ٹائپنگ مکمل " بہت نزدیک آتے جا رہے ہو"-عدیم ہاشمی۔۔ ۔ منتخب کلام

شیزان

لائبریرین
گُم اپنی محبت میں دونوں، نایاب ہو تم نایاب ہیں ہم
کیا ہم کو کُھلی آنکھیں دیکھیں، اِک خواب ہو تم اِک خواب ہیں ہم
کیا محشر خیز جُدائی ہے، کیا وصل قیامت کا ہو گا
جذبات کا اِک سیلاب ہو تم، جذبات کا اِک سیلاب ہیں ہم
آنکھیں جو ہیں اپنے چہرے پر، اِک ساون ہے اِک بھادوں ہے
اے غم کی ندی تو فکر نہ کر، اِس وقت بہت سیَراب ہیں ہم
اِس وقت تلاطم خیز ہیں ہم، گردش میں تمہیں بھی لے لیں گے
اِس وقت نہ تیَر اے کشتئ دل، اِس وقت تو خُود گردَاب ہیں ہم
اِک ہنس پرانی یادوں کا، بیٹھا ہوا کنکر چنُتا ہے
تپتی ہوئی ہجر کی گھڑیوں میں، سُوکھا ہوا اِک تالاب ہیں ہم
اے چشم فلک، اے چشم زمیں، ہم لوگ تو پھر آنے کے نہیں
دو چار گھڑی کا سپنا ہیں، دو چار گھڑی کا خواب ہیں ہم
کیا اپنی حقیقت، کیا ہستی، مٹی کا ایک حباب ہیں ہم
دو چار گھڑی کا سپنا ہیں، دو چار گھڑی کا خواب ہیں ہم
 

شیزان

لائبریرین
شبِ ہجراں تھی جو بسَر نہ ہوئی
ورنہ کِس رات کی سحر نہ ہوئی
ایسا کیا جرم ہو گیا ہم سے
کیوں ملاقات عُمر بھر نہ ہوئی
اشک پلکوں پہ مُستقل چمکے
کبھی ٹہنی یہ بے ثمر نہ ہوئی
تیری قُربت کی روشنی کی قسم
صُبح آئی مگر سحر نہ ہوئی
ہم نے کیا کیا نہ کر کے دیکھ لیا
کوئی تدبیر کار گر نہ ہوئی
کتنے سُورج نِکل کے ڈُوب گئے
شامِ ہجراں ! تری سحر نہ ہوئی
اُن سے محفل رہی ہے روز و شب
دوستی اُن سے عُمر بھر نہ ہوئی
یہ رہِ روزگار بھی کیا ہے
ایسے بچھڑے کہ پھر خبر نہ ہوئی
اِس قدر دُھوپ تھی جُدائی کی
یاد بھی سایۂ شجر نہ ہوئی
شبِ ہجراں ہی کٹ سکی نہ عدیم
ورنہ کِس رات کی سحر نہ ہوئی
 

شیزان

لائبریرین
عدیم میں نے تو زخموں کو اب شمار کِیا
میں یہ سمجھتا رہا، اُس نے ایک وار کِیا
عدیم دل کو ہر اِک پر نہیں نِثار کِیا
جو شخص پیار کے قابل تھا، اُس کو پیار کِیا
پھر اعتبار کِیا، پھر سے اعتبار کِیا
یہ کام اُس کے لیے ہم نے بار بار کِیا
کِسی سے کی ہے جو نفرت تو اِنتہا کر دی
کِسی سے پیار کِیا ہے تو بےشمار کِیا
نہ تھی وصال کو بھی کچھ مداخلت کی مجال
جب اِنتظار کِیا، صِرف اِنتظار کِیا
اُمیدِ وصل شبِ ہجر کے سمندر میں
یہی لگا ہے کہ تِنکے پہ اِنحصار کِیا
بہت حسین ہوئیں بےوفائیاں اُس کی
یہ اُس نے جان کے خُود کو وفا شعار کِیا
اُتر گیا کوئی دل سے تو قبر میں اُترا
اُسے سدا کے لیے شاملِ غُبار کِیا
وہ اب مرے کہ جئے دل پہ کوئی بوجھ نہیں
میں مطمئن ہوں کہ پہلے اُسی نے وار کِیا
قصُور اُس کا نہیں ہے، قصُور میرا ہے
عدیم مَیں نے اُسے پیار بےشمار کیا
 

