یا اُڑ گیا دوپٹہ کسی کا ہواؤں میں
لہجہ تو سیدھا سادہ تھا شام اس کی بات کا
اک گیت گونجتا رہا شب بھر خلاؤں میں
اب یہ پتہ چلا ہے گھنے بادلوں کے پار
ہم جس کا نام لکھتے رہے تھے ہواؤں میں

1971ء
 

الف عین

لائبریرین
اک منجمد نشان افق پر بھی تھا کبھی
یوں کھو گئے کہ لگتا نہیں گھر بھی تھا کبھی
حدّ نظر لکیر تھی تحریر آب زر
آنکھوں میں ایسا ڈوبتا منظر بھی تھا کبھی
اب یہ پتہ چلا کہ کھلے منظروں میں بھی
ورنہ میں قیدِ گنبدِ بے در بھی تھا کبھی
احساس پھر شدید ہُوا بے زمینی کا
میں اپنی ماں کی گود کے اندر بھی تھا کبھی

1971ء
 

الف عین

لائبریرین
پکارے گی یہ ’’تحریری زباں‘‘ کب تک پکاریں گے
ہوا میں اُڑ رہا ہے اک نشاں ’’کب تک پکاریں گے‘‘
ہوا کی خُنکیو ! صحرا سے جل کر آؑئے ہیں تم کو
پسینے میں نہائے، سر گراں، کب تک پکاریں گے
ہمارے ہونٹ چُپ ہوں گے ہمارے زخم چیخیں گے
تمہیں اے دشمنو! چارہ گراں کب تک پکاریں گے
ہمیں معلوم ہے اک دن تو تھک کر بیٹھ جائیں گے
تھکے سے اپنے قدموں کے نشاں کب تک پکاریں گے
ذخیرہ لفظوں کا کم مایہ ہے، القاب سے تیرے
تجھے ہم یوں ترے شایان شاں کب تک پکاریں گے
یہ غیر آباد صحرائے وفا ہے ، ہم یہاں تنہا
اگر گھبرائے تو کس کو ، کہاں ، کب تک پکاریں گے

1971ء
 

الف عین

لائبریرین
ٹوٹ چکا تھا ، آج دو بارہ روشن ہے
چہرے پر شعروں کا ستارہ روشن ہے
صدیوں پہلے دو سورج بیٹھے تھے جہاں
آج بھی وہ دریا کا کنارہ روشن ہے
غار میں کوئی دیپ جلائے بیٹھا ہے
گِرتے ہوئے دریا کی دھارا روشن ہے
چہرے پر اک چُبھتی انگلی چسپاں ہے
ماتھے پر ایک ایک اشارہ روشن ہے
ہاں تاریکی نے سب کچھ روپوش کیا
آؤ قریب، کہ دل تو ہمارا روشن ہے
ہفتوں بعد اتنی عمدہ غزلیں کہہ کر
اپنا چہرہ دیکھو ۔ سارا روشن ہے

1971ء
 

الف عین

لائبریرین
شہر ممنوع میں ایک غزل

(واجدہ تبسم کے لیے)

گہری خاموشی دلدل تھی، دھنستے ہوئے لوگ چپ رہ گئے
دیکھتے دیکھتے کتنے ہی بولتے لوگ چپ رہ گئے
ایک خم دار زینے پہ پیالی کھنکنے کی آواز تھی
فاختہ کے سنہری پروں میں چھُپے لوگ چپ رہ گئے
دھوپ اُکتا کے جلتی ہوئی ریل سے کودی تھی
اپنی آنکھوں سے یہ حادثہ دیکھتے لوگ چپ رہ گئے
نم زدہ چاند سورج نظر سے اترنے لگے سینے میں
ٹھنڈے گیتوں کی بوچھار سے بھیگتے لوگ چپ رہ گئے
دکھ کے رشتے کی پاکیزگی پر کسی کو کوئی شک نہ تھا
گفتگو سے پرے ساتھ چلتے ہوئے لوگ چپ رہ گئے
سارے جذنے سفید اور سادہ سے کاغذ تھے۔ جیسے کفن
اک جنازے کو کاندھوں اٹھائے ہوئے لوگ چپ رہ گئے

1971ء
 

الف عین

لائبریرین
ہتھیلی پر چمکتے آنسوؤں نے بیج کتنی خواہشوں کے بو دئے آخر
یہ جنگل سو رہا تھا نیند سے بیدار کر ڈالا، سلگتی آگ نے آخر
سنہری پر جھلستے تھے ہوا سے چپکے چپکے یہ پرندے کہہ رہے تھے کچھ
سمجھتے تھے کہ ہم برفاب وادی میں اتر جائیں گے لیکن کھو گئے آخر
ہر اک ذرہ ہمارا ہے ہوا سے یہ کہو اپنی طرف سے چوم لے سب کو
یُگوں پہلے خدا نے یہ زمیں سورج بنائے تھے ہمارے واسطے آخر
اندھیروں کی فصیلوں پر چراغوں کی طرح جلتی تھیں اپنی آنکھیں، لیکن ہم
اپاہج ہاتھ سے دیوار پار اس راستے کو کس طرح سے کھوجتے آخر
سنا یہ ہے کہ پہلی سانس سے تا نفسِ آخر صرف اک بوسے کی دوری ہے
اسی امّید پر مدّت سے جیتے ہیں ،کبھی کم بھی تو ہوں گے فاصلے آخر
1971ء
 

