بی بی سی: پاکستان سر کاٹ کر 'طوایفوں' کو سزا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
ہوسکتا ہے یہ حرکت ذاتی دشمنی کا شاخسانہ ہو۔۔۔ کیونکہ اس واقعے کے بعد ایسا دوسرا کوئی واقعہ رونما ہوا۔۔۔کیا خیال ہے اس پر بھی کچھ سوچا جانا چاہئے کہ نہیں؟؟؟۔۔۔
وسلام۔۔۔
 

خرم

محفلین
برادر ! میں تو موصوفین کے اعتراضات کی تردید میں کتاب کھول کر ایک لمبا چوڑا مضمون لکھ رہا تھا۔ لیکن آپ نے تو اپنی پوسٹ میں دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔
ہم جہاد کے مخالفین کے لیئے دعائے خیر ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ ان کو ہدایت دے ۔ یہ "روشن خیال" تو فلسطینی نوجوانوں کی اسرائیل کے خلاف مزاحمت دیکھ کر بھی کڑھتے رہتے ہیں ۔ جہاد کی مخالفت نے ان کی مت ماردی ہے۔
نعیم صاحب۔ فلسطینی نوجوانوں کی اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی کب اور کس نے مذمت کی؟ اس بارے میں آپ کے ثبوت کا انتظار رہے گا۔ ہاں اگر آپ نے یہ تہمت اپنے سے گھڑی ہے تو پھر شاید اسلام اور اس کے اراکین پر بحث کرنے سے پہلے آپ کو اسلام کو اپنے آپ پر نافذ کرنا ہوگا۔
خاور صاحب۔ جہاد کی فرضیت کے بارے میں یہ کہیں لکھا ہوا ہے کہ اس کا اعلان کون کرے گا؟ کیا حکومت اور مسلمانوں کی اجتماعی رائے کا ذکر کہیں کسی حدیث یا آیت میں ملتا ہے؟ اچھا کسی حدیث یا آیت سے یہ ہی بتلا دیجئے کہ ہر شخص یا ایک گروہ اپنی مرضی سے جہاد کا آغاز و اختتام کر سکتا ہے؟ یہاں پر میں کسی شخص کی ذاتی رائے کا ذکر نہیں کر رہا ہوں صرف ایک حدیث یا قرآنی آیت کا حوالہ چاہ رہا ہوں۔ اگر آپ کے علم میں ہے تو مہیا کرکے مشکور کیجئے گا۔ باقی باتیں‌بعد میں انشاء اللہ۔
 

خاور بلال

محفلین
خاور صاحب۔ جہاد کی فرضیت کے بارے میں یہ کہیں لکھا ہوا ہے کہ اس کا اعلان کون کرے گا؟ کیا حکومت اور مسلمانوں کی اجتماعی رائے کا ذکر کہیں کسی حدیث یا آیت میں ملتا ہے؟ اچھا کسی حدیث یا آیت سے یہ ہی بتلا دیجئے کہ ہر شخص یا ایک گروہ اپنی مرضی سے جہاد کا آغاز و اختتام کر سکتا ہے؟ یہاں پر میں کسی شخص کی ذاتی رائے کا ذکر نہیں کر رہا ہوں صرف ایک حدیث یا قرآنی آیت کا حوالہ چاہ رہا ہوں۔ اگر آپ کے علم میں ہے تو مہیا کرکے مشکور کیجئے گا۔ باقی باتیں‌بعد میں انشاء اللہ۔

عزت ماٰب خرم صاحب!
میں نے تو یہ کہیں نہیں کہا کہ ہر شخص یا کوئی بھی گروہ اپنی مرضی سے جہاد کا آغاز و اختتام کر سکتا ہے۔ آپ کے سوالات کے بعد میں نے ایک دفعہ پھر اپنا مراسلہ پڑھا۔ معذرت کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس میں ایسی کوئ بات نظر نہیں آئ، جس کے لیے میں شرمندہ ہوں کہ آپ کے مطلب کی باتیں تحریر نہ کرسکا آئیندہ خیال رکھوں گا۔ میرے خیال میں آپ کسی اور سے ہم کلام ہونا چاہتے تھے لیکن غلطی سے مجھے مخاطب کرلیا۔ لیکن اس کے برعکس اگر مجھے ہی مخاطب کیا ہے تو عرض یہ ہے کہ جتنی محنت آپ میری پوسٹ سے اختلافی نکات تلاشنے میں کرتے ہیں اس کا مجھے اندازہ ہورہا ہے۔ آپ کی اس گرانقدر خدمت کا میں معترف ہوں۔
میں نے مراسلے کے اختتام پر "الجہاد فی الاسلام" کا بنیادی تعارف اسی مقصد کے لیے تحریر کیا تھا کہ احباب اس کی اہمیت سمجھیں اور ٹامک ٹوئیاں مارنے سے بچ جائیں۔ جابجا اور بے جا سوالات کرنا، بے محل تبصرے جڑنا، افواہیں نشر کرنا، سنسنی پھیلانا اور کنفیوژن پیدا کرنا منجن کی سیل میں اضافے کا تو باعث بن سکتا ہے لیکن افہام و تفہیم کے لیے سازگار ہرگز نہیں ہے۔ میں "الجہاد فی الاسلام" کا ربط فراہم کررہا ہوں اور اس کا بنیادی تعارف ایک بار پھر تحریر کررہا ہوں تاکہ "سوال و جواب کی فیشن پریڈ" سے بچت ہوجائے۔ اگر آپ کتاب پڑھنے کی زحمت نہ کرپائیں تو صرف فہرست پڑھنے کی زحمت ہی کرلیے گا۔ اگر یہ بھی نہ کرپائیں تو پھر سوال پوچھنے کی زحمت نہ کیجیے گا۔

“١٩٢٦ء میں جب سوامی شردھانند کے قتل پر سارے ہندوستان میں ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا اور اسلام پر چاروں طرف سے حملے ہونے لگے، تو ایک روز مولانا محمد علی جوہر مرحوم نے اپنی تقریر میں کہا کہ کاش کوئی بندۂ خدا اس وقت اسلامی جہاد پر ایسی کوئی کتاب لکھے جو مخالفین کے سارے اعتراضات و الزامات کو رفع کرکے جہاد کی اصل حقیقت دنیا پر واضح کردے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ نے مولانا محمد علی جوہر کی زبان سے یہ بات سن کر اپنے دل میں خیال کیا کہ وہ بندۂ خدا میں ہی کیوں نہ ہوں؟ چنانچہ اسی وقت انہوں نے یہ کام شروع کردیا۔ اس وقت ان کی عمر ٢٣ سال تھی اور تین سال کی محنت شاقہ کے بعد انہوں نے اسے مکمل کیا۔ جس وقت یہ منظرِ عام پر آئی تو علامہ اقبال مرحوم نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ جہاد کے موضوع پر ایسی محققانہ اور غیر معذرت خواہانہ کتاب اردو تو کیا، دوسری کسی زبان میں بھی نہیں لکھی گئی۔“
 

