ضابطے میں لانے کے لیےتدوین کے مقررہ وقت کا فائدہ ضرور اُٹھانا چاہیے مگر جملے کی خوبصورتی ، اثر ، معنویت،شعریت،ندرت ،نفاست ، اور نزاکت میں فرق نہ آئے ہاں اگر جملہ پہلے سے ہی اِن چیزوں سے محروم ہے یا ترمیم و تدوین کا چانس نہیں رہا تو پھر صبر بالجبر کرلینا بہتر ہے یہی کرتا میں بھی اگر وجی بھیا کے ٹوکنے پر تدوین کا وقت تمام شُد ہوچکا ہوتا ۔۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
عنایت ہے آپکی سلامت رہیےآمین

اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض‌ ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے۔

ا۔ب۔پ ۔۔۔۔۔ کھیل نمبر 62​

 
فی الحال تو یہ بتائیں کہ علماے سیاسیات کیا فرماتے ہیں اِ س ذیل میں کہ کون بنے گا ملک کا مقتدرِ اعلیٰ اور چلائے گا کس طورمعاملات کو اور مہمیز کرے گا کیونکر ترقی کی رفتارکو اور ثمرات کب تک پہنچیں گےاِس کے عامتہ الناس کواور کہاں کہاں سے سمیٹے گا داد و تحسین کے ڈونگرے وہ اُن اقدامات پر جن کی بدولت پاکستان دنیا کا ترقی یافتہ ملک ہوجائے گااور دنیا عش عش کراُٹھے گی اُس خردمند کے فہم و ادراک پر اور ارمان ہوگا سب کوکہ اُنھیں بھی ایسے ہی حکمران ملیں جو ہموار کردیں اُن کی بھی تقدیر کے کوہان کو۔۔۔۔۔
 
یہاں شعرلکھ کر اُس کے مصرعے برابرکرنے کا تجربہ کرتے ہیں:​
یہ دل کی لگی کم کیا ہوگی ۔۔،۔یہ عشق بھلا کم کیا ہوگا
جب رات ہے ایسی متوالی پھر صبح کا عالم کیا ہوگا​
یہاں مشق میں خود کو پختہ کرنے کے لیے یہ عمل دہراتےہیں: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نغموں سے برستی ہے مستی چھلکے ہیں خوشی کے پیمانے
آج ایسی بہاریں آئی ہیں کل جن کے بنیں گے افسانے​
۔۔۔ی
 
یہاں ہم خانوں /باکسز / ڈبو ں کا نظروں سے اوجھل ہوجانا دیکھیں گے:
مولوی عبدالحق نے کہاتھا:’’جب میں اُردُو بھولنے لگتا ہوں تو باغ و بہار پڑھ لیتا ہوں۔‘‘ واقعی ’’باغ و بہار‘‘میں دہلی کی تہذیب،عوامی بولیاں اور شاہی زبان، ان کے زیر ِ استعمال چیزوں کے نام، رسموں اور ریتوں کے نام سب ایک جگہ یوں مل جاتے ہیں کہ فہرست بنالیں۔​


۔۔۔۔جبکہ ’’فسانہ ٔ عجائب ‘‘میں لکھنو کی مصنوعی تہذیب اور اِس کا بناوٹی کلچرہر ہر سطر سے عیاں ہے اور پکار کر کہہ رہا ہے کہ اگر زندگی اِس قدر تکلف سے گزرے تو سزاہوجائے یعنی ادب اور تمیز اپنی جگہ یہاں تو بات بعد میں ہے انداز پہلے ۔۔​
 
آخری تدوین:
Top