تحریرِ آبِ زرر۔۔ اعجاز عبید

الف عین

لائبریرین
تھیں اک سکوت سے ظاہر محبتیں اپنی
اب آنسوؤں نے بھی بخشیں عنائتیں اپنی
کہ برگ ہائے خزاں دیدہ جوں اڑائے ہوا
کشاں کشاں لیے پھرتی ہیں وحشتیں اپنی
سبھی کو شک ہے کہ خود ہم میں بے وفائی ہے
کہاں کہاں نہ ہوئی ہیں شکایتیں اپنی
چلے جہاں سے تھے اب آؤ لوٹ جائیں وہیں
نکالیں راہوں نے ہم سے عداوتیں اپنی
کچھ اور کر دے گی بوجھل فضا کو خاموشی
چلو کہ شور مچائیں شرارتیں اپنی
ہمارا جو بھی تعلق تھا، اس کے دم سے تھا
لو آج ختم ہوئیں سب رقابتیں اپنی

1973ء
 

الف عین

لائبریرین
دل میں اک بارِ گراں ہے اپنا
لب سے اترا تو زیاں ہے اپنا
ہم تو تھے دوشِ ہوا کے راہی
کیسے صحرا میں نشاں ہے اپنا
ایک احساس جِلایا تھا کبھی
اب وہی دشمنِ جاں ہے اپنا
چھپ کے ہم دیکھتے رہتے تھے جسے
اب وہی تو نِگَراں ہے اپنا
اب بھی اشعار تو کہہ لیتے ہیں
اتنا احساس جواں ہے اپنا
ذوقؔ کہتے ہیں دکن کو ہی چلیں
کوئی دلّی میں کہاں ہے اپنا

1973ء
 

الف عین

لائبریرین
نہ اپنی آنکھ میں تھا ایک بوند پانی بھی
نہ جانے کیسے مگر آ گئی روانی بھی
وہ پھول، پھول کی خوشبو ، وہ رنگ بھیگ چلے
لو آج بیت گئی ایک رُت سہانی بھی
وہی بھی اپنی بچھڑنے کی شام بھی لیکن
وہی تھی ایک نئی صبح کی کہانی بھی
ہوں تیرے رحم و کرم پر، جَلائے یا کہ بجھائے
کہ تیرے ہاتھوں میں اب آگ بھی ہے پانی بھی
وہ دھوپ ہو گی کہ بیتائی سب کی گم ہو گی
نظر نہ آئے گا جب رنگِ آسمانی بھی

1973ء
 

الف عین

لائبریرین
کچھ اضطراب سا ہے ، کچھ خلفشار سا ہے
شاید کہ ربط اس سے کچھ اپنا پیار سا ہے
ہر رات جلنا بجھنا اپنا نصیب ہے اب
آنکھوں میں ہے نمی سی دل میں شرار سا ہے
ملنے کی اس گھڑی میں ہم کیسے بھول جائیں
ہم بھی ہیں پاک طینت، اور وہ بھی پارسا ہے
سمجھے تھے ہم ہوائیں کیا کر سکیں گی اپنا
لیکن بدن میں ہر پل کچھ انتشار سا ہے
بکھرے فضا میں اس کی باتوں کے سرخ پتّے
کچھ یوں لگا کہ موسم فصلِ بہار سا ہے

1974ء
 

الف عین

لائبریرین
دو قطروں کی مانند ہیں، مل جائیں گے ہم تم
اب کے جو کسی موڑ پہ ٹکرائیں گے ہم تم
کچھ نور بھری انگلیاں حرکت ہمیں دیں گی
یوں ہو گا کہ اک دھاگے میں بندھ جائیں گے ہم تم
اندر جو کسی ساز کی دھن کا سا سکوں ہو
ہر شور بھری بزم سے اُٹھ آئیں گے ہم تم
جذبات کا بندھن کوئی کمزور نہ ہوگا
شبنم کی طرح کیسے بکھر جائیں گے ہم تم
اک چھوٹا سا گھر، ایک بہت نیک سی لڑکی
اس خواب کی تعبیر پہ مُسکائیں گے ہم تم
خرگوش ، ہرن، جاگتی سوتی ہوئی گڑیاں
کس شے کی بھلا اور کمی پائیں گے ہم تم

