برا ہِ کرم تقطیع کر دیں

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ہراک کہہ رہا ہے وفا مل رہی ہے
یہ کیوں مجھ کو اتنی سزا مل رہی ہے

شہرکی ترے جو ہوا مل رہی ہے
چلو کچھ تو مجھ کو دعا مل رہی ہے

مرے دل جگر میں ترے غم سے رونک
میں زندہ ہوں مجھ کو جفا مل رہی ہے

ارے مجھ سے اب بھی محبت ہے تم کو
محبت تو بن کر سزا مل رہی ہے

یہ تم کہہ رہے ہو وفا مل رہی ہے
یہ میں جانتا ہوں کہ کیا مل رہی ہے

مین جب بھی نکلتا ہون ملنے کو تم سے
مجھے راستے میں انا مل رہی ہے



سر جی اس کو دیکھے اور جہاں میں نے شہر استعمال کیا ہے کیا یہ ٹھیک ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
لہو ہی لہو ہے زمیں سب، وطن کی
کہ اب کیا مرا حکمراں ما نگتا ہے

وارث بھائی اس شعر کو پلیز اسطرح دیکھیں، میرا مطلب میں نے وہی رکھنے کی کوشش کی ہے

بہت خوب ساگر صاحب، یہ شعر مکمل وزن میں ہے۔

نوائے سحر کا اشارہ دے کوئی
سفینے کو میرے کنارہ دے کوئی

دے گرما لہو کو مرے جو خدایا
جگر کومرے وہ شرارہ دے کوئی

ہے منظور مجھ کو ترے دل میں رہنا
اگر تو مجھے تُو سہارا دے کوئی

بھائی اب ذرا دیکھیں ان اشعار کو

یہ اشعار بھی وزن میں ہیں، صرف 'دے' کے استعمال پر میں تھوڑا سا "ڈاؤٹ فُل" ہوں، ان اشعار میں ہر جگہ 'دے' بروزنِ 'دِ' بندھا ہے، میں اسے غلط تو نہیں کہتا لیکن اساتذہ کے کلام میں شاید اسکی کوئی مثال بھی میرے ذہن میں نہیں ہے۔ ابھی کوشش یہی کریں کہ خاص طور پر 'اخفا' یعنی گرانے کا عمل کم سے کم کریں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ہراک کہہ رہا ہے وفا مل رہی ہے
یہ کیوں مجھ کو اتنی سزا مل رہی ہے

شہرکی ترے جو ہوا مل رہی ہے
چلو کچھ تو مجھ کو دعا مل رہی ہے

مرے دل جگر میں ترے غم سے رونک
میں زندہ ہوں مجھ کو جفا مل رہی ہے

ارے مجھ سے اب بھی محبت ہے تم کو
محبت تو بن کر سزا مل رہی ہے

یہ تم کہہ رہے ہو وفا مل رہی ہے
یہ میں جانتا ہوں کہ کیا مل رہی ہے

مین جب بھی نکلتا ہون ملنے کو تم سے
مجھے راستے میں انا مل رہی ہے

سر جی اس کو دیکھے اور جہاں میں نے شہر استعمال کیا ہے کیا یہ ٹھیک ہے

'شہر' آپ نے غلط باندھا ہے، 'شہر' کا صحیح تلفظ 'شہ ر' ہے یعنی ہ اور ر دونوں ساکن ہیں، یعنی صحیح وزن 2 1 یا فاع ہے۔ آپ نے اسے 'شہَر' یعنی ہ کی حرکت کے ساتھ ش ہَر یا 1 2 یا فعو (فعَل) باندھا ہے جو کہ غلط ہے۔

باقی تمام اشعار وزن میں ہیں، بہت خوب۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
'شہر' آپ نے غلط باندھا ہے، 'شہر' کا صحیح تلفظ 'شہ ر' ہے یعنی ہ اور ر دونوں ساکن ہیں، یعنی صحیح وزن 2 1 یا فاع ہے۔ آپ نے اسے 'شہَر' یعنی ہ کی حرکت کے ساتھ ش ہَر یا 1 2 یا فعو (فعَل) باندھا ہے جو کہ غلط ہے۔

باقی تمام اشعار وزن میں ہیں، بہت خوب۔

جی سر بہت شکریہ مجھے پہلے ہی شق تھا اس لے میں نے اس کو سرخ کر دیا تھا اب اس کو شہر کی جگہ کچھ اور کرنا ہو گا


