تعارف بہت مختصر سا تعارف ہے میرا

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
آنسۂ جمیلہ و جلیلہ بنامِ گل بکاؤلی و گُلِ یاسمیں کی جسدِ اردو پہ تیغ و سناں زنی پر ہم ہرگز بھی مبتلائے فکر نہیں ہیں کہ ایں ہمہ افعال ان کی فطرتِ ثانیہ کا جزوِ لازم ہیں بعینٖہ مانندِ سہہ پات ہائے ڈھاک۔ نیز مسماۃ ِ ہٰذا کے زورِ شمشیر کا نشانۂ ستم فقط گیسوئے اردو ہی نہیں، بلکہ زیرِ گیسوئے عاجز و احقر کا کاسۂ سر بھی ہے۔
ترجمہ پلیز
 

سیما علی

لائبریرین
آنسۂ جمیلہ و جلیلہ بنامِ گل بکاؤلی و گُلِ یاسمیں کی جسدِ اردو پہ تیغ و سناں زنی پر ہم ہرگز بھی مبتلائے فکر نہیں ہیں کہ ایں ہمہ افعال ان کی فطرتِ ثانیہ کا جزوِ لازم ہیں بعینٖہ مانندِ سہہ پات ہائے ڈھاک۔ نیز مسماۃ ِ ہٰذا کے زورِ شمشیر کا نشانۂ ستم فقط گیسوئے اردو ہی نہیں، بلکہ زیرِ گیسوئے عاجز و احقر کا کاسۂ سر بھی ہے۔

؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 
آنسۂ جمیلہ و جلیلہ بنامِ گل بکاؤلی و گُلِ یاسمیں کی جسدِ اردو پہ تیغ و سناں زنی پر ہم ہرگز بھی مبتلائے فکر نہیں ہیں کہ ایں ہمہ افعال ان کی فطرتِ ثانیہ کا جزوِ لازم ہیں بعینٖہ مانندِ سہہ پات ہائے ڈھاک۔ نیز مسماۃ ِ ہٰذا کے زورِ شمشیر کا نشانۂ ستم فقط گیسوئے اردو ہی نہیں، بلکہ زیرِ گیسوئے عاجز و احقر کا کاسۂ سر بھی ہے۔
مندرجہ بالا تحریر کا پنجابی ترجمہ بذریعہ گوگل ٹرانسلیٹ کریں تو یوں ہوتا ہے
گل بکاؤلی تے گل یاسمین ناں دیاں سوہنیاں تے سوہنیاں زنانیاں دے اردو جسم نوں چھیدن تے چھرا مارن دا ساہنوں بالکل وی فکر نہیں، کیوں جے ایہہ سارے کم اوہناں دی دوجی فطرت دا لازمی حصہ نیں، بالکل انج ای جیویں ترے پیراں والے سٹول نوں چادر نال ڈھک دتا جاندا اے۔ نالے ایس ناں دی تلوار دے ظلم دا نشان صرف اردو لوکاں تے ہی نہیں، جوئے ہیٹھ عاجزاں تے گھٹیا لوکاں دا سر وی اے۔
اب اسی پنجابی ترجمے کو پھر سے اردو میں ترجمہ کریں
ہمیں گل بکاؤلی اور گل یاسمین نامی حسین و جمیل خواتین کے اردو جسموں میں چھیدنے اور چھرا گھونپنے سے بالکل بھی پروا نہیں کیونکہ یہ تمام حرکات ان کی فطرت ثانیہ کا اٹوٹ حصہ ہیں جس طرح تین ٹانگوں والے پاخانے کو چادر سے ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ اور اس نام کی تلوار کے ظلم کا نشان صرف اردو والوں پر ہی نہیں بلکہ جوئے تلے ذلیل و خوار لوگوں کے سروں پر بھی ہے۔

بس تجربہ کیا اور نتائج بے ہوش کر دینے والے تھے ۔ ہائے او گوگلا ۔۔۔! تیرا ککھ ناں رہوے
 

