ایک ہی شخص کے چار مختلف خطوط

پہلا خط امی ابو کے نام
20 جون1981 برورز ہفتہ
السلام و علیکم امی و ابو جان۔
میں بخیریت لندن پہنچ گیا ہوں ۔ میرا دوست مجھے لینے ائرپورٹ آیا تھا ۔ میں سیدھا وہاں سے اس کے گھر پہنچا ہوں۔ لندن پہنچتے ہی ایک اجنبیت کا احساس ہوا ۔ مختصر لباس میں خواتین ادھر ادھر گھوم رہی تھیں ۔ مسلسل اپنی آنکھیں نیچیں رکھنی پڑیں – گھر پہنچتے ہی دوست نے سینڈوچ اور کافی کا کہا لیکن میں نے اس س
ے کہ دیا کہ جو کچھ بھی ہوگا مل کر کریں گے اور عصر کی نماز کے بعد کیونکہ وقت بہت کم رہ گیا تھا عصر کی نماز قضا ہو جانے کا احتمال تھا ۔ لہٰذا پہلے عصر کی نماز ادا کی پھر سینڈوچ اور کافی سے لطف اٹھایا۔ اس کے فوراً بعد میں آپ کو خط لکھنے بیٹھ گیا۔ دوست کہنے لگا کہ ایسی بھی کیا جلدی ہے کل لکھ لینا ۔ اور کونسا یہ خط کل ہی پوسٹ ہو جائے گا کل اتوار ہے اور پوسٹ آفس بند ہے ۔ لیکن جن کے دلوں میں ماں باپ کی محبت ہو ان سے صبر کہاں ہو سکتا ہے ۔
آپ دعا کریں کہ جو میں اپنی کمپنی کے لیدر کی پراڈکٹ لے کر آیا ہوں اس کی صحیح طرح مارکیٹنگ ہو جائے ۔ آپ لوگوں کی دعاوں کے نتیجے میں ہی تو میں یہاں تک پہنچا ہوں ورنہ میں اس قابل کہاں ۔ دوست کا گھر مناسب ہے اور لگتا ہے کہ ایک مہینے کے قیام میں دشواری نہیں ہوگی۔مغرب کا وقت ہوا چاہتا ہے دیگر مصروفیا ت سے اگلے خط میں آگاہ کروں گا۔
آپ کی دعاوں کا طلب گار آپ کا فرماں بردار سلیم

دوسرا خط بیوی کے نام
21 جون 1981 بروز اتوار
کہتے ہیں کہ ہر مرد کی کامیابی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ۔ کیا وہ ہاتھ شریک حیات کا ہو سکتا ہے ؟ ارے بھئی کیوں نہیں ؟ میری کامیابی کے پیچھے میری شریک حیات کا ہی تو ہاتھ ہے ۔ ہماری شادی کو 5 سال ہو گئے اور یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے اتنے لمبے عرصے کے لیئے علیحدہ ہوئے ہیں ۔ میں تو کل یہاں آنے کے بعد تمھارے ہی متعلق سوچتا رہا ۔ کمپنی کی پراڈکٹ کی تفصیل کو ایک مرتبہ پھر سے دیکھنا تھا لیکن کیا کروں کسی کام میں دل ہی نہیں لگ رہا ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمھارے قدموں آہٹ مجھے ابھی سنائی دے گی اور تمہاری سریلی آواز میرے کانوں سے گزر کے میرے دماغ کو ترو تازہ کر دے گی ۔ لیکن یہ سب دھوکا ہے ۔ میں کل سے اپنے آپ کو سمجھا رہا ہوں اور اپنے آپ پر قابو پانے کی بھر پور کوشش کر رہا ہوں کہ صرف ایک مہینے کی تو بات ہے ۔ لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک مہینہ نہیں ایک صدی ہے ۔ کس طرح گزرے گی یہ صدی معلوم نہیں۔ کبھی کبھی تو مجھے اپنے ہی نصیب پر رشک ہوتا ہے کہ تم میری شریک حیات ہو ۔ محبت کو حقیقت میں ایک مشرقی عورت ہی سمجھ سکتی ہے ۔ جلد ہی پاکستان آجاوں گا اور ہم پھر سے ایک ہو جائیں گے ۔ خیر کل کام کا پہلا دن ہے ۔ اور رات بھی کافی ہو گئی ہے ۔ تمہاری یاد میں ٹھیک سے سو تو نہیں سکوں گا ۔ لیکن بستر پر جانا ضروری ہے ۔ اپنا اور دونوں بچوں کا خیال رکھنا ۔ باقی حالات سے بعد میں آگاہ کروں گا تمہارا ہمسفر سلیم

