برداشت کی حد ؟

ظفری

لائبریرین
درمیان تو دور ، ناک سے کچھ پرے ہر چیز "سیکولر" ہے۔ :)

صیحح کہا آپ نے ۔۔۔۔ دیوار کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو ۔ اگر اس پر ناک لگا دی جائے تو وہ دیوار بھی نظر نہیں آتی ۔ یہ سب حدِ نظر کا چکر ہے ۔ اصطلاحاتیں بھی اسی کی مرہونِ منت ہیں ۔
 

شمشاد

لائبریرین
صیحح کہا آپ نے ۔۔۔ ۔ دیوار کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو ۔ اگر اس پر ناک لگا دی جائے تو وہ دیوار بھی نظر نہیں آتی ۔ یہ سب حدِ نظر کا چکر ہے ۔ اصطلاحاتیں بھی اسی کی مرہونِ منت ہیں ۔

اس کا مطلب ہے آپ محفل گردی کرتے رہتے ہیں۔ چلیں اسی بہانے آپ محفل میں تو آئے۔
 

محمد امین

لائبریرین
"برداشت کی حد " گو کہ موضوع ہے مگر مغرب سے پُرخاش ہونے کے باعث ایک خاص نکتہِ نظر چند جذباتی باتوں میں ڈھالا جا رہا ہے ۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ایک تو ہم نے سوچنے سمجھنے اور کچھ کرنے کا کام گذشتہ پانچ سو سالوں سے چھوڑ رکھا ہے ۔ ان پانچ سالوں میں مغرب ہم تقریباِ 150 سال آگے نکل گیا ہے ۔ ہم سے کچھ کام تو ہو نہیں سکتا ۔ سو لعنت و طعن ہی سہی ۔ کوسنے سے بھی باز نہیں آتے ۔ مگر مغرب کی ہر ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہیں ۔ ہر ہنر و حرب کو خریدنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ میرا خیال ہے میری بھی " برادشت کی حد " گذر نہ جائے ۔ میں تیسری بار اپنی اایک پرانی پوسٹ کو یہاں محفل پر چسپاں کر رہا ہوں ۔ اگر آنکھوں سے تعصب اور محرومیوں کی پٹی ہٹا کر اسے پڑھیں تو شاید " برداشت کی حد" ایک مذہبی اور اخلاقی شکل میں ہمارے معاشر ے میں کہیں نمودار ہوجائے ۔ مغرب سے ہم نے کتنے تہوار لیئے ہیں ۔ مگر وقت گذرنے کیساتھ ہم نےاپنےمعاشرے سے مطابقت رکھتے ہوئے ان میں ہمیشہ ا خلاقی پہلو ہمیشہ اُجاگر کیا ہے ۔ بلکل اسی طرح اس " برداشت کی حد" کا کسی دوسرے پہلو سے بھی جائزہ لیکر دیکھیں ۔

پہلے ہم ہندوستان آئے تو ہندوؤں کی بہت سی چیزیں ہماری ثقافت اور تہذیبوں میں داخل ہوگئیں ۔اب چونکہ دنیا ایک گلوبل وولیج بن گئی ہے ۔ چناچہ اب دوسرے ملکوں‌سے بھی بہت سی چیزیں ہمارے ملک میں آرہیں ہیں ۔ پہلے ہمارے ہاں سالگرہ کا تہورار اس طریقے سے نہیں منایا جاتا تھا ۔ اب گھر گھر میں سالگرہ کی تقریب ہوتی ہے ۔ کیک کاٹے جاتے ہیں ۔ ہپی برتھ ڈے کیا جاتا ہے بلکہ گایا جاتا ہے ۔ اس میں مذہبی علماء بھی شامل ہیں ۔ اس میں سیاست دان بھی شامل ہیں ۔ اب سب اس طرح کی تقریبات منقعد کرتے ہیں ۔ ایسا معاملہ اب اس تہوار کیساتھ بھی ہو رہا ہے ۔ ظاہر ہے جب ہم مغربی تہذیب کیساتھ متعلق ہو رہے ہیں تو بہت سے ان کے تہوار بھی آرہے ہیں ۔ اس تہوار کی اگر آپ اصل پر غور کریں تو اس میں کوئی ایسی بیہودگی نہیں تھی ۔ بلکہ یہ شادی کے رشتے کے تقدس کو قائم رکھنے کے لیئے ایک تہوار تھا جو لوگوں نے قائم کیا ۔ ہماری تہذیب کو ویسے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ ہمارے ہا ں‌نہ تو رباعینت رہی ہے جو عیسائیوں کے ہاں‌ تھی ۔ نہ شادی کوئی اس نوعیت کا مسئلہ رہی ہے ۔ اس وجہ سے ہمارے معاشرے میں اس تہوار کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہونی چاہیئے ۔ لیکن جب تہذیبوں‌کا باہمی تعلق قائم ہونے لگتا ہے تو اس میں لوگ منانے لگ جاتے ہیں ۔ ذاتی طور پر مجھے یہ تہوار پسند نہیں ہے ۔ کیونکہ اس میں کچھ غیر اخلاقی چیزوں کے آنے کا بھی خدشہ ہے ۔کیونکہ اب یہ معاملہ شادی شدہ جوڑوں کے درمیان ہی نہیں رہا ۔ اس میں کچھ حدود سے باہر بھی چھلانگ لگائی گئی ہے ۔ اس وجہ سے لوگوں کو اس سے انحراف کا مشورہ دیا جائے تو اچھی بات ہے ۔

تہوار اسی طرح قوموں میں اٹھتے ہیں ۔ اور دوسری قومیں آہستہ آہستہ اپنے باہمی تعلق کی وجہ سے ان تہواروں ‌کو قبول کرلیتیں ہیں ۔ ہوسکتا ہے اس تہوار میں بھی ہمارا معاشرہ اسی طرح آہستہ آہستہ کچھ ایسی بعض تبدیلیاں کرلے ۔ جو ہماری معاشرت ، ہماری ثقافت ، ہماری تہذیب ، ہماری اخلاقی روایات اور اقدار پر مبنی ہو ۔ یہ ممکن ہے ۔ مگر ہم زیادہ سے زیادہ کیا کرسکتے ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب کوئی تہوار لوگ منانا شروع کریں تو دیکھیں کہ اس تہوار میں نقص کیا ہے ۔ کوئی چیز غیر اخلاقی تو نہیں ہے ۔ کوئی چیز مذہبی نوعیت کی تو نہیں ہے ۔ اس میں کوئی ایسی چیز تو نہیں ہے جس سے ہماری اقدار ممانعیت کا حکم لگاتی ہو ۔ ہمیں اس زاویے سے چیزوں‌کا دیکھنا چاہیئے ۔ ہر چیز ہم غیروں کی قرار دیدیں اور رد کرنا شروع کردیں تو یہ کوئی مثبت عمل نہیں ہے ۔ میرا اپنا نقطہ ِ نظر یہ ہے کہ کچھ دیر بعد ہماری یہ ممانعیت رد ہوجائے گی اور لوگ اس چیز کو نہیں چھوڑیں گے ۔

سالگرہ کیساتھ بھی یہی ہوا ۔ دیکھئے کہ ایک گھر میں اب یہ تصور کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ بچوں یا بڑوں کی سالگرہ نہیں منائی جائے گی ۔ حالانکہ خود ہماری تہذیب میں اس کی کوئی روایت نہیں تھی ۔ ہم بچوں کی آمین کراتے تھے ۔ بچوں کا عقیقہ کرتے تھے ۔ لیکن اس طریقے کی کوئی تقریب ہمارے ہاں منقعد نہیں ہوتی تھی ۔ لیکن اب ہر گھر میں ہوتی ہے اور ظاہر یہ باہر سے آئی ہے ۔ ویلنٹائن ڈے کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اگر ا سمیں کوئی غیر اخلاقی پہلو نہیں ہے ۔ اور لوگ اسلامی اقدار کا لحاظ رکھتے ہیں ۔ اور ہماری تہذیب کے اندر اسے کوئی صورت دیدتے ہیں تو پھر کوئی بات کہی جا سکتی ہے ۔ اسلام کا اپروچ یہ ہے کہ سارے انسانوں کو وہ آدم کی اولاد سمجھتا ہے ۔ ساری تہذیبوں کا انسانیت کا ورثہ سمجھتا ہے ۔ وہ صرف یہ دیکھے گا کہ کوئی مشرکانہ چیز تو اس میں شامل نہیں ہے ۔ کوئی غیر اخلاقی پہلو تو نہیں نکلتا ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو وہ کسی تہوار کا دشمن نہیں ہے ۔

