تحریرِ آبِ زرر۔۔ اعجاز عبید

الف عین

لائبریرین
تحریرِ آبِ زر​

غزلیں​

اعجاز عبید​

زمانی اعتبار سے پہلے دس سال کی غزلیں۔۔ ۱۹۶۷ء تا ۱۹۷۶ء​
 

الف عین

لائبریرین
ٹکرائے مجھ سے ابر تو پانی برس گیا
جیسے کہ ساری دھرتی پر کہسار میں ہی تھا
اندھی سیاہ رات میں دیکھا تھا ایک خواب
وہ خواب کاش جاگتی آنکھوں سے دیکھتا
جذبات نرم گیتوں کے زینوں پر چڑھ گئے
میں بیٹھے بیٹھے کرنوں میں جیسے نہا گیا
گھر میں بکھر گئی تھی کھنکھتی ہوئی ہنسی
کمرے میں جیسے پیار کا بادل برس گیا
آنکھوں کی روشنی سے تھی کمرے میں روشنی
باتوں کی گھنٹیوں سے ترنُّم بکھر گیا
چپکے سے ایک نام سا دہرایا ذہن نے
وہ نام ہر کتاب پہ لکھا ہوا ملا

1968ء
 

الف عین

لائبریرین
میری اس زندگی کا سرمایہ چند نظمیں ہیں چند غزلیں ہیں
ذہن میں چند خواب محوِ خواب، کچھ دنوں کی حسین یادیں ہیں
روز دن بھی بچھڑنے لگتا ہے، رات بھی روٹھ روٹھ جاتی ہے
زندگی بھر کا ساتھ دینے کو کوئی ساتھی ہے تو کتابیں ہیں
ایک تحقیق دیکھ کر مجھ کو یوں لگا ہے خدا بھی شاعر ہے
چند غزلیں زمیں پہ بکھری ہیں چند نظمیں حسیں فضا میں ہیں
دن کا یہ جگمگاتا سورج ہے خوش نصیبوں کی ہر خوشی میں شریک
غم نصیبوں کے غم پہ طنز کناں زہر آلودہ کالی راتیں ہیں
ریل کی کتنی گڑگڑاہٹ تھی پیار کی بات بھی نہ سن پائے
صرف آنکھوں سے بات پڑھتا پڑی، آخر آنکھیں بھی تو کتابیں ہیں

1968ء
 

الف عین

لائبریرین
نذر روح غالب (1)
اک طلسمات کی دنیا ہے یہ خوابوں کی زمیں
سینکڑوں سال کے بچھڑے ہوئے ملتے ہیں یہیں
آج تک ہونٹوں پہ شعلوں کا گماں ہوتا ہے
اک دفعہ چومی تھی جلتے ہوئے سورج کی جبیں
نور بکھرا تھا فرشتے سے اتر آئے تھے
ذہن میں چپکے سے در آیا تھا اک شعرِ حسیں
قید کے عادی ہیں ہم ایسے پرندوں کی طرح
جن سے کہتے ہیں کہ 'اڑ جاؤ' تو اڑتے بھی نہیں
وہ حسیں راتیں کہ جب ہم نے کہی تھیں غزلیں
آج تک ڈھونڈھتے پھرتے ہیں کہیں مل نہ سکیں

(1) بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دینا ہے نہ دیں
غالب کا یہ مصرع اردوئے معلّی علی گڑھ یونیورسٹی میں غالب صدی 1969 کے مشاعرے میں دیا گیا تھا۔

1969ء
 

الف عین

لائبریرین
نذر روح غالب

وہ دھوپ تھی ندی کے بھی اندر اتر گئی
لیکن گھنے درختوں میں کیسے بکھر گئی
کل ہم نے پھر بنائے تھے خوابوں کے کچھ محل
پھر رات کی ہوا انہیں مسمار کر گئی
قوس قزح کے رنگ ہوا میں بکھر گئے
’’موجِ خرامِ یار بھی کیا گل کتر گئی‘‘
ہم چاندنی کی چھاؤں میں بھی کہہ نہ پائے شعر
اتنی حسین رات بھی یوں ہی گزر گئی
کچھ دیر سے تھی برف ہر اک ڈال پر عبید
اک پھول ہنس دیا تو ہر اک شئے نکھر گئی

(غالب صدی مشاعرہ ۔ اردو معلّی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ)
1969ء
 

