تازہ غزل برائے اصلاح

جو تیری بات سنیں ان سے نبھا کیوں نہیں کرتے؟
جو تجھے چاہتے ہیں ان سے وفا کیوں نہیں کرتے؟

ہر کسی سے ہے تمہیں ذوق شناسائی مگر سن
تم کسی ایک ہی چہرے پہ ڈٹا کیوں نہیں کرتے؟

یہ تمہاری ہے ادا یا کہ جلانا ہمیں مقصود
تم رقیبوں سے مری جان بچا کیوں نہیں کرتے؟

ہجر کے دور کی تلخی ہے، بُجھے رہتے ہیں
تم مرے حق میں مری جان دعا کیوں نہیں کرتے؟

بارشیں، دھوپ اور شبنم تیرا ہی عکس رکھتے ہیں
تم اپنی یاد کے پنجرے سے رہا کیوں نہیں کرتے؟

فخر تم ان کی بے رخی کا گلہ کیوں نہیں کرتے؟
وصل کے دور میں وہ ہم سے ملا کیوں نہیں کرتے؟
 
تقریباً تمام ہی اشعار میں وزن کا مسئلہ ہے۔
مطلع میں قوافی درست نہیں۔ نبھا کرنا نہیں، نباہ کر کرنا درست املا ہے، اور میرے خیال میں یہاں ہ ساقط نہیں ہوسکتی ۔
نباہنا کا ایک تلفظ نبھانا تو معروف ہے ۔۔۔ لیکن نبھا کرنا کبھی نظر سے نہیں گزرا۔
 
تقریباً تمام ہی اشعار میں وزن کا مسئلہ ہے۔
مطلع میں قوافی درست نہیں۔ نبھا کرنا نہیں، نباہ کر کرنا درست املا ہے، اور میرے خیال میں یہاں ہ ساقط نہیں ہوسکتی ۔
نباہنا کا ایک تلفظ نبھانا تو معروف ہے ۔۔۔ لیکن نبھا کرنا کبھی نظر سے نہیں گزرا۔

بہت جتاتے ہو چاہ ہم سے ، کرو گے کیسے نباہ ہم سے؟
ذرا ملاو نگاہ ہم سے ، ہمارے پہلو میں آ کے بیٹھو
ابن انشاء
 

عاطف ملک

محفلین
جو تیری بات سنیں ان سے نباہ کیوں نہیں کرتے؟
جو تجھے چاہتے ہیں ان سے وفا کیوں نہیں کرتے؟
السلام علیکم،
فخر صاحب،
راحل بھائی کی اس بات سے متفق ہوں کہ تقریباً تمام اشعار میں ہی وزن کا مسئلہ ہے یعنی مصرع بحر سے خارج ہے۔اس کے علاوہ مطلع میں ہمارے ناقص فہم کے مطابق شتر گربہ ہے یعنی ایک ہی مخاطب کیلیے "تیرے" اور "کَرتے" کا استعمال کیا گیا ہے۔یا تو اول الذکر کو تمہارا کریں یا پھر مؤخرالذکر میں "کرتا" لگایا جائے جو یقیناً ردیف کو تبدیل کر دے گا۔
یہ سقم دور کر کے اشعار کو کسی ایک بحر میں لائیے اور دوبارہ پوسٹ کیجیے۔والسلام
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
جو تیری بات سنیں ان سے نباہ کیوں نہیں کرتے؟
جو تجھے چاہتے ہیں ان سے وفا کیوں نہیں کرتے؟
موضوع اس وقت صرف نباہ اور نبھا کے استعمال کا تھا جس پر میں نے رائے دی تھی، ابن انشاء کا شعر سند کے لیے جو فخر سعید نے پیش کیا تھا۔ اس سے شایف فخر میاں نے یہ سمجھ لیا کہ باقی پوری غزل درست ہے، صرف نبھا کرنے کی غلطی ہے جسے نباہ کرنا سے تبدیل کر کے پھر پوسٹ کیا ہے( پوسٹ کرنے کی وجہ بھی لکھ دیا کریں، اگر واقعی اصلاح کے متمنی ہیں تو چاہئے کہ ہر بار اپنی بات واضح کر کے لکھیں، ابن انشاء کا شعر کیوں پوسٹ کیا یا مذکورہ شعر( اگر اسے شعر کہا جا سکتا ہے تو... ) کیوں، یہ محض گمان کءا ہے میں نے کہ ابن انشاء کو سند کے لئے اور اقتباس شدہ سطور اپنے 'شعر' کی 'تصحیح شدہ' صورت کو مزید اصلاح کے لئے پوست کیا ہے۔ واللہ اعلم ہم نے درست سمجھا یا نہیں۔ بہر حال اگر یہ اصلاح کے لئے ہے تو یہ مطلع نہیں ہو سکتا کہ نباہ اور وفا قافیہ نہیں ہو سکتے۔
اور بنیادی بات تو وہی ہے کہ شعر کو کسی بحر میں ہونا ضروری ہے، نثری نظم تو کہی جا سکتی ہے لیکن نثری غزل، الحمد للہ، آج تک نہیں کہی گئی اور نہ قبول کی گئی
 
