بارے کچھ "حضرت" کا بیاں ہوجائے

یوسف-2

محفلین
خواتین و حضرات!
مرد حضرات!
گو یہاں ’’مرد حضرات“ لکھنا نا مناسب ہے ۔ صرف مَرد، مَردوں یا حضرات کہنا کافی ہے۔ لیکن یہاں زیر بحث یہ مسئلہ نہیں ہے۔ متذکرہ بالا استعمال یہ بتلا رہا ہے کہ "حضرات" مذکر ہے، جس کی واحد "حضرت" ہے۔۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لفظ "حضرت" کا مذکر ناموں کے ساتھ استعمال تو سمجھ میں آتا ہے لیکن یہ مؤنث ناموں کے ساتھ کیوں اور کیسے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے "حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔
اہل علم خواتین و حضرات سے رہنمائی کی درخواست ہے۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
خواتین و حضرات!
مرد حضرات!
گو یہاں ’’مرد حضرات“ لکھنا نا مناسب ہے ۔ صرف مَرد، مَردوں یا حضرات کہنا کافی ہے۔ لیکن یہاں زیر بحث یہ مسئلہ نہیں ہے۔ متذکرہ بالا استعمال یہ بتلا رہا ہے کہ "حضرات" مذکر ہے، جس کی واحد "حضرت" ہے۔۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لفظ "حضرت" کا مذکر ناموں کے ساتھ استعمال تو سمجھ میں آتا ہے لیکن یہ مؤنث ناموں کے ساتھ کیوں اور کیسے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے "حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔
اہل علم خواتین و حضرات سے رہنمائی کی درخواست ہے۔
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ مرد و خواتین کی محفل میں اگر آپ ان سب کو صرف "حضرات" کہہ کر بھی مخاطب کریں تو اس سے بھی کام چل سکتا ہے ۔۔۔ خواتین کا "ٹچ" لگانا غیر ضروری ہے ۔۔۔ اس کی مزید وضاحت کون کرے گا محفلین میں سے؟ ۔۔۔ دیکھتے ہیں ۔۔۔
 

یوسف-2

محفلین
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ مرد و خواتین کی محفل میں اگر آپ ان سب کو صرف "حضرات" کہہ کر بھی مخاطب کریں تو اس سے بھی کام چل سکتا ہے ۔۔۔ خواتین کا "ٹچ" لگانا غیر ضروری ہے ۔۔۔ اس کی مزید وضاحت کون کرے گا محفلین میں سے؟ ۔۔۔ دیکھتے ہیں ۔۔۔
اگر لفظ ’’حضرت‘‘ کا مذکر اور مؤنث دونوں اصناف کے لئے استعمال درست ہے،(جیسا کہ عام تحریروں میں نظر آتا ہے) تو مخلوط اہل محفل کو صرف ’’حضرات‘‘ کہہ کر مخاطب کرنا بھی یقینا" درست ہونا چاہئے۔ لیکن پھر یہ طے ہوجانا چاہئے کہ ’’حضرات یا حضرت‘‘ کو مذکر سمجھناغلط ہے۔ اور ’’مرد حضرات‘‘ کی ترکیب کے استعمال کے ذریعہ لفظ ’’حضرات‘‘ پر مَردوں کا قبضہ ناجائز ہے۔ :D
 

یوسف-2

محفلین
حضرت دراصل عربی لفظ حضرۃ سے نکلا ہے جس کے کئی معنی ہیں لیکن ہے یہ موئنث:)
جزاک اللہ برادر
حضرۃ کے مختلف معنی کیا ہیں؟
حضرۃ عر یی میں تو مؤنث ہے لیکن کیا یہ اردو میں بھی مؤنث ہی ہے؟ اگر ہے تو کیا اس کا استعمال مذکر ناموں کے ساتھ درست ہے جیسے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ کیا اردو زبان میں "حضرت" اور "مرد" ہم معنی ہیں جیسے "مردوں" کے لئے "حضرات" کااستعمال عام ہے۔
(سوال در سوال پر پیشگی معذرت)
 
