تاریک دیاروں میں اُجالے کا پتہ ہیں

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
زباں فہمی: مشکور ، شاکر ، متشکر ، شکر گزار

از: سہیل احمد صدیقی
( یہ مضمون express.pk کی ویبگاہ پر سہیل صدیقی کے کالم فہمِ زباں سے نقل شدہ ہے)

واٹس ایپ بزم زباں فہمی اور حلقہ تحقیق برریختہ میں کچھ عرصہ قبل اس موضوع پر زوردار بحث ہوئی کہ آیا شکر اَداکرنے والے کا اپنے آپ کو مشکور کہنا درست ہے۔ ہرچند کہ بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ موضوع بحث ہی اب پامال ہوچکا ہے، مگر کیا کہیے۔ کم وبیش دونوں ہی واٹس ایپ حلقوں میں ایک ہی مواد نقل ہوا، کیونکہ دونوں کے بعض اراکین (بشمول خاکسار) مشترک اور بہ یک وقت دونوں جگہ فعال ہیں۔ (معاف کیجیے گا، یہ ترکیب توڑکر لکھنا اور بھی ضروری ہوگیا ہے، کیونکہ ناواقفین بشمول ٹی وی میزبان و خبررَساں وخبرخواں آج بھی بَیک[Back] وقت کہتے نظر آتے ہیں)۔ خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ عربی داں حضرات نے اس کا بالتحقیق فیصلہ کردیا۔ علمائے کرام کے مخصوص علمی انداز میں کہوں تو مقدمہ فیصل کردیا۔مگر کچھ دبی دبی چنگاریاں پھر بھی شعلہ بننے کی کوشش کرتی ہیں۔
خاکسار سے فرمائش کرنے والوں نے بھی کئی بار کہا کہ اس معاملے پر قلم اٹھائیں۔ یہاں صورت یہ ہے کہ اَب قلم نہیں اٹھتا، کمپیوٹر پر ہاتھ چلتا ہے یعنی براہ راست ٹائپنگ یا کمپوزنگ ہوتی ہے، جملہ مسائل کے ساتھ۔ ماضی قریب میں خاکسار بھی اس معاملے میں متشدد تھا اور یہی سمجھتا تھا کہ مشکور کا لغوی مطلب تو وہ شخص یا ہستی ہے جس کا شکر اَدا کیا جائے اور شکرگزار کے لیے لفظ شاکر مناسب ہے۔
جوش ملیح آبادی بھی اسی کے قائل و پرچارک تھے۔ مشہور روایتِ حدیث میں مذکور، اللہ تعالیٰ کے ننانوے )۹۹( اسمائے حسنہ کے علاوہ بھی ایک طویل فہرست ان اسماء کی ملتی ہے، بعض جگہ تعداد ایک ہزار تک بیان کی گئی۔ ایسے ہی کسی مقام پر یہ نظر سے گزرا کہ مشکور بھی اللہ کا اسم ہے۔
بہرحال مشکور کے بطور شکرگزار استعمال کے متعلق عرض کردوں کہ اب اس بحث میں شرکت اور مطالعے نے یہ غلط فہمی دور کردی۔ دلائل کی نقل وترسیل میں ہمارے ایک فیس بک/واٹس ایپ بزرگ معاصر محترم اسامہ سَرسَری صاحب، مؤلف ’’فنونِ شاعری کا انسائیکلوپیڈیا‘‘ کی تحریر بھی نظر سے گزری، جنھوں نے لکھا کہ اردو زبان میں ’’مشکور‘‘ بمعنی شکرگزار درست ہے، جبکہ اسم مفعول کے معنی میں غلط ہے۔ اسی طرح”میں آپ کا مشکور ہوں” فصیح جملہ ہے، جبکہ ”میں آپ کا شاکر ہو” غیرفصیح ہے۔ سرسری صاحب نے برملا علامہ شبلی نعمانی کا شعر بطور حوالہ نقل کیا:
آپ کے لطف و کرم سے مجھے انکار نہیں
حلقہ در گوش ہوں، ممنون ہوں، مشکور ہوں میں
اب اس شعر میں بہ یک وقت دونکات توجہ طلب ہیں۔ ایک تو انھوں نے ممنون (احسان مندیعنی جس پر احسان کیا جائے) اور مشکور ساتھ ساتھ استعمال کیے ہیں، حسن تکرارکے طور پر اور دوسرے یہ کہ ترکیب ’’حلقہ دَرگوش‘‘ استعمال کی ہے، بجائے، حلقہ بگوش کے۔ یہ علامہ کی عربی وفارسی پر یکساں گرفت اور عبور کی دلیل ہے۔ اسی ضمن میں علامہ کے شاگرد ِرشید، علامہ سید سلیمان ندوی کا حوالہ ہمیشہ یادگار رہے گا۔ اُن سے کسی نے سوال کیا کہ شکرگزار کو مشکور کہنا کیونکر درست ہوگا، جبکہ عربی میں تو اس کا مطلب ہے، جس کا شکر اَدا کیا جائے۔
سلیمان ندوی نے بے ساختہ کہا تھا کہ اردو میں جو لفظ آگیا اور جن معانی میں مستعمل ہوگیا، ہوگیا۔ ایسی تصحیح کرنے والے اپنی عربی اپنے پاس رکھیں۔ یہاں یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ وہ عربی پر اس قدر حاوی تھے کہ فی البدیہہ قصیدہ کہہ دیا کرتے تھے۔
جناب سرسری نے ہماری معلومات میں یہ عبارت نقل کرکے اضافہ کیا: حتیٰ کہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے ایک جگہ لکھا ہے: ’’جب مشکور مدتوں سے ’احسان مند‘ کے معنی میں استعمال ہورہا ہے اور متکلم اور سامع دونوں کا ذہن اسی معنی کی طرف جاتا ہے تو اب ’قاموس‘ اور ’صراح‘ سے فتویٰ لے کر ان الفاظ کو اردو سے خارج کرنے میں کیا مصلحت ہے؟”۔ محترم رشید حسن خاں نے یہاں یہ قول پنڈِت دتاتریہ کیفی سے منسوب کرتے ہوئے یوں بیان کیا: جب ’’عادی‘‘ اور ’’مشکور‘‘ مدتوں سے ’’عادت گیرندہ‘‘ اور ’’احسان مند‘‘ کے معنی میں استعمال ہورہے ہیں اور متکلم اور سامع دونوں کا ذہن انھی معنی کی طرف جاتا ہے، تو اب قاموس اور صراح سے فتویٰ لے کر، ان الفاظ کو اردو سے خارج کرنے میں کیا مصلحت ہے؟(منثورات، ص 164)۔
مزید ملاحظہ کیجئے: عربی میں ’’مشکور‘‘ اس کو کہتے ہیں جس کا شکریہ ادا کیا جائے، مگر ہماری زبان میں اس کو کہتے ہیں جو کسی کا شکریہ ادا کرے؛ اسی لیے بعض عربی کی قابلیت جتانے والے، اس کو غلط سمجھ کر صحیح لفظ ’’شاکر‘‘ یا ’’متشکر‘‘ بولنا چاہتے ہیں، مگر ان کی یہ اصلاح شکریے کے ساتھ واپس کرنا چاہیے: مولانا سید سلیمان ندوی (نقوش سلیمانی، ص9)۔ یہاں یہ نکتہ بھی پیش نظر رہے کہ علامہ سلیمان ندوی ماہرلسانیات نہیں تھے، مگر عربی دانی میں اُن کے پائے کے لوگ آج بھی کم کم ہی ملیں گے۔ اصل اعتراض یہ تھا اور ہے کہ آیا عربی لفظ اپنے متضاد معنی میں استعمال ہوسکتا ہے۔ یہی قضیہ محترم رشید حسن خاں نے ’’صحتِ تلفظ‘‘ میں اٹھایا ہے۔
انھوں نے فرہنگ آصفیہ کے فاضل مؤلف کے حوالے سے لکھا: اگر ممنون و مشکور کے بجائے، ممنون و شاکر کہیں تو بجا ہے۔(آصفیہ)، پھر نوراللغات کا حوالہ دیا: اہل علم اس معنی میں استعمال نہیں کرتے۔ مشکور، صفت اس شخص کی ہوگی جس نے احسان کیا ہے، نہ اس شخص کی جس پر احسان کیا گیا ہے۔(نوراللغات)۔ اب یہ دیکھیے کہ کس طرح مشکور کے استعمال کی مثالیں، ہمارے ادبی مشاہیر کے یہاں ثابت اور اس موضوع پر کی گئی تحقیق میں منقول ہیں:
جو کچھ ہو سکے وہ لکھا کرو اور ممنون و مشکور کیا کرو۔ امیرؔ مینائی (مکاتیب امیر مینائی، مرتبہ احسن اللہ خاں ثاقب، طبع دوم، ص 170)
ان کے سبب سے میں آپ کا نہایت ممنون و مشکور ہوں۔ سرسید(مکاتیب سرسید، مرتبہ مشتاق حسین، ص 274)
آپ کا خط پہنچا، میں ممنون و مشکور ہوں۔ سید حسن بلگرامی (تاریخ نثر اردو، ص 59)
خادم آپ کی عنایت بے غایت کا حد درجہ ممنون و مشکور ہوا۔ ابوالکلام آزاد (مرقع ادب، ص 45)
علی اوسط رشک نے ایک جگہ ’’شکور‘‘ اسی معنی میں استعمال کیا ہے۔ شعر یہ ہے:
شکر خدا کہ عشق بتاں میں شکور ہوں
راحت ملی جو رنج مجھے یار سے ملا
(مجموعہ دواوِین رشکؔ، ص 69)
محولہ بالا تحریر میں یہ بھی لکھا ہے:’’شکور‘‘ نام کے طور پر مستعمل ہے، مگر اس معنی میں (یعنی مشکور) اس نے رواج نہیں پایا۔