موضوع اس وقت صرف نباہ اور نبھا کے استعمال کا تھا جس پر میں نے رائے دی تھی، ابن انشاء کا شعر سند کے لیے جو فخر سعید نے پیش کیا تھا۔ اس سے شایف فخر میاں نے یہ سمجھ لیا کہ باقی پوری غزل درست ہے، صرف نبھا کرنے کی غلطی ہے جسے نباہ کرنا سے تبدیل کر کے پھر پوسٹ کیا ہے( پوسٹ کرنے کی وجہ بھی لکھ دیا کریں، اگر واقعی اصلاح کے متمنی ہیں تو چاہئے کہ ہر بار اپنی بات واضح کر کے لکھیں، ابن انشاء کا شعر کیوں پوسٹ کیا یا مذکورہ شعر( اگر اسے شعر کہا جا سکتا ہے تو... ) کیوں، یہ محض گمان کءا ہے میں نے کہ ابن انشاء کو سند کے لئے اور اقتباس شدہ سطور اپنے 'شعر' کی 'تصحیح شدہ' صورت کو مزید اصلاح کے لئے پوست کیا ہے۔ واللہ اعلم ہم نے درست سمجھا یا نہیں۔ بہر حال اگر یہ اصلاح کے لئے ہے تو یہ مطلع نہیں ہو سکتا کہ نباہ اور وفا قافیہ نہیں ہو سکتے۔
اور بنیادی بات تو وہی ہے کہ شعر کو کسی بحر میں ہونا ضروری ہے، نثری نظم تو کہی جا سکتی ہے لیکن نثری غزل، الحمد للہ، آج تک نہیں کہی گئی اور نہ قبول کی گئی
جو تیری بات سنے اس سے وفا کیوں نہیں کرتا؟
جو تیری راہ تکے اس سے مِلا کیوں نہیں کرتا؟

ہر کسی سے ہے تجھے پیار کی امید مگر یار
تو کسی ایک ہی چہرے پہ ڈٹا کیوں نہیں کرتا؟

تجھے معلوم ہے نا اصل میں دنیا یہ کیسی ہے؟
تو رقیبوں سے مری جان بچا کیوں نہیں کرتا؟

ہجر کے دور کی تلخی ہے، بُجھا رہتا ہوں
تو مرے حق میں مرے یار دعا کیوں نہیں کرتا؟

بارشیں، دھوپ اور شبنم تیرا ہی عکس رکھتے ہیں
تو اپنی یاد کے پنجرے سے رہا کیوں نہیں کرتا؟

فخر تم اس کی بے رخی کا گلہ کیوں نہیں کرتے؟
وصل کے دور میں وہ ہم سے ملا کیوں نہیں کرتا؟
 