1974ء
 

الف عین

لائبریرین
ان اندھیروں میں چاند آ اُترے
مسکرا دو اداس ہم بھی ہیں
پیڑ اندھیرے، یہاں وہاں جگنو
اور کہیں آس پاس ہم بھی ہیں
تم وہ ستلج نہیں کہ پاس آؤ
یوں سدا کے بیاس ہم بھی ہیں
کیسے لمحے ہیں تم بھی نروس ہو
اور کچھ بدحواس ہم بھی ہیں
ایک پل میں حقیقتیں بن جائیں
ایسی حدِّ قیاس ہم بھی ہیں

1974ء
 

الف عین

لائبریرین
نہ کوئی زخم کبھی ہم چھپا سکے تجھ سے
تمام عمر رہے ایسے سلسلے تجھ سے
ہزار بار وہ شکوے بھی کر گیا ہوں میں
جو آج لگتا ہے مجھ کو کبھی نہ تھے مجھ سے
وہ بات، جب مری بھی گنگ ہو گئی تھی زباں
رُکے سے لفظ کئی بولتے ہوئے تجھ سے
تو ایک گہرے سمندر کی موج ہے معلوم
میں شعلہ شعلہ ہوں، پھر بھی ملوں گلے تجھ سے
مسافتوں کی تھکن سے وہ بات کہہ نہ سکے
جو میلوں دور سے کہنے کو آئے تھے تجھ سے
لکھوں تو صفحے کے صفحے سیاہ کر ڈالوں
میں کچھ بھی کہہ نہ سکوں تیرے سامنے تجھ سے

1974ء
 

الف عین

لائبریرین
ایک اک شاخ پر دیپ چمکے وہ طلسمی تماشہ کریں ہم
دونوں چُپ چاپ کھڑکی میں بیٹھے، چاندنی سے سویرا کریں ہم
ایک چھوٹا سہانا سا آنگن۔ چائے کی گنگناتی پبالی
مسکراتی ہوئی ایک لڑکی۔ اور اب کیا تمنّا کریں ہم
کیا پتہ تھا کہ اپنی دعائیں اتنی جلدی حقیقت بنیں گی
تم حنا سے ہتھیلی میں لکھ دو ’شکر ادا اب خدا کا کریں ہم‘
اپنا اک چمپئی آسماں ہو، جس پہ اک سرخ سا چاند چمکے
اک سنہرے جزیرے پہ بیٹھے۔ نام پانی پہ لکھّا کریں ہم
اپنے ہونٹوں سے لکھ دو ہوا پر کوئی پیغام میرے لیے تم
اور اپنی مسرّت کے آنسو بادلوں سے روانہ کریں ہم
لمحہ لمحہ ۔۔۔ پھر ایک اور لمحہ ۔۔۔ کتنا طولانی پہ قافلہ ہے
کرنیں ، پِھر کرنیں ۔۔۔ کچھ اور کرنیں ۔۔ رات بھر یوں نہایا کریں ہم
پیار کے ننھے سے جگنوؤں نے (خون کے ساتھ جو بہہ رہے تھے)
کردیا اتنا روشن، جو چاہیں، چاند بن کر اجالا کریں ہم

1974ء
 

الف عین

لائبریرین
نئے سفر میں ، جو پچھلے سفر کے ساتھی تھے
پھر آئے یاد کہ اس رہگزر کے ساتھی تھے
کہوں بھی کیا مجھے پل بھر میں جو بکھیر گئے
ہوا کے جھونکے مری عمر بھر کے ساتھی تھے
ستارے ٹوٹ گئے ، اوس بھی بکھر سی گئی
یہی تھے جو مری شام و سحر کے ساتھی تھے
شفق کے ساتھ بہت دیر تک دکھائی دیئے
وہ سارے لوگ جو بس رات بھر کے ساتھی تھے
یہ کیسی ہجر کی شب ، وہ بھی ساتھ چھوڑ گئے
جو چاند تارے مری چشمِ تر کے ساتھی تھے