رہی بات غیر شدہ مرد اور عورت کے آپس کے معاملات تو یہ ہمارے اقدار کے خلاف ہیں ۔ یہ اچھا ہوگا کہ ایسا نہ ہو ۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ یہ تہوار کسی دوسری تہذیب میں کسی اور ہی تصور سے پیش ہوا ۔ لیکن اگر ہم اس تہوار کو اپنی اقدار سے تھوڑا ہم آہنگ کرلیں ۔ تو اس تہوار کو بھی ہم اپنے اقدار اور اپنی تہذیب کے مطابق ڈھال سکتے ہیں ۔ یعنی کسی تہوار کو اسلامی ہی بنانا ضروری نہیں ہے ۔ اس میں اخلاقی پہلو آجانا چاہیئے ۔اگر کوئی غیر شادی مر و عورت اس طرح اس تہوار میں ملوث ہوتے ہیں تو ہم انہیں سمجھاسکتے ہیں جو ہم عام زندگی میں بھی کرتے ہیں ۔ تہوار یا اس قسم کی چیزیں دوسری قوموں میں جب منتقل ہوتیں ہیں تو اس میں تبدیلیاں بھی آجاتیں ہیں ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کی تاریخ ہی کو گڑھے مُردوں کی طرح اکھاڑا جائے ۔ ان تہواروں میں قومیں آہستہ آہستہ اپنے مزاج اور اقدار کے لحاظ سے بتدریج تبدیلیاں لاتے رہتے ہیں ۔ قیصرانی نے بھی ایک ایسی ہی تبدیلی کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں اب دوست و احباب ایک دوسرے کیساتھ اس تہوار کو منارہے ہیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ " ایک دوسروں کو تحفے و تحائف دیا کرو" ۔ کیوں نا ہم اس تہوار کو اس حدیث کے تناظر میں رکھ کر اس کو اپنی تہذیب و اقدار اور مذہب کے مطابق ڈھال لیں ۔ ہماری اپروچ بس ایسی ہونی چاہیئے کہ ہر حال میں اخلاقی حدود کو ہم بالاتر رکھیں گے ۔

ظفری بھائی آپ کی باتیں درست ہیں۔ اور علماء و فقہاء میں ایک خاصا بڑا طبقہ کچھ ایسی ہی سوچ رکھتا ہے۔عمومی طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ "فتویٰ زمانے کے اعتبار سے بدل جاتا ہے"۔ مشرکانہ اور اسلام مخالف کام اگر نہ پائے جائیں تو بہت سے تہوار جائز ہیں۔ ثقافت بعض اوقات مذہب کی پکڑ میں نہیں آتی، کیوں کہ کسی چیز کی "ممانعت" نہ ہونا اس کی "اباحت" کی دلیل ہے۔ تغیرِ زمانہ اپنی جگہ، اور تہواروں کا مذہب در مذہب پھیلنا بھی اپنی جگہ۔۔ لیکن بالعموم جو تہوار غیر اسلامی (مذہبی) نوعیت رکھتے ہوں، انہیں اپنانے کے شدید مخالفت بحیثیتِ مسلمان ہمارا فرض ہے۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ اس تہوار کا نام ہی "سینٹ ویلینٹائن" کے نام پر ہے۔ اس تہوار کی بدولت لاکھوں مسلمان اس نصرانی کو یاد کرنے میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ بحیثیتِ مسلمان تو ہمیں دوسرے مذاہب کی حوصلہ شکنی کرنے کا حکم ہے۔ نہ کہ ان کے ایک مذہبی راہنما کا چرچا؟

ایسے ہی اور دوسرے بھی تہوار ہیں، تو کیا انہیں بھی گود لے لیا جائے؟ اگر تو عیسائیت وہی رہتی کہ جو حضرت عیسیٰ روح اللہ کی تعلیمات تھیں، تب تو کلام ہو سکتا تھا۔۔۔ مگر عیسائیوں کے شروع کردہ تہوار کے پرچار کی شدت سے مخالفت اس لیے ہے کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کے اذہان کے لیے زہر ثابت ہوگی (گو کہ اسلام غالب آنے کے لیے ہی ہے۔۔مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر ایک کو مادر پدر آزاد چھوڑ دیا جائے)۔ اسلام سلامتی کے لیے ہے اور سلامتی کے لیے پابندیاں قبول کرنی پڑتی ہیں۔ اور یہ پابندیاں رہبرِ انسانیت محمد مصطفیٰ ۘ٘صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ہوتی ہیں۔ شارعِ اسلام کی تعلیمات سے روشنی لے کر فقہاء، محدثین، سلفِ انبیاء نے یہی رویہ اختیار کیا۔

اگر اس تہوار کو آپ کی تجویز کے مطابق "اچھا" کر کے اپنایا جائے تو کیا آپ کے خیال میں بے حیائی کا سیلاب تھم جائے گا؟ غیر اسلامی اور غیر اخلاقی حرکات ختم ہوجائیں گی؟ غالباً ہم اسی خانماں خراب دنیا کی بات کر رہے ہیں، ہمیں حقیقت پسندانہ سوچ اختیار کرنی ہوگی کہ ہماری مثالی سوچ دنیا کو مثالی نہیں بنا دے گی۔ کہیں نہ کہیں بند باندھنے بھی پڑتے ہیں۔۔۔۔سوچوں پر نہ سہی، افعال و اعمال پر ضرور۔۔۔
 
معلوم ہوتا ہے بڑی وسيع و عريض ناك كے سبب ہی بعض افراد اس موضوع كى پہلى سطر كا مطالعہ نہيں كر پائے ورنہ يہ دھاگہ كسى پادرى كے دن كى بجائے ايك وسيع معاشرتى موضوع كے متعلق تھا ۔
اب جب كہ موڈريٹر صاحب تحفے تحائف دے دلا كر محبت بڑھانے والى حديث مبارك كا حوالہ دے كر مذہب اسلام كو درميان لا چکے ہيں تو ان شاء اللہ ميری بھی كچھ معروضات اس كے متعلق ہوں گی ازراہ كرم برداشت كى حد باقى ركھیے گا ۔
 

زلفی شاہ

لائبریرین
ظفری بھائی آپ کی باتیں درست ہیں۔ اور علماء و فقہاء میں ایک خاصا بڑا طبقہ کچھ ایسی ہی سوچ رکھتا ہے۔عمومی طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ "فتویٰ زمانے کے اعتبار سے بدل جاتا ہے"۔ مشرکانہ اور اسلام مخالف کام اگر نہ پائے جائیں تو بہت سے تہوار جائز ہیں۔ ثقافت بعض اوقات مذہب کی پکڑ میں نہیں آتی، کیوں کہ کسی چیز کی "ممانعت" نہ ہونا اس کی "اباحت" کی دلیل ہے۔ تغیرِ زمانہ اپنی جگہ، اور تہواروں کا مذہب در مذہب پھیلنا بھی اپنی جگہ۔۔ لیکن بالعموم جو تہوار غیر اسلامی (مذہبی) نوعیت رکھتے ہوں، انہیں اپنانے کے شدید مخالفت بحیثیتِ مسلمان ہمارا فرض ہے۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ اس تہوار کا نام ہی "سینٹ ویلینٹائن" کے نام پر ہے۔ اس تہوار کی بدولت لاکھوں مسلمان اس نصرانی کو یاد کرنے میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ بحیثیتِ مسلمان تو ہمیں دوسرے مذاہب کی حوصلہ شکنی کرنے کا حکم ہے۔ نہ کہ ان کے ایک مذہبی راہنما کا چرچا؟

