برداشت کی حد ؟

زیک

مسافر
نہ انگریزوں اور مغرب کا قصور ہے اور نہ حکومت اور ٹی وی کا. مغرب یا ٹی وی تو لڑکوں کو نہیں سکھاتے کہ لڑکیوں کے سکول کالج کے گرد گھومیں اور نہ ہی مردوں کو خواتین کو گھورنے کی تربیت دی جاتی ہے. ایسے معاشرے سے ویلنٹائن ڈے خوش اسلوبی سے منانے کی کیسے توقع کی جا سکتی ہے
 

شمشاد

لائبریرین
قصور سراسر حکومت اور میڈیا کا ہی ہے۔ جو کھلے عام چھوٹ دے رکھی ہے۔ بلکہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
 

عسکری

معطل
بڑی عجیب دنیا ہے ویسے انسان پر جتنی پابندیاں لگاؤ گے وہ اتنا باغی بن کر نکلے گا ۔ ایک نان ایشو پر اتنی بھڑاس نکالیں گے تو یہی ہو گا :ROFLMAO:
 
ميرے نزديك كسى انسان كے جذبات نان ايشو نہيں ہيں اور يہاں محبت كے نام پركئى كئى لڑكيوں كو چيٹ كرنے كى بات ہورہی ہے۔ مزيد وضاحت مسلمانوں كے ہاں محرم اور نامحرم اور نكاح سے قبل كى محبت بہت سنجيدہ ايشوز ہيں ،
جن لوگوں كے نزديك خدا اور سگی بہن بھی نان ايشو ہو وہ كسى دوسرے دھاگے ميں بخوشى لوٹنیاں لگا سكتے ہيں۔ كوئى كمپلژن نہيں ۔
 

عسکری

معطل
ميرے نزديك كسى انسان كے جذبات نان ايشو نہيں ہيں اور يہاں محبت كے نام پركئى كئى لڑكيوں كو چيٹ كرنے كى بات ہورہی ہے۔ مزيد وضاحت مسلمانوں كے ہاں محرم اور نامحرم اور نكاح سے قبل كى محبت بہت سنجيدہ ايشوز ہيں ،
جن لوگوں كے نزديك خدا اور سگی بہن بھی نان ايشو ہو وہ كسى دوسرے دھاگے ميں بخوشى لوٹنیاں لگا سكتے ہيں۔ كوئى كمپلژن نہيں ۔
میرے لیے یہ سب وقت گزاری کی پوسٹس ہیں نا کہ کوئی مشن ۔ جب میں یہ سب سردی گرمی دیکھتا ہوں بہت انجوائے کرتا ہوں :laugh: بہنیں اب یاد آ جاتی ہیں؟ وہ بھی انسان ہیں اور ان کو اپنی مرضی سے جینے کا برابر حق ہے چاہے ایک رکھیں یا 15 ہمارا کیا جاتا ہے؟ جب تک 18 سال کی نا ہوں تب تک سمجھانا چاہیے اور ساتھ دینا چاہیے جب 18 سے اوپر ہو جائیں میرا خیال ہے ان کی مرضی چاہے جو کریں وہ خود بالغ اور عاقل ہیں
 

عسکری

معطل
اور ہاں یہ دن منایا جائے گا اور منایا جاتا رہا ہے صدیوں سے جس دن آپ اسے بند کرا دینا مجھے ضرور انفارم کرنا :bighug: آپ لوگ چاہے ایسے 18 کروڑ دھاگے کھولو ہر ایک پاکستانی کا ایک دھاگہ سمجھ کر پھر بھی کچھ نہیں ہونے والا ۔ یہ سب ٹوپی ڈرامہ معاشرے میں دراڑیں تو ڈال سکتا ہے پر ویلنٹائن ڈے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ مجھے نہیں لگتا کہ ایک مشن ہے جس کا رزلٹ اچھا نکلے گا۔ اگلے سال اس سے زیادہ لوگ منائیں گے اور اس سے اگلے سال مزید جیسا کہ 50 سال پہلے صرف 100-200 لوگ پاکستان میں مناتے ہوں گے اب 1-2 کروڑ اگلے 10-20 سال میں یہ تعداد 7 کروڑ تک جا پہنچے گی اسی طرح کی سپیڈ سے ۔یہ ایک نان ایشو تھا جس پر اتنا واویلا کر کے ان لوگوں کو راغب کیا گیا ہے اس طرف کہ مناؤ ۔ میں نے زندگی میں پہلی بار منایا آپ کی ضد میں :mrgreen:
 