1974ء
 

الف عین

لائبریرین
یہ جرم ہے تو کوئی سخت حکمِ شاہی دے
مری وفا کی مجھے عمر بھر سزا ہی دے
بہت عظیم ہے ، مانا، تو اے ہوا ، مددے
ہمیں بھی ایک دو پل زعمِ کج کلاہی دے
ہر ایک موج نے سر ڈال کر دعا مانگی
کہ ٹھہرے ٹھہرے سے پانی کو رنگِ کاہی دے
تجھی کو ٹوٹ کے چاہوں، ترے لیئے ہی جُڑوں
کرے نہ پیار، تو پھر مجھ کو یہ دعا ہی دے
جز اک گلِ خزاں شاعر کے پاس کیا تحفہ
جز ایک قطرۂ خون اور کیا سپاہی دے
اندھیرے آئنے بننے کو مضطرب ہیں عبیدؔ
کوئی نشانِ افق صبح کا پتا ہی دے

1974ء
 

الف عین

لائبریرین
(چھند ’’ دوبا‘‘)

موجیں بولیں چوم لیں، پھول بھری اک ناؤ
چپکے چپکے رو دیا، پانی پانی بہاؤ
اونچے سُروں میں چھیڑ دی متوالوں نے ہیر
دھیمے دھیمے جل اٹھا ، بیچ میں ایک الاؤ
ابھی ابھی تو گھنٹیاں مجھ میں بجتی تھیں
تھمتے ہی برسات کے ، یہ کیسا ٹھہراؤ
کچھ کہنے کو بچا نہیں ، پھر بھی کچھ تو ہے
جلتی بجھتی رات میں گیت ہی کوئی سناؤ
ایسا ہو کہ یہ خامشی، بن نہ سکے آزار
چپ کب تک بیٹھے رہیں، برتن ہی کھنکاؤ

1974ء
 

الف عین

لائبریرین
زمین رک سی گئی تھی تو آسمان ٹھہرا
ہمیں گزرتے گئے رہ گیا جہاں ٹھہرا
سبھی یہ سمجھے کہ منزل نہیں ملی ہم کو
ہمارے سر میں جو سودا تھا رائیگاں ٹھہرا
ہزار بار صدا دی سکوت نے لیکن
مری رگوں کا لہو قافلہ کہاں ٹھہرا
وہ اک سحر کہ سب افراد گھر کے روئے تھے
پھر اس کے بعد نہ میرا کوئی مکاں ٹھہرا
وہ سیل تھا کہ خبر تھی نہ بہنے والوں کی
شمول کس کا ہوا کب، کوئی کہاں ٹھہرا

1974ء
 

الف عین

لائبریرین
سو غموں کا ترا اک غم ہی مداوا نکلا
تجھ کو قاتل میں سمجھتا تھا، مسیحا نکلا
سوچتا تھا کہ رکھوں سبز غموں کی فصلیں
اور آنکھوں میں جو دریا تھا وہ پیاسا نکلا
بے تعلق سے گزرتے گئے چپ چاپ سبھی
ایک بادل بھی زمیں کا نہ شناسا نکلا
دیکھنے، ٹوٹ کے، دھرتی پہ ستارے اترے
رات آنکھوں سے عجب ایک تماشہ نکلا
رات پھر جیسے کئی خوف کے سوراخوں سے
ایک لشکر سا سنبھالے ہوئے نیزہ نکلا

1974ء
 

الف عین

لائبریرین
(ساقی فاروقی کے لیے)

دھند کا آنکھوں پر ہوگا پردا اک دن
ہوجائیں گے ہم سب بے چہرا اک دن
جس مُٹھّی میں پھول ہے اس کو بند رکھو
کھل کر یہ جگنو بن جائے گا اک دن
آنکھیں مل مل کر دیکھیں گے خواب ہے کیا
ایسے رنگ دکھائے گی دنیا اک دن
چاند ستارے کہیں ڈبوئے جائیں گے
خوشبو پر لگ جائے گا پہرا اک دن
ہو جائیں گے ختم خزانے اشکوں کے
یوں نکلے گا اپنا دیوالا اک دن
اس کے پاس اگا دو کوئی اور درخت
پیڑ یہ ہو جائے گا ہریالا اک دن