شیزان

لائبریرین
وہ چشمِ زر کہاں، یہ مِری چشمِ تَر کہاں
ٹکرائی بھی تو جا کے نظر سے نظر کہاں
جانا ہے تم کو جاؤ، چلے ہو مگر کہاں
میں ڈُھونڈتا پھروں گا تمہیں دَر بہ دَر کہاں
قصرشہی کی بات ہے قصر شہی کے ساتھ
تیری گلی کہاں ، تِرے دیوار و دَر کہاں
دولت سے خوابگاہ تو جو بھی خرید لو
نِیندیں مگر خرید سکے مال و زَر کہاں
تُو آگ ہی لگا کے ذرا خُود کو دیکھ لے
تجھ پر یوُنہی پڑے گی کِسی کی نظر کہاں
میں اپنا آپ ڈُھونڈ رہا ہوں جہان میں
مجھ کو عدیم اور کِسی کی خبر کہاں
یہ کِس مقابلے کے لیے جا رہے ہو تم
آنسو کہاں عدیم، صدف کا گہر کہاں
 

شیزان

لائبریرین
زندگی جب جہان میں آئی
جان دُنیا کی جان میں آئی
جیسے آیا شباب کشتی پر
یوں ہوا بادبان میں آئی
سانولی سی کوئی دُلہن جیسے
چھاؤں یوں سائبان میں آئی
چاند ملنے لگا تھا تاروں سے
چاندنی درمیان میں آئی
بات اِک داستان سے نکلی
دوسری داستان میں آئی
تیِر اُتنا ہی دُور مار ہوا
جِتنی سختی کمان میں آئی
ہم وفا کے بغیر بھی خوش تھے
کیوں وفا درمیان میں آئی
تیرے وہم و گمان سے نِکلی
میرے وہم و گمان میں آئی
یا تو آتی نہ تھی سُخن کی پری
آئی تو ایک آن میں آئی
 

شیزان

لائبریرین
اچھی ہے دوستوں سے شِکایت کبھی کبھی
بڑھتی ہے اِس طرح بھی محبت کبھی کبھی
پہچان ہو گئی کئی لوگوں کی اِس طرح
آئی ہے کام یُوں بھی ضرُورت کبھی کبھی
ہوتے ہیں قُربتوں میں بھی محشر کئی بپَا
آتی ہے وصل میں بھی قیامت کبھی کبھی
پھر ایک بےپناہ سی شِدت کے واسطے
قُربان ہم نے کی تری قُربت کبھی کبھی
یُوں بھی لگا کہ تیرے سوا کوئی دل میں ہے
محسُوس کی نہیں تیری چاہت کبھی کبھی
یُوں بھی لگا کہ تیرے سوا ہے ہی کچھ نہیں
دُنیا پہ چھا گئی تری صورت کبھی کبھی
وہ جس کو دیکھ دیکھ کے جی تنگ آ گیا
اچھی بہت لگی وہی صُورت کبھی کبھی
سچائی تو ہے یہ کہ زمانے کے حُسن میں
یاد آئی ہی نہیں تری صُورت کبھی کبھی
دُنیا کی اور بات ہے، دُنیا تو غیر ہے
ہوتی ہے اپنے آپ سے وحشت کبھی کبھی
سارا ہی وقت، سارے جہاں کے لیے عدیم
اپنے لئے بھی چاہیئے فُرصت کبھی کبھی
دُوری کبھی کبھی بڑی اچھی لگی عدیم
اچھی نہیں لگی ہمیں قُربت، کبھی کبھی
 