Muhammad Naeem

محفلین
آیئے میں آپ کو بتلاؤں کہ جہاد کیا ہے۔ ہم کس چیز کو جہاد کہتے ہیں ۔ اور اسلام جہاد سے کیا مراد لیتا ہے ۔
ہمارے نزدیک جہاد سے مراد ہےکہ :
یاایھاالنبی حرض المومنین علی القتال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" اے نبی( صلی اللہ علیہ وسلم) اہل ایمان کو (حربی) کفار کو قتل کرنے کی ترغیب دے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہمارے نزدیک اسلام کی مراد جہاد وہی ہے:
یا ایھاالذین آمنوا کتب علیکم القتال وھو کرہ لکم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" اے ایمان والو! تم قتال( حربی کافروں کو قتل کرنا) فرض کردیا گیا ہے ۔جو کہ تمہارے (روشن خیالوں کو) کو سخت ناگوار ہے ۔

ہمارے نزدیک اسلام کا مطلوب و مقصود جہاد وہ ہے کہ :
الم ترا الی الذین قیل لھم کفوا ایدیکم واقیموالصلوٰۃ واتو الزکوٰۃ فلما کتب علیکم القتال اذا فریق منھم یخشون الناس کخشیۃ اللہ وقالو ربنا لم کتبت علینا القتال لولا اخرتنا الٰی اجل قریب قل متاع الدنیا قلیل والآخرۃ خیر لمن اتقیٰ ولا تظلمون فتیلا ۔
" کیا تم نے ایسے (روشن خیالوں) کو نہیں دیکھا کہ جب انہیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ (فی الحال) نماز قائم کرتے رہو اور زکوٰۃ دیتے رہو۔ پھر جب ان پر ( کشمیر، افغانستان، عراق پر کفار کے حملوں کی صورت میں ) ہم نے (جوابی طور پر) کفارکو قتل کرنا فرض کردیا تو( روشن خیال) کفار اور دیگر (ان کے ہمنوامشرف جیسے)لوگوں سے اسطرح ڈرنے لگے جس طرح اللہ تعالیٰ سے ڈرا جاتا ہے بلکہ کہیں اس سے بھی زیادہ، اور کہنے لگے کہ اللہ ! تو نے ہم پر کافروں کو قتل کرنا کیسے فرض کردیا کاش ہمیں تھوڑی سی اور مہلت دے دیتا۔ان (روشن خیالوں) سے کہہ دو کہ دنیا کے فائدے بہت تھوڑے ہیں اور آخرت کی زندگی اس کے لیئے بہتر ہے جو اللہ سے ڈر جائے ۔ اور تم پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کیا جائیگا "۔
ہمارے نزدیک جہاد سے مراد ہے:
من مات ولم یغز ولم یحدث بہ نفسہ مات علیٰ شعبۃ من نفاق ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔(الحدیث)
" جو اس حال میں مر گیا کہ اس نے نہ اللہ کے راستے میں جنگ کی اور نہ ہی جنگ (لڑنے) کی تیاری کی، (وہ جب مرے گا) تو اس کی موت منافقت کے ایک شعبے پرہو گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (صدق نبی صلی اللہ علیہ وسلم)

ہمارے نزدیک جہاد سے مراد یہ ہے :
الجہاد ھوالقتال فی سبیل اللہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (الحدیث)
" جہاد سے مقصود اللہ کی راہ میں کفار سے جنگ کرنا ہے "

ہمارے نزدیک جہاد سے مراد ہے
لغدوۃ فی سبیل اللہ وروحۃ خیر من الدنیا وما فیھا ۔
ایک صبح کو اللہ کی راہ میں نکلنا یا ایک شام کو اللہ کی راہ میں (جہاد) میں نکلنا ساری دنیا اور اسکی تمام دولتوں اور نعمتوں سے بہترہے ۔

جی ہاں ! جہاد سے مراد وہی ہے جس کا اظہار میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا
والذی نفسی بیدہ لو ددت ان اقتل فی سبیل اللہ ثم احیی اقتل ثم احیی ثم اقتل ۔ ( بخاری و مسلم )
ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری تمنا ہے کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں اور پھر مجھے زندہ کیا جا ئے ، پھر قتل کیا جا ؤں ، پھر زندہ کردیا جائے ، پھر قتل کیا جاؤں ، پھر زندہ کر دیا جائے ، پھر قتل کیا جاؤں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ( تمہارے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مقام عبرت ہے تاریک خیا لو!)
جہاد سے ہمارا مقصود وہ جہاد ہے کہ
حضرت ابراہیم بن ادہم (رحمہ اللہ) نے کبر سنی میں کہا کہ میری کمان پر تیر چڑھادو!
پھر اس حال میں انتقال فرمایا کہ کمان ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑی ہوئی تھی ۔ اور اسی طرح انہیں بلاد روم کے ایک جزیرے میں دفن کر دی گیا۔

