تحریرِ آبِ زرر۔۔ اعجاز عبید

الف عین

لائبریرین
یہ کیسی رات، کہیں دور تک خدا بھی نہیں
ضرور کوئی پیمبر یہاں ہوا بھی نہیں
یہ اک ہجوم ابھی سے کنارے پر کیوں ہے
ابھی یہاں تو تماشہ کوئی ہوا بھی نہیں
کوئی تو ہو جو مجھے شاخ سے جدا کر دے
ہوا کے ہاتھ کا چاقو مگر کھُلا بھی نہیں
چلیں چمن کو، کہ پہلی کلی کا سواگت ہو
خزاں کے ہاتھ میں نیزہ کوئی بچا بھی نہیں
یہ سوچتا ہوں کہ یہ باب بند کر دوں آج
کہا کروں کہ میں اُس شخص سے ملا بھی نہیں

1971ء
 

الف عین

لائبریرین
دیکھ کے بحر بے کنار، لوگ سبھی ٹھہر گئے
ہم تو سفر نصیب تھے، لمحوں میں پار اتر گئے
سر ملے سارے بے بدن، انُ پہ کفن بندھے ہوئے
لوگ جو اپنے ساتھ تھے، آج وہ سب کدھر گئے
کیسا طلسم دائرہ، کیسی کمندِ موج تھی
کچھ بھی خبر نہیں کہ کون ہم کو اسیر کر گئے
سنتے رہے کہ آج کل بحر میں پیچ و تاب ہے
ہم تو سدا کے بے خبر، مثل ہوا گزر گئے
سمت بغیر ساعتیں کون سے شہر لے گئیں
پہلے تو سنگ بن گئے، ریت سے پھر بکھر گئے
والئِ شہر کون ہے؟ پوچھ رہی تھی اک صدا
ہم ایسے حالِ بد، کسی سے کیا کہتے ، چپ گزر گئے

1971ء
 

الف عین

لائبریرین
عجب بکھرتے سے منظر نظر کے آگے ہیں
طنابیں ٹوٹتی گِرتے اکھڑتے خیمے ہیں
ہمارے گرد درندوں کے ننگے چہرے ہیں
کہاں گئے جو کہتے تھے "ہم فرشتے ہیں‘‘
کسی طرح سہی، شعلہ بنیں، بکھر جائیں
سلگتے پیڑ ہوا کو ترستے رہتے ہیں
نکیلے نیزوں کو سر کا عَلَم مبارک ہو
تمام دشمنوں سے کہہ دو، ہم اکیلے ہیں
اب آج سچّا کوئی شعر کیا کہیں گے کہ ہم
تمام رات یہ آرام خوب سوئے ہیں

1971ء
 

الف عین

لائبریرین
صدف کے کان میں اک بات کر کے سب چپ تھے
پھر اس کے بعد، سِوا اک گہر کے ، سب چپ تھے
بجھے بجھے تھے تو ہم روشنی بھی دے نہ سکے
صدا کی طرح ہوا میں بکھر کے سب چپ تھے
نہ جانے کیسا انہونا سا حادثہ تھا وہ
بس ایک لمحے میں افراد گھر کے سب چپ تھے
سمجھ رہے تھے سمندر میں کچھ خزانے ہیں
نشیبِ بحر میں لیکن اتر کے سب چپ تھے
خدا کرے یہ کہیں میری بد دعا ہی نہ ہو
جو بولتے ہوئے تھے عمر بھر کے، سب چپ تھے

1972ء
 

الف عین

لائبریرین
اس نے دیکھا تھا عجب ایک تماشا مجھ میں
میں جو رویا تو کوئی ہنستا رہا تھا مجھ میں
میری آنکھوں سے خبر جان نہ لی ہو اس نے
کوئی بادل تھا، بہت ٹوٹ کے برسا مجھ میں
جھانکنے سے مری آنکھوں میں سبھی ڈرنے لگے
جب سے اترا ہے کوئی آئینہ خانہ مجھ میں
کیا ہوا تھا مجھے کیوں سوچتا تھا اس کے خلاف
ورنہ اس کو تھا عجب ایک عقیدا مجھ میں
ساتھ ساتھ اس کے میں خود روتا رہا تھا اس شام
اس کو دیتا جو دلاسہ وہ نہیں تھا مجھ میں

