اصل ان پیج کروڑوں کا تھا؟ تو عام صارفین تک یہ 95 کے بعد کیسے پہنچا؟ اسوقت مارکیٹ میں اور کون کون سے سافٹوئیر تھے۔ کیا ونڈوز پر صرف ان پیج ہی چل سکا؟ باقی اردو سافٹوئیر کہاں گئے؟
واہ! دو اتنی لمبی تحریریں۔ لیکن ابھی گفتگو ماضی تک ہی محدود ہے۔ حال سے اتصال باقی ہے۔ اور ہاں فاروق سرور خان صاحب! اگر مرزا احمد جمیل کے ہاتھ کے لکھے کتبے یہاں شیئر کر دیں تو بڑی عنایت!!!!
جی اصل ان پیج ، سافٹ وئیر اور ہارڈ ئیر کرورّ سے زیادہ کا بکتا تھا۔ جنگ اور نوائے وقت کے علاوہ بہت کم اخبارات اس کو خرید پائے۔ 1992 میں ہم نے صدف کے ونڈوز ورژن پر کام بند کردیا تھا۔ اسی ٹایم فریم میں ان پیج کا ونڈوز ورژن جاری ہوا، جس کے ساتھ 70 سے زیادہ ٹرو ٹائپ فونٹس کی فائیلوں میں نوری نستعلیق موجود تھی۔ یہ سوفٹ وئیر کم قیمت کا تھا لیکن پھر بھی مہنگا تھا۔ اس کے بعد یہی فانٹس اوپن ٹائپ میں ایک سے زیادہ لوگوں نے ڈالے ۔ اس ٹائم فریم میں باقی سافٹ وئیر مارکیٹ سے اٹھتے چلے گئے۔ مارکیٹ میں ان پیج کی پائیریٹڈ کاپیاں بہت دستیاب ہوچکی تھیں۔ ہم کمرشل پرنٹنگ پریس نہیں چلاتے تھے اور نا ہی کمرشل پبلشنگ کرتے تھے اس لئے اس کے پائیریٹڈ ورژن میں کبھی کوئی انٹریسٹ نہیں رہا ۔ ونڈوز پر یقیناً دوسرے سافٹ وئیر بھی ہوں گے لیکن میری نظر سے گزرے نہیں ۔ اپریل 1992 کے بعد سے میرا انٹرسٹ ورڈ پراسیسر میں کچھ بھی نہیں رہا۔
صدف کا پہلا ورژن 1988 میں جاری ہوا اور 1992 کے شروع میں اس پر کام روک دیا۔ اس کے بعد قابل قدر کام اوپن ٹائپ میں ہوا ، جس میں میرا حصہ کچھ بھی نہیں ۔ اس کے لئے آپ کو دوسرے حضرات کا انتظار کرنا ہوگا ۔ اوپن ٹائپ کے کام کے بارے میں عارف کریم ، نبیل وغیرہ بہتر بتا سکیں گے۔
کمپیوٹر پر اردو تحریر خصوصاً نستعلیق کی ایک کلک ایبل ٹائم لائن بنائی جانی چاہیے کہ کب کیسے اور کون سا نستعلیق فونٹ یا سافٹ ویئر بنایا گیا اور کون سا فونٹ کس فونٹ سے نکلا یا کس نے کس کا بیس انجن یا ترسیمے وغیرہ استعمال کیے۔
اور یہ ہیں وہ چند سو ترسیمے جو جناب مرزا جمیل احمد صاحب نے اپنے ہاتھ سے مجھے عطا فرمائے۔ ان میں سے کچھ آج میرے گھر میں دیوار کی زینت ہیں۔
وہ چند سو ترسیمے جو محترم مرزا جمیل احمد صاحب نے مجھے تحفتاً عطا فرمائے، ہر شیٹ کے بعد ایک سفید کاغذ ہے تاکہ اصل خراب نا ہوجائے۔
کراچی کے ساحل پر ایک ریسٹورانٹ میں مرزا جمیل احمد صاحب کے ساتھ ایک ڈنر، محسن اردو کے ساتھ ایک یاد گار تصویر ۔
کیا نوری نستعلیق کے تمام ترسیمے اسی پیج سائز پر لکھوائے گئے تھے؟ ان سب میں اتنی یکسانیت کیسے لائی گئی؟
