بخاری محدث کے بارے میں ایک کتاب : قرآن مقدس اور بخاری مقدس

ساجد

محفلین
یہ سرخ کردہ جملہ میں نے اپنی پوسٹ کی تدوین میں نکال دیا تھا ، واپس کیسے آیا اور پھر اس پر وارننگ کیسے وارد ہوئی ؟ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے !
یہ تو مجھے نہیں معلوم کہ جُملہ مدون کیا گیا تھا یا نہیں ، میں نے رات جب اس دھاگے کا کُلی معائنہ کیا تو یہ جُملہ یہاں موجود تھا ۔ انتظامیہ کسی بھی مراسلے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرتی ۔ اگر کسی وجہ سے کسی مراسلے کی تدوین کرنا ضروری ٹھہرے تو اس مراسلے میں ہی اطلاع دی جاتی ہے۔
بہر حال اس کا مدون کیا جانا خارج از بحث ہے جس بات کی طرف آپ کی توجہ دلائی گئی ہے اس کا خیال رکھیں۔
 
ہاہاہا!! ہم نے تو کنارہ کر لیا ہے۔ حدیث کا انکار کرنے والے حضرات نے ہم سے کہا کہ بعض احادیث قران کی مخالفت میں ہیں۔ تو ہم نے کہا کہ ہم ناسخ پر عمل کرتے ہیں جن پر عمل جاری ہوا اور امت جمع ہوئی۔ اب ہم حدیث ہی کی وضاحت اجماع سے کر رہے تھے تو ہم پر موضوع سے ہٹنے کا الزام لگا دیا گیا۔ ہاں یہ بات بھی ہے کہ ہمیں غلط کہنے والوں نے ہماری کسی بات کو بھی دلیل سے غلط ثابت نہ کیا۔ پھر بحث فضول سے کیا حاصل؟ انکار کرنا بہت آسان کام ہے۔ لیکن عملی طور پر ثابت کرنا بہت مشکل۔ انکار کرنے والے حضرات سے گذارش ہے کہ زیادہ دور نہ جائیں بس نماز کو تکبیر تحریمہ سے سلام تک صرف قران یا قران و حدیث سے دلیل کے ساتھ ثابت فرما دیں۔۔ بات یہیں ختم ہو جاتی ہے اور آپ کی آئمہ کو چھوڑ کر قران و حدیث والی بدعت یہیں کامیاب و مقبول ہوجائے گی۔
 

Ukashah

محفلین
اپنی اپنی بات کی وضاحت کے لئے مہذب انداز اختیار کیجئے۔
علماء کرام کے لئے ان کے مرتبے کے مطابق الفاظ استعمال کیجئے۔
مکتبہ فکر کے اختلاف کے باعث کسی کے بیان یا تحریر پر عامیانہ انداز میں تنقید سے باز رہیں۔
مہذب انداز؟ اسلامی سیکشن کے کسی بھی تھریڈ کی پوسٹ کو پرمزاح قرار دینا کیسا ہے ؟کیوں محمود احمد غزنوی بھائی آپ کی کیا رائے ہے اس بارے میں ؟
 
تو بسم اللہ کیجئے! ایک "مومن" کو انکار سے بچانے کے لیے اگر کسی "مومنہ" کے پاس کوئی حل موجود ہے تو لایئے۔ چشم ما روشن دل ما شاد
جناب آپ کو ایک گنہگار وہابیہ کی بات پر یقین کیسے آئے گا؟ کیوں نہ آپ خود ہی بخاری کی شروح و متعلقات کو دیکھیں، ابن حجر نہ سہی علامہ عینی ، ابن الھمام اور ملا علی قاری کو کنگھال لیں ؟ نہ آپ کا سوال نیا ہے نہ جواب نایاب ۔ جوئندہ یابندہ !
طالوت بھائی کی طرح آپ سے بھی یہی عرض ہے کہ اپنی تلاش پر اعتبار کریں ۔
 