۔یہ ایک نان ایشو تھا جس پر اتنا واویلا کر کے ان لوگوں کو راغب کیا گیا ہے اس طرف کہ مناؤ ۔ میں نے زندگی میں پہلی بار منایا آپ کی ضد میں :mrgreen:
یہ گپ لگانے سے قبل اس موضوع كى ابتدا كى تاريخ پر نظر ڈال ليتے ۔:giggle:
باقى سب باتوں كے ليے معذرت ، ايك ٹرم ہے مرفوع القلم وہ ياد آ گئی ۔
 

عسکری

معطل
یہ گپ لگانے سے قبل اس موضوع كى ابتدا كى تاريخ پر نظر ڈال ليتے ۔:giggle:
باقى سب باتوں كے ليے معذرت ، ايك ٹرم ہے مرفوع القلم وہ ياد آ گئی ۔
تو اس کا مطلب؟ یہاں ہر طرح کے دن منائے جا رہے ہیں پہلے ہی ایک کو اتفاق ہے تو دوسرے کو شدید اختلاف اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ یہ عیسائی پادری کے نام پر اور اس کا شروع کیا ہوا دن ہے؟ اقوام متحدہ کے جتنے دن ہیں سب پاکستان میں منائے جاتے ہیں وہ بھی انہیں عیسائیوں کا آیڈیا ہے ۔ اس میں کوئی مشکل نہیں کہ کون اسے شروع کر گیا پر اچھا کیا جو بھی کیا :mrgreen:
 

محمد امین

لائبریرین
یہ گپ لگانے سے قبل اس موضوع كى ابتدا كى تاريخ پر نظر ڈال ليتے ۔:giggle:
باقى سب باتوں كے ليے معذرت ، ايك ٹرم ہے مرفوع القلم وہ ياد آ گئی ۔

بہن۔۔۔ یہ لوگ تو چلیں ایک "شہیدِ محبت" کا دن منا رہے ہیں۔۔۔ ہم کس کس کا ماتم کریں، کچھ حضرات (خواتین بھی) کرسمس، ہولی، دیوالی سب مناتے ہیں۔۔۔

اصح ترین بات تو یہ ہے کہ جب انسان آزادیوں سے مبراء ہونا چاہتا ہے تو وہ واقعی بہت مبراء ہوجاتا ہے اور یہ تک بھول جاتا ہے کہ وہ اپنا مقامِ پیدائش اختیار کرنے میں بھی آزاد نہیں۔۔۔
اگر تو آزادیٔ اظہار سے یہ مغرب زدہ تہذیب یہی مراد لیتی ہے کہ ہر شخص اپنی زندگی گزارنے کے لیے مختار ہے تو ان کے فلاسفہ یکے بعد دیگرے لائن نہ لگا دیتے فلسفوں کی۔۔۔
جو لوگ خود کو مذہب کی قید سے ماوراء سمجھتے ہیں وہ نہ جانے کیوں ریاست کی قید خوشی خوشی قبول کر لیتے ہیں۔۔ انسان کی حکومت تو مانیں گے، خالق الانسان کی حکومت پر اعتراض ہے۔۔۔حالانکہ خالق کی حکومت کا اعلان بھی تو انہی جیسے انسانوں نے کیا ہے کہ جن کے آئین اور قانون کی پیروی کر کے یہ نئی تہذیب کہلاتے ہیں۔۔۔ میگنا کارٹا اور امریکی آئین تو محترم، آئینِ محمدی پر اعتراض۔۔۔۔ وائے عقل۔۔۔
 

