بارہ منٹ

محمداحمد

لائبریرین
بارہ منٹ

ماحول گرم ہو گیا‘ ہم سب کے چہروں پر تناؤ تھا‘ پورے کمرے میں سراسیمگی پھیل رہی تھی‘ مجھے محسوس ہو رہا تھا سامنے بیٹھا شخص ابھی اٹھے گا اور چیخنے والے بدتمیز شخص کے منہ پر تھپڑ مار دے گا‘ ہمارے سامنے وہ شخص اٹھا لیکن تھپڑ مارنے کے بجائے باتھ روم میں گیا‘ وضو کیا‘جائے نماز اٹھائی اور دوسرے کمرے میں چلا گیا۔

ہم اسے شیشے کی دوسری طرف نماز پڑھتے دیکھ سکتے تھے‘ غصے میں تلملاتے شخص نے پانی کے تین گلاس چڑھائے اور کسی سے ٹیلی فون پر بات کرنے لگا‘ وہ جوں جوں بات کرتا جا رہا تھا اس کا ٹمپریچر نیچے آتا جارہا تھا‘ فون بند ہوا تو اس نے شرمندگی سے ہماری طرف دیکھا اور معذرت خواہانہ لہجے میں بولا ’’میں معافی چاہتا ہوں‘ میرے ایجنٹ نے مجھے غلط بتایا تھا‘ میری فائل واقعی یہاں سے پاس ہو گئی تھی‘ میں نے نادانی میں بیگ صاحب سے زیادتی کر دی‘ میں بہت شرمندہ ہوں‘‘۔

ہم نے شیشے کی دوسری طرف دیکھا‘ بیگ صاحب نہایت خشوع وخضوع سے نماز پڑھ رہے تھے‘ ہم خاموشی سے کبھی تلملاتے شخص کو دیکھنے لگتے اور کبھی نماز پڑھتے بیگ صاحب کو‘ بیگ صاحب نے نماز ختم کی‘ جائے نماز لپیٹی اور درود شریف پڑھتے پڑھتے کمرے میں واپس آ گئے‘ جائے نماز رکھی اور تلملاتے شخص کی طرف دیکھ کر اطمینان سے بولے ’’میرے بھائی آپ جا کر تحقیقات کر لیں۔

میں نے واقعی آپ کی فائل بھجوا دی تھی‘ آپ کو اگر فائل نہ ملے تو آپ ایک دو دن میں واپس آ جائیں‘ ہم دونوں مل کر تلاش کریں گے‘‘ وہ شخص روہانسا ہو گیا اور سر جھکا کر بولا ’’بیگ صاحب! میں آپ سے معافی چاہتا ہوں‘ آپ درست فرما رہے تھے‘ میرے ایجنٹ نے میرے ساتھ جھوٹ بولا تھا‘‘ بیگ صاحب اٹھے‘ تلملاتے شخص کو گلے لگایا اور تھپکی دے کر رخصت کر دیا‘ وہ شخص شکریہ ادا کرتا کرتا گاڑی میں بیٹھ گیا۔

میں اس تمام صورت حال کو حیرت سے دیکھ رہا تھا‘ میں نے تلملاتے شخص کے جانے کے بعد بیگ صاحب سے پوچھا ’’سر آپ کو اس شخص کی گالیوں‘ بدکلامی اور بدتمیزی پر غصہ کیوں نہیں آیا ‘‘ وہ مسکرا کر بولے ’’آپ کو کس نے بتایا مجھے غصہ نہیں آیا‘ میں غصے سے کھول رہا تھا‘‘ میں نے عرض کیا ’’لیکن آپ نے اس کا اظہار نہیں کیا جب کہ آپ سچے اور وہ شخص جھوٹا تھا‘‘ وہ مسکرا کر بولے ’’کیونکہ میں غصے کی کیمسٹری کو سمجھتا ہوں اور جو شخص اس کیمسٹری کو سمجھتا ہو وہ بڑی آسانی سے غصہ کنٹرول کر سکتا ہے‘‘۔

