بحث برائے بحث اور تنقید برائے تنقید اب بس کرو

شمشاد

لائبریرین
میاں شاہد صاحب آپ سے درخواست ہے کہ اراکین کا غلط نام لکھنے سے پرہیز کریں۔ فاروق صاحب کا پورا نام "فاروق سرور خان" ہے نہ کہ " جسٹس فاروق احمد خان"۔
 

میاں شاہد

محفلین
(اگر یہ میری غلط فہمی ہے تو معذرت)
آپکی معذرت قبول کرلی
امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وسلام

بھائی جی اگر بات اتنی ہی آسان ہو جائے تو کیا ہی بات ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ جیسا کہ آپ کہ رہے ہیں کہ ہر بات کا جواب دیا جاچکا ہے تو میرے محترم!
یہ تو اور بھی آسان بات ہے آپ کو معمولی سی دقت ہوگی مگر مسئلہ حل ہوجائے گا اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی ایسی بات مکرر پوچھی جارہی ہے جسکا تسلی بخش جواب دیا جاچکا ہے تو دوچار بار آپ وہ ربط ہم جیسے کم عقل لوگوں کی رعایت میں دے دیں اور بار بار پوچھنے والا بھی خود ہی خاموش ہوجائے گا، مطلب یہ کہ بجائے اس کے کہ ہم غیر ضروری بات میں پوسٹ پر پوسٹ کرتے رہیں ، ایک یا دو پوسٹ میں وہ جواب اور انکا ربظ یہاں بتادیں ہم بھی دیکھ لیں گے اور آپ کو دعائیں دیں گے اور اسی طرح ہر قسم کی غلط فہمی بھی ختم ہوتی چلی جائے گی۔
شکایت پیدا ہی اس وقت ہوتی ہے جب کسی بات کا جواب دینے کی بجائے کوئی اور مسئلہ بیان کردیا جاتا ہے اور پھر بات کے مکمل ہونے کا اعلان بھی ہوجاتا ہے اور مضمون مقفل ہوجاتا ہے۔
اور سائل کو مطمئن کرنا بہرحال انتظامیہ کا اخلاقی فرض بھی ہے ورنہ سائل کسی دوسرے مقام پر اپنا سوال ضرور دہرائے گا۔
مثال کے طور پر ایک مضمون میں میں نے پہلی بار شرکت کی اور ایک سوال لکھا اور اگلے دن مضمون مقفل؟؟؟؟؟؟ اس صورتحال کا کیا حل ہے آپ کے پاس؟:hatoff:
 

شمشاد

لائبریرین
۔۔۔۔۔۔اور سائل کو مطمئن کرنا بہرحال انتظامیہ کا اخلاقی فرض بھی ہے ورنہ سائل کسی دوسرے مقام پر اپنا سوال ضرور دہرائے گا۔۔۔۔۔۔

سائل کو مطمئن کرنا انتظامیہ کا فرض نہیں ہے۔ انتظامیہ کا فرض یہ ہے کہ بحث مباحثہ اخلاقی حدود و قیود میں رکھے۔ انتظامیہ کا فرض اس صورت میں ہے جب انتظامیہ سے کوئی سوال پوچھا گیا ہو۔
 

میاں شاہد

محفلین
سائل کو مطمئن کرنا انتظامیہ کا فرض نہیں ہے۔ انتظامیہ کا فرض یہ ہے کہ بحث مباحثہ اخلاقی حدود و قیود میں رکھے۔ انتظامیہ کا فرض اس صورت میں ہے جب انتظامیہ سے کوئی سوال پوچھا گیا ہو۔
برادر مکرم

میںنے لفظ "اخلاقی فرض" استعمال کیا ہے جو کہ لازم نہیں ہوتا لیکن اگر ایسا کیا جائے تو قابل ستائش اور قابل تحسین عمل کہلاتا ہے;) بٹن دباکے
 

طالوت

محفلین
میاں صاحب آپ نے میری پوسٹ بغور پڑھی نہیں شاید ورنہ آپ کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی گزارش ہے کہ دونوں پوسٹس دوبارہ پڑھ لیں اور غور کریں تو مجھے امید ہے کہ آپ مجھ سے وہ ربط اور سوالوں کے جواب نہیں مانگیں گے۔۔۔۔ وسلام
 

میاں شاہد

محفلین
میاں شاہد صاحب آپ سے درخواست ہے کہ اراکین کا غلط نام لکھنے سے پرہیز کریں۔ فاروق صاحب کا پورا نام "فاروق سرور خان" ہے نہ کہ " جسٹس فاروق احمد خان"۔
معذرت خواہ ہوں جناب اور آئندہ اس بات کا پورا پورا خیال رکھنے کی کوشش کروں گا اور فاروق بھائی سے بھی معذرت چاہتا ہوں;) بٹن دباکے
 
دیکھئے بھائی عادل سہیل کے سوالات کے جواب میں اس وقت نہیں‌ دے رہا ۔ وہ اس لئے کہ مصالحت یا ایک متفقہ نکتہ نظر کی امید کم نظر آتی ہے۔ لہذا اس کوشش کے بجائے کہ ہم ایک دوسرے سے سوالات کرکے یہ امید رکھیں کہ ہم ایک دوسرے کو قائل کرلیں گے بہت مشکل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری دو آراء‌ ہیں۔ میری رائے آپ کے سامنے ہے۔ آپکی رائے میرے سامنے ہے۔ یہ دو مختلف آراء ہیں ۔۔

آپ اپنا نکتہ نظر ایک پیراگراف میں‌لکھ دیجئے ۔ میں اپنا نکتہ نظر لکھ چکا ہوں۔۔ آپ کو غیر قرانی روایات قبول ہیں۔ یہ آپ کا اپنا نکتہ نظر ہے ، جس کا آپ کے پاس کوئی قران یا سنت سے ثبوت نہیں‌ہے۔ اس کو مان لینے میں‌ آپ کو کیا قباحت ہے؟ یہ میرا فیصلہ نہیں ہے آپ کا فیصلہ ہے بھائی۔

والسلام
 
۱) حدیث لکھنے سے ممانعت والی حدیث کو آپ کی """ رائے """ کے مطابق قران سے کون سی موافقت حاصل ہوتی ہے ؟

ٰیہاں آپ کی میری دو آراء ہیں۔
1۔ یہ آپ کا خیال ہے کہ حدیث رسول پاک لکھنے کی کبھی ممانعت ہوئی۔
2۔ میں عرض کرچکا ہوں کہ کوئی بھی حدیث یہاں‌ ایسی نہیں پیش کی گئی جس میں سنت رسول پاک لکھنے کی ممانعت ہو۔ جو واضح‌ ممانعت ملتی ہے وہ رسول اکرم سے منسوب کر کے غیر قرآنی، غیر القران یا قرآن مخالف امور لکھنے کی ممانعت ہے۔

(۲) حدیث کو قران کی کسوٹی پر پرکھا جانا چاہیے یہ آپ کی ""' رائے """ ہے ، اس رائے کی بنیاد آپ نے ایک حدیث پر ہی رکھی ہے ، قطع نظر اس کے کہ وہ حدیث صحت کے درجے پر پوری نہیں اترتی ، آپ کے پاس اس حدیث کے لیے کونسی موافقت قران سے میسر ہے ؟؟؟
آپ کو دو عدد حدیث رسول پاک پیش کی گئیں۔ ایک کو آپ نے صحیح مانا اور دوسری کو آپ نے ضعیف کہہ کہ "رد" کردیا ۔ پھینک دیا ۔ جبکہ دوسری حدیث آپ کو رسول اکرم سے منسوب شدہ روایت کو صرف اس وقت قابل قبول قرار دیتی ہے جب وہ "موافق القرآن" ہو۔

یہاں‌بھی ہماری دو آراء‌ ہیں۔
1۔ میں‌کہتا ہوں کہ سنت رسول اسی کتاب کے مطابق ہے جس کی رسول اللہ نے تعلیم دی۔
2۔ آپ کو رسول اکرم کی سنت کو "موافق القرآن" ہونے پر اعتراض ہے بلکہ آپ اس قول رسول اللہ کو "ضعیف" قرار دے کے ماننے سے صاف انکار کررہے ہیں۔ جو کہ انکار حدیث ہے۔


(۳) آپ کی """ رائے """ کے مطابق جو کسوٹی آپ نے مقرر کر رکھی ہے اس کو استعمال کا طریقہ کیا ہے ؟؟؟
یہ کسوٹی میں‌نے مقرر نہیں‌کی۔ رسول اللہ نے فرمایا - مجھ سے غیر قرآنی نہ لکھو اور جس نے لکھا ہے مٹا دے۔ آپ اس کو میری رائے کیوں قرار دیتے ہیں اور اس طریقہ پر عمل کرکے خلاف قرآن روایات کو آپ کیوں نہیں‌مٹانا چاہتے؟

(4 ) """ غیر القران """ اور """ غیر قرانی """ کیا آپ ان دونوں کو عربی الفاظ کے طور پر لیتے ہیں ؟ یا پہلے کو عربی اور دوسرے کو اس کا ترجمہ تصور فرماتے ہیں؟؟؟

بھائی ۔ غیر القرآن ایک بہت ہی عام فہم اصطلاح ہے۔ اسی طرح موافق القرآن بہت ہی عام فہم اصطلاح ہے۔ اگر آپ اس بارے میں اپنا نظریہ رکھتے ہیں تو ٹھیک ہے صاحب۔

(۵) """ غیر القران """ اور """ غیر الوحی """ میں کوئی فرق آپ کے ہاں سمجھا جاتا ہے کہ نہیں ؟؟؟
جواب: آپ ایسا کیجئے کہ وہ آیات جو اللہ تعالی نے غیر القرآن اور غیر الوحی کو نمایاں کرنے کے لئے عطا فرمائی ہیں یہاں فراہم کردیجئے۔ میرے یہاں‌ صرف اور صرف قرآن کے اصول و قانون سمجھے جاتے ہیں ۔

اللہ یا اس کے رسول نے کہاں‌ فرمایا ہے کہ بخاری کی کتاب پر ایمان لاؤ اور اس کو بھی مانو؟‌ ان کتب روایات کو ماننا بالکل ضروری نہیں ہے ۔ بلکہ مسلمانوں کے بہت سے فرقے تو ان کو مانتے ہی نہیں ہے۔ اس سے وہ کافر تو نہیں ہوگئے؟ اگر آپ کو ہدایت غیر القرآن سے ملتی ہے تو مانئیے۔ صاحب میں کون ہوتا ہوں ؟