موضوع اس وقت صرف نباہ اور نبھا کے استعمال کا تھا جس پر میں نے رائے دی تھی، ابن انشاء کا شعر سند کے لیے جو فخر سعید نے پیش کیا تھا۔ اس سے شایف فخر میاں نے یہ سمجھ لیا کہ باقی پوری غزل درست ہے، صرف نبھا کرنے کی غلطی ہے جسے نباہ کرنا سے تبدیل کر کے پھر پوسٹ کیا ہے( پوسٹ کرنے کی وجہ بھی لکھ دیا کریں، اگر واقعی اصلاح کے متمنی ہیں تو چاہئے کہ ہر بار اپنی بات واضح کر کے لکھیں، ابن انشاء کا شعر کیوں پوسٹ کیا یا مذکورہ شعر( اگر اسے شعر کہا جا سکتا ہے تو... ) کیوں، یہ محض گمان کءا ہے میں نے کہ ابن انشاء کو سند کے لئے اور اقتباس شدہ سطور اپنے 'شعر' کی 'تصحیح شدہ' صورت کو مزید اصلاح کے لئے پوست کیا ہے۔ واللہ اعلم ہم نے درست سمجھا یا نہیں۔ بہر حال اگر یہ اصلاح کے لئے ہے تو یہ مطلع نہیں ہو سکتا کہ نباہ اور وفا قافیہ نہیں ہو سکتے۔
اور بنیادی بات تو وہی ہے کہ شعر کو کسی بحر میں ہونا ضروری ہے، نثری نظم تو کہی جا سکتی ہے لیکن نثری غزل، الحمد للہ، آج تک نہیں کہی گئی اور نہ قبول کی گئی

اب دوبارہ پڑھ کر اصلاح کریں استادِ محترم! شکریہ :)
 
السلام علیکم،
فخر صاحب،
راحل بھائی کی اس بات سے متفق ہوں کہ تقریباً تمام اشعار میں ہی وزن کا مسئلہ ہے یعنی مصرع بحر سے خارج ہے۔اس کے علاوہ مطلع میں ہمارے ناقص فہم کے مطابق شتر گربہ ہے یعنی ایک ہی مخاطب کیلیے "تیرے" اور "کَرتے" کا استعمال کیا گیا ہے۔یا تو اول الذکر کو تمہارا کریں یا پھر مؤخرالذکر میں "کرتا" لگایا جائے جو یقیناً ردیف کو تبدیل کر دے گا۔
یہ سقم دور کر کے اشعار کو کسی ایک بحر میں لائیے اور دوبارہ پوسٹ کیجیے۔والسلام
وعلیکم السلام!
جناب کچھ مصروفیات کی وجہ سے جواب نہیں دے پاتا، ہاں پڑھ ضرور لیتا ہوں۔ آپ کے جواب کا بے حد شکریہ۔ کچھ تبدیلیاں کی ہیں غزل میں، آپ بھی دیکھ لیں اور مزید اس میں اصلاح کر کے بتاءیں۔ امید ہے آپ مستقبل میں بھی میری اصلاح کرتے رہیں گے۔ ابھی میرا علم بہت کم ہے۔
دعا گو ہیں آپ کے لیے والسلام۔
 
تقریباً تمام ہی اشعار میں وزن کا مسئلہ ہے۔
مطلع میں قوافی درست نہیں۔ نبھا کرنا نہیں، نباہ کر کرنا درست املا ہے، اور میرے خیال میں یہاں ہ ساقط نہیں ہوسکتی ۔
نباہنا کا ایک تلفظ نبھانا تو معروف ہے ۔۔۔ لیکن نبھا کرنا کبھی نظر سے نہیں گزرا۔
آپ سمجھ تو گیے ہوں گے میرا علم بہت کم ہے، تبھی یہاں رجوع کیا تاکہ علم بھی حاصل ہو اور اپنی کی ہوءی غلطیوں سے آگاہی ملے، دوبارہ کچھ تبدیلیاں کی ہیں، آپ دیکھ کر بتاءیں مزید اصلاح کے پہلو۔ جزاک اللہ
 