تیسرا خط باس کے نام
22 جون 1981 بروز پیر
ڈیئیر سر ۔ میں بخیریت لندن پہنچ گیا ہوں ۔ اور آتے ہی میں نے کمپنی کی پراڈکٹ کی تفصیل کا ہر زاویے سے کئی مرتبہ جائزہ لیا
آج کام کا پہلا دن تھا اور آج ہی جس کمپنی سے ملاقات ہوئی اس نے ہماری لیدر پراڈکٹ میں کافی دلچسپی لی ۔ مجھے یقین ہے کہ میں اپنی کمپنی کی پراڈکٹ کو یہاں پر قائم مختلف کمپنیوں میں اچھے انداز میں متعرف کروانے میں کامیاب ہو جاوں گا ۔اور ہمیں خوب آرڈر ملیں گے ۔ اور اس کامیابی کا سہرا آپ کے سر ہو گا ۔ اس کی وجہ یہ کہ میں تو کچھ بھی نہیں تھا آپ ہی نے میرے ٹیلینٹ کو چمکایا جس کی وجہ سے میں یہاں تک پہنچا اور مجھے امید ہے کہ آپ کی سر پرستی میں اس کمپنی کو میں چار چاند لگانے میں کامیاب ہو جاوں گا ۔ آپ نے جو مجھے کھانے ، ٹرانسپورٹ اور دیگر ضروریات کے لیئے پیسے دیئے تھے وہ میرے لیئے کافی ہیں – شاید مزید پیسوں کی ضرورت نہ پڑے اور یہ بھی ممکن ہے کہ میں اس میں سے پیسے بچا لوں۔ مزید باتیں تفصیل سے اگلے ہفتے لکھوں گا ۔ آپ کا خیر خواہ سلیم

چوتھا خط دوست کے نام
25 جون 1981 بروز جمعرات
یار جاوید میں لندن خیریت سے پہنچ گیا ہوں ۔ اور کچھ کام کی مصروفیت کی وجہ سے تجھے پہلے خط نہیں لکھ سکا ۔ یار یہاں کی دنیا ہی نرالی ہے ائیرپورٹ سے اپنے دوست کے گھر جاتے جاتے یوں محسوس ہوا کہ میں کسی پرستان میں آگیا ہوں ۔ جہاں نظر اٹھاو پریاں نظر آتی تھیں – یہاں اپنے بچپن کے دوست کے ساتھ رہ رہا ہوں ۔ میری کمپنی کے باس نے یہاں آنے کے لیئے میرا انتخاب اسی لیئے کیا تھا کہ ایک تو وہ جانتا ہے کہ میں مارکیٹنگ بہت اچھی کرتا ہوں ۔تجھے تو میرے اس ہنر کا بچپن سے اندازہ ہے۔ یہ میرا قدرتی ٹیلنٹ ہے ۔اور میرے باس نے بھی بہت سی چیزیں مجھ سے سیکھی ہیں اور دوسرے یہ کہ اسے معلوم تھا کہ میرا ایک دوست لندن میں رہتا ہے اور اس کے پاس میرے قیام کرنے سے اس کے ہوٹل کا خرچہ بچ جائے گا ۔ گنجا ایک نمبر کا کنجوس ہے ۔
ہاں تو میں تجھ سے ذکر کر رہا تھا اپنے لندن والے دوست کا تو یار جس دن میں لندن پہنچا اس روز ہفتہ تھا اور اگلے دن سب کاروبار بند تھا ۔ میرے دوست نے مجھے نائیٹ کلب چلنے کی آفر کر دی ۔ میں نے پہلے کبھی نائیٹ کلب نہیں دیکھا تھا اس لیئے میں نے وہاں جانے کی حامی بھر لی ۔ ہر طرف پرفیوم کی خوش بو پھیلی ہوئی تھی ایک زبر دست ماحول تھا ۔ وہاں میرے دوست کی گرل فرینڈ بھی آئی ہوئی تھی اس نے میری دوستی ٹیریسی نامی عورت سے کروادی ۔ ۔ ٹریسی سے ملاقات نہایت شاندار رہی مجبوری میں سوشل ہونے کے لیئے مجھے دو پیگ بھی لگانے پڑ گئے ۔ عمر تو اس کی 40 سال سے کچھ نکلتی ہوئی ہے لیکن دیکھنے میں 25 کی لگتی ہے ۔ اس نے اپنے آپ کو بہت فٹ رکھا ہوا ہے ۔ ہماری عورتیں تو گائے ہوتی ہیں بلکہ یہ کہوں گا کہ بھینسیں ہوتی ہیں ایک دو بچوں کی ماں بنیں اور پوری کی پوری بے ڈول نظر آنے لگیں ۔ آفس سے گھر پنہچو تو ہر وقت سر پر منڈلاتی رہتی ہیں ۔ اگر سچ بول دو تو منہ سے آگ برسانے لگتی ہیں اور جھوٹی تعریفیں کرو تو خوش۔ یہاں اکر بھی ایسا محسوس ہوتا ہے بیوی فٹبال کی طرح لڑھکتی ہوئی آئے گی اور بول بول کے کان کے پردے پھاڑتی ہوئی دماغ کی چولہیں ہلادے گی۔ لیکن شکر ایسا نہیں ہوتا۔ یار کبھی کبھی تو اپنے نصیب پر رونا آتا ہے لیکن انسان نصیب کے آگے کچھ نہیں کر سکتا ۔ محبت کیا چیز ہوتی ہے یہ سمجھنا مشرقی عورت کے بس کی بات نہیں- اس ویک اینڈ پر میری ٹریسی سے دوبارہ ملاقات ہے ۔ اس کے بعد صرف 3 ہفتے رہ جائیں گے اور یوں لگتا ہے کہ یہ تین ہفتے تین دن میں گزر جائیں گے ۔ پھر وہی پاکستان اور خواری ۔ ابھی شدید نیند آرہی ہے ۔ وقت ملنے پر دوسرا خط لکھوں گا۔ تیرا دوست سلیم۔
 

شمشاد

لائبریرین
اور جو دوست کا خط باس کو اور باس کا خط بیوی کو اور بیوی کا خط دوست کو چلا جاتا تو کیا ہوتا؟
 
Top