الف عین

لائبریرین
مندرجہ بالا تحریر کا پنجابی ترجمہ بذریعہ گوگل ٹرانسلیٹ کریں تو یوں ہوتا ہے
گل بکاؤلی تے گل یاسمین ناں دیاں سوہنیاں تے سوہنیاں زنانیاں دے اردو جسم نوں چھیدن تے چھرا مارن دا ساہنوں بالکل وی فکر نہیں، کیوں جے ایہہ سارے کم اوہناں دی دوجی فطرت دا لازمی حصہ نیں، بالکل انج ای جیویں ترے پیراں والے سٹول نوں چادر نال ڈھک دتا جاندا اے۔ نالے ایس ناں دی تلوار دے ظلم دا نشان صرف اردو لوکاں تے ہی نہیں، جوئے ہیٹھ عاجزاں تے گھٹیا لوکاں دا سر وی اے۔
اب اسی پنجابی ترجمے کو پھر سے اردو میں ترجمہ کریں
ہمیں گل بکاؤلی اور گل یاسمین نامی حسین و جمیل خواتین کے اردو جسموں میں چھیدنے اور چھرا گھونپنے سے بالکل بھی پروا نہیں کیونکہ یہ تمام حرکات ان کی فطرت ثانیہ کا اٹوٹ حصہ ہیں جس طرح تین ٹانگوں والے پاخانے کو چادر سے ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ اور اس نام کی تلوار کے ظلم کا نشان صرف اردو والوں پر ہی نہیں بلکہ جوئے تلے ذلیل و خوار لوگوں کے سروں پر بھی ہے۔

بس تجربہ کیا اور نتائج بے ہوش کر دینے والے تھے ۔ ہائے او گوگلا ۔۔۔! تیرا ککھ ناں رہوے
لگتا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی کو ذرا بھی شناسائی نہیں اردو محاوروں سے، کہ نتیجہ وہی نکلتا ہے... ڈھاک کے تین پات
 

سیما علی

لائبریرین
کبھی کبھی تو بالکل یہی کہنے تو دل چاہتا ہے بھیا !!!ہمارے محلے کا ایک واٹس ایپ گروپ ہے اکثر ایک خاتون صرف اردو لکھتی ہیں تو کچھ ایسے لوگ ہیں جو اردو سے واقفیت نہیں رکھتے تو اُنکی بیٹی انگریزی ترجمہ من و عن پیش کر دیتی ہیں اتنی ہنسی آتی ہے جب ترجمہ لکھا آتا ہے
Chat GPT
یا
گوگل
ٹرانلیشن سے بھی
کیونکہ اس میں ایڈیٹ ضروری ہے
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
آنسۂ جمیلہ و جلیلہ بنامِ گل بکاؤلی و گُلِ یاسمیں کی جسدِ اردو پہ تیغ و سناں زنی پر ہم ہرگز بھی مبتلائے فکر نہیں ہیں کہ ایں ہمہ افعال ان کی فطرتِ ثانیہ کا جزوِ لازم ہیں بعینٖہ مانندِ سہہ پات ہائے ڈھاک۔ نیز مسماۃ ِ ہٰذا کے زورِ شمشیر کا نشانۂ ستم فقط گیسوئے اردو ہی نہیں، بلکہ زیرِ گیسوئے عاجز و احقر کا کاسۂ سر بھی ہے۔
فیصل بھائی کی طرف جو ترجمہ دیا گیا وہ گوگل ٹرانسلیٹر کا تھا۔ نیچے دیا گیا ترجمہ چیٹ جی پی ٹی کی طرف سے۔

"آنسہ جمیلہ و جلیلہ کی جانب سے گل بکاؤلی اور گُلِ یاسمیں پر اردو زبان کے جسم پر تلوار اور نیزہ چلانے کے عمل پر ہمیں بالکل بھی کوئی تشویش نہیں، کیونکہ یہ سب کام اُن کی دوسری فطرت (فطرتِ ثانیہ) کا حصہ ہیں، جیسے کہ ڈھاک کے تین پات (یعنی جو جیسا ہے ویسا ہی رہے گا)۔ نیز، اس خاتون کی تلوار کا نشانہ صرف اردو کے گیسو (بال) ہی نہیں، بلکہ خاکسار کے بالوں کے نیچے کا سر بھی ہے (یعنی میں خود بھی اُن کے ظلم کا نشانہ ہوں)۔"
 