محمد امین

لائبریرین
اور ہاں یہ دن منایا جائے گا اور منایا جاتا رہا ہے صدیوں سے جس دن آپ اسے بند کرا دینا مجھے ضرور انفارم کرنا :bighug: آپ لوگ چاہے ایسے 18 کروڑ دھاگے کھولو ہر ایک پاکستانی کا ایک دھاگہ سمجھ کر پھر بھی کچھ نہیں ہونے والا ۔ یہ سب ٹوپی ڈرامہ معاشرے میں دراڑیں تو ڈال سکتا ہے پر ویلنٹائن ڈے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ مجھے نہیں لگتا کہ ایک مشن ہے جس کا رزلٹ اچھا نکلے گا۔ اگلے سال اس سے زیادہ لوگ منائیں گے اور اس سے اگلے سال مزید جیسا کہ 50 سال پہلے صرف 100-200 لوگ پاکستان میں مناتے ہوں گے اب 1-2 کروڑ اگلے 10-20 سال میں یہ تعداد 7 کروڑ تک جا پہنچے گی اسی طرح کی سپیڈ سے ۔یہ ایک نان ایشو تھا جس پر اتنا واویلا کر کے ان لوگوں کو راغب کیا گیا ہے اس طرف کہ مناؤ ۔ میں نے زندگی میں پہلی بار منایا آپ کی ضد میں :mrgreen:


اے نظامِ کہن کے فرزندو!
اے شبِ تار کے جگر بندو!

یہ شبِ تار جاوداں تو نہیں،
یہ شبِ تار جانے والی ہے،
تا بکے تیرگی کے افسانے،
صبحِ نو مسکرانے والی ہے،

اے شبِ تار کے جگر گوشو!
اے سحر دشمنو، ستم کوشو!

صبح کا آفتاب چمکے گا،
ٹوٹ جائے گا جہل کا جادو،
پھیل جائے گی ان دیاروں میں،
علم و دانش کی روشنی ہر سو،

اے شبِ تار کے نگہبانو!
شمعِ عہدِ‌زیاں کے پروانو!
شہرِ ظلمات کے ثناء خوانو!
شہرِ ظلمات کو ثبات نہیں،
اور کچھ دیر صبح پر ہنس لو،
اور کچھ دیر۔۔۔۔ ۔۔ کوئی بات نہیں!!



حبیب جالب۔۔۔
 

شہزاد وحید

محفلین
میرا مطلب ہے کہ قدرت نے انسان کے خمیر میں صنف مخالف کے لیے شیدید کشش رکھی ہے تو اب کیا جائے؟؟؟ قدرت نے جو کیا اس کے آگے اب ہم کیا کر سکتے ہیں۔ یار پیٹریاٹ ذرا بتاؤ ہاں۔
 

عسکری

معطل
میرا مطلب ہے کہ قدرت نے انسان کے خمیر میں صنف مخالف کے لیے شیدید کشش رکھی ہے تو اب کیا جائے؟؟؟ قدرت نے جو کیا اس کے آگے اب ہم کیا کر سکتے ہیں۔ یار پیٹریاٹ ذرا بتاؤ ہاں۔
میں ایسا نہیں کہتا کیونکہ اب میرے مراسلات پر کوئی نطر رکھنے والی ہے :atwitsend: پر میں آپکے ان خیالات کے ساتھ متفق ہوں ۔ اب یہاں نکاح ہوتے ہیں 30 -35 میں اور جوانی آ جاتی ہے 16 میں تو بندہ آپشنز نکالتا رہتا ہے ۔ اوپر سے مہنگائی بے روزگاری نے ستیاناس مار دیا ہے بچی کھچی اکانومی دہشت گرد چاٹ گئے ہیں اب یہ تو ہو گا نا یار ۔

ویسے بندہ شریف ہے اور کسی حسینہ کو وش نہیں کر رہا تھا بلکہ اسی کو کر رہا تھا جو مراسلے پڑھتی ہیں :laugh:
 

