بچوں کا اسکول میں داخلہ

بیگمات کی نفسیات کے متعلق ہمارا اپنا خیال ہے کہ انہیں دوسرے سب کی باتیں سمجھ آجاتی ہیں۔
نہیں آتیں تو بچارے شوہروں کی باتیں ہی ان کی سمجھ دانی میں نہیں سما پاتیں:)
بیگمات کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے گردونواح کی ان خواتین کے افعال و اعمال سے بہت زیادہ اثر لیتی ہیں، جو ممکنہ طور پر ان کا شریکا ہوتی ہیں اور مقابلے کی بھرپور تیاری کیے رکھتی ہیں۔ علاوہ ازیں آنکھیں بند کر کے اپنی ماں، بہنوں اور زندگی پر اثر انداز ہونے والی دیگر خواتین کے مشورے بھی اپنی آل اولاد پر لاگو کرتی چلی جاتیں ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بیگمات کی نفسیات کے متعلق ہمارا اپنا خیال ہے کہ انہیں دوسرے سب کی باتیں سمجھ آجاتی ہیں۔
نہیں آتیں تو بچارے شوہروں کی باتیں ہی ان کی سمجھ دانی میں نہیں سما پاتیں:)
ایسی بات بھی نہیں ہے فہیم، عورت بھی سمجھ جاتی ہے (میری چونکہ صرف ایک بیوی ہے سو اسی لیے واحد کا صیغہ لکھا :) ) بس سمجھانے کی ضرورت ہے۔ منطق اور دلیل سے بہت سے مسائل حل ہو جاتے ہیں اور بہت سی باتیں صاف ہو جاتی ہیں بس اتنی سی کاوش کرنی پڑتی ہے کہ ایسی دلیل لانی پڑتی ہے کہ جس کوبیوی سب سے زیادہ جان سکے، منطق گہری مگر صاف ہو، دلیل محکم مگر سیدھی ہو اور مثال دلچسپ مگر مشاہدے کی ہو تو اپنی بات کہی اور سنی جا سکتی ہے، مانی اور منوائی جا سکتی ہے۔ ہاں کام ویسے مشکل ہے اور گہری پلاننگ اور سوچ مانگتا ہے :)
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم

ہمارے یہاں ارلی ایئر سکول 2 سال پلے گروپ کے لئے عمر 2 سال ہے اور اس پر بچہ کی ماں کی بھی ساتھ جانا پڑتا ہے، اس کا وقت 2 گھنٹہ تک کا ہوتا ہے، اور ان کی سرکاری تعداد کم ہے۔ اس کے بعد عمر 3 سال جس میں بچہ اکیلا سکول اٹینڈ کرتا ہے جس پر 4 گھنٹے تک ہیں۔ اس کے بعد فل ڈے۔

داخلہ عمر کے مطابق ہوتا ہے جو ستمبر میں سٹار ہوتے ہیں جس پر بچہ اگر 31 اگست تک پیدا ہوا ہے تو اسے اس کی عمر کے مطابق ستمبر میں داخلہ ملے گا اور اگر 1 ستمبر کو پیدا ہوا ہو تو پھر عمر کے مطابق اگلے سال میں داخلہ ہو گا جس پر ا سال کا فرق پڑ جاتا ہے۔

داخلہ کے وقت کسی بھی قسم کے ٹیسٹ نام کوئی چیز یہاں نہیں، گورنمنٹ کی ویب سائٹ پر جا کر والدین رجسٹر ہوں اور فارم فل کر دیں جس پر 3 سکول چوز کرنے ہیں اور جو آپکو بچے کے لئے سکول پسند ہو اس پر وجہ لکھنی ہے کہ کیوں؟ جیسے گھر کے قریب ہے اور کسی بھی موسم میں مشکل نہیں، پھر گورنمنٹ اس پر لیٹر جاری کرتی ہے اور ستمبر میں بچہ کو سکول لے جائیں اور شروع!