ہمارے جہاد سے مراد وہ جہاد ہے کہ جس کے لیئے
اپنے وقت کا جلیل القدر محدث اور فقیہہ عبداللہ بن مبارک (رحمہ اللہ) بڑھاپے میں 2600 میل کی مسافت طے کرکے محاذ جنگ پر پہنچا۔
ہمارے جہاد سے مراد وہ جہاد ہے جس کے لیئے
زبیر بن المروزی(رحمہ اللہ) نے کہا کہ مجھے چالیس سال سے گوشت کھانے کی خواہش ہے لیکن میرا عزم ہے کہ یہ خواہش اب میں رومیوں کی بھیڑوں کی غنیمت سے ہی پوری کروں گا ۔
ہمارے جہاد سے مراد وہ جہاد ہے کہ
احمد بن اسحاق (رحمہ اللہ) نے کہا مجھے یقینی طور پر معلوم ہے کہ میری تلوار نے کم وبیش 1000 کفار کی گردن اتاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں بدعت نہ سمجھتا تو وصیت کرجاتا کہ میری اس تلوار کو میرے ساتھ ہی دفن کر دیا جائے ۔
اور ہمارا جہاد وہ جہاد ہے جس جہاد پر ابن قادوس(رحمہ اللہ) عمل پیرا تھے کہ:
میدان جنگ سے فرار ہونے والے ایک صلیبی نے راستے میں چشمے پر گھوڑے کو پانی پلانا چاہا تو گھوڑے نے پانی پینے سے انکار کردیا۔ اس پر صلیبی کہنے لگا "پانی کیوں نہیں پی رہا ! کیا تجھے پانی میں ابن قادوس کا چہرہ نظر آرہا ہے۔
ہمارا جہاد وہ جہاد ہے کہ جس جہاد کو عمر مختار نے کیا
اور اطالوی فوج کے ایک جنرل نے کہا " عمر مختار بیس مہینوں میں ہماری فوج سے 263 بار ٹکرایا۔ اس کے مجموعی حملوں کی تعداد ایک ہزار تک جا پہنچتی ہے۔
جی ہاں ہمارے جہاد سے مراد وہ جہاد ہے جس کے لیئے شاہ اسمٰعیل شہید (رحمہ اللہ) اور سید احمد شہید (رحمہ اللہ) نے انگریزی قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا، حاکمان وقت کو برسر منبر للکارا، اور جس کاقافلہ جہاد رائے بریلی سے چل کر کوئٹہ اور قندھار کے راستے سے سفر کرتا ہوا ہزارہ پہنچا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس جہاد کے لیئے عرب کا نازونعم میں پلا ہوا شہزادہ اور بیت اللہ کا خادم اسامہ بن لادن افغانستان پہنچا اور اس نے افغانستان کے کہساروں کو اپنا مسکن بنایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ جہاد جس جہاد کے حامل ابومصعب الزرقاوی نے عراق کو "روشن خیال تھیوری" کے خالق و سرپرست امریکہ کے لیئے جلتی ہوئی سرزمین میں بدل دیا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اور
ہمارے جہاد سے مراد وہ جہاد کا راستہ ہے جس پر راستے پرسفر کرنے والا کمانڈر ابن الخطاب سعودی عرب سے افغانستان، افغانستان سے ازبکستان اور ازبکستان سے چیچنیا کے محاذوں تک پہنچا۔ اور جس کی جہادی تگ وتاز پر روسی افواج کی سرکاری دستاویزات میں اعتراف کیا گیا کہ " چیچن جہاد میں ابن الخطاب کی شمولیت کے چار سالوں میں اس قدر روسی فوجی ہلاک ہوئے ہیں کہ اس قدر روسی فوجی افغانستان کی جنگ کے دس سالوں میں نہیں مارے گئے تھے ".
یہ تسلیم ہے کہ لغوی طور پر جہاد دیگر کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے مگر اسلام کا مقصود و مطلوب وہ جہاد ہے جس کےلئے ظالم و غاصب، جابر و قاہر، متکبر و سرکش ائمۃ الکفر کو برسرعام للکارا جاتا ہے۔ جس جہاد میں راکٹوں کی گھن گھرج،گولیوں کی سنسناہٹ، برسٹوں کی بوچھاڑ، اور گولوں کی دھمک سنا ئی دیتئ ہے۔ جس جہاد کو دبانے کے لیئے کفار اور ان کےساتھ نام نہاد مسلمان چمچے کڑچھے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔
جہاد بالقلم اور جہاد باللسان وہ حقیقی جہاد نہیں ہیں جو اسلام کا مقصود ہے۔ بلکہ یہ تو اس جہاد کے معاون اجزاء و عناصر ہیں جنہیں جہاد کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔
خوش اخلاقی، پولیو، غربت، بیماریوں وغیرہ کےخلاف جہاد ، ایسے نام نہاد جہاد ہیں جو نہ تو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے علم میں تھے اور نہ ہی موجودہ دور میں راسخ العقیدہ مسلمانوں میں ان جہادوں کی کوئی حقیقت ہے۔
ان جہادوں کی پیدائش کے پیچھے کفار اور ان کے فکری غلاموں کی بزدلانہ سوچوں کا عمل دخل ہے۔ جن کا مشن اور مقصد اسلام میں نت نئی اختراعات کو جنم دینا ہے۔ تاکہ اس امت مسلمہ میں سے بحیثیت امت بیداری، جبر کی مزاحمت، ملی غیرت و حمیت اور سربلندی کے خیالات ناپید کردئیے جائیں۔ اور بقول برادر خاور، ایک عدد "کمانڈر" سیف گارڈ جیسے مجاہد اس امت کی کوکھ سے جنم لیں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

[
 

قیصرانی

لائبریرین
محترم مجھے آپ کے خیالات کے مجروح ہونے کا ڈر ہے ورنہ ہنسی بہت آ رہی ہے۔ بہتر ہے کہ کچھ نہ ہی لکھوں
 

Muhammad Naeem

محفلین
محترم مجھے آپ کے خیالات کے مجروح ہونے کا ڈر ہے ورنہ ہنسی بہت آ رہی ہے۔ بہتر ہے کہ کچھ نہ ہی لکھوں
ہنسی علاج غم ہے۔ فوراً ہنس لیجیئے۔ پوسٹ کی گولی بہت کڑوی اور شد ید تھی۔ یہ نہ ہو کہ آپ کے دشمنوں کی طبیعت غیر ہو جائے۔ ہنسیئے ہنسیئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہنسی میں تو پریشانیوں اور دکھوں کا علاج ہوتا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ہنسی علاج غم ہے۔ فوراً ہنس لیجیئے۔ پوسٹ کی گولی بہت کڑوی اور شد ید تھی۔ یہ نہ ہو کہ آپ کے دشمنوں کی طبیعت غیر ہو جائے۔ ہنسیئے ہنسیئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہنسی میں تو پریشانیوں اور دکھوں کا علاج ہوتا ہے۔
السلام علیکم!
 

Muhammad Naeem

محفلین
جہاد کی فرضیت کے بارے میں یہ کہیں لکھا ہوا ہے کہ اس کا اعلان کون کرے گا؟ کیا حکومت اور مسلمانوں کی اجتماعی رائے کا ذکر کہیں کسی حدیث یا آیت میں ملتا ہے؟ اچھا کسی حدیث یا آیت سے یہ ہی بتلا دیجئے کہ ہر شخص یا ایک گروہ اپنی مرضی سے جہاد کا آغاز و اختتام کر سکتا ہے؟ یہاں پر میں کسی شخص کی ذاتی رائے کا ذکر نہیں کر رہا ہوں صرف ایک حدیث یا قرآنی آیت کا حوالہ چاہ رہا ہوں۔ اگر آپ کے علم میں ہے تو مہیا کرکے مشکور کیجئے گا۔ باقی باتیں‌بعد میں انشاء اللہ۔
شاید محترم خاور بھائی کے سامنے کچھ باتیں پیش نظر نہیں تھیں۔ جن کی وجہ سے ان کا ایک اپنا نقطہ نظر ہے۔ لیکن جہاں تک جہاد کے لئے کسی سےامام یا حکمران کی اجازت کا تعلق ہے تو یہ بات جہاد کرنے میں مانع نہیں ہے۔
اگر آپ اس بات سے شک میں پڑ رہے ہیں تو میں آپ کو دور نبوی میں لئے چلتا ہوں۔ آئیے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آئیے چلیئے میرے ساتھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تعصب کی عینک اتار لیجیئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کوئی بات نہیں اس کے بغیر بھی آپ کو راستہ نظر آئیگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ڈریئے مت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔آئیے۔
صلح حدیبیہ کے بعد جب کفار مکہ کی طرف سے مکہ میں رہنے والے مسلمانوں کا مدینہ میں جانا ممنوع قرار پایا تو اس واقعے کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد صحابی رسول حضرت ابو بصیر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کافروں کی قید سے چھوٹ بھاگے۔ وہ سیدھے مدینہ منورہ آئے۔ صلح حدیبیہ کا معاہدہ ابھی نیا نیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کفار مکہ کے ساتھ کئے گئے معاہدہ کی رو سے مکہ سے بھاگنے والے مسلمانوں کو واپس کرنے کے پابند تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بصیر کو واپس کردیا۔ مکہ واپسی کے راستہ پر حضرت ابو بصیر ایک تدبیر کے ذریعے دوبارہ نکل گئے۔ لیکن اس مرتبہ آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے مدینہ جانے کے بجائے ساحل کا رخ کیا۔ اور وہیں رہنے لگے۔چند دن کے بعد حضرت ابوجندل(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بھی چھوٹ بھاگے۔ انہوں نے بھی ساحلی علاقے کا رخ کیا اور حضرت ابوبصیر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے ساتھ مل گئے۔ جب اس طرح چند اور مسلمان بھی وہاں جمع ہو گئے تو ان مسلمانوں نے مل کر کفار مکہ کے گزرنے والے تجارتی قافلوں پر ہلہ بولنا شروع کردیا۔ یعنی کہ کفار مکہ سے ان کے ظلم و ستم کا بدلہ لیناشروع کر دیا۔ یا آسان لفظوں میں کہئے کہ ان کے خلاف میدان جنگ کھول لیا۔ یا یوں کہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر ہی جہاد شروع کردیا۔