الف عین

لائبریرین
چاروں اور بکھری ہیں جانے کتنی آوازیں
کس کا ساتھ چھوڑیں ہم، کس کی دوستی چاہیں
سائے سائے کے سر پر روشنی کا سایہ ہے
کس کے سر پہ گرتی ہیں روشنی کی تلواریں
جسم کے کٹہرے میں خوشبوئیں نہ آئیں گی
روح کے سمندر میں ہم انہیں بکھرنے دیں
ہم میں اور دھرتی میں پیار کا سا رشتہ ہے
کاش ابر بن کر ہم اس پہ نوٹ کر برسیں
شام کا تقاضہ ہے میں بھی کوئی شب چمکوں
اک کرن کو چپکے سے تھام لوں میں مٹھّی میں

1969ء
 

الف عین

لائبریرین
کوئی جھیلوں سے مانگتا ہے سکوت، ڈالیوں سے کوئی حیا مانگے
کوئی سورج سے سیکھنا ہے ستم کوئی پھولوں سے نمرتا مانگے
موجۂ بحر میرے قدموں میں درِ خوش آب لا کے پھینک گئی
سونی سوی سی زندگی تھی مگر سونا سونا ہوئی بنا مانگے
میرے اندر کا ’’میں‘‘ پھڑکتا ہے جسم کی قید سے نکلنے کو
کتنی معصوم سی تمنا ہے مجھ کو باہر سے دیکھنا مانگے
سامنے کیا کسی کے پھیلاتے، اپنا دامن ہی کب سلامت تھا
مانگنے سے گدائی بھی نہ ملی، یا شہی مل گئی بنا مانگے
خواب مہماں ہیں چند لمحوں کے، صرف پل بھر میں ٹوٹ جاتے ہیں
آنکھ کو کوئی کیسے سمجھائے، خواب اک پھر سے دیکھنا مانگے

1969ء
 

الف عین

لائبریرین
ایک چھوٹا مگر خوبصورت سا گھر، اس میں بھی جیسے آسیب اترنے لگے
آج سے کچھ ہی دن پہلے کی بات ہے، وائلن کے لرزتے ہوئے گیت تھے
جن میں آنکھیں ہی آنکھیں جڑی ہوں، کچھ ایسے بھی چہرے نظر آئے آکاش پر
آنکھیں سب میری جانب ہی مرکوز تھیں، یوں لگا جیسے سب دیکھتے ہیں مجھے
شعر جیسے سہانی ہوا مارچ کی، قہقہے جیسے جولائی کے بھیگے دن
گیت جیسے دسمبر کی ہو چاندنی، بات یا جنوری کی حسیں دھوپ ہے
صدیوں کی گرد ہے، سینکڑوں سال کی انگلیوں کے نشان اپنے جسموں پہ ہیں
ہم بھی بت ہیں کھدائی سے نکلے ہوئے، ایک دن میوزیم میں رکھے جائیں گے
سارا دن جنگلوں کے سفر میں ہمیں دھوپ شعلوں سے اپنے جلاتی رہی
رات خوابوں نے پھر ہم کو سلگا دیا صبح تک ہم بھی بے نور جلتے رہے
ڈالیوں کے ترنم پہ رقصاں تھے سب صبح دم نرم پھولوں نے چونکا دیا
دھیرے دھیرے جھنجھوڑا جگایا مجھے، بھینی بھینی ہواؤں نے چلتے ہوئے

1969ء
 

الف عین

لائبریرین
ابھی تمام آئینوں میں ذرہ ذرہ آب ہے
یہ کس نے تم سے کہہ دیا کہ زندگی خراب ہے
نہ جانے آج ہم پہ پیاس کا یہ کیسا قہر ہے
کہ جس طرف بھی دیکھئے سراب ہی سراب ہے
ہر ایک راہ میں مئے مئے نقوش آرزو
ہر اک طرف تھکی تھکی سی رہگزارِ خواب ہے
کبھی نہ دل کے ساگروں میں تم اتر سکے مگر
مرے لیے مرا وجود اک کھلی کتاب ہے
ہر ایک سمت ریت، ،ریت پر ہوا کے نقش ہیں
یہاں تو دشت دشت میں ہواؤں کا عذاب ہے

1969ء
 

الف عین

لائبریرین
یہ سخت تر ہے کہ میں قتل ہی کروں خود کو
کسی خطا پہ مگر کیسے بخش دوں خود کو
نہ جانے اوروں کو میں کس طرح کا لگتا ہوں
یہ آرزو ہے کہ باہر سے دیکھ لوں خود کو
مچھے یقیں ہے کہ مجھ میں بھی بے وفائی ہے
مگر کوئی یہ بتائے کہ کیا کہوں خود کو
مجھے بھی اس کی خبر ہے کہ اضطراب میں ہوں
ہزار کہتا رہوں وادئِ سکوں خود کو
مری غزل میں کوئی پا سکے تو پائے مجھے
مگر میں شعروں سے کیسے نکال دوں خود کو
1969ء
 