تعلیمی نظام اتنا اچھا ہے کہ کسی بھی ملک سے کوئی بچہ آئے اور زبان اس کی کوئی بھی ہو، پاسپورٹ کی بھی ضرورت نہیں بچہ کا پیدائش کا سرٹیفکیٹ ہونا ضروری چاہے وہ ردی کاغذ کا ہی کیوں نہ بنا ہو اور مزید کسی بھی قسم کی اٹیسٹیشن کی ضرورت نہیں، اسی پر بچہ کا داخلہ ہوتا ہے جس پر ستمبر کے انتظار کی بھی ضرورت نہیں بلکہ سختی ہے کہ یہاں آنے پر 3 مہینے سے زیادہ نہیں ہونے چاہئیں نہیں تو والدین پر سختی سے نوٹس لیا جاتا ہے۔ سب سے بڑی خوبی کہ بچہ کی جو عمر ہے اسے یہاں کے رولز کے مطابق اسی کلاس میں ایڈمشن ملتا ہے۔ اور وہ پاکستان سے ایک کلاس آگے چلا جاتا ہے یعنی پاکستان میں اگر 5 میں تھا اور یہاں اسی دوران آیا تو اسے داخلہ عمر کے مطابق 6 میں ملے گا۔

فہیم صاحب کے لئے میری رائے ہے کہ اگر آپ کی مالی حالت بہتر ہے تو پھر اہلیہ کے کہنے کے مطابق بیٹی کو پلے گروپ میں داخل کرا دیں باقی آپ بہتر جانتے ہیں کیا کرنا ہے۔

والسلام
 

محمد وارث

لائبریرین
السلام علیکم

ہمارے یہاں ارلی ایئر سکول 2 سال پلے گروپ کے لئے عمر 2 سال ہے اور اس پر بچہ کی ماں کی بھی ساتھ جانا پڑتا ہے، اس کا وقت 2 گھنٹہ تک کا ہوتا ہے، اور ان کی سرکاری تعداد کم ہے۔ اس کے بعد عمر 3 سال جس میں بچہ اکیلا سکول اٹینڈ کرتا ہے جس پر 4 گھنٹے تک ہیں۔ اس کے بعد فل ڈے۔

داخلہ عمر کے مطابق ہوتا ہے جو ستمبر میں سٹار ہوتے ہیں جس پر بچہ اگر 31 اگست تک پیدا ہوا ہے تو اسے اس کی عمر کے مطابق ستمبر میں داخلہ ملے گا اور اگر 1 ستمبر کو پیدا ہوا ہو تو پھر عمر کے مطابق اگلے سال میں داخلہ ہو گا جس پر ا سال کا فرق پڑ جاتا ہے۔

داخلہ کے وقت کسی بھی قسم کے ٹیسٹ نام کوئی چیز یہاں نہیں، گورنمنٹ کی ویب سائٹ پر جا کر والدین رجسٹر ہوں اور فارم فل کر دیں جس پر 3 سکول چوز کرنے ہیں اور جو آپکو بچے کے لئے سکول پسند ہو اس پر وجہ لکھنی ہے کہ کیوں؟ جیسے گھر کے قریب ہے اور کسی بھی موسم میں مشکل نہیں، پھر گورنمنٹ اس پر لیٹر جاری کرتی ہے اور ستمبر میں بچہ کو سکول لے جائیں اور شروع!

تعلیمی نظام اتنا اچھا ہے کہ کسی بھی ملک سے کوئی بچہ آئے اور زبان اس کی کوئی بھی ہو، پاسپورٹ کی بھی ضرورت نہیں بچہ کا پیدائش کا سرٹیفکیٹ ہونا ضروری چاہے وہ ردی کاغذ کا ہی کیوں نہ بنا ہو اور مزید کسی بھی قسم کی اٹیسٹیشن کی ضرورت نہیں، اسی پر بچہ کا داخلہ ہوتا ہے جس پر ستمبر کے انتظار کی بھی ضرورت نہیں بلکہ سختی ہے کہ یہاں آنے پر 3 مہینے سے زیادہ نہیں ہونے چاہئیں نہیں تو والدین پر سختی سے نوٹس لیا جاتا ہے۔ سب سے بڑی خوبی کہ بچہ کی جو عمر ہے اسے یہاں کے رولز کے مطابق اسی کلاس میں ایڈمشن ملتا ہے۔ اور وہ پاکستان سے ایک کلاس آگے چلا جاتا ہے یعنی پاکستان میں اگر 5 میں تھا اور یہاں اسی دوران آیا تو اسے داخلہ عمر کے مطابق 6 میں ملے گا۔