الف عین

لائبریرین
وہ رات اندھیری نہ تھی، صبح خوں چکانی نہ تھی
بس اتنی بات ہے کچھ دل میں شادمانی نہ تھی
نکیلے نیزے لبوں پر لگے تو چونک پڑے
ہمارے لب پہ تو کوئی غلط بیانی نہ تھی
گھِسا چراغ ، مگر کوئی جن نہیں آیا
طلسم ٹوٹ گیا ، پھر کوئی کہانی نہ تھی
پرندے چیخ رہے تھے درخت مت کاٹو
یہ تب کی بات ہے، جب اتنی بے زبانی نہ تھی
یہ سورجوں نے کہا اب کوئی گھمنڈی نہ ہو
پھر اس کے بعد چمکتی ہوئی روانی نہ تھی

1971ء
 

الف عین

لائبریرین
یہ لوگ کہتے رہے نشّہ کیا شراب میں تھا
مجھے یقیں نہیں آیا کہ سحرِ آب میں تھا
میں پوچھتا تھا کہ طوفان کی خبر تو نہیں
بس اک سکوتِ سمندر مرے جواب میں تھا
ہوا نے پڑھ لیا اور صدیوں تک وہ روتی رہی
وہ ایک لفظ جو اس نیلگوں کتاب میں تھا
سمندروں کو میں دشمن سمجھ کے ڈوبا مگر
مرا وجود کہ ہر قطرہ قطرہ آب میں تھا
وہ سارے شہر میں کرنیں بکھیرتا تھا عبیدؔ
اسے پتہ نہ چلا میں بہت عذاب میں تھا

1971ء
 

الف عین

لائبریرین
ہتھیلیوں پہ لکیروں کا جال تھا کتنا
مرے نصیب میں میرا زوال تھا کتنا
جو پُرسکون سمندر کی تہہ میں اترا میں
تو حیرتی ہوں کہ تہہ میں ابال تھا کتنا
تمام سرحدیں اب کچھ نہیں تھیں میرے لیے
کہ میں ہوا کی طرح باکمال تھا کتنا
تو جنگلوں کی طرح آگ مجھ میں پھیل گئی
رگوں میں بہتا ہوا اشتعال تھا کتنا
یہ راز ہم کو بہت تجربوں کے بعد ملا
کسی کا راز چھپانا محال تھا کتنا
تب ہی تو جلتی چٹانوں پہ لا کے پھینک دیا
مرا وجود ہوا پر وبال تھا کتنا
سبھی پرندے مرے پاس آتے ڈرتے تھے
میں خشک پیڑ سہی بے مثال تھا کتنا

1971ء
 

الف عین

لائبریرین
تھا خود بھی چھاؤں کا امیدوار کہتا تھا!
وہ شخص خود کو بہت سایہ دار کہتا تھا
میں اپنی آنکھ سمندر نما سمجھتا تھا
میں اپنی سانسوں کو دل کا غبار کہتا تھا
مرا بھی لطف اٹھاؤ مجھے بھی پاؤ کبھی
میں سن رہا تھا، ترا انتظار کہتا تھا
تمام زخم مرے مسکرانے لگتے تھے
وہ مجھ کو طنز سے جب شہسوار کہتا تھا
نظر نہ آیا اسے اپنا عکس یوں چُپ ہوں
وگرنہ خود کو میں تمثال دار کہتا تھا

1971ء
 

الف عین

لائبریرین
لبوں پہ نور چمکتا ہے میں نہ کہتا تھا!
وہ لمحہ آج بھی زندہ ہے میں نہ کہتا تھا!
بُتوں میں دوڑ گئی زندگی اچانک ہی
طلسم ٹوٹنے والا ہے میں نہ کہتا تھا!
اب اس کی آنکھ میں آنسو کہاں چمکتے ہیں
یہ سارا ڈھونگ پرانا ہے میں نہ کہتا تھا!
وہ آگ پھیل کے دشتِ بدن میں بجھ بھی چلی
بس ایک پل کا تماشہ ہے، میں نہ کہتا تھا!
کسی کے واسطے اب کون جان دیتا ہے
یہ سارا جھوٹا بہانہ ہے، میں نہ کہتا تھا!

1971ء
ا
 

الف عین

لائبریرین
خزاں میں پھول اڑانا نظر تو آئے کوئی
نہالِ غم کو ہِلاتا نظر تو آئے کوئی
یہ گھنٹیوں کی صدائیں کہاں سے آتی ہیں
مرے بدن کو بجاتا نظر تو آئے کوئی
وہ کون شخص ہے؟ ۔ ٹوٹی ہوئی دھنک تو نہیں
ہزار رنگ دکھاتا نظر تو آئے کوئی
بجا رہے ہیں سبھی پھول پتّیاں تالی
یہ کیسا جشن ہے گاتا نظر تو آئے کوئی
دہکتے خواب نم آنکھوں میں آ کے سرد ہوئے
کنارے توڑتا، ڈھاتا نظر تو آئے کوئی

1971ء
 
Top