استدعا یہ ہے کہ آپ اپنا نکتہ نظر لکھ دیجئے، کہ آپ کو کیا قبول ہے اور کیا نہیں۔ میں بہت ہی وضاحت سے یہ سب لکھ چکا ہوں۔ اس طرح ہم سب کو پتہ رہے گا کہ کون کیا سوچتا ہے۔، اب آُ ان غیر مطنقی سوالات سے اپنا اور میرا وقت ضائع فرما رہے ہیں۔

والسلام
 
عادل سہیل صاحب، اردو بولنے والے اصحاب کے لئے مہربانی فرما کر آپ درج ذیل روایات کا ترجمہ فرمادیجئے۔ کچھ روایات میں نے ایک سے زائید بار لکھی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کتب روایات میں ایک سے زائید مرتبہ پائی جاتی ہیں۔ ہر روایت پر اس کا لنک ہے۔ میٹیرئیل زیادہ ہے۔ غلطی ہوگئی ہو تو فرمائیے تاکہ درست کرسکوں۔

[ARABIC]

حدثنا ‏ ‏إسماعيل ‏ ‏أخبرنا ‏ ‏همام بن يحيى ‏ ‏عن ‏ ‏زيد بن أسلم ‏ ‏عن ‏ ‏عطاء بن يسار ‏ ‏عن ‏ ‏أبي سعيد ‏ ‏قال ‏
قال رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏لا تكتبوا عني شيئا سوى القرآن ومن كتب شيئا سوى القرآن فليمحه ‏



‏حدثنا ‏ ‏هداب بن خالد الأزدي ‏ ‏حدثنا ‏ ‏همام ‏ ‏عن ‏ ‏زيد بن أسلم ‏ ‏عن ‏ ‏عطاء بن يسار ‏ ‏عن ‏ ‏أبي سعيد الخدري ‏
‏أن رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏قال ‏ ‏لا تكتبوا عني ومن كتب عني غير القرآن فليمحه وحدثوا عني ولا حرج ومن كذب علي ‏ ‏قال ‏ ‏همام ‏ ‏أحسبه قال متعمدا ‏ ‏فليتبوأ ‏ ‏مقعده من النار

‏وقيل : إن حديث النهي منسوخ بهذه الأحاديث , وكان النهي حين خيف اختلاطه بالقرآن فلما أمن ذلك أذن في الكتابة , وقيل : إنما نهى عن كتابة الحديث مع القرآن في صحيفة واحدة ; لئلا يختلط , فيشتبه على القارئ في صحيفة واحدة . والله أعلم . ‏
‏وأما حديث : ( من كذب علي فليتبوأ مقعده من النار ) فسبق شرحه في أول الكتاب . والله أعلم .[/ARABIC]

[ARABIC]حدثنا ‏ ‏عفان ‏ ‏حدثنا ‏ ‏همام ‏ ‏أخبرنا ‏ ‏زيد بن أسلم ‏ ‏عن ‏ ‏عطاء بن يسار ‏ ‏عن ‏ ‏أبي سعيد الخدري ‏
عن النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏قال ‏ ‏لا تكتبوا عني شيئا غير القرآن فمن كتب عني شيئا غير القرآن فليمحه ‏ [/ARABIC]



[ARABIC]حدثنا ‏ ‏أبو عبيدة ‏ ‏حدثنا ‏ ‏همام بن يحيى ‏ ‏عن ‏ ‏زيد بن أسلم ‏ ‏عن ‏ ‏عطاء بن يسار ‏ ‏عن ‏ ‏أبي سعيد ‏
أن النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏قال ‏ ‏لا تكتبوا عني شيئا إلا القرآن فمن كتب عني شيئا فليمحه[/ARABIC]



[ARABIC]أخبرنا ‏ ‏يزيد بن هارون ‏ ‏أخبرنا ‏ ‏الجريري ‏ ‏عن ‏ ‏أبي نضرة ‏ ‏قال قلت ‏ ‏لأبي سعيد الخدري ‏
ألا تكتبنا فإنا لا نحفظ فقال ‏ ‏لا إنا لن نكتبكم ولن نجعله قرآنا ولكن احفظوا عنا كما حفظنا نحن عن رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏[/ARABIC]
 
درج ذیل مضمون کسی اور صاحب کا لکھا ہوا ہے۔ یہاں آپ کی آسانی کے لئے کٹ اور پیسٹ کیا ہے۔ اس کا صرف اور صرف ایک مقصد ہے کہ یہ بتایا جائے کہ قرآن کے خلاف کوئی روایات قابل قبول نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کوئی مقصد نہیں۔ اس کے مندرجات پر بحث نہ کی جائے کیوں کے یہ میں نے نہیں لکھا ہے۔ اس میں‌دوسرے علماء‌کی آراء ہیں ۔ اس میں غلطی پیش کرنے والے کے سر۔ میں نے یہ صرف اس لئے لکھا ہے کہ اتنے سارے حوالے من گھڑت نہیں ہوسکتے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اب تک علماء یہی کہتے آئے ہیں کہ روایت مخالف قرآن نہیں ہوسکتی۔ اس سے آپ کی بات کا وزن کچھ نہیں‌رہتا جب آپ یہ دعوی کرتے ہیں کہ اب تک امت مسلمہ خلاف قرآن روایات پر یقین رکھتی آئی ہے۔

یہ مضمون واضح کرتا ہے کہ کوئی حدیث رسول پاک خلاف قرآن ہو ہی نہیں سکتی۔ کیا وجہ ہے کہ کچھ لوگ اس بات پر مصر ہیں کہ خلاف قرآن کریم روایات بھی قابل قبول ہونی چاہئیے۔

اگر قرآن اسلام کے اصول و قوانین کی کتاب نہیں‌ہے تو پھر اسلام کی بنیاد کیا ہے بھائی؟

------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
Saturday, December 24, 2005
احادیث کے لئے قرآن ہی معیار ہے
ریحان عمر
احادیث کے لئے قرآن ہی معیار ہے
احادیث کے پرکھنے کے لئے سب سے پہلا اصول اور سب سے اہم معیار خود قرآن ہی ہے۔
جو حدیث قرآن کے خلاف یا معارض ہوگی وہ رد کردی جائے گی۔جیسا کہ ضمناً ان عبارتوں سے جو پہلے گزریں ،سے ثابت ہوا کہ قرآن جو قطعی اور یقینی ہے ،اسکے خلاف یا معارض حدیث نہیں ہوسکتی ،جو کہ ظنّی ہے۔اب ہم احادیث اور اقوالِ علماءکو نقل کرتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوگا کہ قرآن ہی اصلِ معیاراور پہلا اصول ہے احادیث کے قبول و رد کا ۔

(ا) امام علی بن محمدالبزدوی الحنفی متوفی٢٨٤ھ
” فاذا روی لکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی ،فما وافق کتاب اللہ تعالٰی فاقبلوہ وما خالفوہ فردوہ۔“
( اگر تم سے کوئی حدیث روایت کی جائے مجھ سے تو اسے کتاب اللہ تعالٰی پر پیش کروتواگر وہ کتاب اللہ کے موافق ہو تو اسے قبول کرلو اور جو مخالف ہو تو رد کردو۔“
( فقہِ حنفی کی مشہور کتاب ’اصولِ بزدوی‘،باب بیان قسم الانقطاع ص٥٧١،میرمحمد کتب خانہ کراچی۔)

(٢) علامہ عبیداللہ بن مسعود المحبوبی الحنفی متوفی ٨٤٧ھ
٭” فقولہ علیہ السلام تکثر لکم احادیث من بعدی فاذاروی لکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی فما وافق کتاب اللہ تعالٰی فاقبلوہ وما خالفوہ فردوہ۔“
( تو آپ علیہ السلام کا قول کہ میرے بعد تمہارے لئے احادیث کی کثرت ہوجائے گی تو جب اگر تم سے کوئی حدیث روایت کی جائے مجھ سے تو اسے کتاب اللہ تعالٰی پر پیش کروتواگر وہ کتاب اللہ کے موافق ہو تو اسے قبول کرلو اور جو مخالف ہو تو رد کردو۔“
( التوضیح والتلویح،بحثِ سنت،ص٠٨٤)
اس کتاب کے ماتِن صدرالشریعہ عبیداللہ بن مسعود المحبوبی الحنفی ہیں اور ان کا متن ’التوضیح‘ کہلاتا ہے۔اور اسکی تشریح دوسرے مشہور و معروف عالم و متکلم علامہ سعدالدین تفتازانی شافعی متوفی ٢٩٧ھ نے’ التلویح‘ کے نام سے لکھی اور یہ دونوں ’التوضیح والتلویح‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد صدرالشریعہ لکھتے ہیں کہ:
٭” فدلّ ھذا الحدیث علی ان کل حدیث یخالف کتاب اللہ (تعالٰی) فانہ لیس بحدیث الرسول وانما ھو مفتری وکذلک کل حدیث یعارض دلیلاً اقوٰی منہ فانہ منقطع عنہ علیہ السلام لان الادلة الشریعة لا یناقض بعضھا بعضاً وانما التناقض من الجھل المحض۔“
( تو یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ ہر وہ حدیث جو کتاب اللہ کی مخالف ہو ہرگز رسول (اللہ ) کی حدیث نہیں ہے اور وہ افتراءہے اور اسی طرح ہر وہ حدیث جو کسی زیادہ قوی دلیل کے معارض و مخالف ہو وہ بھی آپ علیہ السلام سے منقطع ہے( یعنی صحیح نہیں ) کیونکہ شریعت کے دلائل آپس میں ایک دوسرے کے معارض و مخالف و مناقض نہیں ہوسکتے کیونکہ تناقض تو محض جہل ہے۔)( التوضیح والتلویح ص٠٨٤)

(٣) علامہ حافظ جلال الدین سیُوطی متوفی ١١٩ھ
” بما روی ان النبی قال: ما جاءکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ،فما وافقہ فاَنا قلتہ وما خالفہ فلم اقلہ۔“
” روایت ہے کہ نبی نے فرمایا کہ جو حدیث تمہارے پاس آئے تو اسے کتاب اللہ پر پیش کرو،اگر اس ( قرآن) کے موافق ہو تو (سمجھوکہ) میں نے ہی کہی ہے اور اگر مخالف ہو تو (سمجھوکہ) میں نے نہیں کہی ۔“
(مفتاح الجنة فی الاحتجاج بالسنة ص١٢)