ریختہ ڈاٹ کام نے یہ اشعار نقل کیے ہیں:
جذبۂ ہمدردیٔ الفت تِرا مشکور ہوں
جب کسی کی آنکھ بھیگی، میرا دامن نم ہوا
(مانیؔ ناگپوری)
اپنی آزادی پہ میں اک چور کا مشکور ہوں
پیر جس چادر میں پھیلاتا تھا، وہ لے کر گیا
(شمیمؔ انور)
رنگ رنگ اطمعہ ہیں بذل، پھر اس درجہ وفور
کیا خداوندی ہے اللہ، خدائی مشکور
(کلیاتِ میرؔ، مرتبہ مولانا آسی)
سید جواد حسین شمیمؔ امروہوی کا ایک بند:
سایہ کی طرح تھا تنِ بے سایہ
سیر ہو کر کبھی مولا نے نہ کھانا کھایا
فقر و فاقہ میں فقیروں پہ کرم فرمایا
سعی مشکور ہوئی، مدح میں سورہ آیا
صدقِ دل سے جو کرم آپ نے فرمایا ہے
ہَل اَتیٰ خاص پئے وصف عطا آیا ہے
رشید حسن خاں نے عبدالماجد دریا آبادی صاحب کا قول بھی نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہی ہے کہ جب کسی زبان میں کسی غیرزبان کے الفاظ داخل ہوں تو اُن کا حسبِ منشاء استعمال اور معانی کا تبدّل، اُسی زبان کے بولنے والوں کا اختیار ہوتا ہے۔ ابوالکلام آزادؔ بھی اپنے علمی تبحر کے باوصف، اسی کے قائل تھے۔
یہاں خاکسار چند مثالیں اپنی یادداشت سے پیش کرتا ہے:
فارسی لفظ ’’استاد‘‘ عربی میں جاکر اُستاذ ہوگیا تو اَب عربی والے اُس کی جمع اَساتیذ بناتے ہیں، جبکہ فارسی میں ’’اساتید‘‘ ہی ہے، مثلاً اساتیدِ سُخن۔ اگر کوئی اردو والا ان دو باتوں کو خلط ملط، گڈ مڈ کرتا ہے تو یہ اُس کا قصور ہے۔ مثلاً ’’استادالاساتذہ‘‘ کہنا سرے سے غلط ہے، ہاں ’’استاذ الاساتذہ‘‘ ہوسکتا ہے۔
ایک اور بہت دوراَز کار مثال یہ ہے کہ لفظ چراغ فارسی سے عربی میں گیا تو ’’سراج ‘‘ ہوگیا۔ اب کوئی اردو میں بجائے چراغ، سراج کہنا چاہے تو ہرگز درست نہیں، کیونکہ یہ تو عربی میں رَوا ہے، انھوں نے عربا لیا ہے، اس لیے۔ اسی طرح اس بحث کے دائرے سے ذرا آگے نکل کر دیکھیں تو اور بھی مثالیں خود عربی ہی میں موجود ہیں۔ ہندی کا لفظ ’’کپور‘‘ عربی میں ’’کافور‘‘ ہوگیا، پھر وہیں سے اردو میں آیا تو ہم نے اس کی شکل میں کوئی تبدیلی نہیں کی، اب اسے دوبارہ برعکس کرکے لکھنا اور کہنا بالکل غلط ہے۔ (یہ اور بات کہ یہ ایک اسم معرفہ کے طور پر ہندی میں برقرار ہے جیسے راج کپور کا گھرانہ)۔
ہمارے ذی علم، خوردمعاصر، (عالم عربی و فارسی ، اردو شاعر)، غلام مصطفیٰ دائمؔ اعوان نے اسی موضوع پر تمام دلائل جمع کیے اور عنوان قایم کیا:’’اردو میں اخذِ الفاظ کا اصول اور لفظِ مشکور کا معمّہ‘‘۔ انھوں نے خالص علمی لہجے میں یہ نکتہ واضح کیا کہ ’’اس کا کلیدی اصول یہی ہے کہ وہ لفظ اپنے حقیقی تلفظ و معنیٰ کی رعایت کیے بغیر دوسری زبان میں دخیل ہوتا ہے اور یہاں آ کر اپنا نیا اور غیرحتمی معنیٰ زیبِ تَن کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف لفظ کو نیا استعاراتی پسِ منظر فراہم ہوتا ہے بلکہ اس میں بین المتن نئے علائم کا دخول بھی ممکن ہوتا ہے۔
اس کی مثال بہت سے الفاظ ہیں………..عربی حوالہ جات دینے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ لوگ جنھیں عربی قواعد کو اردو پر لاگو کرنے کا بہت شوق ہے، انھیں معلوم ہو جائے کہ یہ اطلاقات عربی میں بھی ہوتے ہیں۔ مفعول کو فاعل کے معنیٰ میں اور فاعل کو مفعول کے معنیٰ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض مرتبہ مخصوص معنوی اور تشکیلی پس منظر بھی کارفرما ہوتا ہے۔
بہرحال! عربی پسندوں کی یہ ضد اَب سرد پڑ جانی چاہیے۔ اور انھیں یہ مان لینا چاہیے کہ اردو میں مشکور کو شاکر کا معنیٰ دینے میں کوئی ایسی قیامت نہیں نیز یہ کہ اسے مخصوص لوگوں کا تفرّد کہا جائے‘‘۔ یہاں رک کر ذرا خاکسار سہیل کی ایک وضاحت ملاحظہ فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ کا اپنا یہ عمل ہے کہ قرآن کریم میں بعض اسماء الحسنیٰ اپنے علاوہ اپنے محبوب (علیہ الصلوٰۃ والتسلیم) کے لیے استعمال فرمائے۔ کریم، خداوند قدوس بھی ہے، اُس کا محبوب بھی، قرآن بھی، رمضان بھی۔ اسی طرح رحیم، رَؤف، مجید اور محمود کی مثال ہے کہ اپنے اور اپنے محبوب کے لیے استعمال فرمائے۔
رب ِذوالجلال کے اسماء الحسنیٰ میں شامل رشید، ارشد، علی، علیم، مومن، ولی، حفیظ، سمیع، اوّاب، توّاب، ثابت اور رافع بندوں کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ معانی کی وسعت دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ مومن اور توّاب بہ یک وقت خدا اور بندے دونوں کے لیے کس طرح استعمال ہوسکتا ہے۔ بہت زیادہ توبہ کرنے والا بھی تواب ہے اور بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا بھی۔
دائمؔ اعوان نے انشاء اللہ خاں انشاء ؔ کا یہ مشہور قول برمحل نقل کیا ہے کہ ’’’’جاننا چاہیے کہ جو لفظ اردو میں آیا، وہ اردو ہوگیا، خواہ وہ لفظ عربی ہو یا فارسی، ترکی ہو، سُریانی، پنجابی ہو یا پُوربی، اصل کی روح سے غلط ہو یا صحیح، وہ لفظ، اردو کا لفظ ہے۔ اگر اصل کے موافق مستعمل ہے تو بھی صحیح اور اگر اصل کے خلاف ہے تو بھی صحیح۔ اس کی صحت اور غلطی، اس کے اردو میں رواج پکڑنے پر منحصر ہے۔ چونکہ جو چیز اردو کے خلاف ہے، وہ غلط ہے، گویا اصل میں صحیح ہو۔
اور جو اردو کے موافق ہے، وہی صحیح ہے، خواہ اصل میں صحیح نہ بھی ہو‘‘۔ (دریائے لطافت)۔ یہاں مجھے ترکی کے لفظ ’’تلاشی‘‘ کی مثال یاد آتی ہے جو وہاں تلاش کرنے والے کے معنی میں مستعمل ہے، جبکہ اردو میں تلاش کرنے والے کو ’’متلاشی‘‘ کہا جاتا ہے۔
یہاں بحث سمیٹتے ہوئے عرض کروں کہ مشکور کی جگہ شاکر کا استعمال تو غیرفصیح ہے اور علماء وماہرین لسان نے مشکور کو غلط العام فصیح قرار دیا ہے، جبکہ ایک خیال یہ بھی ہے کہ اس کی جگہ شکرگزار کا استعمال افصح یعنی زیادہ فصیح ہے، نیز ممنون کا استعمال بدرجہ اتم درست ہے۔ اب ایک لفظ اور ہے، متشکر، سو اُس کا استعمال علمی تحریروں کے سوا خال خال ہی ملتا ہے۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
تو گویا یہ سپر نووا اور بلیک ہول کی تشکیل کے درمیانی عرصہ کا بیان ہوا :)
لیکن یہ عرصہ تو اس قدر مختصر ہوتا ہے کہ اس کا مشاہدہ کرنا ہمارے شعرا کے بس کی بات نہیں :)
تاڑنے والے قیامت کی نظر ۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ ہبل ٹیلی اسکوپ رکھتے ہیں ۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ایک بار پھر شکریہ۔ اگر آپ جیسے مہربان اتنے اچھے انداز سے سمجھائیں گے تو ایک دن صحیح اردو آ ہی جائے گی۔ ممنون و متشکر :)
آپ نے پہلے صحیح اردو ہی لکھی تھی لیکن انصاری صاحب نے بہکادیا ۔ یہ انصاری صاحب عربی دان ہیں ، عربی پڑھاتے ہیں اس لیے ایسا کہا ۔
اردو کے لیےآپ ذرا اپنے جنوبی پڑوسیوں کو دیکھ لیا کیجیے۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
آپ نے پہلے صحیح اردو ہی لکھی تھی لیکن انصاری صاحب نے بہکادیا ۔ یہ انصاری صاحب عربی دان ہیں ، عربی پڑھاتے ہیں اس لیے ایسا کہا ۔
اردو کے لیےآپ ذرا اپنے جنوبی پڑوسیوں کو دیکھ لیا کیجیے۔
گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل ۔ ۔ ۔:D
 