یوسف صاحب ، جہاں تک میرا مطالعہ ہے میں نے اس لفظ حضرۃ کو مختلف معنوں میں استعمال ہوتے دیکھا ہے۔ کبھی یہ قربِ مکانی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے یعنی ہم پانی کے قریب تھے " کنّا بحضرۃ الماء"۔۔۔کبھی مشہد کے معنوں میں۔۔۔ان سب معنوں میں حضوری یا پریزنس کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ چنانچہ یعنی کوئی شئے جہاں پائی جائے گی وہ جگہ اس شئے کا حضرۃ ہے۔۔۔چنانچہ اس لفظ کے کئی ترجمے ہوسکتے ہیں، بارگاہ، دربار، مشہد، محلّ و مقام، موطّن۔۔۔ انگلش میں پریزنس، ریلم، ابوڈ وغیرہ وغیرہ۔
حضرۃ مجازی طور پر کسی معظم انسان کیلئے بھی بولا جاتا ہے اور یہیں سے " حضرۃ العالی " یعنی اعلیٰ حضرت۔۔
صوفیاء کی محفلِ سماع کو بھی حضرۃ کہا جاتا ہے۔۔۔
یقیناّ اور بھی معنی ہونگے اس لفظ کے۔ لیکن جو میرے علم میں تھا وہ آپکی خدمت میں پیش کردیا۔:)
 

الف عین

لائبریرین
یوں تو حضرت کی کوئی جنس نہیں۔ مذکر مؤنث دونوں کو کہا جا سکتا ہے۔ ویسے استعمال تو ’حضرات و حاضرات‘ بھی کیا جاتا ہے۔ بزرگوں کے لئے یہ استعمال محض بر صغیر تک محدود ہے، کہ ہم ’دیسی‘ لوگ ’عربی شریف‘ کو کچھ مخصوص معانی میں استعمال کرتے ہیں۔
 

یوسف-2

محفلین
یوں تو حضرت کی کوئی جنس نہیں۔ مذکر مؤنث دونوں کو کہا جا سکتا ہے۔ ویسے استعمال تو ’حضرات و حاضرات‘ بھی کیا جاتا ہے۔ بزرگوں کے لئے یہ استعمال محض بر صغیر تک محدود ہے، کہ ہم ’دیسی‘ لوگ ’عربی شریف‘ کو کچھ مخصوص معانی میں استعمال کرتے ہیں۔
جی ہاں! یہ تو طے ہے کہ برصغیر یعنی اردو زبان میں ہر دو اصناف کے بزرگوں کو عزت اور احترام کی خاطر ان کے نام سے قبل ’’حضرت‘‘ بمعنی ’’ہِز ہائی نیس‘‘ یا ’’ہَر ہائی نیس‘‘ لگایا جاتا ہے۔ اور اس لفظ کا اس طرح کا استعمال ہی اس کی ’’سند‘‘ بھی ہے ۔ لیکن اس سے آگے اس کے "متضاد استعمال" پر میں مخمصہ کا شکار ہوں کہ پھر ’’حضرات‘‘ مرد کے معنی میں کیوں اور کیسے مستعمل ہے۔ ایک لغت میں مجھے ’’حضرت‘‘ اسم مؤنث اور ’’حضرات‘‘ اسم مذکر لکھا نظر آیا تو میں مزید مخمصہ میں مبتلا ہوگیا۔ حضرت ہی سے نکلا یا نکالا ہوا لفظ ’’ما حضر‘‘ (بمعنی ’’جو کچھ حاضر ہے‘‘ کنایتا" ’’پیش کردہ کھانے‘‘ کو بولتے ہیں) بھی لگتا ہے۔ حضر اور حاضر تو ’’کزن‘‘ ہیں ہی ۔ کہیں یہ ’’حضرت‘‘ بھی حضر اور حاضر کے قریبی رشتہ دار تو نہیں کہ ’’حضرات و حاضرات‘‘ کے استعمال میں ان کے "حاضر" (یا مخاطب) ہونے کا مفہوم واضح ہے۔
 
حَضْرَت [حَض + رَت] (عربی)
حضر
dotted-arrow.gif
حَضْرَت

عربی زبان میں 'حَضَرَتْ' کے اعراب کے ساتھ ثلاثی مجرد کے باب سے اسم فاعل ہے۔ اردو میں بطور اسم صفت اور اسم نکرہ کے رائج ہے۔ 1611ء کو قلی قطب شاہ کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
جمع: حَضْرات [حَض + رات]
1.
space_lgreen.gif
تعظیمی کلمہ جو ناموں (اسمی یا وصفی) سے پہلے لگایا جاتا ہے (بیشتر بزرگ و مقدس ہستیوں کے اسما سے پہلے اضافت ساتھ اور اضافت کے بغیر بھی)، جناب، حضور، قبلہ۔

