برائے تنقید و اصلاح

شاہ آتش

محفلین
غزل

میں اپنے غموں کا ازالہ دوں گا
کہ ہر بے کسے کو سنبھالا دوں گا

مرا رزق بھی عشق بھی چھن گیا
مگر سب کو حُب کا نوالہ دوں گا

کہا عشق نے زخم دے کر بہت
کرو صبر مرہم بھی اعلی دوں گا

صنم زندگانی تو تاریک ہی کر گیا
خدا! تم ہی کہہ دو اجالا دوں گا

قیامت میں پانے کو بخشش مری
میں تیرے ستم کا حوالہ دوں گا

وہ پوچھے جفائی کی گر ہے سند
کہو خط ترے کا مقالہ دوں گا

مرا دل تو یارا ہے مردہ شدہ
تجھے جو دھڑکتا ہے آلہ دوں گا

ہیں سب عارضی جذبے ایسے ہی کچھ
سوِیّوں کو اب میں ابالا دوں گا

میں آتش لکھوں گا غزل اب نئی
ادب کو سخن اک نرالہ دوں گا

بقلم: شاہ آتش
 

شاہ آتش

محفلین
یہ غزل کسی معروف بحر میں تو موزوں ہورہی معلوم نہیں ہوتی۔ آپ اپنی مزعومہ بحر کی نشاندہی کردیجئے۔

وقعی! غلطی رہ گئی تھی.

غلطیاں جو احباب نے واضح کیں ان کی اصلاح کے بعد غزل کچھ یوں ترتیب پائی.

غزل

میں اپنے غموں کا ازالہ کروں گا
کہ سب بے کسوں کو سنبھالا کروں گا

مرا رزق بھی عشق بھی چھن گیا سب
عطا پھر بھی حُب کا نوالہ کروں گا

کہا عشق نے زخم دے کر یوں مجھ سے
کرو صبر پٹی بھی اعلی کروں گا

مرے عشق کا اگلا یہ مرحلہ ہے
مصلے کو اشکوں سے گیلا کروں گا

صنم زندگانی تو تاریک ہی کر گیا ہے
خدا! تم ہی کہہ دو اجالا کروں گا

جوانی مجھے راس نہ آئی کہ اب
میں کاغذ کی کشتی سے کھیلا کروں گا

مرا دل تو یارا ہو مردہ چکا ہے
دھڑکتا ترے نام آلہ کروں گا

میں آتش لکھوں گا غزل اک نئی جب
ادب کے سخن کو نرالہ کروں گا

مزید محترم! آپ ہی عنایت کردیں.
 
اب بہتر ہے، کہ بحر کی شناخت ممکن ہے.
میں اپنے غموں کا ازالہ کروں گا
کہ سب بے کسوں کو سنبھالا کروں گا
پہلے مصرعے میں "میں" کو "یوں" سے بدل دیں تو مفہوم کے اعتبار سے شعر زیادہ بہتر ہوجائے گا۔

مرا رزق بھی عشق بھی چھن گیا سب
عطا پھر بھی حُب کا نوالہ کروں گا
عشق اور رزق میں کیا باہمی ربط ہے؟ شعر کا مفہوم واضح نہیں ہے۔ دوسرا مصرعہ بھی کافی کمزور ہے۔ اس پر دوبارہ مشق کیجئے۔
کہا عشق نے زخم دے کر یوں مجھ سے
کرو صبر پٹی بھی اعلی کروں گا
پہلے مصرعے میں "یوں" کی بجائے "یہ" کا محل ہے۔
دوسرے مصرعے میں دقت یہ ہے کہ محاورہ "مرہم پٹی کرنا" ہے، صرف پٹی کرنا شعریت کو مجروح کررہا ہے۔
کہا عشق نے درد دے کر یہ مجھ سے
کرو صبر، درماں بھی اعلی کروں گا

مرے عشق کا اگلا یہ مرحلہ ہے
مصلے کو اشکوں سے گیلا کروں گا
جوانی مجھے راس نہ آئی کہ اب
میں کاغذ کی کشتی سے کھیلا کروں
ان دونوں اشعار کے قوافی غلط ہیں۔ قافیہ کا تعین مطلع سے ہوتا ہے۔ جب آپ نے مطلع میں ازالہ اور سنبھالا کی بندش کردی تو اب باقی اشعار میں بھی "آلا" کی آواز پر ختم ہونے والے قوافی کی پابندی لازمی یے۔