(٤) ملا علی قاری حنفی متوفی
” (فصل) ومنھا مخالفة الحدیث لصریح القرآن کحدیث مقدارالدنیا وانھا سبعة اٰلاف سنة ونحن فی الالف السابعة وھذامن ابین الکذب۔“
( اور اس(اصولِ حدیثِ موضوع) میں سے ہے کہ حدیث صریحاً قرآن ہی کے مخالف ہو(تووہ موضوع ہوگی) جیسے حدیث ہے کہ دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے اور ہم ساتویں ہزار سال میں ہیں ( اور ابھی تک دنیا بھی ہے لھذا یہ صریحاً غلط ثابت ہوگئی) اور یہ انتہائی کھلا ہوا جھوٹ ہے۔)(موضوعات الکبیر ص٢٦١)

(٥) محمد نظام الدین الشاشی المعروف بہ ملا جیون متوفی
” بقولہ اذا روی لکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی فما وافقہ فاقبلوہ والا فردوہ۔“
( اور آپ کا قول کہ جب تم سے میری کوئی حدیث بیان کی جائے تو اسے کتاب اللہ پر پیش کرو تو جو اسکے موافق ہو قبول کر لو اور جو مخالف ہو اسے رد کردو۔)
( فقہِ اصول حنفی کی مشہور کتاب جو مدارس میں بھی پڑھائی جاتی ہے ’ نورالانوار ص ٥١٢،اور اسکے مصنف ملا جیون مغل بادشاہ عالمگیر کے استادتھے! )
٭ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:
” اذا بلغکم منی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ فان وافقہ فاقبلوہ والا فردوہ۔“
( مفہوم وہی جو اوپر گزرا)( مقدمہ تفسیر احمدیہ ص٤، بحوالہ جاءالحق از مفتی احمد یار خان گجراتی ص٤٣)

( ٦) حافظ ابن کثیر متوفی
” وقال ابن جریر حدثنا محمد بن اسماعیل الَحمسی اَخبرنی جعفر بن عون عن عبدالرحمان بن المخارق عن ابیہ المخارق بن سلیم قال قال لنا عبداللہ ھوابن مسعود اذا حدثناکم بحدیث اتیناکم بتصدیق ذلک من الکتاب اللہ تعالٰی۔“
(عبداللہ ابن مسعود نے کہا کہ جب ہم تم سے کوئی حدیث بیان کرتے ہیں تو کتاب اللہ سے اس کی تصدیق بھی لا تے ہیں ۔)( تفسیر ابن کثیر ج٤ ص٩٤٥ ،سورہ فاطر)

(٧) عنایت اللہ سبحانی
٭” اور جو حدیث قرآن کے خلاف ہو وہ کبھی بھی قرآن کی شرح نہیں بن سکتی ۔“(حقیقت رجم ص٦١)
٭” حدیث قرآن کی تشریح ہے لیکن قرآن بھی حدیث کی صحت کےلئے بہترین کسوٹی ہے۔آپ کا ارشاد ہے کہ : تکثر لکم الاحادیث بعدی فاذا روی لکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ فما وافق فاقبلوہ وما خالف فردوہ ۔“(مفہوم وہی جو کئی بار گزرا)
٭ اسی سے ملتی جلتی ایک حدیث آتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :
’ ما اتاکم عنی فاعرضوہ علی کتاب اللہ فان وافق کتاب اللہ اَنا اقلتہ وان خالف کتاب اللہ فلم اقلہ وکیف اخالف کتاب اللہ وبہ ھدانی اللہ؟۔“( یعنی تمہارے پاس جو کچھ بھی میرے پاس سے آئے تو اسے کتاب اللہ پر پیش کرو اگر کتاب اللہ کے موافق ہو تو ہو میں نے ہی کہا ہوگا اور اگر مخالف ہو کتاب اللہ کے تو اسے میں نے نہیں کہا ،اور میں کیسے کتاب اللہ کی مخالفت کرسکتاہوںجبکہ اللہ نے مجھے اسی کے ذریعے ہدایت دی ۔“( امام شاطبی ،الموافقات ج٤ص٣١)
امام شاطبی اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ” اس حدیث کی سند صحیح ہو یا نہ ہو لیکن اس میں جو بات کہی گئی ہے وہ اپنی جگہ بالکل صحیح ہے۔“( ایضاً ص٠٥١)
٭ حضرت عیسٰی بن ابان (م ٩٤٢ھ) جو ایک بلند پایہ محدث اور ایک بالغ نظر فقیہ تھے اور جو کئی سال تک بصرہ کے قاضی رہے ،انہوں نے بھی اس روایت کی توثیق کی ہے اور اسکی اساس پر انکا مسلک یہ تھا کہ ’ خبر واحد جس کے اندر صحتِ سند کی تمام سندیں اور شرطیں موجود ہوں اسے کتاب ( اللہ) کی کسوٹی پر پرکھنا ضروری ہوگا اور اس کی صحت کا آخری فیصلہ اسی کی بنیاد پر ہوگا‘۔“ [المحصول فی علم اصول فقہ از امام رازی] ( بحوالہ حقیقت رجم ص٥١)

(٨) مولانا عبدالماجد دریا آبادی
” خود خبر واحد کے قبول کا معیار یہی ہے کہ وہ کسی نص قرآنی کے مخالف نہ ہو۔“
(تفسیر ماجدی ص٤٢٣ ،سورہ اعراف حاشیہ ٣)
امام ابوبکر جصاص اور امام قرطبی کا حوالہ بھی مولانا نے نقل کیا ہے جسے ہم بھی پہلے نقل کرچکے ہیں لھذا وہاں دیکھ لیا جائے ۔
ّّ
(٩) مولانامفتی محمدشفیع عثمانی دیوبندی
” اور صحیح مسلم میں ایک حدیث ابو ھریرہ کی روایت سے آئی ہے جس میں تخلیق عالم کی ابتداءیوم سبت یعنی ہفتہ کے روز سے بتائی گئی ہے اس کے حساب سے آسمان و زمین کی تخلیق کا سات دن میں ہونا معلوم ہوتا ہے مگر عام نصوص قرآنی میں یہ تخلیق چھہ روز ہونا صراحةً مذکور ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ تخلیق ارض و سماءکے واقعات اور دن اور ان میں ترتیب جن روایات حدیث میں آتی ہے ان میں کوئی روایت ایسی نہیں جس کو قرآن کی طرح قطعی ،یقینی کہا جاسکے بلکہ یہ احتمال غالب ہے کہ یہ اسرائیلی روایات ہوں ،مرفوع احادیث نہ ہوں جیسا کہ ابن کثیر نے مسلم اور نسائی کی حدیث کے متعلق اس کی صراحت فرمائی ہے۔اس لئے آیات قرآنی ہی کو اصل قرار دے کر مقصود متعین کرنا چاہیے۔“( معارف القرآن ،ج٧ص٦٣٦ سورہ حٰم)
(یعنی اگر کوئی روایت قرآن کے خلاف ہو تو وہ رد کیے جانے کے قابل ہے چاہے صحیح مسلم کی ہی کیوں نہ ہو ۔)

(٠١) مولانا عبدالسلام رستم مردانی
” واعلم قبل جواب ھذا الحدیث ان مسلک ابی حنیفہ اسلم ،فانہ یقدم العمل بالآیة من العمل بالحدیث اذا لم یمکن التوفیق بینھما ویتاول فی الحدیث دون الآیة۔“
( اور جان لے اس حدیث کے جواب سے قبل کہ ابو حنیفہ کا مسلک سلامتی والا ہے کیونکہ وہ آیت پر عمل کو مقدم رکھتے ہیں حدیث کے مقابلے پر جب ان دونوں(قرآن و حدیث)میں توفیق اور تطبیق ممکن نہ ہو، اور آپ حدیث میں تاویل کرتے ہیں بجائے آیت کے ۔)(التبیان فی تفسیر امّ قرآن ص٧٣١)
٭” وایضاًکان ھذاالحدیث مخالفاًعن ظاھرالقرآن الدال علی فوقیتہ تعالٰی علی العرش فلذا اول فی الجامع الترمذی۔“( اور اسی طرح یہ حدیث ظاہرقرآن کے مخالف ہے لھذا جمع ترمذی میں ہی تاویل کی جائے۔)

(١١) امام نسفی متوفی ٠١٧ھ
٭” بقولہ علیہ السلام اذا روی لکم عنی الحدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی فما وافقہ فاقبلوہ والا فردوہ۔“( آپ کا قول کہ،جب تم سے کوئی حدیث بیان کرے میری طرف سے تو اسے کتاب اللہ تعالٰی پر پیش کرو ،اگر موافق ہے تو قبول کرلواوراگرنہیں تو رد کردو۔)( کشف الاسرار علی المنار،ج٢ص٥٨)

(٢١)امام ابوبکر السرخسی
٭” ان کل حدیث ھو مخالف الکتاب اللہ تعالٰی فھو مردود ۔“
( ہر حدیث جو کتاب اللہ کے مخالف ہو مردود ہے)(اصول سرخسی ج١ص٥٦٣)
٭” وما روی من قولہ علیہ السلام فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی۔“
( اورجوقول مروی ہے آپ کا کہ (حدیث کو ) کتاب اللہ پر پیش کرو)(ایضاًج٢ص٦٧)
٭” وبہ نقول ان الخبر الواحد لا یثبت نسخ الکتاب ،لانہ لا یثبت کونہ مسموعاًمن رسول اللہ قطعاًوالھذالایثبت بہ العلم الیقین ،علی ان المرادبقولہ(وما خالفہ فردوہ)۔“
(اور اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ خبر واحد سے کتاب اللہ منسوخ ثابت نہیں ہوتی،کیونکہ یہ بات کہ وہ رسول سے ہی سے سنی گئی ہے ،قطعی نہیں ،لھذا اس سے علم یقین پیدا نہیں ہوتا، آپ کی قول مراد یہی ہےکہ جو مخالف قرآن ہو اسے رد کردو(ایضاً)
٭” ولا یجوز ترک ما ھو ثابت فی کتاب اللہ نصاًعندالتعارض۔“
(نص،کتاب اللہ میں جو ثابت ہے اس کو ترک کرنا جائز نہیں ( جب اس کا حدیث سے) تعارض ہو۔)( ایضاً)

(٣١) مولانا حسن بن عمار بن علی حنفی
” قالت (عائشة) کیف یقول رسول اللہ ذلک رد علی الراوی واللہ تعالٰی یقول وما انت بمسمع من فی القبور ،ای فلم یقلہ۔“( حضرت عائشہ نے فرمایا کہ ’ رسول اللہ کیسے یہ بات کہہ سکتے ہیں‘( کہ مُردوں نے سنا)اور آپ نے یہ راوی پرپر رد کیا ،’ جبکہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ آپ مُردوںکو نہیں سنا سکتے‘یعنی آپ نے یہ بات ہی نہیں کی ( کہ مخالفِ قرآن ہوتی)
( مراقی الفلاح شرح النورالایضاح ص٧٠٣)