"خاندانی اعتبار سے حضرت جام نوائی بدایونی کا تعلق بدایوں کے مشہور خانوادہ شیوخ حمیدی سے ہے"۔ ( 1924ء، تنقید و تفہیم، 158 )
space_lgreen.gif
تعظیمی کلمہ جو کسی نام کی جگہ ہو۔
 شاداب مدینہ ہوا حضرت کی دعا سے
ہر سو جو میں فرما کے شجر دیکھ رہا ہوں
space_lgreen.gif
تعظیمی کلمہ چیزوں کے مجسم تصور کے ساتھ۔
"ایک دن میں نے جب شیخ سے عرض کیا حضرت میں نے کیاریوں میں جو یہ گلاب لگا رکھے ہیں ایک دن ..... پھول نظر آئیں گے"۔ ( 1956ء، شیخ نیازی، 74 )
2.
space_lgreen.gif
بارگاہ، درگاہ۔
 کون تھا جو حضرتِ باری میں دیتا کچھ مدد
وہ تو یہ کہیے وسیلہ درمیانی مل گیا
space_lgreen.gif
دربار شاہی۔
انگریزی ترجمہ
presence; dignity; a title applied to any great man, the object of resort, your or his majesty, highness, Excellency, eminence, worship or holiness.
 

Ukashah

محفلین
السلام علیکم !
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ یا حضرت عائشہ صدیقہ بنت صدیق رضی اللہ عنہا میں مذکر اور مؤنٹ کے لیے حضرت کا استعمال صرف اردو تک محدود ہے یا پھر شاید فارسی میں ہو ، لیکن عربی میں یہ لفظ نہیں ۔ اس لیے عرب محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام کے ساتھ '' حضرت '' کا استعمال نہیں کرتے ۔ رضی اللہ عنہ ، عنہا یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس تعظیمی لفظ کا استعمال درست معلوم نہیں ہوتا ، واللہ اعلم ۔
 
السلام علیکم!
حضرت عربی کے حضرة سے ہے‘ اور اس میں تاء مبالغے یا تعظیم کی ہے جیسا کہ ہم کسی کو علّامہ صاحب کہ دیتے ہیں‘ اس میں بھی آخر میں تاء ہے۔ اردو کے اسلوب میں ڈھلنے کی وجہ سے فرق پڑ گیا‘ حضرت کا تاء قائم رھا‘ علامہ کا تاء ھاء بن گیا۔ پس حضرت کا معنی ہے جس کی تعظیم ہمیشہ دل میں موجود رہتی ہے‘ مرد ہو یا عورت۔
 
جناب میں تعارف والے صفحے پر گیا تھا لیکن وھاں وہ کوئی سوال لکھنے کا کہ رھا ہے اور اس کے دو جواب لکھنے کا۔ معلوم نہیں کیا کروں۔ میرے پاس ابھی کوئی سوال ہی نہیں ہے تو اس غیر موجود چیز کے دو جواب بھی اب لاؤں‘ معلوم نہیں کیسے‘ یا آپ میری اس کم سمجھی کو ہی میرا تعارف سمجھ لیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
رانا صاحب تعارف والے زمرے میں جائیں اور نیا موضوع شروع کریں اور اس میں اپنا تعارف دے دیں۔
 
جناب میں نے کوشش کی تھی لیکن وھاں ایسی کوئی جگہ نہیں ملی۔ پھر میں نے گوگل کروم میں یہی سائٹ کھولی تو اس میں جگہ موجود ہے تو لکھ بھی دیا ہے، معلوم نہیں اکسپلورر میں کیوں نظر نہیں آ رہی۔
 
قرآن شریف کے اسلوب کو دیکھیں تو:
کَفَرَۃ : سب کافر لوگ، بَرَرَۃ : سب نیک لوگ ۔۔۔
اسی پر قیاس کریں: حَضَرَۃ: سب موجود لوگ۔ اس میں واحد تثنیہ جمع مذکر مؤنث سب آ گئے۔ تاہم لفظی اور ساختیاتی سطح پر یہ سب مؤنث ہیں (گول ۃ) اور ان کے ساتھ خبر واحد مؤنث آئے گی مگر اردو میں اس کے معانی لازمی نہیں کہ واحد مؤنث کے ہی ہوں۔ جمع مکسر کے ساتھ بھی خبر واحد مؤنث لاتے ہیں۔

تاہم
لفظ جب ایک زبان سے دوسری زبان میں جاتا ہے تو اس میں مختلف حوالوں سے تبدیلیاں واقع سکتی ہیں۔ اردو کی بات ہو گی تو ہم اس کو نئے تناظر میں دیکھیں گے، عربی کی بات ہو گی تو اصل، مادہ، وغیرہ (پورے صرفی قواعد) کو دھیان میں رکھنا ہو گا۔
اردو میں واحد مرد یا واحد عورت کے لئے (ہر مذکر یا مؤنث چیز کے لئے نہیں) حضرت مستعمل ہے، اور جمع کی صورت میں حضرات سے صرف مرد مراد لیتے ہیں؛ عورتوں کے لئے خواتین (واحد: خاتون : فارسی یا شاید ترکی اصل سے ہے)۔
خطابیہ لہجے کے لئے ’’صاحبان و صاحبات!‘‘ بھی مروج ہے۔
 