فہیم صاحب کے لئے میری رائے ہے کہ اگر آپ کی مالی حالت بہتر ہے تو پھر اہلیہ کے کہنے کے مطابق بیٹی کو پلے گروپ میں داخل کرا دیں باقی آپ بہتر جانتے ہیں کیا کرنا ہے۔

والسلام
آپ کا مراسلہ معلوماتی ہے کنعان صاحب۔ بس یہ بات کہ "ہمارے یہاں" سے آپ کی مراد یقینا گریٹ برٹن ہے اور یقینا چار طویل پیرا گرافس میں ساری مثالیں اور باتیں بھی وہاں ہی کی ہیں، مگر آخری سطر میں جو مشورہ ہے وہ پاکستان کے لیے ہے، فرق تو ہے نا باس :)
بے تکلفی کے لیے معذرت محترم :)
 

محمد وارث

لائبریرین
تمام دوستوں کا بے حد شکریہ۔
خود میرا بھی یہی ماننا ہے کہ آج کل پاکستان میں جو پرائیوٹ اسکولز ہیں وہ بس پیسہ کمانے کی کمپنیاں ہیں اور بچوں پر کم عمری میں ہی حد سے زیادہ بوجھ ڈالنے کی وجہ بھی۔

میرا ارادہ بھی اپنی بچی کو چار سال کے بعد ہی اسکول کرانے کا تھا آپ کی باتوں سے میری اس سوچ کو مزید تقویت ملی ہے:)
فہیم میں اس کشمکش کو با کمال و تمام سمجھ سکتا ہوں۔ میری طرح سارے پاکستانی والدین جن کے بچے اسکول جا رہے ہیں اس مرحلے سے گزرے ہیں، ایک سو ایک فیکٹرز ہوتے ہیں جن کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے، الامان و الحفیظ۔

میرے لیے تو دہرے مسئلے تھے۔ اسکول میں داخل کروانے کے لیے نادرا کا بچوں کا فارم چاہیئے تھا، اُس کے لیے نادرا کا آئی ڈی کارڈ چاہیے تھا جو میں نے بنوایا ہی نہیں تھا حالانکہ نادرا کے کمپیوٹرائزڈ کارڈ پر شروع شروع میں میں نے اپنی فیکڑی کے ورکرز کو مائل کروانے کے لیے ایک سیشن کنڈکٹ کروایا تھا۔ پھر بی فارم کے لیے بچوں کی یونین کونسلوں کی پرچی چاہیے تھی وہ بھی پرانی نہیں چلتی تھی جو کہ میرے پاس تھیں، اور پیدائش سب بچوں کی لاہور کی سو تین چار اکھٹے کام اور وہ وقت اور توجہ طلب۔ اب میں جو بال کٹوانے بھی اس وقت جاتا ہوں جب حلیہ طالبان جیسا ہو جاتا ہے تو اتنے سارے کام میرے لیے فرہاد کے پہاڑ کھودنے سے بھی مشکل تھے۔۔

مجھ کو منظور ہے وہ سلسلہء سنگِ گراں
کوہکن مجھ سے اگر وقت بدلنا چاہے
(خورشید رضوی)
:)
 

ربیع م

محفلین
بیگمات کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے گردونواح کی ان خواتین کے افعال و اعمال سے بہت زیادہ اثر لیتی ہیں، جو ممکنہ طور پر ان کا شریکا ہوتی ہیں اور مقابلے کی بھرپور تیاری کیے رکھتی ہیں۔ علاوہ ازیں آنکھیں بند کر کے اپنی ماں، بہنوں اور زندگی پر اثر انداز ہونے والی دیگر خواتین کے مشورے بھی اپنی آل اولاد پر لاگو کرتی چلی جاتیں ہیں۔