(٤١)
” کیونکہ فقہ حنفی کے اصول میں ہے کہ استخراج واستنباطِ مسائل کے سلسلے میں قرآن حدیث پر مقدم ہے ،حدیث کا نمبر قرآن کے بعد ہے نہ کہ قرآن سے پہلے ۔لیکن اگر اس کے متعلق کوئی آیت موجود نہیں تو ظاھر ہے کہ اب حدیثِ صحیح کو ہی مستدل بنایا جائے گا اور اگر کسی مسئلے میں احادیث متعارض ہوں تو دین کے ناقلینِ اول صحابہ کرام کے اقوال و افعال کسی ایک کے لئے وجہءترجیح بنیں گے۔“
( رسول اکرم کا طریقہءنماز ص١١)

(٥١)امام ابن ھمام متوفی ١٨٦ھ
”قولہ علیہ السلام فی اھل القلیب ما انتم باسمع بما اقول منھم واجابوا تارة بانہ مردود من عائشة قالت کیف یقول ذلک واللہ یقول وما انت بمسمع من فی القبور ،انک لا تسمع الموتٰی ۔“
( اور آپ کا قول قلیبِ بدر کے متعلق کہ’ تم ان(مُردوں) سے زیادہ نہیں سنتے ہو جو میں ان سے کہتا ہوں ‘اور انہوں نے ایک مرتبہ جواب بھی دیا ،تو یہ رد شدہ ہے حضرت عائشہ سے کیونکہ آپنے فرمایا کہ آپ کیسے یہ قول کہہ سکتے تھے جبکہ اللہ کہتا ہے کہ آپ ان کو(اپنی بات) نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں اور آپ مُردوں کو(اپنی بات) نہیںسنا سکتے۔ )( فتح القدیر ،ج٢ص٩٦)

(٦١) مولانا قاسم نانوتوی بانیءدارالعلوم دیوبند
” واقعی مخالف کلام نہ کہ محدث کا قول معتبر ہے اور نہ ہی کسی منکر کا بلکہ خود حدیث اگر مخالف کلام اللہ ہو تو موضوع سمھجی جائے گی ۔“( تصفیة العقائد ص ٠٢)

(٧١)علامہ ابن قیّم جوزی
” ومنھا مخالفة الحدیث لصریح القرآن کحدیث مقدارالدنیا وانھا سبعة اٰلاف سنة۔“
( اور ( حدیث کے موضوع ہونے کی ایک دلیل)قرآن کی صراحت کے حدیث کا مخالف ہونا ہے جیسے مقدارِ دنیا والی حدیث کہ دنیا کی کل عمرسات ھزار سال ہے۔)( حالانکہ یہ حس و مشاھدہ کے بھی خلاف ہے چہ جائیکہ قرآن)۔( رسالہ المنار ص١٣، نیز موضوعات الکبیر ص٢٦١)

(٨١)یعقوب بن اسحاق کُلینی رازی (اثنا عشری شیعہ)
٭” عن ابوعبداللہ علیہ السلام قال:قال رسول اللہ ان علی کل حق حقیقة وعلی کل صواب نورا فماوافق کتاب اللہ فخذہ وما خالف کتاب اللہ فدعوہ ۔“
(ابوعبداللہ علیہ السلام نے کہا کہ کہا رسول اللہ ہر ایک حق پر ایک حقیقت اور ہر ایک صحیح و صواب پر ایک نور ہوتا ہے تو جو کتاب اللہ سے موافق ہو تو اسے پکڑ لو اورجوکتاب اللہ کے مخالف ہواسے ردکردو۔“( اصولِ کافی،باب الاخذ بالسنةوھواھدالکتاب،ج١ص٨٨)
٭” عن ایوب بن الحر قال: سمعت اباعبداللہ یقول کل شیءمردود الی الکتاب والسنةوکل حدیث لایوافق کتاب اللہ فھو زخرف۔“(اصولِ کافی،ج١ص٩٨)
( ایوب بن حر نے کہا کہ میں نے ابوعبداللہ کوکہتے سنا کہ فرماتے ہں کہ ہرشیءکتاب اورسنت کی طرف پھیری جاےگی اور ہر وہ حدیث جو کتاب اللہ کے موافق نہیں وہ بیکار چیز ہے۔)
٭” عن ابوعبداللہ قال:خطب النبی بمنٰی وقال:ایھاالناس ماجاءکم عنی یوافق کتاب اللہ فانہ قلتہ وماجاءکم یخالف کتاب اللہ فلم اقلہ۔“(ایضاً)
( ابوعبداللہ نے کہا کہ نبی نے منٰی میں خطبہ دیا اورفرمایاکہ اے لوگوں!میری طرف سے تم تک جو بھی (حدیث) آئے جوکتاب اللہ کے موافق ہوتوسمجھوکہ میں نے ہی کہا ہوگااوراگرکوئی (حدیث)کتاب اللہ کے مخالف ائے تو سمجھنا کہ میں نے نہیں کہا ۔)

(٩١)سیدظفرالحسن امروہوی(شیعہ)
” حدیث کی صحت کا معیار یہ ہے کہ وہ اول تو قرآن کے خلاف نہ ہو۔“
( فروعِ کافی کا دیباچہ ،ج١ص٤)

(٠٢)امام دارمی محدث سمرقندی
’باب تا
¿ویل حدیث رسول اللہ‘۔عن ابی ہریرةفکان ابن عباس اذاحدث قال:اذاسمعتمونی احدث عن رسول اللہ فلم تجدوہ فی کتاب اللہ اوحسناعندالناس فاعلمواا
¿نی قدکذبت علیہ۔“ (سنن دارمی ج١ص٤٥١،قدیمی کتب خانہ کراچی)
(یعنی امام دارمی نے باب قائم کیا ہے’حدیث رسول اللہمیں تا
¿ویل‘اس کے تحت لکھتے ہیں کہ ابوہریرہسے روایت ہے کہحضرت ابن عباسجب حدیث بیان کرتے توکہتے :جب تم مجھ سے کوئی حدیث سنواور تم اسے کتاب اللہ میں نہ پاو
¿یا وہ لوگوں
کے نزدیک وہ اچھی چیزنہ ہو(یعنی معروف نہ ہو)توسمجھوکہ میں نے آپپر جھوٹ باندھا۔)(یعنی میں نے غلط کہاکیونکہ اس کا امکان نہیںکہ آپ پر آپ جھوٹ باندھیں مگر اس پر تنبیہ کے لیے ایسا فرمایا)

(١٢)امام سخاوی
ملاعلی قاری اپنی ’موضوعات الکبیر‘میں امام سخاوی کا قول بھی یہی قول کرتے ہیں کہ ’ہمارے شیخوں کے شیخ شمس الدین نے ’مقاصد الحسنة فی بیان الاحادیث المشتھرة علی الالسنة‘کے خاتمہ میں کہاکہ(موضوع حدیث ہونے کی علامت )میں سے یہ بھی ہے کہ حدیث صریح قرآن کے مخالف ہو ۔‘(موضوعات الکبیر،فصل ٣١ص٦٢٣۔قدیمی کتب خانہ کراچی)
(ختم شد معیار حدیث، قرآن)

(٢٢)نووی۔پٹنی۔شاہ عبدالعزیز۔سیوطی۔قرآن۔ا
¿یامرکم ان تکفروا بعد ایمانکم۔۔۔؟ولو تقول علینا بعض الاقاویل۔؟

” آپ نے قرآن کے سوا کچھ نہیں چھوڑا “
(١)خطبہءحجة الوداع:
یہاں ہم وہ خطبہ حجةالوداع سے متعلق احادیث نقل کریں گے جن سے یہ ثابت ہوگا کہ آپنے امّت کو سوائے قرآن کے کچھ نہیں دیا،مطلب جن احادیث میں صرف قرآن ہی کا ذکر ہے اوراس کے ساتھ کسی دوسری چیزکاذکر نہیں۔
جبکہ بعض احادیث میں ’اہل بیتی‘(میرے اہل بیت) اور بعض میں’عترتی‘(میری عترت)کو الفاظ بھی آئیں ہیں جو صاف اضافہ معلوم ہوتے ہیں نہ کہ رسول اللہکے الفاظ!بلکہ اثناعشری عالم علامہ نوری طبرسی نے اپنی کتاب’فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب‘ میں تو یہ لکھ ماراہے کہ آپنے فرمایاکہ میں تم میں دوچیزیں چھوڑے جارہاہوں،کتاب اللہ ،سنت رسول اللہ اور کعبہ“ص۔۔۔۔یعنی دوکا کہااورذکر کردیے تین !جس کی وجہ سے ہمیں شبہ ہے کہ آپ
نے صرف قرآن کا ہی ذکرکیا تھا نہ کہ اس کے ساتھ کسی اور چیزکایہاں تک کہ سنت کا بھی ذکرنہیں کیابلکہ قرآن ہی کے ذکرکوکافی سمجھا گیا کہ اسی پر عقائدکی بنیادہے اور اسی سے سنت مستفادہے۔تو اگرکوئی یہ سمجھتا ہے کہ کوئی حدیث کا مجموعہ بھی آپ چھوڑگئے تھے تو اسے ایک غلط فہمی اور دینی کوتاہ فہمی کے سواکچھ نام نہیں دیاجاسکتا۔
صحیح مسلم وصحیح ابوداو
¿د:
٭” وانی قد ترکت فیکم مالن تضلوا بعدی ابداان اعتصمتم بہ کتاب اللہ۔“
( اور میں تم میں ایک ایسی چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے پکڑا تو تم کبھی گمراہ نہیں ہوگے(یعنی) کتاب اللہ!)
( صحیح مسلم،باب حجةالنبی ،ج١ص٣٩٧،سنن ابوداو
¿د،باب صفة حجةالنبی،ج١ص٢٦٢)
٭اور علامہ وحیدالزمان نے حدیث کے اس ٹکڑے کے بعد یہ اضافہ بھی نقل کیا ہے کہ:
” وایاکم والغلوفی الدین فانما اھلک من قبلکم الغلوّ فی الدین۔“
( اور دین میں غلو سے بچو کہ کیونکہ دین میں غلوہی نے پچھلی قوموں کوہلاک کیا۔)
( تیسیرالباری ترجمہ و تشریح صحیح بخاری،خطبہ حجةالوداع(کتاب کے آخرمیں)ج٨ص٤)
٭حضرت مالک بن عبادہ فرماتے ہیں:
”ان النبیعھدالینافی حجة الوداع فقال علیکم القرآن“
(نبینے ہم سے عہدلیا حجة الوداع کے موقع پر کہ تم اپنے اوپر قرآن کو لازم کرلو)
(مشکل الآثارج١ص١٥١،از امام طحاوی،بحوالہ تدوین حدیث ص٨٥٣از مولانامناظراحسن گیلانی)

