تاریخ اسلام سے عسکری تیاری کا عظیم سبق

نبیل

تکنیکی معاون
حوالہ: پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کیلئے ایک عبرت آموز واقعہ - ارشاد احمد حقانی (روزنامہ جنگ، 3 مئی 2008 )

یہ 1973ء کی بات ہے۔ عربوں اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑنے کو تھی۔ ایسے میں ایک امریکی سنیٹر ایک اہم کام کے سلسلے میں اسرائیل آیا۔ وہ اسلحہ کمیٹی کا سربراہ تھا۔ اسے فوراً اسرائیل کی وزیراعظم ”گولڈہ مائیر“ کے پاس لے جایا گیا۔ گولڈہ مائیر نے ایک گھریلو عورت کی مانند سنیٹر کا استقبال کیا اور اسے اپنے کچن میں لے گئی۔ یہاں اس نے امریکی سنیٹر کو ایک چھوٹی سی ڈائننگ ٹیبل کے پاس کرسی پر بٹھا کر چولہے پر چائے کے لئے پانی رکھ دیا اور خود بھی وہیں آ بیٹھی۔ اس کے ساتھ اس نے طیاروں، میزائلوں اور توپوں کا سودا شروع کر دیا۔ ابھی بھاؤ تاؤ جاری تھا کہ اسے چائے پکنے کی خوشبو آئی۔ وہ خاموشی سے اٹھی اور چائے دو پیالیوں میں انڈیلی۔ ایک پیالی سنیٹر کے سامنے رکھ دی اور دوسری گیٹ پر کھڑے امریکی گارڈ کو تھما دی۔ پھر دوبارہ میز پر آ بیٹھی اور امریکی سنیٹر سے محو کلام ہو گئی۔ چند لمحوں کی گفت و شنید اور بھاؤ تاؤ کے بعد شرائط طے پا گئیں۔ اس دوران گولڈہ مائیر اٹھی، پیالیاں سمیٹیں اور انہیں دھو کر واپس سنیٹر کی طرف پلٹی اور بولی ”مجھے یہ سودا منظور ہے۔ آپ تحریری معاہدے کے لئے اپنا سیکرٹری میرے سیکرٹری کے پاس بھجوا دیجئے۔ یاد رہے کہ اسرائیل اس وقت اقتصادی بحران کا شکار تھا، مگر گولڈہ مائیر نے کتنی ”سادگی“ سے اسرائیل کی تاریخ میں اسلحے کی خریداری کا اتنا بڑا سودا کر ڈالا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ خود اسرائیلی کابینہ نے اس بھاری سودے کو رد کر دیا۔ اس کا موقف تھا، اس خریداری کے بعد اسرائیلی قوم کو برسوں تک دن میں ایک وقت کھانے پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ گولڈہ مائیر نے ارکان کابینہ کا موقف سنا اور کہا : ”آپ کا خدشہ درست ہے، لیکن اگر ہم یہ جنگ جیت گئے اور ہم نے عربوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا تو تاریخ ہمیں فاتح قرار دیگی اور جب تاریخ کسی قوم کو فاتح قرار دیتی ہے، تو وہ بھول جاتی ہے کہ جنگ کے دوران فاتح قوم نے کتنے انڈے کھائے تھے اور روزانہ کتنی بار کھانا کھایا تھا۔ اسکے دستر خوان پر شہد، مکھن، جیم تھا یا نہیں اور ان کے جوتوں میں کتنے سوراخ تھے یا ان کی تلواروں کے نیام پھٹے پرانے تھے۔ فاتح صرف فاتح ہوتا ہے۔“ گولڈہ مائیر کی دلیل میں وزن تھا، لہٰذا اسرائیلی کابینہ کو اس سودے کی منظوری دینا پڑی۔ آنے والے وقت نے ثابت کر دیا کہ گولڈہ مائیر کا اقدام درست تھا اور پھر دنیا نے دیکھا، اسی اسلحے اور جہازوں سے یہودی عربوں کے دروازوں پر دستک دے رہے تھے۔ جنگ ہوئی اور عرب ایک بوڑھی عورت سے شرمناک شکست کھا گئے۔ جنگ کے ایک عرصہ بعد واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے گولڈہ مائیر کا انٹرویو لیا اور سوال کیا: ”امریکی اسلحہ خریدنے کے لئے آپ کے ذہن میں جو دلیل تھی، وہ فوراً آپ کے ذہن میں آئی تھی، یا پہلے سے حکمت عملی تیار کر رکھی تھی؟“ گولڈہ مائیر نے جو جواب دیا وہ چونکا دینے والا تھا۔ وہ بولی :”میں نے یہ استدلال اپنے دشمنوں (مسلمانوں) کے نبی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) سے لیا تھا، میں جب طالبہ تھی تو مذاہب کا موازنہ میرا پسندیدہ موضوع تھا۔ انہی دنوں میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح حیات پڑھی۔ اس کتاب میں مصنف نے ایک جگہ لکھا تھا کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو ان کے گھر میں اتنی رقم نہیں تھی کہ چراغ جلانے کے لئے تیل خریدا جا سکے، لہٰذا ان کی اہلیہ (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) نے ان کی زرہ بکتر رہن رکھ کر تیل خریدا، لیکن اس وقت بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے کی دیواروں پر نو تلواریں لٹک رہی تھیں۔ میں نے جب یہ واقعہ پڑھا تو میں نے سوچا کہ دنیا میں کتنے لوگ ہوں گے جو مسلمانوں کی پہلی ریاست کی کمزور اقتصادی حالت کے بارے میں جانتے ہوں گے لیکن مسلمان آدھی دنیا کے فاتح ہیں، یہ بات پوری دنیا جانتی ہے۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ اگر مجھے اور میری قوم کو برسوں بھوکا رہنا پڑے، پختہ مکانوں کی بجائے خیموں میں زندگی بسر کرنا پڑے، تو بھی اسلحہ خریدیں گے، خود کو مضبوط ثابت کریں گے اور فاتح کا اعزاز پائیں گے۔“ گولڈہ مائیر نے اس حقیقت سے تو پردہ اٹھایا، مگر ساتھ ہی انٹرویو نگار سے درخواست کی اسے ”آف دی ریکارڈ“ رکھا جائے اور شائع نہ کیا جائے۔ وجہ یہ تھی، مسلمانوں کے نبی کا نام لینے سے جہاں اس کی قوم اس کے خلاف ہو سکتی ہے، وہاں دنیا میں مسلمانوں کے موقف کو تقویت ملے گی۔ چنانچہ واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے یہ واقعہ حذف کر دیا۔ وقت دھیرے دھیرے گزرتا رہا، یہاں تک کہ گولڈہ مائیر انتقال کر گئی اور وہ انٹرویو نگار بھی عملی صحافت سے الگ ہو گیا۔ اس دوران ایک اور نامہ نگار، امریکہ کے بیس بڑے نامہ نگاروں کے انٹرویو لینے میں مصروف تھا۔ اس سلسلے میں وہ اسی نامہ نگار کا انٹرویو لینے لگا جس نے واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے کی حیثیت سے گولڈہ مائیر کا انٹرویو لیا تھا۔ اس انٹرویو میں اس نے گولڈہ مائیر کا واقعہ بیان کر دیا، جو سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق تھا۔ اس نے کہا کہ اب یہ واقعہ بیان کرنے میں اسے کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہو رہی ہے۔ گولڈہ مائیر کا انٹرویو کرنے والے نے مزید کہا: ”میں نے اس واقعے کے بعد جب تاریخ اسلام کا مطالعہ کیا، تو میں عرب بدوؤں کی جنگی حکمت عملیاں دیکھ کر حیران رہ گیا، کیونکہ مجھے معلوم ہوا کہ وہ طارق بن زیاد جس نے جبرالٹر (جبل الطارق) کے راستے اسپین فتح کیا تھا، اس کی فوج کے آدھے سے زیادہ مجاہدوں کے پاس پورا لباس نہیں تھا۔ وہ بہترّ بہترّ گھنٹے ایک چھاگل پانی اور سوکھی روٹی کے چند ٹکڑوں پر گزارا کرتے تھے۔ یہ وہ موقع تھا، جب گولڈہ مائیر کا انٹرویو نگار قائل ہو گیا کہ ”تاریخ فتوحات گنتی ہے، دستر خوان پر پڑے انڈے، جیم اور مکھن نہیں۔ “ گولڈہ مائیر کے انٹرویو نگار کا اپنا انٹرویو جب کتابی شکل میں شائع ہوا تو دنیا اس ساری داستان سے آگاہ ہوئی ۔ یہ حیرت انگیز واقعہ تاریخ کے دریچوں سے جھانک جھانک کر مسلمانان عالم کو جھنجھوڑ رہا ہے، بیداری کا درس دے رہا ہے، ہمیں سمجھا رہا ہے کہ ادھڑی عباؤں اور پھٹے جوتوں والے گلہ بان، چودہ سو برس قبل کس طرح جہاں بان بن گئے؟ ان کی ننگی تلوار نے کس طرح چار براعظم فتح کر لئے؟ اگر پُرشکوہ محلات، عالی شان باغات، زرق برق لباس، ریشم و کمخواب سے آراستہ و پیراستہ آرام گاہیں، سونے، چاندی، ہیرے اور جواہرات سے بھری تجوریاں، خوش ذائقہ کھانوں کے انبار اور کھنکھناتے سکوں کی جھنکار ہمیں بچا سکتی تو تاتاریوں کی ٹڈی دل افواج بغداد کو روندتی ہوئی معتصم باللہ کے محل تک نہ پہنچتی۔​