میں نے پوچھا ’’سر غصے کی کیمسٹری کیا ہے؟‘‘ وہ مسکرا کر بولے ’’ہمارے اندر سولہ کیمیکلز ہیں‘ یہ کیمیکلز ہمارے جذبات‘ ہمارے ایموشن بناتے ہیں‘ ہمارے ایموشن ہمارے موڈز طے کرتے ہیں اور یہ موڈز ہماری پرسنیلٹی بنتے ہیں‘‘ میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولے ’’ہمارے ہر ایموشن کا دورانیہ 12 منٹ ہوتا ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’مثلا‘‘ وہ بولے ’’مثلاًغصہ ایک جذبہ ہے‘ یہ جذبہ کیمیکل ری ایکشن سے پیدا ہوتا ہے‘مثلاً ہمارے جسم نے انسولین نہیں بنائی یا یہ ضرورت سے کم تھی۔

ہم نے ضرورت سے زیادہ نمک کھا لیا‘ ہماری نیند پوری نہیں ہوئی یا پھر ہم خالی پیٹ گھر سے باہر آ گئے‘ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ہمارے اندر کیمیکل ری ایکشن ہو گا‘ یہ ری ایکشن ہمارا بلڈ پریشر بڑھا دے گا اور یہ بلڈ پریشر ہمارے اندر غصے کا جذبہ پیدا کر دے گا‘ ہم بھڑک اٹھیں گے لیکن ہماری یہ بھڑکن صرف 12 منٹ طویل ہو گی۔

ہمارا جسم 12 منٹ بعد غصے کو بجھانے والے کیمیکل پیدا کر ے گا اور یوں ہم اگلے 15منٹوں میں کول ڈائون ہو جائیں گے چنانچہ ہم اگر غصے کے بارہ منٹوں کو مینج کرنا سیکھ لیں تو پھر ہم غصے کی تباہ کاریوں سے بچ جائیں گے‘‘ میں نے عرض کیا ’’کیا یہ نسخہ صرف غصے تک محدود ہے‘‘ وہ مسکرا کر بولے ’’جی نہیں‘ ہمارے چھ بیسک ایموشنز ہیں‘ غصہ‘ خوف‘ نفرت‘ حیرت‘ لطف(انجوائے) اور اداسی‘ ان تمام ایموشنز کی عمر صرف بارہ منٹ ہو تی ہے۔

ہمیں صرف بارہ منٹ کے لیے خوف آتا ہے‘ ہم صرف 12 منٹ قہقہے لگاتے ہیں‘ ہم صرف بارہ منٹ اداس ہوتے ہیں‘ ہمیں نفرت بھی صرف بارہ منٹ کے لیے ہوتی ہے‘ ہمیں بارہ منٹ غصہ آتا ہے اور ہم پر حیرت کا غلبہ بھی صرف 12 منٹ رہتا ہے‘ ہمارا جسم بارہ منٹ بعد ہمارے ہر جذبے کو نارمل کر دیتا ہے‘‘ میں نے عرض کیا ’’لیکن میں اکثر لوگوں کو سارا سارا دن غصے‘ اداسی‘ نفرت اور خوف کے عالم میں دیکھتا ہوں‘ یہ سارا دن نارمل نہیں ہوتے‘‘ وہ مسکرا کر بولے ’’آپ ان جذبوں کو آگ کی طرح دیکھیں‘ آپ کے سامنے آگ پڑی ہے‘ آپ اگر اس آگ پر تھوڑا تھوڑا تیل ڈالتے رہیں گے‘ آپ اگر اس پر خشک لکڑیاں رکھتے رہیں گے تو کیا ہو گا؟