1- حدیث کے لیے قرآن کی تصدیق ضروری نہیں ، یہ غلط فہمی پرویزیہ کی ہے ۔
2- میزان کو قرآن کا نام کہنا غلط ہے اور یہ غلطی علامہ جاوید احمد غامدی کی ہے ۔
ہوسکتا ہے ان سے غلطی ہوئی ہو ۔ وہ بھی ایک انسان ہیں ۔ اگر آپ اس موضوع پر اپنے تعصب اور تنگ نظری کو ایک طرف رکھ کر اس پر کوئی اپنا استدلال اور دلائل دیں سکیں تو بحث کی جاسکتی ہے ۔ ۔
کیا حدیث کے لیے قرآن کی تصدیق ضروری ہے ؟
لطف کی بات یہ ہے کہ عموما اس سلسلے میں منکرین حدیث کو کچھ احادیث ہی سے استدلال کرنا پڑتا ہے:giggle: ۔ جن روایات کا سہارا لیا جاتا ہے ان کے دو امتحان ممکن ہیں :
۱۔ سند کا امتحان، ۲۔ متن کا امتحان ۔
۱۔ سند کا امتحان

’’احادیث کو کتاب اللہ سے جانچنے کی جو روایات بیان کی گئی ہیں وہ سب کی سب ضعیف ہیں لہذا اس سے استدلال صحیح نہیں ۔ ان میں سے کچھ روایتیں منقطع ہیں ۔ کچھ کے روای غیر ثقہ اور غیر معروف ہیں اور کچھ میں دونوں نقص موجود ہیں۔ اسے بیہقی کے حوالے سے ابن حزم نے الاحکام میں اور سیوطی نے مفتاح الجنۃ میں تفصیل سے بیان کیا ہے ۔ امام شافعی الرسالہ میں رقم طراز ہیں : یہ حدیث کسی ایسے شخص نے روایت نہیں کی جس کی مروی حدیث کسی چیز کے بارے میں خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی ثابت ہو۔ اور ہم سے یہ کہا جائے کہ تم نے فلاں شخص کی حدیث کو فلاں چیز کے بارے جو اس نے روایت کی ہے ثابت کر دیا ہے ۔ اور یہ بھی ایک مجہول شخص کی منقطع روایت ہے۔​
ابن عبدالبر نے اپنی کتاب جامع بیان العلم میں کہا ہے : عبدالرحمن بن مہدی فرماتے ہیں : زندیقوں اور خوارج نے یہ حدیث گھڑی ہے ۔ اس کے بعد لکھتے ہیں : اہل علم کے نزدیک یہ الفاظ آں حضرت ﷺ سے سقیم کو الگ کر کے صحیح روایت کے ساتھ ثابت نہیں ہے ۔​
۲۔ متن کا امتحان : کچھ اہل علم نے اس حدیث کی مخالفت کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم سب سے پہلے اس حدیث کو کتاب اللہ سے جانچیں گے اور اس پر اعتماد کریں گے جب ہم نے اس کو قرآن سے جانچا تو اس کو قرآن کے مخالف پایا ۔ اس لیے کہ قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں جس سے معلوم ہو کہ رسول اللہ ﷺ کی صرف وہی حدیث قبول کی جائے جو کتاب کے موافق ہو اس کے بر عکس اس میں رسول ﷺ کے حکموں کو ماننے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کو عموم کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور ہر حال میں آپ ﷺ کی نافرمانی کے مہلک نتائج سے آگاہ کیا گیا ہے ۔ اس لیے یہ حدیث خود اپنے آپ کو باطل ٹھہراتی ہے ۔‘‘​
منقول از حجیت سنت مرتب : عبدالغنی عبدالخالق ۔ صفحہ ۷۵۷ اور اس کے بعد​
نیلے الفاظ راقمہ کے اضافہ کردہ ہیں ِ ۔ مزید مطالعے کے لیے کتاب کی جانب رجوع کیا جا سکتا ہے ۔​
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ سنت کے لیے قرآن کی تصدیق کو ضروری قرار دینے کی یہ روایات سند اور متن دونوں حوالے سے انتہائی بے کار دلیل ہیں ۔​
آخری بات قرآن مجید کا قول فیصل :

'فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ أَمْرِہِ أَنْ تُصِیْبَہُمْ فِتْنَة أَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَاب أَلِیْم

