بچوں کا اسکول میں داخلہ

فہیم

لائبریرین
میری بیٹی آنے والے ماہ کی 22 تاریخ کو ماشاءاللہ 2 سال کی ہوجائے گی۔
ابھی وہ اچھے خاصے الفاظ درست و غلط تلفظ کے ساتھ بول لیتی ہے۔
جیسے مما، بابا، دادی، نانی، پانی اور کئی جملے
جیسے چھوڑ دو، مجھے یہ کرنا ہے وغیرہ وغیرہ

بیگم کا کہنا ہے کہ اسے آنے والے کچھ ماہ میں اسکول لگا دینا چاہیے۔ تاکہ ان کا ذہن ابھی سے مثبت سرگرمیوں کی طرف مائل ہوسکے۔
جبکہ خود میرا ماننا ہے کہ ابھی اس کی عمر کافی کم ہے۔ اور اسکول میں داخلہ ساڑھے سے 4 سال کی عمر تک ہونا چاہیے۔ جب تک اسے گھر میں ہی مزید تربیت دی جائے۔

آپ لوگوں کے خیال میں بچوں کے لیے اسکول میں داخلے کی مناسب عمر کیا ہونی چاہیے؟
 

sami

محفلین
میری بیٹی آنے والے ماہ کی 22 تاریخ کو ماشاءاللہ 2 سال کی ہوجائے گی۔
ابھی وہ اچھے خاصے الفاظ درست و غلط تلفظ کے ساتھ بول لیتی ہے۔
جیسے مما، بابا، دادی، نانی، پانی اور کئی جملے
جیسے چھوڑ دو، مجھے یہ کرنا ہے وغیرہ وغیرہ

بیگم کا کہنا ہے کہ اسے آنے والے کچھ ماہ میں اسکول لگا دینا چاہیے۔ تاکہ ان کا ذہن ابھی سے مثبت سرگرمیوں کی طرف مائل ہوسکے۔
جبکہ خود میرا ماننا ہے کہ ابھی اس کی عمر کافی کم ہے۔ اور اسکول میں داخلہ ساڑھے سے 4 سال کی عمر تک ہونا چاہیے۔ جب تک اسے گھر میں ہی مزید تربیت دی جائے۔

آپ لوگوں کے خیال میں بچوں کے لیے اسکول میں داخلے کی مناسب عمر کیا ہونی چاہیے؟
میرے خیال اسکول میں داخلے کی مناسبسے 5 سال کے بعد ہے
 

ابن توقیر

محفلین
میرے خیال سے بھی عمر چار سال۔وگرنہ آجکل تو معصوم بچوں کو مشینوں کی مانند تعلیم کے نام پر اٹھک بیٹھک کروائی جارہی ہے اور تعلیم ایک مفید کاروبار بنی ہوئی ہے۔
میں حیران ہوتا ہوں جب بچوں کو صبح سے لے کر رات گئے تک سکول ، ٹیوشن سنٹر یا مدرسے کے چکر کاٹتے دیکھتا ہوں۔اس سب میں ان کی اپنی زندگی یعنی ان کا بچپن کہاں چلا جاتا ہے۔ اس کا جواب میرے پاس نہیں ہے۔
 
میرا بیٹا تین سال کا ہو گیا ہے اور میں سوچ رہی ہوں اس سال اس کو سکول میں داخل کروا دو.
نماز پوری آتی ہے میرے بچے کو اور قرآن پاک کے دسویں پارے پر ہے
 

اکمل زیدی

محفلین
میرا بیٹا تین سال کا ہو گیا ہے اور میں سوچ رہی ہوں اس سال اس کو سکول میں داخل کروا دو.
نماز پوری آتی ہے میرے بچے کو اور قرآن پاک کے دسویں پارے پر ہے
ماشاء الله ..
.مگر سکول میں داخل نہ کرواؤ ابھی ...ایک مشورہ ...باقی تمہاری مرضی . . .
 