1972ء
 

الف عین

لائبریرین
افق کے پار کوئی رہگزر نہ دیکھ سکے
کوئی چراغ بھی حدّ نظر نہ دیکھ سکے
فصیلوں پار بہت چاندنی بکھرتی رہی
اترتے چاند کو دل میں مگر نہ دیکھ سکے
چمکتی دھار کا لمحہ ہماری آخری یاد
رگِ گلو میں چبھا نیشتر نہ دیکھ سکے
ہتھیلیوں پہ رکھی شمعیں ساری رات جلیں
پھر اس کے بعد کبھی ہم سحر نہ دیکھ سکے
تمام عمر رہی دل میں گونجتی اک بات
وہ اتنا چُپ تھا کہ ہم بول کر نہ دیکھ سکے

1972ء
 

الف عین

لائبریرین
ابھی نہ اترے گا دریا، چڑھاؤ پر ہے بہت
رواں ہی رہنے دو کشتی، ابھی سفر ہے بہت
اب آرزو نہ رہی کوئی، ورنہ اب کیا تھا
سنا ہے اپنا ستارہ عروج پر ہے بہت
نہ جانے کون سی بھولی کہانی یاد آئی
خبر سنی ہے کہ وہ آج چشم تر ہے بہت
دعا قبول ہوئی، یہ کہانیوں میں پڑھا
کہ بد دعاؤں میں سنتے ہیں اب اثر ہے بہت
کوئی نہ ہو تو یہ سارا جہان بے معنی
ہو کوئی ساتھ تو پھر ہم کو ایک گھر ہے بہت

1972ء
 

الف عین

لائبریرین
(محبوب خزاں کے لیے)

غم بھی اتنا نہیں کہ تم سے کہیں
اور چارہ نہیں کہ تم سے کہیں
آج ہم بے کراں سمندر ہیں
تم وہ دریا نہیں کہ تم سے کہیں
یوں تو مرنے سے چین ملتا ہے
یہ ارادہ نہیں کہ تم سے کہیں
نیلی آنکھوں کی چاندنی کے لیے
اب اندھیرا نہیں کہ تم سے کہیں
تم اکیلے نہیں رہے تو کیا
ہم بھی تنہا نہیں کہ تم سے کہیں
اب نہ وہ غم کہ اپنے ہاتھ عبیدؔ
شبنم آسا نہیں کہ تم سے کہیں

1972ء
 

الف عین

لائبریرین
کیا تھا کیا کہ مجھے ایسا بادبان دیا
ہوا کی سمتِ مخالف میں مجھ کو تان دیا
تمہاری آنکھیں مری داستاں پہ نم کیوں ہیں
زمین میری تھی، پھر تم نے کیوں لگان دیا
یہ کون کہتا ہے زنجیر پائی کا غم ہے
مجھے یہ دکھ ہے کہ اس نے غلط بیان دیا
عجیب تھا وہ ، مجھے دھوپ سے بچانے کو
کہ جس نے مجھ کو یہ شعلوں کا سائبان دیا

1972ء
 

الف عین

لائبریرین
(ناصر کاظمی کے لیے)

کہیں کھو نہ جائے یہ چاند بھی۔ ابھی چپ رہو
ابھی برف برف ہے چاندنی۔ ابھی چپ رہو
جو ندی چڑھے گی تو خود ہی کہہ دے گی ساری بات
ابھی ناؤ اپنی ہے ڈولتی، ابھی چپ رہو
وہ جو نیزہ سر پہ لٹک رہا ہے، نہ گر پڑے
کہیں بات کاٹ دے خامشی، ابھی چپ رہو
ابھی صرف سُن ہی ہوئی ہیں ہاتھوں کی انگلیاں
ابھی رنگ لائے گی بے حسی، ابھی چپ رہو
وہ کہاں ہیں لب ۔ کہ یہ روئے تو اسے چپ کریں
اسے شور و شر سے ہے دشمنی ابھی چپ رہو

1973ء
 

الف عین

لائبریرین
اس سے رشتے کو اپنی آس کہیں
لب بھی کیا خود کو ہم اداس کہیں
پیاسی دھرتی صلائے عام کہے
ہم خدا کی ادائے خاص کہیں
جو تعلق کہ اس کی ذات سے ہے
کیا کہیں اس کو، گر نہ آس کہیں
دور جنگل میں آگ کا منظر
اپنے اندر جو ہو تو پاس کہیں
یوں کہیں داستاں ۔۔ کہ ہنستے لوگ
’’ہم بھی لو ہو گئے اُداس‘‘ کہیں