تو جو لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ کوئی آفت یا دردناک عذاب ان کو اچانک نہ آ لے ۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
یہ تو طے ہوا کہ آنحضور کے نقش قدم پر چلنے اور ان کے احکام ماننے میں ہی نجات ہے
لیکن یہ بھی طے کر دیجئے کہ کیا آنحضور کوئی ایسا حکم دے سکتے ہیں جو کتاب اللہ سے متعارض ہو اور کیا آپ کی سیرت میں کوئی ایسے نقوش قدم تلاش کیے جا سکتے ہیں جو احکام الہیہ کے خلاف ہوں
 
یہ تو طے ہوا کہ آنحضور کے نقش قدم پر چلنے اور ان کے احکام ماننے میں ہی نجات ہے
لیکن یہ بھی طے کر دیجئے کہ کیا آنحضور کوئی ایسا حکم دے سکتے ہیں جو کتاب اللہ سے متعارض ہو اور کیا آپ کی سیرت میں کوئی ایسے نقوش قدم تلاش کیے جا سکتے ہیں جو احکام الہیہ کے خلاف ہوں

بیشک نہیں۔
 
اللہ اکبر !

وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَغُلَّ ۚ وَمَن يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴿١٦١أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِ‌ضْوَانَ اللَّ۔هِ كَمَن بَاءَ بِسَخَطٍ مِّنَ اللَّ۔هِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ ۚ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ‌ ﴿١٦٢﴾ هُمْ دَرَ‌جَاتٌ عِندَ اللَّ۔هِ ۗ وَاللَّ۔هُ بَصِيرٌ‌ بِمَا يَعْمَلُونَ ﴿١٦٣﴾ لَقَدْ مَنَّ اللَّ۔هُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَ‌سُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿١٦٤
ناممکن ہے کہ نبی سے خیانت ہو جائے ہر خیانت کرنے واﻻ خیانت کو لئے ہوئے قیامت کے دن حاضر ہوگا، پھر ہر شخص کو اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور وه ﻇلم نہ کئے جائیں گے (161) کیا وه شخص جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے درپے ہے، اس شخص جیسا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لے کر لوٹتا ہے؟ اور جس کی جگہ جہنم ہے جو بدترین جگہ ہے (162) اللہ تعالیٰ کے پاس ان کے الگ الگ درجے ہیں اور ان کے تمام اعمال کو اللہ بخوبی دیکھ رہا ہے (163) بے شک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ ان ہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا، جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، یقیناً یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے (164)
سورۃ آل عمران

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى أَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى أَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
 

شاکرالقادری

لائبریرین

ام نور العین نے قرآن کریم کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا:
وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَغُلَّ ۚ وَمَن يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴿١٦١أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِ‌ضْوَانَ اللَّ۔هِ كَمَن بَاءَ بِسَخَطٍ مِّنَ اللَّ۔هِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ ۚ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ‌ ﴿١٦٢﴾ هُمْ دَرَ‌جَاتٌ عِندَ اللَّ۔هِ ۗ وَاللَّ۔هُ بَصِيرٌ‌ بِمَا يَعْمَلُونَ ﴿١٦٣﴾ لَقَدْ مَنَّ اللَّ۔هُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَ‌سُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿١٦٤
ناممکن ہے کہ نبی سے خیانت ہو جائے ہر خیانت کرنے واﻻ خیانت کو لئے ہوئے قیامت کے دن حاضر ہوگا، پھر ہر شخص کو اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور وه ﻇلم نہ کئے جائیں گے (161) کیا وه شخص جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے درپے ہے، اس شخص جیسا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لے کر لوٹتا ہے؟ اور جس کی جگہ جہنم ہے جو بدترین جگہ ہے (162) اللہ تعالیٰ کے پاس ان کے الگ الگ درجے ہیں اور ان کے تمام اعمال کو اللہ بخوبی دیکھ رہا ہے (163) بے شک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ ان ہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا، جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، یقیناً یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے (164)
سورۃ آل عمران

