گرو نانک سے منسوب ایک روایت بیان کی جاتی ہے۔ آج ادب دوست بھائی کا کیفیت نامہ پڑھ کر ذہن میں تازہ ہو گئی۔
گرو نانک اپنے چیلوں کے درمیان بیٹھے تھے۔ حکمت و موعظت کے موتی بکھر رہے تھے۔ باتوں میں سے بات نکلی اور روئے سخن آیندہ زمانوں کی طرف ہو گیا۔ گرو نے کہا:
اک ویلا آؤ گا جد ہر بندہ ٹھگ ہوؤ گا۔
(ایک وقت آئے گا جب ہر شخص نوسرباز ہو گا)
چیلوں نے تعجب سے گرو کی جانب دیکھا۔ کسی نے کہا:
گرو جی، ہر بندہ؟
گرو نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔
ایک چیلا پھڑک گیا۔ کہنے لگا:
تے فیر ٹھگیا کون جاؤ؟
(ہر شخص ہی ٹھگ ہو گا تو دھوکا کون کھائے گا؟)
گرو نے دھیرے سے کہا:
جیہڑا وساہ کھاؤ۔
(جو بھروسا کرے گا!)
 
آخری تدوین:
۔۔۔۔۔۔ تو کیا اب کسی پر بھروسہ نہ کروں۔۔ ؟؟؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جو اپنے آپ میں ایک مرثیہ ہے ایک عذاب ہے۔۔ یہ سوال کم از کم میرے لئے محتاجِ جواب نہیں
 
ہمارے ہاں بھروسے کے عجیب معیارات ہیں۔
آنکھیں بند کر کے کسی سے کوئی سودا، کاروبار کر لینے کو بھروسہ کہا جاتا ہے اور اگر آپ کچھ لکھنے اور معائدہ طے کرنے کی بات کر لیں تو سب عجیب نظروں سے دیکھنا شروع ہو جاتے ہیں کہ اس کو بھروسہ ہی نہیں ہے۔
حالانکہ اللہ کا حکم ہے، کہ جب معاملہ کرو تو لکھ لیا کرو۔
کسی سے اس کی بات کی تصدیق کے مقصد سے دوبارہ پوچھ لو یا اس کے سامنے کسی اور سے تصدیق کر لو تو کہا جاتا ہے بھروسہ نہیں ہم پر؟
میاں بیوی کے معاملہ میں تو بھروسہ کانچ برابر ہو جاتا ہے۔ ہر بات پر سب سے پہلے بھروسہ ٹوٹتا ہے۔
اولاد اگر ذرا والدین کے بتا دیے گئے راستے پر احترام سے بھی سوال اٹھا لے تو ماں باپ کا بھروسہ اٹھ جاتا ہے۔

بھروسہ کو اتنا نازک بنا دیا ہے کہ ایک بوجھ لگنا شروع ہو جاتا ہے۔
بھروسہ ہر گز یہ نہیں ہے کہ آنکھیں بند کر کے معاملات کئے جائیں۔
بھروسہ یہ ہے کہ آپ کسی سے معاملہ کرنے پر تیار ہو گئے ہیں۔ معائدہ بھروسے کو مضبوط کرتا ہے۔ کیونکہ دلوں کا حال اللہ جانتا ہے۔ جس پر بھروسہ نہیں ہو گا، اس سے میں سرے سے کوئی معاملہ ہی نہیں رکھوں گا۔
بھروسہ ہرگز یہ نہیں ہے کہ کسی کی بات کو سن کر فوراً ایمان لے آیا جائے۔ تصدیق کا تو اللہ نے نبیؐ کو بھی حکم دیا۔
میاں بیوی کا (مرضی یا والدین کی مرضی) سب سے بڑا بھروسہ ہی یہ ہے کہ ایک دوسرے سے اپنے زار شئر کر دیے۔ ایک دوسرے کا لباس بن گئے۔ معمولی نوک جھونک اور اختلاف اتنے مضبوط بھروسے کو کیسے توڑ سکتے ہیں۔ کہ یہ کہا جائے کہ بھروسہ سرے سے کیا ہی نہ جائے۔
والدین بلاشبہ انسان کی زندگی کا ہر فیصلہ اپنی نظروں سے اس کی بہتری کے لئے ہی کرتے ہیں، لیکن اگر اولاد کو کسی معاملے میں ان کا کوئی فیصلہ اپنے مزاج کے مطابق محسوس نہ ہو اور وہ اسے احترام سے والدین کے سامنے پیش کرے تو والدین اس کو بھروسے کا دشمن سمجھنے کے بجائے اس پر بھی بھروسہ کر کے دیکھیں، اس کی تربیت آپ نے ہی کی ہے، اس کا فیصلہ بھی آپ کی تربیت کی مرہونِ منت ہے۔ بھروسہ مضبوط ہو گا۔

شاید میری بہت سی باتوں میں جھول ہو۔ بس آنے والے بے ربط خیالات دفتر ی کام کے درمیان لکھ ڈالے ہیں۔ صرف بھروسہ اور اعتماد کو مضبوط کرنے کے لئے ، کہ اس کو اتنا نازک نہ کریں کہ سر کا بوجھ بن کر رہ جائے۔
 
