میں اس فاختہ بہت دنوں سے جانتا تها.ایک ٹانگ کٹی ہوئ، کبهی خوش تو کبهی تهوڑی مایوس ، نا کسی سے جهگڑا نا کسی اپنے سے لڑائ ، باقی پرندوں سے الگ تهلگ ، اکثر خاموش تو کبهی کبهی باتیں کرتے کرتے تهکتی بهی نہیں تهی ، اسے دیکه کر میں سوچنے لگتا کہ یہ تنہائ میں کس سے باتیں کرتی ہے ، شاید کسی اپنے کو یاد کر کے کچه کہتی ہوگی یا پهر اللہ پاک تعریف میں اپنی چونچ ہلاتی ہوگی ، اس چهوٹے سے باغیچے میں اور بهی پرندے موجود تهے جن میں بیس پچیس فاختائیں ،، دو ہد ہد ،، آٹه دس کوے ، ایک کوئل ، اور چار بلبلیں بهی تهیں. رینگنے والے جانداروں میں کیڑے مکوڑوں کے علاوہ اور آٹه دس گلہریاں باغیچے میں اکثر دیکهتا تها. اس باغیچے کے چاروں طرف ایک باڑ لگی ہوئ تهی اور ایک کونے میں جامن دوسرے کونے میں پیپل تو تیسرے میں شہتوت کا درخت اور چوتھے کونے میں بانسوں کا ایک جهنڈ تها،
اس باغیچے کے چاروں طرف گلاب ، درمیان میں دو کیاریاں جن میں چمبیلی موتیا کے پودے تهے ،، اور عین وسط میں ایک رات کی رانی براجمان تهی .
میں اس چهوٹے سے باغیچے میں بطور مالی یعنی باغبان جیسا تها .
میں اس باغیچے میں صفائ کے علاوہ پودوں درختوں جانوروں اور پرندوں کا بہت خیال رکهتا تها ،میں ہر صبح بچے ہوءے ناشتے کے ٹکڑے کرکے ان پرندوں کو ڈالتا ، تو پرندوں کا ایک جهنڈ اسے کهانے پر ٹوٹ پڑتا ، اور خوب باتیں کرتا ، فاختائیں، کوے ، ہد ہد ، کوئل کی زبانی سنتا رہتا ، جو کہہ رہے ہوتے کہ تو باغبان اچها ہے،، اور ایک ٹانگ پے ٹانگ کٹی فاختہ بهی کبهی کبهی کہہ دیتی کہ تو باغبان اچها ہے...جامن بانس اور شہتوت اور پیپل کو ہرا بهرا دیکهتا تو ان کی ہریالی کو میں پڑه سکتا تها اس ہریالی پے اکثر لکها ہوتا ، کہ تو باغبان اچها ہے... گلہریوں کو درختوں پہ اترتے چڑهتے دیکهتا تو ان کی خوشی کو محسوس کر سکتا تها وہ بهی اکثر کہہ رہی ہوتیں کہ تو باغبان اچها ہے..
کهلتے گلابوں موتیا اور چمبیلی سے بهی سن رکها تها کہ تو باغبان اچها ہے.
رات کی رانی ، رات کو اکثر ، مجهے چهیڑنے کی غرض سے کہہ دیتی کہ تو باغبان بہت اچها ہے....
رات کی رانی کی میٹهی باتوں کو سنتے سنتے نا جانے کب آنکه لگ گئ صبح اٹها...حسب معمول پرندوں کو کهانا دیا ، اور پهر جلدی سے پودوں کی صفائ میں لگ گیا صفائ کرتے کرتے میں جونہی بانسوں کے جهنڈ کے پاس پہنچا تو کیا دیکهتا ہوں کہ ٹانگ کٹی فاختہ بانسوں کے جهنڈ میں دهاگے سے الجه کر مری ہوئ لٹک رہی تهی ،
میں غم زدہ ، بوجهل قدموں سے اس کے قریب گیا، میں حواس باختہ دهاگہ توڑنے کی بجائے الجهے ہوءے دهاگے کا ایک ایک بل کهولتے ہوئے سوچنے لگا، کہ جب یہ فاختہ ڈور میں پهنسی تو میں کہاں تها میں کاش باغیچے کی صفائ سب سے پہلے اس حصے سے شروع کرتا ، تو شاید ایسا نہیں ہوتا .. میں پتا نہیں کیا کچه سوچتے ہوئے ڈوری کهول رہا تها .دهاگہ فاختہ کی دوسری ٹانگ اور گردن سے الجه کر بانس کی ٹہنی سے اٹکا ہوا تها ، میرے ہاته کانپ رہے تهے کچه دیر بعد مرے ہاته میں ٹانگ کٹی فاختہ کی لاش تهی . بے خیالی میں فاختہ کے جسم کو کان سے لگایا شاید دل کی دهڑکن سننا چاہتا تها ، مگر میں فاختہ کے گلے میں اٹکا ہوا ایک سوال ہی سن سکا ...وہ سوال پهڑکتے ہوئے، تڑپتے ہوئے میرے باغبان جیسے خیال سے تها .. وہ سوال مجه سے پوچه رہا تها. کہ .کیا تو اب بهی باغبان اچها ہے ...؟؟

کلیم گورمانی
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب کلیم صاحب!

اچھی تحریر ہے۔

املے کی کافی غلطیاں ہیں ۔ تحریر کی اچھی طرح پروف ریڈنگ کرکے لگائیں۔
 
Top