اب مسئلہ ہی حل ہو گیا۔

اب میرے سوال اور مندرجہ بالا دونوں جوابات کی روشنی میں
متن حدیث کے امتحان کے حوالے سے مندرجہ ذیل اقتباس کا جائزہ لیجئے ۔۔۔ آپ پر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جائے گی کہ:
چونکہ نبی سے خیانت نا ممکن ہے اور وہ کتاب اللہ کے خلاف کوئی حکم نہیں دے سکتا اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث کو قرآن کی روشنی میں امتحان کرنا کوئی غلط بات نہیں ہے ۔۔۔۔ اور اس کو بے کار دلیل کہنا بذات خود بہت بڑی گمراہی ہے۔

۔ متن کا امتحان : کچھ اہل علم نے اس حدیث کی مخالفت کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم سب سے پہلے اس حدیث کو کتاب اللہ سے جانچیں گے اور اس پر اعتماد کریں گے جب ہم نے اس کو قرآن سے جانچا تو اس کو قرآن کے مخالف پایا ۔ اس لیے کہ قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں جس سے معلوم ہو کہ رسول اللہ ﷺ کی صرف وہی حدیث قبول کی جائے جو کتاب کے موافق ہو اس کے بر عکس اس میں رسول ﷺ کے حکموں کو ماننے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کو عموم کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور ہر حال میں آپ ﷺ کی نافرمانی کے مہلک نتائج سے آگاہ کیا گیا ہے ۔ اس لیے یہ حدیث خود اپنے آپ کو باطل ٹھہراتی ہے ۔‘‘
منقول از حجیت سنت مرتب : عبدالغنی عبدالخالق ۔ صفحہ ۷۵۷ اور اس کے بعد
نیلے الفاظ راقمہ کے اضافہ کردہ ہیں ِ ۔ مزید مطالعے کے لیے کتاب کی جانب رجوع کیا جا سکتا ہے ۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ سنت کے لیے قرآن کی تصدیق کو ضروری قرار دینے کی یہ روایات سند اور متن دونوں حوالے سے انتہائی بے کار دلیل ہیں ۔
 
ام نور العین نے قرآن کریم کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا:
اب مسئلہ ہی حل ہو گیا۔
اب میرے سوال اور مندرجہ بالا دونوں جوابات کی روشنی میں
متن حدیث کے امتحان کے حوالے سے مندرجہ ذیل اقتباس کا جائزہ لیجئے ۔۔۔ آپ پر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جائے گی کہ:
چونکہ نبی سے خیانت نا ممکن ہے اور وہ کتاب اللہ کے خلاف کوئی حکم نہیں دے سکتا اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث کو قرآن کی روشنی میں امتحان کرنا کوئی غلط بات نہیں ہے ۔۔۔ ۔ اور اس کو بے کار دلیل کہنا بذات خود بہت بڑی گمراہی ہے۔
سبحان اللہ ، جناب یہاں مخالفت کی نہیں تصدیق کی بات ہو رہی ہے ۔۔۔ اضافی احکام کی بات ہو رہی ہے ! : )
 
بات اصل موضوع سے نکل کر عموما حجیت سنت پر پہنچ چکی ہے جس کو پہلے ہی اس فورم پر ثابت کیا جا چکا ہے ۔
جناب شاکر القادری نے اس بات کو نظر انداز کر دیا ہے کہ ہم سنت کی اس قسم کی بات کر رہے ہیں جو کتاب اللہ کے علاوہ اضافی احکام بتاتی ہے ، اس کو تصدیق کے لیے قرآن پر کیسے پیش کیا جائے گا ؟ نیز قرآن مجید کی یہ آیت ہم سے کیا مطالبہ کر رہی ہے ؟
وَمَا آتَاكُمُ الرَّ‌سُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّ۔هَ ۖ إِنَّ اللَّ۔هَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٧
اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب واﻻ ہے (7) سورۃ الحشر
اگر سب کچھ قرآن میں موجود ہے تو اس الگ حکم کی کیا ضرورت ہے ؟
اس حدیث مبارک کو دیکھیے :الا انی اوتیت القرآن و مثلہ معہ … الا لا یحل لکم الحمار الاھلی
ترجمہ : خبردار رہو! بلاشبہ مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کیساتھ اس جیس چیز(وحی غیر متلو) بھی دی گئی ہے ۔۔۔ خبردار رہو! پالتو گدھا تمہارے لئے حلال نہیں ۔۔۔
ہمارے لیے یہ حدیث مبارک کافی ہے ۔
اب جن کا اصول تصدیق ہے اس حدیث کو اپنے اصول کے مطابق قرآن پر پیش فرمائیے اور ثابت کیجیے کہ پالتو گدھے کی حرمت کی تصدیق قرآن کرتا ہے ؟