یہ درکی ترے جو ہوا مل رہی ہے
چلو کچھ تو مجھ کو دعا مل رہی ہے

اگر ایسا کیا جائے تو کیسا لگے گا
 

ایم اے راجا

محفلین
خرم بھائی بہت، ہی عمدہ غزل کہی ہے، دِل کی آواز لگتی ہے، ہاہاہاہاہاہا۔
شق کو شک اور رونک کو رونق کر دیں، لگتا ہے بہت جذبات میں لکھا ہے، ایسا تو ہوتا ہی ہے ایسے کاموں میں، کیوں وارث بھائی؟
ویسے اگر آپ اس مصرعہ میں در کے بجائے شہر ہی فٹ کریں تو اچھا لگے گا، کیونکہ آپ اسکے شہر میں ہیں ناں کہ اسکے در کے سامنے رھ رہے ہیں، وعسے اگر رھ ہی در کے سامنے رہے ہیں تو پھر ٹھیک ہے، (مذاق)
میرا سینس یہ کہہ رہا ہے، باقی وارث بھائی پر چھڑتا ہوں، میری تو طالباناں اور ناقص رائے ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
وارث بھائی ہم نے آج دو غزلیں مزید ٹوٹے پھوٹے انداز میں کہہ دی ہیں، جو کہ توجہ کی طالب ہیں۔

رہا ہوں سدا سے مسلسل جبر میں
کہ جیسےگڑا ہوں میں زندہ قبر میں

کبھی مجھ پہ تنگ کی زمیں جو کسی نے
نہ ڈگمگایا، رہا ہوں صبر میں

تڑپتے کٹے شب سسکتے مرے دن
گھرا ہوں میں اتنا غموں کے اثر میں

ملا ہی نہ مجھ کو سہارا ٹھرنے کا
کہ پاگل میں پھرتا رہا اس نگر میں

کسی کا نہ دل ہوں نہ میں سوچ ساگر
خیالوں میں آیا، نہ ہی میں نظر میں
 

ایم اے راجا

محفلین
کِیا خود ہے اپنے پہ ہم دیکھتے ہیں
کھڑا در پہ اب جو یہ غم دیکھتے ہیں

سحر ہو کہ ہوشام کوئی مگر ہم
یہ صورت تری ہی بلم دیکھتے ہیں

ہے جاتا نہیں اب یہ جادو نظر سے
خیاباں خیاباں صنم دیکھتے ہیں

سِسکنے لگا ہے یہاں اب تو انساں
برستا یہ کیسا الم دیکھتے ہیں

نگاہ کو اٹھاتے ہیں جس بھی سمت کو
درِ شاہ سے آتا ظلم دیکھتے ہیں

قدم کس کا ساگر فلک پر پڑا ہے
فرشتے وہاں جو ارم دیکھتے ہیں
 

ایم اے راجا

محفلین
ساگر بھائی نیا کے بارے میں آپ کوپتہ تو چل گیا ہے آپ کو یاد ہو میں نے آپ کومحبت لفظ کے بارے میں بتایا تھا کہ محبت میں ّ ہوتی ہے یعنی محبت لکھنے میں محبّت ایسے لکھتے ہیں اب خرم کا بھی یہی مسئلہ ہے خرّم ایسے لکھتے ہیں نیا نیّا ایسے لکھتے ہیں

اگر کسی حرف پر ّ نہ پڑھی ہوتو اس کی پہچھان ایسے ہیں آپ تقطیع کی طرح پڑھے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اس لفظ میں ایک حرف دو دفعہ پڑھنے ہوتا ہے محب بت
نی یا خر رم اس طرح کے اور بھی بہت سارے لفظ ہے


اور ہاں آپ سے ایک درخواست یہ بھی کروں گا آپ پہلے ان لفظوں کی طرف توجہ دے جن سے ہم آرام سے سیکھ سکتے ہیں مطلب جن لفظوں کے آخری حرف گیرا کر ہم وزن پورا کر سکتے ہیں ان کو ہی زیادہ استعمال کرے تو بہتر ہو گا بھائی یہ ایک سمندر ہے جتنا آگے جائے گے اتنا ہی گہرائی کا اندازہ ہوتا جائے گا اگر تو ہم جلدی جلدی آگے جانے کی کوشش کرے گے تو پھسل کے گرنے کا بھی امکان ہے :grin:

خرم بھائی آپ کا بہت شکریہ، بس ذرا نئے نئے ہیں کلاس میں اسلیئے، اور اسکے علاوہ بھی بوجھ بہت ہوتے ہیں روز اٹھانے کے لیئے سو، ذراتوجہ ادھرکو بھی لوٹ جاتی ہے ناں۔

