بیٹیاں وفاؤں جیسی ہوتی ہیں

سارہ خان

محفلین
تپتی زمیں پر آنسوؤں کے پیار کی صورت ہوتی ہیں

چاہتوں کی صورت ہوتی ہیں

بیٹیاں خوبصورت ہوتی ہیں

دل کے زخم مٹانے کو

آنگن میں اتری بوندوں کی طرح ہوتی ہیں

بیٹیاں پھولوں کی طرح ہوتی ہیں

نامہرباں دھوپ میں سایہ دیتی

نرم ہتھیلیوں کی طرح ہوتی ہیں

بیٹیاں تتلیوں کی طرح ہوتی ہیں

چڑیوں کی طرح ہوتی ہیں

تنہا اداس سفر میں رنگ بھرتی

رداؤں جیسی ہوتی ہیں

بیٹیاں چھاؤں جیسی ہوتی ہیں

کبھی بلا سکیں، کبھی چھپا سکیں

بیٹیاں اَن کہی صداؤں جیسی ہوتی ہیں

کبھی جھکا سکیں، کبھی مٹا سکیں

بیٹیاں اناؤں جیسی ہوتی ہیں

کبھی ہنسا سکیں، کبھی رلا سکیں

کبھی سنوار سکیں، کبھی اجاڑ سکیں

بیٹیاں تو تعبیر مانگتی دعاؤں جیسی ہوتی ہیں

حد سے مہرباں، بیان سے اچھی

بیٹیاں وفاؤں جیسی ہوتی ہیں
[/SIZE]​
 

شمشاد

لائبریرین
بہت اچھی نظم ہے۔

یہ لیں ورثہ کے نام سے بیٹی ہی کے موضوع پر نوشی گیلانی کی ایک خوبصورت نظم :

ورثہ
بیٹیاں بھی تو ماؤں جیسی ہوتی ہیں
ضبطِ کے زرد آنچل میں اپنے
سارے درد چُھپالیتی ہیں
روتے روتے ہنس پڑتی ہیں
ہنستے ہنستے دل ہی دل ہی رولیتی ہیں
خوشی کی خواہش کرتے کرتے
خواب اور خاک میں اَٹ جاتی ہیں
سوحصّوں میں بٹ جاتی ہیں
گھر کے دروازے پر بیٹھی
اُمیدوں کے ریشم بنتے .ساری عُمر گنوا دیتی ہیں
میں جو گئے دنوں میں
ماں کی خوش فہمی پہ ہنس دیتی تھی
اب خود بھی تو
عُمر کی گرتی دیواروں سے ٹیک لگا ئے
فصل خوشی کی بوتی ہوں
اور خوش فہمی کا ٹ رہی ہوں
جانے کیسی رسم ہے یہ بھی
ماں کیوں بیٹی کو ورثے میں
اپنا مقدّر دے دیتی ہے
(نوشی گیلانی)
 

سارہ خان

محفلین
بہت اچھی نظم ہے۔

یہ لیں ورثہ کے نام سے بیٹی ہی کے موضوع پر نوشی گیلانی کی ایک خوبصورت نظم :

ورثہ
بیٹیاں بھی تو ماؤں جیسی ہوتی ہیں
ضبطِ کے زرد آنچل میں اپنے
سارے درد چُھپالیتی ہیں
روتے روتے ہنس پڑتی ہیں
ہنستے ہنستے دل ہی دل ہی رولیتی ہیں
خوشی کی خواہش کرتے کرتے
خواب اور خاک میں اَٹ جاتی ہیں
سوحصّوں میں بٹ جاتی ہیں
گھر کے دروازے پر بیٹھی
اُمیدوں کے ریشم بنتے .ساری عُمر گنوا دیتی ہیں
میں جو گئے دنوں میں
ماں کی خوش فہمی پہ ہنس دیتی تھی
اب خود بھی تو
عُمر کی گرتی دیواروں سے ٹیک لگا ئے
فصل خوشی کی بوتی ہوں
اور خوش فہمی کا ٹ رہی ہوں
جانے کیسی رسم ہے یہ بھی
ماں کیوں بیٹی کو ورثے میں
اپنا مقدّر دے دیتی ہے
(نوشی گیلانی)

:(:(

بہت اچھی نظم شمشاد بھائی شیئر کرنے کا شکریہ ۔۔
 

سارا

محفلین
بہت اچھی نظم ہے۔

یہ لیں ورثہ کے نام سے بیٹی ہی کے موضوع پر نوشی گیلانی کی ایک خوبصورت نظم :

ورثہ
بیٹیاں بھی تو ماؤں جیسی ہوتی ہیں
ضبطِ کے زرد آنچل میں اپنے
سارے درد چُھپالیتی ہیں
روتے روتے ہنس پڑتی ہیں
ہنستے ہنستے دل ہی دل ہی رولیتی ہیں
خوشی کی خواہش کرتے کرتے
خواب اور خاک میں اَٹ جاتی ہیں
سوحصّوں میں بٹ جاتی ہیں
گھر کے دروازے پر بیٹھی
اُمیدوں کے ریشم بنتے .ساری عُمر گنوا دیتی ہیں
میں جو گئے دنوں میں
ماں کی خوش فہمی پہ ہنس دیتی تھی
اب خود بھی تو
عُمر کی گرتی دیواروں سے ٹیک لگا ئے
فصل خوشی کی بوتی ہوں
اور خوش فہمی کا ٹ رہی ہوں
جانے کیسی رسم ہے یہ بھی
ماں کیوں بیٹی کو ورثے میں
اپنا مقدّر دے دیتی ہے
(نوشی گیلانی)


بہت زیادہ اچھی نظم ہے ۔۔۔
 
Top