ام نور العین نے قرآن کریم کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا:
اب مسئلہ ہی حل ہو گیا۔
اب میرے سوال اور مندرجہ بالا دونوں جوابات کی روشنی میں
متن حدیث کے امتحان کے حوالے سے مندرجہ ذیل اقتباس کا جائزہ لیجئے ۔۔۔ آپ پر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جائے گی کہ:
چونکہ نبی سے خیانت نا ممکن ہے اور وہ کتاب اللہ کے خلاف کوئی حکم نہیں دے سکتا اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث کو قرآن کی روشنی میں امتحان کرنا کوئی غلط بات نہیں ہے ۔۔۔ ۔ اور اس کو بے کار دلیل کہنا بذات خود بہت بڑی گمراہی ہے۔
 
اس شد و مد کے ساتھ بحث کو دیکھ کر میرا بھی جی چاہا کہ ایک سوال داغ دوں جو نہ جانے کب سے میرے ذہن میں کلبلا رہا ہے:
بخاری ہی کی ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے(ایک اہم ترین بات جس کا تعلق امت کے آئندہ گمراہ ہونے یا نہ ہونے سے تھا لکھ کر دینے کے لیے) قلم کاغذ طلب کرنے پرایک صحابی رسول کا قول "حسبنا کتاب اللہ" نقل کیا گیا ہے جسے غلام احمد پرویز صاحب نے بھی اپنے موقف کی حمایت میں بڑے شدو مد سے کوٹ کیا ہے اور انکی کتاب "شاہکار رسالت"(جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سوانح حیات پر لکھی گئی ہے) کا مرکزی تھیم یہی قول ہے۔
  • اول کیا صحابی رسول کے قول کو درست مانتے ہوئےاس قول کی روشنی میں حدیث رسول کا انکار کیا جا سکتا ہے؟
  • دوم کیا حدیث رسول کی اہمیت کو جانتے اور مانتے ہوئے صحابی رسول کے قول کو رد کر کے دیوار پر دے مارا جا سکتا ہے؟
  • سوم سابقہ دونوں باتوں کے بر عکس صحیح بخاری کی اس روایت کی صحت سے انکار کر کے حدیث رسول اور قول صحابی دونوں کے مقام اور مرتبہ کو تسلم کیا جا سکتا ہے؟
تینوں میں سے ایک صورت ایسی بتایئے گا جو ایک مسلمان اور مومن کے لیے قابل قبول ہو


  1. انکار حدیث؟
  2. کسی صحابی کے قول کا انکار؟
  3. یا صحیح بخاری کی روایت کا انکار؟
کونسی بات کم خطرناک اور قابل قبول ہوگی؟

میں نے مناسب سمجھا کہ اس پوسٹ کو دوبارہ اوپر لے آؤں کیونکہ سوال گندم اور جواب چنا کے مصداق، بحث کو کسی اور سمت میں لیجایا جا رہا ہے۔۔۔
مذکورہ بالا روایت کو اگر بالکل درست تسلیم کیا جائے تو اس سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔۔۔:
1- جب عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قلم اور کاغذ طلب فرمانے کے باوجود منع کردیا اور کہا کہ "ہمیں کتاب اللہ کافی ہے"۔۔۔۔تو اس سے کیا ثابت ہورہا ہے؟ اور جو کچھ ثابت ہورہا ہے وہ بخاری شریف کی ہر حدیث کی صحت کا درجہ قرآن پاک کی آیات کی Authenticityکے برابر سمجھنے والوں کے موقف کے خلاف جا رہا ہے یا نہیں؟
اور اگر جا رہا ہے تو کیسے اور نہیں جا رہا تو کیسے۔۔۔:)
 