(٢) علامہ شبلی نعمانی
” اسلام سے پہلے بڑے بڑے مذاھب دنیا میں پیدا ہوئے لیکن انکی بنیاد خودصاحب شریعت کے تحریری اصول پر نہ تھی۔ان کوخدا کی طرف سے جوہدایات ملی تھیں بندوں کی ہوس پرستیوں نے ان کی حقیقت گم کردی تھی،ابدی مذھب کا پیغمبراپنی زندگی کے بعدہدایات ربانی کا مجموعہ (جوچیز تھی)اپنے ہاتھ سے امت کے سپرد کرتا ہے اورتاکید کرتا ہے:
’انی قد ترکت فیکم مالن تضلوا بعدہ ابدا ان اعتصمتم بہ کتاب اللہ‘( یعنی میں تم میں ایک ایسی چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے پکڑا تو تم کبھی گمراہ نہیں ہوگے(یعنی) کتاب اللہ!)(صحاح)۔“
(سیرةالنبی ج٢ص٦٩)

(٣)مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی
” اپنی تالیف ’نبیءرحمت ‘ میں ’ حجةالوداع میں رسول اللہ کا خطبہ‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ” یہاں پر ہم اس خطبہ کا پورا متن دے رہے ہیں ،جو آپ نے عرفہ کے روز دیا تھا“
آگے’عرفہ‘کا عنوان قائم کرکے یہی ٹکڑا نقل کرتے ہیں جس میں صرف قرآن ہی کا ذکر ہے کہ
” وقدترکت فیکم مالن تضلوا بعدہ ان اعتصمتم بہ کتاب اللہ۔ “ اور خود ہی یہ ترجمہ بھی کرتے ہیں کہ ” میں تم میں ایک چیز چھوڑ جاتا ہوں اگرتم نے اس کو مضبوطی سے پکڑ لیاتوکبھی گمراہ نہ ہوگے وہ چیز کیا ہے؟ کتاب اللہ۔“( نبیءرحمت ص ٣٢٥)

(٤)مولانا عبدالعزیز ہزاروی
مولانا اپنی تالیف ’ قصص الانبیائ‘میں ’خطبہ حجةالوداع‘ کے عنوان کے تحت آنحضرت کی آخری وصیت صحاح کے حوالہ سے یہ نقل کرتے ہیں کہ ” میں تم میں ایک چیز(قرآن) چھوڑے جارہا ہوں جبتک تم اس کو پکڑکر رکھو گے ہرگزگمراہ نہیںہوگے ۔“
( ص٦٢)

(٥) امام بخاری
امام بخاری نے صحیح بخاری میں ایک مستقل باب اسپر باندھا ہے کہ آپ سوائے قرآن کے دوسری کوئی کتاب یا صحیفہ نہیں چھوڑ کے گئے،باب کا نام ہے:
” باب من قال لم یترک النبی الا ما بین الدفتین ۔“( باب، جس نے یہ کہا کہ نبی نے کچھ نہیں چھوڑا مگر جو دفتَین( دو لوحوں ) کے درمیان ہے)(صحیح بخاری ج٢ص١٥٧)

(٦) حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت محمد بن حنفیہ
” عن عبدالعزیز بن رُفیع قال دخلت اناوشداد بن معقل علی ابن عباس فقال لہ شدادبن معقل’اترک النبی من شیءقال ماترک الامابین الدفتَین وقال ودخلنا علی محمد بن حنفیہ فسالناہ فقال ماترک الامابین الدفتَین۔“
(عبدالعزیز بن رفیع سے مروی ہے کہ کہا میں اور شداد بن معقل حضرت عبداللہ بن عباس کے پاس گئے،شداد نے ان سے پوچھا کہ نبی نے کچھ چھوڑا ہے؟ توحضرت ابن عباس نے کہا کہ(آپ نے)کچھ نہیں چھوڑا مگر جودولوحوں کے درمیان ہے(یعنی صرف قرآن)‘ پھرہم محمد بن حنفیہ کے پاس گئے اور اس سے بھی یہی پوچھا تو انہوں نے کہا کہ(آپ نے)کچھ نہیں چھوڑا مگر جودولوحوں کے درمیان ہے(یعنی صرف قرآن چھوڑا)‘۔)(صحیح بخاری،ج٢ص١٥٧)

(٧)حضرت علی
حضرت علی کے بارے میں مشہورہوگیاتھاکہ آپ کے پاس قرآن کے سوا اوربھی کچھ ہے تو آپ نے اس شبہ کو مٹانے کے لیے کئی بار برسرمنبرفرمایا:”یقول واللہ ما عندناکتاب نقرءہ علیکم الاکتاب اللہ تعالٰی“
(یعنی آپ فرماتے کہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے جوہم تم پر پڑھتے ہیں مگر کتاب اللہ تعالٰی)
(مسنداحمدج١ص٧٨،بحوالہ تدوین حدیث ص٧١٤۔اسی مضمون کی حدیث بخاری میں بھی آئی ہے۔)
” تمسک واعتصام بالکتاب “
( یعنی صرف کتاب اللہ کوپکڑنا اور تھامنا)
خود قرآن میں کئی جگہ ارشادفرمایا گیا کہ کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامو اور اسی کو کافی سمجھومثلاًفرمایا گیا ’ واعتصموا بحبل اللہ جمیعاًولاتفرقوا۔“( اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ کرو)اور فرمایا کہ ’اولم یکفھم
پھر خود رسول اللہ نے حجةالوداع کے خطبہ میں فرمایا کہ’ کتاب اللہ کو تھام لو کبھی گمراہ نہیں ہوگے‘ جیسا کہ پہلے ہم لکھ آئے ہیں ۔اور آپ نے یہ قرآن کی مذکورہ بالا آیات ہی تشریح وتفسیر وتبیین میں ارشاد فرمایا اور صحابہءکرام سے،جو مزاج شناس قرآن ورسول تھے اوردین کو سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے،ایسے ارشادات منقول ومروی ہیں کہ جن میں انہوں نے ’ہمارے لئے صرف قرآن کافی ہے‘کانعرہ لگایا ۔
’ہمارے لئے صرف قرآن کافی ہے‘
٭حضرت ابوبکرصدیق نے فرمایاکہ” فمن سا
¿لکم فقولوا بینناوبیناکم کتاب اللہ فاستحلواحلالہ وحرمواحرامہ۔“(یعنی جو کوئی بھی تم سے(کوئی دینی مسئلہ وغیرہ) پوچھے تو اسے کہو کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کتاب اللہ ہے ،اس کے حلال کو حلال سمجھو اوراس کے حرام کوحرام جانو۔)(تذکرةا لحفاظ،علامہ حافظ محدث ذہبی،ج١ص٣، اورفہم قرآن،مولاناسعیداحمداکبرآبادی
فاضل دیوبندی،ص٤١١)
٭حضرت عمر نے کہا کہ’وعندکم القرآن حسبنا کتاب اللہ۔‘(یعنی تمہارے پاس قرآن ہے اور ہمیں تو صرف کافی ہے۔)(صحیح بخاری،ج٢ص٨٣٦)
٭ حضرت قرظہ بن کعب نے کہا کہ حضرت عمر نے ہمیں عراق روانہ کیا اور ہمارے ساتھ چلے اور پوچھا کہ تمہیں معلوم ہے کہ میں کیوں تمہارے ساتھ کیوں مشایعت کررہاہوں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ہماری تکریم کے لئے آپنے کہا کہ ہاں مگراس کے ساتھ ایک اور چیزبھی ہے وہ یہ کہ تم ایک ایسی قوم کے پاس جارہے ہو جہاں سے قرآن(پڑھنے)کی ایسی آوازیں آتیں ہیں جیسے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ،تو تم کہیں ان لوگوں کو(قرآن سے)نہ روک دواحادیث کے ذریعے اور انہیں(صرف احادیث ہی میں)مشغول کردو،(لھذا)قرآن کو الگ رہنے دینا۔“
(تذکرة الحفاظ ،علامہ ذہبی ج١ص٧)
٭حضرت عاشہنے ،حضرت عمرکی حدیث کہ لواحقین کے رونے سے مردہ پر عذاب ہوتا ہے ،کہاکہ’ اللہ عمرپر رحم کرے،رسول اللہ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ اللہ مومن(مردہ)کوعذاب دیتا ہے اس کے گھر والوں کے رونے سے بلکہ رسول اللہ نے تو فرمایا تھا کہ اللہ کافر پر عذاب بڑھاتا ہے اس کے گر والوں کے رونے سے‘ اور کہا کہ ”حسبکم ولاتزروازرةوزراخرٰی “ (یعنی تمہیں [اس حدیث کے مقابلے پر یہ آیت قرآنی]کافی ہے ،کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔)(عن ابن عباس ،صحیح بخاری ج١ص٢٧١،صحیح مسلم،ج١ص٣٠٣،مشکوةالمصابیح ص٢٥١)
٭ابوالعالیہ نے کہا کہ ایک شخص نے حضرت اُبی ابن کعبسے کہا کہ مجھے کوئی وصیت کیجے آپنے فرمایا ” اتخذ کتاب اللہ [اماما]وارض بہ حکماوقاضیا۔“ یعنی’کتاب اللہ کو امام بنالو(سامنے رکھو) اوراس کے حَکم اور قاضی ہونے پر راضی رہو۔( فیصلے وغیرہ کے لئے اسے ہی کافی ووافی سمجھو)( تذکرةالحفاظ،حافظ ذہبی،ج١ص٧١)
٭امام ومحدث حضرت شعبہ بن الحجاج تابعی جنہیں فن اسماءالرجال کا بانی کہا جاتا ہے فرماتے ہیں کہ ” کلما تقدمتم فی الحدیث تا
¿خرتم فی القرآن ۔“ یعنی ( اے حدیث کے بیان کرنے والوں) تم لوگ جتنا حدیث میں آگے بڑھتے جاو
¿ گے اُتنا ہی قرآن سے ھٹتے جاو
¿ گے۔(ایضاًج١ص٦٩١)
ابو قطن نے کہا کہ امام شعبہ نے مجھ سے کہا کہ” ماشیءاخوف عندی ان یدخلنی النار من الحدیث و قال عنہ وددتُ انی وقاد حمام ولم اعرف الحدیث ۔“( حدیث کی وجہ سے میں دوزخ میں ڈالا جاو
¿ں،مجھے سب سے زیادہ خوف اسی بات کا ہے اور کہا کہ میں اس بات کوانتہائی چاہتا ہوں کہ میں ایک حمام میں لکڑیاں جلانے والا ہوتا اورحدیث نہ جانتا۔)(ایضاً ج١ص٧٩١)
٭ حضرت فضیل بن عیاض سے ایک مرتبہ چند طلبا ئ، حدیث کا درس لینے آئے تو آپ نے انہیں اس طرح ڈانٹ پلائی کہ” انکم قد ضیعتم کتاب اللہ ولوطلبتم کتاب اللہ لوجدتم فیہ شفاءثم قرئ’ یایھاالناس قدجا
¿تکم موعظةمن ربکم‘ ( تم لوگوں نے کتاب اللہ کوضائع کردیاہے اوراگرتم کتاب اللہ کے صحیح طالب ہوتے تو تم اس میں شفاءپالیتے پھر آپ نے آیت پڑھی کہ’ اے لوگوں تمہاری پاس خدا کی طرف سے موعظت و نصیحت آچکی ہے۔)
( جامع بیان العلم ،علامہ حافظ محدث ابن عبدالبر،ص٢٣٢)
٭ شاہ عبدالقادرمحدث دہلوی فرماتے ہیں کہ ” بعضے محقق نے لکھا ہے کہ قرآن کے اول میں حرف بااورآخرمیں اس کے حرف سین آیا ہے اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن مجید دونوں جہان کے واسطے’بس‘ہے۔“(بحوالہ جواھرالقرآن ج٣ص٢٠٤)
٭مولانامحمدابوبکرغازی پوری کہتے ہیں کہ” مگریہ( غیرمقلدین از مول
¿ف)بے شرمی اور بے حیائی کے مارے احناف کو چڑانے کے لئے اپنی کتابوں میں یہ شعرلکھتے ہیں
یہ وہ امت ہے کہ فرمان نبوی سن کے یہ کہے
میں توحنفی ہوں نہ مانوں گایہ فرمان حدیث
اور اپنے کو عشق نبوی کا متوالا ثابت کرنے کے لئے یہ قوالی ضرور گائیں گے ع
مابلبلان نالان دلدار مامحمد
اورنہایت بے حیائی کے ساتھ اور بلا سوچے سمجھے یہ دعوٰی کریں گے
مصطفٰی سے ہم کوورثے میں ملی ہیں دوکتاب
ایک کلام اللہ دوئم آپ کا فصل الخطاب
ناظرین یادرکھیں کہ امت مسلمہ کو توجوخداورسول پرایمان رکھتی ہے صرف ایک کتاب ملی ہے جسکا نام صرف قرآن ہے مگر ان غیرمقلدین کوان کے آبائی ورثے سے دو کتاب ملی ہے ایک کانام کلام اللہ ہے اور دوسری کانام ’فصل الخطاب‘ ہے ،یہ حماقت،جہالت اور گمراہی ہے۔“
( مسائل غیرمقلدین،کتاب وسنت اورمذھب جمہورکے آئینے میں ص ٠٢١،٩١١)
 