اب اگر آپ کی نظر پر تعصب کی عینک نہ چڑھی ہو تو بتائے کہ کیا ایک صحابی اپنے نبی کے ہوتے ہوئے ان کی اجازت کے بغیر جہاد شروع کر سکتا ہے یا نہیں۔ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں موجود ہیں اور ان کے قریبی علاقے میں موجود صحابہ ان کی اجازت کے بغیر ہی جہاد شروع کیئے ہوئے ہیں۔ کیا معاذاللہ صحابہ کرام کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں تھی جو انہوں نے نبی/امام/حاکم کی اجازت لئے بغیر ہی جہاد شروع کردیا۔ اور پھر اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہار ناراضگی بھی نہیں فرمایا کہ میرے ہوتے ہوئے ایسا کام وہ بھی میری اجازت کے بغیر ؟؟؟؟ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل کو سند جواز عطا کردی۔ کہ امام، خلیفہ، حاکم یا بادشاہ وقت کی اجازت جہاد کرنے کے لئے لازمی نہیں ہے۔
یہ بات تو دین کا علم جاننے والا مبتدی بھی جانتا ہے کی وہ کام جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام سے صحابہ کو منع نہ کیا ہو اسے " تقریری حدیث" کہا جاتا ہے۔یعنی کہ اس کام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی شامل ہوتی ہے۔
اور پھر طرہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بعد میں بھی پیغام بھیج کر باقاعدہ جہاد کااجازت نامہ نہیں دیا۔ اور الحمدللہ صحابہ اسی طرح جہاد کرتے رہے۔ اور کسی کو یہ کہنے کی توفیق نہ ہوئی کہ حاکم کے ہوتے ہوئے اس کی اجزت کے بغیر ان کا جہاد غلط تھا۔
امید ہے کہ آپ کا یہ بچگانہ اعتراض دور ہو گیا ہوگا۔ میں تو ویسے ہی اس اعتراض کو اتنی اہمیت نہیں دے رہا تھا ہ بہت ہی گھسا پٹا اعتراض ہے۔ لیکن جب دیکھا کہ آپ کی بنیاد ہی اس بات پرکھڑی ہے تو آپ کو اس اعتراض کا جواب حدیث رسول کی روشنی میں مجھے دینا پڑا۔ تاکہ یہ حجت بھی پوری ہو جائے۔

امید ہے کی آپ کے اعتراض کا جواب اتنا ہی کافی ہوگا۔ وگرنہ تابعین کرام، تبع تابعین اور دیگر اسلاف کی تاریخ سے بھی سینکڑوں مثالیں پڑی ہیں ۔ لیکن بات وہی کہ تعصب کے بغیر کسی بات کو دیکھا جائے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جی کیا کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟ ابھی گھما پھرا کر اسی بات کو دوبارہ کرنا ہے۔
کوئی بات نہیں۔ کرلیجیئے۔ لیکن اعتراض کوئی جینوئن ہونا چاہیئے۔ گھسی پٹی باتوں کا جواب دینا شاید کوئی بھی گواراہ نہیں کرتا۔
نیز اس حدیث کی کوئی تاویل کرنے کی کوشش نہ کیجئے گا۔ گھما پھر کر بات کرنا ۔۔۔ بری بات ہے۔ بقول حکیم الامت
"احکام تیرے برحق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآں کو بنا دیتے ہیں پاژ ند"​
 

ساجد

محفلین
محترم محمد نعیم صاحب،
عرض کر دوں کہ میں بھی ایک دینی مدرسے کا تعلیم یافتہ ہوں اور اس فن سے خوب واقف ہوں جس کا مظاہرہ آپ نے اس بحث میں کیا۔ بس فرق یہ ہے کہ مجھے خوفِ خدا ہے کہ مذہب کے احکامات کی اپنی چرب زبانی کی وجہ سے غلط تعبیر نہ کروں مبادا کہ اس سے عام مسلمانوں کے گمراہ ہونے کا خطرہ پیدا ہو جائے اور آخرت میں میری پکڑ ہو۔
آپ سے گزارش کی تھی کہ جہاد کے بارے میں روشنی ڈالیں لیکن آپ قتال کی آیات لے آئے۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ آپ صرف قتال ہی کو جہاد کہنے پر مصر ہیں۔ میں نے عرض کیا نا کہ اللہ کی راہ میں جہاد سے مجھ سمیت کسی کو بھی انکار نہیں لیکن اس جہاد کا کیا طریقہ ہے؟
اب میں آپ کے سامنے اسلامی ریاست کے نظامِ حکومت اور عوام کے لئیے اپنے حاکموں کی تابعداری کی جتنی بھی آیات پیش کر دوں آپ ان سب کو اپنے بنائے ہوئے فلسفہ پر ہی پرکھیں گے۔ اس لئیے اس کا فائدہ نہیں ہے اور یہ بھی بتانے کا فائدہ نہیں ہے کہ بخاری شریف کا کون سا باب اور کتنی احادیث آپ کے بیان کردہ مؤقف کی نفی کرتی ہیں۔ کبھی وقت ملے تو خود ہی تکلیف کر لیجئیے گا کہ ہم کہیں گے تو شکایت ہو گی۔
آپ نے جن صحابہ کے مکہ سے بھاگ کر کفار کے خلاف نبی پاک علیہ صلوۃ والسلام کی اجازت کے بغیر جہاد کا ذکر کیا تو آپ یہ بتانا بھول گئے کہ وہ ساحلی علاقہ مدینہ سے کتنی دور تھا جہاں یہ دونوں صحابہ کرام تشریف لے گئے ، مزید یہ کہ اس وقت ذرائع رسل و رسائل کی کیا صورت حال تھی۔ کوئی ریڈیو ، فون ، ٹی وی وغیرہ تو تھا نہیں کہ وہ صحابہ نبی پاک سے ان کفار کے خلاف قتال کی اجازت لیتے اس لئیے انہوں نے اپنے دفاع کے لئیے جو مناسب سمجھا وہ کیا اور جب نبی پاک کو معلوم ہوا تو آپ نے ان کو منع نہیں فرمایا ۔ اب ایک بات کا جواب دیجئیے کہ نبی پاک اگر ان کو منع فرماتے اور وہ یہ جہاد جاری رکھتے تو اس جہاد کی حیثیت کیا ہوتی؟؟؟
اس واقعے سے آپ نے کیا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جب دل چاہے جہاں دل چاہے لوگوں کو قتل کرنا شروع کر دو اور اس کو جہاد کا نام دے دو؟؟؟
آپ خود ہی تضاد کا شکار ہو چکے ہیں۔
اب پڑھئیے:
--------( 1 ) آپ کے الفاظ میں بھی واقعے کے بیان سے ظاہر ہے کہ ان صحابہ نے نبی پاک کے اعتراض نہ ہونے کی صورت میں کفار کا قتال جاری رکھا یعنی اگر آپ منع فرماتے تو وہ رک جاتے۔
-------( 2 ) یہ جہاد مدینہ میں نہیں کیا گیا کیوں کہ اگر یہ صحابہ کرام مدینہ تشریف لاتے تو نبی کریم اور کفار کے درمیان پانے والے معاہدے کی روشنی میں ان کا واپس مکہ بھیج دیا جاتا۔
-------(3 ) اور غور فرمائیے کہ صلح حدیبیہ ایک معاہدہ تھا جو مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان تھا۔ تو کیا یہ معاہدہ کرتے وقت مسلمان جہاد کا سبق بھول گئے تھے یا نعوذ باللہ نبی پاک کسی مصلحت کا شکار ہو گئے تھے؟؟؟
محمد نعیم صاحب ، ان تین نقاط میں اور بھی ایسے بہت سارے ان گنت سوالات چھپے ہوئے ہیں کہ جو یہاں پوچھتے ہوئے میرے ضمیر پر بھاری پڑتے ہیں۔ میری دینی حمیت گوارہ نہیں کرتی کہ میں ایسے سوالات پوچھ کر اغیار کو اسلام اور مسلمانوں پر انگلی اٹھانے کا موقع دوں۔ آپ خود ہی اندازہ کیجئیے کہ اس طرح کی غیر ذمہ داری کیا رنگ لا سکتی ہے جس کا مظاہرہ آپ جوشِ خطابت میں کر چکے ہیں۔
 