ایسے ہی اور دوسرے بھی تہوار ہیں، تو کیا انہیں بھی گود لے لیا جائے؟ اگر تو عیسائیت وہی رہتی کہ جو حضرت عیسیٰ روح اللہ کی تعلیمات تھیں، تب تو کلام ہو سکتا تھا۔۔۔ مگر عیسائیوں کے شروع کردہ تہوار کے پرچار کی شدت سے مخالفت اس لیے ہے کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کے اذہان کے لیے زہر ثابت ہوگی (گو کہ اسلام غالب آنے کے لیے ہی ہے۔۔مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر ایک کو مادر پدر آزاد چھوڑ دیا جائے)۔ اسلام سلامتی کے لیے ہے اور سلامتی کے لیے پابندیاں قبول کرنی پڑتی ہیں۔ اور یہ پابندیاں رہبرِ انسانیت محمد مصطفیٰ ۘ٘صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ہوتی ہیں۔ شارعِ اسلام کی تعلیمات سے روشنی لے کر فقہاء، محدثین، سلفِ انبیاء نے یہی رویہ اختیار کیا۔

اگر اس تہوار کو آپ کی تجویز کے مطابق "اچھا" کر کے اپنایا جائے تو کیا آپ کے خیال میں بے حیائی کا سیلاب تھم جائے گا؟ غیر اسلامی اور غیر اخلاقی حرکات ختم ہوجائیں گی؟ غالباؐ ہم اسی خانماں خراب دنیا کی بات کر رہے ہیں، ہمیں حقیقت پسندانہ سوچ اختیار کرنی ہوگی کہ ہماری مثالی سوچ دنیا کو مثالی نہیں بنا دے گی۔ کہیں نہ کہیں بند باندھنے بھی پڑتے ہیں۔۔۔۔سوچوں پر نہ سہی، افعال و اعمال پر ضرور۔۔۔
بہت ہی خوبصورت الفاظ، بہت ہی اچھا اور پر اثر انداز تبلیغ ہے۔(ماشاءاللہ ) زور قلم ہو اور زیادہ۔ کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی کو بند باندھنا ہی پڑتا ہے۔ مسلمان کو تو حکم ہے کہ نیکی پھیلاؤ اور برائی سے منع کرو۔ اس تہوار میں ایک نہیں کئی قباحتیں موجود ہیں ،اسلامی تعلیمات جن کی اجازت نہیں دیتیں۔ اللہ تعالی ہمیں صراط مستقیم کا صحیح شعور نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الکریم۔
 

ساجد

محفلین
معززین ، یہاں سیکولر ازم کو بیچ میں ڈالنے کا کیا جواز؟۔ کیا کسی نے سیکولرازم پر کوئی بات شروع کی ہے؟۔ کہا ناں کہ دلیل ہے تو بات کریں نہیں تو لکم دینکم ولی دین کا راستہ اپنا لیں۔ ہم انتظار میں تھے کہ موضوع سے متعلقہ رائے آتی لیکن دوسروں کو نصیحت خود میاں فضیحت والے معاملہ نے بہت محظوظ کیا:) ۔ ارے بھئی انسان کی شخصی آزادی کی بات کریں جو ریاست کے قوانین سے متصادم نہ ہو۔ ہر اختلافی بات کے پیچھے صرف مذہبی پس منظر یا مغرب مخالف خیالات نہیں ہوتے بلکہ یہ انسان کی اسی شخصی آزادی کے اظہار کا ایک طریقہ ہے جس پر اہلِ مغرب کو ناز ہے لیکن بدقسمتی سے مغرب کے زیادہ تر باسی اس کو صرف دوسروں پر تنقید سے ہی تعبیر کرتے ہیں ۔ ساری دنیا میں کیڑے نکالیں گے لیکن جب کوئی بات خود ان پر آئے تو آزادی کردار تو درکنار آزادی گفتار پر بھی "بھڑاس نکالنے" کا فتوی جڑ دیں گے۔شاید اسی لئیے اس دھاگے کا نام "برداشت کی حد" رکھا گیا ہو گا ۔
ظفری بھائی نے اپنے مضمون میں بہت اچھے انداز میں رسومات کے کسی معاشرے میں اجراء اور ان کو اپنی ثقافت سے متصل کرنے کی انسانی جستجو کی تاریخ کی وضاحت کی ہے۔ یہ جستجو مذاہب سے کوئی تعلق نہیں رکھتی اور اس پر یہاں بات کرنے والوں کی اکثریت کا اتفاق ہے۔یہ بات اس پر بڑی اچھی طرح دلالت کرتی ہے کہ مذہب کے علاوہ بھی کچھ عوامل ہیں جن کا احساس ویلنٹائنز ڈے کے حامیوں اور مخالفوں کو ہے۔
 

عثمان

محفلین
معززین ، یہاں سیکولر ازم کو بیچ میں ڈالنے کا کیا جواز؟۔ کیا کسی نے سیکولرازم پر کوئی بات شروع کی ہے؟۔
مسئلہ کی وجہ ، مذہب اور متعلقہ مذہبی اقدار ہیں۔ مذہب اور سیکولر ازم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
کہا ناں کہ دلیل ہے تو بات کریں نہیں تو لکم دینکم ولی دین کا راستہ اپنا لیں۔
ہاں جی اپنا راستہ ہی ناپا ہے ، اور آپ کو بھی یہی مشورہ ہے۔ یہ ملاحضہ کیجیے۔
میں ویلنٹائن ڈے نہیں مناتا۔ منانے والوں پہ منہ بھی نہیں بناتا۔ :) ویسے بھی اس کا رولا اتنا یہاں نہیں جتنا پاکستان میں سننے میں آتا ہے۔
جسے منانا ہے منائے ، نہیں منانا ، نہ منائے۔ افراد کا انفرادی عمل افراد ہی پہ چھوڑنے میں کیا حرج ہے ؟ :)
 

ظفری

لائبریرین
اگر اس تہوار کو آپ کی تجویز کے مطابق "اچھا" کر کے اپنایا جائے تو کیا آپ کے خیال میں بے حیائی کا سیلاب تھم جائے گا؟ غیر اسلامی اور غیر اخلاقی حرکات ختم ہوجائیں گی؟ غالباً ہم اسی خانماں خراب دنیا کی بات کر رہے ہیں، ہمیں حقیقت پسندانہ سوچ اختیار کرنی ہوگی کہ ہماری مثالی سوچ دنیا کو مثالی نہیں بنا دے گی۔ کہیں نہ کہیں بند باندھنے بھی پڑتے ہیں۔۔۔۔سوچوں پر نہ سہی، افعال و اعمال پر ضرور۔۔۔
مصروفیت کی بناء پر اختصار سے کام لوں گا میرے چھوٹے بھائی ۔
چلیں میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر ہم اس بےحیائی کے تدارک کے لیئے کوئی عقلی دلیل یا کوئی حکمتِ عملی کو چھوڑ کر اس موضوع کی پہلی پوسٹ کے پمفلٹ کی طرح اس " تہوار " کے خلاف زبردستی اور خود ساختہ فتوؤں سے کوئی ایکشن لیں گے تو کیا یہ بے حیائی رک جائے گی ۔ ؟ اس میں شامل تمام غیر اسلامی اور غیراخاقی حرکات کا قلم قلمع ہوجائے گا ۔ حقیقت پسندی تو یہ ہے کہ کسی برائی کو روکنے کے لیئے طاقت نہیں بلکہ ہدایت و تلقین کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ اللہ نے ہمیں اسی بات پر مکلف کیا ہے کہ ہم دین کی باتیں لوگوں تک کس طرح پہنچاتے ہیں ۔ طالبانی طریقے سے کبھی بھی کسی برائی کو دل سے اکھاڑا نہیں جاتا ۔ہدایت و تلقین کا طریقہ کارنبیوں اور بزرگانِ دین کا رہا ہے ۔
میں نے اپنے تئیں کوشش کی کہ اس معاملے کو تاریخ سے لیکر عصر ِ حاضر تک اخلاقی اقدار کو سامنے رکھ اس تہوار کو موزوں بنانے کی کوشش کروں ۔ جبکہ میں کہہ چکا ہوں کہ ذاتی طور پر مجھے یہ تہوار پسند نہیں ۔ مگر جب قوموں کو انحطاط اس درجے ہو رہا ہو ۔ کہ ایک عام آدمی کی دسترس میں ساری دنیا ہو تو یہ بہت مشکل ہے کہ آپ زبردستی بغیر کسی دلیل اور استدلال کے لوگوں کو باور کراسکیں کہ یہ تہوار ہمارے اقدار سے موزوں نہیں رکھتا ۔ چنانچہ لوگ قائل نہیں ہونگے اور اس طرف مائل ہوتے رہیں گے ۔ چاہے کتنے ہی فتوؤں کی گھٹری ان کے سامنے انڈیل دی جائے ۔
آج ہمارے سر سے پاؤں تک جو بھی چیز ہے وہ سب مغرب کی ہی مرہونِ منت ہے ۔ خواہ وہ آپ کا شاندار جوتا ہو ۔ جو مغربی مشینوں پر بنتا ہو۔ یا آپ کا پروقار لباس ہو جسے مغربی مشینوں نے جنا ہو ۔ آپ کے ہاتھ کی گھڑی ہو ۔ یا آپ کے جیب میں رکھا ہوا موبائل فون ، آپ کے گھر کا ٹی وی ہو یا جس لیپ ٹاپ یا ڈسک ٹاپ سے آپ ساری دنیا سے منسلک ہوتے ہوں ان سب سے مغرب نے ہی ہمیں روشناس کروایا ہے ۔ اپنے اردگرد اگر نظر ڈالیں تو احساس ہوگا کہ ہم نے ان میں سے کیا کیا تخلیق کیا ہے ۔ ؟
یہ اتنہائی منفی رویہ ہے کہ جو چیزآپ کے مزاج اور فطرت کے ہم آہنگ ہو وہ شرعی اور اگر جو چیز آپ کے مزاج اور فطرت کے برخلاف وہ ممنوع ۔۔۔۔۔ اس دورخی رویئے نے ہمیں آج جس مقام پر لاکر کھڑا کیا ہے اگر ایک سرسری جائز ہ لیں تو معلوم ہوگا ۔ کہ تمام مسلم امہ میں پانچ سو یونی ورسٹیاں ہیں ۔ جبکہ صرف امریکہ میں آٹھ ہزار یونی ورسٹیاں ہیں ۔ ڈیڑھ ارب کی آبادی میں 75 کروڑ لوگ بھی خواندہ نہیں ۔ ہر عیسائی معاشرے میں 40 فیصد لوگ یونی ورسٹیاں تک جاتے ہیں ۔ ہمارے ہاں یہ شرح 2 فیصد بھی نہیں ۔ اسی طرح حفظانِ صحت کے اصول بھی ہیں ۔ انصاف اور عدل میں بھی امتزاج ہے ۔ جس مسائل پر توجہ دینی چاہیئے ۔ جس اعداو و شمار کے خلاف مغرب کے سامنے ڈٹ جانا چاہیئے ۔ وہاں کوئی فتوی جاری نہیں ہوتا ۔ کوئی حکمتِ عملی تیار نہیں ہوتی۔ کہنے کو تو بہت کچھ ہے مگر رہنے دیں ۔
 