محمد وارث

لائبریرین
دو سال کی عمر تو بہت کم ہے فہیم، کوئی خدا کا خوف کریں اور اپنی بیگم صاحبہ کو بھی سمجھائیں، ابھی تو بچے کے ڈائپرز کا خرچہ ختم نہیں ہوا ہوگا کہ آپ سکول کی طرف دیکھنا شروع ہو گئے :)

آج کل ساڑھے تین سال کی عمر سے بچوں کو "پلے گروپ" میں لے لیتے ہیں، لیکن میرا مشورہ یہی ہے کہ ایسا نہ کریں، یہ بچے پر بے جا بوجھ ہوگا۔ مناسب ہوگا کہ بٹیا رانی کو ابھی گھر ہی میں‌ تعلیم دی جاِئے اور چار سے پانچ سال کی عمر کے درمیان سکول میں داخل کروایا جائے۔
 

لاریب مرزا

محفلین
دو سال بہت کم عمر ہے۔ ساڑھے تین سال کی عمر بہترین ہے۔ ہمارے سکول میں بھی پلے گروپ کے لیے ساڑھے تین سال کی عمر سے بچوں کا داخلہ کیا جاتا ہے۔ پہلے ایسا ہوتا تھا کہ بچے پانچ سال کی عمر سے سکول میں داخل کرانے کا رجحان تھا۔ لیکن آج کل ایک تو تعلیم کا سسٹم بدل چکا ہے۔ اور دوسرے آج کل کے بچے کمپیوٹرائزڈ ہیں۔ جلد ہی چیزوں کو سیکھ لیتے ہیں، اور زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی..
دوسری وجہ یہ ہے کہ آج کل پلے گروپ کے بعد نرسری اور پریپ کلاس پڑھنی پڑھتی ہے۔ یعنی جماعت اول تک جانے کے لیے دو تین سال لگ جاتے ہیں۔ اس لیے والدین جلد از جلد داخلہ کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
 
میری رآئے میں تو بچوں کو پانچویں کلاس تک گھر میں پڑھنا چاہیے مگر اس کے لیے والدین کی اور ایکسٹنڈڈ فیملی ممبرز کی ڈیڈیکشن اور ٹرینینگ ضروری ہے۔
 

لاریب مرزا

محفلین
آج کل ساڑھے تین سال کی عمر سے بچوں کو "پلے گروپ" میں لے لیتے ہیں، لیکن میرا مشورہ یہی ہے کہ ایسا نہ کریں، یہ بچے پر بے جا بوجھ ہوگا۔ مناسب ہوگا کہ بٹیا رانی کو ابھی گھر ہی میں‌ تعلیم دی جاِئے اور چار سے پانچ سال کی عمر کے درمیان سکول میں داخل کروایا جائے۔
سوال یہ ہے کہ پانچ سال کی عمر میں کونسی جماعت میں داخلہ کرائیں گے؟؟ کیونکہ والدین اپنے بچوں کو گھر میں زبانی بہت کچھ کروا لیتے ہیں لیکن لکھنا بچوں کو نہیں آتا.. پھر چار پانچ سال کی عمر میں جب بچے سکول آتے ہیں تو والدین یہ تقاضا کرتے ہیں کہ چاہے بچے ٹیسٹ پاس کر سکے ہیں یا نہیں، چونکہ ان کی عمر زیادہ ہو گئی ہے سو پریپ کلاس میں ہی بٹھایا جائے۔ اس طرح بچے کی بنیاد خراب ہوتی ہے۔
بہترین طریقہ یہ ہے کہ جس سکول میں داخلہ کرانے کا رجحان ہے اس سکول کا سلیبس پتہ کروا لیا جائے۔ اور اس سلیبس کے مطابق گھر میں تیاری کروائی جائے۔ لکھنے والا کام بھی ساتھ ساتھ کروایا جائے۔ گھر میں والدین بچوں کو لکھوانے سے غفلت برت جاتے ہیں۔
 