محترمی و مکرمی استاد گرامی سرور عالم راز صاحب
آداب

اردو محفل پر آپ کے شاعری سے متعلق کئی ایک تبصرہ جات پڑھنے کو ملے۔ ذہن کی کافی الجھنیں دور ہوئیں۔ میں بھی آپ کی شاعری کو پڑھ کر بہت حیران ہوتی تھی کہ آخر آپ اتنی سلیس و سادہ زبان کیوں استعمال کرتے ہیں۔ کئی شعراء کے مقفی و مسجع زبان امیں اشعار پڑھ کر بہت مرعوب ہو جاتی تھی۔ بلکہ اپنی اردو کی استعداد سے متعلق کافی شرمندگی ہونے لگتی تھی ۔ مجھے کچھ لوگوں کے اشعار کئی کئی بار پڑھنے کے بعد بھی سمجھ میں نہیں آتے تھے۔ اگرچہ لغت کا سہارا لے کر میں الفاظ کے معانی جان لیتی تھی مگر خیال تک رسائی ایک خواب ہی رہتا تھا۔ آپ نے میرے واسطے جس طرح یہ عقدہ حل کیا ہے میں آپ کی ہمیشہ ممنون و متشکر رہوں گی۔ پچھلے دنوں چند اشعار کہے تو بار بار یہی کسک دل میں ہو رہی تھی کہ یہ تو انتہائی سادہ زبان میں ہیں ۔ ان کو کیسے بڑے بڑے الفاظ کے ذریعے متاثرکن بناؤں۔ ملاحظہ کیجیے
؎
ہم اپنے غم دل کا مداوا نہ کریں گے
چاہیں گے مگر ان کو بتایا نہ کریں گے

رہتے ہیں گریزاں وہ سر بزم تو ہم بھی
اب ان کو تصور میں بھی دیکھا نہ کریں گے

مگر آپ کی بات سے ایک ڈھارس بندھی ہے کہ خیالات کی آفرینی بھاری بھرکم الفاظ کی نسبت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اس لیے میں ان اشعار کو جوں کا توں رہنے دیتی ہوں الا کہ ان میں کوئی ایسی غلطی ہو جو میری کوتاہ نظر نہ جان سکی ہو۔ شعر کے محاسن کے بارے میں آپ کے مزید ارشادات کی منتظر رہوں گی۔ اللہ آپ کو صحت و تندرستی اور طویل عمر عطا فرمائیں۔ آمین
عزیزہ صابرہ : سلام اور دعا!
اس وقت میں آپ کے اشعار کے حوالے سےچند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ دوسری باتیں پھر ہوتی رہیں گی۔ میری شاعری کاجواز اَب سے بہت پہلے منشی برج نارائن چکبست بیان کر چکے ہیں یعنی:
شاعری کیا ہے؟ دلی جذبات کا اظہار ہے
دل اگربیکار ہے تو شاعری بیکار ہے !
انسان کے جذبات سیدھے سادے ہوتے ہیں ، وہی محبت ونفرت،رنج و حسد ، غم و غصہ ، خوشی وغیرہ ۔ ان کے اظہار میں بھی زیادہ پیچیدگی نہیں ہونی چاہئے ۔ زندگی اور دنیا کی بدحالی، ہماراماحول ، لوگ اور ایسےہی دوسرے عوامل جذبات میں الجھنیں پیدا کر دیتے ہیں سو یہ ہماری مجبوری ہے، ترجیح نہیں ہے۔ میں شاعری ستاروں کی شکست و ریخت ،ڈارون کے نظریہ ء ارتقا وغیرہ کی تبلیغ وتشہیر کے لئے نہیں کرتا ہوں بلکہ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے کرتا ہوں ۔ ایسی شاعری کو شاندار زبان و بیان اور پر شکوہ تراکیب کی ضرورت نہیں ہے ۔ سادہ الفاظ و بیان اس کے لئے کافی ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ بیشتر لوگ سادگی پسند کرتے ہیں اور پیچیدگی سے گھبراتے ہیں۔ آپ کے دونوں اشعار میری نظر میں پر شکوہ تراکیب یا زبان کے محتاج نہیں ہیں۔انھیں اسی طرح رہنے دیجئے۔ اچھا آئیے میں آپ کو اپنے بالکل ابتدائی دور کے دو چار اشعار سناتا ہوں جو آج بھی مجھ کو اسی طرح عزیز ہیں جیسے وہ پچھتر سال قبل تھے۔ شاید وہ میری ترجمانی بہتر طور پر کر سکیں:
کشا کش غم ہستی ستائے ، کیا کہئے
پھر اس پہ سوز دروں دل جلائے، کیا کہئے
خلوص لطف کو ڈھونڈا کئے زمانے میں
چلے جہاں سے، وہیں لوٹ آئے،کیا کہئے
وہ پاس رہ کے رہے دور ، اک کرشمہ ہے
وہ دور رہ کے مگر پاس آئے، کیا کہتے
کوئی حریف غم زندگی نہیں دیکھا
حریف یوں تو بہت آزمائے، کیا کہئے
یوں آفتاب چھپا شام غم کی چاد ر میں
کہ جیسے نبض کوئی ڈوب جائے،کیا کہئے
لرز رہا ہے گہر تاب دل سر مژگاں
ستارہ ء سحری جھلملائے، کیا کہئے
حکایت حرم ودیر خوب ہے سرور
مگر یہ شام و سحر ہائے ہائے، کیا کہتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرور راز
 

صابرہ امین

لائبریرین
عزیزہ صابرہ : سلام اور دعا!
اس وقت میں آپ کے اشعار کے حوالے سےچند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ دوسری باتیں پھر ہوتی رہیں گی۔ میری شاعری کاجواز اَب سے بہت پہلے منشی برج نارائن چکبست بیان کر چکے ہیں یعنی:
شاعری کیا ہے؟ دلی جذبات کا اظہار ہے
دل اگربیکار ہے تو شاعری بیکار ہے !
انسان کے جذبات سیدھے سادے ہوتے ہیں ، وہی محبت ونفرت،رنج و حسد ، غم و غصہ ، خوشی وغیرہ ۔ ان کے اظہار میں بھی زیادہ پیچیدگی نہیں ہونی چاہئے ۔ زندگی اور دنیا کی بدحالی، ہماراماحول ، لوگ اور ایسےہی دوسرے عوامل جذبات میں الجھنیں پیدا کر دیتے ہیں سو یہ ہماری مجبوری ہے، ترجیح نہیں ہے۔ میں شاعری ستاروں کی شکست و ریخت ،ڈارون کے نظریہ ء ارتقا وغیرہ کی تبلیغ وتشہیر کے لئے نہیں کرتا ہوں بلکہ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے کرتا ہوں ۔ ایسی شاعری کو شاندار زبان و بیان اور پر شکوہ تراکیب کی ضرورت نہیں ہے ۔ سادہ الفاظ و بیان اس کے لئے کافی ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ بیشتر لوگ سادگی پسند کرتے ہیں اور پیچیدگی سے گھبراتے ہیں۔ آپ کے دونوں اشعار میری نظر میں پر شکوہ تراکیب یا زبان کے محتاج نہیں ہیں۔انھیں اسی طرح رہنے دیجئے۔ اچھا آئیے میں آپ کو اپنے بالکل ابتدائی دور کے دو چار اشعار سناتا ہوں جو آج بھی مجھ کو اسی طرح عزیز ہیں جیسے وہ پچھتر سال قبل تھے۔ شاید وہ میری ترجمانی بہتر طور پر کر سکیں:
کشا کش غم ہستی ستائے ، کیا کہئے
پھر اس پہ سوز دروں دل جلائے، کیا کہئے
خلوص لطف کو ڈھونڈا کئے زمانے میں
چلے جہاں سے، وہیں لوٹ آئے،کیا کہئے
وہ پاس رہ کے رہے دور ، اک کرشمہ ہے
وہ دور رہ کے مگر پاس آئے، کیا کہتے
کوئی حریف غم زندگی نہیں دیکھا
حریف یوں تو بہت آزمائے، کیا کہئے
یوں آفتاب چھپا شام غم کی چاد ر میں
کہ جیسے نبض کوئی ڈوب جائے،کیا کہئے
لرز رہا ہے گہر تاب دل سر مژگاں
ستارہ ء سحری جھلملائے، کیا کہئے
حکایت حرم ودیر خوب ہے سرور
مگر یہ شام و سحر ہائے ہائے، کیا کہتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرور راز
کیا کہیے استاد گرامی، کیا کہیے!!
بہت خوب!! یعنی بہت ہی خوب!!
ہر ہر شعر خوبصورت۔ ۔ عمدہ خیالات و جذبات۔ ۔ لگ بھگ تیرہ سال کی عمر میں ایسے اشعار۔۔ ماشااللہ، سبحان اللہ

میں آپ کی تہہ دل سے شکرگذار ہوں کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت صرف کیا۔ جزاک اللہ خیراًً کثیرا
 

صابرہ امین

لائبریرین
وہ پاس رہ کے رہے دور ، اک کرشمہ ہے
وہ دور رہ کے مگر پاس آئے، کیا کہئے
کوئی حریف غم زندگی نہیں دیکھا
حریف یوں تو بہت آزمائے، کیا کہئے
یوں آفتاب چھپا شام غم کی چاد ر میں
کہ جیسے نبض کوئی ڈوب جائے،کیا کہئے
حکایت حرم ودیر خوب ہے سرور
مگر یہ شام و سحر ہائے ہائے، کیا کہئے
کیا ہی عمدہ اشعار۔۔ ماشااللہ

مگر یہ شام و سحر ہائے ہائے، کیاکہئے
مگر یہ شام و سحر ہائے ہائے، کیا کہئے
مگر یہ شام و سحر ہائے ہائے، کیا کہیے

یہ مصرع ذہن سے گویا نکل ہی نہیں رہا۔۔ کیا کہنے!!
 