محمد امین

لائبریرین
مصروفیت کی بناء پر اختصار سے کام لوں گا میرے چھوٹے بھائی ۔
چلیں میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر ہم اس بےحیائی کے تدارک کے لیئے کوئی عقلی دلیل یا کوئی حکمتِ عملی کو چھوڑ کر اس موضوع کی پہلی پوسٹ کے پمفلٹ کی طرح اس " تہوار " کے خلاف زبردستی اور خود ساختہ فتوؤں سے کوئی ایکشن لیں گے تو کیا یہ بے حیائی رک جائے گی ۔ ؟ اس میں شامل تمام غیر اسلامی اور غیراخاقی حرکات کا قلم قلمع ہوجائے گا ۔ حقیقت پسندی تو یہ ہے کہ کسی برائی کو روکنے کے لیئے طاقت نہیں بلکہ ہدایت و تلقین کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ اللہ نے ہمیں اسی بات پر مکلف کیا ہے کہ ہم دین کی باتیں لوگوں تک کس طرح پہنچاتے ہیں ۔ طالبانی طریقے سے کبھی بھی کسی برائی کو دل سے اکھاڑا نہیں جاتا ۔ہدایت و تلقین کا طریقہ کارنبیوں اور بزرگانِ دین کا رہا ہے ۔
میں نے اپنے تئیں کوشش کی کہ اس معاملے کو تاریخ سے لیکر عصر ِ حاضر تک اخلاقی اقدار کو سامنے رکھ اس تہوار کو موزوں بنانے کی کوشش کروں ۔ جبکہ میں کہہ چکا ہوں کہ ذاتی طور پر مجھے یہ تہوار پسند نہیں ۔ مگر جب قوموں کو انحطاط اس درجے ہو رہا ہو ۔ کہ ایک عام آدمی کی دسترس میں ساری دنیا ہو تو یہ بہت مشکل ہے کہ آپ زبردستی بغیر کسی دلیل اور استدلال کے لوگوں کو باور کراسکیں کہ یہ تہوار ہمارے اقدار سے موزوں نہیں رکھتا ۔ چنانچہ لوگ قائل نہیں ہونگے اور اس طرف مائل ہوتے رہیں گے ۔ چاہے کتنے ہی فتوؤں کی گھٹری ان کے سامنے انڈیل دی جائے ۔
آج ہمارے سر سے پاؤں تک جو بھی چیز ہے وہ سب مغرب کی ہی مرہونِ منت ہے ۔ خواہ وہ آپ کا شاندار جوتا ہو ۔ جو مغربی مشینوں پر بنتا ہو۔ یا آپ کا پروقار لباس ہو جسے مغربی مشینوں نے جنا ہو ۔ آپ کے ہاتھ کی گھڑی ہو ۔ یا آپ کے جیب میں رکھا ہوا موبائل فون ، آپ کے گھر کا ٹی وی ہو یا جس لیپ ٹاپ یا ڈسک ٹاپ سے آپ ساری دنیا سے منسلک ہوتے ہوں ان سب سے مغرب نے ہی ہمیں روشناس کروایا ہے ۔ اپنے اردگرد اگر نظر ڈالیں تو احساس ہوگا کہ ہم نے ان میں سے کیا کیا تخلیق کیا ہے ۔ ؟
یہ اتنہائی منفی رویہ ہے کہ جو چیزآپ کے مزاج اور فطرت کے ہم آہنگ ہو وہ شرعی اور اگر جو چیز آپ کے مزاج اور فطرت کے برخلاف وہ ممنوع ۔۔۔ ۔۔ اس دورخی رویئے نے ہمیں آج جس مقام پر لاکر کھڑا کیا ہے اگر ایک سرسری جائز ہ لیں تو معلوم ہوگا ۔ کہ تمام مسلم امہ میں پانچ سو یونی ورسٹیاں ہیں ۔ جبکہ صرف امریکہ میں آٹھ ہزار یونی ورسٹیاں ہیں ۔ ڈیڑھ ارب کی آبادی میں 75 کروڑ لوگ بھی خواندہ نہیں ۔ ہر عیسائی معاشرے میں 40 فیصد لوگ یونی ورسٹیاں تک جاتے ہیں ۔ ہمارے ہاں یہ شرح 2 فیصد بھی نہیں ۔ اسی طرح حفظانِ صحت کے اصول بھی ہیں ۔ انصاف اور عدل میں بھی امتزاج ہے ۔ جس مسائل پر توجہ دینی چاہیئے ۔ جس اعداو و شمار کے خلاف مغرب کے سامنے ڈٹ جانا چاہیئے ۔ وہاں کوئی فتوی جاری نہیں ہوتا ۔ کوئی حکمتِ عملی تیار نہیں ہوتی۔ کہنے کو تو بہت کچھ ہے مگر رہنے دیں ۔

آپ کی ساری باتیں میں مانتا ہوں اور کچھ ایسے ہی تاثرات میرے بھی ہیں "زبوں حالی" اور "انحطاط" کے بارے میں۔ اور طاقت سے تو روکنے کی ہم فی الوقت بات بھی نہیں کر رہے، طاقت کا استعمال تو تب ہو جب اکثریتی طبقہ نظامِ اسلام کے ماتحت ہو، نہ کہ موجودہ نظامِ جمہوریت کی مثل۔ ہم یہاں گفت و شنید کے ذریعے ہی ایک دوسرے کو سمجھنا چاہ رہےہیں۔ اور میرا خیال ہے کہ آپ کے اور میرے نکتۂ نظر میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔

اور جہاں تک غیر اخلاقی حرکات اور بے حیائی کی بات ہے تو یہ تو اظہر من الشمس ہے کہ اس کی وجہ فقط یہ یومِ محبت ہی نہیں ہے۔ یار لوگ کیا سارا سال ہی عشق و محبت نہیں فرماتے رہتے؟ میری گفتگو کا مقصد ویلنٹائنز ڈے کو کسی بات کا Root Cause قرار دینا نہیں ہے۔

علمائے امت کے رویوں سے لوگوں کا اختلاف اپنی جگہ، مگر یہ ضرور ہے کہ رجحانات اب بدل رہے ہیں۔ "اسلامک بینکنگ" ایک بڑی مثال ہے۔

واقعی، کہنے کو تو بہت کچھ ہے۔۔بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی :) ۔۔۔
 

ساجد

محفلین
مسئلہ کی وجہ ، مذہب اور متعلقہ مذہبی اقدار ہیں۔ مذہب اور سیکولر ازم کا چولی دامن کا ساتھ ہے
نہیں ، جناب، مسئلہ کی وجہ مذہبی اقدار نہیں بلکہ ثقافتی ہیں۔ پاکستان میں صرف مسلمان ہی نہیں بستے دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی ہیں ان کے ہاں بھی ویلنٹائنز ڈے منانے کا تناسب مسلم برادری جتنا ہی ہے۔ بھارت میں بھی اس تہوار کو مذہب کے حوالے سے نہیں منایا جاتا۔
مذہب (دین کے حوالہ سے) کی ضد سیکولر ازم نہیں بلکہ بے دینی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں سیکولر ہوں تو وہ یہ نہیں کہہ رہا ہوتا کہ وہ کسی مذہب کو نہیں مانتا بلکہ وہ مذہب کو ذاتی معاملہ کی حد میں رکھ رہا ہوتا ہے اور ریاست کے حکومتی نظام میں اس کے عمل دخل کا مخالف ہوتا ہے۔
جبکہ ملحد ،لادینیت، کا قائل ہوتا ہے وہ نہ تو خالقِ کائنات کو مانتا ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے عطا کردہ مذاہب ، رسولوں اور کتابوں میں سے کسی ایک پر بھی ایمان رکھتا ہے۔ مذہب کی ضد الحاد ہے سیکولرازم نہیں۔ آپ ہندوستان کی مثال لیں ؛سیکولر ہے؟ نا لیکن مذہب کا منکر نہیں۔
یوں آپ سمجھ سکتے ہیں کہ نئی نئی رسومات کی مخالفت کسی مذہب کی مخالفت یا حمایت سے مشروط نہیں بلکہ اس کے استعمال سے بھی ہوتی ہے۔ ایسا ہی مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب نئی نئی رسومات کسی معاشرے میں داخل ہوں تو ان کی مخالفت کسی مذہب کی مخالفت نہیں بلکہ ان کا اُس معاشرے کی ثقافتی اقدار سے تصادم اصل وجہ ہوتی ہے۔ یہ بات اس غلط فہمی کو بھی دور کرتی ہے کہ بعض معاشرے مغرب کی اشیاء اور ٹیکنالوجی سے تو استفادہ کرتے ہیں تو ان کی رسومات پر اعتراض کیوں کرتے ہیں۔ویسے بھی مادی اشیاء اور فکری رسوم ایک ہی خانے کی چیزیں نہیں ہیں۔
دیکھئیے ، اب کوئی نیا آسمانی مذہب قیامت تک نہیں آئے گا اور دنیا میں جو مذاہب موجود ہیں ان کے عقائد و رسوم صدیوں سے چلے آ رہے ہیں، وہ بھی رہیں گے تو اگر ویلنٹائنز ڈے ماضی میں کسی بھی مذہب کا حصہ نہیں رہا تھا تو اب بھی وہ کسی مذہب کا حصہ نہیں ہے اور نہ ہی اس بنیاد پر اس پر بات کی جارہی ہے۔ بلکہ یہ کمال تو ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ہے جو خوش حال مغرب سے پیسہ اکٹھا کرنے کے لئیے ہر ایسی بات کو پروموٹ کرتی ہیں جن سے ان کے پیٹ بھریں۔ اور تو اور کمپیوٹر کے اینٹی وائرس پروگرام کا مذہب اور مذہب کا ویلنٹائنز ڈے سے کیا تعلق بھلا؟۔ اس پر بھی ویلنٹائن ریٹ کی پیش کش ہوتی ہے۔ :)
 

زلفی شاہ

لائبریرین
سب سے پہلے تو ہمیں یہ تعین کرنا ہے کہ اس کو ہم کس حوالے سے ڈسکس کرنا چاہ رہے ہیں اگر اس کو ثقافتی حوالے سے لیں گے تو ہر کسی کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ذہانت کے جوہر دکھائے لیکن اگر اس کو مذہبی حوالے سے ڈسکس کرنا مقصودہے تو پھر ہمیں قرآن و سنت کے احکامات کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ قرآن پاک نے نیکی کا ساتھ دینے اور برائی کا ساتھ نہ دینے کی تلقین باربار کی ہے۔ اس امت کی تعریف کےسلسلہ میں قرآن مجید میں ارشاد ہوا کہ تم بہترین امت ہو لوگوں کی بھلائی کے لئے نکالے گئے ہو تم لوگوں کو نیکی کی دعوت دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو۔ جب ہم سب مان رہے ہیں کہ یہ تہوار بہت ساری برائیاں رکھتا ہے تو پھر اس کی حمایت میں دلائل کیسے؟؟ ایک خاص بات سمجھنے کی یہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالی نے لوگوں کو عمل کروانے کا مکلف نہیں بنایا بلکہ ہمیں نیکی کی دعوت دینے کاحکم دیا ہے۔ اللہ تعالی کے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی ہمیں مدنظر رکھنا چاہیے۔ ایمان کے تین درجے ہیں۔ پہلادرجہ اگر برائی کو ہاتھ سے روکنے کی استطاعت رکھتے ہو تو اسے ہاتھ سے روکو پھر اگر برائی کو ہاتھ سے روکنے کی ہمت نہیں تو زبان سے برائی کو روکنے کی کوشش کرو اور اگر اس کی بھی استطاعت نہیں تواس برائی کو دل میں برا جانواور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ وہ لوگ جوا س امرکوبرا سمجھتے ہوئے بھی اس کی حمایت کر رہے ہیں وہ ذرا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر اپنے آپ کو پرکھنے کی کوشش کریں ۔امید ہے افاقہ ہوگا۔
 

محمد امین

لائبریرین
سب سے پہلے تو ہمیں یہ تعین کرنا ہے کہ اس کو ہم کس حوالے سے ڈسکس کرنا چاہ رہے ہیں اگر اس کو ثقافتی حوالے سے لیں گے تو ہر کسی کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ذہانت کے جوہر دکھائے لیکن اگر اس کو مذہبی حوالے سے ڈسکس کرنا مقصودہے تو پھر ہمیں قرآن و سنت کے احکامات کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ قرآن پاک نے نیکی کا ساتھ دینے اور برائی کا ساتھ نہ دینے کی تلقین باربار کی ہے۔ اس امت کی تعریف کےسلسلہ میں قرآن مجید میں ارشاد ہوا کہ تم بہترین امت ہو لوگوں کی بھلائی کے لئے نکالے گئے ہو تم لوگوں کو نیکی کی دعوت دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو۔ جب ہم سب مان رہے ہیں کہ یہ تہوار بہت ساری برائیاں رکھتا ہے تو پھر اس کی حمایت میں دلائل کیسے؟؟ ایک خاص بات سمجھنے کی یہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالی نے لوگوں کو عمل کروانے کا مکلف نہیں بنایا بلکہ ہمیں نیکی کی دعوت دینے کاحکم دیا ہے۔ اللہ تعالی کے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی ہمیں مدنظر رکھنا چاہیے۔ ایمان کے تین درجے ہیں۔ پہلادرجہ اگر برائی کو ہاتھ سے روکنے کی استطاعت رکھتے ہو تو اسے ہاتھ سے روکو پھر اگر برائی کو ہاتھ سے روکنے کی ہمت نہیں تو زبان سے برائی کو روکنے کی کوشش کرو اور اگر اس کی بھی استطاعت نہیں تواس برائی کو دل میں برا جانواور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ وہ لوگ جوا س امرکوبرا سمجھتے ہوئے بھی اس کی حمایت کر رہے ہیں وہ ذرا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر اپنے آپ کو پرکھنے کی کوشش کریں ۔امید ہے افاقہ ہوگا۔