الف عین

لائبریرین
بھائی مستعمل بحور میں شاعری کریں، اپنی بحریں اختراع نہ کریں
اس کی نزدیک ترین بحر ہو گی
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن
مثال
مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ
تمہاری غزل کی ردیف اگر کرتا کی جگہ صرف کر ہوتی تو زیادہ تر مصرعے درست بحر میں ہوتے۔
اب بھی میرا مشورہ ہے کہ اس کو اس بحر کے مطابق ڈھال کر پھر کہو
جیسے
جو تیری بات سنے اس سے وفا کیوں نہ کرے
فی الحال بس یہ مصرع درست ہے
ہجر کے دور کی تلخی ہے، بُجھا رہتا ہوں
 
بھائی مستعمل بحور میں شاعری کریں، اپنی بحریں اختراع نہ کریں
اس کی نزدیک ترین بحر ہو گی
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن
مثال
مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ
تمہاری غزل کی ردیف اگر کرتا کی جگہ صرف کر ہوتی تو زیادہ تر مصرعے درست بحر میں ہوتے۔
اب بھی میرا مشورہ ہے کہ اس کو اس بحر کے مطابق ڈھال کر پھر کہو
جیسے
جو تیری بات سنے اس سے وفا کیوں نہ کرے
فی الحال بس یہ مصرع درست ہے
ہجر کے دور کی تلخی ہے، بُجھا رہتا ہوں
جو تیری بات سنے اس سے وفا کیوں نہ کرے
جو تیری راہ تکے اس سے مِلا کیوں نہ کرے

پیار اب تجھ کو تو ہر ایک سے ملنے سے رہا
تو کسی ایک ہی چہرے پہ ڈٹا کیوں نہ کرے

میں بتاتا ہوں مگر تو ہے کہ سمجھے ہی نہیں
تو رقیبوں سے مری جان بچا کیوں نہ کرے

ہجر کے دور کی تلخی ہے، بُجھا رہتا ہوں
تو مرے حق میں مرے یار دعا کیوں نہ کرے

مرے صیاد تجھے ہاتھ جوڑے کہتا ہوں
تو مجھے یاد کے پنجرے سے رہا کیوں نہ کرے

فخر تم اس کی بے رخی کا گلہ کیوں نہ کرے
وصل کے دور میں وہ مجھ سے ملا کیوں نہ کرے

مزید اصلاح کریں استادِ محترم!
 

عاطف ملک

محفلین
السلام علیکم فرخ صاحب،
آپ خود بھی اعتراف کر چکے ہیں کہ عروض کے متعلق آپ کا علم زیادہ نہیں ہے۔اس لیے ہمارا مشورہ ہے کہ عروض پڑھیے۔کیونکہ عروض کا بنیادی علم ہونا شعر کہنے کے لیے ضروری ہے۔
فی الوقت میں صرف اشعار کے وزن کے متعلق(اپنی فہم کے مطابق)گفتگو کروں گا اور کوشش کروں گا کہ کسی اور بات کا ذکر نہ ہو۔