آخری تدوین:
زباں فہمی: مشکور ، شاکر ، متشکر ، شکر گزار

از: سہیل احمد صدیقی
( یہ مضمون express.pk کی ویبگاہ پر سہیل صدیقی کے کالم فہمِ زباں سے نقل شدہ ہے)

واٹس ایپ بزم زباں فہمی اور حلقہ تحقیق برریختہ میں کچھ عرصہ قبل اس موضوع پر زوردار بحث ہوئی کہ آیا شکر اَداکرنے والے کا اپنے آپ کو مشکور کہنا درست ہے۔ ہرچند کہ بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ موضوع بحث ہی اب پامال ہوچکا ہے، مگر کیا کہیے۔ کم وبیش دونوں ہی واٹس ایپ حلقوں میں ایک ہی مواد نقل ہوا، کیونکہ دونوں کے بعض اراکین (بشمول خاکسار) مشترک اور بہ یک وقت دونوں جگہ فعال ہیں۔ (معاف کیجیے گا، یہ ترکیب توڑکر لکھنا اور بھی ضروری ہوگیا ہے، کیونکہ ناواقفین بشمول ٹی وی میزبان و خبررَساںوخبرخواں آج بھی بَیک[Back] وقت کہتے نظر آتے ہیں)۔ خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ عربی داں حضرات نے اس کا بالتحقیق فیصلہ کردیا۔ علمائے کرام کے مخصوص علمی انداز میں کہوں تو مقدمہ فیصل کردیا۔مگر کچھ دبی دبی چنگاریاں پھر بھی شعلہ بننے کی کوشش کرتی ہیں۔
خاکسار سے فرمائش کرنے والوں نے بھی کئی بار کہا کہ اس معاملے پر قلم اٹھائیں۔ یہاں صورت یہ ہے کہ اَب قلم نہیں اٹھتا، کمپیوٹر پر ہاتھ چلتا ہے یعنی براہ راست ٹائپنگ یا کمپوزنگ ہوتی ہے، جملہ مسائل کے ساتھ۔ ماضی قریب میں خاکسار بھی اس معاملے میں متشدد تھا اور یہی سمجھتا تھا کہ مشکور کا لغوی مطلب تو وہ شخص یا ہستی ہے جس کا شکر اَدا کیا جائے اور شکرگزار کے لیے لفظ شاکر مناسب ہے۔
جوش ملیح آبادی بھی اسی کے قائل و پرچارک تھے۔ مشہور روایتِ حدیث میں مذکور، اللہ تعالیٰ کے ننانوے )۹۹( اسمائے حسنہ کے علاوہ بھی ایک طویل فہرست ان اسماء کی ملتی ہے، بعض جگہ تعداد ایک ہزار تک بیان کی گئی۔ ایسے ہی کسی مقام پر یہ نظر سے گزرا کہ مشکور بھی اللہ کا اسم ہے۔
بہرحال مشکور کے بطور شکرگزار استعمال کے متعلق عرض کردوں کہ اب اس بحث میں شرکت اور مطالعے نے یہ غلط فہمی دور کردی۔ دلائل کی نقل وترسیل میں ہمارے ایک فیس بک/واٹس ایپ بزرگ معاصر محترم اسامہ سَرسَری صاحب، مؤلف ’’فنونِ شاعری کا انسائیکلوپیڈیا‘‘ کی تحریر بھی نظر سے گزری، جنھوں نے لکھا کہ اردو زبان میں ’’مشکور‘‘ بمعنی شکرگزار درست ہے، جبکہ اسم مفعول کے معنی میں غلط ہے۔ اسی طرح”میں آپ کا مشکور ہوں” فصیح جملہ ہے، جبکہ ”میں آپ کا شاکر ہو” غیرفصیح ہے۔ سرسری صاحب نے برملا علامہ شبلی نعمانی کا شعر بطور حوالہ نقل کیا:
آپ کے لطف و کرم سے مجھے انکار نہیں
حلقہ در گوش ہوں، ممنون ہوں، مشکور ہوں میں
اب اس شعر میں بہ یک وقت دونکات توجہ طلب ہیں۔ ایک تو انھوں نے ممنون (احسان مندیعنی جس پر احسان کیا جائے) اور مشکور ساتھ ساتھ استعمال کیے ہیں، حسن تکرارکے طور پر اور دوسرے یہ کہ ترکیب ’’حلقہ دَرگوش‘‘ استعمال کی ہے، بجائے، حلقہ بگوش کے۔ یہ علامہ کی عربی وفارسی پر یکساں گرفت اور عبور کی دلیل ہے۔ اسی ضمن میں علامہ کے شاگرد ِرشید، علامہ سید سلیمان ندوی کا حوالہ ہمیشہ یادگار رہے گا۔ اُن سے کسی نے سوال کیا کہ شکرگزار کو مشکور کہنا کیونکر درست ہوگا، جبکہ عربی میں تو اس کا مطلب ہے، جس کا شکر اَدا کیا جائے۔
سلیمان ندوی نے بے ساختہ کہا تھا کہ اردو میں جو لفظ آگیا اور جن معانی میں مستعمل ہوگیا، ہوگیا۔ ایسی تصحیح کرنے والے اپنی عربی اپنے پاس رکھیں۔ یہاں یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ وہ عربی پر اس قدر حاوی تھے کہ فی البدیہہ قصیدہ کہہ دیا کرتے تھے۔
جناب سرسری نے ہماری معلومات میں یہ عبارت نقل کرکے اضافہ کیا: حتیٰ کہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے ایک جگہ لکھا ہے: ’’جب مشکور مدتوں سے ’احسان مند‘ کے معنی میں استعمال ہورہا ہے اور متکلم اور سامع دونوں کا ذہن اسی معنی کی طرف جاتا ہے تو اب ’قاموس‘ اور ’صراح‘ سے فتویٰ لے کر ان الفاظ کو اردو سے خارج کرنے میں کیا مصلحت ہے؟”۔ محترم رشید حسن خاں نے یہاں یہ قول پنڈِت دتاتریہ کیفی سے منسوب کرتے ہوئے یوں بیان کیا: جب ’’عادی‘‘ اور ’’مشکور‘‘ مدتوں سے ’’عادت گیرندہ‘‘ اور ’’احسان مند‘‘ کے معنی میں استعمال ہورہے ہیں اور متکلم اور سامع دونوں کا ذہن انھی معنی کی طرف جاتا ہے، تو اب قاموس اور صراح سے فتویٰ لے کر، ان الفاظ کو اردو سے خارج کرنے میں کیا مصلحت ہے؟(منثورات، ص 164)۔
مزید ملاحظہ کیجئے: عربی میں ’’مشکور‘‘ اس کو کہتے ہیں جس کا شکریہ ادا کیا جائے، مگر ہماری زبان میں اس کو کہتے ہیں جو کسی کا شکریہ ادا کرے؛ اسی لیے بعض عربی کی قابلیت جتانے والے، اس کو غلط سمجھ کر صحیح لفظ ’’شاکر‘‘ یا ’’متشکر‘‘ بولنا چاہتے ہیں، مگر ان کی یہ اصلاح شکریے کے ساتھ واپس کرنا چاہیے: مولانا سید سلیمان ندوی (نقوش سلیمانی، ص98)۔ یہاں یہ نکتہ بھی پیش نظر رہے کہ علامہ سلیمان ندوی ماہرلسانیات نہیں تھے، مگر عربی دانی میں اُن کے پائے کے لوگ آج بھی کم کم ہی ملیں گے۔ اصل اعتراض یہ تھا اور ہے کہ آیا عربی لفظ اپنے متضاد معنی میں استعمال ہوسکتا ہے۔ یہی قضیہ محترم رشید حسن خاں نے ’’صحتِ تلفظ‘‘ میں اٹھایا ہے۔
انھوں نے فرہنگ آصفیہ کے فاضل مؤلف کے حوالے سے لکھا: اگر ممنون و مشکور کے بجائے، ممنون و شاکر کہیں تو بجا ہے۔(آصفیہ)، پھر نوراللغات کا حوالہ دیا: اہل علم اس معنی میں استعمال نہیں کرتے۔ مشکور، صفت اس شخص کی ہوگی جس نے احسان کیا ہے، نہ اس شخص کی جس پر احسان کیا گیا ہے۔(نوراللغات)۔ اب یہ دیکھیے کہ کس طرح مشکور کے استعمال کی مثالیں، ہمارے ادبی مشاہیر کے یہاں ثابت اور اس موضوع پر کی گئی تحقیق میں منقول ہیں:
جو کچھ ہو سکے وہ لکھا کرو اور ممنون و مشکور کیا کرو۔ امیرؔ مینائی (مکاتیب امیر مینائی، مرتبہ احسن اللہ خاں ثاقب، طبع دوم، ص 170)
ان کے سبب سے میں آپ کا نہایت ممنون و مشکور ہوں۔ سرسید(مکاتیب سرسید، مرتبہ مشتاق حسین، ص 274)
آپ کا خط پہنچا، میں ممنون و مشکور ہوں۔ سید حسن بلگرامی (تاریخ نثر اردو، ص 598)
خادم آپ کی عنایت بے غایت کا حد درجہ ممنون و مشکور ہوا۔ ابوالکلام آزاد (مرقع ادب، ص 45)
علی اوسط رشک نے ایک جگہ ’’شکور‘‘ اسی معنی میں استعمال کیا ہے۔ شعر یہ ہے:
شکر خدا کہ عشق بتاں میں شکور ہوں
راحت ملی جو رنج مجھے یار سے ملا
(مجموعہ دواوِین رشکؔ، ص 69)
محولہ بالا تحریر میں یہ بھی لکھا ہے:’’شکور‘‘ نام کے طور پر مستعمل ہے، مگر اس معنی میں (یعنی مشکور) اس نے رواج نہیں پایا۔