طالوت

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ شاید تیرے دل میں اتر جائے میری بات !
فاروق یہ پوسٹ مارٹم آپ کو بہت پہلے پیش کرنا چاہیے تھا۔۔۔ لیکن امید رکھیں کہ اس کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلے گا۔۔۔۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو
وسلام
 
بھائی طالوت، آپ سے متفق ہوں کہ قرآن اور دیگر کتب پڑھنےکے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ تمام مؤرخین، تمام علماء، تمام مفسرین، تمام محدثین اور تمام فرقہ جس کتاب پر متفق ہیں وہ ہے قرآن حکیم۔

تمام بھائیوں اور بہنوں سے عرض ہے کہ۔
جب اتنی عظیم کتاب ہمارے درمیان ہو، اور خالق کائنات بذات خود اس کتاب کے ذریعے ، آپ سے ہم سے بات کررہا ہو اور بذات خود ہدایت دے رہا ہو تو پھر دیگر کتب کے حوالہ کی کوئی ضرورت نہں رہ جاتی۔ میں کسی سے جیتنا یا ہارنا نہیں چاہتا۔ بس دعا کرتا ہوں‌ کہ اللہ تعالی ہم سب کو اپنی بہترین ہدایت عطا فرمائے۔

اس دعا کے ساتھ عرض یہ ہے کہ یہ میری معمولی اور مختصر علمیت کی انتہا ہے، اس سے زیادہ میں نہیں جانتا۔ آپ کا جو بھی نظریہ ہو وہ آپ دوسروں کے فائیدے کے لئے لکھئے۔ میں اس ضمن میں مزید سوال و جواب یا جرح و بحث سے قاصر ہوں۔
 

طالوت

محفلین
اس دعا کے ساتھ عرض یہ ہے کہ یہ میری معمولی اور مختصر علمیت کی انتہا ہے، اس سے زیادہ میں نہیں جانتا۔ آپ کا جو بھی نظریہ ہو وہ آپ دوسروں کے فائیدے کے لئے لکھئے۔ میں اس ضمن میں مزید سوال و جواب یا جرح و بحث سے قاصر ہوں۔
آپ میری تحریر سے غلط اندازہ لگا بیٹھے ہیں میں آپ سے بہت حد تک متفق ہوں اور اگر کہیں متفق نہیں تو اس پر آپ سے بات ہو چکی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔۔ میری سابقہ تحریر آپ سے شکایتی ہے کہ آپ اگر یہ حوالے شروع میں ہی دے دیتے تو آپ کو بار بار ان باتوں کی وضاحت نہ کرنا پڑتی جنھیں آپ کئی دفعہ دھرا چکےتھے۔۔۔ اور یہی میرا مقصد تھا کہ اب آپ اپنی توانائیاں ضائع کر رہے کہ اس ضمن میں جو کچھ بیان کیا جا سکتا تھا وہ بیان کیا جا چکا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وسلام
 

میاں شاہد

محفلین
السلام و علیکم

برادران عزیز، بہت بہت شکریہ آپ احباب کا کہ آپ نے اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ لمحات نکال کر مجھ جیسے کم علموں کی رعایت میں اتنی وضاحت سے بات کو بیان کیا ۔

فاروق بھائی کی کفتگو کا لب لباب جو میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ فاروق بھائی کے مطابق جب قرآن کریم جیسی مستند ترین کتاب ہمارے درمیان موجود ہے تو اس کے ہوتے ہوئے کسی دوسری کتاب جسے حدیث کا نام دیا جاتا ہے کی کیا ضرورت ہے؟ اور فاروق بھائی کی مطابق صرف قرآن ہی حجت ہے۔

فاروق بھائی سے ایک ادنیٰ سے درخواست ہے کہ برائے کرم میں جو سمجھا ہوں اس کی تصدیق یا تردید کردیں، کیا ہم تمام احادیث کو پس پشت ڈال دیں یا بوقت ضرورت ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے اور احکامات کا استنباط کیا جاسکتا ہے؟

والسلام

آپ کا کم فہم بھائی
 
اقتباس:
فاروق بھائی سے ایک ادنیٰ سے درخواست ہے کہ برائے کرم میں جو سمجھا ہوں اس کی تصدیق یا تردید کردیں، کیا ہم تمام احادیث کو پس پشت ڈال دیں یا بوقت ضرورت ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے اور احکامات کا استنباط کیا جاسکتا ہے؟


میاں‌شاہد، سلام
1۔ بھائی اس بات چیت کو وہ رنگ کیوں دے رہے ہیں جو اب تک نہیں ہے ؟
آپ اس دھاگہ کا ایک بار پھر مطالعہ فرمائیے۔ آپ کے سوال کو جواب بہت بار دیا جا چکا ہے۔ بہرحال ایک بار پھر آپ کی تسلی کے لئے۔

یہاں بہت صاف صاف بتایا جاچکا ہے کہ صاحب قران جناب رسول اللہ صلعم کی حدیث مبارک ہمیشہ موفق القران ہوتی ہے، یہ اصول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ لہذا موافق القرآن حدیث رسول پاک سے آپ جتنا چاہے استفادہ حاصل کیجئے۔

یہ بھی واضح کیا گیا کہ حدیث رسول پاک کسی طور قرآن کریم کے مخالف نہیں‌ہوسکتی ۔ آپ کسی بھی کتاب روایات جو روایت بھی رسول اکرم سے منسوب ہو ، اگر آپ اس کو خلاف قرآن پاتے ہیں تو مزید کسی ریسرچ کی ضرورت ہی نہیں۔ آپ رسول اکرم کی ہدایت پر عمل کیجئے۔ باقی اسناد اس کے بعد دیکھئے۔

2۔ انتہائی معذرت کے ساتھ
یہ جملہ بہت ہی بے معنی ہے۔ ---- کسی دوسری کتاب جسے حدیث کا نام دیا جاتا ہے ----- ایسی کسی ایک کتاب جس کا اپنا نام حدیث ہو، ایسی کتاب کا وجود ہی نہیں ‌ہے۔ استدعا ہے کہ کتب روایات میں اور اور کسی روایت میں موجود حدیث یعنی سنت (قول و فعل)‌ رسول پاک میں‌فرق سمجھئے۔

احباب سے:
3۔ عرض‌ یہ ہے کہ تھوڑے سے خلوص کا مظاہرہ فرمائیے۔ اس طرح پینترے بدل بدل کر میرے خیالات کی کسوٹی کھیلنے کے بجائے اپنے خیالات سے مطلع فرمائیے۔ ہر اس شخص‌سے جو میرے خیالات مزید جاننا چاہتا ہے ، اپنے بار ے میں اسی تفصیل سے بتائے، جس تفصیل سے میں بتا چکا ہوں۔

ابتدا وہاں سے کیجئے جہاں مجھ سے پہلے سوالات کئے گئے تھے۔ ہر سوال کا جواب دیجئے جو اب تک مجھ سے کئے جاچکے ہیں ، جب ہم سب جان لیں گے کہ آپ کے خیالات کیا ہیں تو پھر آپ سوال کیجئے، آپ کے ہر سوال کا جواب دینےمیں آسانی رہے گی۔

والسلام
 

گرائیں

محفلین
حیرت ہوئی کہ آپ کو سات تحریروں کے بعد ہی یہاں‌ پر لکھنے کی اجازت مل گئی؟۔ اور ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہم جب تک پچیس کا کوٹہ پورا نہ کرلیں‌ یہاں پر نہیں لکھ سکتے۔ اس بارے میں‌کچھ بتانا چاہیں گے