ایسی بات بھی نہیں ہے فہیم، عورت بھی سمجھ جاتی ہے (میری چونکہ صرف ایک بیوی ہے سو اسی لیے واحد کا صیغہ لکھا :) ) بس سمجھانے کی ضرورت ہے۔ منطق اور دلیل سے بہت سے مسائل حل ہو جاتے ہیں اور بہت سی باتیں صاف ہو جاتی ہیں بس اتنی سی کاوش کرنی پڑتی ہے کہ ایسی دلیل لانی پڑتی ہے کہ جس کوبیوی سب سے زیادہ جان سکے، منطق گہری مگر صاف ہو، دلیل محکم مگر سیدھی ہو اور مثال دلچسپ مگر مشاہدے کی ہو تو اپنی بات کہی اور سنی جا سکتی ہے، مانی اور منوائی جا سکتی ہے۔ ہاں کام ویسے مشکل ہے اور گہری پلاننگ اور سوچ مانگتا ہے :)

تجربات بول رہے ہیں !!!
 

arifkarim

معطل
انہوں نے دنیاوی مال و متاع کے جمع کرنے کے شوق میں ہمارے بچوں کا بچپن برباد کر دیا ہے
بچوں نے بھی تو بڑے ہو کر یہی کام کرنا اسلئے بچپن سے ہی انہیں ٹرینڈ کروایا جاتا ہے۔

میرا ارادہ بھی اپنی بچی کو چار سال کے بعد ہی اسکول کرانے کا تھا آپ کی باتوں سے میری اس سوچ کو مزید تقویت ملی ہے:)
ناروے میں آپ پہلے سال سے بچے کو کنڈر گارڈن یا ڈے کیئر میں چھوڑ سکتے ہیں۔ لیکن ایسا تب ہی کیا جاتا ہے جب ماں باپ دونوں کام پر جاتے ہوں۔ بصورت دیگر 6 سال کی عمر میں اسکول میں داخل کروایا جاتا ہے۔ اس سے پہلے بچے کو اسکول میں ڈالنا اسکا بچپن تباہ کرنے کے مترادف ہے۔
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم

آپ کا مراسلہ معلوماتی ہے کنعان صاحب۔ بس یہ بات کہ "ہمارے یہاں" سے آپ کی مراد یقینا گریٹ برٹن ہے اور یقینا چار طویل پیرا گرافس میں ساری مثالیں اور باتیں بھی وہاں ہی کی ہیں، مگر آخری سطر میں جو مشورہ ہے وہ پاکستان کے لیے ہے، فرق تو ہے نا باس :)
بے تکلفی کے لیے معذرت محترم :)

جی بالکل درست، پروفائل میں جو ریزیڈنس لوکیشن شو ہو رہی ہے اسی کے مطابق "ہمارے یہاں" یا اس جیسے الفاظ استعمال کرنے کا مطلب یہی ہے جو آپ نے لکھا، اور اگر پاکستان، یا اس کے علاوہ کسی اور ملک سے بات ہو گی تو پھر اس پر اس شہر یا ملک کا نام لکھا ہو گا۔
=========

پاکستان میں جن حضرات کی شادی ہو چکی ہے اور بچے ابھی چھوٹے ہیں، تو وہ ایک کام جو بہت اہم ہے وہ ضرور کریں،

اپنی اہلیہ کا شناختی کارڈ جو پہلے سے بنا ہوا ہے والدین کے گھر کے ایڈریس پہ، اور اس پر اس کے والد محترم کا نام بھی درج ہوتا ہے، اس شناختی کارڈ پر اپنا نام لکھوائیں جس سے اس کے والد محترم کا نام اس پر سے خارج ہو جائے گا، اور اس کے ساتھ آپ کے گھر کا ایڈریس بھی اس پر لکھا جائے گا۔ طریقہ کار بہت آسان ہے، امینڈمنٹ کے لئے ح فارم استعمال ہوتا ہے اور ساتھ اس کے فیس بھی ہے تھوڑی سی۔