Muhammad Naeem

محفلین
محترم محمد نعیم صاحب،
عرض کر دوں کہ میں بھی ایک دینی مدرسے کا تعلیم یافتہ ہوں اور اس فن سے خوب واقف ہوں جس کا مظاہرہ آپ نے اس بحث میں کیا۔ بس فرق یہ ہے کہ مجھے خوفِ خدا ہے کہ مذہب کے احکامات کی اپنی چرب زبانی کی وجہ سے غلط تعبیر نہ کروں مبادا کہ اس سے عام مسلمانوں کے گمراہ ہونے کا خطرہ پیدا ہو جائے اور آخرت میں میری پکڑ ہو۔
آپ سے گزارش کی تھی کہ جہاد کے بارے میں روشنی ڈالیں لیکن آپ قتال کی آیات لے آئے۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ آپ صرف قتال ہی کو جہاد کہنے پر مصر ہیں۔ میں نے عرض کیا نا کہ اللہ کی راہ میں جہاد سے مجھ سمیت کسی کو بھی انکار نہیں لیکن اس جہاد کا کیا طریقہ ہے؟
اب میں آپ کے سامنے اسلامی ریاست کے نظامِ حکومت اور عوام کے لئیے اپنے حاکموں کی تابعداری کی جتنی بھی آیات پیش کر دوں آپ ان سب کو اپنے بنائے ہوئے فلسفہ پر ہی پرکھیں گے۔ اس لئیے اس کا فائدہ نہیں ہے اور یہ بھی بتانے کا فائدہ نہیں ہے کہ بخاری شریف کا کون سا باب اور کتنی احادیث آپ کے بیان کردہ مؤقف کی نفی کرتی ہیں۔ کبھی وقت ملے تو خود ہی تکلیف کر لیجئیے گا کہ ہم کہیں گے تو شکایت ہو گی۔
آپ نے جن صحابہ کے مکہ سے بھاگ کر کفار کے خلاف نبی پاک علیہ صلوۃ والسلام کی اجازت کے بغیر جہاد کا ذکر کیا تو آپ یہ بتانا بھول گئے کہ وہ ساحلی علاقہ مدینہ سے کتنی دور تھا جہاں یہ دونوں صحابہ کرام تشریف لے گئے ، مزید یہ کہ اس وقت ذرائع رسل و رسائل کی کیا صورت حال تھی۔ کوئی ریڈیو ، فون ، ٹی وی وغیرہ تو تھا نہیں کہ وہ صحابہ نبی پاک سے ان کفار کے خلاف قتال کی اجازت لیتے اس لئیے انہوں نے اپنے دفاع کے لئیے جو مناسب سمجھا وہ کیا اور جب نبی پاک کو معلوم ہوا تو آپ نے ان کو منع نہیں فرمایا ۔ اب ایک بات کا جواب دیجئیے کہ نبی پاک اگر ان کو منع فرماتے اور وہ یہ جہاد جاری رکھتے تو اس جہاد کی حیثیت کیا ہوتی؟؟؟
اس واقعے سے آپ نے کیا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جب دل چاہے جہاں دل چاہے لوگوں کو قتل کرنا شروع کر دو اور اس کو جہاد کا نام دے دو؟؟؟
آپ خود ہی تضاد کا شکار ہو چکے ہیں۔
اب پڑھئیے:
--------( 1 ) آپ کے الفاظ میں بھی واقعے کے بیان سے ظاہر ہے کہ ان صحابہ نے نبی پاک کے اعتراض نہ ہونے کی صورت میں کفار کا قتال جاری رکھا یعنی اگر آپ منع فرماتے تو وہ رک جاتے۔
-------( 2 ) یہ جہاد مدینہ میں نہیں کیا گیا کیوں کہ اگر یہ صحابہ کرام مدینہ تشریف لاتے تو نبی کریم اور کفار کے درمیان پانے والے معاہدے کی روشنی میں ان کا واپس مکہ بھیج دیا جاتا۔
-------(3 ) اور غور فرمائیے کہ صلح حدیبیہ ایک معاہدہ تھا جو مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان تھا۔ تو کیا یہ معاہدہ کرتے وقت مسلمان جہاد کا سبق بھول گئے تھے یا نعوذ باللہ نبی پاک کسی مصلحت کا شکار ہو گئے تھے؟؟؟
محمد نعیم صاحب ، ان تین نقاط میں اور بھی ایسے بہت سارے ان گنت سوالات چھپے ہوئے ہیں کہ جو یہاں پوچھتے ہوئے میرے ضمیر پر بھاری پڑتے ہیں۔ میری دینی حمیت گوارہ نہیں کرتی کہ میں ایسے سوالات پوچھ کر اغیار کو اسلام اور مسلمانوں پر انگلی اٹھانے کا موقع دوں۔ آپ خود ہی اندازہ کیجئیے کہ اس طرح کی غیر ذمہ داری کیا رنگ لا سکتی ہے جس کا مظاہرہ آپ جوشِ خطابت میں کر چکے ہیں۔
برادر آپ نے ابھی تک جہاد کے بارے میں اپنا موقف واضح نہیں کیا۔ یہ ارد گرد کی باتیں کرکے اصل موضوع سے پہلو تہی کی جارہی ہے۔ کیا آپ کو اپنا " نظریہ جہاد" بیان کرتے ہوئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اب میں کیا کہہ سکتا ہوں۔
آپ کی اس پوسٹ کا جواب بعد میں ہوگا۔
 