شاہ صاحب، بہت ہی مکمل استدلال ہے۔ جزاک اللہ۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
سب سے پہلے تو ہمیں یہ تعین کرنا ہے کہ اس کو ہم کس حوالے سے ڈسکس کرنا چاہ رہے ہیں اگر اس کو ثقافتی حوالے سے لیں گے تو ہر کسی کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ذہانت کے جوہر دکھائے لیکن اگر اس کو مذہبی حوالے سے ڈسکس کرنا مقصودہے تو پھر ہمیں قرآن و سنت کے احکامات کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ قرآن پاک نے نیکی کا ساتھ دینے اور برائی کا ساتھ نہ دینے کی تلقین باربار کی ہے۔ اس امت کی تعریف کےسلسلہ میں قرآن مجید میں ارشاد ہوا کہ تم بہترین امت ہو لوگوں کی بھلائی کے لئے نکالے گئے ہو تم لوگوں کو نیکی کی دعوت دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو۔ جب ہم سب مان رہے ہیں کہ یہ تہوار بہت ساری برائیاں رکھتا ہے تو پھر اس کی حمایت میں دلائل کیسے؟؟ ایک خاص بات سمجھنے کی یہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالی نے لوگوں کو عمل کروانے کا مکلف نہیں بنایا بلکہ ہمیں نیکی کی دعوت دینے کاحکم دیا ہے۔ اللہ تعالی کے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی ہمیں مدنظر رکھنا چاہیے۔ ایمان کے تین درجے ہیں۔ پہلادرجہ اگر برائی کو ہاتھ سے روکنے کی استطاعت رکھتے ہو تو اسے ہاتھ سے روکو پھر اگر برائی کو ہاتھ سے روکنے کی ہمت نہیں تو زبان سے برائی کو روکنے کی کوشش کرو اور اگر اس کی بھی استطاعت نہیں تواس برائی کو دل میں برا جانواور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ وہ لوگ جوا س امرکوبرا سمجھتے ہوئے بھی اس کی حمایت کر رہے ہیں وہ ذرا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر اپنے آپ کو پرکھنے کی کوشش کریں ۔امید ہے افاقہ ہوگا۔

مسئلہ یہ ہے کہ کچھ لوگ جانتے بوجھتے بھی اس کو جاننا نہیں چاہ رہے۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ سوئے ہوئے کو تو اٹھایا جا سکتا ہے لیکن اٹھے ہوئے کو کوئی کیسے اٹھائے۔
 
السلام عليكم ورحمة اللہ وبركاتہ
مجھے جو كچھ كہنا تھا اس كى طرف معزز اركان نے بہت بہتر طريقے سے اشارہ كر ديا ہے الحمدللہ۔ اب مجھے مختصرا بعض باتيں عرض كرنا ہيں:
میرا مطلب ہے کہ قدرت نے انسان کے خمیر میں صنف مخالف کے لیے شیدید کشش رکھی ہے تو اب کیا جائے؟؟؟ قدرت نے جو کیا اس کے آگے اب ہم کیا کر سکتے ہیں۔
بيٹے كھانے پينے كى خواہش بھی قدرت نے ركھی ہےاور اس ميں حلال وحرام كى حدود بھی فاطر السموات والارض نے بنائى ہيں ۔ كوئى شريف اور سليم الفطرت آدمى ہروقت نہيں كھاتا ، نہ ہی ہر چيز کھا جاتا ہے ۔ اور اگر ہمارا كوئى بہت عزيز مسلمان ہو كر خنزير كى طرف ہاتھ بڑھائے تو ہم ضرور تڑپ كر اس كو باز ركھنے كى كوشش كريں گے ، اس ليے كہ اس كى خير خواہی يہی ہے۔ يہ اب ان كا نصيب جو كسى كى محبت اور خير خواہى كو بروقت نہ سمجھ پائيں۔
 
مسئلہ یہ ہے کہ کچھ لوگ جانتے بوجھتے بھی اس کو جاننا نہیں چاہ رہے۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ سوئے ہوئے کو تو اٹھایا جا سکتا ہے لیکن اٹھے ہوئے کو کوئی کیسے اٹھائے۔
اب چونکہ دنیا ایک گلوبل وولیج بن گئی ہے ۔ چناچہ اب دوسرے ملکوں‌سے بھی بہت سی چیزیں ہمارے ملک میں آرہیں ہیں ۔ پہلے ہمارے ہاں سالگرہ کا تہورار اس طریقے سے نہیں منایا جاتا تھا ۔ اب گھر گھر میں سالگرہ کی تقریب ہوتی ہے ۔ کیک کاٹے جاتے ہیں ۔ ہپی برتھ ڈے کیا جاتا ہے بلکہ گایا جاتا ہے ۔ اس میں مذہبی علماء بھی شامل ہیں ۔ اس میں سیاست دان بھی شامل ہیں ۔ اب سب اس طرح کی تقریبات منقعد کرتے ہیں ۔ ایسا معاملہ اب اس تہوار کیساتھ بھی ہو رہا ہے ۔ ظاہر ہے جب ہم مغربی تہذیب کیساتھ متعلق ہو رہے ہیں تو بہت سے ان کے تہوار بھی آرہے ہیں ۔ اس تہوار کی اگر آپ اصل پر غور کریں تو اس میں کوئی ایسی بیہودگی نہیں تھی ۔ بلکہ یہ شادی کے رشتے کے تقدس کو قائم رکھنے کے لیئے ایک تہوار تھا جو لوگوں نے قائم کیا ۔ ہماری تہذیب کو ویسے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ ہمارے ہا ں‌نہ تو رباعینت رہی ہے جو عیسائیوں کے ہاں‌ تھی ۔ نہ شادی کوئی اس نوعیت کا مسئلہ رہی ہے ۔ اس وجہ سے ہمارے معاشرے میں اس تہوار کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہونی چاہیئے ۔ لیکن جب تہذیبوں‌کا باہمی تعلق قائم ہونے لگتا ہے تو اس میں لوگ منانے لگ جاتے ہیں ۔ ذاتی طور پر مجھے یہ تہوار پسند نہیں ہے ۔ کیونکہ اس میں کچھ غیر اخلاقی چیزوں کے آنے کا بھی خدشہ ہے ۔کیونکہ اب یہ معاملہ شادی شدہ جوڑوں کے درمیان ہی نہیں رہا ۔ اس میں کچھ حدود سے باہر بھی چھلانگ لگائی گئی ہے ۔ اس وجہ سے لوگوں کو اس سے انحراف کا مشورہ دیا جائے تو اچھی بات ہے ۔
تہوار اسی طرح قوموں میں اٹھتے ہیں ۔ اور دوسری قومیں آہستہ آہستہ اپنے باہمی تعلق کی وجہ سے ان تہواروں ‌کو قبول کرلیتیں ہیں ۔ ہوسکتا ہے اس تہوار میں بھی ہمارا معاشرہ اسی طرح آہستہ آہستہ کچھ ایسی بعض تبدیلیاں کرلے ۔ جو ہماری معاشرت ، ہماری ثقافت ، ہماری تہذیب ، ہماری اخلاقی روایات اور اقدار پر مبنی ہو ۔ یہ ممکن ہے ۔ مگر ہم زیادہ سے زیادہ کیا کرسکتے ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب کوئی تہوار لوگ منانا شروع کریں تو دیکھیں کہ اس تہوار میں نقص کیا ہے ۔ کوئی چیز غیر اخلاقی تو نہیں ہے ۔ کوئی چیز مذہبی نوعیت کی تو نہیں ہے ۔ اس میں کوئی ایسی چیز تو نہیں ہے جس سے ہماری اقدار ممانعیت کا حکم لگاتی ہو ۔ ہمیں اس زاویے سے چیزوں‌کا دیکھنا چاہیئے ۔ ہر چیز ہم غیروں کی قرار دیدیں اور رد کرنا شروع کردیں تو یہ کوئی مثبت عمل نہیں ہے ۔ میرا اپنا نقطہ ِ نظر یہ ہے کہ کچھ دیر بعد ہماری یہ ممانعیت رد ہوجائے گی اور لوگ اس چیز کو نہیں چھوڑیں گے ۔

