آنسۂ جمیلہ و جلیلہ بنامِ گل بکاؤلی و
گُلِ یاسمیں کی جسدِ اردو پہ تیغ و سناں زنی پر ہم ہرگز بھی مبتلائے فکر نہیں ہیں کہ ایں ہمہ افعال ان کی فطرتِ ثانیہ کا جزوِ لازم ہیں بعینٖہ مانندِ سہہ پات ہائے ڈھاک۔ نیز مسماۃ ِ ہٰذا کے زورِ شمشیر کا نشانۂ ستم فقط گیسوئے اردو ہی نہیں، بلکہ زیرِ گیسوئے عاجز و احقر کا کاسۂ سر بھی ہے۔
فیصل بھائی کی طرف جو ترجمہ دیا گیا وہ گوگل ٹرانسلیٹر کا تھا۔ نیچے دیا گیا ترجمہ چیٹ جی پی ٹی کی طرف سے۔
"آنسہ جمیلہ و جلیلہ کی جانب سے گل بکاؤلی اور گُلِ یاسمیں پر اردو زبان کے جسم پر تلوار اور نیزہ چلانے کے عمل پر ہمیں بالکل بھی کوئی تشویش نہیں، کیونکہ یہ سب کام اُن کی دوسری فطرت (فطرتِ ثانیہ) کا حصہ ہیں، جیسے کہ ڈھاک کے تین پات (یعنی جو جیسا ہے ویسا ہی رہے گا)۔ نیز، اس خاتون کی تلوار کا نشانہ صرف اردو کے گیسو (بال) ہی نہیں، بلکہ خاکسار کے بالوں کے نیچے کا سر بھی ہے (یعنی میں خود بھی اُن کے ظلم کا نشانہ ہوں)۔"
اسی کا ترجمہ ڈیپ سیک سے بھی۔ (کہہ سکتے ہیں کہ اس معاملے میں بھی چینی ٹیکنالوجی نے میدان مار لیا).
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
آسان اردو میں ترجمہ:
ہمیں جمیلہ اور جلیلہ کے آنسوؤں (یعنی گل بکاؤلی اور گلِ یاسمیں) کی اردو کے جسم پر تلوار اور نیزے سے وار کرنے کی فکر نہیں، کیونکہ یہ سب ان کی دوسری فطرت کا لازمہ ہے، بالکل ڈھاک کے سہ پاتوں کی طرح۔ اور اس نام والی (جمیلہ و جلیلہ) کی تلوار کی طاقت کا نشانہ صرف اردو کی زلفیں ہی نہیں، بلکہ اس کمزور اور حقیر (لکھنے والے) کے سر کا کاسہ (یعنی سر) بھی ہے۔
**تشریح:**
- یہ جملہ ایک ادبی اور شاعرانہ انداز میں لکھا گیا ہے، جس میں "جمیلہ و جلیلہ" سے مراد دو پھول (گل بکاؤلی اور گل یاسمیں) ہیں جو اردو زبان پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔
- "تیغ و سناں" (تلوار اور نیزہ) سے مراد ان پھولوں کی تیزی یا اثر ہے۔
- "ڈھاک کے سہ پات" ایک مشہور محاورہ ہے جو بے ضرر چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
- "گیسوئے اردو" سے مراد اردو زبان کی خوبصورتی اور نزاکت ہے۔
- "زیرِ گیسوئے عاجز و احقر" سے مراد لکھنے والا خود ہے جو اپنے آپ کو کمزور اور حقیر قرار دے رہا ہے۔
اگر مزید وضاحت چاہیں تو بتائیں!