ساجد

محفلین
کافی سے زیادہ بحث ہو چکی نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ محترمین ، پاکستانی معاشرہ بھی انسانوں ہی کا معاشرہ ہے جس میں لاکھوں برائیاں دنیا کے ہر معاشرے کی طرح موجود ہیں۔ یہ بات بہت آسان ہے کہ دلیل نہ ملی تو روشن خیالی کی حدود انسان کی عمومی حمیت کے نازک پہلوؤں تک بھی وسیع کر ڈالی ۔
یہاں معاملہ ایشو کا ہی نہیں اس فلسفے کا ہے جس کی یاد میں یہ دن منایا جاتا ہے جو اس فلسفے سے متفق ہیں ہم ان سے کوئی تعرض نہیں کرتے لیکن اپنی بات کہنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ ہم اگر اپنے مذہب کے احکامات کی روشنی میں ایک بات کہہ رہے ہیں تو نہ کسی معاشرے پر حملہ کر رہے ہیں اور نہ کسی کے مذہبی یا بے دینی نظرئیے پر؛ اور اس بات کو اسی تناظر میں سمجھا جائے۔ اس کے جواب میں کسی کے پاس کوئی دلیل ہے تو لے آئے اگر نہیں تو معاملے کو غلط رخ پر ڈالنے کی کوشش نہ کرے اور جس کا جی چاہتا ہے دل کھول کر اس دن کو منائے کہ ہم نہ کلکٹر ہیں نہ حاکم جو ڈنڈے سے بات منوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارا کام تھا اندھی تقلید میں اپنی ثقافت سے دور جانے پر خبردار کرنا سو ہم نے کر دیا۔
 

زلفی شاہ

لائبریرین
اے نظامِ کہن کے فرزندو!
اے شبِ تار کے جگر بندو!

یہ شبِ تار جاوداں تو نہیں،
یہ شبِ تار جانے والی ہے،
تا بکے تیرگی کے افسانے،
صبحِ نو مسکرانے والی ہے،

اے شبِ تار کے جگر گوشو!
اے سحر دشمنو، ستم کوشو!

صبح کا آفتاب چمکے گا،
ٹوٹ جائے گا جہل کا جادو،
پھیل جائے گی ان دیاروں میں،
علم و دانش کی روشنی ہر سو،

اے شبِ تار کے نگہبانو!
شمعِ عہدِ‌زیاں کے پروانو!
شہرِ ظلمات کے ثناء خوانو!
شہرِ ظلمات کو ثبات نہیں،
اور کچھ دیر صبح پر ہنس لو،
اور کچھ دیر۔۔۔۔ ۔۔ کوئی بات نہیں!!


حبیب جالب۔۔۔
الفاظ سے ذہن کی عکاسی ہوتی ہے ۔ کسی کی گفتگو اور مضمون اس کی شخصیت کا نقشہ کھینچتے ہیں۔ اس دھاگے میں یکے بعد دیگرے آپ کی دو پوسٹس میری نظروں سے گزری ہیں۔ آپ نے اپنے پاکیزہ خیالات کو خوبصورت پیرائے میں بڑی عمدگی سے استعمال کیا ہے جس سے آپ کی پاکیزہ سوچ مرتشع ہو رہی ہے۔ اللہ تعالی تمام مسلمانوں کوآپ جیسے پاک و طاہر اوصاف حمیدہ عطا فرمائے۔ ڈھیر ساری داد قبول فرمائیں۔ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے آپ کے لئے یہ دعا نکل رہی ہے’’ اللھم زد فزد‘‘
 

