بغرض اصلاح : ’’اشک و خوں دے گیا عمر بھر کے لئے‘‘

فاخر

محفلین
غ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زل
افتخاررحمانی فاخرؔ
اساتذه كرام كی خدمت میں :
الف عین سید عاطف علی محمد خلیل الرحمٰن اور دیگر صاحبان

عشق و سودا کے فتح و ظفر کے لئے
آ بھی جا! لمحہ ٔ مختصر کے لئے

یہ متاعِ جہاں اور مری خسروی!
وقف ہیں’ ہستی ٔ منتظرَ‘ کے لئے

کچھ خبر ہے تجھے، مجھ کو تیرا ستم
اشک و خوں دے گیا عمر بھر کے لئے

میرا ایثار اور یہ مری سادگی
نذر ہیں حسن کے کروفر کے لئے

میری بے تابیاں منتظر ہیں سدا
ہو انہیں اذن، رقصِ شرر کے لئے

فائز ِ منصب ِ عشق ہوں میں سدا
جاہ کی کیا طلب تاجور کے لئے

دست ِ فیاض سے مجھ کو مطلوب ہے
سوز و نم، نالہ ٔ بے اثر کے لئے

مطلع نور سے مانگ لوں روشنی
قرض مَیں ، اپنے تاریک گھر کے لئے

چہرۂ یار تو باعثِ رشک ہے
ماہ و خورشید شمس و قمر کے لئے

ہے تو ہی عطیۂ خالق ِ لم یزل
فاخرِؔ بے نوا بے ہنر کے لئے
 
مدیر کی آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
اے فسوں کار آ، لمحہ ٔ مختصر کے لئے
مطلع کا مصرع اولیٰ درست نہیں ۔
ہے تو ہی عطیۂ خالق ِ لم یزل
عطیہ کا اصل تلفظ غالبا ََ فعولن ہے لیکن اردو میں کیوں کہ فعلن ہی مستعمل ہے سو درست ہی سمجھا جائے گا ۔ پھر بھی ذرا تحقیق کیجیئے ۔
سوز و نم، نالہ ٔ بے اثر کے لئے
سوز و نم کے بجائے سوز و غم ہونا چاہیئے ۔ سوز و غم میں اسم اور صفت کا معطوف اجتماع مستحسن نہیں لگ رہا شستہ زبان کے اسلوب کے لحاظ سے ۔(مجھے) ۔
ویسے سب اچھے اشعار ہیں ۔
 

فاخر

محفلین
عطیہ کا اصل تلفظ غالبا ََ فعولن ہے لیکن اردو میں کیوں کہ فعلن ہی مستعمل ہے سو درست ہی سمجھا جائے گا ۔ پھر بھی ذرا تحقیق کیجیئے ۔
جى آپ نے درست فرمایا، عطیہ کا اصل وزن ’فعولن‘ ہی ہے۔ قاموس اور دیگر عربی لغات میں دیکھا ہے ۔المعانی ویب سائٹ کے مطابق: ’’العَطِيَّةُ : العطاءُ ، هبة ، ما يُعطى بدون مقابل‘‘ یعنی وہ چیز جو بغیر مقابل یا ’عوض‘ کے دی جائے۔
 

فاخر

محفلین
ردو میں یوں بھی مقبول ہی ہے
اسى ’’مقبوليت‘‘ نے کئی بارمجھے ’فضیحت‘‘ سے بھی دوچار کیا ہے ۔:LOL::LOL: مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ :’ شہر کو ہر ایک سے بروزن ’’فَعل‘‘ ہی سنتا آرہا تھا کبھی تحقیق کی زحمت نہ کی۔اس لفظ کو کسی مصرعہ میں ،میں نے فَعل کے وزن پر استعمال کیا تھا،محفلین کی جانب سے خوب بحث و مباحثہ ہوا۔منجددیکھ لینے کے بعد مجھے ماننا ہی پڑا کہ شہر بروزن فَعل درست نہیں ہے ؛بلکہ’شہر ‘ تو بروزن فعَل ہے۔ خیر! حضرت الف عین صاحب کی رائے کا انتظار ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اسى ’’مقبوليت‘‘ نے کئی بارمجھے ’فضیحت‘‘ سے بھی دوچار کیا ہے ۔:LOL::LOL: مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ :’ شہر کو ہر ایک سے بروزن ’’فَعل‘‘ ہی سنتا آرہا تھا کبھی تحقیق کی زحمت نہ کی۔اس لفظ کو کسی مصرعہ میں ،میں نے فَعل کے وزن پر استعمال کیا تھا،محفلین کی جانب سے خوب بحث و مباحثہ ہوا۔منجددیکھ لینے کے بعد مجھے ماننا ہی پڑا کہ شہر بروزن فَعل درست نہیں ہے ؛بلکہ’شہر ‘ تو بروزن فعَل ہے۔ خیر! حضرت الف عین صاحب کی رائے کا انتظار ہے۔
کسی لفظ کی "عوام" میں مقبولیت اور رواج تو معیار نہیں ہو سکتی ۔
 

الف عین

لائبریرین
عطیہ بطور فعلن قابل قبول ہے لیکن اگر اس کی جگہ تحفہ ہی کر دیا جائے تو جھگڑا پیدا ہی نہیں ہو گا!
مطلع میں عشق اور سودا کی فتح کی بات سمجھ میں نہیں آئی
دوسرا شعر
یہ متاعِ جہاں اور مری خسروی!
وقف ہیں’ ہستی ٔ منتظرَ‘ کے لئے
بھی سمجھ نہیں سکا، بستی ویسے ہندی لفظ ہے اس کے ساتھ ہمزہ اضافت غلط ہے
باقی اشعار درست ہیں
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
رطیہ بطور فعلن قابل قبول ہے لیکن اگر اس کی جگہ تحفی ہی کر دیا جائے تو جھگڑا پیدا ہی نہیں ہو گا!
مطلع میں عشق اور سودا کی فتح کی بات سمجھ میں نہیں آئی
دوسرا شعر
یہ متاعِ جہاں اور مری خسروی!
وقف ہیں’ ہستی ٔ منتظرَ‘ کے لئے
بھی سمجھ نہیں سکا، بستی ویسے ہندی لفظ ہے اس کے ساتھ ہمزہ اضافت غلط ہے
باقی اشعار درست ہیں
یہ بستی نہیں بلکہ فارسی ھستی ہے۔ شاید ۔ اور مراد اس سے ۔ محبوب کیا گیا ھے ۔ یعنی میرا سب کچھ۔ ایک منتظر ھستی کے کیے ھے ۔ اس لیے درست ھے۔ فاخر افتخاررحمانی
 
Top