ریختہ ڈاٹ کام نے یہ اشعار نقل کیے ہیں:
جذبۂ ہمدردیٔ الفت تِرا مشکور ہوں
جب کسی کی آنکھ بھیگی، میرا دامن نم ہوا
(مانیؔ ناگپوری)
اپنی آزادی پہ میں اک چور کا مشکور ہوں
پیر جس چادر میں پھیلاتا تھا، وہ لے کر گیا
(شمیمؔ انور)
رنگ رنگ اطمعہ ہیں بذل، پھر اس درجہ وفور
کیا خداوندی ہے اللہ، خدائی مشکور
(کلیاتِ میرؔ، مرتبہ مولانا آسی)
سید جواد حسین شمیمؔ امروہوی کا ایک بند:
سایہ کی طرح تھا تنِ بے سایہ
سیر ہو کر کبھی مولا نے نہ کھانا کھایا
فقر و فاقہ میں فقیروں پہ کرم فرمایا
سعی مشکور ہوئی، مدح میں سورہ آیا
صدقِ دل سے جو کرم آپ نے فرمایا ہے
ہَل اَتیٰ خاص پئے وصف عطا آیا ہے
رشید حسن خاں نے عبدالماجد دریا آبادی صاحب کا قول بھی نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہی ہے کہ جب کسی زبان میں کسی غیرزبان کے الفاظ داخل ہوں تو اُن کا حسبِ منشاء استعمال اور معانی کا تبدّل، اُسی زبان کے بولنے والوں کا اختیار ہوتا ہے۔ ابوالکلام آزادؔ بھی اپنے علمی تبحر کے باوصف، اسی کے قائل تھے۔
یہاں خاکسار چند مثالیں اپنی یادداشت سے پیش کرتا ہے:
فارسی لفظ ’’استاد‘‘ عربی میں جاکر اُستاذ ہوگیا تو اَب عربی والے اُس کی جمع اَساتیذ بناتے ہیں، جبکہ فارسی میں ’’اساتید‘‘ ہی ہے، مثلاً اساتیدِ سُخن۔ اگر کوئی اردو والا ان دو باتوں کو خلط ملط، گڈ مڈ کرتا ہے تو یہ اُس کا قصور ہے۔ مثلاً ’’استادالاساتذہ‘‘ کہنا سرے سے غلط ہے، ہاں ’’استاذ الاساتذہ‘‘ ہوسکتا ہے۔
ایک اور بہت دوراَز کار مثال یہ ہے کہ لفظ چراغ فارسی سے عربی میں گیا تو ’’سراج ‘‘ ہوگیا۔ اب کوئی اردو میں بجائے چراغ، سراج کہنا چاہے تو ہرگز درست نہیں، کیونکہ یہ تو عربی میں رَوا ہے، انھوں نے عربا لیا ہے، اس لیے۔ اسی طرح اس بحث کے دائرے سے ذرا آگے نکل کر دیکھیں تو اور بھی مثالیں خود عربی ہی میں موجود ہیں۔ ہندی کا لفظ ’’کپور‘‘ عربی میں ’’کافور‘‘ ہوگیا، پھر وہیں سے اردو میں آیا تو ہم نے اس کی شکل میں کوئی تبدیلی نہیں کی، اب اسے دوبارہ برعکس کرکے لکھنا اور کہنا بالکل غلط ہے۔ (یہ اور بات کہ یہ ایک اسم معرفہ کے طور پر ہندی میں برقرار ہے جیسے راج کپور کا گھرانہ)۔
ہمارے ذی علم، خوردمعاصر، (عالم عربی و فارسی ، اردو شاعر)، غلام مصطفیٰ دائمؔ اعوان نے اسی موضوع پر تمام دلائل جمع کیے اور عنوان قایم کیا:’’اردو میں اخذِ الفاظ کا اصول اور لفظِ مشکور کا معمّہ‘‘۔ انھوں نے خالص علمی لہجے میں یہ نکتہ واضح کیا کہ ’’اس کا کلیدی اصول یہی ہے کہ وہ لفظ اپنے حقیقی تلفظ و معنیٰ کی رعایت کیے بغیر دوسری زبان میں دخیل ہوتا ہے اور یہاں آ کر اپنا نیا اور غیرحتمی معنیٰ زیبِ تَن کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف لفظ کو نیا استعاراتی پسِ منظر فراہم ہوتا ہے بلکہ اس میں بین المتن نئے علائم کا دخول بھی ممکن ہوتا ہے۔
اس کی مثال بہت سے الفاظ ہیں………..عربی حوالہ جات دینے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ لوگ جنھیں عربی قواعد کو اردو پر لاگو کرنے کا بہت شوق ہے، انھیں معلوم ہو جائے کہ یہ اطلاقات عربی میں بھی ہوتے ہیں۔ مفعول کو فاعل کے معنیٰ میں اور فاعل کو مفعول کے معنیٰ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض مرتبہ مخصوص معنوی اور تشکیلی پس منظر بھی کارفرما ہوتا ہے۔
بہرحال! عربی پسندوں کی یہ ضد اَب سرد پڑ جانی چاہیے۔ اور انھیں یہ مان لینا چاہیے کہ اردو میں مشکور کو شاکر کا معنیٰ دینے میں کوئی ایسی قیامت نہیں نیز یہ کہ اسے مخصوص لوگوں کا تفرّد کہا جائے‘‘۔ یہاں رک کر ذرا خاکسار سہیل کی ایک وضاحت ملاحظہ فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ کا اپنا یہ عمل ہے کہ قرآن کریم میں بعض اسماء الحسنیٰ اپنے علاوہ اپنے محبوب (علیہ الصلوٰۃ والتسلیم) کے لیے استعمال فرمائے۔ کریم، خداوند قدوس بھی ہے، اُس کا محبوب بھی، قرآن بھی، رمضان بھی۔ اسی طرح رحیم، رَؤف، مجید اور محمود کی مثال ہے کہ اپنے اور اپنے محبوب کے لیے استعمال فرمائے۔
رب ِذوالجلال کے اسماء الحسنیٰ میں شامل رشید، ارشد، علی، علیم، مومن، ولی، حفیظ، سمیع، اوّاب، توّاب، ثابت اور رافع بندوں کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ معانی کی وسعت دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ مومن اور توّاب بہ یک وقت خدا اور بندے دونوں کے لیے کس طرح استعمال ہوسکتا ہے۔ بہت زیادہ توبہ کرنے والا بھی تواب ہے اور بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا بھی۔
دائمؔ اعوان نے انشاء اللہ خاں انشاء ؔ کا یہ مشہور قول برمحل نقل کیا ہے کہ ’’’’جاننا چاہیے کہ جو لفظ اردو میں آیا، وہ اردو ہوگیا، خواہ وہ لفظ عربی ہو یا فارسی، ترکی ہو، سُریانی، پنجابی ہو یا پُوربی، اصل کی روح سے غلط ہو یا صحیح، وہ لفظ، اردو کا لفظ ہے۔ اگر اصل کے موافق مستعمل ہے تو بھی صحیح اور اگر اصل کے خلاف ہے تو بھی صحیح۔ اس کی صحت اور غلطی، اس کے اردو میں رواج پکڑنے پر منحصر ہے۔ چونکہ جو چیز اردو کے خلاف ہے، وہ غلط ہے، گویا اصل میں صحیح ہو۔
اور جو اردو کے موافق ہے، وہی صحیح ہے، خواہ اصل میں صحیح نہ بھی ہو‘‘۔ (دریائے لطافت)۔ یہاں مجھے ترکی کے لفظ ’’تلاشی‘‘ کی مثال یاد آتی ہے جو وہاں تلاش کرنے والے کے معنی میں مستعمل ہے، جبکہ اردو میں تلاش کرنے والے کو ’’متلاشی‘‘ کہا جاتا ہے۔
یہاں بحث سمیٹتے ہوئے عرض کروں کہ مشکور کی جگہ شاکر کا استعمال تو غیرفصیح ہے اور علماء وماہرین لسان نے مشکور کو غلط العام فصیح قرار دیا ہے، جبکہ ایک خیال یہ بھی ہے کہ اس کی جگہ شکرگزار کا استعمال افصح یعنی زیادہ فصیح ہے، نیز ممنون کا استعمال بدرجہ اتم درست ہے۔ اب ایک لفظ اور ہے، متشکر، سو اُس کا استعمال علمی تحریروں کے سوا خال خال ہی ملتا ہے۔
مکرمی ظہیر صاحب: اس تفصیل کے لئے میں آپ کا ممنون ہوں۔ میں نے مولانا آزاد کی ایک تحریر میں مشکور کا یہ استعمال دیکھا تو مجھ کو حیرت ہوئی تھی۔ جو تفصیل آپ نے بہم پہنچائی وہ میرے علم میں نہیں تھی۔ شکریہ۔
 
ایک بار پھر شکریہ۔ اگر آپ جیسے مہربان اتنے اچھے انداز سے سمجھائیں گے تو ایک دن صحیح اردو آ ہی جائے گی۔ ممنون و متشکر :)
نہیں "سمجھانا" مقصود نہیں تھا، آپ کے مراسلے سے اوپر محترم سرور عالم راز کا مراسلہ اس مضمون کا پڑھا کہ مشکور درست نہیں، اگلے ہی مراسلہ میں آپ ان کی مشکور ہوگئیں تو لگا کہ شاید آپ کا دھیان ان کے مراسلہ طرف نہیں گیا۔ باقی ہم تو خود ٹھیک سے سمجھ نہیں پا رہے، آپ کو کیا سمجھائیں گے۔ :)
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
نہیں "سمجھانا" مقصود نہیں تھا، آپ کے مراسلے سے اوپر محترم سرور عالم راز کا مراسلہ اس مضمون کا پڑھا کہ مشکور درست نہیں، اگلے ہی مراسلہ میں آپ ان کی مشکور ہوگئیں تو لگا کہ شاید آپ کا دھیان ان کے مراسلہ طرف نہیں گیا۔ باقی ہم تو خود ٹھیک سے سمجھ نہیں پا رہے، آپ کو کیا سمجھائیں گے۔ :)
اصل میں جواب دیے گیے مراسلے کا نوٹیفیکشن پہلے ملا۔ بعد میں اس سے پہلے والے مراسلے پڑھے۔
چلیں کوئی بات نہیں کہ ؎
آتی ہے اردو زباں آتے آتے :)
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
زباں فہمی: مشکور ، شاکر ، متشکر ، شکر گزار

از: سہیل احمد صدیقی
( یہ مضمون express.pk کی ویبگاہ پر سہیل صدیقی کے کالم فہمِ زباں سے نقل شدہ ہے)