تمام اصل ترسیمے اسی سائز پر لکھے گئے تھے۔ یکسانیت لانے کے لئے پروجیکٹر کا استعمال کیا گیا تھا ، جو کہ الیٹ پرنٹنگ پریس میں ایک سے زیادہ تھے۔ یہ پرنٹنگ پریس مرزا جمیل احمد کی ملکیت تھا۔ میری یادواشت کے مطابق نوری نستعلیق کے ترسیمے لکھنے اور ان کو طبع کرنے کا کام 1975 میں شروع ہوا تھا۔ اس کی تاریخ کے لئے کہیں اور دیکھئے۔ زیادہ تر ترسیمے جناب مرزا جمیل احمد صاحب نے خود اپنے ہاتھ سے لکھے تھے اور کچھ ترسیموں کو پروجیکٹ کرکے اور کاٹ کر کاغذ پر چپکا کر اس کی تصویر لی گئی تھی ۔ جب بھی کوئ نیا ترسیمہ شامل کیا جاتا تھا تو دو تین لفظ پرنٹ کرکے ان کو کاٹ کر نیا ترسیمہ بنا کر اس کی تصویر لی جاتی تھی ۔ شروع میں ترسیمے صرف اور صرف بٹ میپ فانٹ تھے اور بعد میں ان کو بیزئیر کاروز میں آؤٹ لائین کی شکل میں تبدیل کرلیا گیا تھا۔ میں واضح کرتا چلوں کے نوری نستعلیق کی ڈویلوپمنٹ میں میرا کوئی حصہ نہیں تھا ۔ اور ناہی مرزا جمیل احمد نے کبھی یہ ترسیمے پبلک ڈومین میں دئے ۔ مرزا صاحب میرے کام سے بخوبی واقف تھے۔ جناب مرزا جمیل احمد سے میری واقفیت میرے ایک کلاس فیلو اظہر بشیر کی وجہ سے تھی۔ صدف اردو نستعلیق کی مکمل کتاب صدف پر ہی طبع ہوئی تھی ۔ میں نے ایک کتاب ، مرزا جمیل احمد کو تحفتاً دی تھی ، جس کو دیکھ کر جناب بہت خوش ہوئے تھے ، وہ اس حقیقت سے بہت خوش تھے کا ہم نے کیریکٹرز کو جوڑنے کا کام ان کی توقع سے بڑھ کر کیا تھا ۔ انہوں نے مجھ سے فرمائش کی تھی کہ لفظ "کشمکش" لکھوں اور پھر اسی میں دوبارہ کشمکش کو ملا کر لکھوں اور صدف سے چھاپ کر دکھاؤں۔ اس کے رزلٹ سے جمیل صاحب بہت ہی خوش ہوئے تھے۔ اور کئی دوسرے الفاظ جیسے "کچے کیلے کی گیلی سیلی جڑ" کو ملا کر لکھنے کے لئے کہا تھا اور نتیجہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھے۔ یہ سابقہ یادیں ، اردو نستعلیق کی 1975 سے آگے کی تاریخ کا حصہ ہیں۔
فیض نستعلیق کے ترسیموں میں غالبا یہ اصول نہیں اپنایا گیا اسلئے اس کے ترسیمے ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہیں۔
۸۰ کی دہائی میں فوٹو اسکیننگ ٹیکنالوجی کافی کمزور تھی۔ اتنے بڑے سائز میں ایک ایک ترسیمہ لکھنے کی یہی وجہ ہو سکتی ہے۔ ان ترسیموں کا چناؤ کس بنیاد پر کیا گیا؟ کیا اس زمانہ میں اردو ورڈ لسٹ مختلف لغات سے حاصل کی گئی؟
1970 اور 1980 میں اسکیننگ کی ٹیکنالوجی کمزور نہیں تھی ، بہت مہنگی تھی اور کمپیوٹرز بھی بہت مہنگے تھے ۔ ورڈ لسٹ کے پیچھے صرف ایک لغت نہیں تھی بلکہ ایک سے زیادہ لوگوں کا زبانی کنٹری بیوشن بھی تھا۔ مرزا جمیل احمد کی خطاطی بہت ہی اعلی تھی۔ ان کو 1943 میں آل انڈیا آرٹ اور انڈسٹری کا اعلی ترین ایوارڈ ملا تھا ۔ اس خوبصورتی کے ساتھ اگر آپ ان کے جذبے کو بھی ملا لیجئے تو صاحب ہر ایک ترسیمہ مصوری کا ایک اعلی شاہکار ہے۔ احمد مرزا جمیل سے لے کر آج تک شائع شدہ ہر نستعلیق اور نسخ کا فونٹ میں حصہ ڈالنے والا، اردو زبان کے تاریخی ورثہ کا ایک عالی شان حصہ ہیں۔ میں آپ سب کو تہہ دل سے سلام کرتا ہوں۔
احمد مرزا جمیل صاحب نے ترسیمے خود لکھے یا لکھوائے ایک بات بہرحال تسلیم کرنی ہوگی کہ انہوں نے اس پر رقم بہت خرچ کی تھی اگرچہ لکھوانے کی صورت میں کاتب کا بھی نام آنا چاہیے تھا