الف عین
صابرہ امین
محمد عبدالرؤوف
عظیم
سید عاطف علی
-------------
حمدِ باری تعالیٰ
-------------
بن دعا کے مرا کام چلتا نہیں
کوئی انسان میری تو سنتا نہیں
----------
سر ہمیشہ خدا کے ہے در پر جھکا
در پہ غیروں کے ہرگز میں جھکتا نہیں
--------
راستے میں خدا کے جو مارا گیا
میرے رب کی نظر میں وہ مرتا نہیں
---------
گر خدا پر ہے ایمان پختہ ترا
کیوں عبادت خدا کی تُو کرتا نہیں
-----------
یہ نشانی ہے کمزور ایمان کی
سچا مامن تو کافر سے ڈرتا نہی
--------
تیرا دعویٰ خدا سے محبّت ہے ہے
کام نیکی کے لیکن تُو کرتا نہیں
---------
جس نے دنیا بسائی ہو دل میں ،اسے
لاکھ ڈھونڈے خدا اس کو ملتا نہیں
-----------
گر پکارو گے نیت سے سنتا ہے رب
یوں نہ سمجھو تمہاری وہ سنتا نہیں
----------
دیکھتا ہے تمہیں آیئنے کی طرح
تم چھپاؤ گا چہرہ تو چھپتا نہیں
----------
یہ ہی ارشد کی عادت ہمیشہ رہی
وہ دبانے سے ہرگز بھی جھکتا نہیں
---------------
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
الف عین
صابرہ امین
محمد عبدالرؤوف
عظیم
سید عاطف علی
-------------
حمدِ باری تعالیٰ
-------------
بن دعا کے مرا کام چلتا نہیں
کوئی انسان میری تو سنتا نہیں
----------
اسی زمین میں ایک اور تخلیق!
اس حمد میں" تو" اور" تُو" فعلن والے قافیے سے پہلے واؤ کے اسقاط کے ساتھ نا گوار لگ رہے ہیں۔ اس مطلع میں" تو سنتا" اچھا نہیں لگتا
سر ہمیشہ خدا کے ہے در پر جھکا
در پہ غیروں کے ہرگز میں جھکتا نہیں
--------
پہلے مصرع کے الفاظ یا ترتیب بدلیں
راستے میں خدا کے جو مارا گیا
میرے رب کی نظر میں وہ مرتا نہیں
---------
درست
گر خدا پر ہے ایمان پختہ ترا
کیوں عبادت خدا کی تُو کرتا نہیں
-----------
ہے اگر اس پہ ایمان پختہ ترا
یہ نشانی ہے کمزور ایمان کی
سچا مامن تو کافر سے ڈرتا نہی
--------
درست
تیرا دعویٰ خدا سے محبّت ہے ہے
کام نیکی کے لیکن تُو کرتا نہیں
---------
محبت کا ہے؟
نیکی کے میں تنافر بھی ہے
جس نے دنیا بسائی ہو دل میں ،اسے
لاکھ ڈھونڈے خدا اس کو ملتا نہیں
-----------
درست
گر پکارو گے نیت سے سنتا ہے رب
یوں نہ سمجھو تمہاری وہ سنتا نہیں
----------
نیت یہاں درست لفظ نہیں
یہ ہی ارشد کی عادت ہمیشہ رہی
وہ دبانے سے ہرگز بھی جھکتا نہیں
---------------
یہ ہی؟ یہی درست ہے، الفاظ یا ترتیب بدلیں
 
الف عین
(اصلاح)
---------
کون کہتا ہے میری وہ سنتا نہیں
بن دعا کے مرا کام چلتا نہیں
-----------
سر جھکاتا ہوں الّّلہ کے در پر سدا
در پہ غیروں کے ہرگز میں جھکتا نہیں
----------
ہے اگر اس پہ ایمان پختہ ترا
کیوں عبادت خدا کی تُو کرتا نہیں
---------
یہ محبّت خدا سے ہے کیسی تری
جب برُائی کے کاموں سے بچتا نہیں
--------
جانتا ہے ترے دل کی حالت کو وہ
یوں نہ سمجھو تمہاری وہ سنتا نہیں
---------
یہ ہمیشہ ہی ارشد کا عادت رہی
وہ دبانے سے ہرگز بھی جھکتا نہیں
---------------
 

الف عین

لائبریرین
ایک بہت ضروری بات پہلے کہہ دوں۔
یہ دو غزلہ کی دوسری قسط ہے، یہ آپ نے نہیں لکھا۔ پہلی غزل میں قوافی درست تھے لیکن اس غزل کو میں نے محض اس کا تتمہ سمجھا اور قوافی پر غور نہیں کیا۔ ورنہ دیکھا جائے تو اس غزل میں قوافی بالکل غلط ہیں۔ کرتا، جاتا جھکتا قوافی نہیں۔ اسے ایطا ہی کہا جاتا ہے جاتا، آتا( آتا مشترک) قوافی ہونا چاہیے، یا بھرتا، کرتا، مرتا( رتا مشترک) ، یا پھر بھرنا، لایا، ہوتا( امشترک)۔
 
استادِ محترم۔اس حمد کو فی الحال یہی چھوڑتا ہوں۔ اس پر مذید کام کر کے دو حصوں میں تقسیم کر دوں گا ۔بہت بہت شکریہ۔میرے لئے دعا کرتے رہا کریں۔پچھلے ہفتے کرونا ہو گیا تھا لیکن بچ گیا ہوں اور بالکل ٹھیک ہوں ۔آپ کی شفقت اور کرم نوائی کا بہت بہت شکریہ۔
 
Top