واٹس ایپ بزم زباں فہمی اور حلقہ تحقیق برریختہ میں کچھ عرصہ قبل اس موضوع پر زوردار بحث ہوئی کہ آیا شکر اَداکرنے والے کا اپنے آپ کو مشکور کہنا درست ہے۔ ہرچند کہ بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ موضوع بحث ہی اب پامال ہوچکا ہے، مگر کیا کہیے۔ کم وبیش دونوں ہی واٹس ایپ حلقوں میں ایک ہی مواد نقل ہوا، کیونکہ دونوں کے بعض اراکین (بشمول خاکسار) مشترک اور بہ یک وقت دونوں جگہ فعال ہیں۔ (معاف کیجیے گا، یہ ترکیب توڑکر لکھنا اور بھی ضروری ہوگیا ہے، کیونکہ ناواقفین بشمول ٹی وی میزبان و خبررَساں وخبرخواں آج بھی بَیک[Back] وقت کہتے نظر آتے ہیں)۔ خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ عربی داں حضرات نے اس کا بالتحقیق فیصلہ کردیا۔ علمائے کرام کے مخصوص علمی انداز میں کہوں تو مقدمہ فیصل کردیا۔مگر کچھ دبی دبی چنگاریاں پھر بھی شعلہ بننے کی کوشش کرتی ہیں۔
خاکسار سے فرمائش کرنے والوں نے بھی کئی بار کہا کہ اس معاملے پر قلم اٹھائیں۔ یہاں صورت یہ ہے کہ اَب قلم نہیں اٹھتا، کمپیوٹر پر ہاتھ چلتا ہے یعنی براہ راست ٹائپنگ یا کمپوزنگ ہوتی ہے، جملہ مسائل کے ساتھ۔ ماضی قریب میں خاکسار بھی اس معاملے میں متشدد تھا اور یہی سمجھتا تھا کہ مشکور کا لغوی مطلب تو وہ شخص یا ہستی ہے جس کا شکر اَدا کیا جائے اور شکرگزار کے لیے لفظ شاکر مناسب ہے۔
جوش ملیح آبادی بھی اسی کے قائل و پرچارک تھے۔ مشہور روایتِ حدیث میں مذکور، اللہ تعالیٰ کے ننانوے )۹۹( اسمائے حسنہ کے علاوہ بھی ایک طویل فہرست ان اسماء کی ملتی ہے، بعض جگہ تعداد ایک ہزار تک بیان کی گئی۔ ایسے ہی کسی مقام پر یہ نظر سے گزرا کہ مشکور بھی اللہ کا اسم ہے۔
بہرحال مشکور کے بطور شکرگزار استعمال کے متعلق عرض کردوں کہ اب اس بحث میں شرکت اور مطالعے نے یہ غلط فہمی دور کردی۔ دلائل کی نقل وترسیل میں ہمارے ایک فیس بک/واٹس ایپ بزرگ معاصر محترم اسامہ سَرسَری صاحب، مؤلف ’’فنونِ شاعری کا انسائیکلوپیڈیا‘‘ کی تحریر بھی نظر سے گزری، جنھوں نے لکھا کہ اردو زبان میں ’’مشکور‘‘ بمعنی شکرگزار درست ہے، جبکہ اسم مفعول کے معنی میں غلط ہے۔ اسی طرح”میں آپ کا مشکور ہوں” فصیح جملہ ہے، جبکہ ”میں آپ کا شاکر ہو” غیرفصیح ہے۔ سرسری صاحب نے برملا علامہ شبلی نعمانی کا شعر بطور حوالہ نقل کیا:
آپ کے لطف و کرم سے مجھے انکار نہیں
حلقہ در گوش ہوں، ممنون ہوں، مشکور ہوں میں
اب اس شعر میں بہ یک وقت دونکات توجہ طلب ہیں۔ ایک تو انھوں نے ممنون (احسان مندیعنی جس پر احسان کیا جائے) اور مشکور ساتھ ساتھ استعمال کیے ہیں، حسن تکرارکے طور پر اور دوسرے یہ کہ ترکیب ’’حلقہ دَرگوش‘‘ استعمال کی ہے، بجائے، حلقہ بگوش کے۔ یہ علامہ کی عربی وفارسی پر یکساں گرفت اور عبور کی دلیل ہے۔ اسی ضمن میں علامہ کے شاگرد ِرشید، علامہ سید سلیمان ندوی کا حوالہ ہمیشہ یادگار رہے گا۔ اُن سے کسی نے سوال کیا کہ شکرگزار کو مشکور کہنا کیونکر درست ہوگا، جبکہ عربی میں تو اس کا مطلب ہے، جس کا شکر اَدا کیا جائے۔
سلیمان ندوی نے بے ساختہ کہا تھا کہ اردو میں جو لفظ آگیا اور جن معانی میں مستعمل ہوگیا، ہوگیا۔ ایسی تصحیح کرنے والے اپنی عربی اپنے پاس رکھیں۔ یہاں یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ وہ عربی پر اس قدر حاوی تھے کہ فی البدیہہ قصیدہ کہہ دیا کرتے تھے۔
جناب سرسری نے ہماری معلومات میں یہ عبارت نقل کرکے اضافہ کیا: حتیٰ کہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے ایک جگہ لکھا ہے: ’’جب مشکور مدتوں سے ’احسان مند‘ کے معنی میں استعمال ہورہا ہے اور متکلم اور سامع دونوں کا ذہن اسی معنی کی طرف جاتا ہے تو اب ’قاموس‘ اور ’صراح‘ سے فتویٰ لے کر ان الفاظ کو اردو سے خارج کرنے میں کیا مصلحت ہے؟”۔ محترم رشید حسن خاں نے یہاں یہ قول پنڈِت دتاتریہ کیفی سے منسوب کرتے ہوئے یوں بیان کیا: جب ’’عادی‘‘ اور ’’مشکور‘‘ مدتوں سے ’’عادت گیرندہ‘‘ اور ’’احسان مند‘‘ کے معنی میں استعمال ہورہے ہیں اور متکلم اور سامع دونوں کا ذہن انھی معنی کی طرف جاتا ہے، تو اب قاموس اور صراح سے فتویٰ لے کر، ان الفاظ کو اردو سے خارج کرنے میں کیا مصلحت ہے؟(منثورات، ص 164)۔
مزید ملاحظہ کیجئے: عربی میں ’’مشکور‘‘ اس کو کہتے ہیں جس کا شکریہ ادا کیا جائے، مگر ہماری زبان میں اس کو کہتے ہیں جو کسی کا شکریہ ادا کرے؛ اسی لیے بعض عربی کی قابلیت جتانے والے، اس کو غلط سمجھ کر صحیح لفظ ’’شاکر‘‘ یا ’’متشکر‘‘ بولنا چاہتے ہیں، مگر ان کی یہ اصلاح شکریے کے ساتھ واپس کرنا چاہیے: مولانا سید سلیمان ندوی (نقوش سلیمانی، ص9)۔ یہاں یہ نکتہ بھی پیش نظر رہے کہ علامہ سلیمان ندوی ماہرلسانیات نہیں تھے، مگر عربی دانی میں اُن کے پائے کے لوگ آج بھی کم کم ہی ملیں گے۔ اصل اعتراض یہ تھا اور ہے کہ آیا عربی لفظ اپنے متضاد معنی میں استعمال ہوسکتا ہے۔ یہی قضیہ محترم رشید حسن خاں نے ’’صحتِ تلفظ‘‘ میں اٹھایا ہے۔
انھوں نے فرہنگ آصفیہ کے فاضل مؤلف کے حوالے سے لکھا: اگر ممنون و مشکور کے بجائے، ممنون و شاکر کہیں تو بجا ہے۔(آصفیہ)، پھر نوراللغات کا حوالہ دیا: اہل علم اس معنی میں استعمال نہیں کرتے۔ مشکور، صفت اس شخص کی ہوگی جس نے احسان کیا ہے، نہ اس شخص کی جس پر احسان کیا گیا ہے۔(نوراللغات)۔ اب یہ دیکھیے کہ کس طرح مشکور کے استعمال کی مثالیں، ہمارے ادبی مشاہیر کے یہاں ثابت اور اس موضوع پر کی گئی تحقیق میں منقول ہیں:
جو کچھ ہو سکے وہ لکھا کرو اور ممنون و مشکور کیا کرو۔ امیرؔ مینائی (مکاتیب امیر مینائی، مرتبہ احسن اللہ خاں ثاقب، طبع دوم، ص 170)
ان کے سبب سے میں آپ کا نہایت ممنون و مشکور ہوں۔ سرسید(مکاتیب سرسید، مرتبہ مشتاق حسین، ص 274)
آپ کا خط پہنچا، میں ممنون و مشکور ہوں۔ سید حسن بلگرامی (تاریخ نثر اردو، ص 59)
خادم آپ کی عنایت بے غایت کا حد درجہ ممنون و مشکور ہوا۔ ابوالکلام آزاد (مرقع ادب، ص 45)
علی اوسط رشک نے ایک جگہ ’’شکور‘‘ اسی معنی میں استعمال کیا ہے۔ شعر یہ ہے:
شکر خدا کہ عشق بتاں میں شکور ہوں
راحت ملی جو رنج مجھے یار سے ملا
(مجموعہ دواوِین رشکؔ، ص 69)
محولہ بالا تحریر میں یہ بھی لکھا ہے:’’شکور‘‘ نام کے طور پر مستعمل ہے، مگر اس معنی میں (یعنی مشکور) اس نے رواج نہیں پایا۔