ویسے مجھے بچپن ہی سے سمندر میں ایک دم آگے جانے اور پھر پھسل کر گرنے کا شوق اور تجربہ رہا ہے، ہاہاہاہاہ ( مذاق) بھائی بہت شکریہ، میں کوشش کر رہا ہوں، ویسے میری تمام کوششیں ویسے بھی آپ ہی کی وجہ سے ہیں، کہ آج وارث بھائی کی صحبت نصیب ہوئی اور عروض کے بحرِ بیکراں میں غوطہ زن ہوں۔
 
وارث بھائی ہم نے آج دو غزلیں مزید ٹوٹے پھوٹے انداز میں کہہ دی ہیں، جو کہ توجہ کی طالب ہیں۔

رہا ہوں صدا سے مسلسل جبر میں
کہ جیسےگڑا ہوں میں زندہ قبر میں

کبھی مجھ پہ تنگ کی زمیں جو کسی نے
نہ ڈگمگایا، رہا ہوں صبر میں

تڑپتے کٹے شب سسکتے مرے دن
گھرا ہوں میں اتنا غموں کے اثر میں

ملا ہی نہ مجھ کو سہارا ٹھرنے کا
کہ پاگل میں پھرتا رہا اس نگر میں

کسی کا نہ دل ہوں نہ میں سوچ ساگر
خیالوں میں آیا، نہ ہی میں نظر میں

چلئے میں بھی تھوڑی سی کوشش کرتا ہوں تنقید کی :)
خطا معاف!

1: صدا بمعنی پکار کے بجائے غالباً سدا بمعنی ہمیشہ لکھنا چاہا ہے آپ نے۔
2: جبر، قبر اور صبر کا عین کلمہ ساکن ہے جبکہ اثر، نگر اور نظر کا مفتوح جو کہ شعر کے وزن کو ڈاںوا ڈول کر رہا ہے۔
3: کبھی مجھ پہ تنگ کی زمیں جو کسی نے میں میری گنگنانے والی تکنیک کہتی ہے کہ لفظ تنگ کے پاس کچھ گڑبڑ ہے، غالباً 2 کے بجائے 2 1 کے ورود کا مسئلہ ہے۔
4: نہ ڈگمگایا، رہا ہوں صبر میں کو غالباً آپ نے یوں لکھنا چاہا ہوگا نہ میں ڈگمگایا، رہا ہوں صبر میں پر صبر کے ب پر سکون والی قباحت پھر بھی رہتی ہے۔
5: تھوڑی سی گڑبڑ ملا ہی نہ مجھ کو سہارا ٹھرنے کا میں بھی دکھ رہی ہے۔ میرے خیال سے اگر اسے ملا نہ مجھے سائباں ٹھہرنے کا یا ملا نہ مجھے کوئی بھی آستانہ کر لیں تو وزن میں آجائے گا۔ اب یہ آپ دیکھ لیجیئے کہ کہیں آپ کا ما فی ضمیر تو متا ثر نہیں ہو رہا اس تبدیلی سے۔

یہ میں اپنی کوتاہیاں آزما رہا تھا۔ رہی بات اصلاح کی تو وہ تو اساتذہ ہی کر سکیں گے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جی سر بہت شکریہ مجھے پہلے ہی شق تھا اس لے میں نے اس کو سرخ کر دیا تھا اب اس کو شہر کی جگہ کچھ اور کرنا ہو گا


یہ درکی ترے جو ہوا مل رہی ہے
چلو کچھ تو مجھ کو دعا مل رہی ہے

اگر ایسا کیا جائے تو کیسا لگے گا

خرم صاحب یہ شعر وزن میں ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی ہم نے آج دو غزلیں مزید ٹوٹے پھوٹے انداز میں کہہ دی ہیں، جو کہ توجہ کی طالب ہیں۔

رہا ہوں صدا سے مسلسل جبر میں
کہ جیسےگڑا ہوں میں زندہ قبر میں

کبھی مجھ پہ تنگ کی زمیں جو کسی نے
نہ ڈگمگایا، رہا ہوں صبر میں

تڑپتے کٹے شب سسکتے مرے دن
گھرا ہوں میں اتنا غموں کے اثر میں

ملا ہی نہ مجھ کو سہارا ٹھرنے کا
کہ پاگل میں پھرتا رہا اس نگر میں

کسی کا نہ دل ہوں نہ میں سوچ ساگر
خیالوں میں آیا، نہ ہی میں نظر میں

اس غزل پر ابنِ سعید صاحب نے بالکل صحیح رائے دی ہے، جبر، قبر اور صبر تینوں کا وزن فاع ہے اور دوسرا حرف ساکن ہے، آپ نے تینوں کو غلط باندھا ہے سو اشعار بحر سے خارج ہو گئے۔