1973ء
 

الف عین

لائبریرین
جب آفتاب ادھر آئے جگمگاؤں گا
میں آنسوؤں کی طرح کیسے ٹوٹ جاؤں گا
ہر ایک چہرے پہ گردِ سفر اُڑاؤں گا
ہزار روکیں گے سب ، میں گزر بھی جاؤں گا
اگر سفید کبوتر مرا لہو پی لے
مجھے یقیں ہے، شہادت کا درجہ پاؤں گا
(ق)
ہر ایک طور مری واپسی یقینی ہے
جو اب کے نکلا تو پھر لوٹ کر بھی آؤں گا
سمندروں میں جزیروں کی طرح اُبھروں گا
تو شاخ پر کبھی کلیوں سا سر اٹھاؤں گا

ہر ایک بوند لہو کی بنائے گی اک فوج
میں اب کے خود پہ جو تلوار آزماؤں گا
ابھی یہ روتی ہوئی ننھی بچی ہنس دے گی
میں مٹی پانی سے وہ فاختہ بناؤں گا
کہو تو رنگ دوں یہ پیلی ریت کے ذرے
کہا نہ تھا کہ یہ موسم بدلنے آؤں گا
سنا ہے آج اسے بے سبب اداسی ہے
میں اس کی آنکھوں میں شمعیں جلانے آؤں گا

1973ء
 

الف عین

لائبریرین
کس سے ملنے جاؤ اب کس سے ملاقاتیں کرو
تم اکیلے ہو دلِ تنہا سے ہی باتیں کرو
پھر یوں ہی مِل بیٹھیں ہم، اور دکھ بھری باتیں کریں
ہاتھ اُٹھا کر یہ دعا مانگو، مناجاتیں کرو
سب پرندے اپنے اپنے جنگلوں میں کھو گئے
اب تو ہلتی ڈالیوں سے بیٹھ کر باتیں کرو
اتفاقاً ہم تمہارے سائے سے گزریں کبھی
بادلو، تم پیار کے لمحوں کی برساتیں کرو
اب تو جیسے اس عمارت کو بھی چپ سی لگ گئی
کھڑکیو، دروازو ، چہکو ، گاؤ، کچھ باتیں کرو

1973
 

الف عین

لائبریرین
ہے دھوپ کا سفر، پہ شجر درمیاں میں ہے
یعنی کسی حسین کا گھر درمیاں میں ہے
اک سمت گہرے پانی ہیں، اک سمت سرخ ریت
پھولوں بھری سی ایک ڈگر درمیاں میں ہے
ہر اک طرح کا رختِ سفر ساتھ لے چلیں
کیا جانیں کیسی راہگزر درمیاں میں ہے
دونوں ہی ایک کمرے میں کب سے اکیلے ہیں
پاکیزگی کا رشتہ مگر درمیاں میں ہے
پھر اس کے بعد ہے وہ سنہری مکاں کا شہر
اندھی سی ایک راہ گزر درمیاں میں ہے
بس اس بیاں پہ ختم ہے یہ داستان فتح
نیزے چہار سمت ہیں، سر درمیاں میں ہے

1973ء
 

الف عین

لائبریرین
(چھند دوہا)
ڈھونڈیں کے پھر ہم کہاں ، ساگر ساگر پھول
اگلے برس جانے کہاں، جائے گا بہہ کر پھول
شعر کہے تو یوں لگا آج کئی دن بعد
بادل چاروں اور ہیں، اندر باہر پھول
پھینکے بھی تو اُٹھائے کون، بانٹے بھی تو کسے
دھن شاعر کے پاس کیا، ہوا، سمندر، پھول
سورج پر تو ابر تھے، کرنیں کیسے آئیں
جسم میں کیوں مُرجھا گیا ، اندر اندر پھول
تاروں کا پردہ ہٹا، اور کوئی دیوی
سونے کے اک تھال میں ، لائی سجا کر پھول
پتھر پھینکے تال میں، ہم دونوں نے آج
کل عبیدؔ تم پاؤ گے لہر لہر پر پھول