1974ء
 

الف عین

لائبریرین
خوشبوؤں کا ہے عجب سحر کہ پتھّر بہکے
موج پر پھول کھلا اور سمندر مہکے
بد نصیبی تھی کہ جاں اپنی معطّر نہ ہوئی
ورنہ ان آنکھوں میں ہر لمحہ گلِ تر مہکے
جان پہچان ہوئی، ہاتھ ملے، ہونٹ ہلے
بجھی آنکھوں کے کنول پھر بھی نہ کھِل کر مہکے
مدتیں ہو گئیں اشکوں سے بھگوئے لیکن
اپنا خس خانۂ جاں ہے کہ برابر مہکے
روحِ خوشبو ابھی زندہ ہے یہ احساس نہ تھا
ہم وہ پتّے تھے جو چُٹکی سے مَسل کر مہکے
میری شہ رگ میں بسی تھی تری خوشبو شاید
ورنہ کیوں خون میں نہایا ہوا خنجر مہکے

1974ء
 

الف عین

لائبریرین
دھوپ ایسی تھی کہ کھِلتے ہوئے چہرے اترے
تتلیوں کے سے کئی رنگ قبا سے اترے
گھُل گئے ابر، دھنک، چاند ،ستارے جس میں
ایسے دریا کے بھلا کون کنارے اترے
ڈھونڈھنے نکلے تھے کچھ بھٹکی صداؤں کے بھنور
شام آئی تو سبھی کوہِ ندا سے اترے
دے دیا کس نے بھلا بھیگتی آنکھوں کا پتہ
آسمانوں سے زمینوں پہ ستارے اترے
شام کچھ کہتی سی، کچھ سنتی سی خاموشی تھی
جاگتے سوتے سمندر میں سفینے اترے
زندگی بدر کا میدان ہوئی جیسے عبیدؔ
یوں کمک آئی کہ اندیکھے فرشتے اترے

1974ء
 

الف عین

لائبریرین
اور پھر ایک شب آئے گی
جب کہ دنیا اجڑ جائے گی
دیکھئے کتنے دن تک رہے
درد کی دل سے ہم سائیگی
کیا خبر تھی کہ جینے کے دکھ
موت بھی آکے دہرائے گی
سارے پتّے بکھر جائیں گے
ان کو پھر برف ڈھک جائے گی
اب تو آنکھیں بھی خالی ہوئیں
ہائے ، اپنی یہ کم مانگی

1974ء
 

الف عین

لائبریرین
جو نہ خود اپنا پتہ جانتے ہیں
خود کو وہ سمت نما جانتے ہیں
اپنے اس رشتے کی پاکیزگی کو
شبنم و گل بھی خدا جانتے ہیں
پھول چپکے سے کھلا ڈالے گی
تجھ کو ہم بادِ صبا جانتے ہیں
کیا پتہ، عشق اذیت ہے کہ لطف
ہم بس اک حرفِ وفا جانتے ہیں
تجھ کو کیوں چاہا، یہ ہم سے مت پوچھ
ہم تجھے تجھ سے سوا جانتے ہیں
1974ء
 

الف عین

لائبریرین
یگوں لکھتا رہا اپنی کہانی
طلائی دائروں سے نیلا پانی
فضا میں رنگ تم نے کیا بکھیرے
سنہری دن ہوئے راتیں سہانی
شفق لو پھوٹتی ہے جس جگہ سے
وہیں جاتے ہیں رستے آسمانی
یوں آنکھیں خشک ہوں گی کیا خبر تھی
کہ سب ڈھونڈیں گے چمکیلی روانی
سجا دیں کیاریاں کانٹوں کی ہم نے
کبھی آئی نہ ہم کو باغبانی

1974ء
 

الف عین

لائبریرین
دو غزلہ ..... ایک (پیارے ناصر کاظمی کی یاد میں)
راکھ ہی راکھ کوئی شعلہ نہیں
سانس ہے پھر بھی کوئی زندہ نہیں
جانے کیوں ہم چھپائے پھرتے ہیں
ایسا رشتہ کہ جس کا پردہ نہیں
راتوں رات ایک کھِنچ گئی دیوار
ایسی جس میں کوئی دریچہ نہیں
ہے نصیبے میں وہ سکوت کہ جو
کسی طوفاں کا پیش خیمہ نہیں
کیا پتہ میں بھی بھول جاؤں تجھے
تو بھی انسان ہے، فرشتہ نہیں
مجھ کو سب کچھ لگا سنہرا سا
اس میں موسم کا کچھ کرشمہ نہیں
’درد دل دو ، صدا لگاتے ہیں
اور ہاتھوں میں کوئی کاسہ نہیں
 
Top