ریختہ ڈاٹ کام نے یہ اشعار نقل کیے ہیں:
جذبۂ ہمدردیٔ الفت تِرا مشکور ہوں
جب کسی کی آنکھ بھیگی، میرا دامن نم ہوا
(مانیؔ ناگپوری)
اپنی آزادی پہ میں اک چور کا مشکور ہوں
پیر جس چادر میں پھیلاتا تھا، وہ لے کر گیا
(شمیمؔ انور)
رنگ رنگ اطمعہ ہیں بذل، پھر اس درجہ وفور
کیا خداوندی ہے اللہ، خدائی مشکور
(کلیاتِ میرؔ، مرتبہ مولانا آسی)
سید جواد حسین شمیمؔ امروہوی کا ایک بند:
سایہ کی طرح تھا تنِ بے سایہ
سیر ہو کر کبھی مولا نے نہ کھانا کھایا
فقر و فاقہ میں فقیروں پہ کرم فرمایا
سعی مشکور ہوئی، مدح میں سورہ آیا
صدقِ دل سے جو کرم آپ نے فرمایا ہے
ہَل اَتیٰ خاص پئے وصف عطا آیا ہے
رشید حسن خاں نے عبدالماجد دریا آبادی صاحب کا قول بھی نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہی ہے کہ جب کسی زبان میں کسی غیرزبان کے الفاظ داخل ہوں تو اُن کا حسبِ منشاء استعمال اور معانی کا تبدّل، اُسی زبان کے بولنے والوں کا اختیار ہوتا ہے۔ ابوالکلام آزادؔ بھی اپنے علمی تبحر کے باوصف، اسی کے قائل تھے۔
یہاں خاکسار چند مثالیں اپنی یادداشت سے پیش کرتا ہے:
فارسی لفظ ’’استاد‘‘ عربی میں جاکر اُستاذ ہوگیا تو اَب عربی والے اُس کی جمع اَساتیذ بناتے ہیں، جبکہ فارسی میں ’’اساتید‘‘ ہی ہے، مثلاً اساتیدِ سُخن۔ اگر کوئی اردو والا ان دو باتوں کو خلط ملط، گڈ مڈ کرتا ہے تو یہ اُس کا قصور ہے۔ مثلاً ’’استادالاساتذہ‘‘ کہنا سرے سے غلط ہے، ہاں ’’استاذ الاساتذہ‘‘ ہوسکتا ہے۔
ایک اور بہت دوراَز کار مثال یہ ہے کہ لفظ چراغ فارسی سے عربی میں گیا تو ’’سراج ‘‘ ہوگیا۔ اب کوئی اردو میں بجائے چراغ، سراج کہنا چاہے تو ہرگز درست نہیں، کیونکہ یہ تو عربی میں رَوا ہے، انھوں نے عربا لیا ہے، اس لیے۔ اسی طرح اس بحث کے دائرے سے ذرا آگے نکل کر دیکھیں تو اور بھی مثالیں خود عربی ہی میں موجود ہیں۔ ہندی کا لفظ ’’کپور‘‘ عربی میں ’’کافور‘‘ ہوگیا، پھر وہیں سے اردو میں آیا تو ہم نے اس کی شکل میں کوئی تبدیلی نہیں کی، اب اسے دوبارہ برعکس کرکے لکھنا اور کہنا بالکل غلط ہے۔ (یہ اور بات کہ یہ ایک اسم معرفہ کے طور پر ہندی میں برقرار ہے جیسے راج کپور کا گھرانہ)۔
ہمارے ذی علم، خوردمعاصر، (عالم عربی و فارسی ، اردو شاعر)، غلام مصطفیٰ دائمؔ اعوان نے اسی موضوع پر تمام دلائل جمع کیے اور عنوان قایم کیا:’’اردو میں اخذِ الفاظ کا اصول اور لفظِ مشکور کا معمّہ‘‘۔ انھوں نے خالص علمی لہجے میں یہ نکتہ واضح کیا کہ ’’اس کا کلیدی اصول یہی ہے کہ وہ لفظ اپنے حقیقی تلفظ و معنیٰ کی رعایت کیے بغیر دوسری زبان میں دخیل ہوتا ہے اور یہاں آ کر اپنا نیا اور غیرحتمی معنیٰ زیبِ تَن کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف لفظ کو نیا استعاراتی پسِ منظر فراہم ہوتا ہے بلکہ اس میں بین المتن نئے علائم کا دخول بھی ممکن ہوتا ہے۔
اس کی مثال بہت سے الفاظ ہیں………..عربی حوالہ جات دینے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ لوگ جنھیں عربی قواعد کو اردو پر لاگو کرنے کا بہت شوق ہے، انھیں معلوم ہو جائے کہ یہ اطلاقات عربی میں بھی ہوتے ہیں۔ مفعول کو فاعل کے معنیٰ میں اور فاعل کو مفعول کے معنیٰ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض مرتبہ مخصوص معنوی اور تشکیلی پس منظر بھی کارفرما ہوتا ہے۔
بہرحال! عربی پسندوں کی یہ ضد اَب سرد پڑ جانی چاہیے۔ اور انھیں یہ مان لینا چاہیے کہ اردو میں مشکور کو شاکر کا معنیٰ دینے میں کوئی ایسی قیامت نہیں نیز یہ کہ اسے مخصوص لوگوں کا تفرّد کہا جائے‘‘۔ یہاں رک کر ذرا خاکسار سہیل کی ایک وضاحت ملاحظہ فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ کا اپنا یہ عمل ہے کہ قرآن کریم میں بعض اسماء الحسنیٰ اپنے علاوہ اپنے محبوب (علیہ الصلوٰۃ والتسلیم) کے لیے استعمال فرمائے۔ کریم، خداوند قدوس بھی ہے، اُس کا محبوب بھی، قرآن بھی، رمضان بھی۔ اسی طرح رحیم، رَؤف، مجید اور محمود کی مثال ہے کہ اپنے اور اپنے محبوب کے لیے استعمال فرمائے۔
رب ِذوالجلال کے اسماء الحسنیٰ میں شامل رشید، ارشد، علی، علیم، مومن، ولی، حفیظ، سمیع، اوّاب، توّاب، ثابت اور رافع بندوں کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ معانی کی وسعت دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ مومن اور توّاب بہ یک وقت خدا اور بندے دونوں کے لیے کس طرح استعمال ہوسکتا ہے۔ بہت زیادہ توبہ کرنے والا بھی تواب ہے اور بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا بھی۔
دائمؔ اعوان نے انشاء اللہ خاں انشاء ؔ کا یہ مشہور قول برمحل نقل کیا ہے کہ ’’’’جاننا چاہیے کہ جو لفظ اردو میں آیا، وہ اردو ہوگیا، خواہ وہ لفظ عربی ہو یا فارسی، ترکی ہو، سُریانی، پنجابی ہو یا پُوربی، اصل کی روح سے غلط ہو یا صحیح، وہ لفظ، اردو کا لفظ ہے۔ اگر اصل کے موافق مستعمل ہے تو بھی صحیح اور اگر اصل کے خلاف ہے تو بھی صحیح۔ اس کی صحت اور غلطی، اس کے اردو میں رواج پکڑنے پر منحصر ہے۔ چونکہ جو چیز اردو کے خلاف ہے، وہ غلط ہے، گویا اصل میں صحیح ہو۔
اور جو اردو کے موافق ہے، وہی صحیح ہے، خواہ اصل میں صحیح نہ بھی ہو‘‘۔ (دریائے لطافت)۔ یہاں مجھے ترکی کے لفظ ’’تلاشی‘‘ کی مثال یاد آتی ہے جو وہاں تلاش کرنے والے کے معنی میں مستعمل ہے، جبکہ اردو میں تلاش کرنے والے کو ’’متلاشی‘‘ کہا جاتا ہے۔
یہاں بحث سمیٹتے ہوئے عرض کروں کہ مشکور کی جگہ شاکر کا استعمال تو غیرفصیح ہے اور علماء وماہرین لسان نے مشکور کو غلط العام فصیح قرار دیا ہے، جبکہ ایک خیال یہ بھی ہے کہ اس کی جگہ شکرگزار کا استعمال افصح یعنی زیادہ فصیح ہے، نیز ممنون کا استعمال بدرجہ اتم درست ہے۔ اب ایک لفظ اور ہے، متشکر، سو اُس کا استعمال علمی تحریروں کے سوا خال خال ہی ملتا ہے۔
یا استاذی، ویسے تو آپ سے ناراض ہونے بلکہ ناراض رہنے کے لیے وجوہات کی کمی کبھی محسوس نہیں ہوئی مگر مندرجہ بالا مضمون پڑھ کر کل سے ٹھیک ٹھاک حسد ہو رہا ہے۔ بھئی اتنا سب کچھ پڑھ کیسے لیتے ہیں؟ اور پڑھ بھی لیتے ہیں تو یاد کیسے رہ جاتا ہے؟ کبھی تو کہہ دیا کریں کہ فلاں بات میرے علم میں نہیں۔ کم از کم اس دن تو ہم سکون کی نیند سو سکیں۔ آج پھر آ کر آپ کا مضمون پڑھا تو اندازہ ہوا کہ آدھی سے زیادہ باتیں تو ہم چوبیس گھنٹوں میں ہی بھول گئے تھے۔ اب ایسے حافظے کے مارے ہم ایسے لوگ کیا کریں بھئی؟ بہرحال کل سے کافی بار ناخن چبانے کے بعد سوچا کہ آپ سے ہی استدعا کی جائے کہ کبھی کبھی کسی بات پر لاعلمی کا اظہار بھی کر دیا کریں۔ ہماری طبیعت میں خاصہ افاقہ ہو گا۔ آخر ایک محفلین ہی دوسرے محفلین کے کام آتا ہے!!
:ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔۔ قابل رشک مطالعہ اور اردو سے محبت اور لگن ہم ایسوں کو بھی مزید مطالعے اور محنت کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ اللہ ہمیں آپ سے بہت کچھ سیکھنے کی توفیق دیں اور آپ کو صحت و تندرستی کے ساتھ طویل عمر عطا فرمائیں۔ آمین
ویسے کبھی کبھی حسد ہوتا بھی ہے۔ اس کے بارے بھی کچھ بتائیے کہ کیسے چھٹکارہ ممکن ہو۔:grin:
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یا استاذی، ویسے تو آپ سے ناراض ہونے بلکہ ناراض رہنے کے لیے وجوہات کی کمی کبھی محسوس نہیں ہوئی ۔
ہائیں! یعنی پھر کروز میزائل! کون کہتا ہے کہ کینیڈا امن پسند ملک ہے ۔
بس میں مہنگائی کی وجہ سے اپنے جوابی اسکڈ میزائل نہیں داغ رہا ۔ محض دھمکیوں پر اکتفا کررہا ہوں ۔ یعنی یہ کہ صبر سے کام لے رہا ہوں۔:grin:

ویسے کبھی کبھی حسد ہوتا بھی ہے۔ اس کے بارے بھی کچھ بتائیے کہ کیسے چھٹکارہ ممکن ہو۔:grin:
حسد کا علاج تو میں پہلے بھی بتا چکا ہوں ۔اس میں آنکھوں سے پانی اور اور ناک سے چھینکیں آتی ہیں ۔ علاج ہے تو ذرا مشکل ہے لیکن مرض کو ایسے بھگادیتاہے جیسے شرپسند عناصر کو کراچی سے کینیڈا ۔ :grin:
آپ اگر علاج پر راضی ہیں تو بتائیے ۔مجھے یقین ہے بہت سارے محفلین اپنی اپنی سوکھی مرچیں لیے دھونی میں مدد دینے کو تیار اور منتظر ہیں ۔:D:D:D
 
تاریک دیاروں میں اُجالے کا پتہ ہیں
ہم لوگ محبت ہیں ، مروت کی ادا ہیں

مٹِتا ہوا اک نقش ہیں ہم لوحِ جہاں پر
بجھتے ہوئے خاموش ستاروں کی ضیا ہیں

ہم دستِ محبت میں علمدارِ مساوات!
ہم دُور سے آتی ہوئی مانوس صدا ہیں

ہم نطقِ محبت میں ہیں الفاظِ پذیرائی!
ہم چشمِ اخوت میں عنایت کی نگاہیں !