جو تیری بات سنے اس سے وفا کیوں نہ کرے
جو تیری راہ تکے اس سے مِلا کیوں نہ کرے
درست
پیار اب تجھ کو تو ہر ایک سے ملنے سے رہا
تو کسی ایک ہی چہرے پہ ڈٹا کیوں نہ کرے
مصرع اور میں پیار کی ی کا اسقاط ہو رہا ہے جو ناگوار محسوس ہوتا ہے
میں بتاتا ہوں مگر تو ہے کہ سمجھے ہی نہیں
تو رقیبوں سے مری جان بچا کیوں نہ کرے
سمجھے ہی نہیں شاید درست محاورہ نہیں ہے یا مستعمل نہیں ہے۔البتہ دونوں مصرع بحر کے حساب سے درست ہیں
ہجر کے دور کی تلخی ہے، بُجھا رہتا ہوں
تو مرے حق میں مرے یار دعا کیوں نہ کرے
درست
مرے صیاد تجھے ہاتھ جوڑے کہتا ہوں
تو مجھے یاد کے پنجرے سے رہا کیوں نہ کرے
یہ بھی درست لگ رہا ہے مجھے
فخر تم اس کی بے رخی کا گلہ کیوں نہ کرے
وصل کے دور میں وہ مجھ سے ملا کیوں نہ کرے
یہاں آپ مقطع کی بجائے ایک اور مطلع لے آئے ہیں۔یا تو اس کو حسنِ مطلع کیجیے یا پھر پہلے مصرع کو تبدیل کیجیے۔
اس کے علاوہ یہاں شتر گربہ ہے۔اصولاً تو یہ ہونا چاہیے کہ فخر تم اس کی بے رخی کا گلہ کیوں نہ کرو،کیا کہتے ہیں؟
 

الف عین

لائبریرین
فخر میاں اپنے اشعار کے علاوہ بھی کچھ دوسروں کی باتوں کا جواب دیا کریں،
میں نے بحر کے مطابق کیوں نہ کرے کا مشورہ دیا تھا، اس مجوزہ مصرعے میں ضمیر حاضر غائب واحد، یعنی تھرڈ پرسن سنگولر ہے۔ اسی غزل کی ردیف بدلنے سے تو مطلب خبط ہو رہا ہے کہ زیادہ تر سیکنڈ پرسن، تم، کے بارے میں اسے استعمال کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے مفہوم کے اعتبار سے سارے اشعار ہی غلط اب بھی ہیں ۔
عروضی اغلاط بتا دیتا ہوں
جو تیری بات سنے اس سے وفا کیوں نہ کرے
جو تیری راہ تکے اس سے مِلا کیوں نہ کرے
.. 'تری' وزن میں آتا ہے، مکمل تیری نہیں دونوں مصرعوں میں

پیار اب تجھ کو تو ہر ایک سے ملنے سے رہا
تو کسی ایک ہی چہرے پہ ڈٹا کیوں نہ کرے
.. وزن درست ہے، عاطف سے سہو ہوا ہے، لیکن ڈٹا قافیہ ناگوار ہے

میں بتاتا ہوں مگر تو ہے کہ سمجھے ہی نہیں
تو رقیبوں سے مری جان بچا کیوں نہ کرے
.. وزن درست ہے

ہجر کے دور کی تلخی ہے، بُجھا رہتا ہوں
تو مرے حق میں مرے یار دعا کیوں نہ کرے
.. درست ہے وزن، تلخی سے چراغ بجھ جاتا ہے، یہ بڑا عجیب ہے!

مرے صیاد تجھے ہاتھ جوڑے کہتا ہوں
تو مجھے یاد کے پنجرے سے رہا کیوں نہ کرے
.... ہاتھ جُڑے بحر میں آتا ہے، جوڑے نہیں

فخر تم اس کی بے رخی کا گلہ کیوں نہ کرے
وصل کے دور میں وہ مجھ سے ملا کیوں نہ کرے
.. پہلا مصرع بحر سے خارج، اس کو مطلع بنانے کی کوشش اب بھی کر رہے ہیں؟
 
السلام علیکم فرخ صاحب،
آپ خود بھی اعتراف کر چکے ہیں کہ عروض کے متعلق آپ کا علم زیادہ نہیں ہے۔اس لیے ہمارا مشورہ ہے کہ عروض پڑھیے۔کیونکہ عروض کا بنیادی علم ہونا شعر کہنے کے لیے ضروری ہے۔
فی الوقت میں صرف اشعار کے وزن کے متعلق(اپنی فہم کے مطابق)گفتگو کروں گا اور کوشش کروں گا کہ کسی اور بات کا ذکر نہ ہو۔