غالباّ یہ آپ کی قربانیوں کا صدقہ ہے کہ میں لکھ سکا۔ :grin:
 
۱) حدیث لکھنے سے ممانعت والی حدیث کو آپ کی """ رائے """ کے مطابق قران سے کون سی موافقت حاصل ہوتی ہے ؟

ٰیہاں آپ کی میری دو آراء ہیں۔
1۔ یہ آپ کا خیال ہے کہ حدیث رسول پاک لکھنے کی کبھی ممانعت ہوئی۔
2۔ میں عرض کرچکا ہوں کہ کوئی بھی حدیث یہاں‌ ایسی نہیں پیش کی گئی جس میں سنت رسول پاک لکھنے کی ممانعت ہو۔ جو واضح‌ ممانعت ملتی ہے وہ رسول اکرم سے منسوب کر کے غیر قرآنی، غیر القران یا قرآن مخالف امور لکھنے کی ممانعت ہے۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ، الحمد للہ ، فاروق بھائی آپ کے اس مندرجہ بالا جواب سے پتہ چل رہا ہے کہ """ غیر القران """ اور """ غیر الوحی """ کا کچھ فرق آپ کو سمجھ میں آنا شروع ہو گیا ہے ، جو اب آپ نے """ قران مخالف امور """ کو بھی داخل فرما لیا ہے ،
یہ آغاز ہے ، فاروق بھائی ، جس کے کئی منطقی انجام نظر آ رہے ہیں ، ہو گا کیا یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے ،
آپ کے مندرجہ بالا فقرے سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ اب آپ """ کی روشنی میں بات صاف ہو جاتی ہے کہ """ مخالف قران """ کچھ اور ہے اور مطلقا """ غیر القران """ کو غلط نہیں کہہ رہے بلکہ """ غیر القران """ میں سے """ مخالف قران """ کو رد کر رہے ہیں ، اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ،
فاروق بھائی ، بات تو یہ ہے کہ جو احادیث صحیح ہیں وہ """ مخالف قران """ نہیں ہو سکتی ہیں ،
اور اللہ تعالی کے کلام کے علاوہ جو ہے وہ """ غیر القران یعنی قران کے علاوہ """ ہے ،

(۲) حدیث کو قران کی کسوٹی پر پرکھا جانا چاہیے یہ آپ کی ""' رائے """ ہے ، اس رائے کی بنیاد آپ نے ایک حدیث پر ہی رکھی ہے ، قطع نظر اس کے کہ وہ حدیث صحت کے درجے پر پوری نہیں اترتی ، آپ کے پاس اس حدیث کے لیے کونسی موافقت قران سے میسر ہے ؟؟؟
آپ کو دو عدد حدیث رسول پاک پیش کی گئیں۔ ایک کو آپ نے صحیح مانا اور دوسری کو آپ نے ضعیف کہہ کہ "رد" کردیا ۔ پھینک دیا ۔ جبکہ دوسری حدیث آپ کو رسول اکرم سے منسوب شدہ روایت کو صرف اس وقت قابل قبول قرار دیتی ہے جب وہ "موافق القرآن" ہو۔

یہاں‌بھی ہماری دو آراء‌ ہیں۔
1۔ میں‌کہتا ہوں کہ سنت رسول اسی کتاب کے مطابق ہے جس کی رسول اللہ نے تعلیم دی۔
2۔ آپ کو رسول اکرم کی سنت کو "موافق القرآن" ہونے پر اعتراض ہے بلکہ آپ اس قول رسول اللہ کو "ضعیف" قرار دے کے ماننے سے صاف انکار کررہے ہیں۔ جو کہ انکار حدیث ہے۔
فاروق بھائی ، یہاں پھر حسب سابق آپ نے میری بات کا جواب دینے کی بجائے ادھر ادھر کر دیا ، بھائی جان سیدہی سی بات تھی کہ بتا دیتے کہ فلاں فلاں آیت کی بنا پر آپ کو یہ کمزور غیر ثابت شدہ روایت حدیث قبول ہوئی ، بہر حال اس کے بعد آپ نے جو مندرجہ ذیل دو آراء ایک اپنی اور دوسری ممجھ سے منسوب کی ہے ، اس میں سے پہلی کے ساتھ تو میں بھی اتفاق کرتا ہوں ، اور کبھی اس کا انکار نہیں کیا ،
اور دوسری جو آپ نے مجھ سے منسوب کی ہے اس کو آپ نے کہاں سے اخذ فرمایا ؟؟؟
مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے کسی قول یا فعل یا تقریر کے """ موافق القران """ ہونے پر اعتراض ہے !!! سبحان اللہ ، ھذا بہتان عظیم ، میں تو شروع سے یہ عرض کرتا چلا آ رہا ہوں کہ کوئی صحیح حدیث خلاف قران نہیں ہوتی ،
حدیث کو قران پر پرکھنے والا جو قول رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم آپ نے اپنی دلیل کے طور پر ذکر فرمایا اسے میں نے نہیں ائمہ حدیث نے ضعیف قرار دیا ہے ،
پس جو قول قول رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے قول کے طور پر ثابت نہیں ہوتا وہ """ انکار حدیث """ کیسے ہوا ،
اب چونکہ ان الفاظ کے استعمال کا آغاز آپ نے فرمایا ہے تو عرض کرتا چلوں کہ """ انکار حدیث """ تب ہوتا ہے جب رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے ثابت شدہ کسی قول یا فعل یا تقریر کو رد کیا جائے اور اس کا سبب کچھ بھی بنایا جائے ، ہماری ساری سابقہ گفتگو میں یہ صاف نظر آتا ہے کہ کبھی """ غیر القران """ کبھی """ مخالف قران """ کہہ کہہ کر صحیح اور غیر صحیح ہر قسم کی حدیث کا انکار کون کر رہا ہے ، اور ، یک طرفہ تماشا یہ کہ جس """ روایت """ میں سے اپنے مطلب کی کوئی بات نکلتی ہو اسے اپنی ہی کسوٹی پر پرکھے بغیر مان لیا اور بار بار پوچھنے پر بتا نہیں پائے کہ اس کو نہ ماننے کی قران میں سے کیا دلیل ہے ؟؟؟



(۳) آپ کی """ رائے """ کے مطابق جو کسوٹی آپ نے مقرر کر رکھی ہے اس کو استعمال کا طریقہ کیا ہے ؟؟؟
یہ کسوٹی میں‌نے مقرر نہیں‌کی۔ رسول اللہ نے فرمایا - مجھ سے غیر قرآنی نہ لکھو اور جس نے لکھا ہے مٹا دے۔ آپ اس کو میری رائے کیوں قرار دیتے ہیں اور اس طریقہ پر عمل کرکے خلاف قرآن روایات کو آپ کیوں نہیں‌مٹانا چاہتے؟
یہ دیکھ لیجیے فاروق بھائی ، یہاں پھر آپ """ غیر القران """ روایات کو صحیح اور غیر صحیح موافق اور غیر موافق کا فرق روا رکھے بغیر مٹا دینے کا فرما رہے ہیں ، اور ایک """ غیر القران یعنی قران کے علاوہ """ روایت کو ہی دلیل بنا رہے ہیں جو رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے قول کے طور پر ثابت بھی نہیں ہوتی ، اللہ جانے آپ کی باتوں میں اتنا اضطرار و تقلب کیوں ہے !؟

(4 ) """ غیر القران """ اور """ غیر قرانی """ کیا آپ ان دونوں کو عربی الفاظ کے طور پر لیتے ہیں ؟ یا پہلے کو عربی اور دوسرے کو اس کا ترجمہ تصور فرماتے ہیں؟؟؟
بھائی ۔ غیر القرآن ایک بہت ہی عام فہم اصطلاح ہے۔ اسی طرح موافق القرآن بہت ہی عام فہم اصطلاح ہے۔ اگر آپ اس بارے میں اپنا نظریہ رکھتے ہیں تو ٹھیک ہے صاحب۔
فاروق بھائی ، کیا یہ میری بات کا جواب ہے !!! ، چلیے یوں ہی سہی """ غیر القران یعنی قران کے علاوہ """ اور """ موافق القران یعنی قران کے مطابق """ ان دونوں کا تو آپ اقرار فرما رہے ہیں ، اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ یہ جانتے ہیں کہ """ قران کے علاوہ """ کچھ اور ہے اور """ قران کے مطابق """ کچھ اور ، کیونکہ اگر """ غیر القران """ کو ""' قران کے علاوہ ""' مانا جائے گا تب ہی تو """ موافقت یا مخالفت """ دیکھی یا پرکھی جائے گی ، اگر ہو گا ہی """ قران """ تو نہ """ غیر القران """ ہوا اور نہ ہی مخالفت کا کوئی سوال پیدا ہوا ، تو پھر اس سب فلسفے کا کیا معنی و مقصد ، اور آپ کی ان متضاد باتوں سے کیا سمجھا جائے ، میرے بھائی ،

(۵) """ غیر القران """ اور """ غیر الوحی """ میں کوئی فرق آپ کے ہاں سمجھا جاتا ہے کہ نہیں ؟؟؟
جواب: آپ ایسا کیجئے کہ وہ آیات جو اللہ تعالی نے غیر القرآن اور غیر الوحی کو نمایاں کرنے کے لئے عطا فرمائی ہیں یہاں فراہم کردیجئے۔ میرے یہاں‌ صرف اور صرف قرآن کے اصول و قانون سمجھے جاتے ہیں ۔
سبحان اللہ فاروق بھائی ، سورت النجم کی وہی دو آیات جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ہر فرمان کو وحی قرار دیتی ہیں اور آپ بھی ان کا ذکر فرما چکے ہیں ، اور ان کی روشنی میں میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ آپ کے ہاں """ غیر القران یعنی قران کے علاوہ """ اور """ غیر الوحی """ کے مفہوم میں گڈ مڈ ہو رہی ہے ،
اللہ یا اس کے رسول نے کہاں‌ فرمایا ہے کہ بخاری کی کتاب پر ایمان لاؤ اور اس کو بھی مانو؟‌ ان کتب روایات کو ماننا بالکل ضروری نہیں ہے ۔ بلکہ مسلمانوں کے بہت سے فرقے تو ان کو مانتے ہی نہیں ہے۔ اس سے وہ کافر تو نہیں ہوگئے؟ اگر آپ کو ہدایت غیر القرآن سے ملتی ہے تو مانئیے۔ صاحب میں کون ہوتا ہوں ؟
فاروق بھائی ، اللہ کی کتاب کے علاوہ کسی اور کتاب پر ایمان لانے کا تو ہم بھی نہیں کہتے ، جی کتب احادیث جنہیں آپ کتب روایات کہتے ہیں جو آپ کی علقم حدیث سے دوری کا ثبوت ہے ، ان کتابوں میں بیان کردہ صحیح احادیث پر ایمان رکھنے کا کہتے ہیں کیونکہ صحیح احادیث اللہ کی وحی ہیں جو اللہ کا کلام نہیں ہیں پس قران میں مذکور نہیں ہیں ،
جی فاروق بھائی """ غیر القران یعنی قران کے علاوہ """ میں سے """ اللہ کی وحی کے مطابق """ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے صحیح ثابت شدہ اقوال سے ہمیں ہدایت ملتی ہے ، اور ان کو ترک کر کے ہم اپنے دین کا ایک بہت بڑا حصہ گنوا نہیں سکتے ، اس کی ایک دو مثالیں ابھی آگے عرض کرتا ہوں ان شاء اللہ تعالی ،