زلفی شاہ

لائبریرین
کافی سے زیادہ بحث ہو چکی نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ محترمین ، پاکستانی معاشرہ بھی انسانوں ہی کا معاشرہ ہے جس میں لاکھوں برائیاں دنیا کے ہر معاشرے کی طرح موجود ہیں۔ یہ بات بہت آسان ہے کہ دلیل نہ ملی تو روشن خیالی کی حدود انسان کی عمومی حمیت کے نازک پہلوؤں تک بھی وسیع کر ڈالی ۔
یہاں معاملہ ایشو کا ہی نہیں اس فلسفے کا ہے جس کی یاد میں یہ دن منایا جاتا ہے جو اس فلسفے سے متفق ہیں ہم ان سے کوئی تعرض نہیں کرتے لیکن اپنی بات کہنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ ہم اگر اپنے مذہب کے احکامات کی روشنی میں ایک بات کہہ رہے ہیں تو نہ کسی معاشرے پر حملہ کر رہے ہیں اور نہ کسی کے مذہبی یا بے دینی نظرئیے پر؛ اور اس بات کو اسی تناظر میں سمجھا جائے۔ اس کے جواب میں کسی کے پاس کوئی دلیل ہے تو لے آئے اگر نہیں تو معاملے کو غلط رخ پر ڈالنے کی کوشش نہ کرے اور جس کا جی چاہتا ہے دل کھول کر اس دن کو منائے کہ ہم نہ کلکٹر ہیں نہ حاکم جو ڈنڈے سے بات منوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارا کام تھا اندھی تقلید میں اپنی ثقافت سے دور جانے پر خبردار کرنا سو ہم نے کر دیا۔
سو فیصد متفق۔ جیسا ضمیر ویسی صدا۔ ارشاد باری تعالی ہے۔ تعاونوا علی البر والتوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے جلائی جانے والے آگ کو ایک کرلا پھونک مارمار کر تیز کرنے کی کوشش کر رہا تھا، دوسری طرف ایک کمزور سی چڑیا اپنی چونچ میں پانی لیکر اس کو بجھانے کی کوشش کررہی تھی۔ نہ تو کرلے کی پھونکوں سے وہ آگ تیز ہونے والی تھی اور نہ چڑیا کی چونچ کے پانی سے وہ آگ بجھنے والی تھی۔ اپنے اپنے مقدر اور اپنے اپنے نصیب کی بات ہے۔
اپنے بڑوں سے ایک بزرگ کا واقعہ سنا تھا۔ کہتےہیں کہ ایک بچھو نہر میں ڈوب رہا تھا۔ وہ بزرگ اسے بار بار اٹھا کر باہر نکالنے کی کوشش کرتے تھے لیکن ہر بار بچھو ڈس لیتا تھا۔ لوگوں نے اس بزرگ سے کہا کہ اس کو ڈوبنے دیں وہ بار بار آپ کو ڈس رہا ہے اور آپ باربار اس کو بچانےکی کیوں کوشش کر رہے ہیں؟ اس بزرگ نے فرمایا جب وہ اپنی بری عادت سے باز نہیں آ رہا تو میں اپنی اچھی عادت سے کیوں باز آ جاؤں۔
 

ظفری

لائبریرین
"برداشت کی حد " گو کہ موضوع ہے مگر مغرب سے پُرخاش ہونے کے باعث ایک خاص نکتہِ نظر چند جذباتی باتوں میں ڈھالا جا رہا ہے ۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ایک تو ہم نے سوچنے سمجھنے اور کچھ کرنے کا کام گذشتہ پانچ سو سالوں سے چھوڑ رکھا ہے ۔ ان پانچ سالوں میں مغرب ہم تقریباِ 150 سال آگے نکل گیا ہے ۔ ہم سے کچھ کام تو ہو نہیں سکتا ۔ سو لعنت و طعن ہی سہی ۔ کوسنے سے بھی باز نہیں آتے ۔ مگر مغرب کی ہر ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہیں ۔ ہر ہنر و حرب کو خریدنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ میرا خیال ہے میری بھی " برادشت کی حد " گذر نہ جائے ۔ میں تیسری بار اپنی اایک پرانی پوسٹ کو یہاں محفل پر چسپاں کر رہا ہوں ۔ اگر آنکھوں سے تعصب اور محرومیوں کی پٹی ہٹا کر اسے پڑھیں تو شاید " برداشت کی حد" ایک مذہبی اور اخلاقی شکل میں ہمارے معاشر ے میں کہیں نمودار ہوجائے ۔ مغرب سے ہم نے کتنے تہوار لیئے ہیں ۔ مگر وقت گذرنے کیساتھ ہم نےاپنےمعاشرے سے مطابقت رکھتے ہوئے ان میں ہمیشہ ا خلاقی پہلو ہمیشہ اُجاگر کیا ہے ۔ بلکل اسی طرح اس " برداشت کی حد" کا کسی دوسرے پہلو سے بھی جائزہ لیکر دیکھیں ۔