درست

مصرع اور میں پیار کی ی کا اسقاط ہو رہا ہے جو ناگوار محسوس ہوتا ہے

سمجھے ہی نہیں شاید درست محاورہ نہیں ہے یا مستعمل نہیں ہے۔البتہ دونوں مصرع بحر کے حساب سے درست ہیں

درست

یہ بھی درست لگ رہا ہے مجھے

یہاں آپ مقطع کی بجائے ایک اور مطلع لے آئے ہیں۔یا تو اس کو حسنِ مطلع کیجیے یا پھر پہلے مصرع کو تبدیل کیجیے۔
اس کے علاوہ یہاں شتر گربہ ہے۔اصولاً تو یہ ہونا چاہیے کہ فخر تم اس کی بے رخی کا گلہ کیوں نہ کرو،کیا کہتے ہیں؟
وعلیکم السلام!
جی میں اعتراف کر چکا ہوں۔ انشاءاللہ میں عروض کا مطالعہ ضرور کرونگا۔ وزن کے بارے آپ کی راءے دینا بہت اچھا لگا ہمیں۔ اللہ آپ کے علم اور رتبے میں اضافہ کریں۔
مقطع کے بارے میں آپ کی راءے اچھی ہے۔
فخر تم اس سے بے رخی کا گلہ کیوں نہ کرو
وصل کے دور میں وہ ہم سے ملا کیوں نہ کرے
 
آخری تدوین:
فخر میاں اپنے اشعار کے علاوہ بھی کچھ دوسروں کی باتوں کا جواب دیا کریں،
میں نے بحر کے مطابق کیوں نہ کرے کا مشورہ دیا تھا، اس مجوزہ مصرعے میں ضمیر حاضر غائب واحد، یعنی تھرڈ پرسن سنگولر ہے۔ اسی غزل کی ردیف بدلنے سے تو مطلب خبط ہو رہا ہے کہ زیادہ تر سیکنڈ پرسن، تم، کے بارے میں اسے استعمال کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے مفہوم کے اعتبار سے سارے اشعار ہی غلط اب بھی ہیں ۔
عروضی اغلاط بتا دیتا ہوں
جو تیری بات سنے اس سے وفا کیوں نہ کرے
جو تیری راہ تکے اس سے مِلا کیوں نہ کرے
.. 'تری' وزن میں آتا ہے، مکمل تیری نہیں دونوں مصرعوں میں

پیار اب تجھ کو تو ہر ایک سے ملنے سے رہا
تو کسی ایک ہی چہرے پہ ڈٹا کیوں نہ کرے
.. وزن درست ہے، عاطف سے سہو ہوا ہے، لیکن ڈٹا قافیہ ناگوار ہے

میں بتاتا ہوں مگر تو ہے کہ سمجھے ہی نہیں
تو رقیبوں سے مری جان بچا کیوں نہ کرے
.. وزن درست ہے

ہجر کے دور کی تلخی ہے، بُجھا رہتا ہوں
تو مرے حق میں مرے یار دعا کیوں نہ کرے
.. درست ہے وزن، تلخی سے چراغ بجھ جاتا ہے، یہ بڑا عجیب ہے!

مرے صیاد تجھے ہاتھ جوڑے کہتا ہوں
تو مجھے یاد کے پنجرے سے رہا کیوں نہ کرے
.... ہاتھ جُڑے بحر میں آتا ہے، جوڑے نہیں