خرم

محفلین
ساجد، برین واشڈ لوگوں سے بحث کرنا محض اپنے وقت کا ضیاع ہے۔
نبیل بھائی بات تو آپ کی ٹھیک ہے لیکن
شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات
کے مصداق کوشش کر دیکھنے میں کیا حرج ہے؟

نعیم آپ نے اصحاب ابوجندل اور ابو بصیر رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بات کی۔ صرف ایک سوال، کیا جس علاقے میں وہ بر سر پیکار تھے وہ علاقہ مدینہ منورہ کی اسلامی حکومت کے زیر اثر آتا تھا؟ جب نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم نے انہیں واپس فرما دیا تو اب یہ کفار کی ذمہ داری تھی کہ وہ ان کی حفاظت کرتے۔ جب تک حضرات ابوجندل اور ابوبصیر رضوان اللہ علیہم اجمعین مملکت اسلامیہ سے باہر تھے تو وہ اپنے معاملات میں آزاد تھے لیکن مملکت کے اندر آنے کے بعد انہیں ان معاہدوں کی پاسداری کرنا پڑی جو کہ مملکت اسلامیہ نے کفار سے کئے تھے۔
اس پہلو کی طرف شاید آپ کی نظر نہیں گئی۔ باقی یہ کہ دین کی خاطر سر کٹانے کی آرزو تو اللہ نہ کرے کبھی کسی میں کم ہو لیکن دین انسان کو شتر بے مہار چھوڑ دینے کا نام نہیں۔ تلوار اٹھانے سے بھی پہلے یہ کام ضروری ہے کہ اپنے اردگرد کے افراد کے کردار و وعمل کو درست کیا جائے۔ یہ جہاد وہ ہے جو کسی بھی جہاد بالسیف سے پہلے کیا گیا ہے۔ سُنت نبوی صل اللہ علیہ وسلم اس کی خود شاہد ہے۔ اللہ تعالٰی کی نصرت ہمیشہ مؤمنین کے ساتھ ہوتی ہے لیکن وہی جو علامہ نے کہا تھا نا کہ
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
تو پہلے اصحابِ بدر والا ایمان پیدا کیجئے پھر انشاء اللہ ہر میدان میں فتح ہوگی وگرنہ پھر یہی ہوگا جو ہو رہا ہے۔ مسلمان مسلمان کا گلا کاٹے گا اور سب کچھ جہاد کے نام پر۔ اپنے عوام کو سُکھ دینے کی نہ خواہش ہے نہ تڑپ ہاں‌اوروں پر حکومت کرنے کا بہت شوق ہے۔ ویسے بھی جہاد جن ممالک کے خلاف لازم ہے ان کی طرف تو کوئی جاتا نہیں (میانمار ان میں سے ایک ہے کہ وہاں اسلام کی تبلیغ و اشاعت حکماً منع ہے) ہاں امریکہ جہاں اسلام سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے اس کے خلاف بہت جہاد ہوتاہے۔ آج عراق کے زرقاوی کی باتیں بہت ہوتی ہیں، وہاں شیعہ سنی لڑائیوں کے نام پر جو جہاد ہو رہا ہے اس کے متعلق کیا خیال ہے؟ پھر ایران عراق جنگ کے دوران کون جہادی تھا اور کون کافر؟ صدام نے کویت پر قبضہ کیا تو کون جہادی تھا اور کون کافر؟ قرون وسطٰی میں مسلمانوں کی تلوار مسلمانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھاتی رہی اس میں کون جہاد کر رہا تھا اور کون کفر پر تھا؟ تاتار ایک چھوٹے سے ملک سے اٹھے اور مسلمانوں کو تہہ تیغ کرگئے امریکہ تو بہت بڑا اور ترقی یافتہ ملک ہے۔ اس سے پہلے کہ آپ بات پکڑیں وضاحت کردوں کہ مقصد یہ ہے کہ جہاد روحِ ایمانی سے ہوتا ہے اور جب مسلمانوں میں روحِ ایمانی نہ تھی تو ایک چھوٹے سے علاقے کے تاتار ان پر حاوی ہو گئے، اس کے بغیر یہ امریکہ جیسے ملک سے کیسے لڑیں گے؟ ویسے بھی ہندوستان کونسا مسلمانوں کی حکومت کی وجہ سے مسلمان ہوا تھا؟ آج بھی اسلام جس طرح امریکہ میں پھیل رہا ہے اور امریکہ کے بڑے بڑے شہروں میں جس طرح مسلمان دوسری یا تیسری بڑی اکثریت بن رہے ہیں شاید ایک دن آئے کہ وہ ہم سے زیادہ اور بہتر مسلمان ہوں۔ میں تو سوچتا ہوں کہ اگر ایسا ہو گیا تو پھر ہم کس کے خلاف جہاد کریں گے؟
 

ساجد

محفلین
برادر آپ نے ابھی تک جہاد کے بارے میں اپنا موقف واضح نہیں کیا۔ یہ ارد گرد کی باتیں کرکے اصل موضوع سے پہلو تہی کی جارہی ہے۔ کیا آپ کو اپنا " نظریہ جہاد" بیان کرتے ہوئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اب میں کیا کہہ سکتا ہوں۔
آپ کی اس پوسٹ کا جواب بعد میں ہوگا۔
محمد نعیم صاحب،
میرا نظریہ جہاد؟؟؟ یہ آپ نے کیا کہہ دیا!!! جہاد کا نظریہ وہی ہے جو اسلام نے پیش کیا۔ میرا الگ سے کوئی نظریہ نہیں ، اسلامی احکام میں ذاتی نظرئیے داخل کرنے کا کام آپ کریں تو کریں میں نہیں کر سکتا۔ یہی فرق ہے آپ کی اور میری سوچ میں اس کا اظہار آپ کے اس معصومانہ سوال سے بھی ہوتا ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
فرید، میں نے اہل مدرسہ کی جانب کوئی اشارہ نہیں کیا، اگر آپ کو ایسی کوئی بات محسوس ہوئی ہو تو۔۔
 

ظفری

لائبریرین
انڈیا اور پاکستان میں انہی لوگوں نے جنت اور دوزخ باٹنے کا کام خود اپنے ہاتھوں میں لیا ہوا ہے ۔ سنتے رہو پھر جو یہ کہتے ہیں ۔
 

Muhammad Naeem

محفلین
نبیل بھائی بات تو آپ کی ٹھیک ہے لیکن
شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات
کے مصداق کوشش کر دیکھنے میں کیا حرج ہے؟