شیزان

لائبریرین
فلک سے خاک پر لایا گیا ہوں
کہاں کھویا، کہاں پایا گیا ہوں
میں زیور ہوں عروسِ زِندگی کا
بڑے تیور سے پہنایا گیا ہوں
نہیں عرض و گزارش میرا شیوَہ
صدائے کُن میں فرمایا گیا ہوں
بتا اے انتہائے حسنِ دنیا
میں بہکا ہوں کہ بہکایا گیا ہوں
مجھے یہ تو بتا اے شدتِ وصل
میں لِپٹا ہوں کہ لِپٹایا گیا ہوں
بدن بھیگا ہوا ہے موتِیوں سے
یہ کِس پانی سے نہلایا گیا ہوں
اگر جانا ہی ٹھہرا ہے جہاں سے
تو میں دُنیا میں کیوں لایا گیا ہوں
یہ میرا دل ہے یا تیری نظر ہے
میں تڑپا ہوں کہ تڑپایا گیا ہوں
مجھے اے مہرباں یہ تو بتا دے
میں ٹھہرا ہوں کہ ٹھہرایا گیا ہوں
تِری گلیوں سے بچ کر چل رہا تھا
تِری گلیوں میں ہی پایا گیا ہوں
جہاں روکی گئی ہیں میری کِرنیں
وہاں میں صورتِ سایہ گیا ہوں
عدیم اِک آرزُو تھی زِندگی میں
اُسی کے ساتھ دفنایا گیا ہوں
 

شیزان

لائبریرین
مکمل عدیم اِرتقا ہو گیا
بشر، آدمی سے خُدا ہو گیا
بھلا ہو گیا یا بُرا ہو گیا
چلو کوئی تو فیصلہ ہو گیا
وہ پہلے بھی جو بےوفا ہو گیا
یہ دل پھر اُسی پر فِدا ہو گیا
اُسی سے نظر پھر سے ٹکرا گئی
دوبارہ وہی حادثہ ہو گیا
یہاں دل دیا اور وہاں دل دیا
محبت تو کھیل آپ کا ہو گیا
جو ملِنے کے وعدے تھے، وعدے رہے
بِچھڑنے کا وعدہ وفا ہو گیا
وہ کیا تِیر ہے، جو نہ دل میں گڑے
نشانہ وہ کیا، جو خطا ہو گیا
دل و چشم یوں باد و بارَاں بنے
جو سُوکھا تھا جنگل، ہَرا ہو گیا
جو سِکہ کھرا تھا، وہ کھوٹا ہوا
جو کھوٹا تھا سِکہ، کھرا ہو گیا
یہ دل جو کہ میرا تھا، میرا نہیں
یہ دل آج سے آپ کا ہو گیا
جو باقی تھا ، باقی رہا وہ عدیم
جو فانی تھا، خُود ہی فنا ہو گیا
 

شیزان

لائبریرین
میری ای بک تو دیکھ لی نا، بکھر جانے سے پہلے۔ اس میں موجود غزلیں دوبارہ تائپ نہ کی جائیں۔

شکریہ اعجاز صاحب
میں اس میں صرف ان کے آخری مجموعہ" بہت نزدیک آتے جا رہے ہو" سے انتخاب پیش کر رہا ہوں ۔۔۔
"بکھر جانے سے پہلے "میں ترکش اور دیگر بکس سے انتخاب شامل ہے۔۔ اور چند غزلیں اس میں سے بھی ہیں۔۔
 
آخری تدوین:

شیزان

لائبریرین
اِبتدا تھی، مآل تھا، کیا تھا
وصل تھا یا وصال تھا، کیا تھا
عشق ماہی مثال تھا، کیا تھا
دل کے دریا میں جال تھا، کیا تھا
تم تو ایسے مجھے نہیں لگتے
یہ تمہارا خیال تھا، کیا تھا
کچھ سفید اور کچھ سیاہ تھے بال
میرا ماضی تھا، حال تھا، کیا تھا
نِیم وا چشم، نِیم وا سا دَہن
یہ سوالِ وصال تھا، کیا تھا
ایک تخلیق، ایک چشمِ حسیں
وہ غزل تھی، غزال تھا، کیا تھا
اِتنی بےچینیاں، خُدا کی پناہ
یہ مِرے دل کا حال تھا، کیا تھا
مِٹ گیا ایک اشک بہتے ہی
تِرے چہرے پہ خال تھا، کیا تھا
خُود کھنچے جا رہے تھے جِسم عدیم
لمحۂ اِتّصال تھا، کیا تھا
 