یہ آگ پھیلتی چلی جائے گی‘ یہ بھڑکتی رہے گی‘ ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپنے جذبات کو بجھانے کے بجائے ان پر تیل اور لکڑیاں ڈالنے لگتے ہیں چنانچہ وہ جذبہ جس نے 12 منٹ میں نارمل ہو جانا تھا وہ دو دو‘ تین تین دن تک وسیع ہو جاتا ہے‘ ہم اگر دو تین دن میں بھی نہ سنبھلیں تو وہ جذبہ ہمارا طویل موڈ بن جاتا ہے اور یہ موڈ ہماری شخصیت‘ ہماری پرسنیلٹی بن جاتا ہے یوں لوگ ہمیں غصیل خان‘ اللہ دتہ اداس‘ ملک خوفزدہ‘ نفرت شاہ‘ میاں قہقہہ صاحب اور حیرت شاہ کہنا شروع کر دیتے ہیں‘‘ وہ رکے اور پھر بولے ’’ آپ نے کبھی غور کیا ہم میں سے بے شمار لوگوں کے چہروں پر ہر وقت حیرت‘ ہنسی‘ نفرت‘ خوف‘ اداسی یا پھر غصہ کیوں نظر آتا ہے؟

وجہ صاف ظاہر ہے‘ جذبے نے بارہ منٹ کے لیے ان کے چہرے پر دستک دی لیکن انھوں نے اسے واپس نہیں جانے دیا اور یوں وہ جذبہ حیرت ہو‘ قہقہہ ہو‘ نفرت ہو‘ خوف ہو‘ اداسی ہو یا پھر غصہ ہو وہ ان کی شخصیت بن گیا‘ وہ ان کے چہرے پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے درج ہو گیا‘ یہ لوگ اگر وہ بارہ منٹ مینج کر لیتے تو یہ عمر بھر کی خرابی سے بچ جاتے‘ یہ کسی ایک جذبے کے غلام نہ بنتے‘ یہ اس کے ہاتھوں بلیک میل نہ ہوتے‘‘۔

میں نے عرض کیا ’’اور کیا محبت جذبہ نہیں ہوتا‘‘ فوراً جواب دیا ’’محبت اور شہوت دراصل لطف کے والدین ہیں‘ یہ جذبہ بھی صرف بارہ منٹ کا ہوتا ہے‘ آپ اگر اس کی بھٹی میں نئی لکڑیاں نہ ڈالیں تو یہ بھی بارہ منٹ میں ختم ہو جاتا ہے لیکن ہم بے وقوف لوگ اسے زلف یار میں باندھ کر گلے میں لٹکا لیتے ہیں اور یوں مجنوں بن کر ذلیل ہوتے ہیں۔

ہم انسان اگر اسی طرح شہوت کے بارہ منٹ بھی گزار لیں تو ہم گناہ‘ جرم اور ذلت سے بچ جائیں لیکن ہم یہ نہیں کر پاتے اور یوں ہم سنگسار ہوتے ہیں‘ قتل ہوتے ہیں‘ جیلیں بھگتتے ہیں اور ذلیل ہوتے ہیں‘ ہم سب بارہ منٹ کے قیدی ہیں‘ ہم اگر کسی نہ کسی طرح یہ قید گزار لیں تو ہم لمبی قید سے بچ جاتے ہیں ورنہ یہ 12 منٹ ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑتے‘‘۔

میں نے ان سے عرض کیا ’’آپ یہ بارہ منٹ کیسے مینج کرتے ہیں‘‘ وہ مسکرا کر بولے ’’میں نے ابھی آپ کے سامنے اس کا مظاہرہ کیا ‘ وہ صاحب غصے میں اندر داخل ہوئے‘ مجھ سے اپنی فائل مانگی‘ میں نے انھیں بتایا میں آپ کی فائل پر دستخط کر کے واپس بھجوا چکا ہوں لیکن یہ نہیں مانے‘ انھوں نے مجھ پر جھوٹ اور غلط بیانی کا الزام بھی لگایا اور مجھے ماں بہن کی گالیاں بھی دیں۔