ہر اک کو لگاتے ہیں گلے نام پر اُس کے
سینہ بھی کشادہ ہے تو بازو بهی یہ وا ہیں

خوشبو کی طرح پھیلے ہیں ہم راہ گزر پر
تاریکیٔ شب تار میں جگنو کی ضیا ہیں

تاراجِ محبت ہیں اٹھائے ہوئے کشکول
آوارۂ دنیا نہیں الفت کے گدا ہیں

جھُلسے ہوئے منظر میں ہیں سائے کی نشانی
گرتی ہوئی دیوارِ روایت کا پتہ ہیں

ہم کفر سمجھتے ہیں حقارت کی نظر کو
نفرت کی زمینوں میں عنایت کی فضا ہیں

کھُل جائے گا اک بابِ اثر دل میں تمہارے
مانگو تو سہی ہم کو ہمی حرفِ دعا ہیں

بجھتے ہیں گھڑی بھر کو جل اُٹھنے کیلئے پھر
ہم لوگ ہواؤں کے نشیمن میں دیا ہیں

آجائے نہ تیشے میں کہیں ضربتِ ایمان
اِس خوف میں اب امّتِ آزر کے خدا ہیں


ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔ 2013

ظہیر بھائی ، آپ کی غزل پر کچھ روز قبل نگاہ پڑی تھی . پِھر اِس پر احباب كے تبصرے بھی دیکھے ، لیکن وقت کی قلت كے باعث فوراََ کچھ عرض نہ کر سکا . پہلے تو اِس اعلیٰ غزل پر ناچیز داد قبول فرمائیے . چند اشعار تو بہت ہی عمدہ ہیں سو ان پر خصوصی داد ! اور اب چند دیگر تاثرات پیش ہیں . آپ کی غزل پر اتنا دلچسپ تبادلۂ خیال ہوا ہے . میں سوچ رہا ہوں کہ میں بھی انگلی کٹا کر شہیدوں میں شمار ہو جاؤں . :)
’ادا ہیں‘ ، ’صدا ہیں‘ وغیرہ کی ’ہیں‘ اور ’نگاہیں‘ کی ’ہیں‘ پر شاید مزید گفتگو کی ضرورت نہیں ، تاہم یہ عرض ہے کہ حالانکہ ایک ہائے مفتوح ہے اور دوسری مکسور ، لیکن دونوں میں سے کوئی بھی اُرْدُو کی عام بول چال میں صحیح حرکت كے ساتھ ادا نہیں کی جاتی . غرض یہ کہ دونوں میں فاصلہ بہت کم رہ گیا ہے ، بلکہ ختم ہو گیا ہے ، لہذا انہیں بطور قوافی ایک ہی غزل میں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں . اساتذہ كے یہاں صوتی قوافی کی اِس سے کہیں زیادہ نمایاں فرق والی مثالیں ملتی ہیں .
لفظ ’پذیرائی‘ میں ’ی‘ كے اسقاط کی آپ نے وضاحت کر دی ہے . تاہم اتنا عرض کرتا چلوں کہ چند اساتذہ ، مثلاً استاد داغ دہلوی ، نے عربی اور فارسی الفاظ میں حروف علت كے اسقاط کو ممنوع قرار دیا ہے . سرور صاحب نے اِس لفظ کی تقطیع جس طرح کی ، اس كے پیچھے غالباََ یہی وجہ ہے ، ورنہ چند اوزان كے آخر میں ایک ساکن حرف کی زیادتی تو عام ہے . آپ نے جو مثالیں فراہم کی ہیں ، ان میں ’وائے‘ كے علاوہ مستعمل الفاظ عربی اور فارسی كے نہیں ہیں . یہ سچ ہے کہ دیگر اساتتذہ نے عربی اور فارسی الفاظ میں حروف علت كے اسقاط کو جائز ٹھہرایا ہے ، لیکن ایسا استعمال عموماً مصرعے کے وسط میں ملتا ہے . مصرعے كے آخر میں ایسے استعمال کی مثالیں ، خاص طور پر حرف ’ی‘ کی نسبت سے ، بہت کم ہونگی .
اور اب اِجازَت ہو تو دو سوال ہیں . پہلا سوال شعر # 6 میں لفظ ’شب‘ كے حرف ’ب‘ کی بابت ہے . بحر کا تقاضہ ہے کہ یہاں ساکن حرف آئے ، لیکن آپ نے یہاں متحرک حرف باندھا ہے . کیا اِس کی اِجازَت ہے ؟
دوسرا سوال شعر # 8 میں فاعل کی غیر موجوودگی سے متعلق ہے . آپ نے فرمایا ہے کہ یہ مسلسل غزل نہیں ہے . میں نے ایسی مسلسل غزلیں تو دیکھی ہیں جن میں شاعر نے فاعل کا اعلان غزل كے آغاز میں کیا ہے ، لیکن پِھر بعد كے اشعار میں فاعل کو حذف کر دیا ہے . لیکن ایسی غزلوں میں کسی اور فاعل کی قطعی گنجائش نہیں ہوتی . آپ كے بیشتر اشعار میں فاعل ’ہَم‘ ہے ، لیکن اَخِری شعر میں ’امت آزر كے خدا‘ ہو گیا ہے . کیا اِس حالت میں شعر # 8 میں فاعل کا اعلان نہ کرنا روا ہے ؟
آخر میں لفظ ’مشکور‘ پر ایک معلوماتی مضمون عنایت فرمانے كے لیے مشکور ہوں . :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت شکریہ ، نوازش ! بہت ممنون ہوں ، عرفان بھائی ۔ سخنوروں کی طرف سے داد وتحسین ہمیشہ ہی باعثِ تسکین ہوتی ہے ۔ اللہ آپ کو خوش رکھے!
اور اب اِجازَت ہو تو دو سوال ہیں . پہلا سوال شعر # 6 میں لفظ ’شب‘ كے حرف ’ب‘ کی بابت ہے . بحر کا تقاضہ ہے کہ یہاں ساکن حرف آئے ، لیکن آپ نے یہاں متحرک حرف باندھا ہے . کیا اِس کی اِجازَت ہے ؟
دوسرا سوال شعر # 8 میں فاعل کی غیر موجوودگی سے متعلق ہے . آپ نے فرمایا ہے کہ یہ مسلسل غزل نہیں ہے . میں نے ایسی مسلسل غزلیں تو دیکھی ہیں جن میں شاعر نے فاعل کا اعلان غزل كے آغاز میں کیا ہے ، لیکن پِھر بعد كے اشعار میں فاعل کو حذف کر دیا ہے . لیکن ایسی غزلوں میں کسی اور فاعل کی قطعی گنجائش نہیں ہوتی . آپ كے بیشتر اشعار میں فاعل ’ہَم‘ ہے ، لیکن اَخِری شعر میں ’امت آزر كے خدا‘ ہو گیا ہے . کیا اِس حالت میں شعر # 8 میں فاعل کا اعلان نہ کرنا روا ہے ؟
یہ ٹائپو ہے ۔ شب تار نہیں شب زار ہے ۔ یعنی: خوشبو کی طرح پھیلے ہیں ہم راہ گزر پر ::::: تاریکیِ شب زار میں جگنو کی ضیا ہیں۔ نشاندہی کے لیے ممنون ہوں ۔ اب تدوین ممکن نہیں ۔
اگر کوئی مدیر ازراہِ کرم اسے درست کردے تو مشکور رہوں گا۔ احمد بھائی نے پانچویں شعر میں بھی ایک ٹائپو کی طرف توجہ دلائی ہے اگر اسے بھی درست کردیا جائے تو عین نوازش ہو گی۔

اس غزل کو جو چیز مسلسل غزل کہنے سے مانع ہے وہ اس کا آخری شعر ہے ۔چونکہ میں نے اس شعر کو غزل میں رکھنے کو ترجیح دی اس لیے اسے مسلسل غزل نہیں کہا جاسکتا ۔ لیکن جیسا کہ پہلے بھی ایک مراسلے میں عرض کیا کہ اکثر اشعار کے مضامین ایک ہی رنگ میں اور ایک ہی ماحول کے عکاس ہیں۔ چند اشعار پڑھنے کے بعد ہی یہ بات قاری پر اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے ۔ اگر میں نو یا دس اشعار کے بعد ذرا سا وقفہ چھوڑدوں تو گویا اس طرح اوپر کے اشعار قطعہ بند ہوجائیں گے اور یوں آٹھویں شعر میں فاعل کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ماقبل کے ہر شعر کا فاعل "ہم" ہی ہے ۔ یعنی آٹھویں شعر میں فاعل کا مذکور نہ ہونا کوئی لسانی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سادہ سی تکنیکی سی بات ہے ۔ قاری کے لیے اس میں کوئی الجھن نہیں ۔
 
Top