شیزان

لائبریرین
اور ہے، اپنی کہانی اور ہے
داستاں اُس کو سُنانی اور ہے
میں تو سویا تھا ستارے اُڑھ کر
یہ رِدائے آسمانی اور ہے
ریگِ صحرا میں سفینہ کیا چلاؤں
اُس سمندر کا تو پانی اور ہے
پُھول بھی لیتا چلوں کچھ اپنے ساتھ
اُس کی اِک عادت پُرانی اور ہے
اجنبی! اک پیڑ بھی ہے سامنے
اُس کے گھر کی اِک نشانی اور ہے
یُوں دبائے جا رہا ہوں خواہشیں
جیسے اِک عہدِ جوانی اور ہے
پار جانے کا ارادہ تھا عدیم
آج دریا کی روانی اور ہے
 

شیزان

لائبریرین
تم سے بہتر کون ہے ساتھی تمہارا دوسرا
ڈُھونڈتے ہو کِس لیے کوئی سہارا دوسرا
تب کہیں سمجھا ہوں میں اُس کا اشارہ دوسرا
اُس نے میرے ہاتھ پر جب ہاتھ مارا دوسرا
اِتنی دُنیا، اِتنے چہرے، اِتنی آنکھیں چار سُو
اُس نے پھر بھی کر دیا مجھ کو اِشارہ دوسرا
آسماں پر کوئی تھوڑے سے سِتارے تو نہیں
ایک چمکے کم اگر، چُن لو سِتارہ دوسرا
مجھ کو تو پہلا کِنارہ بھی نظر آتا نہیں
ہے کہاں بحرِ فلک تیرا کِنارہ دوسرا
درمیاں پردہ رہا اِک دِن تکلف کا بہت
بھید سارا کُھل گیا جب دِن گزارا دوسرا
تب کہیں مہندی لگا وہ ہاتھ پہچانا گیا
اُس نے دَر کی اوٹ سے جب پُھول مارا دوسرا
جان دے دی اُس کے پہلے ہی اِشارے پر عدیم
میں نے دیکھا ہی نہیں اُس کا اِشارہ دوسرا
 

شیزان

لائبریرین
دیکھا ہے چشمِ تیز نے دُنیا کے پار تک
اپنی نظر ہی رہ گئی گرد و غبار تک
موسم بھی اپنی اپنی حدوں کے اِسیر ہیں
عہدِ خزاں ہے آمدِ فصلِ بہار تک
صحن خزاں میں پاؤں دھرے، کیا مجال ہے
فصلِ بہار قید ہے فصلِ بہار تک
معیاد قید ایک گھڑی پیش و کم نہیں
ممکن نہیں ہے قیدِ جہاں سے فرار تک
جو لکھ دیا جبیں پہ، اُسے لکھ دیا گیا
پابند اُس کے بعد ہے پرَوردگار تک
قسمت میں جو نہیں ہے، ملے گا وہ کِس طرح
ترک اِس لیے کِیا ہے تِرا اِنتظار تک
لکھا نہیں ہے وصل فقط کاتبین نے
تحریر ہو رہا ہے تِرا اِنتظار تک
اپنے کنوئیں ہیں جِن میں پُھدکتے ہیں سارے لوگ
محصُور ہیں عدیم سب اپنے حصار تک
 