1973ء
 

الف عین

لائبریرین
ہم دئے کس ادا سے روشن ہیں
اس کی دامن ہوا سے روشن ہیں
نیزے، نیزوں کی نوکوں پر شعلے
شعلے شعلے میں کاسے روشن ہیں
کتنے تاریک لوگ اپنے یہاں
اپنی شعلہ نوا سے روشن ہیں
اور ہم بوند بوند نور لئے
اپنے غارِ حرا سے روشن ہیں
آنسو آنسو قرآن کی سورت
ہونٹ اس کے دعا سے روشن ہیں
پھر بھی آنکھوں کے دیپ چمکیں گے
لاکھ سورج بلا سے روشن ہیں
تشنگی بھی کرن کرن ہے عبیدؔ
ریت کے ذرے پیاسے روشن ہیں

1973ء
 

الف عین

لائبریرین
کہنے کو کچھ نہیں تھا، سب لوگ چپ کھڑے تھے
آنکھوں کے دیپ لیکن چپ چاپ جل رہے تھے
بس پھر وہ آخری تھا اپنے ملن کا لمحہ
ہم دونوں اک شجر کے سائے میں رو رہے تھے
پھر کوئی نوک نیزہ سر سرخ ہو گئی تھی
ہر سنگ پر لہو تھا، جس رہ پہ ہم چلے تھے
پھر یہ خبر کسے تھی، اب کس کی داستاں ہے
ہم اپنی کہتے کہتے شاید کہ سو گئے تھے
اک سمت جنگلوں میں پاگل ہوا کے نوحے
اک سمت اک الاؤ۔ سب آلہا گا رہے تھے

1973ء
 

الف عین

لائبریرین
جو مجھے شکلِ نگینہ دیتا ایسا کون تھا
دوسرے مجھ بیش قیمت کا شناسا1 کون تھا
یہ وہ لمحہ تو نہیں جس سے کہ وابستہ تھا میں
میرے اندر ہم نوا دل کے دھڑکتا کون تھا
ایک اک کر کے سبھی بادل بکھر کر رہ گئے
آسمانوں پر زمیں کا پھر شناسا کون تھا
نوچ ڈالے تھے سبھی نے اپنے اپنے سب نقاب
پھر بھی اک چہرہ لگا تھا آشنا سا، کون تھا؟
ریزہ ریزہ ہر کنارہ توڑتا جاتا تھا میں
لمحہ لمحہ میرے اندر سر اُٹھاتا کون تھا
...........................
1۔ ایطا کا مجھے احساس ہے
1973ء
 

الف عین

لائبریرین
دو غزلیں
ایک (مسلسل)

ایسے ہی دن تھے کچھ ایسی شام تھی
وہ مگر کچھ اور ہنستی شام تھی
بہہ رہا تھا سرخ سورج کا جہاز
مانجھیوں کے گیت گاتی شام بھی
صبح سے تھیں ٹھنڈی ٹھنڈی بارشیں
پھر بھی وہ کیسی سلگتی شام تھی
گرم الاؤ میں سلگتی سردیاں
دھیمے دھیمے ہیر گاتی شام تھی
گھیر لیتے تھے طلائی دائرے
پانیوں میں بہتی بہتی شام تھی
عرشے پر ہلتے ہوئے دو ہاتھ تھے
ساحلوں کی بھیگی بھیگی شام تھی
کتنی راتوں کو ہمیں یاد آئے گی
اپنی اکلوتی سہانی شام تھی
شاخ سے ہر سرخ پتّی گر گئی
پھر وہی بوجھل سی پیلی شام تھی
چاندی چاندی رات کو یاد آئے گی
سونا سونا سی رنگیلی شام تھی
سولہویں زینے پہ سورج تھا عبیدؔ
جنوری کی اک سلونی شام تھی
 

الف عین

لائبریرین
دو:.

پیڑ کے پیچھے ہمکتی شام تھی
تازہ پھولوں کی وہ پہلی شام تھی
پھر اچانک چھپ گئے تارے تمام
ورنہ کیسی ٹھنڈی بھیگی شام تھی
اُس طرف راتوں کا لشکر تھا عظیم
اِس طرف تنہا نِہتّی شام تھی
مندروں میں جاوداں سی ہو گئی
دویہ1 پیتل سی سنہری شام تھی
صبح کاذب کے اندھیرے چونک اٹھے
شمع دانوں میں پگھلتی شام تھی
(1)दिव्य

1973ء
 
Top