زیک

مسافر
اگر سکول کو ڈے کیئر کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں تو دو سال کی عمر بھی ٹھیک ہے۔ البتہ یہاں سکول میں پری کے چار سال کی عمر میں شروع ہوتا ہے۔ کنڈرگارٹن 5 سال کی عمر میں اور فرسٹ گریڈ 6 سال میں۔ اکثر لوگ چار یا پانچ سال کی عمر میں بچوں کو سکول بھیجتے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سوال یہ ہے کہ پانچ سال کی عمر میں کونسی جماعت میں داخلہ کرائیں گے؟؟ کیونکہ والدین اپنے بچوں کو گھر میں زبانی بہت کچھ کروا لیتے ہیں لیکن لکھنا بچوں کو نہیں آتا.. پھر چار پانچ سال کی عمر میں جب بچے سکول آتے ہیں تو والدین یہ تقاضا کرتے ہیں کہ چاہے بچے ٹیسٹ پاس کر سکے ہیں یا نہیں، چونکہ ان کی عمر زیادہ ہو گئی ہے سو پریپ کلاس میں ہی بٹھایا جائے۔ اس طرح بچے کی بنیاد خراب ہوتی ہے۔
بہترین طریقہ یہ ہے کہ جس سکول میں داخلہ کرانے کا رجحان ہے اس سکول کا سلیبس پتہ کروا لیا جائے۔ اور اس سلیبس کے مطابق گھر میں تیاری کروائی جائے۔ لکھنے والا کام بھی ساتھ ساتھ کروایا جائے۔ گھر میں والدین بچوں کو لکھوانے سے غفلت برت جاتے ہیں۔
جی میں‌ بھی کچھ یہی عرض کہہ رہا تھا کہ بچے کو گھر میں تعلیم دی جائے ظاہر ہے اس میں لکھنا بھی شامل ہے۔ میں نے اپنے دو بچوں کو لگ بھگ چار ساڑھے چار سال کی عمر میں داخل کروایا تھا پریپ کلاس میں۔ درمیان والے کو پلے گروپ میں داخل کروا دیا تھا ساڑھے تین سال کی عمر میں اور اسی کا تجربہ سب سے خراب رہا۔ اور معذرت کے ساتھ، پاکستان کے طول و عرض میں، گلی گلی محلے محلے میں سو کالڈ انگلش میڈیم آکسفورڈ سلیبس والے پرائیوٹ اسکولز فقط پیسہ بنانے کی فیکڑیاں ہیں۔
 

زیک

مسافر
سوال یہ ہے کہ پانچ سال کی عمر میں کونسی جماعت میں داخلہ کرائیں گے؟؟ کیونکہ والدین اپنے بچوں کو گھر میں زبانی بہت کچھ کروا لیتے ہیں لیکن لکھنا بچوں کو نہیں آتا.. پھر چار پانچ سال کی عمر میں جب بچے سکول آتے ہیں تو والدین یہ تقاضا کرتے ہیں کہ چاہے بچے ٹیسٹ پاس کر سکے ہیں یا نہیں، چونکہ ان کی عمر زیادہ ہو گئی ہے سو پریپ کلاس میں ہی بٹھایا جائے۔ اس طرح بچے کی بنیاد خراب ہوتی ہے۔
بہترین طریقہ یہ ہے کہ جس سکول میں داخلہ کرانے کا رجحان ہے اس سکول کا سلیبس پتہ کروا لیا جائے۔ اور اس سلیبس کے مطابق گھر میں تیاری کروائی جائے۔ لکھنے والا کام بھی ساتھ ساتھ کروایا جائے۔ گھر میں والدین بچوں کو لکھوانے سے غفلت برت جاتے ہیں۔
پریپ سے پہلے بچے کو کیا آنا چاہیئے؟
 