منصور مکرم

محفلین
میں نے مناسب سمجھا کہ اس پوسٹ کو دوبارہ اوپر لے آؤں کیونکہ سوال گندم اور جواب چنا کے مصداق، بحث کو کسی اور سمت میں لیجایا جا رہا ہے۔۔۔
مذکورہ بالا روایت کو اگر بالکل درست تسلیم کیا جائے تو اس سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔۔۔ :
1- جب عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قلم اور کاغذ طلب فرمانے کے باوجود منع کردیا اور کہا کہ "ہمیں کتاب اللہ کافی ہے"۔۔۔ ۔تو اس سے کیا ثابت ہورہا ہے؟ اور جو کچھ ثابت ہورہا ہے وہ بخاری شریف کی ہر حدیث کی صحت کا درجہ قرآن پاک کی آیات کی Authenticityکے برابر سمجھنے والوں کے موقف کے خلاف جا رہا ہے یا نہیں؟
اور اگر جا رہا ہے تو کیسے اور نہیں جا رہا تو کیسے۔۔۔ :)
سن 2010 مین اس حدیث اور اس جیسی دیگر احادیث کا تفصیلی وضاحت بیان کر چکا تھا۔لیکن ایک تو وہ تمام جوابات ضائع ہوگئے اور دوسرا ابھی اتنا موقع نہیں کہ پھر سے اس تحقیق کو کروں۔جملہ معترضہ
 
سن 2010 مین اس حدیث اور اس جیسی دیگر احادیث کا تفصیلی وضاحت بیان کر چکا تھا۔لیکن ایک تو وہ تمام جوابات ضائع ہوگئے اور دوسرا ابھی اتنا موقع نہیں کہ پھر سے اس تحقیق کو کروں۔جملہ معترضہ
آپ اپنی تحقیق کی جزئیات و تفصیلات میں جائے بغیر اسکے لب لباب اور نتائج سے تو آگاہ کر ہی سکتے ہیں۔۔۔:)
 

ساجد

محفلین
اراکین سے گزارش ہے کہ موضوع سے ہٹ کر نہ چلیں۔ کچھ مراسلے موضوع سے ہٹے ہونے کی وجہ سے حذف کئے گئے ہیں۔
 
یہ بات سب کو ذہن نشین کرنی چاہیے کہ صحیح بخاری پر کسی کو نقد کرنے سے پہلے اپنا منہ اچھی طرح دھونا چاہیے۔ اس دھاگے کی پہلی پوسٹ میں دی گئی کتاب کا مصنف شاید وفات پاچکا ہے۔
کتاب کے مندرجات دیکھنے سے اندازہ ہوا کہ مصنف اپنے گروہی تعصب میں انتہائی حد تک چلا گیا تھا جس کی وجہ سے جو روایات اس کے ذہن نے قبول نہیں کی، اس پر رد لکھ مارا۔ کتاب کی زبان انتہائی گری ہوئی ہے۔ کہیں سے نہیں لگتا کہ مصنف نے دینی علوم کو ہضم بھی کیا ہے۔
یہ کام منکرین حدیث بھی انجام دیتے ہیں۔ علوم حدیث کی ان لوگوں کو ہوا بھی نہیں لگی ہوتی اور صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث کو نشانہ بناتے ہیں۔
 
