ذکر کچھ بمبئیا فلم کے ایک گانے کا ہو جائے جو چار پانچ دن سے ذہن پر چھایا ہوا ہے۔
فلم تھی باؤرے نین، اور اس کا گیت
تیری دنیا میں دل لگتا نہیں
مجھ کو اے مالک اٹھا لے
میں طالب علمی کے زمانے میں بہت گاتا تھا کہ اسے بھی مکیش نے سہگل کی طرز پر گایا تھا، بلکہ میں سہگل کا ہی سمجھتا تھا۔ اور اب پچاس ساٹھ سال بعد غور کیا تو یہ بہترین شعریت کی حامل غزل قرار پائی جس میں عروضی تجربہ بھی تھا۔ اس زمانے میں تو محض گانا سمجھ کر گاتا تھا محفلوں میں فرمائشی طور پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبانِ زد خاص و عام یہ نغمہ بھی کچھ اِسی علت سے دوچار دکھائی دیتا ہے ، منجھے ہوئےفلمی شاعرساحر لدھیانوی اِس گیت کے خالق، کہنہ مشق میوزک ڈائریکٹر ایس ڈی برمن اِس نغمے کے موسیقاراور خود بھی اعلی ٰ درجہ کے موسیقار ہیمنت کمار اِس گانے کے گلوکار ہیں ۔ شعری اصناف میں اِس ترانے کی حیثیت غزل کی ہئیت سے ہے ارکان اِس کے مفاعیلن(چاربار) اور بول ہیں:​
تری دنیا میں جینے سے تو بہتر ہے کہ مرجائیں
وہی آنسو، وہی آہیں ، وہی غم ہیں جِدھر جائیں​
 
آخری تدوین:
شہزادے !
بولنے میں فرق صاف ظاہر ہے کہ مے ری میں ی کا کھینچنا اور مِری میں زیر یعنی ی کا اختصار خود کہہ دیتا ہے کہ مری اور میری ،تری اور تیری میں یہ فرق ہے۔۔۔۔۔
 

عظیم

محفلین
مٹھائی ہمیں صرف قصر شیریں کی پسند ہے
نام کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ قصر شیریں کی جگہ قدرت شیریں ایک مٹھائی کی دوکان ہے ہمارے گھر کے پاس، اتفاق سے جو مہمان بھی آتا ہے وہ وہیں سے مٹھائی لیتے ہوئے آتا ہے، اور مٹھائی ایسی ہوتی ہے کہ کھائی نہیں جاتی، یعنی ضائع ہی جانے والا معاملہ بن جاتا ہے
 
تیری دنیا میں دل لگتا نہیں
مجھ کو اے مالک اٹھا لے
میں طالب علمی کے زمانے میں بہت گاتا تھا کہ اسے بھی مکیش نے سہگل کی طرز پر گایا تھا، بلکہ میں سہگل کا ہی سمجھتا تھا۔
ہائےمکیش پر اور مکیش سے زیادہ سننے والوں کی سماعتوں پر سہگل ہی چھائے تھے ۔چنانچہ مکیش نے سامعین کی تمنا پوری کی مگر اِس گیت میں مکیش رفتہ رفتہ اپنے رنگ کی طرف آتے محسوس کیے جارہے ہیں اور یہ رنگ حبیب ولی محمد سے ہوتا اُس مکیش پر ٹھہرے گا جو اواخرِ عمرتک اُن کا طر ّۂ امتیاز ، نشانِ عظمت اور وجہ افتخار رہا۔ جانے کہاں گئے وہ دن کہتے تھے تیری یاد میں کہتے تھے تیری یاد میں کہتے تھے تیری یا د میں۔۔۔۔۔پلکوں کو ہم بچھائیں گے​
 
Top