یاز

محفلین
آنسۂ جمیلہ و جلیلہ بنامِ گل بکاؤلی و گُلِ یاسمیں کی جسدِ اردو پہ تیغ و سناں زنی پر ہم ہرگز بھی مبتلائے فکر نہیں ہیں کہ ایں ہمہ افعال ان کی فطرتِ ثانیہ کا جزوِ لازم ہیں بعینٖہ مانندِ سہہ پات ہائے ڈھاک۔ نیز مسماۃ ِ ہٰذا کے زورِ شمشیر کا نشانۂ ستم فقط گیسوئے اردو ہی نہیں، بلکہ زیرِ گیسوئے عاجز و احقر کا کاسۂ سر بھی ہے۔

فیصل بھائی کی طرف جو ترجمہ دیا گیا وہ گوگل ٹرانسلیٹر کا تھا۔ نیچے دیا گیا ترجمہ چیٹ جی پی ٹی کی طرف سے۔

"آنسہ جمیلہ و جلیلہ کی جانب سے گل بکاؤلی اور گُلِ یاسمیں پر اردو زبان کے جسم پر تلوار اور نیزہ چلانے کے عمل پر ہمیں بالکل بھی کوئی تشویش نہیں، کیونکہ یہ سب کام اُن کی دوسری فطرت (فطرتِ ثانیہ) کا حصہ ہیں، جیسے کہ ڈھاک کے تین پات (یعنی جو جیسا ہے ویسا ہی رہے گا)۔ نیز، اس خاتون کی تلوار کا نشانہ صرف اردو کے گیسو (بال) ہی نہیں، بلکہ خاکسار کے بالوں کے نیچے کا سر بھی ہے (یعنی میں خود بھی اُن کے ظلم کا نشانہ ہوں)۔"
اسی کا ترجمہ ڈیپ سیک سے بھی۔ (کہہ سکتے ہیں کہ اس معاملے میں بھی چینی ٹیکنالوجی نے میدان مار لیا).
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
آسان اردو میں ترجمہ:

ہمیں جمیلہ اور جلیلہ کے آنسوؤں (یعنی گل بکاؤلی اور گلِ یاسمیں) کی اردو کے جسم پر تلوار اور نیزے سے وار کرنے کی فکر نہیں، کیونکہ یہ سب ان کی دوسری فطرت کا لازمہ ہے، بالکل ڈھاک کے سہ پاتوں کی طرح۔ اور اس نام والی (جمیلہ و جلیلہ) کی تلوار کی طاقت کا نشانہ صرف اردو کی زلفیں ہی نہیں، بلکہ اس کمزور اور حقیر (لکھنے والے) کے سر کا کاسہ (یعنی سر) بھی ہے۔

**تشریح:**
- یہ جملہ ایک ادبی اور شاعرانہ انداز میں لکھا گیا ہے، جس میں "جمیلہ و جلیلہ" سے مراد دو پھول (گل بکاؤلی اور گل یاسمیں) ہیں جو اردو زبان پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔
- "تیغ و سناں" (تلوار اور نیزہ) سے مراد ان پھولوں کی تیزی یا اثر ہے۔
- "ڈھاک کے سہ پات" ایک مشہور محاورہ ہے جو بے ضرر چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
- "گیسوئے اردو" سے مراد اردو زبان کی خوبصورتی اور نزاکت ہے۔
- "زیرِ گیسوئے عاجز و احقر" سے مراد لکھنے والا خود ہے جو اپنے آپ کو کمزور اور حقیر قرار دے رہا ہے۔

اگر مزید وضاحت چاہیں تو بتائیں!
 
Top