میرے تن من میں آگ لگ گئی لیکن میں کیونکہ جانتا تھا میری یہ صورتحال صرف 12 منٹ رہے گی چنانچہ میں چپ چاپ اٹھا‘ وضو کیا اور نماز پڑھنی شروع کر دی‘ میرے اس عمل پر 20 منٹ خرچ ہوئے‘ ان 20 منٹوں میں میرا غصہ بھی ختم ہو گیا اور وہ صاحب بھی حقیقت پر پہنچ گئے‘ میں اگر نماز نہ پڑھتا تو میں انھیں جواب دیتا‘ ہمارے درمیان تلخ کلامی ہوتی‘ لوگ کام چھوڑ کر اکٹھے ہو جاتے‘ہمارے درمیان ہاتھا پائی ہو جاتی‘ میں اس کا سر پھاڑ دیتا یا یہ مجھے نقصان پہنچا دیتا لیکن اس سارے فساد کا آخر میں کیا نتیجہ نکلتا؟

پتہ چلتا ہم دونوں بے وقوف تھے‘ ہم سارا دن اپنا کان چیک کیے بغیر کتے کے پیچھے بھاگتے رہے چنانچہ میں نے جائے نماز پر بیٹھ کر وہ بارہ منٹ گزار لیے اور یوں میں‘ وہ اور یہ سارا دفتر ڈیزاسٹر سے بچ گیا‘ ہم سب کا دن اور عزت محفوظ ہو گئی‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ غصے میں ہر بار نماز پڑھتے ہیں‘‘ وہ بولے ’’ہرگز نہیں‘ میں جب بھی کسی جذبے کے غلبے میں آتا ہوں تو میں سب سے پہلے اپنا منہ بند کر لیتا ہوں‘ میں زبان سے ایک لفظ نہیں بولتا‘ میں قہقہہ لگاتے ہوئے بھی بات نہیں کرتا۔

میں صرف ہنستا ہوں اور ہنستے ہنستے کوئی دوسرا کام شروع کر دیتا ہوں‘ میں خوف‘ غصے‘ اداسی اور لطف کے حملے میں واک کے لیے چلا جاتا ہوں‘ غسل کرلیتا ہوں‘ وضو کرتا ہوں‘ 20 منٹ کے لیے چپ کا روزہ رکھ لیتا ہوں‘ استغفار کی تسبیح کرتا ہوں‘ اپنی والدہ یا اپنے بچوں کو فون کرتا ہوں‘ اپنے کمرے‘ اپنی میز کی صفائی شروع کر دیتا ہوں‘ اپنا بیگ کھول کر بیٹھ جاتا ہوں‘ اپنے کان اور آنکھیں بند کر کے لیٹ جاتا ہوں یا پھر اٹھ کر نماز پڑھ لیتا ہوں یوں بارہ منٹ گزر جاتے ہیں‘ طوفان ٹل جاتا ہے۔

میری عقل ٹھکانے پر آ جاتی ہے اور میں فیصلے کے قابل ہو جاتا ہوں‘‘ وہ خاموش ہو گئے‘ میں نے عرض کیا ’’اور اگر آپ کو یہ تمام سہولتیں حاصل نہ ہوں تو آپ کیا کرتے ہیں‘‘ وہ رکے‘ چند لمحے سوچا اور بولے ’’آسمان گر جائے یا پھر زمین پھٹ جائے‘ میں منہ نہیں کھولتا‘ میں خاموش رہتا ہوں اور آپ یقین کیجیے سونامی خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو وہ میری خاموشی کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘ وہ بہرحال پسپا ہو جاتاہے‘ آپ بھی خاموش رہ کر زندگی کے تمام طوفانوں کو شکست دے سکتے ہیں‘‘۔

جاوید چوہدری

ربط
 

ام اویس

محفلین
اوہ ۔۔۔
میں سمجھی جاوید چوہدری نے یہاں سے آپ کی تحریر اٹھا لی ۔۔۔۔

کیا واقعی کوئی اتنا بہادر ہوگا آج کے اس دور میں یا یہ بھی ایک کہانی ہی ہے ؟
 

محمداحمد

لائبریرین
اوہ ۔۔۔
میں سمجھی جاوید چوہدری نے یہاں سے آپ کی تحریر اٹھا لی ۔۔۔۔

:)

نہیں ! جاوید چوہدری لکھنے میں تو خیر ماہر ہیں۔ وہ تو بس کچھ اور مسائل اُن کے ساتھ پیدا ہو گئے ہیں ورنہ وہ ہمارے فیورٹ بھی رہے ہیں۔

کیا واقعی کوئی اتنا بہادر ہوگا آج کے اس دور میں یا یہ بھی ایک کہانی ہی ہے ؟

کچھ حقیقت اور کچھ زیبِ داستاں!