پہلے ہم ہندوستان آئے تو ہندوؤں کی بہت سی چیزیں ہماری ثقافت اور تہذیبوں میں داخل ہوگئیں ۔اب چونکہ دنیا ایک گلوبل وولیج بن گئی ہے ۔ چناچہ اب دوسرے ملکوں‌سے بھی بہت سی چیزیں ہمارے ملک میں آرہیں ہیں ۔ پہلے ہمارے ہاں سالگرہ کا تہورار اس طریقے سے نہیں منایا جاتا تھا ۔ اب گھر گھر میں سالگرہ کی تقریب ہوتی ہے ۔ کیک کاٹے جاتے ہیں ۔ ہپی برتھ ڈے کیا جاتا ہے بلکہ گایا جاتا ہے ۔ اس میں مذہبی علماء بھی شامل ہیں ۔ اس میں سیاست دان بھی شامل ہیں ۔ اب سب اس طرح کی تقریبات منقعد کرتے ہیں ۔ ایسا معاملہ اب اس تہوار کیساتھ بھی ہو رہا ہے ۔ ظاہر ہے جب ہم مغربی تہذیب کیساتھ متعلق ہو رہے ہیں تو بہت سے ان کے تہوار بھی آرہے ہیں ۔ اس تہوار کی اگر آپ اصل پر غور کریں تو اس میں کوئی ایسی بیہودگی نہیں تھی ۔ بلکہ یہ شادی کے رشتے کے تقدس کو قائم رکھنے کے لیئے ایک تہوار تھا جو لوگوں نے قائم کیا ۔ ہماری تہذیب کو ویسے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ ہمارے ہا ں‌نہ تو رباعینت رہی ہے جو عیسائیوں کے ہاں‌ تھی ۔ نہ شادی کوئی اس نوعیت کا مسئلہ رہی ہے ۔ اس وجہ سے ہمارے معاشرے میں اس تہوار کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہونی چاہیئے ۔ لیکن جب تہذیبوں‌کا باہمی تعلق قائم ہونے لگتا ہے تو اس میں لوگ منانے لگ جاتے ہیں ۔ ذاتی طور پر مجھے یہ تہوار پسند نہیں ہے ۔ کیونکہ اس میں کچھ غیر اخلاقی چیزوں کے آنے کا بھی خدشہ ہے ۔کیونکہ اب یہ معاملہ شادی شدہ جوڑوں کے درمیان ہی نہیں رہا ۔ اس میں کچھ حدود سے باہر بھی چھلانگ لگائی گئی ہے ۔ اس وجہ سے لوگوں کو اس سے انحراف کا مشورہ دیا جائے تو اچھی بات ہے ۔

تہوار اسی طرح قوموں میں اٹھتے ہیں ۔ اور دوسری قومیں آہستہ آہستہ اپنے باہمی تعلق کی وجہ سے ان تہواروں ‌کو قبول کرلیتیں ہیں ۔ ہوسکتا ہے اس تہوار میں بھی ہمارا معاشرہ اسی طرح آہستہ آہستہ کچھ ایسی بعض تبدیلیاں کرلے ۔ جو ہماری معاشرت ، ہماری ثقافت ، ہماری تہذیب ، ہماری اخلاقی روایات اور اقدار پر مبنی ہو ۔ یہ ممکن ہے ۔ مگر ہم زیادہ سے زیادہ کیا کرسکتے ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب کوئی تہوار لوگ منانا شروع کریں تو دیکھیں کہ اس تہوار میں نقص کیا ہے ۔ کوئی چیز غیر اخلاقی تو نہیں ہے ۔ کوئی چیز مذہبی نوعیت کی تو نہیں ہے ۔ اس میں کوئی ایسی چیز تو نہیں ہے جس سے ہماری اقدار ممانعیت کا حکم لگاتی ہو ۔ ہمیں اس زاویے سے چیزوں‌کا دیکھنا چاہیئے ۔ ہر چیز ہم غیروں کی قرار دیدیں اور رد کرنا شروع کردیں تو یہ کوئی مثبت عمل نہیں ہے ۔ میرا اپنا نقطہ ِ نظر یہ ہے کہ کچھ دیر بعد ہماری یہ ممانعیت رد ہوجائے گی اور لوگ اس چیز کو نہیں چھوڑیں گے ۔