لاریب مرزا

محفلین
جی میں‌ بھی کچھ یہی عرض کہہ رہا تھا کہ بچے کو گھر میں تعلیم دی جائے ظاہر ہے اس میں لکھنا بھی شامل ہے۔ میں نے اپنے دو بچوں کو لگ بھگ چار ساڑھے چار سال کی عمر میں داخل کروایا تھا پریپ کلاس میں۔ درمیان والے کو پلے گروپ میں داخل کروا دیا تھا ساڑھے تین سال کی عمر میں اور اسی کا تجربہ سب سے خراب رہا۔
دراصل یہ ہمارا بھی تجربہ ہی بول رہا ہے۔ نوے فی صد والدین بچوں کو گھر میں صرف چیزیں یاد کرواتے ہیں۔ لکھواتے بہت کم ہیں۔ اور یہی بچے اساتذہ کے لیے بھی مسئلہ بنتے ہیں۔
ہمیں حیرت ہو رہی ہے کہ آپ کے چھوٹے بیٹے کا تجربہ کیوں خراب رہا؟؟ پلے گروپ میں داخل کرانے سے کیا مسائل پیش آئے؟؟
اور معذرت کے ساتھ، پاکستان کے طول و عرض میں، گلی گلی محلے محلے میں سو کالڈ انگلش میڈیم آکسفورڈ سلیبس والے پرائیوٹ اسکولز فقط پیسہ بنانے کی فیکڑیاں ہیں۔
آپ کی اس بات سے ہم بھی متفق ہیں۔ اساتذہ کو ٹرینڈ کیے بغیر اور نصاب کی تقسیم کیے بغیر ایسے سکول بچوں کا مستقبل خراب کر رہے ہیں۔
 

لاریب مرزا

محفلین
پریپ سے پہلے بچے کو کیا آنا چاہیئے؟
ہمارے سکول میں پری نرسری( پلے گروپ) میں بچوں کو دلچسپ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مختلف لائنز draw کرائی جاتی ہیں۔ سرکل، ہاف سرکل اور بھی مختلف shapes

نرسری میں capital and small letter, سو تک گنتی اور حروف تہجی سکھائے جاتے ہیں۔ جوڑ توڑ، dodging وغیرہ بھی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ورک بکس پر بھی مختلف سرگرمیاں کرائی جاتی ہیں۔

پریپ میں بچوں کو جملے لکھنے پڑھنے سکھائے جاتے ہیں۔ یعنی بچے پورے جملے لکھ بھی سکیں اور پڑھ بھی سکیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ہمیں حیرت ہو رہی ہے کہ آپ کے چھوٹے بیٹے کا تجربہ کیوں خراب رہا؟؟ پلے گروپ میں داخل کرانے سے کیا مسائل پیش آئے؟؟
تین ساڑھے تین سال کی عمر کا بچہ چھوٹا ہوتا ہے، سب سے پہلا مسئلہ تو اسے سکول بھیجنے ہی کا ہوتا ہے جو کہ میرے بچے کے ساتھ بھی ہوا۔ اس کے بعد پلے گروپ کا نام تو پاکستانیوں‌ نے لے لیا ہے لیکن جو اصل کانسپٹ ہوتا ہے وہ نہیں لیا، کھیل کھیل میں تعلیم دینا اور بات ہے اور تعلیم کو کھیل بنا دینا دوسری، بس اسی سے مسائل پیدا ہوئے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ویسے یہ دلچسپ صورت حال ہے

پری نرسری یا پلے گروپ
نرسری
پریپ
اور پھر پہلی کلاس

اسکول والوں‌ کے لیے تو دلچسپ ہے ہی لیکن والدین کے معاشی نکتہ نظر سے دیکھیں تو صرف بوجھ ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دراصل یہ ہمارا بھی تجربہ ہی بول رہا ہے۔ نوے فی صد والدین بچوں کو گھر میں صرف چیزیں یاد کرواتے ہیں۔ لکھواتے بہت کم ہیں۔ اور یہی بچے اساتذہ کے لیے بھی مسئلہ بنتے ہیں۔

آپ کی اس بات سے ہم بھی متفق ہیں۔ اساتذہ کو ٹرینڈ کیے بغیر اور نصاب کی تقسیم کیے بغیر ایسے سکول بچوں کا مستقبل خراب کر رہے ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں‌ زیادہ تر بلکہ حد سے بھی زیادہ اسکول اسی قسم کے ہیں۔ اور جو ایسے نہیں ہیں ان کی فیس مڈل کلاس طبقے کی پہنچ سے باہر ہے۔

اور مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ بچے اسکول میں تعلیم لینے جاتے ہیں نا کہ "ہوم ورک" لینے :)
 
Top