الف عین

لائبریرین
ہم نے آنکھ سے دیکھا کتنے سورج نکلے، ڈوب گئے
لیکن تاروں سے پوچھو کب نکلے، چمکے، ڈوب گئے
دو سائے پہلے آکاش تلے ساحل پر بیٹھے تھے
لہروں نے لپٹانا چاہا، اور بچارے ڈوب گئئے
پیڑوں پر جو نام لکھے تھے وہ تو اب بھی باقی ہیں
لیکن جتنے بھی تالاب میں پتھر پھینکے، ڈوب گئے
اونچے گھر آکاش چھپا کر اپنے آپ پہ نازاں ہیں
چاروں اور کھلے آکاش کے سورج پیچھے ڈوب گئے
اب تو ہمیں اک شعر کا ہونا بھی نا ممکن لگتا ہے
اب تو دن کی نیلی جھیل میں رات کے تارے ڈوب گئے
1969ء
 

الف عین

لائبریرین
نذر روحِ شکیب

کوئی ہو چہرہ شناسا دکھائی دیتا ہے
ہر اک میں ایک ہی مکھڑا دکھائی دیتا ہے
اسی شجر پہ شفق کا کرم ہے شاید آج
وہ اک شجر جو سنہرا دکھائی دیتا ہے
ادھر ۔ وہ دیکھو کہ آکاش کتنا دلکش ہے
جہاں وہ دھرتی سے ملتا دکھائی دیتا ہے
دکھائیں تم کو غروب آفتاب کا منظر
یہاں افق کا کنارہ دکھائی دیتا ہے
وہی تو ہے جو مری جستجو کی منزل ہے
کوئی بھی شخص جو مجھ سا دکھائی دیتا ہے

1969ء
***
 

الف عین

لائبریرین
بشیر بدر کے لئے

اس میل کے پتھر سے کچھ صدیوں کا بندھن ہے
ان پیڑوں کے پتوں میں یادوں کا ہرا پن ہے
اس لان میں پھیلی ہے خوشیوں کی ہری چادر
قدموں کے ترنم پر گاتا ہوا آنگن ہے
اس گاؤں کی ساری ہی گلیوں سے کوئی رشتہ
ان گلیوں کے ہر گھر سے انجانا سا بندھن ہے
مٹی کے کھلونے ہیں، مٹی میں نہ کیوں کھیلیں
اک کچے اوسارے میں روتا ہوا بچپن ہے
ہر پل جہاں پتوں کی پازیب چھنکتی ہے
یہ دشت کی پہنائی میرے لئے آنگن ہے

1969ء
 

الف عین

لائبریرین
سوندھی مٹی کی مہک دور سے آتی ہے مجھے
سرد رحمت کی خبر آ کے سناتی ہے مجھے
روح جنگل کی مسلسل مجھے آواز نہ دے
ایک آنسو کی خبر گھر میں بلاتی ہے مجھے
کتنا مظلوم ہوں ، آواز کا ایک قیدی ہوں
اک صدا ہے کہ جو گھنٹی سا بجاتی ہے مجھے
ایک کوچہ ہے کہ جو پاؤں مرے تھامے ہے
ایک آواز جرس ہے جو بلاتی ہے مجھے
میں نے کچھ سوچانہ تھا ، یوں ہی جل اٹھا تھا عبیدؔ
دیو داسی کوئی مندر میں سجاتی ہے مجھے

1969ء
 

الف عین

لائبریرین
یہ حقیر سا تحفہ ، کتنا بیش قیمت ہو جب وہ سب سے چھپ کر دے
اک اکیلے کمرے میں ننھی سیپ میں رکھ کر پیار کا سمندر دے
ان اندھیری راتوں میں جگنوؤں کی ننھی سی روشنی غنیمت ہے
اے خدا ، رہائی کے بعد، اپنی روحوں کو جگنوؤں کا پیکر دے
ٹوٹی چوڑیاں جیسے بے صدا خموشی میں داستاں سی کہتی ہیں
صرف مدعا یہ ہے برف سے لباسوں میں کوئی روشنی بھر دے
چاند کی محبت تھی ہم کو سرد کرنوں کی آگ سے جلا ڈالا
اے خدا ہمیں کوئی اتنی ہی محبت سے آگ کا سمندر دے
شعروں کے تصوّر میں کھوئے کھوئے ذہنوں کو یہ خیال تو آیا
ان اندھیرے کمروں میں یادوں کے دیئے رکھ کر کوئی چاندنی کردے