لیکن یہ ہے کہ ہمیں ایک راہ تو سجھائی دیتی ہے۔ اگر چہ دی گئی مثال کا حصول تو کافی دشوار ہے تاہم اگر ہم اِس کا کچھ حصہ ہی اپنانے میں کامیاب ہو جائیں تو یہی ہمارے لئے بہت ہے۔ :)
 

لاریب مرزا

محفلین
اچھی تحریر کا اشتراک کیا ہے آپ نے احمد بھائی، :)
پہلے ہم بھی غصے میں ہوش کھو دیتے تھے، بالکل ایسے :mad: :angry:
اب البتہ تھوڑا ہوش سے کام لیتے ہیں۔ اور غصہ میں بولنے کے بجائے خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
اچھی تحریر کا اشتراک کیا ہے آپ نے احمد بھائی، :)
پہلے ہم بھی غصے میں ہوش کھو دیتے تھے، بالکل ایسے :mad: :angry:
اب البتہ تھوڑا ہوش سے کام لیتے ہیں۔ اور غصہ میں بولنے کے بجائے خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ :)

یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ آپ نے ایک بات کی اہمیت کو سمجھا اور اُس کا سدِ باب کرنے میں بھی کامیاب ہو گئیں۔

ماشاءاللہ۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
چوھدری صاحب کی ریسرچ اور بارہ منٹ کے دورانیے کی تحقیق کا ذریعہ کیا ہے ؟ کیا کسی اور شخص یا ادارے نے اس دعوے کی صحت پرکھنے کی کوشش کی ؟؟
 

زیک

مسافر
چوھدری صاحب کی ریسرچ اور بارہ منٹ کے دورانیے کی تحقیق کا ذریعہ کیا ہے ؟ کیا کسی اور شخص یا ادارے نے اس دعوے کی صحت پرکھنے کی کوشش کی ؟؟
انہیں ۱۲ منٹ لگتے ہوں گے کچھ کو دو منٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور کچھ ساری عمر لگا دیتے ہیں غصہ تھوکنے میں
 
وقت تو کبھی نوٹ نہیں کیا۔ البتہ غصہ کی حالت میں کچھ دیر کی خاموشی سے کیفیت میں بہتری ضرور آ جاتی ہے۔ اور اگر دھیان بھی کسی اور کام میں بٹ جائے تو زیادہ بہتری آ جاتی ہے۔
 

زیک

مسافر
وقت تو کبھی نوٹ نہیں کیا۔ البتہ غصہ کی حالت میں کچھ دیر کی خاموشی سے کیفیت میں بہتری ضرور آ جاتی ہے۔ اور اگر دھیان بھی کسی اور کام میں بٹ جائے تو زیادہ بہتری آ جاتی ہے۔
اگلی بار سٹاپ واچ کا استعمال کریں اور نتائج سے آگاہ کریں
 

یاز

محفلین
وقت تو کبھی نوٹ نہیں کیا۔ البتہ غصہ کی حالت میں کچھ دیر کی خاموشی سے کیفیت میں بہتری ضرور آ جاتی ہے۔ اور اگر دھیان بھی کسی اور کام میں بٹ جائے تو زیادہ بہتری آ جاتی ہے۔
بالکل جناب۔ یہ تو آزمودہ بات ہے۔ غصے کی حالت میں کچھ دیر زبان پہ قابو رکھا جائے تو بہت سے مسائل پیدا ہونے سے بچت ہو جاتی ہے۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
انہیں ۱۲ منٹ لگتے ہوں گے کچھ کو دو منٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور کچھ ساری عمر لگا دیتے ہیں غصہ تھوکنے میں
میں نے تحقیق کی کوشش کی کہیں بھی کسی بھی سائنٹیفک سائٹ پر کوئی خاص دورانیہ نہیں لکھا بس یہی ہے کہ غصے کی حالت میں دس تک گنو ۔ایک سائٹ پر یہ سب سے بہتر وضاحت پڑھی

Human brain processes anger in the same way it processes anxiety and happiness.