شیزان

لائبریرین
کھینچا گیا ہے کِس کو ابھی دَار کی طرف
مُنصِف تو ہو گیا ہے گنہگار کی طرف
معلُوم ہو تجھے کہ ہے دستِ بریدہ کیا
اُنگلی اُٹھا کے دیکھ مِرے یار کی طرف
قاتِل ہے حُسن اگر، تو ہے قاتِل کا کیا قصُور
خُود کِھنچ رہی ہیں گردنیں تلوار کی طرف
زَر کی کشش نے کھینچ لیا سارے شہر کو
بازار چل پڑے ہیں خریدار کی طرف
سارا جہاں کھڑا تھا ضرُورت کی چھاؤں میں
کوئی گیا نہ سایۂ دیوار کی طرف
سُوکھے ہوئے شجر پہ کوئی زخم بھی نہیں
پتھر بھی آئے نخلِ ثمر دار کی طرف
حیراں ہوں پھر بھی عکسِ رُخِ یار کِس طرح
جب آئینہ نہیں ہے رُخِ یار کی طرف
سب قبلہ رُو ہوئے تھے عبادت کے واسطے
میں نے کیا ہے رُخ تِری دیوار کی طرف
دھاگے میں کچھ پروئے ہوئے پُھول تھے عدیم
پہلے خزاں چلی ہے اُسی ہار کی طرف
 

شیزان

لائبریرین
فیصلہ اُس نے سُنایا بھی نہیں تعزیر کا
پڑ گیا ہے دل پہ پہلے ہی نِشاں زنجیر کا
خط چُھپاؤں کِس طرح سے محرمِ دل گیِر سے
لفظ ہر اِک بولتا ہے پیار کی تحریر کا
باقی سارے خط پہ دھبے آنسوُؤں کے رہ گئے
ایک ہی جملہ پڑھا میں نے تِری تحریر کا
تیرے چہرے کا تاثر، تیری آنکھوں کا خُمار
حُسن ایسا تو نہیں ہے وادئ کشمیر کا
موتیوں جیسے ہیں آنسُو، پُھول جیسی ہے ہنسی
کونسا رُخ سامنے رکھوں تِری تصویر کا
کوئی کہتا ہے ملیں گے، کوئی کہتا ہے نہیں
کچھ پتا چلتا نہیں ہے خواب کی تعبیر کا
جو نصیبوں میں نہیں ہے، وہ ذرا لے لوں عدیم
وہ تو مل ہی جائے گا ، حصّہ ہے جو تقدیر کا
دوستوں سے بھی تعلق بن گیا ہے وہ عدیم
جو تعلق ہے کِسی شمشِیر سے شمشِیر کا
 

شیزان

لائبریرین
ہمراہ لیے جاؤ مرا دیدہء تَر بھی
جاتے ہو سفر پر تو کوئی رختِ سفر بھی
بھیجے ہیں تلاطم بھی کئی اور بھنور بھی
اے بحرِ سُخن، چند صدف، چند گہر بھی
پھر آنکھ وہیں ثبت نہ ہو جائے تو کہنا
پڑ جائے اگر اُس پہ تِری ایک نظر بھی
درکار ہے کیا آپ کو اشکوں کی دُکاں سے
جلتی ہوئی شمعیں بھی ہیں، کچھ دیدہء تر بھی
یہ شہرِِ جدائی ہے، اندھیرے ہیں شب و روز
اِس شہر میں جلتے ہیں دیئے وقتِ سحر بھی
کچھ پیاس ہے اُس حُسن کو بھی میری نظر کی
کچھ حُسن کا پیاسا ہے مِرا حُسنِ نظر بھی
کیا عِشق ہے، کیا حُسن ہے، کیا جانیئے کیا ہو
محشر ہے اِدھر بھی تو قیامت ہے اُدھر بھی
تُو چشمِ عنایت سے ذرا رُخ تو اِدھر کر
کافی ہے تِری ایک محبت کی نظر بھی
کچھ فرق درست اور غلط میں نہیں باقی
ہر بات پہ کچھ لوگ اِدھر بھی ہیں اُدھر بھی
کھنچنا ہے کہاں تک تجھے بانہوں کی کماں میں
تُو دل کے لیے ہے تو مِرے دل میں اُتر بھی
 
Top