استدعا یہ ہے کہ آپ اپنا نکتہ نظر لکھ دیجئے، کہ آپ کو کیا قبول ہے اور کیا نہیں۔ میں بہت ہی وضاحت سے یہ سب لکھ چکا ہوں۔ اس طرح ہم سب کو پتہ رہے گا کہ کون کیا سوچتا ہے۔، اب آُ ان غیر مطنقی سوالات سے اپنا اور میرا وقت ضائع فرما رہے ہیں۔

والسلام
آپ کا فرمان ہے کہ """ میں اپنا نقطہ نظر بار بار لکھ چکا ہوں """ اور میری گذارش ہے کہ جو کچھ آپ بہت وضاحت سے لکھ چکے ہیں وہ مزید کئی وضاحتوں کا متقاضی ہے ،
فاروق بھائی یہ آخری بات تو بہت خوب کہی آپ نے ، جب اپنی ہی ""' رائے ""' کے مطابق قانون کے مطابق جواب نہیں دے پائے تو میری معروضات کو غیر منطقی سوالات قرار دے کر بات ختم کر دی ، ایسا ہی ہوتا ہے و السلام علیکم۔
 
عادل سہیل صاحب، اردو بولنے والے اصحاب کے لئے مہربانی فرما کر آپ درج ذیل روایات کا ترجمہ فرمادیجئے۔ کچھ روایات میں نے ایک سے زائید بار لکھی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کتب روایات میں ایک سے زائید مرتبہ پائی جاتی ہیں۔ ہر روایت پر اس کا لنک ہے۔ میٹیرئیل زیادہ ہے۔ غلطی ہوگئی ہو تو فرمائیے تاکہ درست کرسکوں۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ، بھائی فاروق اس کا ترجمہ کیا جا چکا ، اور اس روایت کا تفصیلی جواب بھی دیا چکا ، دوبارہ یہاں دہرانے کا مقصد و حکمت بیان فرما دیجیے ، ویسے یہاں آپ کی لکھی ہوئی عبارات میں وہی بات لکھی ہوئی ہے جو میں نے عرض کی تھی کہ جب تک قران اور حدیث کے فرق کی سمجھ میں مشکل کا اندیشہ تھا ممانعت تھی جب یہ اندیشہ دور ہوگیا تو ممانعت ختم کر دی گئی ، بلکہ ایک اور بات بھی لکھی ہوئی ہے کہ """ ممانعت اس بات سے تھی کہ قران اور حدیث کو ایک صحیفے میں نہ لکھا جائے ، عربی عبارت مندرجہ ذیل ہے
""" ‏وقيل : إن حديث النهي منسوخ بهذه الأحاديث , وكان النهي حين خيف اختلاطه بالقرآن فلما أمن ذلك أذن في الكتابة , وقيل : إنما نهى عن كتابة الحديث مع القرآن في صحيفة واحدة ; لئلا يختلط , فيشتبه على القارئ في صحيفة واحدة """
و الحمد للہ ، آپ کی پیش کی ہوئی عبارت آپ کی دلیل نہیں میری بات کی دلیل ہے ، اس میں سے آپ کی """ غیر القران """ والی ""' رائے """ کا مفہوم بھی درست ثابت نہیں ہو رہا ، و الحمد للہ
 
درج ذیل مضمون کسی اور صاحب کا لکھا ہوا ہے۔ یہاں آپ کی آسانی کے لئے کٹ اور پیسٹ کیا ہے۔ اس کا صرف اور صرف ایک مقصد ہے کہ یہ بتایا جائے کہ قرآن کے خلاف کوئی روایات قابل قبول نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کوئی مقصد نہیں۔ اس کے مندرجات پر بحث نہ کی جائے کیوں کے یہ میں نے نہیں لکھا ہے۔ اس میں‌دوسرے علماء‌کی آراء ہیں ۔ اس میں غلطی پیش کرنے والے کے سر۔ میں نے یہ صرف اس لئے لکھا ہے کہ اتنے سارے حوالے من گھڑت نہیں ہوسکتے۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
جی بھائی جان جیسا آپ کا حکم ، اُس مضمون پر کوئی بحث نہیں ہو گی ، کیونکہ وہ آپ کا نہیں ، بس اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ """ اتنے سارے حوالے من گھڑت نہیں ہو سکتے """ اپنے ان الفاظ کو بھولیے گا نہیں ،

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اب تک علماء یہی کہتے آئے ہیں کہ روایت مخالف قرآن نہیں ہوسکتی۔ اس سے آپ کی بات کا وزن کچھ نہیں‌رہتا جب آپ یہ دعوی کرتے ہیں کہ اب تک امت مسلمہ خلاف قرآن روایات پر یقین رکھتی آئی ہے۔
بہت خوب فاروق بھائی ، الحمد للہ تعالی اتنی لمبی چوڑی باتیں کرنے کے بعد آپ وہاں آ گئے جہاں آنا چاہیے تھا ، اور وہی کہہ دیا جو میں کہتا چلا آ رہا ہوں ، بس ایک فرق باقی ہے ، اور اس کے باقی رہنے کا سبب شاید آپ کا علوم حدیث سے دور ہونا ہے ، بہر حال ، آپ نے مان لیا کہ روایت حدیث اور بقول آپ کے صرف """ روایت """ مخالف قران نہیں ہو سکتی ہے ،
اور میں کہتا چلا آ رہا ہوں ، کہ ، """ کوئی صحیح حدیث مخالف قران نہیں ہو سکتی """ ، الحمد للہ ، یہ بات پہلے ہی مان لی جاتی تو آپ کا اتنا وقت صرف نہ ہوتا ، اور فاروق بھائی ، میں نے کہیں ایسا کوئی دعوی نہیں کیا کہ امت مسلمہ خلاف قران روایات پر یقین رکھتی آئی ہے ، بلکہ وہ آپ سے سوال تھا ، اور اب بھی برقرار ہے ، اور اس کے الفاظ تھے """ فاروق بھائی ، براہ مہربانی میری گذارشات کا مختصر مختصر جواب عنایت فرمایے ، ایک ایک سوال کا ایک ایک جواب ، تا کہ یہ واضح ہو سکے کہ تقریبا چودہ سو سال سے پوری کی پوری امت سوائے ایک دو گروہوں کے جس شریعت کو لیے چل رہی ہے وہ سب غلط ہے اور ان کے اعمال غارت ہیں کیونکہ وہ آپ کی """ رائے ""' کے مطابق """ قران کے موافق """ نہیں ، یا یہ کہ اب جو چند سالوں سے یہ مستشرقین کی پیدا کردہ نئی """ رائے ""' دریافت ہوئی ہے یہ درست ہے تو شریعت کو نئے سرے سے مدون کیا جائے ، تا کہ بے چاری امت کے عقائد ، عبادات ،معاملات ، اخلاقیات ، کم از کم ساٹھ فیصد """ خلاف قران """ ہیں ان کی تصحیح کی جا سکے ،"""
اس میں کہیں سے ایسا کوئی مفہوم نہیں ملتا جو آپ کے مندرجہ بالا فرمان میں آپ نے مجھ سے منسوب فرما دیا ، الی اللہ اشتکی ،

یہ مضمون واضح کرتا ہے کہ کوئی حدیث رسول پاک خلاف قرآن ہو ہی نہیں سکتی۔ کیا وجہ ہے کہ کچھ لوگ اس بات پر مصر ہیں کہ خلاف قرآن کریم روایات بھی قابل قبول ہونی چاہئیے۔
فاروق بھائی آپ کا ارسال کردہ مضمون یہ واضح کرتا ہے کہ صحیح حدیث خلاف قران نہیں ہو سکتی ، اور جب اختلاف کی توفیق یعنی اختلاف کو حل کرنے کی کوئی سبیل نظر نہ آتی ہو تو پھر یقینا قران ، کو حدیث پر فوقیت و تقدیم حاصل ہے ، اور بھی بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن چونکہ اس مضمون پر بحث کرنا نہیں اور بات سے زیادہ دور جانا نہیں لہذا اتنا ہی کافی ہے ،
اگر قرآن اسلام کے اصول و قوانین کی کتاب نہیں‌ہے تو پھر اسلام کی بنیاد کیا ہے بھائی؟
فاروق بھائی اسلام کی بنیاد اللہ کی طرف سے کی گئی وحی ہے ، جو قران کی صورت میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے محفوظ فرمان کی صورت میں ہم تک پہنچی ، انہی دونوں کے مطابق ہم نے اپنے عقائد ، عبادات ، معاملات ، سیکھنا اور اپنانا ہے اور دین دنیا اور آخرت کمانا ہے ،
پس میرے بھائی اسلام کے اصول و قوانین کی بنیادی کتاب یقینا قران ہے ، لیکن یہ اکیلا ماخذ نہیں ، دوسرا ماخذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ثابت شدہ سنت (قولی فعلی ، تقریری ) ہے جسے ترک کیا جائے تو عقائد ، و عبادات ، و معاملات ، حلال و حرام ، میں سے بہت کچھ سمجھ سے باہر ہو جاتا ہے ،
مثلا نماز کی کیفیت و کمیت ہی کہیں قران میں دکھایے ؟
ساری دنیا کے مسلمان اپنے مرنے والوں کو غسل دیتے ہیں ، اور نماز جنازہ پڑھاتے ہیں ، اور دفن کرتے ہیں ، یہ سب قران میں ہے ؟؟؟
اور اس طرح کی بہت مثالیں ، یا ، کہہ لیجیے کہ سوال ہیں ، لیکن ابھی ہم وہاں نہیں پہنچے جہاں اس قسم کے سوال کیے جائیں ، و السلام علیکم۔
 
Top