مذکورہ بالا روایت کو اگر بالکل درست تسلیم کیا جائے تو اس سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔۔۔ :
1- جب عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قلم اور کاغذ طلب فرمانے کے باوجود منع کردیا اور کہا کہ "ہمیں کتاب اللہ کافی ہے"۔۔۔ ۔تو اس سے کیا ثابت ہورہا ہے؟ اور جو کچھ ثابت ہورہا ہے وہ بخاری شریف کی ہر حدیث کی صحت کا درجہ قرآن پاک کی آیات کی Authenticityکے برابر سمجھنے والوں کے موقف کے خلاف جا رہا ہے یا نہیں؟
اور اگر جا رہا ہے تو کیسے اور نہیں جا رہا تو کیسے۔۔۔
یہ بہت پرانا اعترا ض ہے جو کیا جاتا ہے۔ آپ کی ذہنی تشفی کیلئے کچھ عرض کردیتا ہوں۔ ویسے دبئی میں علماء کی کمی نہیں، آپ وہاں بھی کسی مستند عالم سے یہ سوا ل کرسکتے تھے۔
اس بات پر آپ یقینا یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دین کے معاملے میں نرمی نہیں برتتے تھے۔ ان کو اپنے رب کی طرف سے جو حکم ملتا ، وہ اسے کما حقہ بیان کرتے اور اس کو بجا لاتے تھے۔
اب آپ کے اعتراض کو اس بات پر تولتے ہیں۔اُس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے کسی چیز کے لکھنے کا اور نہ کسی حکم کو پہنچانے کا حکم دیا گیا تھا، اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ ضرور کرتے جس کا انہیں اللہ کی طرف سے حکم ملا ہوتا۔
امام نووی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی چیز کے لکھوانے میں مصلحت محسوس ہوئی یا انہیں وحی کی گئی ( تو ُآپ نے کاغذ منگوایا ) لیکن پھر انہیں اس کے ترک پر مصلحت معلوم ہوئی یا انہیں وحی کی گئی کہ نہ لکھوانا بہتر ہے (تو نہیں لکھوایا)۔ خود سوچیے کہ اگر کتابت کے حکم کیلئے وحی نازل ہوتی تو کیا اللہ کے رسول اس کو رہنے دیتے ؟؟ محدثین نے فرمایا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ان کا اجتہاد تھا اور وہ اس میں تنہا نہیں تھے اور اس اجتہاد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمایا ۔ اگر غلط ہوتا تو خود اللہ کے نبی لکھوانے کا اہتمام فرماتے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کیلئے ہمیشہ فکرمند رہتے تھے اور اسی فکرمندی کی وجہ سے آپ کو کچھ لکھوانے کا خیال پیش آیا۔
امام ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ اگر یہ واجب اور امر مِن اللہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی بات پر بھی نظر ِ التفات نہ فرماتے بلکہ ضرور لکھواتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتابت نہیں فرمائی تو یہ امر واجب نہیں تھا اور نہ یہ دین میں سے تھا کہ اس وقت اس کا لکھوانا واجب ہوتا ۔ جبکہ اس واقعے کے بعد بھی دو روز تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں ہی تشریف فرما تھے (اور یہ بات اہل سنت اور اہل تشیع میں متفق ہے) ، اگر لکھوانا اہم ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعد میں بھی لکھوا دیتے۔
اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کچھ لکھوانے نہیں دیا تو وہ غلطی پر ہے۔ اس طرح تو الزم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتا ہے (معاذ اللہ) کہ انہوں نے رسالت کی تکمیل نہیں کی حالانکہ تکمیل دین کی آیت پہلے نازل ہوچکی تھی :
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا }
پھر یہ اعتراض کیسا کہ اس کا تعلق امت کے آئندہ گمراہ ہونے یا نہ ہونے سے تھا۔ کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم امت کو گمراہ ہونے کیلئے چھوڑ جاتے ؟ کیا اس طرح آپ کی رسالت میں کمی نہ رہ جاتی معاذ اللہ ؟
پتہ نہیں اس سے آپ کیا باور کروانا چاہتے ہیں۔ صحیح بخاری کو قرآن کے بعد امت نے صحیح ترین کتاب مانا ہے ۔وہ قرآن کا درجہ میں بہرحال نہیں ہے ۔ اہمیت صحیح بخاری کی احادیث کی ہے جو کہ سند کے اعتبار سے صحیح ہیں اور ان میں کوئی نقص نہیں ہے اور اس سے احکام شریعت میں دلیل پکڑی گئی ہے ۔ اسی لیے قرآن کے بعد صحیح حدیث دین کی اساس ہے۔
اس الزام پر یہ ربط ملاحظہ فرمائیں ۔یہ عربی میں ہے
http://islamqa.info/ar/ref/154865
شاکرالقادری بھائی صاحب کی بھی شاید تشفی ہوسکے۔
 