سالگرہ کیساتھ بھی یہی ہوا ۔ دیکھئے کہ ایک گھر میں اب یہ تصور کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ بچوں یا بڑوں کی سالگرہ نہیں منائی جائے گی ۔ حالانکہ خود ہماری تہذیب میں اس کی کوئی روایت نہیں تھی ۔ ہم بچوں کی آمین کراتے تھے ۔ بچوں کا عقیقہ کرتے تھے ۔ لیکن اس طریقے کی کوئی تقریب ہمارے ہاں منقعد نہیں ہوتی تھی ۔ لیکن اب ہر گھر میں ہوتی ہے اور ظاہر یہ باہر سے آئی ہے ۔ ویلنٹائن ڈے کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اگر ا سمیں کوئی غیر اخلاقی پہلو نہیں ہے ۔ اور لوگ اسلامی اقدار کا لحاظ رکھتے ہیں ۔ اور ہماری تہذیب کے اندر اسے کوئی صورت دیدتے ہیں تو پھر کوئی بات کہی جا سکتی ہے ۔ اسلام کا اپروچ یہ ہے کہ سارے انسانوں کو وہ آدم کی اولاد سمجھتا ہے ۔ ساری تہذیبوں کا انسانیت کا ورثہ سمجھتا ہے ۔ وہ صرف یہ دیکھے گا کہ کوئی مشرکانہ چیز تو اس میں شامل نہیں ہے ۔ کوئی غیر اخلاقی پہلو تو نہیں نکلتا ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو وہ کسی تہوار کا دشمن نہیں ہے ۔

رہی بات غیر شدہ مرد اور عورت کے آپس کے معاملات تو یہ ہمارے اقدار کے خلاف ہیں ۔ یہ اچھا ہوگا کہ ایسا نہ ہو ۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ یہ تہوار کسی دوسری تہذیب میں کسی اور ہی تصور سے پیش ہوا ۔ لیکن اگر ہم اس تہوار کو اپنی اقدار سے تھوڑا ہم آہنگ کرلیں ۔ تو اس تہوار کو بھی ہم اپنے اقدار اور اپنی تہذیب کے مطابق ڈھال سکتے ہیں ۔ یعنی کسی تہوار کو اسلامی ہی بنانا ضروری نہیں ہے ۔ اس میں اخلاقی پہلو آجانا چاہیئے ۔اگر کوئی غیر شادی مر و عورت اس طرح اس تہوار میں ملوث ہوتے ہیں تو ہم انہیں سمجھاسکتے ہیں جو ہم عام زندگی میں بھی کرتے ہیں ۔ تہوار یا اس قسم کی چیزیں دوسری قوموں میں جب منتقل ہوتیں ہیں تو اس میں تبدیلیاں بھی آجاتیں ہیں ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کی تاریخ ہی کو گڑھے مُردوں کی طرح اکھاڑا جائے ۔ ان تہواروں میں قومیں آہستہ آہستہ اپنے مزاج اور اقدار کے لحاظ سے بتدریج تبدیلیاں لاتے رہتے ہیں ۔ قیصرانی نے بھی ایک ایسی ہی تبدیلی کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں اب دوست و احباب ایک دوسرے کیساتھ اس تہوار کو منارہے ہیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ " ایک دوسروں کو تحفے و تحائف دیا کرو" ۔ کیوں نا ہم اس تہوار کو اس حدیث کے تناظر میں رکھ کر اس کو اپنی تہذیب و اقدار اور مذہب کے مطابق ڈھال لیں ۔ ہماری اپروچ بس ایسی ہونی چاہیئے کہ ہر حال میں اخلاقی حدود کو ہم بالاتر رکھیں گے ۔
يہ بات حقائق كے خلاف ہے كہ قوميں دوسروں کے تہوار اپنا ليتى ہيں ، حقيقت يہ ہے كہ Cultural assimilation كے غلغلے كے جواب ميں بہت سى طاقتور اور توانا آوازيں ايك تحريك كى صورت اٹھی ہيں جو اس طرح غالب ثقافت ميں مدغم ہو جانے كے سخت خلاف ہيں اور اس كو رد كيا جا چكا ہے ۔ دنيا كى چھوٹی چھوٹی ثقافتيں بھی اپنی زبان اور تہوار بچانے كى جنگ پورى مستعدى سے لڑ رہی ہيں ، دور كيوں جائيے يہ فورم اردو محفل بھی اردو كو رومن اردو بن جانے سے بچانے كى كوشش كا ايك حصہ ہے تا کہ نئی پود اصطلاحاتيں جيسى اردو نہ بولے۔ : ) سالگرہ مكمل طور پر قبول كر لى گئی ہے یہ بھی ايك غير حقيقى دعوى ہے ، لوگ صرف انہی علماء كو ديكھنا چاہتے ہوں جو ان كى ہاں ميں ہاں ملائيں تو اور بات ہے ورنہ سالگرہ ، نيو ائيرنائٹ اور ويلنٹائنز ڈے نہ منانے والوں كى ايك بڑی تعداد موجود ہے۔ اس صورت حال ميں يہ كہنا كہ اسلامى ثقافت جيسى دنيا كى بڑی ثقافت دوسروں کے تہوار اپنا لے انوكھی تاويل ہے۔ فلاسفہء تاريخ كا كہنا ہے كہ غالب قوميں مغلوب قوموں كو اپنی ثقافت كے سامنے سرنگوں ديكھنا چاہتى ہيں اور مغلوب قوموں ميں ہميشہ ايك ايسى مرعوب كلاس /طبقہ پيدا كرنے ميں كامياب ہو جاتى ہے جو ان كا نقال ہوتا ہے ۔ ماہرين نفسيات كے مطابق Immitation is a sign of love نقالى دراصل محبت كى علامت ہے ۔ مرعوب قسم كا يہ طبقہ غالب قوم كو اہل كمال جان كر ان سے اپنی محبت كا اظہار ان كى ہر كام ميں نقالى كر كے كرتا ہے۔ جب سپين مسلمان فاتحين كے زير اثر تھا تو وہاں بھی سپينش نصرانيوں كى اپر كلاس كے نوجوان مسلمانوں كى طرح باقاعدگی سے غسل اور وضو كرتے ، ان كا شماغ پہنتے داڑھی ركھتے يہاں تك كہ ان ميں سے بعض نے اپنے ناموں كے ساتھ عربى ناموں كے لاحقے لگا ليے ، نصرانى پادرى ان نوجوانوں كو بے دين اور عربوں سے مرعوب گمراہ ذہن قرار ديتے تھے۔ انڈيا ميں ہندو نيوائيرنائٹ اور ويلنٹائنز ڈے منانے كے خلاف نكلتے ہيں تو اسى ليے كہ وہ اپنی ثقافت بچانا چاہتے ہيں ۔يہ سب حقائق جان لينے كے بعد بھی اگر كوئى ثقافتوں كے ادغام كو دنيا كا واحد نظريہ سمجھتا ھے تو يہ بہت بڑی علمى خطا ہے۔ اس وقت دنيا كى ايك بڑی اكثريت Cultural assimilation كا نظريہ رد كر كے Multiculturalism كى باتيں كر رہی ہے آپ اس كو نظرانداز تبھی كرسكتے ہيں جب آ پ نے Cultural assimilation كى ديوار سے ناك سختى سے چپكا رکھی ہوں اور چاہتے ہوں كہ باقى سب بھی آپ کے ساتھ اسى melting pot ميں آ جائيں ۔
 

زیک

مسافر
يہ بات حقائق كے خلاف ہے كہ قوميں دوسروں کے تہوار اپنا ليتى ہيں ، حقيقت يہ ہے كہ Cultural assimilation كے غلغلے كے جواب ميں بہت سى طاقتور اور توانا آوازيں ايك تحريك كى صورت اٹھی ہيں جو اس طرح غالب ثقافت ميں مدغم ہو جانے كے سخت خلاف ہيں

باتیں دونوں صحیح ہیں۔ دوسری ثقافتوں سے تہوار اور دوسری چیزیں اپنانا بھی کافی عام ہے (اگر یقین نہیں تو بہت سے اسلامی یا عیسائ تہواروں کی تاریخ ہی پڑھ لیں) اور اس کے خلاف تحریک بھی ہر زمانے میں اٹھتی ہیں مگر globalization آج سے نہیں سینکڑوں اور شاید ہزاروں سال سے جاری ہے۔
 