سالگرہ کیساتھ بھی یہی ہوا ۔ دیکھئے کہ ایک گھر میں اب یہ تصور کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ بچوں یا بڑوں کی سالگرہ نہیں منائی جائے گی ۔ حالانکہ خود ہماری تہذیب میں اس کی کوئی روایت نہیں تھی ۔ ہم بچوں کی آمین کراتے تھے ۔ بچوں کا عقیقہ کرتے تھے ۔ لیکن اس طریقے کی کوئی تقریب ہمارے ہاں منقعد نہیں ہوتی تھی ۔ لیکن اب ہر گھر میں ہوتی ہے اور ظاہر یہ باہر سے آئی ہے ۔ ویلنٹائن ڈے کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اگر ا سمیں کوئی غیر اخلاقی پہلو نہیں ہے ۔ اور لوگ اسلامی اقدار کا لحاظ رکھتے ہیں ۔ اور ہماری تہذیب کے اندر اسے کوئی صورت دیدتے ہیں تو پھر کوئی بات کہی جا سکتی ہے ۔ اسلام کا اپروچ یہ ہے کہ سارے انسانوں کو وہ آدم کی اولاد سمجھتا ہے ۔ ساری تہذیبوں کا انسانیت کا ورثہ سمجھتا ہے ۔ وہ صرف یہ دیکھے گا کہ کوئی مشرکانہ چیز تو اس میں شامل نہیں ہے ۔ کوئی غیر اخلاقی پہلو تو نہیں نکلتا ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو وہ کسی تہوار کا دشمن نہیں ہے ۔

رہی بات غیر شدہ مرد اور عورت کے آپس کے معاملات تو یہ ہمارے اقدار کے خلاف ہیں ۔ یہ اچھا ہوگا کہ ایسا نہ ہو ۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ یہ تہوار کسی دوسری تہذیب میں کسی اور ہی تصور سے پیش ہوا ۔ لیکن اگر ہم اس تہوار کو اپنی اقدار سے تھوڑا ہم آہنگ کرلیں ۔ تو اس تہوار کو بھی ہم اپنے اقدار اور اپنی تہذیب کے مطابق ڈھال سکتے ہیں ۔ یعنی کسی تہوار کو اسلامی ہی بنانا ضروری نہیں ہے ۔ اس میں اخلاقی پہلو آجانا چاہیئے ۔اگر کوئی غیر شادی مر و عورت اس طرح اس تہوار میں ملوث ہوتے ہیں تو ہم انہیں سمجھاسکتے ہیں جو ہم عام زندگی میں بھی کرتے ہیں ۔ تہوار یا اس قسم کی چیزیں دوسری قوموں میں جب منتقل ہوتیں ہیں تو اس میں تبدیلیاں بھی آجاتیں ہیں ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کی تاریخ ہی کو گڑھے مُردوں کی طرح اکھاڑا جائے ۔ ان تہواروں میں قومیں آہستہ آہستہ اپنے مزاج اور اقدار کے لحاظ سے بتدریج تبدیلیاں لاتے رہتے ہیں ۔ قیصرانی نے بھی ایک ایسی ہی تبدیلی کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں اب دوست و احباب ایک دوسرے کیساتھ اس تہوار کو منارہے ہیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ " ایک دوسروں کو تحفے و تحائف دیا کرو" ۔ کیوں نا ہم اس تہوار کو اس حدیث کے تناظر میں رکھ کر اس کو اپنی تہذیب و اقدار اور مذہب کے مطابق ڈھال لیں ۔ ہماری اپروچ بس ایسی ہونی چاہیئے کہ ہر حال میں اخلاقی حدود کو ہم بالاتر رکھیں گے ۔
 

عثمان

محفلین
ظفری ، میرے بھائی ، "برداشت" تو آپ سے بھی نہیں ہوا۔ :)
یہ دھاگا "بھڑاس" نکالنے کے لئے تھا۔ آپ اپنا سیکولر واعظ بیچ میں لے آئے۔ :D
 

ظفری

لائبریرین
میں نے بھی بھڑاس ہی نکالی ہے ۔ ویسے یہ سیکولر کی اصطلاح بھی خوب ہے ۔ ہمارے ہاں ہمیشہ درمیان کا راستہ سیکولر کیوں بن جاتا ہے ۔ :notworthy:
 
Top