مکمل مضمون پڑھیں۔۔
 
اللہ آپ کو جزائے خیر دے اس مضمون کو شیئر کرنے پر مضمون لکھنے والے نے تو ہمارے حکمرانو کے ضمیر جنجھوڑنے والا مضمون لکھا ہے اللہ کرے کہ ہمارے حکمرانوں کا ضمیر جاگ اٹھے۔
 

خرم

محفلین
اور جس قوت نے انہیں پھٹے کپڑوں اور پانی کی چھاگل کے ساتھ فارس و روم کی طاقتوں سے ٹکرانے پر آمادہ کیا وہ تھا ان کا اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین پر مکمل اعتماد و اعتقاد۔
 

شمشاد

لائبریرین
لیکن یہاں تو اتنے بڑے بڑے محل ہیں کہ آپ ایک دن میں سارا محل گھوم ہی نہیں سکتے، ایک ایک محل میں سینکڑوں اعلٰی سے اعلٰی گاڑیاں، دنیا جہان کی سہولتیں۔ ان کی تو فوج کے ٹینک تک ائیر کنڈیشنڈ ہیں۔

بحرین کے بادشاہ کے پاس جو ذاتی طیارہ ہے وہ دنیا کا سب سے بڑا لگژری ذاتی طیارہ ہے جبکہ پورا بحرین کراچی جتنا بھی نہیں ہو گا۔
 

زیک

مسافر
گولڈا مائر والے واقعے کا اصل ریفرنس کسی کو معلوم ہے؟ اصل ریفرنس کے بغیر اسے ماننا بیوقوفی ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
زیک، میں پہلے بھی اس کے بارے میں سن چکا ہوں، البتہ یہ یاد نہیں کہ اس میں گولڈا میئر کا ذکر تھا یا نہیں۔ میں پتا کرکے یہاں ریفرینس فراہم کروں گا۔ آپ کچھ شک کا اظہار کر رہے ہیں، کیا آپ کو بات تاریخی اعتبار سے درست نہیں معلوم ہوتی؟
 