افسوس، بے شُمار سُخن ہائے گُفتنی
خوفِ فسادِ خلق سے ناگُفتہ رہ گئے
اگر آپ ہمیں خلق میں محسوب نہ کریں تو ان باکس میں ناگفتہ تو کیا ناگفتنی بھی بتمام و کمال کہی سنی جا سکتی ہے۔ لیکن خیال رہے کہ جمہور کے خیال میں ہم منجملۂِ خلائق ہی ہیں۔ تکفیر وغیرہ کے معاملات سے ہماری ویسے بھی جان نکلتی ہے!
۔۔۔۔۔۔ تو کیا اب کسی پر بھروسہ نہ کروں۔۔ ؟؟؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جو اپنے آپ میں ایک مرثیہ ہے ایک عذاب ہے۔۔ یہ سوال کم از کم میرے لئے محتاجِ جواب نہیں
رسولِ پاک ﷺ کا فرمان اس کرب کا شافی حل ہے۔ فرمایا:
اعقل و توکل۔
(اونٹ کے) گھٹنے باندھ اور (پھر) خدا پر چھوڑ دے۔
گھٹنے باندھنا آپ مت چھوڑیے۔ آگے کی فکر ہما شما کا کام نہیں۔ کوئی لے گیا تو اس کی مرضی جس نے عطا کیا۔ بچ گیا تو بھی بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی!
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ---
جب آنکھ کھل گئی، نہ زیاں تھا نہ سود تھا !
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
گرو نانک سے منسوب ایک روایت بیان کی جاتی ہے۔ آج ادب دوست بھائی کا کیفیت نامہ پڑھ کر ذہن میں تازہ ہو گئی۔
گرو نانک اپنے چیلوں کے درمیان بیٹھے تھے۔ حکمت و موعظت کے موتی بکھر رہے تھے۔ باتوں میں سے بات نکلی اور روئے سخن آیندہ زمانوں کی طرف ہو گیا۔ گرو نے کہا:
اک ویلا آؤ گا جد ہر بندہ ٹھگ ہوؤ گا۔
(ایک وقت آئے گا جب ہر شخص نوسرباز ہو گا)
چیلوں نے تعجب سے گرو کی جانب دیکھا۔ کسی نے کہا:
گرو جی، ہر بندہ؟
گرو نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔
ایک چیلا پھڑک گیا۔ کہنے لگا:
تے فیر ٹھگیا کون جاؤ؟
(ہر شخص ہی ٹھگ ہو گا تو دھوکا کون کھائے گا؟)
گرو نے دھیرے سے کہا:
جیہڑا وساہ کھاؤ۔
(جو بھروسا کرے گا!)

مختصر مگر بھرپور! عقلمند لوگوں کی گہری باتیں !!
بھائی بہت شکریہ ہمیں اس میں شریک کرنے کا ۔ لیکن حاصلِ گفتگو یہی رہا :
رسولِ پاک ﷺ کا فرمان اس کرب کا شافی حل ہے۔ فرمایا:
اعقل و توکل۔
(اونٹ کے) گھٹنے باندھ اور (پھر) خدا پر چھوڑ دے۔
 
اس کا ایک حل یہ بھی ہے۔ کہ ہر ایک پر شدید بھروسہ کر لیا جائے۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ دھوکہ دینے والے کے دھوکے پر شدید بھروسہ کہ یہ مجھے دھوکہ دینے میں بھی دھوکہ نہیں کرے گا۔ فقیر کہتا ہے، ایسے میں ٹھگنے والا ایمانداری سے ٹھگے گا اور آپ کا تو بھروسہ بھی نہیں ٹوٹے گا۔ یوں معنی با مراد۔۔۔۔۔
 
زندگی میں ہے دھوکہ اس کے سوا کچھ نہیں
تماشائی ہے یہ دنیا اس کے سوا کچھ نہیں

میری زندگی سے پوچھیے زندگی کیا ہے
زندگی ہے ایک خواب اس کے سوا کچھ نہیں
 

اکمل زیدی

محفلین
اسی بات سے ملتی جلتی بات ابھی کچھ دنو ں پہلے ایک گفتگو میں رہی ...اس میں ہمارا حصہ یہ بیان کرنے میں رہا کہ آخر یہ ڈاکومینٹیشن کی اٹسٹشن یعنی تصدیق نامہ - کسی کے ریفرنس کی ضرورت - کسی کا معروف شخصیت کا حوالہ - یہ جگہ جگا سکینر وغیرہ وغیرہ . . . ہمارے معاشرے کا حصہ کیوں ہے جواب یہی کے بھروسہ نہیں ہے ... اگر بھروسہ والا ماحول ہو تو بندا کتنے جھنجھٹ سے بچ جائے پھر مزید سوچا تو سمجھ آیا کیا پتا آپ جسے دوسرے کا دھوکہ سمجھ رہے ہوں وہ اسے دھوکہ نہ سمجھ رہا ہو بلکے اس کی بھی کوئی نہ کوئی دلیل ہو اس کے پاس یا آپ نے جو معاملہ اس کے ساتھ کیا ہے وہ اس کی نظر میں دھوکہ ہو مگر آپ اسے صحیح سمجھ کر کر رہے ہو ....اور غور کیا تو پھر قرآن میں الله کی قسموں پر گئی ..وہ مالک کل قسمیں کھا رہا ہے ... على كل شيء قدير ہے . . . .
 
راحیل بھائی یہی بات میں نے ابو کے منہ سے کئی دفعہ سُن چکی ہوں لیکن ابو تو اس بات کو میاں محمد بخش رح سے منسوب بتاتے تھے جب بات مکمل ہو جاتی تو آخر میں میاں محمد بخش کا ایک شعر بھی پڑھتے تھے

میں محمد ٹھگ محمد ، میں محمد چور
جس دا دنیا کلمہ پڑھ دی او محمد ہور
 
Top