اسلام کا اپروچ یہ ہے کہ سارے انسانوں کو وہ آدم کی اولاد سمجھتا ہے ۔ ساری تہذیبوں کا انسانیت کا ورثہ سمجھتا ہے ۔ وہ صرف یہ دیکھے گا کہ کوئی مشرکانہ چیز تو اس میں شامل نہیں ہے ۔ کوئی غیر اخلاقی پہلو تو نہیں نکلتا ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو وہ کسی تہوار کا دشمن نہیں ہے ۔
رہی بات غیر شدہ مرد اور عورت کے آپس کے معاملات تو یہ ہمارے اقدار کے خلاف ہیں ۔ یہ اچھا ہوگا کہ ایسا نہ ہو ۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ یہ تہوار کسی دوسری تہذیب میں کسی اور ہی تصور سے پیش ہوا ۔ لیکن اگر ہم اس تہوار کو اپنی اقدار سے تھوڑا ہم آہنگ کرلیں ۔ تو اس تہوار کو بھی ہم اپنے اقدار اور اپنی تہذیب کے مطابق ڈھال سکتے ہیں ۔ یعنی کسی تہوار کو اسلامی ہی بنانا ضروری نہیں ہے ۔ اس میں اخلاقی پہلو آجانا چاہیئے ۔اگر کوئی غیر شادی مر و عورت اس طرح اس تہوار میں ملوث ہوتے ہیں تو ہم انہیں سمجھاسکتے ہیں جو ہم عام زندگی میں بھی کرتے ہیں ۔ تہوار یا اس قسم کی چیزیں دوسری قوموں میں جب منتقل ہوتیں ہیں تو اس میں تبدیلیاں بھی آجاتیں ہیں ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کی تاریخ ہی کو گڑھے مُردوں کی طرح اکھاڑا جائے ۔ ان تہواروں میں قومیں آہستہ آہستہ اپنے مزاج اور اقدار کے لحاظ سے بتدریج تبدیلیاں لاتے رہتے ہیں ۔ قیصرانی نے بھی ایک ایسی ہی تبدیلی کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں اب دوست و احباب ایک دوسرے کیساتھ اس تہوار کو منارہے ہیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ " ایک دوسروں کو تحفے و تحائف دیا کرو" ۔ کیوں نا ہم اس تہوار کو اس حدیث کے تناظر میں رکھ کر اس کو اپنی تہذیب و اقدار اور مذہب کے مطابق ڈھال لیں ۔ ہماری اپروچ بس ایسی ہونی چاہیئے کہ ہر حال میں اخلاقی حدود کو ہم بالاتر رکھیں گے ۔
بظاہر يہ بات بہت اچھی ہے اسلام ثقافتى معاملات ميں واقعى صرف اصول ديتا ہے جو چيز ان اصولوں كے خلاف نہ ہو وہ اسلامى ہے۔ ليكن كيا تہواروں کے متعلق يہ بات درست ہے؟ بات يہ ہے كہ تہوار کے معاملے ميں حبيب اللہ حضرت محمد صلى اللہ عليہ وسلم صرف دو تہواروں كو اسلام كا تہوار قرار دے چکے ہيں اور وہ ہيں عيدين !
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اہل مدینہ دو دن بہ طور تہوار منایا کرتے تھے جن میں وہ کھیل تماشے کیا کرتے تھے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے دریافت کیا فرمایا: یہ دو دن جو تم مناتے ہو ، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم عہد جاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے۔یہ سن کر رسول مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالٰی نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے میں تمہارے لیے ان سے بہتر دو دن مقرر فرما دیے ہیں ،یوم (عید ) الاضحٰی اور یوم (عید) الفطر۔
غالباً وہ تہوار جو اہل مدینہ اسلام سے پہلے عہد جاہلیت میں عید کے طور پر منایا کرتے تھے وہ نوروز اور مہرجان کے ایام تھے ، مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ تہوار منانے سے منع فرما دیا اور فرمایا اللہ تعالٰی نے ان کے بدلے میں اپنے خصوصی انعام کے طور پر عید الفطر اور عید الاضحٰی کے مبارک ایام مسلمانوں کو عطا فرمائے ہیں۔
رہا تہواروں كى تاريخ كو زير بحث لانے كو گڑے مردے اكھاڑنے كہنا تو ذرا يہ حديث مبارك ايك بار پھر غور سے ديکھیے، رسول كريم حضرت محمد صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كا پس منظر دريافت فرمايا يا نہيں؟
كيا بہتر ہے ايك مسلمان كے ليے ؟ وہ جس كو رسول كريم حضرت محمد صلى اللہ عليہ وسلم نے بہتر كہا يا وہ جو ہمارا دل چاہے؟
زباں پہ صرف ہيں دعوے مثال كوئی نہيں
ديار حب نبى ص ميں بلال رض كوئى نہيں !​
۔ فلسفہء تاريخ كے مطالعے كے دروان كہيں نظر سے گزرا تھا كہ انسان كے حسب نسب كى طرح قوموں كا حسب نسب بھی ان كی عادات و كردار كى تشكيل ميں اہم كردار ادا كرتا ہے اور تہوار قوموں كى عادتيں ہوتے ہيں بے حيائى اور بے غيرتى كے عفريت كا شكار قوموں كے تہوار بھی يہی کچھ پھيلاتے ہيں ۔مسلمانوں كى عيد ميں اجتماعى عبادت اوراجتماعى قربانى ہے ، معاشرتى ميل ملاپ اور لين دين ہے ۔پاكيزہ خوشى كا مظہر ہے۔جب كه اس تہوار ميں انفرادى خود غرضى اور نفسانى خواہشات كا وقتى لطف ہے اور كچھ بھی نہيں ، يہ جہاں سے آيا ہے وہاں بھی اس كو اوباشوں كا دن سمجھا جاتا ہے ۔ اگر كسى كو يہ خوش فہمى ہے كہ يہ تہوار صرف شادى شدہ جوڑوں تك محدود رہے گا تو يہ صرف خيالى پلاؤ ہيں ۔ حقيقت سب كے سامنے ہے تشريح كى كوئى ضرورت ہی باقى نہيں رہ جاتى ۔ آپ ان دو عيدوں سے باہر جتنے بھی تہوار اختيار كريں گے وہ آپ کے سال بھر کے كيلنڈر كو ضرور متاثر كريں گے خواہ نيو ائير ہو يا ويلنٹائن نامى پادرى كا دن ۔ آپ كو سوچنا پڑے گا كہ آپ معاشى طور پر سال بھر ميں كتنے تہوار منانے كى استطاعت ركھتے ہيں؟ كيا آپ جانتے ہيں كہ عالمى ادارہ خوراك كى ايك تازہ رپورٹ كے مطابق پاكستان ميں 35% انسان غذائى كمى كا شكار ہيں ، مختلف صوبوں ميں يہ حالات محتلف ہيں ، صوبہ سندھ ميں 70 % لوگ غذائى كمى كا شكار ہيں ! تو جناب يہ تہوار در تہوار بھرے پيٹوں كى باتيں ہيں ... سرخ غبارے پھول چاكليٹ خريد نہ سكنے والو ں کے دل نہيں ہوتے يا وہ محبت نہيں كرتے؟
 

عثمان

محفلین
نہیں ، جناب، مسئلہ کی وجہ مذہبی اقدار نہیں بلکہ ثقافتی ہیں۔
اس مسئلہ پر کوشش میں ہوں کہ راستہ ناپوں لیکن لوگ ہیں کہ پھر راستے میں ٹانگ اڑانے (بلکہ چکر دینے) چلے آتے ہیں۔ خیر ایک مختصر مراسلہ اور سہی ..
اس دھاگے کے پہلے مراسلہ میں موجود تصویر بغور ملاحضہ کیجیے۔ معلوم ہوجائے گا کہ مذہب اس مسئلہ سے کتنا دور ہے۔ مزید عرض یہ ہے کہ ثقافت نہیں ... حضور والا یہ اسلامی ثقافت کا معاملہ ہے۔ مذہب کو ثقافت سے الگ رکھنا ، ذرا روشن خیالانہ اور سیکولرانہ طرز فکر ہے۔ ;)
 
Top