آپ کی بات ٹھیک ہے‘ لیکن میرے پیش نظر حرف ضاد کی حرکت تھی۔ اگر اس پر زبر پڑھیں گے تو آپ والا مفہوم لینا ٹھیک ہے۔ لیکن یہاں ضاد پر سکون ہے۔ آپ نے وہ حدیث مبارکہ تو سنی ہو گی کہ ام المومنین رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ جب کھانا حاضر ہو (اور شدید بھوک لگی ہو یا دیر کرنے میں کھانا ضائع ہونے کا ڈر ہو) تو نماز کی بجائے کھانا کھا لے پھر نماز پڑھ لے۔ اس میں لفظ ہے بحضرة الطعام‘ ضاد کے سکون کے ساتھ‘ اور معنی یہی ہے کہ کھانے کا موجود ہونا اور اس کی طرف رغبت ہونا۔ پھر اگر دیکھا جائے تو آپ والے اسلوب میں‘ یعنی ضاد کے زبر کے ساتھ‘ یہ پہلے سے ہی جمع ہے (یعنی کفرة کافر کی‘ بررة اِبرار کی)‘ جبکہ ضاد کے سکون کے ساتھ یہ واحد ہے اور اس کی جمع عربی میں بھی حضرات ہی ہو گی‘ اور اردو میں بھی اس کی جمع ایسی ہی ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ ناقل کے پیش نظر ضاد کے سکون والا لفظ ہی تھا جو کہ واحد ہے۔ پھر عربی میں طعام کے مذکر ہونے کے باوجود یہ مونث لفظ آیا ہے جوکہ اس دوسری بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ یہ مذکر مونث سب کیلئے ایسا ہی رہتا ہے۔ پھر یہاں پر تاء اس بات پر دلالت کر رھا ہے کہ کھانے کی طرف رغبت بھی ہو‘ اسی لئے ناچیز نے عرض کیا تھا کہ تاء عظمت کی ہے' لیکن ممکن ہے یہ تاء مصدریہ ہو۔
 
بہت آداب جناب رانا ہمایوں رشید صاحب۔
ایک زبان سے دوسری زبان میں آنے پر لفظ میں اور اس کے معانی میں ہونے والی تبدیلیوں کا مختصر ذکر ہو چکا۔ ایک بہت عام مثال دیکھئے۔
ر س ل ۔۔۔
رسالۃ گول ۃ کے ساتھ۔ اس کے دو مشہور معانی ہیں: (1) لکھا ہوا پیغام خط، حکم نامہ وغیرہ ۔۔ اور (2) وہ پیغام پہنچانے کا منصب (دونوں مؤنث)۔ جمع: رسالات (بڑی ت کے ساتھ) رسول: وہ شخص جسے وہ منصب دیا گیا ہو۔ اس میں اللہ کے رسول آ گئے۔ جمع: رُسُل
اردو میں لفظ ’’رسالت‘‘ مؤنث بن گیا اور اللہ کے رسول سے خاص ہو گیا، اور رسالہ مذکر ٹھہرا اور اس کا معنی پہلے تو خط اور مکتوب ہوا پھر ہوتے ہوتے یہ بجائے انفرادی یا شخصی پیام یا مکتوب کے ایسی تحریروں کے لئے خاص ہو گیا جس کے مخاطب عامۃ الناس ہوں یا کم از کم ایک وسیع حلقہ ہو۔(عرفِ عام میں : پرچہ، میگزین، مجلہ وغیرہ)۔ مراسلۃ یا مراسلت اصلاً ایک ہیں اور مؤنث ہیں۔ ہم نے مراسلہ مذکر بنا کر اس کو خط یا مکتوب کے معانی دیے۔ اور مراسلت کو مؤنث بنا کر اسے ’’خط و کتابت کا ایک سلسلہ‘‘ کا مفہوم دیا۔

یہاں لفظ ’’سلسلہ‘‘ آ گیا۔
سلسلہ، قبیلہ، لطیفہ، سانحہ، واقعہ، حادثہ، مشغلہ، معاملہ، وسیلہ، حملہ، فرقہ، جملہ، شمہ ۔۔۔ اصلاً یہ سب مؤنث ہیں اور اردو میں یہ سب مذکر ہیں۔

محمد اسامہ سَرسَری ، محمد وارث ، الف عین ، محب علوی ، التباس
 
Top