فخر تم اس کی بے رخی کا گلہ کیوں نہ کرے
وصل کے دور میں وہ مجھ سے ملا کیوں نہ کرے
.. پہلا مصرع بحر سے خارج، اس کو مطلع بنانے کی کوشش اب بھی کر رہے ہیں؟
جی محترم! ابھی جواب دیتے۔
ہاں آپ کے مشورے سے اشعار کو بحر میں لانے کی کوشش میں یہ ہو گیا۔ میں ایک بار پھر کوشش کرتا ہوں۔ عروضی غلطیوں کو نکالا جاءے تو یوں ہو جاتے نا اشعار۔۔۔
جو تری بات سنے اس سے وفا کیوں نہ کرے
جو تری راہ تکے اس سے مِلا کیوں نہ کرے

پیار اب اس کو تو ہر ایک سے ملنے سے رہا
پھر بھی وہ ایک ہی چہرے سے وفا کیوں نہ کرے

میں بتاتا ہوں مگر وہ ہے کہ سمجھے ہی نہیں
جان کے سب وہ رقیبوں سے بچا کیوں نہ کرے

ہجر کے دور کی تلخی ہے، بُجھا رہتا ہوں
وہ مرے حق میں فخر اب بھی دعا کیوں نہ کرے

مرے صیاد کو میں ہاتھ جڑے کہتا ہوں
وہ مجھے یاد کے پنجرے سے رہا کیوں نہ کرے

فخر تم اس کی بے رخی کا گلہ کیوں نہ کرو
وصل کے دور میں وہ مجھ سے ملا کیوں نہ کرے

محترم! ایک بار پھر آپ کی نظر سے گزار رہے، بتاءیں مزید
 

الف عین

لائبریرین
میں تو زیادہ تر اشعار کے مفہوم سمجھنے سے قاصر ہوں
فخر میں خ ہر جزم ہے جیسا کہ مقطع میں درست برتا گیا ہے مگر یہاں فَخَر، خ پر زبر ہو گیا ہے
وہ مرے حق میں فخر اب بھی دعا کیوں نہ کرے
ہاتھ جڑے میں نے صرف املا کے حساب سے لکھا تھا کہ تقطیع میں جڑے آتا ہے، جوڑے نہیں، لیکن اگر ایسا ہی بدل دیا جائے تو مفہوم کچھ نہیں ہوتا!
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
جو تیری بات سنے اس سے وفا کیوں نہ کرے
جو تیری راہ تکے اس سے مِلا کیوں نہ کرے
فخر سعید بھائی کے مضمون میں کہیں کہیں معمولی سی تبدیلی کے بعد

ہر بات پہ اے دوست خفا یوں نہ ہوا کر
جو بات سنیں تیری، تو ان کی بھی سنا کر

پیار اب تجھ کو تو ہر ایک سے ملنے سے رہا
تو کسی ایک ہی چہرے پہ ڈٹا کیوں نہ کرے

اک بار جو بھٹکا، گیا ایقان سے بھی وہ
الفت میں بھی توحید سے غافل نہ رہا کر

میں بتاتا ہوں مگر تو ہے کہ سمجھے ہی نہیں
تو رقیبوں سے مری جان بچا کیوں نہ کرے
ہر آستیں میں سانپ ہے ہونٹوں پہ شہد ہے
لوگوں سے مری جان تو بچ بچ کے چلا کر
ہجر کے دور کی تلخی ہے، بُجھا رہتا ہوں
تو مرے حق میں مرے یار دعا کیوں نہ کرے
"مقطع"
میں ہجر کے اس روگ سے مرتا ہوں نہ جیتا
اب فخر دوا جو نہ سہی کچھ تو دعا کر
مرے صیاد تجھے ہاتھ جوڑے کہتا ہوں
تو مجھے یاد کے پنجرے سے رہا کیوں نہ کرے
اک عمر گذاری ہے اسی قید میں میں نے
اب یاد کی اس قید سے تو مجھ کو رہا کر
فخر تم اس کی بے رخی کا گلہ کیوں نہ کرے
وصل کے دور میں وہ مجھ سے ملا کیوں نہ کرے
جو موسمِ گل میں بھی رہے دور یوں اے دل
اس کج ادا کی بے رخی کا کچھ تو گلا کر
 
آخری تدوین:
Top