In the brain’s medial temporal lobe, the amygdala is the integrative center for emotions, emotional behavior, and motivation. It responds to outside stimuli(the stuff that makes u angry),which prepares us for physical action.

During this process, hormones epinephrine and norepinephrine(they are the flight/fight hormones that are released when the body is under extreme stress)are released, increasing our blood pressure.

This causes the blood to rush to our extremities like the face.

Blood flow also rushes to the prefrontal cortex(the part of the brain that’s over the left eye). This area controls our judgement and helps us suppress anger.

All this neurological process would'nt last more than 2 seconds, that's the reason why we are advised to count till 10 when we experience anger.
چوھدری صاحب کو کالم نگاری کی بجائے ڈرامہ لکھنا چاہیے فکشن اچھا لکھ لیتے ہیں حقائق کی بجائے اس پر ہماری معصوم قوم بس داڑھی والے صاحب اور جائے نماز ڈال دو تو سب ماننے کو تیار ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
کالم نگار نے ایک منفی رویے کو قابو کرنے کے کچھ گُر بتائے ہیں۔ اور باقی وہی زیبِ داستاں جو کہ ان صاحب کا انداز ہے۔ تاہم اس میں کہیں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ کالم میں مذکورہ شخص نے سائنسدان ہونے کا دعویٰ کیا ہو یا اُس نے اپنی بارہ منٹ کی تھیوری کو پیٹینٹ کروایا ہو۔ مثبت اندازِ فکر والے لوگوں کا کام تو یہ ہے کہ تحریر میں سے کام کی بات کو گرہ سے باندھ لیا جائے اور باقی اگر آپ کو اپیل نہیں کرتا تو اُسے نظر انداز کر دیا جائے۔

غصہ پر قابو پانے کے لئے جہاں اور بہت سی ٹپس ملا کرتی ہیں اُن میں سے ایک یہ بھی ہے۔ فرض کیجے کہ اگر کوئی شخص جاوید چوہدری کی اس تحریر کو پڑھ کر اور اُس سے سیکھ کر کسی معاملے میں اپنے غصے کو قابو کر سکے اور کسی مالی یا جذباتی نقصان سے بچ سکے تو یہ ایک اچھی بات ہو گی ۔ اور بالفرض بارہ منٹ کی تھیوری غیر سائنسی بھی ہو تب بھی نتائج کے اعتبار سے وہ شخص فائدے میں ہی رہے گا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ہم نے نوٹ کیا ہے کہ کچھ لوگوں کو داڑھی اور نماز کے ذکر سے اختلاجِ قلب ہونے لگتا ہے۔ خیر یہ اُن کا اپنا معاملہ ہے ۔ لیکن ہمارا مشورہ یہ ہے کہ اگر اُن کو غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے بارہ منٹ ناکافی رہتے ہیں تو وہ 120 منٹ لے لیا کریں۔ :)
 

جاسمن

لائبریرین
جاوید صاحب کے انداز تحریر کے بارے میں دو رائے ہو سکتی ہیں لیکن انھوں نے ہمیں غصہ قابو کرنے کی ٹپ بہت اچھی دی ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
مجھے اس تحریر میں غصہ کی حالت میں نماز پڑھنے کی ترغیب ملی ہے۔
اور میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ خاموشی اور نماز یا اللہ کا ذکر خاص طور پہ تعوذ بہترین ہے جیسا کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا ہے ہمیں۔
کسی کے بڑے سے بڑے برے فعل پہ بھی فوری ردعمل نہیں دینا چاہیے۔
 
Top