تنگ، رنگ، سنگ جیسے فارسی الفاظ کا صحیح وزن فاع یا 2 1 ہے، لیکن اساتذہ نے انہیں ن حذف کر کے بر وزنِ فع یا 2 بھی باندھا ہے سو تنگ آپ کے شعر میں صحیح بندھا ہے۔

ڈگمگایا غلط بندھا ہے، اس کا وزن 'ڈگ مَ گا یا' یعنی 2 1 2 2 یا فاعلاتن ہے، اس بحر میں اس کی اجازت کسی طور نہیں۔

کا - بالکل اضافی ہے، عملِ تسبیغ میں ایک ہجائے کوتاہ یا 1 کی اضافہ کرنے کی اجازت ہے نا کہ ایک سبب یا 2 کی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ 'کا' کا الف گرا کر اسے 'کَ' بنائیں اور اسے تسبیغ سمجھیں۔


کِیا خود ہے اپنے پہ ہم دیکھتے ہیں
کھڑا در پہ اب جو یہ غم دیکھتے ہیں

سحر ہو کہ ہوشام کوئی مگر ہم
یہ صورت تری ہی بلم دیکھتے ہیں

گیا ہی نہیں ہے یہ جادو نظر سے
خیاباں خیاباں صنم دیکھتے ہیں

نگاہ کو اٹھاتے ہیں جس بھی سمت کو
درِ شاہ سے آتا ظلم دیکھتے ہیں

قدم کس کا ساگر فلک پر پڑا ہے
فرشتے وہاں جو ارم دیکھتے ہیں


جو الفاظ میں نے سرخ کیے ہیں وہاں بھی وہی تلفظ کی غلطی ہے سو شعر بے وزن ہے، سمت کا صحیح تلفظ میم کے سکون کے ساتھ ہے یعنی سم ت یعنی 2 1 یا فاع، اسی طرح ظلم بھی لام کے سکون کے ساتھ ہے یعنی ظل م یعنی 2 1 یا فاع، آپ نے دونوں جگہ ان الفاظ کو درمیانی حرف کی حرکت سے غلط باندھا ہے۔

بہرحال ان دونوں غزلوں میں عروض کی غلطیاں پہلے کے مقابلے میں کم ہیں، تلفظ درست کرنے کیلیئے ایک کام کریں، کوئی بھی لفظ باندھنے سے پہلے اس کے صحیح تلفظ کیلیئے کسی معیاری لغت سے رجوع ضرور کریں، علمی اردو لغت اور نور الغات دو اچھی لغات ہیں۔ ایک کتاب ہے سید بدر الحسن کی 'صحتِ الفاظ'، دارلنور، لاہور نے شائع کی ہے، ہو سکے تو اسکا مطالعہ ضرور کریں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
وارث بھائی میں آپ کا بہت مشکور ہوں اور یہ آپ ہی کی محنت کا نتیجہ ہیکہ میں آج اس قابل ہوں کہ بہت کم غلطیاں کرتا ہوں ورنہ میں تو ایک بے بحر شاعر تھا، میں نے درستگی کی ہے اس غزل میں ایک شعر کا اضافہ بھی ہے اور ایک مصرعہ میں ردوبدل بھی کیا ہے، ذرا ملاحظہ فرمائیے، اصل میں میں سندھی بہت بولتا ہوں پڑھتا بھی اور لکھتا بھی ہوں سو کبھی کبھی تلفظ کی غلطی سر زد ہو جاتی ہے۔ شکریہ۔
پہلی غزل کو بعد میں درست کر کے پیش کروں گا کہ بجلی نہیں ہے۔