جب بچے پیدا ہوں ان کا پیدائش سرٹیفکیٹ حاصل کر ب فارم ضرور بنوائیں۔ اس پر کچھ ایسا ہے کہ جب پہلا بچہ ہو اس کا ب فارم پر نام ہو گا، پھر دوسرا بچہ پیدا ہو تو دوبارہ ب فارم بنوائیں، اس پر پہلے اور دوسرے بچہ، دونوں کے نام لکھے جائیں گے، پہلے بچہ کے پہلے ب فارم کی کاپی ساتھ لگے گی، اسی طرح تعداد بڑھنے سے ایسا ہی طریقہ کار استعمال ہو گا۔ اور جہاں بھی ب فارم کی ضرورت ہو گی آخری ب فارم استعمال میں لایا جائے گا جس پر تمام بچوں کے نام ہونگے، اس سے تمام کام آسان ہو جائیں گے۔

والسلام
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
السلام علیکم



جی بالکل درست، پروفائل میں جو ریزیڈنس لوکیشن شو ہو رہی ہے اسی کے مطابق "ہمارے یہاں" یا اس جیسے الفاظ استعمال کرنے کا مطلب یہی ہے جو آپ نے لکھا، اور اگر پاکستان، یا اس کے علاوہ کسی اور ملک سے بات ہو گی تو پھر اس پر اس شہر یا ملک کا نام لکھا ہو گا۔
=========

پاکستان میں جن حضرات کی شادی ہو چکی ہے اور بچے ابھی چھوٹے ہیں، تو وہ ایک کام جو بہت اہم ہے وہ ضرور کریں،

اپنی اہلیہ کا شناختی کارڈ جو پہلے سے بنا ہوا ہے والدین کے گھر کے ایڈریس پہ، اور اس پر اس کے والد محترم کا نام بھی درج ہوتا ہے، اس شناختی کارڈ پر اپنا نام لکھوائیں جس سے اس کے والد محترم کا نام اس پر سے خارج ہو جائے گا، اور اس کے ساتھ آپ کے گھر کا ایڈریس بھی اس پر لکھا جائے گا۔ طریقہ کار بہت آسان ہے، امینڈمنٹ کے لئے ح فارم استعمال ہوتا ہے اور ساتھ اس کے فیس بھی ہے تھوڑی سی۔

جب بچے پیدا ہوں ان کا پیدائش سرٹیفکیٹ حاصل کر ب فارم ضرور بنوائیں۔ اس پر کچھ ایسا ہے کہ جب پہلا بچہ ہو اس کا ب فارم پر نام ہو گا، پھر دوسرا بچہ پیدا ہو تو دوبارہ ب فارم بنوائیں، اس پر پہلے اور دوسرے بچہ، دونوں کے نام لکھے جائیں گے، پہلے بچہ کے پہلے ب فارم کی کاپی ساتھ لگے گی، اسی طرح تعداد بڑھنے سے ایسا ہی طریقہ کار استعمال ہو گا۔ اور جہاں بھی ب فارم کی ضرورت ہو گی آخری ب فارم استعمال میں لایا جائے گا جس پر تمام بچوں کے نام ہونگے، اس سے تمام کام آسان ہو جائیں گے۔

والسلام
جی ہاں اب یہی طریقہ ہے۔ بچوں کے ب فارم کے بغیر اب یہاں‌کوئی کام نہیں ہوتا :)
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم

ایک اور بات یاد آئی بچوں کا پیدائش کا سرٹیفکیٹ بنانے کا آسان طریقہ ہے، پہلے اپنے محلہ کے لوکل کونسل آفس میں رپورٹ کریں تو وہ آپکو ایک کاغذی پرچی بنا کر دیں گے اس پرچی کو اپنے شہر کے میونسپیلیی کے بڑے آفس جسے ٹاؤن ہال کہتے ہیں وہاں کے رجسٹرار آفس میں درخواست کے ساتھ وہ پرچی جمع کرائیں تو وہ آپکو کچھ دن کا وقت دیں گے شائد دو ہفتہ، اور کمپیوٹرائیز پیدائشی پرچی بنا کر دیں گے جس پر کوئی پریشانی نہیں ہو گی ورنہ سیدھا ٹاؤن ہال جانے سے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، نہیں تو بیک ڈور کا طریقہ، سمائل!