صنم زندگانی تو تاریک ہی کر گیا ہے
خدا! تم ہی کہہ دو اجالا کروں گا
پہلا مصرعہ بحر سے خارج ہے۔
دوسرے مصرعے میں خدا کے ساتھ تم کا صیغہ شعری فصاحت کے خلاف ہے۔
صنم کرگئے زندگی ہی اندھیری
خدا تو ہی کہہ دے، "اجالا کروں گا"

مرا دل تو یارا ہو مردہ چکا ہے
دھڑکتا ترے نام آلہ کروں گا
پہلے مصرعے میں الفاظ کی ترتیب غیر فطری ہے۔ "ہو مردہ چکا ہے" کہنا درست نہیں، درست ترتیب "مردہ ہوچکا ہے" ہے۔ اس کو تعقید کہتے ہیں، جس سے بچنا چاہیئے۔ اس کے علاوہ یارا کہنا بھی ٹھیک نہیں، اساتذہ اسے پسند نہیں کرتے۔
مرا دل تو مدت سے مردہ ہے ہمدم
ترے نام بس ایک آلہ کروں گا

میں آتش لکھوں گا غزل اک نئی جب
ادب کے سخن کو نرالہ کروں گا
پہلے مصرعے میں "اک" بھرتی کا ہے۔
ادب کا سخن کوئی چیز نہیں ہوتی، بےمعنی ترکیب ہے۔ اسے یوں سوچ کر دیکھیں۔
کہوں گا غزل میں نئی جب بھی آتش
ادب میں اضافہ نرالا کروں گا

دعاگو،
راحل۔
 
آخری تدوین:

شاہ آتش

محفلین
غزل

یوں اپنے غموں کا ازالہ کروں گا
کہ سارے غموں کو میں جھیلا کروں گا

کہا عشق نے زخم دے کر یہ مجھ سے
کرو صبر درماں بھی اعلی کروں گا

مرے عشق کا اگلا یہ مرحلہ ہے
مصلے کو اشکوں سے گیلا کروں گا

صنم کرگئے زندگی ہی اندھیری
خدا تو ہی کہہ دے، "اجالا کروں گا

جوانی مجھے راس نہ آئی کہ اب
میں کاغذ کی کشتی سے کھیلا کروں گا

مرا دل تو مدت سے مردہ ہے ہمدم
ترے نام بس ایک آلہ کروں گا

کہوں گا غزل میں نئی جب بھی آتش
ادب میں اضافہ نرالا کروں گا


اب کوئی کمی بیشی محترم؟
 

شکیب

محفلین
آپ مطلع میں الا کی قید لگا کر ہی اشعار کہیں۔
یا فقط لا کی قید لائیں، مثلا ایک قافیہ ازالہ، دوسرا "لا"
یا فقط الف کی قید لائیں اور پورے آزاد قافیے استعمال کریں۔
 
محترم! کیا ازالہ اور جھیلا کے استعمال سے لا کی قید نہیں لگتی؟
دونوں الفاظ میں لا مشترک ہے، لیکن اس سے ماقبل کی حرکت مختلف ہے. گویا اس اجماع کی صورت میں حرف روی کا تعین ہی نہیں ہوسکتا جو قافیہ قائم کرنے کی بنیادی شرط ہے.
قاتل اور اور عامل قوافی ہوسکتے ہیں لیکن قاتل اور عامل کے ساتھ بادل اور آنچل قافیہ نہیں آسکتے.
ازالہ اور جھیلا ایک غزل میں بطور قوافی تب ہی آسکتے ہیں جب آپ مطلع کا قافیہ آزاد رکھیں، جس کی جانب بھائی شکیب نے اشارہ کیا تھا. آزاد قافیہ سے مراد یہ ہے کہ مطلع میں ازالہ کے ساتھ دیکھا، سوچا، آیا وغیرہ کو قافیہ باندھا جائے.
 
Top