زیک

مسافر
ارشاد حقانی نے اتنا لمبا واقعہ لکھا ہے مگر نہ دونوں نامہ‌نگاروں کے نام دیئے ہیں نہ ہی کتاب کا۔ ایسی صورت میں اردو اخبار کے صحافی پر اعتبار کر کے دھوکہ ہی ہو سکتا ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
زیک، جھوٹ صرف اردو صحافت میں ہی نہیں بلکہ ہر زبان کی صحافت میں بولا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ارشاد حقانی کے اس کالم میں ناکافی حوالے موجود ہیں، میں اسی لیے جاننا چاہتا ہوں کہ کیا یہ بات تاریخی اعتبار سے درست ہے یا نہیں۔ اگر مجھے اس کی تردید مل جاتی ہے تو میں اپنی پوسٹ مدون کر دوں گا۔
 

arifkarim

معطل
یہ واقعہ جھوٹا بھی ہو سکتا ہے یا سچا بھی۔ مگر یہ بات درست ہے کہ اسلامی تاریخ و فلسفہ کو جتنا قریب سے اسرائیلی دیکھتے ہیں، اتنا قریب مسلمان بھی نہیں دیکھتے۔ آج کل کے مسلمان سوئے ہوئے نہیں بلکہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی سونے کی ایکٹنگ کر رہے ہیں۔ سوئے ہوئے کو تو بندہ جگائے، مگر جاگے ہوئے کو کون جگائے؟
 

وجی

لائبریرین
arifkarim[FONT="Urdu_Umad_Nastaliq"] صاحب آپ نے بلکل ٹھیک فرمایا کہ اسرئیلی ہی نہیں ہر یہودی جو اسلام کے خلاف نفرت رکھتا ہے وہ بڑی قریب سے دیکھتا ہے ایک بات جو میرے والد کو کسی فلسطینی نے بتائی وہ یہ کہ آپ کو معلوم ہے کہ جب دجال کو حضرت عیسٰی ختم کریں گے تو پھر یہودیوں کا ختم کیا جائے گا اور وہ جہاں چھپیں گے وہ چیز بولے گی صرف ایک درخت کے علاوہ اوراب اسرئیل میں یہودیوں نے بڑے پیمانے میں اس درخت کو لگایا ہے [/FONT]
 

خرم

محفلین
ویسے اس تعریف پر فٹ بیٹھتے ہیں تو وہ افغان مجاہدین ہی ہیں۔

چلئے ہمت بھائی کوئی اور خوبی آپ نے زرداریوں کے علاوہ بھی کسی کے نام کی۔ ویسے افغان یہ سب مذہباً نہیں روایتاَ کرتے ہیں۔ جیسے افریقہ کے وحشی قبائل بھی لازماَ ہتھیار رکھتے ہیں اگرچہ کھانے کو جڑی بوٹیاں اور کبھی کبھار کا شکار ہی ملتا ہے۔ پھر ہم پاکستانی بھی تو اپنا پیٹ کاٹ کر اسلحہ خریدتے ہیں اپنی افواج کے لئے۔ وہ اس تعریف پر پورا کیوں نہیں اترتا؟:rolleyes:
 

arifkarim

معطل
arifkarim[FONT="Urdu_Umad_Nastaliq"] صاحب آپ نے بلکل ٹھیک فرمایا کہ اسرئیلی ہی نہیں ہر یہودی جو اسلام کے خلاف نفرت رکھتا ہے وہ بڑی قریب سے دیکھتا ہے ایک بات جو میرے والد کو کسی فلسطینی نے بتائی وہ یہ کہ آپ کو معلوم ہے کہ جب دجال کو حضرت عیسٰی ختم کریں گے تو پھر یہودیوں کا ختم کیا جائے گا اور وہ جہاں چھپیں گے وہ چیز بولے گی صرف ایک درخت کے علاوہ اوراب اسرئیل میں یہودیوں نے بڑے پیمانے میں اس درخت کو لگایا ہے [/FONT]

اس بات کا میں‌ذکر رکنے ہی والا تھا کہ آپ نے خود ہی کر دیا :)
 

وجی

لائبریرین
[FONT="Urdu_Umad_Nastaliq"]یہ ہی نہیں‌بھائی وہ تو یہ بھی جانتے ہیں اور پوچھتے رہتے ہیں اس بارے میں‌کہ
اس وقت مسلمان کامیابی حاصل کرنا شروع کردینگے جب فجر کی نماز میں اتنے لوگ ہوا کریں گے جتنے جمعہ کی نماز میں ہوتے ہیں‌
[/FONT]
 
Top