-----------نعیم آپ نے اصحاب ابوجندل اور ابو بصیر رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بات کی۔ صرف ایک سوال، کیا جس علاقے میں وہ بر سر پیکار تھے وہ علاقہ مدینہ منورہ کی اسلامی حکومت کے زیر اثر آتا تھا؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔جب تک حضرات ابوجندل اور ابوبصیر رضوان اللہ علیہم اجمعین مملکت اسلامیہ سے باہر تھے تو وہ اپنے معاملات میں آزاد تھے ۔
------------- اس پہلو کی طرف شاید آپ کی نظر نہیں گئی۔ باقی یہ کہ دین کی خاطر سر کٹانے کی آرزو تو اللہ نہ کرے کبھی کسی میں کم ہو لیکن دین انسان کو شتر بے مہار چھوڑ دینے کا نام نہیں۔ تلوار اٹھانے سے بھی پہلے یہ کام ضروری ہے کہ اپنے اردگرد کے افراد کے کردار و وعمل کو درست کیا جائے۔ یہ جہاد وہ ہے جو کسی بھی جہاد بالسیف سے پہلے کیا گیا ہے۔ سُنت نبوی صل اللہ علیہ وسلم اس کی خود شاہد ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تو پہلے اصحابِ بدر والا ایمان پیدا کیجئے پھر انشاء اللہ ہر میدان میں فتح ہوگی وگرنہ پھر یہی ہوگا جو ہو رہا ہے۔ مسلمان مسلمان کا گلا کاٹے گا اور سب کچھ جہاد کے نام پر۔ اپنے عوام کو سُکھ دینے کی نہ خواہش ہے نہ تڑپ ہاں‌اوروں پر حکومت کرنے کا بہت شوق ہے۔ ویسے بھی جہاد جن ممالک کے خلاف لازم ہے ان کی طرف تو کوئی جاتا نہیں (میانمار ان میں سے ایک ہے کہ وہاں اسلام کی تبلیغ و اشاعت حکماً منع ہے) ہاں امریکہ جہاں اسلام سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے اس کے خلاف بہت جہاد ہوتاہے۔ آج عراق کے زرقاوی کی باتیں بہت ہوتی ہیں، وہاں شیعہ سنی لڑائیوں کے نام پر جو جہاد ہو رہا ہے اس کے متعلق کیا خیال ہے؟ پھر ایران عراق جنگ کے دوران کون جہادی تھا اور کون کافر؟ صدام نے کویت پر قبضہ کیا تو کون جہادی تھا اور کون کافر؟ قرون وسطٰی میں مسلمانوں کی تلوار مسلمانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھاتی رہی اس میں کون جہاد کر رہا تھا اور کون کفر پر تھا؟ تاتار ایک چھوٹے سے ملک سے اٹھے اور مسلمانوں کو تہہ تیغ کرگئے امریکہ تو بہت بڑا اور ترقی یافتہ ملک ہے۔ اس سے پہلے کہ آپ بات پکڑیں وضاحت کردوں کہ مقصد یہ ہے کہ جہاد روحِ ایمانی سے ہوتا ہے اور جب مسلمانوں میں روحِ ایمانی نہ تھی تو ایک چھوٹے سے علاقے کے تاتار ان پر حاوی ہو گئے، اس کے بغیر یہ امریکہ جیسے ملک سے کیسے لڑیں گے؟ ویسے بھی ہندوستان کونسا مسلمانوں کی حکومت کی وجہ سے مسلمان ہوا تھا؟ آج بھی اسلام جس طرح امریکہ میں پھیل رہا ہے اور امریکہ کے بڑے بڑے شہروں میں جس طرح مسلمان دوسری یا تیسری بڑی اکثریت بن رہے ہیں شاید ایک دن آئے کہ وہ ہم سے زیادہ اور بہتر مسلمان ہوں۔ میں تو سوچتا ہوں کہ اگر ایسا ہو گیا تو پھر ہم کس کے خلاف جہاد کریں گے؟

محترم جواب کا شکریہ ! آئیے آپ کی کچھ غلط فہمیاں دور کردوں۔
----------- جہاں تک آپ کا اس بات کی تاویل کرنے کا تعلق ہے تو آپ کے لیئے عرض کردوں کہ مدینہ منورۃ سے ساحلی علاقہ اتنا دور نہیں تھا کہ مسلمانوں کی دسترس سے باہر ہوتا۔ مسلمانوں کی حدود صرف مدینہ منورہ یا اس کے چند نواحی علاقوں تک محدود نہیں تھیں بلکہ ارد گرد کے کے وہ تمام قبائل کے علاقے جہاں مسلمان اکثریت میں آباد تھے وہ علاقے اسلامی حکومت کا حصہ بن چکے تھے۔ مزید برآں آپ کے مبلغ علم میں اضافے کے لئے عرض ہے کہ کفار مکہ بھی یہ بات جانتے تھے کہ ابو جندل اور ابو بصیر کو اسلامی حکومت کی خاموش تائید و حمایت حاصل ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے تنگ آکر آپ صلی اللہ علیہ سلم سے ہی درخواست کی تھی کہ ان افراد کو اپنے ہاں واپس بلا لیجیئے۔ اور آئندہ سے ہم اس شق کو منسوخ کردیتے ہیں جس کی رو سے مکہ سے کوئی مسلمان مدینہ نہیں جاسکتا۔ جس پر آپ صلی اللہ علیہ سلم نے انہیں مدینہ منورہ واپس بلا لیا۔
اگر آپ کو یقین نہ آئے تو ان واقعت کی تائید کسی بھی انصاف پسند مستشرق سےکر سکتے ہیں۔ مسلمانوں کی باتوں پر تو آپ کو یقین نہیں آرہا۔
مزید برآں محترم میرا اس حدیث کو عرض کرنے کا مقصد تھا کہ آپ نے اپنی تھریڈ میں یہ سوال عرض کیا تھا۔" اچھا کسی حدیث یا آیت سے یہ ہی بتلا دیجئے کہ ہر شخص یا ایک گروہ اپنی مرضی سے جہاد کا آغاز و اختتام کر سکتا ہے؟ "
اور اب آپ کو کافی و وافی جواب ملنے کے بعد آپ نے اس سوال سے بھاگ کر کوئی اور سوال پکڑ لیا ہے۔آپ جس جگہ پر پھنس جاتے ہیں تو وہاں سے کھسک کر کوئی اور پناہ تلاش کرکے جہاد پر سنگ باری کرتے ہیں۔
اب آئیے آپ کو آپ لوگوں کو آئینے میں آپ لوگوں کا حقیقی چہرہ بھی دکھا دوں ۔ تاکہ جہاد (قتال) فی سبیل اللہ سے محبت اور اس پر یقین و ایمان پر کسی کو آپ لوگوں پر شبہ نہ رہے۔
ویسے بھی آپ نے عرض کیا ہے کہ دین کی خاطر سر کٹانے کی آرزو اللہ کرے کسی میں بھی کم نہ ہو۔ لیکن آئیے آپ لوگوں کو دکھاؤں کہ آپ اور آپ کے دیگر ہمنوا کسطرح گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے میں ماہر ہیں ۔ بات بات پر بھاگتے ہیں۔ اور کسطرح جہاد کے لیئے سر کٹانے کی آرزو ان میں باقی ہے۔