اگر مزید اس پر کوئی روشنی ڈالنا چاہے تو اپنی آراء پیش کر سکتا ہے جس سے نئے لوگوں کا بنانے میں آسانی ہو۔

والسلام
 
السلام علیکم

ایک اور بات یاد آئی بچوں کا پیدائش کا سرٹیفکیٹ بنانے کا آسان طریقہ ہے، پہلے اپنے محلہ کے لوکل کونسل آفس میں رپورٹ کریں تو وہ آپکو ایک کاغذی پرچی بنا کر دیں گے اس پرچی کو اپنے شہر کے میونسپیلیی کے بڑے آفس جسے ٹاؤن ہال کہتے ہیں وہاں کے رجسٹرار آفس میں درخواست کے ساتھ وہ پرچی جمع کرائیں تو وہ آپکو کچھ دن کا وقت دیں گے شائد دو ہفتہ، اور کمپیوٹرائیز پیدائشی پرچی بنا کر دیں گے جس پر کوئی پریشانی نہیں ہو گی ورنہ سیدھا ٹاؤن ہال جانے سے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، نہیں تو بیک ڈور کا طریقہ، سمائل!

اگر مزید اس پر کوئی روشنی ڈالنا چاہے تو اپنی آراء پیش کر سکتا ہے جس سے نئے لوگوں کا بنانے میں آسانی ہو۔

والسلام
پیدائش کا سرٹیفکیٹ ڈائریکٹ یونین کونسل آفس سے ہی بنتا ہے۔ اور کوئی مشکل پراسس نہیں ہے۔ والدین کے آئی ڈی کارڈ کی کاپی اور ہاسپٹل کی طرف سے دیا گیا سرٹیفکیٹ جمع کروانا ہوتا ہے۔ اسی کی بنیاد پر ب فارم بنتا ہے۔
پیدائشی سرٹیفکیٹ پیدائش کے 2 ماہ تک نہ بنانے کی صورت میں جرمانہ اور مجسٹریٹ کا اجازت نامہ جمع کروانا پڑتا ہے۔
 

فہیم

لائبریرین
ایسی بات بھی نہیں ہے فہیم، عورت بھی سمجھ جاتی ہے (میری چونکہ صرف ایک بیوی ہے سو اسی لیے واحد کا صیغہ لکھا :) ) بس سمجھانے کی ضرورت ہے۔ منطق اور دلیل سے بہت سے مسائل حل ہو جاتے ہیں اور بہت سی باتیں صاف ہو جاتی ہیں بس اتنی سی کاوش کرنی پڑتی ہے کہ ایسی دلیل لانی پڑتی ہے کہ جس کوبیوی سب سے زیادہ جان سکے، منطق گہری مگر صاف ہو، دلیل محکم مگر سیدھی ہو اور مثال دلچسپ مگر مشاہدے کی ہو تو اپنی بات کہی اور سنی جا سکتی ہے، مانی اور منوائی جا سکتی ہے۔ ہاں کام ویسے مشکل ہے اور گہری پلاننگ اور سوچ مانگتا ہے :)
اتنی منطق، گہرے دلائل اور پلاننگ اگر بندہ کسی دوسرے کام پر کرلے تو وہ بگڑا کام آسانی سے بن جائے۔
پر بیگم پر اتنی محنت کے بعد بھی نتیجہ وہی دھاک کے تین پات والا ہو تو بندہ سوائے سر پیٹنے کے کیا کرے :)
 
Top