نایاب

لائبریرین
یہ بہت پرانا اعترا ض ہے جو کیا جاتا ہے۔ آپ کی ذہنی تشفی کیلئے کچھ عرض کردیتا ہوں۔ ویسے دبئی میں علماء کی کمی نہیں، آپ وہاں بھی کسی مستند عالم سے یہ سوا ل کرسکتے تھے۔
اس بات پر آپ یقینا یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دین کے معاملے میں نرمی نہیں برتتے تھے۔ ان کو اپنے رب کی طرف سے جو حکم ملتا ، وہ اسے کما حقہ بیان کرتے اور اس کو بجا لاتے تھے۔
اب آپ کے اعتراض کو اس بات پر تولتے ہیں۔اُس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے کسی چیز کے لکھنے کا اور نہ کسی حکم کو پہنچانے کا حکم دیا گیا تھا، اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ ضرور کرتے جس کا انہیں اللہ کی طرف سے حکم ملا ہوتا۔
امام نووی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی چیز کے لکھوانے میں مصلحت محسوس ہوئی یا انہیں وحی کی گئی ( تو ُآپ نے کاغذ منگوایا ) لیکن پھر انہیں اس کے ترک پر مصلحت معلوم ہوئی یا انہیں وحی کی گئی کہ نہ لکھوانا بہتر ہے (تو نہیں لکھوایا)۔ خود سوچیے کہ اگر کتابت کے حکم کیلئے وحی نازل ہوتی تو کیا اللہ کے رسول اس کو رہنے دیتے ؟؟ محدثین نے فرمایا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ان کا اجتہاد تھا اور وہ اس میں تنہا نہیں تھے اور اس اجتہاد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمایا ۔ اگر غلط ہوتا تو خود اللہ کے نبی لکھوانے کا اہتمام فرماتے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کیلئے ہمیشہ فکرمند رہتے تھے اور اسی فکرمندی کی وجہ سے آپ کو کچھ لکھوانے کا خیال پیش آیا۔
امام ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ اگر یہ واجب اور امر مِن اللہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی بات پر بھی نظر ِ التفات نہ فرماتے بلکہ ضرور لکھواتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتابت نہیں فرمائی تو یہ امر واجب نہیں تھا اور نہ یہ دین میں سے تھا کہ اس وقت اس کا لکھوانا واجب ہوتا ۔ جبکہ اس واقعے کے بعد بھی دو روز تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں ہی تشریف فرما تھے (اور یہ بات اہل سنت اور اہل تشیع میں متفق ہے) ، اگر لکھوانا اہم ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعد میں بھی لکھوا دیتے۔
اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کچھ لکھوانے نہیں دیا تو وہ غلطی پر ہے۔ اس طرح تو الزم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتا ہے (معاذ اللہ) کہ انہوں نے رسالت کی تکمیل نہیں کی جبکہ تکمیل دین کی آیت پہلے نازل ہوچکی تھی :
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا }

پتہ نہیں اس سے آپ کیا باور کروانا چاہتے ہیں۔ صحیح بخاری کو قرآن کے بعد امت نے صحیح ترین کتاب مانا ہے ۔وہ قرآن کا درجہ میں بہرحال نہیں ہے ۔ اہمیت صحیح بخاری کی احادیث کی ہے جو کہ سند کے اعتبار سے صحیح ہیں اور ان میں کوئی نقص نہیں ہے اور اس سے احکام شریعت میں دلیل پکڑی گئی ہے ۔ اسی لیے قرآن کے بعد صحیح حدیث دین کی اساس ہے۔
اس الزام پر یہ ربط ملاحظہ فرمائیں ۔یہ عربی میں ہے
http://islamqa.info/ar/ref/154865
امام نووی کی اس وضاحت کی دلیل کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟
انہیں کہاں اور کیسے اس حقیقت کا علم ہوا کہ اللہ نے وحی کی یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کچھ لکھوانے میں مصلحت جانی ۔
اور پھر نہ لکھنے کی وحی آئی یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نہ لکھوانا ہی مناسب سمجھا ۔
اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ مزید کون سے اصحاب اس اجتہاد میں شریک تھے ۔۔۔۔۔۔۔؟
بہت تناقص ہے اس وضاحت میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
میں نہ مانوں کی رٹ تو یہاں لازمی لگائی جاتی ہے۔
إِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ أَنَابَ

بلاشبہ ہدایت اور گمراہی اللہ کے ہاتھ میں ہے
بلاشبہ ہدایت اور گمراہی اللہ کے ہاتھ میں ہے
 
Top