کِیا خود ہے اپنے پہ ہم دیکھتے ہیں
کھڑا در پہ اب جو یہ غم دیکھتے ہیں

سحر ہو کہ ہوشام کوئی مگر ہم
یہ صورت تری ہی بلم دیکھتے ہیں

ہے جاتا نہیں اب یہ جادو نظر سے
خیاباں خیاباں صنم دیکھتے ہیں

سِسکنے لگا ہے یہاں اب تو انساں
برستا یہ کیسا الم دیکھتے ہیں

نگاہ ہم اٹھاتے ہیں جس سمت کو بھی
درِ شاہ سے آتا ستم دیکھتے ہیں

قدم کس کا ساگر فلک پر پڑا ہے
فرشتے وہاں جو ارم دیکھتے ہیں
 

محمد وارث

لائبریرین
ہاں اب یہ غزل مکمل وزن میں ہے، بہت خوب۔

ایک بات، شاعر کا اصل کام اپنے کلام کو وزن میں لانے کے بعد شروع ہوتا ہے :)، یا یوں کہیئے کہ وزن جسم ہے اور حسنِ ادائیگی یا خیال و تغزل روح، اور یہ کہ ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہیں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
وارث بھائی اب ایک گزارش ہیکہ بررئے کرم ان تخلیقات کے خیالات کے بارے میں آپکی کیا رائے ہے کیا انھیں اسی طرح اپنی بہ بحر ڈائری ( جو کہ نئی خریدی ہے کیونکہ پہلے والی سب بے بحر تھیں :) ) میں درج کر لوں یا انکی نوک پلک سنوارنے کی مزید ضرورت درکار ہے۔ شکریہ۔

نئے طور سے امتحاں مانگتا ہے
سرِ بام مجھ سے وہ جاں مانگتا ہے

حوالے مرے سب پتا ہیں اسے تو
وہ کیوں پھر کسی سے نشاں مانگتا ہے

چلوں کیسے میں ساتھ اسکے سرِ راہ
زمیں پر وہ تو آسماں مانگتا ہے

لہو ہی لہو ہے زمیں سب، وطن کی
کہ اب کیا مرا حکمراں ما نگتا ہے

پڑا ہے سرِ راہ بے آسرا جو
وہ بارش میں بس اک مکاں مانگتا ہے

یہ سورج چمکنے کو ساگر یہاں پر
نیا پھر سے کوئی جہاں مانگتا ہے



کِیا خود ہے اپنے پہ ہم دیکھتے ہیں
کھڑا در پہ اب جو یہ غم دیکھتے ہیں

سحر ہو کہ ہوشام کوئی مگر ہم
یہ صورت تری ہی بلم دیکھتے ہیں

ہے جاتا نہیں اب یہ جادو نظر سے
خیاباں خیاباں صنم دیکھتے ہیں

سِسکنے لگا ہے یہاں اب تو انساں
برستا یہ کیسا الم دیکھتے ہیں

نگاہ ہم اٹھاتے ہیں جس سمت کو بھی
درِ شاہ سے آتا ستم دیکھتے ہیں

قدم کس کا ساگر فلک پر پڑا ہے
فرشتے وہاں جو ارم دیکھتے ہیں



نوائے سحر کا اشارہ دے کوئی
سفینے کو میرے کنارہ دے کوئی

دے گرما لہو کو مرے جو خدایا
جگر کومرے وہ شرارہ دے کوئی

ہے منظور مجھ کو ترے دل میں رہنا
اگر تو مجھے تُو سہارا دے کوئی
 

محمد وارث

لائبریرین
خیالات بہت اچھے ہیں ساگر صاحب، لیکن نوک پلک سنوارنے کی ضرورت تو بہر طور رہتی ہے، تغزل اور حسنِ ادائیگی اور بہتر سے بہتر الفاظ کی تلاش ضروری ہے۔

خاص طور پر آپ کی جو غزل ہے ' کِیا خود ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔' اسکے مطلع اور اسکے بعد دو اشعار جو ہیں انکے ہو سکے تو پھر سے کہنے کی کوشش کریں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
خیالات بہت اچھے ہیں ساگر صاحب، لیکن نوک پلک سنوارنے کی ضرورت تو بہر طور رہتی ہے، تغزل اور حسنِ ادائیگی اور بہتر سے بہتر الفاظ کی تلاش ضروری ہے۔

خاص طور پر آپ کی جو غزل ہے ' کِیا خود ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔' اسکے مطلع اور اسکے بعد دو اشعار جو ہیں انکے ہو سکے تو پھر سے کہنے کی کوشش کریں۔

وارث بھائی واقعی میں اپنے خیال کو اس غزل کے ان اشعار میں الفاظ کا پیرہن ٹھیک طرح سے نہیں پہنا سکا، لیکن دماغ ساتھ ہی نہیں دے رہا، اگر کچھ ہنٹ مل جائے تو نوازش ہوگی۔ شکریہ۔
 
Top