ملاحظہ فرمائیے جہاد اور شوق شہادت سے لبریز اپنے بیانات:
کیا جہاد صرف تلوار سے ہی ممکن ہے؟ اگر جہاد با السیف کی اتنی ہی اہمیت تھی تو وحی کی پہلی ہی آیت " اقراء " سے شروع کیوں ہوئی؟
Sajid Post #30


بم باندھ کر امریکہ کے یاروں‌کو اڑانے والا، زمیں میں فساد کرنے والا یا ملکی فوج میں شمولیت کا؟‌اجتماعی خود کشی کا پروگرام ہے یا اپنے مخالفوں کے قتل کا۔ اس سے بڑھ کر کوئی پروگرام ہے تو بتائیے؟ کیا اس قابل بھی ہیں؟ بغور دیکھئے۔ جس کو مخالف سمجھتے ہیں اس سے لڑ نے کے قابل بھی ہیں؟۔ اسی ملک کی ٹکنالوجی استعمال کرتے ہیں، اسی کے بنے ہوئے ٹیلیفون، کاریں، الیکٹرانکس، کمپیوٹرز، اسی کے مواصلاتی سیارے سے ٹی وی نشریات دیکھتے ہیں۔ اسی کے سرمائے سے چلتے ہیں اور اسی کے گندم سے پیٹ‌بھرتے ہیں۔ اسی کے جہازوں سے دفاع کرتے ہیں۔ چلئے اتنا کافی نہیں - میری پٹائی کے لئے - اور لوازمات فراہم کردیتا ہوں، اس ملک جس سے آپ مقابلہ کرنے جارہے ہیں وہ الیکٹرانکس بناتا ہے، ریڈار بناتا ہے، میزائیل بناتا ہے، ہوئی جہاز بناتا ہے، مصنوعی سیارے بناتا ہے۔ مائیکروپراسیسرز بناتا ہے، کمپیوٹرز بناتا ہے، کاریں بناتا ہے ، دفاعی صورتحال کے لئے زیادہ عرصے تک رہنے والا کھانا بناتا ہے۔ یہ تو موٹی موٹی باتیں ہیں، اس کے ایک ہزار زمین پر دفاعی سٹیشنز ہیں جہاں طیارہ بردار بحری جہاز مستقل تیار رہتے ہیں۔ پھر دنیا بھر کو پل بھر میں دیکھنے کا دن، رات یا کسی بھی موسم کا مصنوعی سیاروں کا نظام ہے۔ اس کے اوپر گلوبل پوزیشنگ سیٹیلائٹ سسٹم ہے، جس کی مدد سے زمین کے کسی بھی طول البلد، عرض البلد پر چند فٹ کے دائرے میں کسی کو دنیا بھر میں نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ ریڈار کی مدد سے زمین سے زمیں پر مار کرنے والے میزائیل ہیں، روشنی یا گرمی کا تعاقب کرنے والے میزائیل ہیں۔ جی۔۔۔۔ کیا کہا ڈرا رہا ہوں؟کیا کہتے ہیں فاروق بھائی،، اچھا خاصہ جہاد کرنے جارہا تھا، کام بتا دیا ہم سے یہ جہاد، یہ جہد، یہ جدو جہد کب ہوتی ہے؟ اس کا تھوڑی کہا تھا ہمارے رب نے نہ ہمارے رسول صلعم نے۔۔۔۔۔۔ ہم تو ایک ہی جہاد جانتے ہیں ۔۔۔ تلوار لو اور ی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ا ھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔و ۔۔۔۔۔۔
Farooq serwer Khan post #31

دُنیا کہاں کی کہاں پہنچ گئی یہ آج بھی ترقئی معکوس پر مصر ہیں۔ اپنےلوگوں‌کو پینے کا صاف پینے دینے کا جہاد کیوں‌نہیں کرتے؟ اپنے لوگوں‌کو رشوت لینے اور دینے سے روکنے کا جہاد کیوں‌نہیں کرتے؟ تعلیم کے فروغ کا جہاد کیوں‌نہیں کرتے؟ خوش اخلاقی پھیلانے کا جہاد کیوں نہیں کرتے؟
Khuram post #33

انڈیا اور پاکستان میں انہی لوگوں نے جنت اور دوزخ باٹنے کا کام خود اپنے ہاتھوں میں لیا ہوا ہے ۔ سنتے رہو پھر جو یہ کہتے ہیں ۔
ظفری پوسٹ نمبر 58


ملاحظہ فرمائے آپ نے اپنے رنگ برنگے بیانات ۔مجھے صرف آپ لوگوں سے ایک بات پوچھنا ہے کہ آپ گرگٹ کی طرح رنگ کیوں بدلتے ہیں (ثبوت دے دئیے گئے ہیں ) آپ لوگوں کے اسطرح رنگ بدلنے پر تو گرگٹ بھی شرما تے ہوں گے۔ کہ یہ قبیلہ تو ہم سے بھی آگے نکل گیا۔
کہاں جہاد سے محبت کے دعوے اور کہاں جہاد کا ایسااستہزاء؟؟؟ اور ابھی فرماتے ہیں کہ "باقی یہ کہ دین کی خاطر سر کٹانے کی آرزو تو اللہ نہ کرے کبھی کسی میں کم ہو"۔
امید ہے کہ آپ اپنے حقیقی چہرے دیکھ کر اپنے جہاد کی اصلیت سے بخوبی آگاہ ہو چکے ہوں گے۔ میری مانئے تو بند کردیجیئے جہاد کا نام لینا۔ آپ کو زیب نہیں دیتا۔ زندگی بھر جنہوں نے کبھی میدان جنگ کا رخ نہیں کیا ہوا وہ یہاں پر جہاد کے ٹھیکیدار بنے ہوتے ہیں اور ایسی الٹی سیدھی تعبیریں کرتے ہیں کہ شیطان بھی بغلیں بجاتا ہوگا۔ بلکہ یہ کیا ؟ وہ بغلیں جھانکتا ہوگا کہ ایسی الٹی سیدھی تعبیریں تو مجھے بھی نہیں سوجھیں۔۔۔۔۔۔! جو ان خاندانی مسلمانوں کے ہاں پائی جاتی ہیں۔


اب منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیئے چند اشعار حاضر ہیں۔

کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل
کہتا ہے کون اسے مسلمان کی موت مر
ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر۔
حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ یورپ(وامریکہ) سے درگزر؟​

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ ھذا ما عندی والعلم عندللہ وما علینا الا البلغ المبین۔
 

قیصرانی

لائبریرین
پیارے دوستو، ان صاحب کے بارے پتہ چلا ہے کہ یہ ان چند حضرات کی طرف سے آئے ہیں جن سے چند دن قبل سے مباحثہ ہو رہا تھا :grin:
 
Top