1969ء
***
 

الف عین

لائبریرین
یہ حقیر سا تحفہ ، کتنا بیش قیمت ہو جب وہ سب سے چھپ کر دے
اک اکیلے کمرے میں ننھی سیپ میں رکھ کر پیار کا سمندر دے
ان اندھیری راتوں میں جگنوؤں کی ننھی سی روشنی غنیمت ہے
اے خدا ، رہائی کے بعد، اپنی روحوں کو جگنوؤں کا پیکر دے
ٹوٹی چوڑیاں جیسے بے صدا خموشی میں داستاں سی کہتی ہیں
صرف مدعا یہ ہے برف سے لباسوں میں کوئی روشنی بھر دے
چاند کی محبت تھی ہم کو سرد کرنوں کی آگ سے جلا ڈالا
اے خدا ہمیں کوئی اتنی ہی محبت سے آگ کا سمندر دے
شعروں کے تصوّر میں کھوئے کھوئے ذہنوں کو یہ خیال تو آیا
ان اندھیرے کمروں میں یادوں کے دیئے رکھ کر کوئی چاندنی کردے

1969ء
***
 

الف عین

لائبریرین
دریاؤں کے پانی میں ڈوبا ہوا پتھر ہوں
خاموش کناروں کا چوما ہوا ساگر ہوں
سونے ہی نہیں دیتی یادوں میں بسی خوشبو
ان سرد سے شعلوں میں جلتا ہوا پیکر ہوں
یہ ہاتھ دعاؤں کو اٹھتے ہیں تو اٹھنے دو
ان ہاتھوں کی برکت ہوں ، ان کا ہی مقدر ہوں
ہم کو بھی اشاروں کی آئی نہ زباں آخر
ماتھے یہ چبھی انگلی اب دیکھ دے ششدر ہوں
ہاتھوں کی لکیریں یہ بتلا نہ سکیں مجھ کو
طوفانی ندی میں اب بہتا ہوا منظر ہوں

1969ء
 

الف عین

لائبریرین
مجھے سکوتِ سمندر دکھائی دینے لگا
ہوا کے ہاتھ میں نشتر دکھائی دینے لگا
یہ لوگ کب سے مرے خون کے پیاسے ہیں
میں اپنے خول کے باہر دکھائی دینے لگا ؟
یہ لوگ کہتے ہیں بادل کا ایک ٹکڑا ہے
مجھے خلا میں کبوتر دکھائی دینے لگا
یہ لوگ مرے لہو کا خراج مانگتے ہیں
کہ مجھ میں ان کو پیمبر دکھائی دینے لگا
یہ لوگ اس کو بڑا معجزہ سمجھتے ہیں
میں ان کو جسم کے باہر دکھائی دینے لگا
بہت سے لوگوں نے اک ساتھ کہہ دیا بزدل
میں ایک پل میں تونگر دکھائی دینے لگا
بہت عجیب سے جذبے تھے میرے چہرے پر
وہ مجھ کو دیکھ کے ششدر دکھائی دینے لگا
یہ میرا ذہن بھی آئینہ خانہ ہے شاید
وہ شخص ایک تھا ستّر دکھائی دینے لگا

1969ء
***
 

الف عین

لائبریرین
یہ شوخ بچّے بڑے ہی غریب لگتے ہیں
کبھی کبھی یہ ستارے عجیب لگتے ہیں
قریب ہوں گے تو احساسِ فاصلہ ہوگا
یہ لوگ دور سے کتنے قریب لگتے ہیں
بہت سے نام ہیں اس ٹھہرے ٹھہرے پانی پر
سیاہیوں سے لکھے ہیں، نصیب لگتے ہیں
کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے شعر جھوٹے ہیں
ہم اپنی غزلوں میں کتنے عجیب لگتے ہیں
قریب جاؤ تو منظر ہرے بھرے ہیں عبیدؔ
یہ دشت دور سے کتنے مُہیب لگتے ہیں

1969ء
 

الف عین

لائبریرین
اندھے سے اک جزیرے سے کوئی پکار دے
کرنوں کے ساگروں میں ہمیں پھر اتار دے
بے منزلی کا مسئلہ گمبھیر ہو چکا
گاڑھے دھوئیں کو سرد ہوا اب قرار دے
ہم خود ہی گھومنے لگیں سیّاروں کی طرح
محور کہیں ملے، کوئی ہم کو مدار دے
پانی کی تہہ میں دیوتا کب سے اداس ہیں
کشتی کوئی ہواؤں کی زد پر اتار دے
چھپ کر ’ہم ایسے‘ دشمنوں پر وار کر سکیں
ان کو اندھیری رات سا گہرا غبار دے
کھل جائیں چند لمحوں میں ہم پھول کی طرح
ہم کو کوئی ہوا کی صدا میں پکار دے

1969ء
 
Top